~آخری وصیت ~خرم مراد ~ } بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ{ حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی مسلمان پر دو راتیں ایسی نہ گزرنا چاہئیں کہ اس کے پاس وصیت کے قابل اشیاء اور امور کےبارے میں لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو ~ } بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ{ ~پیش لفظ }يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ{ جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد بجز اِس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔‘‘ الشعراء ۸۸،۸۹ اللہ تعالٰی کا یہ احسان عظیم ہے کہ وہ اپنے بندوں تک اپنی آیات پہنچانے کے لیے، کتاب و حکمت کی تعلیم کے لیے، اور ان کے تزکیہ کے لیے ایسی ہستیاں مامور کرتا ہے کہ جو اپنے زماں و مکاں میں نورعلی نور کا پرتو بن کر دلوں کو ایمان کی زینت سے آراستہ کرتی ہیں اور کفر و فسق و عصیان سے نفرت دلاتی ہیں۔ خرم مراد پر یہ اللہ کا بیش بہا انعام تھا کہ وہ اپنی تحریر و تقریر ، دروس و مواعظ، تزکیہ و تلقین اور گفتگو و مباحث کے ذریعے حق کی گواہی دیتے، زندگیوں کو بندگئی رب کے مطابق ڈھالتے اور دلوں کو پاکیزہ بناتے۔ ان سے مستفید ہونے والے ان گنت افراد اس کرہ ارض پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنی خاندان کی تربیت سے اپنی زندگی میں غافل رہے نہ موت سے۔ اپنے آپ کو اور گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے انہوں نے ایسا ماحول ترتیب دیا کہ نیکیاں فروغ پاتی تھیں اور برائیاں مرجھا جاتی تھیں۔ جب ہمیں کوئی نیک کام کرتے دیکھا تو بے تحاشا خوش ہوتے کہ جیسے انہیں کوئی انعام مل رہا ہو۔ اگر کبھی غفلت میں مبتلا دیکھا تو سمجھایا، تنبیہ کی، اور گرنے سے بچایا۔ ہماری زندگیوں میں اپنی موت سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے، انہوں نے بیماری کے باوجود، سنت سلف پر عمل کرتے ہوئے، یہ وصیت تحریر کی۔ ان کے پیچھے رہنے والوں میں صرف ہم لوگ ہی نہیں ہیں، بلکہ وہ تمام افراد بھی ہیں، جن سے انہوں نے اللہ کی خاطر محبت کی اور جن کو وہ جنت کا راستہ دکھاتے رہے۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ اس وسیع خاندان تک اس وصیت کو پہنچایا جائے تاکہ ہم سب کے نیک اعمال ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں اور نیکیوں کے یہ تحائف ان کو قیامت تک ملتے رہیں۔ آپ جب اس کو پڑھیں گے تو اس کی حلاوت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس پر مشک کی مہر لگی ہوئی ہے، مزاج میں تسنیم کی طرح ہے، اور ان چیزوں میں سے ہے کہ جس کے لیے سبقت لے جانے والے سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔ ║اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ خرم مراد کی مغفرت کرے، اور ہمیں بھی ایمان کی وہ قوت دے تاکہ ہمیں بھی ان کے حوالے سے ان کے درجے تک پہنچنے کی سعادت مل جائے۔ آمین اعزہ و اقارب لمعت النور مراد احمد، حسن، فاروق، فرح، اویس، فائزہ ھما، نوشابہ، سیما، بلال، مریم فاطمہ، آمنہ ، سارہ مریم، ابراھیم صفا، اسماعیل حمیرہ، زینب، کلثوم، زھرا، عائشہ، مونا   ║~}بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ{ ~وصیت کی اہمیت حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی مسلمان پر دو راتیں ایسی نہ گزرنا چاہئیں کہ اس کے پاس وصیت کے قابل اشیاء اور امور کےبارے میں لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو ( او کما قال علیہ الصلوۃ والسلام) میں یہ وصیت اسی ارشاد کی تعمیل میں لکھ رہا ہوں۔ موت سے کسی کو مفر نہیں ۔ یہ کسی وقت بھی آسکتی ہے، کہیں بھی آسکتی ہے، اچانک بھی آسکتی ہے، اس طرح بھی آسکتی ہے کہ کوئی پاس نہ ہو، پاس ہوں تو اہل و عیال نہ ہوں، ہوں بھی تو ان سے کچھ کہنے کا موقع نہ ملے، اور کسی کے بارے میں وصیت کرنے کی نوبت نہ آئے۔}اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ Ć {(حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا۔ کاش کا تمہیں اس کا علم ہو) اور }فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ تَوْصِيَةً وَّلَآ اِلٰٓى اَهْلِهِمْ يَرْجِعُوْنَ 50 یس۔ {(اور اس وقت یہ وصیت تک نہ کرسکیں گے، نہ اپنے گھروں کو پلٹ سکیں گے۔) موت آتی ہے تو دنیا کی ہر چیز سے ہر قسم کے روابط اور تعلقات بالکل منقطع ہوجاتے ہیں، کسی چیز پر کوئی قدرت باقی نہیں رہتی، ہر قسم کے معنوی اور مادی اسباب و وسائل چھوٹ جاتے ہیں، کسی چیز کے بارے میں کسی تصرف کا اختیار نہیں رہتا۔ وصیت ہروقت تیار رکھنے کی ہدایت اس لیے ہے کہ تمام امور و معاملات بہ حسن و خوبی سلجھ سکیں، حقوق اور دیون کی ادائی کا بندوبست ہوسکے، امانتیں ادا ہوسکیں، اور حتی الامکان وہ چیزیں انجام پاسکیں جو انسان چاہتا ہے۔ وصیت ہر وقت تیار رکھنا اس بات کی مسلسل یاددہانی کے لیے بھی مفید ہے کہ ایک دن سے زیادہ ، آج کے دن کے بعد، زندگی کا کوئی اعتبار نہیں کہ وہ رہے گی یا نہیں۔ اس یاد دہانی سے وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ جس کی تعلیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دی ہے : صبح ہو تو شام کی امید نہ رکھو۔ شام ہو تو صبح کی امید نہ رکھو۔ دنیا میں ایک مسافر یا راہ گیر کی طرح رہو۔ لیکن افسوس کہ سب جانتے اور بوجھتے بھی، سستی اور ٹال مٹول ایسی غالب رہی کہ صبح ہوتی رہی اور شام ہوتی رہی، مگر وصیت لکھنے کی نوبت آرہی ہے تو آج۔۔۔۔ آج جب کہ عمر کی ۶٣ منزلیں گزر چکی ہیں، اور موت، جو کبھی بھی کچھ دور نہ تھی، مسلسل قریب آتی رہی ہے، اور اب تو بہت ہی قریب آگئی ہے۔ یہ افسوس اور ندامت اس لیے کہ میرا معاملہ ہر عام آدمی کی طرح کامعاملہ نہیں، جسے وصیت تیار رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔پہلے ہارٹ اٹیک کے جو نومبر ۱۹۶۶ میں ہوا اور سب سے سخت اٹیک تھا، اللہ تعالٰی نے مجھے اب ٣۰ سال کی بونس عمر دی ہے، مہلت دی ہے۔ اس طویل مدت میں، میں ایک عام آدمی کی سے کہیں زیادہ مسلسل روز بڑھتے ہوئے موت کے خطرے کی زد میں رہا ہوں۔ اس مدت میں مزید چار ہارٹ اٹیک ہوئی، تین دفعہ ایمبولینس میں انتہائی نگہداشت میں گیا جس سے واپسی کا امکان کم ہی ہوتا ہے، بیس سال سے انجائنا ہے ، چار دفعہ اینجیو گرافی ہوچکی ہے، دو دفعہ بائی پاس سرجری ہوچکی ہے، صرف بائی پاس نہیں، بلکہ والو کی وجہ سے اوپن ہارٹ سرجری ہوئی، ایک والو پلاسٹک کا ہے۔ ۱۹۹۱ کے ہارٹ اٹیک کے بعد انجائنا برابر بڑھ ہی رہا ہے، اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تیسری سرجری کی بارے میں سنجیدگی سے غور ہورہا ہے۔ دو ہفتے لاہور میں قلب کے وارڈ میں گزار کر اب انگلینڈ میں ہوں۔ ۸ فروری کو پھر اینجیوگرافی پیش نظر ہے تاکہ آئندہ کا لائحۂ عمل طے کیا جاسکے۔۔۔۔جو تقریباً یقینی ہے کہ آپریشن ہی ہوگا۔ الا ماشاءاللہ۔ میں بظاہر مذاق میں کہتا رہا ہوں کہ اگر مجھے کچھ ہوجائے اور میری میڈیکل ہسٹری چھپے ، تو لوگوں کو تعجب اس پر نہیں ہوگا کہ یہ کیوں مرگیا، بلکہ ہوگا تو اس پر ہوگا کہ یہ اب تک زندہ کیسے رہا۔۔۔۔۔لیکن اس سب کہ ║باوجود بھی وصیت نہ لکھی جاسکی، یہ غفلت کچھ وصیت کے معاملے ہی میں نہیں ہے۔ ساری بدعملیوں اور محرومیوں کا حال یہ ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ہوتی رہی ہیں، انہی کوتاہیوں کی نذر عمر کا بیش بہا سرمایہ وقف ہوگیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سستی اور ٹال مٹول کی اس طویل مدت کے دوران میں،موت سے بالکل غافل ، یا وصیت لکھنے کی فکر سے خالی رہا ہوں۔ موت کو یاد رکھنے کی کوشش بہت عرصے سے رہی ہے۔خاص کر ۱۹۸۲ ء کے بعد اور ہی زیادہ۔ گزشتہ ۵ سالوں میں وقتاً فوقتاً یہ مراقبہ بھی کرتا رہا ہوں کہ ایک سانس آئی، پتا نہیں دوسری آئے گی یا نہیں، اور آئے گی بھی تو اللہ کے اذن سے۔ ایک دفعہ دل دھڑکا، دوسری دفعہ دھڑکے گا یا نہیں، اور دھڑکے گا تو اللہ کے حکم سے۔ رات کو سوتے ہوئے موت کو یاد کرکے ہی، بھول نہ جاؤں تو یہ کہتا ہوں کہ }ان امسکتھا فارحمھا { (اگر تو اس کو روک لے تو اس پر رحم فرما)۔ ۱۹۸۲ء کے آپریشن سے پہلے تم سب کے نام ، دوسروں کے نام بھی ، خط لکھ لیے تھے اور وصیت بھی، نرس کے حوالے کردی تھی۔ گزشتہ ایک سال سے تو مسلسل فکر لگی رہی ہے۔لیکن بس لکھنے کے دوسرے کام اتنا وقت لیتے رہے کہ نوبت نہ آئی۔ لاہور کے ہسپتال میں تو لکھنا شروع کردی تھی ، لیکن پھر سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اب یہاں فاروق کے گھر میں آج ۲۷ جنوری ۱۹۹۶ کو نئے سرے سے لکھنا شروع کررہا ہوں۔ "ترجمان القرآن" کا کام اب بھی سر پر ہے۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ اسے مکمل کرواہی دے۔ اس وصیت کے مخاطب لمعت، احمد، حسن، فاروق، فرح، اویش، فائزہ، ہما، نوشابہ، سیما، بلال، مریم اور ان سب کے بچے ہیں۔ ان کے ذریعے سے اس کا عمومی حصہ عام ہو تو میری طرف سے کوئی ممانعت نہیں، لیکن میری کوئی وصیت بھی نہیں کہ ایسا کیا جائے۔   ║عمومی توصیات مجھ سے جدائی پر تمہیں جو رنج و غم ہوگا، اس کا مجھے بخوبی اندازہ ہے۔جتنی محبت ہوتی ہے اور تعلق ہوتا ہے ، اتنا ہی جدائی پر رنج و غم زیادہ ہوتا ہے۔ تم کو مجھ سے جس قدر محبت ہے ، اس میں مجھے کوئی شبہ نہیں۔ اس لیے تمہیں جس قدر رنج و غم ہے ، اس میں بھی مجھے کوئی شبہ نہیں۔ اس بارے میں چند باتیں سامنے رکھو، اور ان پر عمل کرو، اللہ تعالٰی اس معاملے کو تمہارے لیے اور میرے لیے ابدی خیر و برکت کا ذریعہ بنادے گا۔ تمہیں اپنی کیفیات پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ 1۔ دل کا غم اللہ کی اس رحمت کی برکت ہے جو اس نے تمہارے دل میں رکھ دی ہے۔ دل کی رقت اور آنکھوں کے آنسو بھی اس کی رحمت کا فیضان ہیں۔ اس غم کو اور اس نمی کو اللہ کا عطیہ سمجھو۔ دل کی ایسی سختی کہ وہ حوادث پر پگھل کر نہ دے۔ اور آنکھوں کی ایسی خشکی کہ وہ بہہ کر نہ دیں۔ اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی کی علامت ہے۔ اس بات کو اچھی طرح یاد رکھنا، یہ مرہم کا کام بھی کرے گی، سہارے اور اجر کا باعث بھی بنے گی۔ 2۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بالکل ایسے ہی موقع کے لیے فرمایا، جب آپ خود ایسی ہی کیفیات سے دوچار تھے: بے شک ہم جدائی پر غمگین ہیں، آنکھیں غمناک ہیں، لیکن اللہ کےفیصلے پر راضی ہیں۔ حضور کے اس سہارے میں تسلی اور صبر کا سامان بھی پاؤگے، اور رنج و غم کی وہ حد بھی جہاں تم کو رک جانا چاہیے۔رنج و غم میں بھی حضور کے اتباع کی نیت ضرور رکھنا۔ آپ سے قربت نصیب ہوگی، جو خود تسلی اور سہارے کا بڑا سامان ہے۔ پھر اس غم و اندوہ کا اجر بھی ملے گا، اور اللہ کی محبت بھی نصیب ہوگی۔} فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ { اور یہ قیمتی ہدایا کچھ نہ کچھ مجھے بھی پہنچیں گے، ان شاء اللہ۔ 3۔ جو چیزیں اللہ کو پسند نہیں، اس کو ناراض کرتی ہیں، انہیں بھی یاد رکھنا، اور ان سے بچنا، یہ باتیں ایمان کے منافی ہیں۔۔۔۔ دل اور آنکھ تمہارے اختیار میں نہیں، ان کو روکنا اور تھامنا ضروری بھی نہیں،بلکہ یہ کیفیات اللہ کا عطیہ ہیں۔ لیکن زبان کو تھامنا ضروری ہے۔ اور یہ تمہارے اختیار میں ہے۔ کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکلے جو رضا بالقضا کے خلاف ہو۔ جزع و فزع نہ ہو۔ گلہ شکوہ نہ ہو، یاس و حسرت نہ ہو۔ یہی روش تمہاری طرف سے میرے لیے سب سے پہلا بیش قیمت ہدیہ ہوگا، جو ان کٹھن مقامات پر میرے بہت کام آئے گا، جن سے آنکھ بند ہوتے ہی مجھے دوچار ہونا پڑے گا۔ اور ان شاءاللہ ، تمہارے لیے بھی بے معنی اور لاحاصل کلمات کے مقابلے میں یہ طرز عمل زیادہ سے زیادہ اجر کا باعث ہوگا۔ 4۔ سب سے بڑھ کر اس بات کی نگہداشت کرنا زبان سے کوئی لفظ حسرت کا ہرگز نہ نکلے، نہ دل کسی حسرت میں مبتلا ہو۔ یہ تو ہر گز نہ کہنا، نہ سوچنا کہ "اگر ! کاش۔۔۔۔ ایسا ہوتا۔۔۔ ایسا نہ ہوتا۔۔۔۔۔ تو یہ نہ ہوتا"۔ حضور نے فرمایا ہے کہ " لو (کاش،اگر) شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتاہے"۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ یہ کافروں کا قول ہے۔ تم ان کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے کفر کیا، اور سفر یا لڑائی مرنے والے پیاروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ "اگر (نہ جاتے) ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے، نہ قتل کیے جاتے۔} لِيَجْعَلَ اللّٰهُ ذٰلِكَ حَسْرَةً فِيْ قُلُوْبِھِمْ{ (آل عمران: ۱۵۶) یہ باتیں تو اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں لا حاصل حسرت کی آگ بھڑکانے کے لیے ہیں۔ 5۔ یہ سوچ ، اور یہ گفتگو، صرف حسرت کی سوزش کا سامان اس لیے بھی ہے کہ جو کچھ ہونا تھا ، ہوچکا، وہ اب کسی صورت پلٹایا نہیں جاسکتا۔ اس لیے بھی ہے کہ جو کچھ ہونا تھا، وہ اسی طرح ، اسی وقت اور اسی مقام پر ہونا تھا، پہلے سے کوئی بھی تدبیر کرلی جاتی تو بھی اس سے مفر کی کوئی صورت نہ تھی۔ یہ دو باتیں اچھی طرح یاد رکھوگے تو رضا باقضا کی آدھی کیفیت تو حاصل ہوجائے گی۔ ║بار بار یاد کرنا، خود کو، سب کو یاد دلانا، کہ حکم، تدبیر اور تصریف صرف اللہ کے لیے ہے۔ اسباب جو نگاہوں سے نظر آتے ہیں، اس کی تدبیر کا ذریعہ ہیں۔ جواللہ کی معرفت سے تہی دامن ہے، اس کی نگاہ انہی اسباب میں اٹک جاتی ہے، یہی اسباب اس کے اور رب کے درمیان حجاب بن جاتے ہیں۔ ورنہ جو کچھ پیش آتا ہے، اللہ کے حکم سے پیش آتا ہے: }مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ {(التغابن:۱۱) (کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے) ۔ یہی دل کو سیدھا رکھنے کا نسخہ ہے:} وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ{ (التغابن:۱۱) (جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے)۔ جومصیبت پڑگئی، ٹل نہ سکتی تھی، جو نہیں پڑی ، وہ پڑ نہیں سکتی تھی۔ سارے جن و انس مل کر بھی کوئی نقصان روکنا چاہیں، کوئی نفع پہنچانا چاہیں، تو کچھ نہیں کرسکتے، }رفعت اقلام و جفّت الصّحف{ (قلم اٹھا لیے گئے اور کتابیں خشک ہوگئیں)۔ خاص طور پر موت۔ کوئی بھی اللہ کے حکم کے بغیر ، اس کی لکھی ہوئی مدت سے ایک لمحہ پہلے یا بعد نہیں مرسکتا۔موت کا وقت آجائے ، کوئی اسے ٹال نہیں سکتا۔ سبب کوئی بھی ہو۔ جہاں مرنا ہوگا، اور جس طرح مرنا ہوگا، اسی کی طرف کشاں کشاں لے جایا جائے گا۔ }لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۔{(آل عمران:۱۵٣) (جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے)۔ جب ہر چیز پہلے سے لکھی ہوئی ہے، تو کسی بھی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر یاس و حسرت کا شکار کیوں بنو۔} لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ۔{ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ، مقام ابراھیم کی دعا بھی ہے، اور تسلیم و رضا کے مقام ابراہیمی کے حصول کا بڑا موثر ذریعہ بھی۔ اگر اب تک نہیں مانگتے رہے ہو تو اب باقاعدگی سے مانگنا شروع کردو۔ بہت مفید پاؤگے۔ }اللھم انی اسئلک ایمانا یباشر قلبی ویقینا صادقا حتی اعلم اللہ لن یصیبنی الا ما کنت لی ورضا بما قسمت لی{ (اے اللہ میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں جو دل میں سرایت کرجائے، اور سچا یقین ، یہاں تک کہ میں یہ جان لوں کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی ، سوائے اس کے جو تو نے میرے لئے لکھ دی، اور راضی ہوجاؤں اس پر جو تو نے میری قسمت میں کردیا)۔ وہی پڑا جو اس نے لکھ دیا تھا۔ اس سے بڑھ کر ، یہ بھی یاد کرنا کہ جو کچھ اس نے لے لیا وہ اسی کا تھا، اس لیے کہ اسی کا دیا ہوا تھا۔ جو کچھ اس نے دیا تھا ، وہ عارضی مدت کے لیے دیا تھا۔ متاعاً الی حین : اسے بہرحال فنا ہوجانا تھا: }كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ { ۔ پھر اس پر حسرت و یاس کا کیا سوال، اور جزع و فزع کس لئے؟ بس یہ پڑھو کہ} لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى{ اور} إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔{ مجھ سے جدائی ہی کے معاملے میں نہیں، دنیا کی کسی بھی چیز، محبوب سے محبوب چیز ، سے جدائی، اس کے چھن جانے، اس کے نہ ملنے پر، اپنے دل، سوچ، زبان کو انھی تعلیمات کے ساتھ باندھے رکھنا۔ تم ان میں طمانیت اور سکینت کا ایک اتھاہ اور لازوال خزانہ پاؤگے۔ دنیا کے تمام غم زائل ہوجائیں گے، تمہاری جھولی طمانیت و سکون سے بھر جائے گی۔ اجر بھی بے حد و حساب پاؤگے۔ اس لیے کہ یہی صبر کی اصل ہے۔ اور} إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ{ (الزمر:10) (صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا)۔ 6۔ میں اپنے بارے میں رضا بالقضا اور حسرت و یاس سے اجتناب کی تم کو اس شدت کے ساتھ تاکید ، دو وجوہ سے کررہا ہوں: ║ایک اس لیے کہ سلسلہ اسباب و علل کے تحت بظاہر قوی امکان اسی بات کا ہے کہ میری موت دل کے عارضے کی وجہ سے واقع ہو۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ دل کی اتنی طویل بیماری کے باوجود اللہ نے کوئی دوسرا سبب لکھا ہوگا، تو وہی باعث ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ مہلت ملے، ہوسکتا ہے کہ نہ ملے۔ کسی شغل یا مصروفیت کے درمیان، یا اس کے فوراً بعد ایسا ہو۔ ایسی صورت میں سب کی نگاہ فوری سبب پر جاتی ہے۔ یہی کہا جاتا ہے کہ " یہ نہ کررہے ہوتے ، نہ کرتے ہوتے تو۔۔۔۔۔" نگاہ رب الاسباب پر نہیں جاتی۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ۔ میری تم کو نصیحت ہے کہ اپنی نگاہ ، طبعی سبب سے مکمل طور پر ہٹالو، فوری سبب ہو یا طویل بیماری اور میری مشغولیات کا سبب، اور صرف پردہ غیب کے پیچھے مستور، لیکن چشم دل و بصیرت کے سامنے عیاں، فاعل حقیقی کے اوپر جمالو۔ سبب اور بہانہ کوئی بھی بن سکتا تھا، حادثہ بھی ہوسکتا تھا، لیکن جو کچھ ہوا وہی ہونا تھا، اسی وقت ہونا تھا اور اسی طرح ہونا تھا۔ جو کچھ کیا اللہ نے کیا: } مَاشَاءَ اللہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَالَمْ یَکُنْ۔{ (جو اس نے چاہا ہوگیا اور جو نہیں چاہا نہیں ہوا)۔ میں تو عرصے سے روز صبح وہ دعائیں باقاعدگی سے پڑھتا ہوں، جن میں یہ کلمہ شامل ہے۔ تم بھی پڑھا کرو اور ہر فرض نماز کےبعد، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں، یہ دعا بھی: { لاإِلَهَ إلا الله وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ له له الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وهو على كل شَيْءٍ قَدِيرٌ اللهم لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ ولا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ ولا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ } (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ ایک ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، بادشاہی اس کے لیے ہے، تعریف اس کے لیے ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ، جو تو عطا کرے ، اسے روکنے والا کوئی نہیں، اور جو تو روکے، اسے عطا کرنے والا کوئی نہیں)۔ خاص طور پر آج کے اس مادی دور میں ۔۔۔۔ جب ہر بات کی تعبیر مادی اسباب ہی سے کی جاتی ہے۔۔۔۔ اس شرک خفی سے بچنے کا نسخہ یہی ہے کہ دل و نگاہ کا مرکز ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ کو بنائے رکھو۔ صبر کا بھی سب سے کارگر نسخہ یہی ہے۔ وما صبرک الا باللہ۔ دوسری وجہ ، جو زیادہ اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اس کا بھی بہت امکان ہے کہ فوری وجہ اللہ کے کسی کام میں مشغولیت ہو: تقریر کرتے ہوئے، کچھ لکھتے ہوئے، کسی اجتماع میں بیٹھے ہوئے، کسی سے ملاقات کرتے ہوئے، معمول کے مطابق یا غیر معمولی طور پر کسی مصروفیت اور مشغولیت کے دوران۔ اگر سبب اللہ کاکام ہو، فوری ہو یا مستقل، تو اس کام کو مورد الزام گرداننا، نہ صرف فاعل حقیقی سے نگاہ کو ہٹالینا ہوگا، بلکہ جو کام اس کو محبوب ہے، اس کی طرف سے دل میں تنگی اور زبان پر الزام دہی، اس کوناراض کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے، اب بھی عموماً جماعت، جماعت کے کاموں اور جماعت کے لوگوں پر الزام رکھ دیا جاتا ہے۔اب بھی تدابیر میں سرفہرست اسی کام کو کم کرنے کو رکھا جاتا ہے۔ آرام کے معنی اسی کام سے آرام کے ہوتے ہیں، اور دنیا کی دیگر بے شمار ذہنی مصروفیات اور ہجوم و افکار کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ مجھے یہ اب بھی ناگوار ہوتا ہے، اور ڈر لگتا ہے کہ اللہ کو بھی ناگوار نہ ہو۔ اس لیے اس موقع پر میں شدت سے یہ تاکید کروں گا کہ تمہاری طرف سے ایسی کوئی بات نہ کہی جائے، نہ سوچی جائے، دوسرے کہیں تو اس کی تردید کی جائے۔ ہاں، دل میں آجائے تو کوئی بات نہیں۔ اگر اللہ کی راہ میں کام کرتے ہوئے، کوئی کام فراق کا فوری سبب بنے تو اس پر اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے۔ میری تو اب دعا یہی ہے کہ اگر شہادت نصیب میں نہ ہوتو کم سے کم موت اس کا کام کرتے ہوئے آئے۔ شاید یہ آن ڈیوٹی (ON DUTY) موت بھی کسی درجہ میں شہادت میں شمار ہوجائے۔ قتل کے ساتھ الگ موت کے ذکر کے کچھ معنی تو ہیں: }وَلَئِن قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ{ (آل عمران:۱۵۷) ( اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہ کی رحمت اور بخشش تمہارے حصے میں آئے گی وہ ان ساری چیزوں سے زیادہ بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں)۔ ║مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اگر مجھے آپ تک تیس سال کی مہلت ملی ہے، اور اتنے ہارٹ اٹیک اور آپریشنوں کے باوجود ملی ہے، اور اتنی سہولت سے ملی ہے کہ دو آپریشن بالکل بلا کسی خرچ کے ہوگئے، اور اس طرح ملی ہے کہ میں ایک نارمل آدمی سے زیادہ ہی بھرپور کام کرتا رہا ہوں، تو اس کا سبب وہی برکت ہے جو اللہ کا کام کرنے سے حاصل ہوئی ہے، برا بھلا جیسا بھی کرتا رہا ہوں۔بلکہ سوچتا ہوں تو جتنا بھرپور نتیجہ خیز وقت ان تیس سالوں میں گزرا ہے، وہ اس سے پہلے نہیں ہوسکا۔بلکہ تحریر کا تو تقریباً سارا کام ۱۹۸۱ کے بعد ہوا ہے، جب لیسٹر (برطانیہ) میں دوسرا ہارٹ اٹیک ہوا اور اینجیوگرافی اور آپریشن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی جو مہلت ملے گیج وہ اسی لیے کہ میں اس کا کام کرتا رہوں۔ بلکہ مہلت کم ہو اور وہ کام میں گزرے، یہ مجھے زیادہ محبوب ہے اس کی بہ نسبت کہ مہلت زیادہ ہو اور سارا وقت احتیاط، آرام اور کچھ نہ کرسکنے میں گزرجائے۔ 7۔ صبر سے آگے تسلیم و رضا کا ایک مقام اور ہے، اور وہی اصل رضا بالقضاہے۔ اس پر بھی اپنی نگاہ جمانے کی کوشش کرو۔ وہ یہ کہ ہر مصیبت میں خیر دیکھو جو اللہ تعالٰی نے اس میں تمہارے لیے رکھ دیا ہے۔ اس لیے کہ وہ خیر محض ہے: وبیدہ الخیر ولہ الملک، ولہ الحمد، اور ہر تدبیر، تقدیر، قضا اسی کی طرف سے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تمہاری محدود نگاہ اس خیر کو فوراً نہ دیکھ سکے۔ ایک خیر تو یہ ہے کہ تم صبر کروگے، اللہ کا قرب اور معیت پاؤگے، دنیا اور آخرت کی اعلی ترین اور بیش بہا نعمتوں اور لذتوں سے لطف اندوز ہوگے۔ مصیبت نہ پڑتی تو یہ سب کچھ کیسے حاصل ہوتا! غور کرو تو نہ اس فانی دنیا کی بڑی سے بری نعمت، نعمت حقیقی ہے، نہ یہاں کی بڑی سے بڑی مصیبت حقیقی معنوں میں مصیبت ہے۔ ایک تو ہر ایک کو گزر جانا ہے۔ دوسرے جس نعمت پر اللہ کا شکر نہ ہو، وہ ایک مصیبت ہے، کہ جس دن }لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ{ کامنظر ہوگا، وہ بلائے جان بن جائے گی۔ اور جس مصیبت پر اللہ کے لیے صبر ہو، وہ ایک نعمت ہے، کہ اس کا بیش بہا اجر ہمیشہ کے لیے ہے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کا معاملہ بھی کیا خوب ہے ! نعمت ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور لازوال اجر پاتا ہے۔۔۔۔۔ مصیبت پڑتی ہے تو صبر کرتا ہے اور لازوال اجر پاتا ہے۔ تم دونوں حالتوں میں یہی اجر لوٹنے کی کوشش کرنا۔ اس کیفیت اور اجر میں سے جو نصیب ہوجائے اس پر خوشیاں منانا، جو ہاتھ سے نکل جائے اس پر غم منانا، نہ کہ دنیا کی فانی نعمتوں کے نہ ملنے یا مصیبتوں کے پڑنے سے۔ ہر مصیبت تمہارے لیے تزکیہ و تربیت کا سامان بھی ہے اور اگر تم اسے اللہ کی طرف سے دیکھنے لگو جو کان بالمؤمنین رحیما، تو ہر مصیبت اس کی عطا ہے، لقائے دوست کا سامان ہے، اس سے ملاقات اور قرب کا ذریعہ ، اور اس لیے جائے شکر بھی۔ 8۔ رضا بالقضا مجبوری کا معاملہ نہیں کہ جو ہونا تھا ، وہ ہوگیا۔ بلکہ اس پر رضامندی اور پسندیدگی کا معاملہ ہے، اور اس کے بدلے میں اجر کی توقع اور اس کی لذت کی خوشی کا معاملہ ہے۔ غم تو تعلق ٹوٹنے کا ہے، باہمی محبت کی لذت، قربت کی لذت، ساتھ بیٹھنے کی لذت، بات چیت کی لذت، ختم ہوجانے کا غم ہے۔ لیکن اس سے کوئی مفر نہیں کہ یہ ختم ہوجاتی، آج نہ ہوتی تو کل ہوتی۔ لیکن انہی لذتوں کا پکا وعدہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے صبر اور تقویٰ کرنے والوں سے۔ ایسی لذت جس کا تصور بھی تم نہیں کرسکتے:} فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ{ (السجدۃ: ۱۷) (پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزاء میں اُن کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے (17) اور ہمیشہ باقی رہنے والی۔} نَعِيْمٌ مُّقِيْمٌ ۔۔۔۔ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۔۔۔۔۔خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا۔{ دیکھو، آج جو چیز ختم ہوگئی ، اسی کا وعدہ ہے کہ کل ملے گی۔ }عَلٰي سُرُرٍ مُّتَـقٰبِلِيْنَ{۔ میں باہم مل بیٹھنے کی لذت۔} فِيْ شُغُلٍ فٰكِــهُوْنَ{ میں دلچسپ و لذیذ مشغولیتوں کی لذت۔ خاص طور پر بیویوں اور اولاد کے ساتھ۔}هُمْ وَاَزْوَاجُهُمْ فِيْ ظِلٰلٍ عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ مُتَّكِــــــُٔـوْنَ{ ( یسین: ۵۶) (وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں ہیں مسندوں پر تکیے لگائے ہوئے )۔ اس لذت کے مقابلے میں وہ عارضی لذت کیا مقام رکھتی ہے، جو آج ہم اور تم سے لے لی گئی ہے۔ ایمان اور عمل صالح کے لیے کوشاں رہو، تو بس ║اللہ کا قطعی وعدہ ہے۔ حساب آسان ہوگا پھر ملیں گے، ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ }وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ(الطور: 21){ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں اُن کے نقشِ قدم پر چلی ہے ان کی اِس اولاد کو بھی ہم (جنت میں ) ان کے ساتھ ملا دیں گے، کا وعدہ۔}وَّيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا(الانشقاق: 9) {اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا۔ اپنے اہل و عیال کی طرف شاداں و فرحاں ، کامیاب و بامراد واپسی کی لذت کا وعدہ۔ } جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ( الرعد: 23){ یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔وہ خودبھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آبائو اجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے)، کا وعدہ۔ 9۔ میں نے معروف معنوں اور انداز میں تمہیں صبر کی تلقین نہیں کی ہے، نہ کرنا چاہتا ہوں۔لیکن اب تک جن باتوں کی وصیت کی ہے، ان کے ذریعے صبر کی عظیم شاہراہ کو تمہارے لیے آسان اور وسیع کردیا ہے، اس کے دروازوں کی کنجیاں تمہارے ہاتھوں میں تھمادی ہیں۔مجھے امید ہے کہ تم ان کنجیوں سے صبر کے، اور اس طرح جنت کے ، دروازے خود اپنے لیے کھول لوگے، اور سہولت کے ساتھ اس راہ پر چلوگے۔ اس موقع ہی پر نہیں، ساری زندگی، میں سکون و طمانیت اور کامیابی و سرفرازی کاراز صبر ہی میں پوشیدہہے۔ }وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ بِمَا صَبَرُوْا{ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے ربّ کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا (الاعراف: 137)۔ جہاں تک موت کے سلسلے میں میری کیفیت کا تعلق ہے، وہ میں بتا دوں۔ آج کا حال یہی ہے، کل کیا ہوگا، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس کی پسندیدہ کیفیت ہو تو وہ اسے باقی رکھے اور بڑھائے، ناپسندیدہ ہو تو اصلاح کردے۔ اول: موت کا ڈر ایک فطری کیفیت ہے۔ میں اس سے کبھی خالی نہ رہا، آج بھی نہیں ہوں، شاید مرتے وقت بھی نہ ہوں گا۔ موت کی تکلیف کا ڈر، موت کے بعد کے مراحل کی تکلیف کاڈر۔ طبعی خوف و ڈر سے کسی کو بھی مفر نہیں۔ پیغمبروں کو بھی نہیں۔حضرت موسی علیہ السلام مصر سے نکلے تو }خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ،{ خوف زدہ، ڈرتے اور سہمتے۔ عصا سانپ بن گیا، تو ڈر کے مارے الٹے پاؤں پھرے۔ نزع کی تکلیف تو اسی دنیا کی تکلیف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات حضور کے بارے میں، "انسانیت موت کے دروازے پر" میں جو پڑھا ہے، دل سوچ کر ڈرتا ہی ہے۔ دوم: اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ باقاعدگی سے، الشوق الی لقائک کی دعا کرنے اور النظر الی وجھک الکریم کی لذت طلب کرنے کے باوجود ، اس کی کیفیت سے آشنائی نہیں ہوئی۔ موت کا سوچ کر ہی، جو لقاءاللہ کا دروازہ ہے، خوف شوق پر غالب آجاتا ہے، اور اس کےکریم چہرے پر نظر کی لذت کی آرزو بھی اس پرحاوی نہیں ہونے پاتی۔ یا شاید یہ پتا ہی نہیں کہ طبعی خوف کے ساتھ عقلی شوق و لذت کی کیفیت کس طرح جمع ہوسکتی ہے۔ کچھ سہارا ملتا ہے تو حضرت عائشہ کی اس روایت سے، جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب حضور نے فرمایا: جو اللہ سے ملاقات سےمحبت کرتا ہے تو وہ بھی اس سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے، اور جو اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ نے فوراً موت کے لیے اپنی طبعی کراہیت کا سوال کھڑا کردیا: ہم میں سے ہر شخص موت کو ناپسند کرتا ہے۔ حضور نے فرمایا: میرا مطلب یہ نہیں، بلکہ جب مومن کو اللہ کی نعمت ، رضا اور جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو اللہ سے ملاقات اس کومحبوب ہوجاتی ہے(او کما قال)۔ لیکن میں جب اپنے اعمال کو دیکھتا ہوں تو بشارت کی امید کم ہی ہوتی ہے، محبت اور شوق پر خوف ہی غالب آجاتا ہے۔ پھر بھی حضرت موسی علیہ السلام کی طرح یہی دل کی صدا ہوتی ہے : }رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ{ پروردگار ! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں۔(القصص ۲۴)۔ شاید شوق میں مانع موت کا ڈر اتنا نہیں ، جتنا اپنے اعمال بد کا ڈر ہے۔ ║سوم: دنیا کی حد تک آج توکم و بیش کیفیت یہ محسوس ہوتی ہے کہ کسی بھی چیز کے چھوٹ جانے کا غم اس طرح نہ لگے گا کہ ستائے گا، واللہ اعلم بالصواب۔ دنیا میں بھی اب کسی مادی نقصان کا کوئی روگ جان کو نہیں لگتا کوئی ایسی آرزو اور خواہش نہیں کہ جس کے پورا نہ ہونے پر حسرت اور افسوس ہو۔ بلکہ اب تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی رقم ہاتھ آجائے تو اپنا کون سا شوق ہے جو پورا کروں گا، سوائے اس کے کہ دوسروں کے شوق پر خرچ کردوں، یا اللہ کی راہ میں دے دوں۔ یا کسی کے لیے کچھ اپنے بعد انتظام کردوں۔ ہاں، اگر کچھ تعلق لگتا ہے تو ایک، ان چیزوں سے جو بولی یا لکھی ہوئی موجود ہیں، مگر طباعت کے قابل نہ بناسکا۔ یا وہ جو دل و دماغ میں ہیں، نہ لکھ سکا، نہ بول سکا۔ یا دوسرے ، ان کا خیال ہے جن کی ساری خوشیوں کا انحصارہی میرے اوپر ہے کہ ان کی گزر کیسے ہوگی۔ یا ان کا جن کا بظاہر میرے بعد کوئی بندوبست نظرنہیں آتا۔ دونوں صورتوں میں اطمینان، اللہ پر بھروسے ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ اور نہ معلوم کتنے لوگ، مجھ سے کہیں بہتر ، ناتمام خیالات اور مسودات چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔ جب اللہ ہی کو منظور نہیں تومجھے کیا فکر کرنا۔ اب تک جو چھپ گیا اس نے کیا تیر مارلیا اور جو بہترین کتابیں موجود ہیں دوسروں کی ، ان سے ہی کیا حاصل ہورہا ہے۔ اور کیا پتا ، جس طرح ۱۹۸۱ کے بعد بہت مدت گزر گئی ، اللہ تعالٰی نے آج کے بعد بھی مہلت رکھی ہو، اور یہ بیماری اس فرصت کے لیے بہانہ بن جائے، جوبہت سے کاموں تکمیل کے لیے درکار ہے۔ جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے ، اب بھی خبر گیری کرنے والا وہی ہے، اور وہ حیّ لایموت ہے ۔ وہی کافی ہوگا } وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا۔{ تم سب کے بارے میں میری جو آرزوئیں اور تمنائیں رہی ہیں، وہ عموماً دعا کے قالب میں ڈھل کر بیان ہوتی رہی ہیں۔تعلیم و تربیت کا کام تو میں بہت کم ہی کرسکا ہوں۔ اس لحاظ سے اپنی کوتاہیوں کے لیے قیامت کے دن میرا دامن گیر نہ ہوگا۔ ساتھ ہی اللہ کے اس عظیم الشان احسان کا شکر میرے بس سے باہر ہے کہ اس نے تم سب کو میری آرزؤوں اور میرے اعمال سے کہیں بڑھ کر نیک اور صالح بنایا، اور اپنے دین کے لیے کام کرنے والا بنایا ، اور اپنے دین کے لیے کام کرنے والا بنایا ہے۔ لوگ اس کا کریڈٹ مجھے دیتے ہیں، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس میں کسی کی کوشش کو دخل ہے تو تمہاری اپنی کوششوں کو، اور تم بچوں کی حد تک تمہاری امی کو۔ لیکن یہ دین تو خالص اللہ کی ہے، تم پر بھی اس کی نعمت اور میرے اوپر بھی۔ یہ آرزوئیں اور تمنائیں، کچھ کھلی اور کچھ چھپی ہمیشہ ہی رہی ہوں گی اور رہی ہیں، لیکن جب ۱۹۷۱ میں ڈھاکہ میں تم سب سے اس طرح جدا ہوا کہ دوبارہ ملنے کی امید کم ہی تھی، جس طرح موت جدا کرتی ہے۔ ۱۶ دسمبر ۷۱ء میں اس حال میں گھر سے نکلا کہ ہر طرف گولیاں چل رہی تھیں۔ کیفیت یہ تھی کہ جانور کے پاس بھی اپنا مسکن ہوتا ہے، چند دن تو مجھے نظر نہ آتا تھا کہ کہاں پناہ لوں گا۔ کسی مخلوق سے درخواست پناہ بھی نہ کرنا چاہتا تھا، نہ بحمد للہ کی۔ پھر اللہ نے پناہ بھی دی، عزت کےساتھ دی، حفاظت بھی فرمائی اور (بھارت میں جنگی قیدیوں کے )کیمپ مین میری موجودگی پر پردہ ڈالے رکھا۔ وہاں بھی ایک دن سروں پر سے گولیاں گزرتی رہیں، ہم اوندھے زمین پر لیٹے رہے، ، اور اس نے محفوظ رکھا، اور پھر بخیر و سلامتی تم سب سے ملایا، اور پھر باقی ماندہ زندگی، }فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ {پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبُوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا،(الانفال:26) کی تصویر بن گئی۔ کیمپ کی زندگی میں، تین سو آدمیوں کے پنجرے میں ، انجمن کے باوجود خلوت کا مزا تھا، کہ زندگی کی کوئی دوسری مشغولیت اور فکر نہ تھی، اور تم سب کی فکر میں نے اللہ پر چھوڑدی تھی، جیسے آج چھوڑ رہا ہوں۔ لیکن، کسی سوزش اور حسرت کے بغیر، سب سے بڑھ کر تعلق اور اصل میں دیکھا جائے تم ہی سے تھا۔ اس مدت میں جب اللہ نے تقریباً ہر شب ہی دعائے سحر گاہی کی نمعت بخشی، توتمہارے بارے میں تمام آرزوئیں دعاکے قالب میں گئيں۔ اس کے بعد سے آج تک ، جب بھی اور جتنی بھی اس دعا کی توفیق دی گئی، ║اس میں تمہارا حصہ رہا۔ عملاً کچھ نہ کرسکا مگر اس سے مانگتا تو رہا۔ اب آج جو کچھ مانگتا رہا، اسی کی وصیت اور تاکید تم کوکررہا ہوں۔ جو کچھ میں تمہیں بنتا دیکھنا چاہتا رہا ہوں، وہی تم بننے کی کوشش میں لگے رہو، یہی میری آخری تمنا ہے اور وصیت ہے۔ میرا دل اس پر شاہد ہے کہ میں نے جو کچھ مانگا تھا، اللہ تعالٰی نے تمہیں وہ بہت کچھ دیا۔ اسی لیے مجھے پوری امید ہے کہ آئندہ بھی وہ میری دعا اور تمہاری کوشش سے بہت کچھ عطا کرے گا، دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔ دنیا کو میں پہلے اس لیے رکھتا ہوں کہ دنیا ہی دین اور آخرت کی کلید ہے ۔ ربنا آتنا کی دعا میں اللہ تعالٰی نے بھی اسے مقدم رکھا ہے۔   ║~خصوصی توصیات ~(۱)غنائے نفس دنیا کی حد تک میں نے سب سے پہلے جو چیز مانگی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تمہیں غنائے قلب کی دولت عطا کرے، دل کو دنیا سے بے نیاز رکھے۔دیکھو، دین و دنیات کی اصل دولت یہی غنائے نفس ہے۔ ساری بھلائیوں کا سرچشمہ یہی ہے۔ ساری برائیوں کی جڑ یہی حب دنیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں میرا احساس ہے کہ اللہ تعالٰی نے تم سب کو کسی نہ کسی درجے میں عطا کی ہے۔ گویا میری دعا قبول فرمائی ہے۔ اس سے امید بندھتی ہے اور دوسری دعائیں بھی قبول ہوئی ہوں گی، وہ بھی جو میرے اپنے بارے میں ہیں۔ جتنی یہ دولت تمہیں مل گئی ہے اس کی قدر کرنا، اس کی حفاظت کرنا، اس کو بڑھانے کی کوشش کرنا۔جہاں کمی ہو ، خلا ہو، اسے بھرنا۔ زہد ترکِ دنیا نہیں ترکِ محبوبیت دنیا ہے۔ دنیا کی حلال و طیب نعمتوں سے لطف اٹھاؤ، لیکن کسی کے اسیر نہ بنو، کسی کے ساتھ دل نہ لگاؤ۔ اچھا کھاؤ، اچھا پہنو، اچھی طرح رہو، دولت بھی رکھو، کماؤ بھی، مگر کسی کے ساتھ دل نہ اٹکاؤ ان کا ہونا نہ ہوان یکساں ہوجائے، اسی کوشش میں رہو۔ اللہ تعالٰی فراخی عطاکرے تو بلاتامل اس کی عطا سمجھ کر سینے لگاؤ۔ تنگی میں ڈالے توبھی اس کی عطا سمجھ کر شکر ادا کرو۔لذیذ کھاناسامنے ہو، سوکھی روٹی ہو، یا فاقہ کی نوبت، ہر ایک کو اس کا عطیہ سمجھو، ہر ایک حالت میں لطف اور مزہ لو۔ جب دل دنیا سے بے نیاز ہوگا، تودنیاکی خاطر اس اللہ کی نافرمانی کیوں کروگے جس کےتم تن و ہمہ دل و ہمہ دم محتاج ہو۔ پھر اس دنیاکے چھن جانے پر، یا نہ ملنے پر رنج و غم کا کیا سوال! بس دنیا کی خاطر اللہ کی ناراضی مول نہ لینا، نہ کبھی دنیا کی خاطر جان کو غم کا روگ لگانا۔ ~(۲) کسی مخلوق کے دست سوال دراز نہ کرنا دنیا کی حد تک دوسری چیز میں نے یہ مانگی ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں کسی مخلوق کا محتاج نہ بنائے، صرف اپنا محتاج بنائے، کسی انسان کا دست نگر نہ بنائے، صرف اپنا دست نگر بنائے، کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے، صرف اپنا سائل بنائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اصحاب سے خاص بیعت لی تھی کہ کسی سے سوال نہ کرنا۔ سواری پر سے ان کاکوڑا بھی گر جاتا تو وہ خود اتر کر اٹھا لیتے، کسی سے درخواست نہ کرتے۔ میں اس پرعمل تو کماحقہ، کبھی نہ کرسکا، لیکن میرا آئیڈیل رہا ہے۔ تمہارے لیے بھی یہی آئيڈیل ہوناہ چاہیے۔ حتی الامکان تم اس پرعمل کی کوشش کرو۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ساری امیدیں صرف اللہ پر رکھو، لوگوں کے پاس جو کچھ ہے، ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے، اس سے ساری امیدیں قطع کرلو۔ ‏ }واجمع اليأس مما في أيدي الناس‏‏ اللھم اقذف فی قلبی رجاءک واقطع عنی رجاء لمن سواک{ (اور انسانوں کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے ، اس سے پوری طرح مایوس ہوجاؤ۔ اے اللہ، میرے دل میں صرف اپنے سے امید ڈال دے، اور اپنے علاوہ کسی دوسرے سے امید ختم کردے) انسانی تعلقات کی بیش تر خرابیاں ، اور زندگی کی بیش تر ناخوشیاں شکستہ توقعات (broken expectations) کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اس طرح تعلقات بھی فساد سے پاک ہوجائیں گے، ناخوشیوں سے بھی نجات ملے گی۔   ║~ (٣) حلال اور پاک رزق کی دعاء تیسری چیز میں نے یہ مانگی ہے کہ وہ دنیا میں تمہیں حلال و طیب رزق خوب وسعت سے دے، کم سے کم اتنا ضرور دے کہ تم فارغ البالی کے ساتھ اپنی ضروریات پوری کرسکو، قناعت کے ساتھ خوش رہو اور دنیا سے حظ بھی اٹھا سکو۔ اتنی دنیا ، دین کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ دنیا سے اتنا حصہ لینے سے غفلت اور لاپروائی نہ برتنا۔ یہ عبادت میں داخل ہے، اور دوسری عبادتوں کے حسن کے لیے ضروری۔ اس لیے اس حد تک دنیا کمانے کو عبادت سمجھ کر ہی کام کرنا۔ لیکن یہ بھی یقین رکھنا کہ جتنا ملنا ہے، وہ ضرور ملے گا۔ حرام راستوں پر جانے سے کچھ زیادہ نہ مل جائے گا۔ واجملو فی الطلب کو بھی سامنے رکھنا۔ ~(۴) امانت داری دنیا کے اور تلاش معاش کے ، ادائیگی حقوق کے، سارے کام بھی ایک امانت ہیں، انہیں پوری امانت داری کے ساتھ کرو۔ دیانت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ پوری ذمہ داری سے اپنے کام پایہ تکمیل تک پہنچاؤ۔ ہر کام کو بہتر سے بہتر طریقے سے کرو، خوب سے خوب تر کے جویا رہو۔ دنیا کے ہر کام میں بھی کامیابی کو ہدف بناؤ‎، اور کامیابی کے بھی اعلی سے اعلی درجے کو۔ دین داری اس بات کانام نہیں کہ آدمی دنیا سے لاپروائی برتے۔ ہر کام عبادت ہوگا، اگر اسے صرف اللہ کے لیے کروگے اور معصیت سے پاک رکھوگے۔ ~(۵) اللہ کی رضا جوئی اصل ارزو تو یہ ہے ، صرف یہی ہے، اور سب کچھ بھی اسی آرزو کی خاطر ہے، کہ اللہ کے بندے بن کر زندگی بسر کرو، مخلص اور حنیف بندے۔ بندگی یہ ہے کہ ایک طرف جو اس کی مرضیات اور اوامر و نواہی ہیں، ان کو بھی برضا و رغبت بجالاؤ، بلکہ رضا جوئی اور محبت میں دوڑ دوڑ کر وہ کام بھی کرو، جن کو اس نے فرض نہیں کیا، مگر جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ محبت تو محبوب کے آنکھ کے اشارے کی منتظر رہتی ہے، کچھ کہے بغیر بھی اس کی مرضی پاجاتی ہے، اس کے چہرے پر نگاہ رکھتی ہے۔ اسی کیفیت کا اظہار نماز کے بعد تین دفعہ اس اظہار و اقرار سے ہوتا ہے:رضیت باللہ ربا و باالاسلام دینا و بمحمد نبیا صلی اللہ علیہ وسلم۔ جس نے یہ کیفیت حاصل کرلی، اس نے ایمان کا ذائقہ پالیا، ذاق طعم الایمان۔۔۔۔ دوسری طرف جو اس کے تکوینی فیصلےہوں، ان پر بھی راضی رہو۔ یعنی وہ جس طرح کہے، اس طرح خوشی خوشی کرو۔ اور جس طرح رکھے اس طرح خوشی خوشی رہو:رضا بما قسمت لی کی اس کیفیت کااظہار و اقرار بھی نماز کے بعد کے کلمات سے کرو۔ }لاإِلَهَ إلا الله وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ له له الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وهو على كل شَيْءٍ قَدِيرٌ اللهم لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ ولا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ ولا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ {   ║ ~(۶) اللہ کے مخلص بندے بنو اللہ کے مخلص بندے بنو۔ ایک طرف تو دنیا کا کوئی بھی کام ایسا نہ ہو جو بندگی کا کام نہ ہو۔ یہاں تک کہ کھانا ، پینا، سونا، ہنسنا، بولنا بھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سارے کام کرتے تھے، آپ عبد کامل تھے، آپ کا کوئی کام ایسا نہ تھا جو بندگی کاکام نہ ہو۔ لیکن دوسری طرف جو زیادہ ضروری ہے وہ یہ کہ ہر کام صرف اللہ کے لیے کرو، صرف مرضات اللہ کے لیے اور لوجہ اللہ کرو:} وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ{ دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے ، جو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے(البقرۃ: ۲۰۷) اور }اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰى{ وہ تو صرف اپنے ربِّ برتر کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے۔(اللیل:۲۰) کے زمرے میں شامل ہو۔ اس کے بغیر بڑے سے بڑا دینی کام۔۔۔۔۔نماز، قرآن، شہادت ، انفاق۔۔۔۔۔ بھی دنیاوی کام ہے۔ اس کے ساتھ ، چھوٹے سے چھوٹا دینی کام، اور دنیا کا ہر کام، میزان میں وزنی ہے۔ یہ اخلاص حاصل کرلوگے تو کم عمل بھی کفایت کرے گا، دل و زندگی میں اللہ کا رنگ پیدا کرے گا۔ دل میں ، زندگی میں، باہمی تعلقات میں، دنیا میں سارے فساد اور بگاڑ کی جڑ اخلاص کا فقدان ہے، خاص طور پر دینی کاموں میں۔ اپنی نیت کو اللہ کے لیے خالص کرنا، اور خالص رکھنے کی کوشش میں لگے رہنا۔۔۔ یہ مختصر اور آسان نسخہ ہے، خلاصہ ہے، سارے دین کا، اور ساری زندگی کو دین کے مطابق بنانے کا۔ اللہ کو ہر وقت یاد کرنے اور یاد رکھنے کا بھی سب سے موثر نسخہ یہی ہے۔ یہی دائمی اور ہمہ وقتی ذکر ہے۔ )~۷) امید و بیم ہر کام اللہ کے لیے کرنا آسان ہوگا، جب تم ہر وقت یہ یاد رکھوگے کہ یہ کام اللہ کے سامنے پیش ہوگا، اور اسی صورت میں قبول ہوگا کہ صرف اسی کی رضا جوئی کے لیے ہو۔ اس کے ساتھ اپنی نگاہ جنت اور جہنم پر بھی رکھو، جس اجر و ثواب یا عذاب و عتاب کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کی طلب یا اس سے بچنے پر نگاہ رکھو۔ جنت کا لالچ اور نار جہنم کا خوف ، یہ دو چیزیں بندگی کی راہ پر تمہارے دو مضبوط بازو ثابت ہوں گے: }يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا {اپنے ربّ کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں(السجدہ:۱۶)۔ اسی لیے حضور بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے تھے کہ لالچ اور خوف سے طبیعتوں کو بندگی کے لیے تیار کردیں۔ ~(۸) ذکر الٰہی اللہ کی یاد کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلو۔ ہر طرح اس کا اہتمام کرو۔ ہر وقت کرو صبح و شام ، رات و دن کرو۔ ہر حالت میں کرو کھڑے ، بیٹھے، لیٹےکرو۔ اللہ کی یاد سے ہی دل کی طمانیت کا سامان کرو: } اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ۔{ ~(۹) قدرت خداوندی کا تصور یادرکھو کہ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ ہے۔ } وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ{ تم دو ہو، تو تیسرا وہ ہے، جو سب کچھ دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے۔ دل کی گہرائیوں میں جو کچھ ہے وہ بھی جانتا ہے۔ کل کیا ہوگا یہ بھی اس کے علم میں ہے، } إِنَّ اللَّه بِكُلِّ شَيْء عَلِيم ۔{ ║~ (۱۰) قدرت اور ملکیت یاد رکھو کہ اس کائنات میں صرف اس کا حکم چلتا ہے، اور کسی کا نہیں۔ ہر چیز اسی کی ملکیت ہے، اس کی تابع ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، کوئی چیز ، کوئی کام اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ } اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ۔۔۔۔۔لِلہِ مِا فَی السَمٰوَاتِ وَالاَرضِ لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ۔۔۔۔۔اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ {وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔(یسین:۸۲)۔ ~ (۱۱) حمد و شکر یاد رکھو کہ ہر نعمت اسی سے ملی ہے۔ حمد اور شکر اسی کے لیے ہے۔ }وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ۔۔۔۔۔اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔{ اگر تم نے حمد و شکر کے معنی جان لیے، ہر نعمت کو اس کی دین اور عطا جان لیا، اور نعمت پر اس کا شکر ادا کرنا سیکھ گئے، تو سمجھ لو تم نے ایما ن کی حقیقت پالی۔ یہ حمد و شکر میزان کو بھر دیں گے۔ دنیا کی ذرہ برابر نعمت ملے، ایک لقمہ یا ایک گھونٹ۔ ذرا سے، ضرر اور نقصان سے بچ جاؤ ، ذرہ برابر نیکی کی توفیق ملے، الحمدللہ کہنے ہی کی توفیق ملے۔۔۔۔ تو ان میں سے ہر چیز پر شکر واجب ہے، ہر چیز پر شکر کرو۔ تمہاری صبح حمد کے ترانہ سے شروع ہو، دن بھر یہی نغمہ زندگی کے تاروں سے نکلتا رہے، رات بھی حمد پر ختم ہو۔ تم اندازہ نہیں کرسکتے زندگی کتنے اطمینان و سکون اور کتنی خوشی و مسرت سے بھر جائے گی، اور اللہ کی نظروں میں یہ زندگی کتنی محبوب ٹھرے گی، } وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَهُ لَكُمْ {اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے ۔(الزمر: ۷)۔ }مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ {آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو(النساء:۱۴۷)۔ شکر و حمد کرو یہاں تک کہ اللہ راضی ہوجائے۔ وہ راضی ہوجائے ، تو یہ ایسی لازوال نعمت ہے کہ جتنا شکر کرو، کم ہے۔ }اللهمَّ لك الحمد حتى ترضى، ولك الحمد إذا رضيت، ولك الحمد بعد الرضا، لك الحمد عدد الكائنات، وملء الأرض والسموات.{ ~(۱۲) موت شدنی ہے اور یاد رکھو کہ اس سے ملاقات ہونی ہے۔ کسی وقت بھی بلاوا آسکتا ہے۔ بس ساری زندگی اسی ملاقات کے لیے تیاری کا نام ہے: } وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔۔۔۔وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ۔۔۔۔وَاِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ۔۔۔۔وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ،{ جتنا اس ملاقات کے دن کو یاد رکھوگے، اتنا اس ملاقات کی تیاری کے لیے قوت پیدا ہوگی، جتنا اس کی تیاری کروگے، اتنی ہمیشہ کی ابدی کامیابی تمہارا مقدر بنے گی۔ ~(۱٣) اللہ کی یاد کے مختلف طریقے اللہ کو یاد کرنے کے غیر معین طریقےان گنت ہیں۔ دل میں اللہ اللہ کرنا، اس کی صفات کا تصور کرنا، یہ یاد کرنا کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ جس جس طرح اور جتنا ممکن ہو، دھیان اس کی طرف رکھنا، اور اسے دھیان میں رکھنا۔  ║~ (۱۴) اذکارِ الٰہی اللہ کی یاد کے لیے وہ معین کلمات ، اذکار، دعائیں جن کی تعلیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، جتنا زیادہ یاد کرسکو۔۔۔۔ عربی نہ ہو تو اردو کےمعانی ہی۔۔۔۔ اتنا یاد رکھنا اور ان کے پڑھنے کااہتمام کرنا۔ خاص طور پر دعامانگنے کا ذوق، شوق اور سلیقہ جتنا سیکھ سکو۔ خصوصاً آخر شب میں۔ جب اور جتنی اللہ تعالٰی توفیق دے۔ چند لمحات کے لیے بھی ہو، تو اس کے سامنے رونا اور گڑ گڑانا، ہاتھ پھیلادینا، آہ و زاری کرنا۔ ان اذکار کا ایک معین نصاب بھی بنا لینا۔ میرا نصاب تو تمہیں معلوم ہی ہے۔ "قرب الہی" میں دیا ہوا ہے۔ ~(۱۵) قرآن سے شغف قرآن تو ہے ہی ذکر، اور نور، اور رحمت، اور ہدایت، اور } وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۔{ جتنا شوق اور شغف قرآن سے پیدا کرسکتے ہو، ضرور کرو۔ جتنا وقت قرآن کی صحبت میں گزار سکو، ضرور گزارنا۔ مصحف نہ کھول سکو، تو اس کا کچھ حصہ دل کے مصحف سے پڑھنے کو معمول بنانا۔ اس میں قرآن بھی ہے، حمد و تسبیح و تکبیر بھی، تہلیل و تفویض بھی، دعا بھی، اسمائے حسنٰی کا ورد بھی، ملاقات کی یاد بھی، ذکر قلبی و لسانی بھی، ذکر بالجوارح بھی۔ ~ (۱۶) نماز تمام اذکار کا نصاب نماز ہے۔ نماز سے ہر گز غفلت نہ کرنا۔ اور ہر نماز ، اپنی حد تک، خشوع اور ذکر الٰہی سے لبریز ادا کرنے کی کوشش کرنا۔ نماز کا مقصد ہی یہ ہے، ا}َ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ۔{ خشوع کی کوشش کرنا کچھ مشکل نہیں۔ کسی چیز پر توجہ رکھو۔ اپنےاوپر کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔ اللہ پر، اس کی صفات پر، خانہ کعبہ پر ، زبان سے نکلنے والے الفاظ پر، اس پر کہ یہ میری آخری نماز ہے۔ ~(۱۷) نماز با جماعت جماعت کے التزام کا بھی پورا اہتمام کرنا۔ نماز باجماعت ، بغیر جماعت کی نماز سے ۲۷ درجے افضل ہے۔ اور عشا کی نماز جماعت سے پڑھنے والا ایسا ہے جیسے اس نے آدھی رات قیام کیا، اور فجر کی پڑھنے والا ایسا ہے جیسے اس نے آدھی رات قیام کیا۔ بہت سے شارحین کے نزدیک } قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ{ کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جو عشا کی نماز جماعت سے پڑھ کر سوئیں۔ اللہ نے تو ہم جیسے خطا کاروں کے لیے قیام لیل کے ثواب کا راستہ اتنا آسان کردیا ہے! پھر کتنی بدنصیبی ہوگی اگر تم اس کے بعد بھی اس ثواب سے محروم رہو۔   ║~ (۱۸) صبر و صلٰوۃ سے استعانت صبر اور صلٰوۃ کے ذریعے اللہ سے مدد مانگتے رہو۔ اس نے چاہا تو ہر کام آسان ہوجائے گا، ہر کام میں کامیاب و بامراد رہوگے۔ صبر کے بارے میں وصیت پہلے کرچکا ہوں۔اس کے حصول کا نسخہ بھی اللہ کی یاد اور نماز ہے۔ جہاں بھی اللہ تعالٰی نے صبر کی تاکید کی ہے، معاً ہی، ذکر، تسبیح، حمد اور نماز کی تاکید بھی کی ہے۔ ان دونوں کو جمع کرکے رکھوگے ، دل، طبیعت، کام، زندگی سب سے جمیعت خاطر نصیب ہوگی۔ ~(۱۹) انفاق اللہ کی بندگی، اللہ کے بندوں کے ساتھ تعلقات میں، یہ اللہ کو سب سے بڑھ کر محبوب و مطلوب ہے۔ ان تعلقات میں، اپنے اخلاق و معاملات میں اللہ کی مرضی کے مطابق رہنا اور کرنا۔۔۔ سب سے بڑھ کر اس پر نگاہ رکھنا، اور اس کے حصول کی کوشش ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ اللہ نے دیا ہے، وہ اس کی خاطر، اس کی محبت کی خاطر، اس کےبندوں پرخرچ کرو۔ مال بھی اور وقت بھی، توجہ بھی اور جذبات و احساسات بھی، تنگ دلی بھی اور غصہ بھی، اپنی آن بان کو بھی اور اپنی انا کو بھی،}وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ {۔ دیکھو اس کا نماز سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ جہاں اس نے اقامت صلٰوۃ کی وصیت کی ہے وہاں انفاق اور ایتائے زکٰوۃ کی بھی کی ہے، جہاں قیام لیل اور آہ سحر گاہی کی تاکید کی ہے وہاں مال و رزق لٹانے کی بھی، جہاں عفو و درگزر کی مدح کی ہے وہاں تنگی و فراخی میں دینے کی بھی۔ ایمان کےساتھ اعطا اور اطعام مساکین کو جوڑ دیا ہے:} فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى{(اللیل:۵،۶) تو جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور (اللہ کی نافرمانی سے) پرہیز کیا(5) اور بھلائی کو سچ مانا ، (اور اچھے انجام کو مانا) }وَالْمُنْفِقِيْنَ وَالْمُسْـتَغْفِرِيْنَ بِالْاَسْحَارِ{ اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔(آل عمران:۱۷) }يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ{ جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوشحال جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں (آل عمران:۱٣۴)} تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ {اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں ، اپنے ربّ کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں ، اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (السجدہ:۱۶) }كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ{ راتوں کو کم ہی سوتے تھے پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے ( الذاریات: ۱۶،۱۷،۱۸)۔ بس ان آیات کو اپنے دل پر نقش کرلینا، نگاہوں کے سامنے رکھنا، اور انہی کے مطابق اپنا عمل ، اپنا لین دین، اپنا برتاؤ اور اپنا کردار بنانا۔ یہ تمہارے لیے کفایت کریں گی۔ لیکن اس تعلیم کے بعض اہم مضمرات اپنے سامنے خاص طور پر رکھنا۔ ~(۲۰) ایذا نہ پہنچانا کسی مخلوق کو ، خاص طور پر کسی انسان کو، اس سے زیادہ کسی مسلمان کو، اپنے کسی قول یا عمل سے ایذا نہ پہنچانا۔ جس طرح اللہ کے لیے ہر کام کرنا، سارے دین کا خلاصہ ہے۔ اسی طرح ایذا نہ پہنچانا سارے احکام الٰہی کا ماحصل ہے۔ تم جس حکم شرعی پر غور کرو، اس میں یہ اصول کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہے۔ حدود میں ہوں، نکاح و طلاق کے احکام ہوں، لین دین کے ہوں، معاشرت کے ہوں۔ اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک میں یہی ہدایت دی گئی ہے کہ کسی مسلمان کی کوئی چیز مذاق میں بھی نہ چھپاؤ، اس کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ بھی نہ کرو، وہ اٹھ کر جائے تو اس کی جگہ نہ بیٹھو، اس کے سر کو پھلانگتے ہوئے آگے نہ جاؤ، گھر میں نہ جھانکو، تجسس نہ کرو، اس کاخط بغیر اجازت نہ پڑھو، نہ شائع کرو۔ ║رات کو اٹھو تو اس طرح کہ کسی کی نیند میں خلل نہ پڑے۔۔۔۔غرض میں کہاں تک گنواؤں۔ بس اس کو ایک ترازو اور چراغ بنالو کہ کسی کو اپنے قول یا عمل سے ایذا نہیں پہنچانا۔ دوسروں کے ساتھ جو معاملہ پیش آئے، اسی کی روشنی میں اپنا عمل جاری رکھو، اسی کی میزان میں تولو۔ خصوصاً جو بات تم کہتے ہو، جو لفظ تم بولتے ہو، ان میں تو بہت بے احتیاطی ہوتی ہے۔ ایسی ہر بات کہنے سے اجتناب کرو اور ایسے عمل سے بھی۔۔۔ الا یہ کہ شریعت کے ہی کسی اہم اصول پر عمل کرتے ہوئے کسی کو ایذا پہنچ جائے اور اس سے مفر کی کوئی صورت نہ ہو۔ پھر بھی استغفار ضرور کرنا۔ ~(۲۱) الخلق عیال اللہ اس کادائرہ مسلمان تک محدود نہیں، مسلمان بھائی کے لیے صرف خصوصی تاکید ہے۔ الخلق عیال اللہ ساری مخلوق اللہ کاخاندان ہے اور جو ان کےحق میں جتنا اچھا ہو، اتنا ہی اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔یہاں تک کہ اس مخلوق میں جانوربھی شامل ہیں۔ اونٹ کوبھوکا رکھنا، اس پرضرورت سےزیادہ بوجھ ڈالنا، اس کوآرام نہ دینا، ایک جانور کےسامنے دوسرے جانور کو ذبح کرنا، کند چھری سے کرنا، چڑیا سے اس کے بچے چھین لینا، چیونٹیوں کو آگ میں جلانا۔۔۔۔ اس سب چیزوں سےمنع کیا گیا ہے۔ جب جانوروں کایہ معاملہ ہے توگناہ گار مسلمان ہوں یاغیر مسلم، ان کے کیا حقوق ہیں تم خود سوچ سکتے ہو۔ ~(۲۲) ایذا رسانی سے احتراز ایذا سے کسی کی جان، مال یا عزت کو نقصان پہنچتا ہو تو پھر یہ بالکل حرام ہے۔ اسی طرح حرام ہے جس طرح سور، شراب یاسود حرام ہے۔ روزہ میں کھانے پینے سے رک جانے کا حکم ہے، تو معاًمال کو باطل طریقے سے کھانا ہر حالت میں حرام کیا گیا ہے۔ کھانے پینے کی چار چیزوں کی حرمت بیان ہوئی ہے تو معاً احکام الٰہی کے کتمان (اور خلاف ورزی کتمان کی زیادہ بری شکل ہے)کو پیٹ میں آگ بھرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ حرام اشیائےطعام کے کھانے کے لیے تو اضطرار کی گنجائش ہے کتمان میں کوئی اضطرار نہیں۔ ناجائز مال کھانے میں ، غیبت میں ، تہمت میں ، سب و شتم میں، اضطرار کے عذر کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کی سزا صرف آگ ہی نہیں، بلکہ اس سے زیادہ شدید یہ ہے کہ اللہ ان سے نہ بات کرے گا، نہ ان کاتزکیہ کرے گا۔ یہ حقوق کا معاملہ ہے۔ اس سے معافی نہیں، الا یہ کہ جس کی حق تلفی ہوئی ، وہی معاف کرے یا اللہ اس سے معافی دلوانے کی سبیل پیدا کرے۔ بس اپنے آپ کو بچاؤ، اپنے آپ کو بچاؤ اور کچھ ہوجائے تو یہیں معاف کرالو۔ ورنہ کل قیامت کے دن مفلس اور کنگال رہ جاؤگے۔ ~(۲٣) زبان کی حفاظت سب سے بڑھ کر اپنی زبان کی حفاظت کرو۔ بس زبان کے ذریعے سر کے بل جہنم میں گرنے سے بچنے کی تو میں نے ایک ہی راہ پائی ہے۔ وہ یہ کہ دوسروں کے بارے میں اپنی زبان بند رکھو، الا یہ کہ کوئی بھلی بات کہہ رہے ہو۔ اس کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، سامنے کوئی الزام نہ رکھو جو ثابت نہ کرسکو، برا بھلا نہ کہو۔ کہیں کوئی برائی ہورہی ہو، اور فوراً اٹھنے یا روکنے پر قادر نہ ہو، تو فوراً استغفار شروع کردو۔ اپنے جواز کے لیے کوئی تاویل نہ کرو۔ دوسروں میں میاں بیوی بھی شامل ہیں، والدین اور اولاد بھی، ساس سسر اور بہو داماد بھی، بھائی بہن بھی، نوکر ملازم بھی پڑوسی بھی، گھر کے پڑوسی بھی اور چند لمحات کے لیے صاحب بالجنب پڑوسی بھی، سفر میں ہمراہ مسافر بھی۔ اس سے رشتہ ہونے کی وجہ سے، گناہ کو جواز نہیں پیدا ہوتا، وہ اور سخت ہوجاتا ہے۔ بس ہر انسان کے بارے میں اپنی زبان بند رکھو، الا یہ کہ بھلی بات کہو۔ میری سمجھ میں اس کے علاوہ نجات کی کوئی صورت نہیں۔  ║~ (۲۴) حق کی ادائیگی حق تلفی سے آگے بڑھ کر حقوق کی ادائیگی کی فکر کرو۔ ایذا سے بچانے سے بڑھ کر ، جو حسن سلوک کرسکو، جو خدمت کرسکو، جو حاجت روئی کرسکو، وہ کرو۔ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا جو اجر ہے، تمہیں اس کا اندازہ نہیں۔ کسی کو سواری (کار، بس، ہوائی جہاز) پر سوار ہونے میں مدد دینا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادینا، کسی کے ڈول میں پانی ڈال دینا، کسی کو استعمال کی چیز عاریتاً دے دینا، کسی کو دیکھ کر مسکرادینا، اس کو اکرام سے بٹھادینا، مسلمان کی حاجت روائی کے لیے نکلنا، مسجد نبوی میں اعتکاف سے زیادہ افضل ہے۔جب تک تم اللہ کے کسی بندے کی حاجت روائی یا اس کی مدد کرنے میں لگے رہوگے، اللہ تمہاری حاجت روائی اور امداد میں لگا رہے گا۔ تم دنیا میں کسی کی تکلیف دور کروگے ، اللہ قیامت کے دن تمہاری تکلیف دور کرے گا۔ تم کسی کی ستر پوشی کروگے، اللہ قیامت کے دن تمہاری ستر پوشی کرے گا۔ بھوکے کو کھانا کھلاؤگے ، بیمار کی خبر گیری کروگے، اس کے پاس اللہ کو پاؤگے۔ ~(۲۵) عام برائیوں سے اجتناب جو برائیاں عام ہیں، ان سے بچنے کی میں تمہیں خاص طور پر تاکید کرتا ہوں۔ کسی کی عیب جوئی نہ کرنا، اپنے عیوب پر نگاہ رکھنا۔ تجسس حرام ہے۔ اس حرام میں کبھی نہ پڑنا۔کسی کےعیوب و گناہ علم میں آجائیں تو ان پر پردہ ڈال دینا۔ پیٹھ پیچھے بیان کرنے کا کیا سوال ، سامنے بیان کرکے بھی کسی کو عار نہ دلانا،شرمندہ نہ کرنا۔ تمہیں اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا، دوسرے کا دل دکھے گا۔ کسی پر ثبوت کے بغیر کوئی الزام نہ لگانا۔ تہمت اور غیبت کو ایک ساتھ بھی جمع نہ کرنا۔ ~(۲۶) امہات الخبائث ان احکام کے مطابق کردار بنانے کے لیے تمہیں اپنے دل کو چند برائیوں سے پاک کرنا ہوگا، جو امہات الخبائث ہیں۔ پہلی چیز کبر ہے، اپنے کو، 'کچھ' سمجھنا ہے، دوسروں کو حقیر سمجھنا ہے۔ تواضع اختیار کرو۔ جب تک قیامت کے دن اللہ تعالٰی تمہیں بری نہ کردے ، قبول نہ کرلے، اس وقت تک تم اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ اگر اس نے تمہیں رد کردیا ، تو تم سے زیادہ ذلیل و رسوا کون ہوگا۔ اس لیے آج دنیا کےقید خانے میں خود کو دوسرے مجرموں سے برتر خیال کرنے سے بڑی حماقت کیا ہوسکتی ہے، جب تک مالک یوم الدین کا فیصلہ صادر نہ ہوجائے۔ ہر مسلمان کو، اپنے سے بہتر سمجھو۔ دوسروں کی خوبیوں پر نظررکھو، عیوب پر نہیں۔کشف عیوب اور تحقیر نفس اپنی بھی نہ کرو، لیکن اللہ کے سامنے ایک ذلیل و رسوا غلام کی طرح رہو، اٹھو بیٹھو، چلو پھرو اور کلام کرو۔ گدھے کی طرح آواز بلند نہ کرو۔ اکڑفوں نہ دکھاؤ۔ اس جسم پر کیا اکڑفوں جسے پیپ اور کیڑوں کی غذا بن جانا ہے۔ ~(۲۷) تنگ دلی اور شح نفس تنگ دلی اور شح نفس سے اپنے دل کو پاک کرو۔ جتنی تواضع اختیار کروگے، جتنا یہ یقین کروگے کہ ہرچیز اللہ کی ملک ہے، آج دے دی تو کل اعظم اجرا کے ساتھ مل جائےگی، آج روک لی تو کل آفت جان بن جائے گی، اتنا ہی دل کو وسیع کرنا آسان ہوگا۔ جتنا دل میں اللہ کی کبریائی سمائے گی، دل فراخ سے فراخ تر ہوتا جائے گا، جتنی اس مین اپنی بڑائی ، اپنی حیثیت ، اپنی آن، اپنی عزت و ذلت ، اپنے حقوق کی عدم ادائیگی کا احساس سمائے گا، اتنا ہی تمہارا دل بھنچتا اور سکڑتا چلا جائے گا۔ آج مال دے دو، معافی دے دو، غصہ روک لو، ║اپنی آن کی ہٹ قربان کردو، دنیا کی محبوبیت نکال دو، اللہ تعالٰی تمہارا دل اتنا وسیع کردے گا سلوک اتنا نرم اور فراخ کردے گا، کہ کل تم اس جنت میں داخلے کے مستحق ٹھروگے جس کی وسعت میں زمین آسمان سما جائیں۔ ~(۲۸) نرمی اور محبت دل کی نرمی اور گداز، محبت کی گرمی اور سوز، رحمت کی ٹھنڈک اور گیرائی۔۔۔۔ یہ خبر کثیر ہیں۔ دل میں نرمی ہوگی تو گفتگو میں نرمی ہوگی، الفاظ میں نرمی ہوگی، لین دین میں نرمی ہوگی۔ ایّاکم والرفق۔ من یحرّم الرّفق یحرم الخیر کلہ۔ محبت تو فاتح عالم ہے۔ جو چیز نرمی سے حاصل ہوگی وہ سختی سےنہ ہوگی، جو کچھ محبت سے حاصل ہوگا وہ نفرت اور دشمنی سے نہیں۔ الحب للہ والبغض للہ میں تکمیل ایمان ہے۔ حضور رحمت اللعالمین تھے اور ہیں، مومنین کے لیے رؤف و رحیم ہیں۔ آواز میں بات کرکے، لین دین میں سختی کرکے ، نتھنےپھلا کے، تمہیں کچھ نصیب نہ ہوگا۔ نرمی اور محبت اور رحمت سے دل کو اطمینان اور شیرینی، دنیا میں بالعموم سہولت اور آسانی ، اور آخرت میں اللہ کی جنت یقینی ہے۔ ~(۲۹) گناہ گاروں سے نفرت نہ کرنا گناہ گاروں سے نفرت نہ کرنا، گناہوں سے کرنا۔گناہ گاروں کو ڈنٹ پھٹکار اور لعنت ملامت کرکے ان کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرنا، بلکہ ان کے لیے استغفار اور دعائے خیر کرکے شیطان کے خلاف ان کی مدد کرنا۔ اپنے گناہوں پر نگاہ رکھوکے،} اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ{ کا ورد کرتے رہوگے،}وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا{ کو سمجھوگے، یہ جانوگے کہ ہر آدمی کی زندگی نیکی اور گناہ سے بھری ہوئی ہے، اور ہر گروہ میں نیک بھی ہوتےہیں اور بد بھی، توتمہیں اپنے اردگرد گناہ گاروں سے اس طرح معاملہ کرنا آسان ہوگا، جس طرح اللہ اور اس کے رسول چاہتے ہیں۔ اپنی غلطیوں اور گناہوں پر جتنا الاؤنس اپنے کودیتے ہو، اس سے زیادہ الاؤنس دوسروں کو دو۔ اپنے کو جتنا معافی کامستحق سمجھتےہو، اس سے زیادہ مستحق دوسروں کو سمجھو۔ جتنی سختی اپنے اوپر کرتے ہو، اس سے کم سختی دوسروں پر کرو۔ جتنے مطالبات اپنے سے کرتے ہو، اس سے کم اور نرم مطالبات دوسروں سے کرو۔ ان شاء اللہ اس روش میں بڑا خیر پاؤگے۔ ~ (٣۰) اقرباء کے حقوق اور صلہ رحمی صلہ رحمی، اقرباء کے حقوق کی ادائیگی، ان کے ساتھ حسن سلوک ، میل جول ، ان کو یادرکھنا اور یاد کرلینا، ان کے لیے اپنے مال میں ایک حصہ رکھنا، یہ بہت بڑی نیکی ہے، اللہ کو بہت محبوب ہے، یہ کرنے والوں سے وہ محبت کرتا ہے۔ آغاز ہی میں ، اللہ تعالٰی نے گم راہ ہوجانے والوں کی نشانی بیان کی ہے:} وَ يَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ{ (البقرۃ:۲۷)۔( اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں)۔ اس کے بعد ان کے ساتھ احسان ، ان پرخرچ کرنا، پڑوسیوں میں قرابت دار پڑوسیوں (}وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى{) اور بے سہارا اور یتیموں میں بھی قرابت داروں کا زیادہ مستحق ہونا (}يَّـتِيْمًـا ذَا مَقْرَبَةٍ{ )جگہ جگہ اس کی تاکید کی ہے۔ اس حد تک کہ حیرت ہوتی ہے کہ قران پڑھنے والا اور قرآن پر عمل کرنے کا آرزو مند اس عظیم نیکی سے کیوں غافل ہوجاتا ہے۔ وقت میں سے ، توجہ میں سے، محبت میں سے ، مال میں سے بھی ان کا حصہ نکالو۔ جب اللہ مال دے، اس میں ان کا حصہ نہ بھولو۔ صلہ رحمی کروگے تو اللہ تمہارے رزق میں اور تمہاری عمر میں برکت اور وسعت دے گا۔ (بخاری و مسلم)۔ قیامت کے روز بھی اللہ کی ║رحمت کے مستحق ہوگے۔ جب اللہ تخلیق خلق سے فارغ ہوگیا، تو رحم نے ہر قطع رحمی کرنے والے سے پناہ مانگی۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے یہ اعلان فرمادیا کہ جو تجھے جوڑے گا (یعنی قرابت داریوں کو) اس کو میں (اپنی رحمت کے ساتھ ) جوڑوں گا، جو تجھے کاٹے گا، اس کو میں اپنی رحمت سے کاٹ دوں گا۔(بخاری و مسلم)۔ الاقرب فالاقرب کا اصول ملحوظ رکھنا، لیکن کسی کو بھولنا نہیں۔ والدین ، اپنے گھر والے،اپنے بھائی بہن، اپنے چچا ماموں ، پھوپی خالہ،اسی طرح درجہ بدرجہ۔ پھر والدین کے دوست و احباب ، ان کے محب و محبوب ۔ پھر مہمان اور صاحب بالجنب۔ خاص طور پر حضور کے اس ارشاد کو ملحوظ رکھنا کہ انّ ابر ّالبرّ صلت الرجل اھل ود ابیہ۔ (سب سے بڑی نیکی اپنے باپ کے دوست اور محبوب و محب کے ساتھ تعلق رکھنا ہے)۔ ~(٣۱) تنقید اور اختلاف رائے کو برداشت کرنا اختلاف کو برداشت کرنا، اختلاف رائے اور تنقید سے تعلق میں فرق نہ آنے دینا، تنقید کو حلم و تحمل اور فراخ دلی و عالی حوصلگی کےساتھ سننا، اچھی بات کو قبول کرنا، غلط بات کونظر انداز کردینا۔ اپنی غلطی کی ذمہ داری قبول کرنے میں کسی بزدلی کا شکار نہ ہونا، نہ کسی غلطی کے اعتراف میں بخل برتنا، نہ کسی پر تنقید و تعریض کرنےمیں فیاض بننا، نہ کسی کی تعریف کرنے میں کنجوسی برتنا۔ کوئی منہ پر برا بھلا کہے تو وہ خود کو ہی برا بھلا کہہ رہا ہے، تم کیوں غصہ کرو۔ کوئی پیٹھ پیچھے برا بھلا کہے توتمہارا کیا بگڑتا ہے۔ تم جواب نہ دوگے تو فرشتے تمہاری طرف سے جواب دیں گے۔ تم غصہ ، انتقام، ذلت و عزت کے چکر میں پھنس جاؤگے تو اور دس گناہوں میں مبتلا ہوگے۔ خاموش رہوگے تو فرشتوں کی نصرت کے علاوہ ، برا بھلا کہنے والوں کی نیکیاں بھی تمہیں ملیں گی۔ تمہیں تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرح، اسے ہدایا بھیجنا چاہئیں، کجا کہ تم غصے اور انتقام کی آک میں خود کو جلانا شروع کردو۔ معترضین کا جواب دینے کے چکر میں بھی نہ پڑنا، خصوصاً برسر عام ۔ ہرمعترض کی بات پرٹھنڈے دل سے غور کرلینا۔ وہ کوئی صحیح بات کہیں، تو ااپنی اصلاح کرلینا۔ اگر غلط لکھا ہے تو درگزر کردینا۔ درگزر کرنے سے تمہارا کچھ بگڑے گا، عزت میں کوئی کمی نہ آئے گی، تلخی نہ بڑھے گی، دل جیتنے کی شیرینی حصے میں آسکتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ اعتراض اور جواب اعتراض میں الجھنے سے زیادہ فضول اور کوئی کام نہیں۔ یہ نہ کروگے تو وقت بچے گا۔ وہی وقت خیر اور اجر کے حصول میں لگا دینا۔ خاندان میں، گھر میں، احباب میں ، پڑوس میں، کاروبار میں ، دینی جماعتی زندگی میں۔۔۔۔ ہر جگہ ان اصولوں پر عمل کروگے تو اطمینان اور سکون کی حلاوت پاؤگے۔ نہیں کروگے، تو سوزش و الم میں مبتلا ہوگے۔ مخالفین کی ایذا رسانیوں کو معاف کردینے سے زیادہ لذیذ کوئی مشغلہ نہیں۔ اور جب ہر کام اللہ کے لیے شروع کردوگے ، تو تمہیں پتا چلے گا کہ یہ تو بڑا آسان کام ہے۔ ~(٣۲) حقیقی نصب العین اس دنیاوی زندگی میں ہمیشہ اپنی نظریں اللہ کے دین کی دعوت و اقامت کے نصب العین پرجمائے رکھنا۔ اسی کو آخر دم تک اپنا ہدف و مقصود رکھنا۔ کسی دوسرے مقصد کو اس مقصد پر اور کسی دوسری دلچسپی کو اس دلچسپی پر غالب نہ آنے دینا، خصوصاً دنیا کو۔ ایک آدمی بھی تمہاری وجہ سے ایک نیک کام کرنے لگے ، اس سے بڑا صدقہ جاریہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اور اگر وہ خود ہی نہ کرے، بلکہ اس کا داعی بھی بن جائے، دوسروں کو بھی اس کام سے لگائے تو پھر اس ثواب جاریہ میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ یہ نیک کام اگر دعوت کا کام ہو، اقامت دین کی جدوجہد کا کام ہو، اعلائے کلمۃاللہ کا کام ہو، اجرائے حدود الٰہی اور احیائے سنن نبوی کا کام ہو، تو پھر اضعافاً مضاعفہ والا حال ہوگا، اور اس کے علاوہ لدینا مزید کی بشارت بھی پوری ہوگی۔ کسی نیکی کو حقیر نہ جانو،نہ کسی برائی کو کم سمجھو۔ اعمال کے مدارج کو سمجھو۔، اور ان کے مطابق کام کرو۔ نوافل کی کوئی مقدار بھی ایک فرض کے برابر نہیں ہوسکتی۔ سارے فرائض ادا کرنا ضروری سمجھنا۔ان میں چوٹی کا فرض جہاد فی سبیل اللہ کا فرض ہے۔ شیطان کے اس فریب میں نہ آنا کہ بڑے بڑے منافع کو چھوڑ کر کم منافع میں مشغول ہوجاؤ۔ اس فریب میں بھی نہ آنا کہ ذرائع میں پھنس جاؤ کہ مقصود ║گم ہوجائیں۔ یہ اسی لیے کررہے ہیں کہ اصل مقصد کے لیے بہتر کام کرسکیں، اور اس کاوقت پھر کبھی نہیں آتا۔ اس فریب میں بھی نہ آنا کہ پہلے اپنی اصلاح کرلیں پھر یہ کام کریں گے، پہلے یہ علم حاصل کرلیں، پہلے قول و عمل کی دو رنگی دور کرلیں، پھر کریں گے۔ یاد رکھو ایسا وقت کبھی نہ آئے گا۔ اس فریب میں بھی نہ آنا کہ اچھا، کل سے کریں گے، ذرا اس کام سے فارغ ہولیں، پھر کریں گے، اس کی نوبت کبھی نہ آئے گی۔ مایوسی کے کینسر سے اپنے آپ کو بچانا۔ آج کل کے حالات میں یہ سب سے عام مرض ہے۔ دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے بہترین تدابیر اختیار کرنا، تمہاری عقل پر اللہ تعالٰی کا حق ہے۔ پسپائی ہو ، ہزیمت ہو، لوگ نہ مانیں، نہ ساتھ دیں، تو اس کے اسباب کا کھوج لگانا اور ان کا علاج کرنا بھی دینی ذمہ داری ہے۔زیادہ سے زیادہ لوگ آئیں، جلد سے جلد آئیں، جلد سے جدل کامیابی ہو، دین غالب ہو، یہ آرزوئیں عین مطلوب ہیں۔ لیکن بحیثیت ایک فرد کے تو تمہاری آرزو صرف ایک ہونا چاہیے وہ یہ کہ تم کوشش کا حق ادا کردو، اور جنت کے مستحق ٹھیرو۔ تمہیں اس کے علاوہ اور کچھ مطلوب نہ ہونا چاہیے۔ راہ خدا میں جدوجہد کے ساتھ ساتھ ، اپنے دل کو شہادت کی آرزو سے بھی آباد و شاداب رکھنا۔ جب تک اللہ تعالٰی سرنثار کرکے شہادت دینے کی منزل اور توفیق سے سرفراز نہ کرے، اس وقت تک مال سے، عمل سے، دعوت سے، تقریر سے، تحریر سے شہادت میں کوتاہی نہ کرنا، اس شہادت میں اپنا حصہ نہ کھونا۔ ~(٣٣) جماعتی زندگی راہ خدا میں جدوجہد کے لیے جماعتی زندگی ناگزیر ہے۔ اپنی اصلاح و تربیت کے لیے بھی، راہ خدا میں اپنی استقامت کے لیے بھی، جماعتی زندگی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔جماعتی زندگی کے اصول و آداب کا، جن سے نہ صرف جماعت مضبوط ہوتی ہے، تم بھی جماعت سے بہت کچھ حاصل کروگے۔ مقصد سے وابستگی، انسانوں کو جوڑنا ، اور ان کے ساتھ جڑے رہنا، سمع و طاعت اور ان کی حدود و آداب ، مشورے کے اصول ، پابندی وقت، ادائیگی ذمہ داری نصیحت و خیر خواہی۔۔۔ یہ صرف چند چیزیں ہیں۔ جماعتی زندگی میں ایسے مراحل بھی آتے ہیں کہ مایوسی کی کیفیت ہوتی ہے۔اگر کبھی ایسا ہوتو جماعت کا دامن نہ چھوڑنا ۔ اللہ نے وقت دیا، اور لکھنے کی توفیق ملی، تو میں اپنی کہانی یا اپنی ڈائری لکھ کر جاؤں گا۔ اس سے تمہیں معلوم ہوگا کہ ۱۹۷۰ ء کے بعد اختلاف ، مایوسی اور اس میں روز افزوں اضافہ کے باوجود میں نے کس طرح وفاداری اور استقامت کے ساتھ عہد وفا کو وفا کرنے کے تقاضے نبھائے۔ بعض تو اختلاف اور مایوسی کی پہلی ہی آنچ میں پگھل گئے۔ ~(٣۴) حکمت کی دولت اپنی زندگی میں اقامت دین کرتے ہوئے، یا دوسروں کی زندگی اور معاشرے میں یہ فریضہ ادا کرتے ہوئے، حکمت کی دولت سے کبھی لاپرواہی نہ برتنا۔ اس ضمن میں حکمت دین کے موضوع پر میں اپنی تقریر اور اکتوبر تک دسمبر ۱۹۹۶ء کے "ترجمان القرآن" کے اشارات خاص طور پر پڑھنے کی تاکید کروں گا۔ اس حکمت مین تیسیر و تدریج کا اصول، تعمق و تشدد سے اجتناب، دونوں کی پابندی بہت اہم ہے۔ جزئی و فروعی مسائل میں داروگیر اور بحث و مباحثہ سے اجتناب کرنا۔ عامۃ الناس سے غیر ضروری کشمکش اور ناراضی ہرگز مول نہ لینا۔ ان کی مختلف آرا یا غلطیوں کی بھی اچھی تاویل کرنا۔ان کی راہ سے نہ ہٹنا، الا یہ کہ معصیت الٰہی صادر ہورہی ہو۔ حرام حلال کا لفظ استعمال کرنے میں شدید احتیاط برتنا، بلکہ حتی الوسع اجتناب ہی کرنا کہ سلف کا طریقہ یہی تھا۔ ~(٣۵) ہر چیز کو اللہ کی مرضی کے مطابق بنانا گھر، اپنا گھر، تمہارے اختیار میں ہے۔ اس گھر میں اللہ کے کلمہ کو غالب رکھنا، اللہ کی حکومت قائم کرا، اسے اللہ کی مرضی مطابق بنانا اور چلانا تمہارا سب سے بڑا اور اہم کام ہونا چاہیے۔ اپنی ذات کے بعد، تم سے انہی چیزوں کے بارے میں سوال اور مواخذہ ہوگا، جوتمہارے اختیار میں ہیں۔ ان میں سب سے اہم تمہارا گھر ہے۔ گھر کی اصلاح تمہاری ذات کی اصلاح پرمنحصر ہے اور تمہاری اصلاح گھر کی اصلاح پر۔ گھر اللہ کی مرضی کے مطابق چلے گا، تو تمہیں اطمینان و سکون کی بیش بہا دولت نصیب ہوگی۔ آج کوئی گھر باہر سے آنے والے اثرات سے محفوظ نہیں ہوسکتا۔ پھر بھی تمہاری کوششوں سے بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ }قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا{( بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے) گھر کی زندگی کے لیے رہنما اصول ہو۔ گھر چلانے اور گھر میں باہمی تعلقات میں یہی روح جاری و ساری اور کارفرما ہو۔ گھر کا سازوسامان ہو، گھر کا کھانا پینا ہو، بچوں کی تعلیم ہو، ان کی تربیت ہو، ان کے شوق ہوں، ان کا مستقبل ہو، میاں بیوی کا تعلق ہو، بچوں کے ساتھ ║برتاؤ ہو، ملازموں کے ساتھ سلوک ہو۔۔۔ یہی پیش نظر رکھنا کہ کوئی بات ایسی نہ ہو جو اللہ کی آگ کا مستحق بنائے۔ جتنا تم اس پر نظر رکھوگے، اس کا اہتمام رکھوگے،اتنا گھر کی زندگی جنت بنے گی، اور جنت کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ آگ کا سوچتے رہنے سے گھر دنیا کے مزوں اور تفریحوں سے خالی ہوجائے گا۔ نہیں، بلکہ اس کے باوجود دل جوئی اور مودت بھی ہوگی، باہمی پیار بھی ہوگا، عفو و درگزر بھی ہوگا، حلال و طیب سے لذت اندوزی بھی ہوگی، مناسب سامان زینت بھی ہوگا۔۔۔ اس لیے کہ یہ سب اللہ کی آگ سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ کوئی دو انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جب ایک جگہ ہر دم رہنا ہو تو کھٹ پٹ ، ناراضی اور اختلافات سے مفر نہیں۔ لیکن شوہر یہ یاد رکھیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیسے شوہر تھے۔ آپ نے اس بارے میں کیا ہدایات دی ہیں۔ عورتوں کی دل جوئی کو ان کا حق قرار دیا ہے۔ سفر میں جاتے تو کسی کو ساتھ لے جاتے۔ روزانہ ان کے ساتھ وقت گزارنے کا اہتمام کرتے۔ ان کے ہنسی مذاق میں شریک ہوتے۔ ان کو تفریح بھی کراتے۔ ان کے ساتھ دوڑ بھی لگائی۔ اور فرمایا: ایمان میں کامل ہو ہیں جو اخلاق کا حسن رکھتے ہیں، اور تم میں سب سے اچھے وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے اچھے ہیں۔(ترمذی)۔ شوہروں نے عورتوں کی تادیب کی تو حضور کی ازواج کے پاس کثرت سے عورتیں شکایت لے کر پہنچ گئیں ۔ آپ نے فرمایا: کثرت سے عورتیں اپنے شوہروں کی شکایت کرنے میری بیویوں کے پاس آئی ہیں۔ ایسے لوگ تم میں اچھے لوگ نہیں ہیں۔ فرمایا: عورتوں سےنرمی اور خیر کا برتاؤ کرو۔ فرمایا: کوئی مومن مرد کسی مومن عورت کو ناپسند نہ کرے۔ اگر اس کی کوئی عادت ناگوار ہے، تو کوئی دوسری ایسی بھی ہوگی جو اسے اچھی لگے (اور یہی معاملہ مردوں کے حوالے سے عورتوں کے لیے بھی ہے)۔ شکستہ توقعات اور کسر و انکسار پر آمادہ نہ ہونا، یہی تعلقات کی خرابی کی اصل وجوہ ہیں۔ بچوں کی عزت نفس کا خیال رکھنا، لیکن ان کی تربیت میں کوئی کمی نہ کرنا۔ یاد رکھنا کہ بچوں سے بڑھ کر دو رنگی کو پہچاننے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ اس لیے گھر میں تم اور کچھ کرو نہ کرو، قول و فعل کی دو رنگی سے خود کو ضرور بچانا۔ بچوں کو آداب کی تعلیم ضرور دینا۔ سلام و ملاقات کے، بڑوں کی خدمت و احترام کے گفتگو کے، مہمانوں کی میزبانی کے، کھانے پینے کے، اور ایسے ہی دیگر آداب۔ میری تمنا تھی کہ بچوں کے بچے پہلے قرآن ختم کریں۔ قرآن سے محبت اور تعلق ان کے دلوں میں بیٹھ جائے۔ وہ انگریزی اسکولوں میں نہ جائیں۔ اس عمر میں ان کے حافظوں کی لوحوں پر بابا بلیک شپ کے گانے نہ کندہ ہوں، قرآن کی آیات ، حضور کے ارشادات ، تعتیں، اقبال و حالی جیسے شاعروں کا کلام، دینی ادب کے شہ پارے نقش ہوں۔ یہ سب تو نہ ہوسکا۔ بس اب کم سے کم قرآن اور دینی ادب کی تعلیم جتنی دے سکو، اور اس طرح دے سکو کہ ان کی اہمیت اور محبت بھی دل میں بیٹھتی جائے تو میری روح کو بہت خوشی ہوگی۔ میں ٹی وی کے حرام ہونے کا فتویٰ نہیں دیتا۔ لیکن خدا کے لیے اپنے گھروں کو اس لعنت اور گندگی سے پاک رکھنا، فحش و عریاں تصاویر اور رسالوں اور کتابوں سے بھی۔ گھر کی فضا کو جتنا پاکیزہ بنا سکو اور رکھ سکو اتنا ضرور بنانا اور رکھنا۔ گھرمیں باقاعدہ اجتماع ہوسکے تو اچھا ہے، لیکن روز مرہ کے معمولات میں اللہ کی یاد اور بھلائیوں کی تلقین اور برائیوں سے اجتناب کی نصیحت کو ضرور سمونا۔ جہاد اور شہادت کے قصے بھی سنانا۔ ~(٣۶) احساس آخرت اور رجوع الی اللہ جن جن باتوں کی میں نے وصیت کی ہے، ان پر عمل کرنے کے لیے تمہیں قوت و استعداد کی ضرورت ہوگی۔ اس قوت کا سرچشمہ یہ یقین ، اس بات کا دھڑکا، اور اس وقت کی تیاری ہے کہ۔۔۔۔ اللہ کے پاس جانا ہے، اس سے ملاقات کرنا ہے، اصل کامیابی وہیں کی کامیابی ہے، اصل زندگی وہی ہے۔ تم کو ایک دفعہ اس بات کا فیصلہ کرنا ہے ، کرنا چاہیے، اور جتنا جلد کرلو اتنا اچھا ہے کہ تمہیں ہر کام اسی لیے کرنا ہے، ہر لمحہ اسی طرح گزارنا ہے، ہر پیسہ اسی لیے خرچ کرنا ہے، ہر تعلق اسی طرح کرنا ہے کہ وہ آخرت میں تمہارے کام آئے۔} وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۚ{ اور ہر شخص یہ دیکھے (اچھی طرح جائزہ لے) کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے(الحشر:۱۸)، اکثر لوگ دو کشتیوں میں سوار ہوکر چلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، دونوں ہی میں نقصان اٹھاتے ہیں۔ تم فیصلہ کرلو کہ تمہیں دنیا کی پوری زندگی سے آخرت اور صرف آخرت کمانا ہے۔ دنیا کمانا ہے تو وہ بھی اسی لیے کہ اس سے آخرت کمانا ہے۔ ║}الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ{ جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے (البقرۃ: ۴۶)، میں شامل ہوجاؤگے، تمہیں خشوع حاصل ہوگا، (خشوع نہ ہو تو علم کی بڑی سے بڑی مقدار بے کار ہے) خشوع حاصل ہوگا تو صبر اور صلٰوۃ کی راہ آسان ہوگی، اور یہ دونوں ہی دین اور دنیا کی تمام بھلائیوں کی کنجیاں ہیں۔ تقویٰ جوکامیاب زندگی کا عنوان ہے، اس کا راز بھی اسی فیصلے ، اور اس پر استقامت میں پوشیدہ ہے کہ آخرت مطلوب ہے۔ دنیا کی ہر دلچسپی اور ہر شغل سے آخر ت ہی کمانا ہے۔ اسی کو ہر وقت نگاہ میں رکھنا ۔ پھر تقویٰ حاصل ہوگا۔ آسمان و زمین سے برکتیں نازل ہوں گی، ہرمخمصے سے نجات کا راستہ ملے گا، رزق اس طرح اور ایسے ذرائع سے ملے گا کہ وہم و گمان میں نہ ہوگا، ہر کام میں آسانی ہوگی، اور تم جنت کے وارث ہوگے۔ اس مقصد کے لیے موت اور منازل آخرت کو کثرت سے یاد کرنا۔ ~(٣۷) غیب پر ایمان آخرت کے لیے ارادہ اس کو ہدف و مقصود بنانا، اور اس کے لیے سعی جیسا کہ اس ارادہ کا حق ہے۔ یہ اسی وقت حاصل ہوگا جب تم ایمان بالغیب کی نعمت حاصل کروگے۔ اللہ ہو یا آخرت ، دونوں ہی غیب میں ہیں۔ وہ حقیقیتیں جو حواس کی گرفت سے باہر ہیں، بصارت و بصیرت سے پوشیدہ ہیں، ان پر ایمان و یقین سے ہی تمہارا ارادۂ آخرت اور اس کی کوشش میں استحکام و قوت حاصل ہوگی۔جنت اور دوزخ تمہارے سامنے نہیں، اس کےبغیر ہی ایک کی طلب و لالچ اور دوسری کی نفرت و خوف تمہیں حاصل ہو۔ رحماں کو بھی تم نے دیکھا نہیں لیکن اس پر بھی ایمان رکھو اور اس کی خشیت اپنے دل میں پیدا کرو۔ ~(٣۸) خدا اور رسول سے محبت ایمان کی حلاوت پانے کے لیے اللہ اور اس کےرسول سے محبت کو دل میں بساؤ۔ ان سے محبت ہوگی تو ایمان رگ رگ میں اتر جائے گا، دل کی گہرائیوں میں جگہ بنائے گا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ: }وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ{ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں (البقرۃ : ۱۶۵)۔ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے: تم حقیقی معنوں میں پوری طرح مومن نہیں ہوسکتے جب تک میں تمہیں دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔ اس محبت کی معرفت کوئی مشکل کام نہیں۔ تم میں سے ہر ایک محبت کے مزے سے آشنا ہے۔ اس سے قرب کے لے بے تابی ، اس کا نام لینے میں لذت ، اس کے ذکر اور بار بار ذکر کی خواہش، اس کی محبت کی جستجو، اس کی ناراضی کا خوف۔۔۔۔ بس یہ دیکھتے رہو کہ یہ کتنا حاصل ہے۔ دل میں جھانک کر دیکھو، کہ وہاں اللہ کا کیا مقام ہے۔ بس وہی مقام تمہارا اللہ کے ہاں ہوگا۔ اس محبت کے حصول کا نسخہ بھی بہت آسان ہے۔ رسول اللہ کا اتباع ، آپ کے نقش قدم پر چلنا، آپ کی طرح زندگی بسر کرنا، آپ کے رنگ میں رنگنا، انہی مقاصد کا محبوب ہونا جو آپ کو محبوب تھے، انہی راہوں پر چلنا جو آپ کو محبوب تھیں،} قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ{ اے نبی ﷺ ! لوگوں سے کہہ دو کہ ’’ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا(آل عمران :٣۱)۔ اس کے لیے دعا مانگتے رہو۔ }اللهم إني أسألك حبك، وحب من يحبك، وحب عمل يقربني إلى حبك{،(اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور ہر اس عمل کی محبت مانگتا ہو جو تیری محبت سے قریب لے آئے)۔ }اللهم اجعلني احبك بقلبي كله وأرضيك بجهدي كله{ اے اللہ مجھے میرےپورے دل سے اپنے سے محبت کرنے والا بنادے اور میں اپنی ساری کوشش تجھے راضی کرنے میں لگادوں۔ }اللہم اجعل حب قلبی لک کلہ، وسعی کلہ فی مرضاتک{ اے اللہ میرے دل کی ساری محبت اپنے لیے کردے، اور میری ساری کوششیں تیری رضا کے لیے ہوں۔ اللہ کی نعمتوں کو کثرت سے یاد کرو، اس کے احسانات کو یاد کرو، ان کا تذکرہ کرو، جتنا کرسکو۔ ہر قسم کی نعمتیں ، عام بھی اور خاص بھی، معنوی و روحانی بھی اور مادی بھی، چھوٹی بھی اور بڑی بھی۔ ║~ (٣۹) استغفار کتنی بھی کوشش کرو، یہ یاد رکھنا کہ گناہوں سے بچنا ممکن نہیں۔ کلکم مذّنب کلکم خطاؤن (تم سب گناہ گار ہو، تم سب خطاکار ہو) اگر تم گناہ نہ کرتے ، اللہ دوسری مخلوق پیدا کرتا، ان کو اختیار کی آزادی دیتا، وہ گناہ کرتے، استغفار کرتے، پھر وہ ان کو معاف کردیتا۔ اس لیے اپنے گناہوں سے ہمت نہ ہارنا، حوصلہ نہ کھونا، مایوسی کے پھندے میں نہ پھنسنا، استغفار کرنا، اور اپنے رب کی راہ پر چلتے رہنا۔ اس کا دست کرم ہر وقت پھیلا ہوا ہے۔ وہ خود بلاتا ہے کہ آؤ اور گناہ بخشواؤ۔ یدعوکم لیغفرلکم۔ صبح کو بلاتا ہے کہ رات کے گناہ گار آئیں، شام کو بلاتا ہے کہ دن کے گناہ گار آئیں، استغفار کریں تاکہ وہ ان کو بخش دے۔ استغفار میں جلدی کرنا۔ گناہ ہوتے ہی ہاتھ پھیلادینا، دل پر سے داغ دھل جائے گا اور وہ چمک اٹھے گا۔ اندھیرا چھٹ جائے گا، روشنی ہوجائے گی۔ جو ایمان دل سے نکل گیا ہوگا، وہ واپس آجائے گا۔ ان چیزوں میں دیر نہ لگنا چاہیے۔ کثرت سے استغفار کرنا۔ حضور ایک دن میں سو مرتبہ سے زیادہ استغفار کرتے تھے۔ ایک ہی گناہ بار بار سرزد ہو، بار بار استغفار کرنا۔ گناہ کا بار بار ہونا تمہیں استغفار سے عاجز نہ کردے۔ بار بار گناہ کرنا اور بار بار استغفار کرنا، گناہ کی اصرار کی تعریف نہیں آتا۔ گناہ ڈھٹائی سے کرنا، اس بعد نادم رہ ہونا ، اس کے لیے تاویل کرنا، جواز فراہم کرنا،یہ چیزیں اصرار کی تعریف میں آتی ہیں۔ ان سے اللہ تعالٰی ناراض ہوتا ہے۔ گناہ کے بعد آنسو بہالینا۔ اس میں کمی نہ کرنا۔ کچھ تلافی اور کفارہ بھی اپنے اوپر عائد کرنا، کچھ صدقہ مال کا، کسی کے لیے عفر و درگزر،کچھ رکعت نماز کی۔ استغفار سے نہ صرف اس مغفرت کا دروازہ کھلے گا جو جنت میں داخلہ کے لیے ضروری ہے۔} وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ{ دوڑ کر چلو اُس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے(آل عمران : ۱٣٣)، بلکہ دنیاوی خوش حالی ، مسائل کا حل اور تنگی میں فراخی نصیب ہوگی۔ ~(۴۰) عمل کا صلہ آخری بات یہ کہوں گا کہ جو کچھ اللہ کی رحمت ملے گی، مغفرت ملے گی، نعمت ملے گی،راحت ابدی ملے گی، رب کی خوشنودی ملے گی، وہ تمہاری اپنی کوشش سے ملے گی، اپنی محنت سے ملے گی، کچھ کرنے سے ملے گی۔ جو انعام ہے وہ محنت کا، عمل کا، سعی کا ہے۔ }فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ { پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزاء میں اُن کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے (السجدہ : ۱۷) وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے(النجم :٣۹) }ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰى{ پھر اُس کی پوری جزا اُسے دی جائے گی (النجم: ۴۱)۔ زندگی ، سب سے قیمتی چیز ہے۔ تم اس کی ذمہ داری سنبھالو، جس طرح دکان دار اپنی دکان کی، تاجر اپنی تجارت کی اور کسان اپنے کھیت کی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ باگ اپنے ہاتھ میں لو، مال فراہم کرو، بیچ ڈالو، صبح وقت پر دکان کھولو، شام کو اپنے وقت پر بند کرو، روز کا حساب کرلو، جب تم خود کو اور اپنی زندگی کو بنا سنوار نے کے لیے آگے بڑھوگے ، اس کی دھن تم پر سوار اہوجائےگی، اسی کے لیے کام کروگے، تو اللہ تعالٰی خود تمہارے لیے ترقی کی راہیں کھولتا جائے گا، یہ اس کا وعدہ ہے،} وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا{ جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ اس کو دو ہی چیزیں مطلوب ہیں : ایک ، ارادہ ، دوسرے سعی و کوشش۔ دونوں ایمان کے ساتھ۔ پھر اس کی طرف سے قدردانی اور اکرام میں کمی نہ پاؤگے، }وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا{ اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، (شایانِ شان کوشش کرتاہے)اور ہو وہ مومن ، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور (مقبول)ہو گی۔(بنی اسرائیل : ۱۹)۔ اپنے اعمال سے ڈرتے رہو، اللہ کی خشیت اختیار کرو، جو رحمان و رحیم ہے۔ مگر اس کی رحمت اور وعدوں کی سچائی پر یقین رکھو۔ اس سے امیدیں لگائے رکھو۔ خوف اور لالچ کے ساتھ اسے پکارو۔ اور اس بات کا ورد کرتے رہو: }وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا ۔{ ║اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں تو امید و بیم کی کیفیت ہے، خوف غالب ہے۔ اللہ سے کوئی بعید نہیں کہ آخر وقت آنے تک امید غالب ہو جائے۔ اپنی بداعمالیوں پر افسوس اور ندامت ہے، شرمندگی ہے۔ السابقون اور المقربون کا ذکر پڑھتا ہوں تو ایک ہوک سی سینے میں اٹھتی ہے۔ کچھ ایسا مشکل بھی نہ تھا، وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَ غَيْرَ بَعِيْدٍ اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی ، کچھ بھی دُور نہ ہوگی(ق : ٣۱) لیکن سب مواقع ضائع کردئیے۔ بلاوجہ گناہوں کا بوجھ لادا۔ ایسے گناہ کہ سوائے بربادی کے کچھ نصیب نہ ہو۔ یہ لالچ تو ترک کرنا مشکل ہے کہ وہاں پر مقربین و سابقین کے ساتھ الحاق ہو، لیکن یہ ایک محال خواب و خیال لگتا ہے۔ پھر اصحاب یمین کا سوچتا ہوں ، جن کے نیک اعمال زیادہ وزنی ہوں گے، سلامتی ان کا مقدر ہوگی۔ برے اعمال بھی لائیں گے۔ دونوں پلڑوں پرنظر ڈالتا ہوں ، تو یہان بھی امید نہیں بندھتی کہ ان کے زمرے میں شامل ہونے کا مستحق بن سکا ہوں۔ یہ تو بہت ہی آسان تھا۔ پھر اصحاب شمال، اصحاب جہنم کا ذکر پڑھتا ہوں تو بھی یقین نہیں آتا کہ اتنا برا ہوں کہ ان میں شامل ہوجاؤں گا۔ پھر کیا ہوگا؟ کن کے زمرے میں شامل ہوں گا؟ تو اپنا حال ایسا لگتا ہے کہ} وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّـــًٔـا ۭعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ{ کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے۔ ان کا عمل مخلوط ہے ، کچھ نیک اور کچھ بد ۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے(التوبۃ : ۱۰۲)۔ عمل صالح بھی ہیں، گناہ بھی ہیں۔ اپنے گناہوں کا اعتراف بھی ہے۔ ان کا بھی جن کو جانتا ہوں، ان کا بھی جن کو نہیں جانتا۔ جس دن سب دیکھ کر } فاعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ{ کی کیفیت اس حسرت کے ساتھ آئے گی کہ} لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ{ اس سے پہلے ہی یہیں سب کا اعتراف ہے، اقرار ہے۔روز کہنے کی کوشش کرتا ہوں }المقر المعترف بذنبی الیک۔ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ{کی حسرت کے آنسو بھی آج ہی حاضر ہیں۔ اس لیے امید بندھتی ہے بعید نہیں کہ غفور و رحیم نظر کرم فرمائے، توجہ فرمائے، آغوش رحمت کو وا کرے، اعمال نامہ بر سر عام نہ دے، اسے نشر نہ کرے پردے کا معاملہ پردے ہی میں رہے، لوگوں کے حسن ظن ہی کا خیال رکھ لے۔ اس رحمت کے علاوہ تو کسی کا بھی کوئیسہارا نہیں۔ جو مقرب ترین تھے وہ بھی کہہ گئے کہ }الا ان یتغمزنی رحمۃ{۔ اور کوئی آسرا نہیں۔ تین دفعہ پڑھتا ہوں اور کان لگے رہتے ہیں کہ کوئی صدائے دل نواز آئے: اٹھ ، تیرے گناہ معاف کردئے گئے۔ }ان مغفرتك أوسع من ذنوبي ورحمتك أرجى عندي من عملي{ (بے شک تیری مغفرت میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے اور مجھے تیری رحمت کا آسرا ہے، نہ کہ اپنے عمل کا)۔ کئی دفعہ مدینہ منورہ میں حاضری کے موقع پر چشم تصور اسی نظارہ کی دید کی آرزو میں بھی ہے۔ اور درود پڑھتے ہوئے، بہ پائے خواہ چشماں را بما لیم، سوچتے ہوئے اسی وعدے کی تکمیل کی آرزو سینےمیں رہی۔ }وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا{ ( النساء ۶۴) (اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آ جاتے اور یہ اللہ سے معافی مانگتے ، اور رسول ﷺ بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا ، تویقینا اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔(۶۴)۔ بس حسرت اور آرزو ، آرزو اور حسرت۔۔۔۔یہی حاصل زندگی ہے۔ ان مراحل میں تم سب کا عمل ، ان خیر کی باتوں پر جو میں نے یہاں جمع کردی ہیں، یا جو کبھی بیان کی ہین، لکھی ہیں، میری لیے سب سے بڑا تعلق ہوگا، اور اس کے لیے میں تمہارا سب سے بڑھ کر احسان مند ہوں گا۔ }اوصیکم بتقوی اللہ کما قال اللہ تعالی:وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَاِيَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : النساء 131اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ استودع اللہ دینکم وخواتیم اعمالکم۔{ }میں تمہیں اللہ سے تقوی کی نصیحت کرتا ہوں،حیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:{ تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی ، انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔(النساء : 131)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ۔(آل عمران :102)(میں تمہارا دین اور تمہارے اعمال کے انجام ، اللہ کے سپرد کرتا ہوں)۔