~ بسم اللہ الرحمان الرحیم ~ دین حق ~ (یہ خطبہ 21/مارچ1943ء کو جامعہ ملیہ دہلی میں دیا گیا تھا) ~قرآن جس دعوے کے ساتھ بنی نوع انسان کو اپنے پیش کردہ مسلک کی طرف دعوت دیتا ہے وہ خود اس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:- {اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ } ~ یہی ذرا سا فقرہ میری اس تقریر کا موضوع ہے۔ زیادہ تفصیل کاموقع نہیں بہت اختصار کے ساتھ میں پہلے اس کے معنی کی تشریح کروں گا، جس سے واضح ہوجائے گا کہ اس فقرے میں دراصل کس چیز کا دعوی کیا گیاہے۔ پھر اس سوال پر بحث کروں گا کہ یہ دعویٰ تسلیم کیا جانا چاہیے یا نہیں اور آخر میں یہ بیان کروں گا کہ اگر اسے تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس تسلیم کرنے کے مقتضیات کیا ہیں۔ اس فقرے کا سیدھا سادھا مفہوم جو بیان کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ "سچا مذہب تو اللہ کے نزدیک بس اسلام ہی ہے" اور "اسلام "کا جو تصور عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہے، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک مذہب کانام ہے جو اب سے تیرہ سو برس پہلے عرب میں پیدا ہوا تھا، اور جس کی بنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈالی تھی---"بنا ڈالی تھی" کا لفظ میں قصداً استعمال کررہا ہوں کہ صرف غیر مسلم ہی نہیں ، بلکہ بکثرت مسلمان اور اچھے خاصے ذی علم مسلمان، بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو "بانئ اسلام" کہتے اور لکھتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک اسلام کی ابتدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہوئی ہے، اور آپ ہی اس کے بانی ہیں۔ لہذا جب ایک غیر مسلم قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے اس فقرے پر پہنچتا ہے ، تو وہ یہ گمان کرکے سرسری طور پر اس سے گذر جاتا ہے کہ جس طرح ہر مذہب صرف اپنے ہی برحق ہونے اور دوسرے مذہبوں کے باطل ہونے کا مدعی ہے، اسی طرح قران نے بھی اپنے پیش کردہ مذہب کے برحق ہونے کا دعویٰ کردیاہے، اور جب ایک مسلمان اسے پڑھتا ہے تو ہو اس وجہ سے اس پر غور کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں سمجھتا کہ جس مذہب کو اس فقرے میں برحق کہا گیا ہے۔ اسے وہ خود بھی برحق مانتا ہے۔ یا اگر غورو فکر کے لیے ، اس کے ذہن میں کوئی تحریک پیدا ہوتی بھی ہے تو وہ بالعموم یہ رخ اختیار کرلیتی ہے کہ عیسائیت ، ہندومت، بودھ مت اور ایسے ہی دوسرے مذاہب سے اسلام کامقابلہ کرکے اس کی حقانیت ثابت کی جائے۔ لیکن درحقیقت قران میں یہ مقام ایسا ہے جس پر ایک سنجیدہ طالب علم کر ٹھیر کر بہت غور کرنا چاہیے۔ اس سے زیادہ غور کرنا چاہیے جتنا اب تک اس پر کیا گیا ہے۔ قرآن کے اس دعویٰ کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے "الدین" اور "الاسلام" کا مفہوم متعین کرلینا چاہیے۔ ~الدین کا مفہوم عربی زبان میں لفظ"دین" کئی معنوں میں آتا ہے، اس کے ایک معنی غلبہ اور اقتدار کے ہیں۔ دوسرے معنی اطاعت و غلامی کے ہیں، تیسرے معنی جزا اور بدلے کے، چوتھے معنی طریقہ اور مسلک کے، یہاں یہ لفظ اسی چوتھے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی دین سے مراد وہ طریقِ زندگی یا طرز ِفکر و عمل ہے کہ جس کی پیروی کی جائے۔ ║ لیکن یہ خیال رہے کہ قران محض دین نہیں کہہ رہا ہے بلکہ الدین کہہ رہا ہے، اس معنی میں وہی فرق واقع ہوجاتا ہے جو انگریزی زبان میں (this is a way) کہنے کے بجائے (this is the way) کہنے سے واقع ہوتا ہے۔ یعنی قرآن کا دعوی ٰیہ نہیں ہے کہ اللہ کے نزدیک اسلام ایک طریقِ زندگی ہے، بلکہ اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام ہی ایک حقیقی اور صحیح طریقِ زندگی یا طرز فکر و عمل ہے۔ پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن اس لفظ کو کسی محدود معنی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ وسیع تر ین معنی میں استعمال کرتا ہے۔ طریقِ زندگی سے اس کی مراد زندگی کے کسی خاص پہلو یا کسی خاص شعبہ کا طریق نہیں، بلکہ پوری زندگی کا طریق ہے، الگ الگ ، ایک ایک شخص کی انفرادی زندگی ہی کا طریق نہیں ، بلکہ بحیثیت مجموعی سوسائٹی کا طریق بھی ہے۔ ایک خاص ملک یا ایک خاص قوم یا ایک خاص زمانے کی زندگی کا طریق نہیں، بلکہ تمام زمانوں میں تمام انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا طریق ہے۔ لہذا قرآن کے دعویٰ کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نزدیک پوجا پاٹ اور عالم بالا کے اعتقاد اور حیات بعد الممات کے تصوّر کا ایک صحیح مجموعہ وہی ہے جس کانام اسلام ہے، نہ اس کامفہوم یہ ہے کہ افراد انسانی کے مذہبی طرز ِخیال و عمل کی(جیسا کہ لفظ"مذہبی" کامفہوم آج کل کی مغربی اصطلاح میں لیا جاتا ہے) ایک صحیح صورت وہی ہے، جسے اسلام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عرب کے لوگوں، یا فلاں صدی تک کے انسانوں، یا فلاں دور، مثلاً صنعتی انقلاب سے پہلے تک کے آدمیوں کے لیے، ایک صحیح نظام زندگی وہی ہے جس کو اسلام کےنام سے موسوم کیاگيا ہے، بلکہ صریح طور پر اس کا دعوی یہ ہےکہ "ہرزمانہ اور ہر دور میں پوری نوع ِانسانی کے زمین پر زندی بسر کرنے کا ایک ہی ڈھنگ اللہ کے نزدیک صحیح ہے اور وہ ڈھنگ وہی ہےجس کا نا "الاسلام "ہے۔ مجھے یہ سن کر تعجب ہوا کہ ایشیا اور یورپ کے درمیان کسی مقام پر قرآن کی کوئی تفسیر کی گئی ہے جس کی رو سے "دین" کا مفہوم صرف بندے اور خدا کے انفرادی تعلق تک محدود ہے، اور تمدن اور سیاست کے نظام سے اس کاکوئی علاقہ نہیں ہے ، یہ تفسیر اگر خود قرآن سے اخذ کی گئی ہے ، تو یقیناًبڑی دلچسپ چیز ہوگی۔ لیکن میں نے اٹھارہ سال تک قرآن کا جو تحقیقی مطالعہ کیا ہے، اس کی بنا پر میں بلا خوف تردید کہتا ہوں کہ قرآن اپنے تمام جدید مفسرین کی خواہشات کے علی الرغم "الدین" کے لفظ کو کسی محدود معنی میں استعمال نہیں کرتا، بلکہ اس سے تمام زمانوں کے تمام انسانوں کے لیے ان کی پوری زندگی کا نظام ِفکر و عمل مراد لیتاہے۔ ~الاسلام کا مفہوم اب لفظ" اسلام" کو لیجیے۔ عربی زبان میں اس کے معنی ہیں سپر ڈال دینا، جھک جانا، اطاعت قبول کرلینا، اپنے آپ کو سپرد کردینا، مگر قرآن محض "اسلام" نہیں بولتا بلکہ الاسلام بولتا ہے۔ جو اس کی خاص اصطلاح ہے۔ اس مخصوص اصطلاحی لفظ سے اس کی مراد خدا کے آگے جھک جانا، اس کی اطاعت قبول کرلینا، اس کے مقابلے میں اپنی آزادی سے دست بردار ہوجانا، اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کردینا ہے۔ اس تسلیم و اطاعت اور سپردگی و حوالگی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قانون طبیعت (law of nature) کے آگے سپر ڈال دی جائے۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کامفہوم قرار دینے کی کوشش کی ہے، نہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے تخیل یا اپنے مشاہدات و تجربات سے خدا کی مرضی اور اس کے منشاء کا جو تصور بطور خود اخذ کرلے، اسی کی اطاعت کرنے لگے، جیسا کہ اور لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے خود اپنے رسولوں کے ذریعے سے انسانوں کے لیے جس طریق ِفکر و عمل کی طرف رہنمائی کی ہے، اس کو قبول کرلے، اور اپنی آزادئ فکر وعمل –یا بالفاظ صحیح تر آوارگئ فکر و عمل –چھوڑ کر اس کی پیروی و اطاعت اختیار کرلے۔ اسی چیز کو قرآن "الاسلام" کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے اور یہ درحقیقت کوئی جدید العہد مذہب نہیں ہے جس کی بنا اب سے 1363 برس پہلے عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈالی ہو، بلکہ جس روز پہلی مرتبہ اس کرۂ زمین پر انسان کاظہور ہوا اسی روز سے خد ا نے انسان کو بتایا تھا کہ تیرے لیے صرف یہ "الاسلام" ہی ایک صحیح طرزِ فکر و عمل ہے اور اس کے بعد دنیا کے مختلف گوشوں میں وقتاً فوقتاً جو پیغمبر بھی خدا کی طرف سے انسانوں کی ║ رہنمائی کے لیے مامور ہوئے ہیں، ان سب کی دعوت بھی بلا استثناء اسی "الاسلام" ہی کی طرف رہی ہے، جس کی طرف بالآخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دعوت دی۔ یہ اور بات ہے کہ موسی علیہ السلام کے پیروؤں نے بعد میں بہت سی مختلف چیزوں کی آمیزش کرکے ایک نظام یہودیت کے نام سے، اور مسیح علیہ السلام کے پیروؤں نے ایک دوسرا نظام مسیحیت کے نام سے ، اور اسی طرح ہندوستان ، ایران ، چین اور دوسرے ممالک کے پیغمبروں کی امتوں نے مختلف مخلوط و مرکب نظامات دوسرے ناموں سے بنالیے ہوں۔ لیکن موسی اور مسیح اور دوسرے تمام معروف و غیر معروف انبیاء علیہم السلام ، جس دین کی دعوت دینے آئے تھے ، وہ خالص اسلام تھا نہ کہ کچھ اور۔ ~قران کا دعویٰ کیا ہے؟ اس تشریح کے بعد قرآن کا دعوی بالکل صاف اور واضح صورت میں ہمارے سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ ہے : "نوع انسان کے لیے خدا کے نزدیک صرف یہی ایک صحیح طریقِ زندگی ہے کہ وہ خدا کے آگے سرتسلیم خم کردے، اور فکر و عمل کی اس راہ پر چلے جس کی طرف خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے رہنمائی کی ہے۔" یہ ہے قرآن کا دعویٰ۔ اب ہمیں یہ تحقیق کرنا ہے کہ آیا یہ دعویٰ قبول کیا جانا چاہیے؟ خود قرآن نے اپنے اس دعوے کی تائیدمیں جو دلائل قائم کئے ہیں ان پر ہم غور کریں گے ہی۔ مگر کیوں نہ اس سے پہلے خود اپنی جگہ تلاش و تجسس کرکے یہ دریافت کرلیں کہ ہمارے لیے اس دعوے کو قبول کرنے کےسوا کوئی اور چارۂ کار بھی ہے؟ ~"طریقِ زندگی کی ضرورت یہ ظاہر ہے کہ دنیا میں انسان کو زندکی بسر کرنے کے لیے بہرحال ایک طریق زندگی درکار ہے جسے وہ اختیار کرے۔ انسان دریا نہیں ہے، جس کاراستہ زمین کے نشیب و فراز سے خود متعین ہوجاتا ہے، انسان درخت نہیں ہے جس کے لیے قوانینِ فطرت ایک راہ طے کردیتے ہیں۔ انسان نرا جانور نہیں ہے، جس کی رہنمائی کے لیے تنہا جبلت ہی کافی ہوجاتی ہے۔ اپنی زندگی کے ایک بڑے حصے میں قوانینِ طبیعت کا محکوم ہونے کے باوجود انسان زندگی کے بہت سےایسے پہلو رکھتا ہے ، جن میں اسے کوئی لگا بندھا راستہ نہیں ملتا کہ حیوانات کی طرح بے اختیار اس پر چلتا رہے بلکہ اس کو اپنے انتخاب سے خود ایک راہ اختیار کرنی پڑتی ہے، اس کو فکر کی ایک راہ چاہیے، جس پر وہ اپنے اور کائنات کے ان بہت سے مسائل کو حل کرے، جنہیں فطرت اس کے سوچنے والے دماغ کے سامنے پیش کرتی ہے، مگر ان کا کوئی حل غیر مشتبہ زبان میں نہیں بتاتی۔ اس کو علم کی ایک راہ چاہیے، جس پر وہ ان معلومات کو منظم کرے، جنہیں فطرت اس کے حواس کے ذریعےسے اس کے ذہن تک پہنچاتی ہے ۔ مگر انہیں بطور خود منظم کرکے اس کےحوالے نہیں کردیتی۔ اس کو شخصی برتاؤ کے لیے ایک راہ چاہیے، جس پر وہ اپنی ذات کے بہت سے ان مطالبات کو پورا کرے، جن کے لیے فطرت تقاضا کرتی ہے مگر انہیں پورا کرنے کا کوئی مہذب طریقہ معین کرکے نہیں دیتی۔ اس کو گھریلو زندگی کے لیے، خاندانی تعلقات کے لیے، معاشی معاملات کے لیے، ملکی انتظام کے لیے ، بین الاقوامی ربط و تعلق کے لیے اور زندگی کے بہت سے دوسرے پہلو‎ں کے لیے بھی، ایک راہ درکار ہے، جس پر وہ محض ایک شخص کی حیثیت ہی سے نہیں، بلکہ ایک جماعت، ایک قوم، ایک نوع کی حیثیت سے بھی چلے، اور ان مقاصد تک پہنچ سکے جو اگرچہ فطرۃ ًاس کے مطلوب و مقصود ہیں مگر فطرت نے نہ تو ان مقاصد کو صریح طور پر اس کے سامنے نمایاں کیا ہے، اور نہ ان تک پہنچنے کا ایک راستہ معین کردیا ہے۔  ~ ║ زندگی کا انقسام پذیر نہ ہونا زندگی کے یہ مختلف پہلو ، جن میں کوئی ایک طریق اختیار کرنا انسان کے لیے ناگزیر ہے۔ بجائے خود مستقل اور ایک دوسرے سے بے نیاز شعبے یا محکمے نہیں ہیں کہ ان میں ہر ایک کے لیے آدمی الگ الگ راہیں اختیار کرسکتا ہے، جن کی سمتیں الگ ہوں، جن کے زادِ راہ الگ ہوں، جن پر چلنے کے ڈھنگ اور انداز الگ ہوں، جن کی راہ نوردی کے مقتضیات الگ ہوں اور جن کے منازل ِ مقصود الگ ہوں، انسان اور اس کی زندگی کے مسائل کو سمجھنے کی ایک ذرا سی دانشمندانہ کوشش ہی آدمی کو اس پر مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے کہ زندگی بہ حیثیت ِ مجموعی ایک ہے۔ جس کا جز دوسرے جز سے اور ہر پہلو دوسرے پہلو سے ، گہرا ربط رکھتا ہے۔ ایسا ربط رکھتا ہے جو توڑا نہیں جاسکتا۔ہر ایک دوسرے پر اثر ڈالتا ہے اور اس سے اثر قبول کرتا ہے۔ ایک ہی خون سب رگوں میں گردش کرتا ہے۔ ایک ہی روح سب میں سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے اور سب مل کر وہ چیز بناتے ہیں جسے انسانی زندگی کہا جاتا ہے۔ لہذا فی الواقع جو چیز انسان کو درکار ہے وہ زندگی کے مقاصد نہیں، بلکہ مقصد ہے، جس کے ضمن میں سارے چھوٹے بڑے مقاصد پوری موافقت کے ساتھ اپنی اپنی جگہ لے سکیں۔ اور جس کے حصول کی کوشش میں وہ سب حاصل ہوجائیں، اس کو راستے نہیں بلکہ راستہ درکار ہے، جس پر وہ اپنی زندگی کو اس کے تمام پہلوؤں سمیت، کامل ہم آہنگی کے ساتھ اپنے مقصودِ حیات کی طرف لے چلے۔ اس کو فکر ، علم، ادب ، آرٹ، تعلیم ، مذہب، اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، قانون وغیرہ کے لیے الگ الگ نظامات نہیں، بلکہ ایک جامع نظام درکار ہے، جس میں یہ سب ہمواری کے ساتھ سموئے جاسکیں، جس میں ان سب کے لیے ایک ہی مزاج اور ایک ہی طبیعت رکھنے والے مناسب اصول موجود ہوں، اور جس کی پیروی کرکے آدمی اور آدمیوں کا مجموعہ اور من حیث الکل پوری آدمیت، اپنے بلند ترین مقصود تک پہنچ سکے، وہ جاہلیت کا تاریک دور تھا، جب زندگی کو مستقل جداگانہ شعبوں میں تقسیم کرناممکن خیال کیا جاتا تھا۔ اب اگر کچھ لوگ اس طرزِ خیال کی مہمل گفتگو کرنے والے موجود ہیں، تو وہ بے چارے یا تو اخلاص کے ساتھ پرانے خیالات کی فضا میں اب تک سانس لے رہے ہیں، اس لیے قابل رحم ہیں، یا پھر وہ ظالم حقیقت کو خوب جانتے ہیں، مگر جان بوجھ کر یہ گفتگو صرف اس لیے کررہے ہیں کہ جس "دین"کو وہ کسی انسانی آبادی میں رائج کرنا چاہتے ہیں اس کےاصولوں سے اختلاف رکھنے والوں کو انہیں یہ اطمینان دلانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اس دین کے تحت تمہیں زندگی کے فلاں فلاں شعبوں میں، جو بدقسمتی سے تم کو عزیز تر ہیں، پورا تحفظ حاصل رہے گا۔ حالانکہ یہ تحفظ عقلاً محال، فطرۃً ممتنع، عملاً ناممکن ہے۔ اس طرح کی گفتگو کرنے والے غالباً خود بھی جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے ۔ہر دین غالب زندکی کے تمام شعبوں کو اپنی روح اور اپنے مزاج کے مطابق ڈھال کر ہی رہتا ہے۔ جس طرح ہر کانِ نمک ان تمام چیزوں کو مبدّل بہ نمک کرکے ہی رہتی ہے، جو اس کے حدود میں داخل ہوجائیں۔ ~زندگی کی جغرافی و نسلی تقسیم پھر جس طرح یہ بات مہمل ہے کہ انسانی زندگی کو جداگانہ شعبوں میں تقسیم کردیا جائے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ مہمل بات یہ ہے کہ اسے جغرافی حلقوں میں نسلی دائروں میں تقسیم کردیا جائے۔ انسان بلاشبہ زمین کےحصوں میں پایا جاتا ہے، جن کو دریاؤں نے، پہاڑوں نے، جنگلوں اور سمندروں نے یا مصنوعی سرحدوں نے تقسیم کررکھا ہے، اور انسان کی بہت سی مختلف نسلیں اور قومیں بھی ضرور پائی جاتی ہیں جن کے درمیان تاریخی نفسیاتی اور دوسرے اسباب سے انسانیت کے نشوو ارتقاء نے مختلف صورتیں اختیار کی ہیں، لیکن اس کے اختلاف کو حجت قرار دے کر جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہر نسل، ہر قوم اور ہر جغرافی آبادی کے لیے "دین" یعنی نظامِ زندگی الگ ہونا چاہیے وہ سراسر ایک مہمل بات کہتا ہے۔ اس کی محدود نگاہ مظاہر اور عوارض کے اختلافات میں الجھ کر رہ گئی، اس ظاہری کثرت کے اند جوہرِ انسانیت کی وحدت کو وہ نہیں ║ پاسکا۔ اگر فی الواقع یہ اختلاف اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان کی بنا پر دین الگ الگ ہونے چاہیئں۔ تو میں کہوں گا کہ زیادہ سے زیادہ جو اختلافات ایک ملک اور دوسرے ملک، ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان آپ پاتے ہیں ان سب کو جس قدر مبالغے کے ساتھ چاہیں قلم بند کرلیں اور پھر ان اختلافات کا خالص علمی جائزہ لیں جو عورت اور مرد میں پائے جاتے ہیں، جو ہر انسان اور دوسرے انسان میں پائے جاتے ہیں، جو ایک ہی ماں اور باپ کے دو بچوں میں پائے جاتے ہیں، شاید میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ دعویٰ کروں کہ علمی تحلیل اور تجزیہ میں پہلی قسم کے اختلافات سے یہ دوسری قسم کے اختلافات بہرحال شدید تر ہی نکلیں گے، پھر کیوں نہ کہہ دیجیے کہ ہر فرد کانظام ِزندگی الگ ہونا چاہیے؟مگر جب آپ انفرادی، جنسی، خاندانی کثرتوں کے اندر وحدت کا ایک عنصر اور پائدار عنصر ایسا پاتے ہیں جس کی بنیاد پر قوم، وطن یانسل کاتصور قاغم ہوسکتا ہے اور اس تصور کی بنا پر ایک قوم، یا ایک ملک کی کثیر آبادی کے لیے ایک نظامِ زندگی ہونا ممکن خیال کیا جاتاہے، تو آخر کس چیز نے آپ کو روک دیا ہے کہ قومی، نسلی، وطنی کثرتوں کے درمیان ایک بڑی اور بنیادی وحدت کا عنصر آپ نہیں پاسکتے، جس پر انسانیت کا تصور قائم ہو۔ اور جس کی بنا پر تمام عالمِ انسانی کا ایک دین یا نظامِ زندگی ہونا ممکن خیال کیا جائے؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تمام جغرافی، نسلی اور قومی اختلافات کے باوجود وہ قوانینِ طبعی یکساں ہیں جن کے تحت انسان دنیامیں زندگی بسر کررہا ہے، وہ نظامِ جسمانی یکساں ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے، وہ خصوصیات یکساں ہیں جن کی بنا پر انسان دوسری موجودات سے الک ایک مستقل نوع قرار پاتا ہے، وہ فطری داعیات اور مطالبات یکساں ہیں جو انسان کے اندر ودیعت کئے گئے ہیں ۔ وہ قوتیں یکساں ہیں جن کے مجموعہ کو ہم نفس انسانی کہتے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ تمام طبیعی، نفسیاتی، تاریخی، تمدنی، معاشی عوامل بھی یکساں ہیں، جو انسانی زندگی میں کارفرما ہیں؟ اگر یہ واقعہ ہے—اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہے---تو جو اصول انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے صحیح ہوں، ان کو عالم گیر ہونا چاہیے، ان کے قومی یا نسلی یا وطنی ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ قومیں اور نسلیں ان اصولوں کے تحت اپنی خصوصیات کا اظہار اور جزوی طور پر اپنے معاملات ِ زندگی کا بندوبست مختلف طریقوں سے کرسکتی ہیں اور ان کو ایسا کرنا چاہیے۔ مگر انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے، جس صحیح دین یا نظامِ زندگی کی ضرورت ہے ، وہ بہرحال ایک ہی ہونا چاہیے، عقل یہ باور کرنے سے انکار کرتی ہے کہ جوچیز ایک قوم کے لیے حق ہو ، وہ دوسری قوم کے لیے باطل ہوجائے اور جو ایک قوم کے لیے باطل ہو وہ دوسری قوم کے لیے حق ہوجائے۔ ~زندگی کی زمانی تقسیم ان مہملات او جدید زمانے کے عالمانہ مہملات میں سے ایک اور بات جو حقیقت کے اعتبار سے مہمل ترین ہے، مگر حیرت ہے کہ یقینیت کے پورے وثوق کے ساتھ پیش کی جاتی ہے، انسانی زندگی کی زمانی تقسیم ہے، یعنی کہا جاتا ہے کہ جو نظام زندکی ایک دور میں حق ہوتا ہے ، وہ دوسرے دور میں باطل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ زندکی کے مسائل و معاملات ہر دور میں بدل جاتے ہیں۔ اور نظام زندگی کا حق یا باطل ہونا سراسر ان مسائل و معاملات ہی کی نوعیت پرمنحصر ہے۔یہ بات اسی انسانی زندگی کے متعلق کہی جاتی ہے جس کے متعلق ساتھ ہی ساتھ ارتقاء کی گفتگو بھی کی جاتی ہے، جس کی تاریخ میں کارفرما قوانین بھی تلاش کیے جاتے ہیں ، جس کے گذشتہ تجربات سے حال کے لیے سبق اور مستقبل کے لیے احکام بھی مستنبط کیے جاتے ہیں، اور جس کے لیے "انسانی فطرت" نامی ایک چیز بھی ثابت کی جاتی ہے۔میں پوچھتا ہوں ، کیا آپ کے پاس کوئی آلۂ پیمائش ہے جس سے آپ نوع انسانی کی اس مسلسل تاریخی حرکت کے درمیان دور یا زمانے یا عہد کی حدبندیا ں کرسکتے ہوں؟اور کیا یہ ممکن ہے کہ ان حدبندیوں میں سے واقعی کسی ایک خط پر انگلی رکھ کر آپ کہہ سکتے ہوں کہ اس خط کے اس پار جو مسائل زندگی تھے وہ اس پار آکر بالکل تبدیل ہوگئے اور جو حالات اس پار تھے وہ اس پار باقی نہیں رہے؟ اگر فی الواقع انسانی سرگذشت ایسے ہی الگ زمانی ٹکڑوں میں منقسم ہے تب یوں سمجھنا چاہیے کہ ایک ٹکڑا جو گذر چکا ہے وہ بعد والے ٹکڑے کے لیے محض ایک فضول و لایعنی چیز ہوگیا۔ اس کے گزرتے ہی وہ سب کچھ ضائع ہوگیا۔ جو انسان نے اس حصۂ دہر میں کیا تھا، اس زمانے میں جو تجربات انسان کو ہوئے، وہ بعد والے زمانے کے لیے کوئی سبق اپنے اندر نہیں رکھتے، کیونکہ وہ حالات و مسائل ہی فنا ہوگئے، جن میں انسان نے بعض طریقوں کا، بعض اصولوں کا، بعض قدروں کے لیے سعی و جہد کا ║ تجربہ کیا تھا۔ پھر یہ ارتقاء کی گفتگو کیوں؟یہ قوانینِ حیات کی تلاش کس لیے؟ یہ تاریخی استنباط کس بناء پر؟ جب آپ ارتقاء کا نام لیتے ہیں ، لامحالہ یہ اس بات کو متضمن ہے کہ وہاں کوئی چیز ضرور ہے، جو تمام تغیرات کا موضوع بنتی ہے، اور ان تغیرات کے اندر اپنے آپ کو باقی رکھتے ہوئے پیہم حرکت کرتی ہے۔جب آپ قوانین ِ حیات پر بحث کرتے ہیں، تو یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ ان ناپائدار حالات میں، ان رواں دواں مظاہر میں، ان بننے اور بگڑنے والی صورتوں میں کوئی ناپائدار اور زندہ حقیقت بھی ہے جو اپنی ایک ذاتی فطرت اور اپنے کچھ مستقل قوانین بھی رکھتی ہے۔ جب آپ تاریخی استنباط کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ کے اس طول طویل رستے پر جو مسافر مختلف مرحلوں سے گذرتا ہوا آرہا ہے اور منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا جارہا ہے، وہ خود اپنی کوئی شخصیت اور اپنا کوئی مستقل مزاج رکھتا ہے۔ جس کے متعلق یہ حکم لگایا جاسکتاہے کہ وہ مخصوص حالات میں مخصوص طور پر کام کرتاہے۔ ایک وقت میں بعض چیزوں کو قبول کرتا ہے اور دوسرے وقت میں انہیں رد کردیتا ہے اور بعض دوسری چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ زندہ حقیقت ، یہ پائدار موضوع ِ تغیرات، یہ شاہراہ ِ تاریخ کا مستقل مسافر ہی تو ہے، جسے آپ غالباً "انسانیت" کہتے ہیں۔ مگر کیا بات ہے کہ جب آپ راستے کی منزلوں اور ان میں پیش آنے والے حالات اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل پر گفتگو شروع کرتے ہیں، تو اس گفتگو میں ایسے کھوئے جاتےہیں کہ خود مسافر آپ کو یاد نہیں رہتا؟ کیا یہ سچ ہے کہ منزلیں اور ان کے حالات اور ان کے مسائل بدل جانے سے مسافر اور اس کی حقیقت بھی بدل جاتی ہے؟ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک اس کی ساخت بالکل نہیں بدلی، اس کے عناصر ترکیبی وہی ہیں جو اب سے ہزاروں برس پہلے تھے، اس کا مزاج وہی ہے ، اس کی فطرت کے تقاضے وہی ہیں، اس کی صفات و خصوصیات وہی ہیں، اس کے رحجانات و میلانات وہی ہیں، اس کی قوتیں اور صلاحیتیں وہی ہیں، اس کی کمزوریاں اور قابلیتیں وہی ہیں، اس کے فعل و انفعال اور تاثیر و تاثر کے قاعدے وہی ہیں۔ اس پر کارفرمائی کرنے والی قوتیں وہی ہیں اور اس کا کائناتی ماحول بھی وہی ہے۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی ابتدائے آفرینش سے آج تک ذرہ برابر فرق نہیں آیا ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کی جراءت نہیں کرسکتا کہ تاریخ کے دوران میں حالات اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل زندگی کے تغیر سے خود انسانیت بھی بدلتی چلی آئی ہے، یا وہ بنیادی چیزیں بھی متغیر ہوتی رہی ہیں، جو انسانیت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پھرجب حقیقت یہ ہے تو اس دعوے میں کیا وزن ہوسکتا ہے کہ انسان کے لیے جو چیز کل تریاق تھی، وہ آج زہر ہے، جو چیز کل حق تھی، وہ آج باطل ہے، جوچیز کل قدر رکھتی تھی وہ آج بے قدر ہے۔ ~انسان کیسے طریقِ زندگی کا حاجت مند ہے اصل یہ ہے کہ انسانی افراد اور جماعتوں نے تاریخ کے دوران میں نفسِ انسانیت کو اور اس سے تعلق رکھنے والی بنیادی چیزوں کو سمجھنےمیں غلطی کھا کر اور بعض حقیقتوں کے اعتراف میں مبالغہ اور بعض کے ادراک میں قصور کرکے جو غلط نظامِ زندگی وقتاً فوقتاً اختیار کیے اور جنہیں انسانیت ِ کبریٰ (humanity at large) نےتجربے کے بعد غلط پاکر دوسرے ایسے ہی نظامات کے لیے جگہ خالی کرنے پر مجبور کردیا، ان کی سرگذشت کے مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا گیا ہے کہ انسانیت کے لیے لازماً ہر دور میں ایک نظام ِ زندگی درکار ہے۔ جو صرف اسی دور کےحالت و مسائل سے پیدا ہو، اور ان ہی کو حل کرنے کی کوشش کرے، حالانکہ زیادہ صحت کے ساتھ اس سرگذشت سے اگر کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ اس قسم کے زمانی و دوری نظاماتِ زندگی یا بالفاظ دیگر موسمی حشرات الارض کو بار بار آزمانے ، اور ہر ایک کی ناکامی کے بعد اس کے دوسرے جانشین کاتجربہ کرنے میں، انسانیتِ کبریٰ کا وقت ضائع ہوتا ہے، اس کی راہ ماری جاتی ہے، اس کے نشو و ارتقاء اور اپنے کمال ِمطلوب کی طرف اس کے سفر میں سخت رکاوٹیں پیش آتی ہیں وہ درحقیقت محتاج اور سخت محتاج ہے ایسے نظام ِ زندگی کی جو خود اس کو اور اس سے تعلق رکھنے والی تمام حقیقتوں کو جان کر عالمگیر دائمی اور پائدار اصولوں پر قائم کیا جائے، جسے لے کر وہ حال و مستقبل کے تمام متغیر حالات سے بخیریت گزر سکے، ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرسکے۔ زندگی کے راستے پرافتاں و خیزاں نہیں بلکہ رواں اور دواں اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھ سکے۔ ~ ║ کیا انسان ایسا نظام خود بنا سکتا ہے؟ یہ ہے اس "دین" یا طریق ِزند گی یا نظامِ زندگی کی نوعیت، جس کا انسان حاجت مند ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اگر انسان خدا کی مدد سے بے نیاز ہوکر خود اپنے لئے اس نوعیت کادین بنانا چاہے، تو کیا وہ اس کوشش میں کامیاب ہوسکتاہے؟ یہ سوال میں آپ کےسامنے پیش نہ کروں گا کہ آیا انسان اب تک ایسا دین خود بنانے میں کامیاب ہوا ہےکیونکہ اس کا جواب تو قطعاً نفی میں ہے۔ خود وہ لوگ بھی جو آج بڑے بڑے بلند بانگ دعووں کےساتھ اپنے اپنے دین پیش کررہے ہیں، اور ان کے لیے ایک دوسرے سے لڑ مررہے ہیں ۔ یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ان میں سے کسی کا پیش کردہ دین ان ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، جن کے لیے انسان، من حیث الانسان ایک "الدین " کا محتاج ہے۔ کسی کا دین نسلی و قومی ہے ، کسی کاحغرافیائی، کسی کاطبقاتی اور کسی کادین پیدا ہی اس دور کے تقاضوں سے ہوا ہے، جو ابھی کل ہی گذر چکا ہے، رہا وہ دور جو کل آنے والا ہے ، اس کے حالات و مسائل کے متعلق کچھ پیشگی نہیں کہا جاسکتا کہ ان میں بھی وہ کام دے سکے گا یا نہیں،کیونکہ جو دور اب گذر رہا ہے، ابھی تو اسی کے تاریخی تقاضوں کااجائزہ باقی ہے، اسی لیے میں یہ سوال نہیں کررہا ہوں کہ کامیاب بھی ہوسکتا یا نہیں ؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے ۔ جس سے سرسری طور پر بحث کرنا مناسب نہیں ۔ یہ انسانی زندگی کے فیصلہ کن سوالات میں سے ایک ہے۔ اس لیے پہلے خوب اچھی طرح سمجھ لیجے کہ وہ چیز کیا ہے، جسے وضع کرنے کاسوال درپیش ہے، اس شخص کی قابلیتیں کیا ہیں، جس کے متعلق یہ پوچھا جارہا ہے کہ وہ اس کو وضع کرسکتاہے یا نہیں۔ ~الدین کی نوعیت انسان کے لئے جس "الدین" کی ضرورت میں نے ابھی ثابت کی ہے اس سے مراد کوئی ایسا تفصیلی ضابطہ نہیں ہے، جس میں ہر زمانے اور ہر قسم کے حالات کے لئے تمام چھوٹے بڑے جزئیات تک مرتب ہوں، اور جس کی موجودگی میں انسان کا کام صرف اس کے مطابق عمل کرنا ہو، بلکہ درصل اس سے مراد ایسے ہمہ گیر ازلی و ابدی اصول ہیں جو تمام حالات میں انسان کی رہنمائی کرسکیں،اس کی فکرو نظر سعی و جہد اور پیش قدمی کے لئے صحیح رخ متعین کرسکیں اور اسے غلط تجربات میں وقت اور محنت اور قوت ضائع کرنے سے بچاسکیں، اس غرض کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ انسان کو اس باتک علم --- قیاس و گمان نہیں بلکہ علم--- ہو کہ اس کی اور کائنات کی حقیقت کیا ہے، اور کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے۔ پھر وہ اس بات کے جاننے کا--- سمجھ بیٹھنے کانہیں بلکہ جاننے کا--- حاجت مند ہے کہ آیا زندگي بس یہی دنیا کی زندگی ہے یا پوری زندگی کا ایک ابتدائی حصہ ہے، آیا سفر بس پیدائش سے لے کر موت کی مسافت کا ہے ، یا یہ پورے سفر میں سے محض ایک مرحلہ ہے۔ پھر اس کے لیےناگزیر ہے کہ ایک ایسا مقصدِ زندگی اس کے لیے متعین ہو جو حقیقت کے اعتبار سے--- نہ کہ محض خواہش کی بنا پر--- واقعی حیاتِ انسانی کا مقصود ہے، جس کے لیے دراصل انسان پیدا کیا گیا ہو اور جس کے ساتھ ہرفرد، ہر مجموعۂ افراد، اور بحیثیت کلی تمام انسانیت کے مقاصد، تمام زمانوں میں، بلا کسی تصادم و مزاحمت کے ہم آہنگ ہوسکیں۔ پھر اس کو اخلاق کے ایسے پختہ اور ہمہ گیر اصولوں کی ضرورت ہے، جواس کی فطرت کی تمام خصوصیات کے ساتھ مناسبت بھی رکھتے ہوں، اور تمام ممکن حالات پر نظری و عملی حیثیت سے منطبق ہوسکتے ہوں، تاکہ وہ ان ہی اصولوں کی بنیاد پر اپنی سیرت کی تعمیر کرسکے، ان ہی کی رہنمائی میں سفر زندگی کی ہر منزل اور اس کے حالات میں پیش آمدہ مسائل کو حل کرسکے، اور اس خطرے میں مبتلا نہ ہو کہ تغیر پذیر حالات و مسائل کے ساتھ ساتھ اخلاق کے اصول بناتا اور بدلتا جائے۔ یعنی بالفاظ دیگر ایک بے اصولا- نر ابن الوقت (characterless mere opportunist) ابن الوقت بن کر رہ جائے۔ پھر اس کو تمدن کے ایسے جامع اور وسیع اصولوں کی ضرورت ہے، جو انسانی اجتماع کی حقیقت و غایت اور اس کے فطری تقاضوں کو سمجھ کر بنائے جائیں جن میں افراط و تفریط اور بے اعتدالی نہ ہو، جن میں تمام انسانوں کی مجموعی مصلحت ملحوظ رکھی گئی ہو اور جن کی پیروی کرکے ہر زمانے میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کی تشکیل ، تعمیر اور ترقی کے لیے سعی کی جاسکے۔ پھر اسے شخصی کردار، اور اجتماعی رویہ ║ اور انفرادی و اجتماعی سعی و عمل کو صحیح سمت سفر کا پابند اور بے راہ روی سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے جامع حدود کی ضروت ہے جو شاہراہ زندگی پر نشاناتِ راہ کاکام دیں، اور ہر موڑ اور ہر دوراہے، ہر خطرناک مرحلے پراسے آگاہ کریں کہ تیراراستہ ادھر نہیں ، بلکہ ادھر ہے۔ پھر اس کو چند ایسے عملی ضابطوں کی ضرورت ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے دائمی اور عالمگیر پیروی کے قابل ہوں اور انسانی زندگی اس حقیقت نفس الامری ، اس مآل زندگی، اس مقصد حیات ، ان اصول اخلاق، ان اصول تمدن اور ان حدود عمل سے ہمیشہ وابستہ رکھیں ، جن کی تعیین اس"الدین" میں کی گئی ہو۔ یہ ہے وہ چیز جسے وضع کرنے کاسوال درپیش ہے۔ اب غور کیجیے کیا انسان ایسے ذرائع رکھتا ہے، جن سے وہ خود اپنے لیے ایک ایسا "الدین" وضع کرسکے؟ ~انسانی ذرائع کا جائزہ انسان کے پاس اپنا "دین" یا طریقِ زندگی اخذ کرنے کے ذرائع چار سے زیادہ نہیں ہیں۔ پہلا ذریعہ خواہش ہے، دوسرا ذریعہ عقل ہے، تیسرا ذریعہ مشاہدہ و تجربہ ہے، چوتھا ذریعہ پچھلے تجربات کا تاریخی ریکارڈ ہے۔ غالباً ان کے سوا کسی پانچویں ذریعہ کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔ ان چاروں ذرائع کا جتنا مکمل جائزہ لے کر آپ دیکھ سکتے ہیں، دیکھیے کہ آیا یہ "الدین" کے ایجاد کرنے میں انسان کی مدد کرسکتے ہیں؟ میں نے اپنی عمر کا معتد بہ حصہ اس کی تحقیق میں صرف کیا ہے، اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ ذرائع" الدین " کی ایجاد میں تو مدد نہیں دے سکتے، البتہ اگر کوئی غیر انسانی رہنما"الدین" کو پیش کردے، تو اسے سمجھنے اور پرکھنے، پہچاننے اور اس کے مطابق زندگی کے تفصیلی نظام کو وقتاً فوقتاً مرتب کرتے رہنے میں ضرور مددگار بن سکتے ہیں۔ خواہش پہلے خاہس کو لیجئے کیا یہ انسان کی رہنما بن سکتی ہے؟ اگرچہ یہ انسان کے اندر اصلی محرک عمل ہے مگر اس کی عین فطرت میں جو کمزوریاں موجود ہوں ان کی بناء پر یہ رہنمائی کےقابل ہرگز نہیں ہوسکتی۔ تنہا رہنمائی کرنا تو درکنار عقل اور علم کو بھی اکثر انے سے گمراہ کیا ہے۔ اس کوتربیت سے خواہ کتنا ہی روشن خیال بنا دیا جائے، بہرحال آخری فیصلہ جب کبھی اس پرچھوڑا جائے گا یہ بلا مبالغہ 99 فیصدی حالات میں غیر مستقیم ہی فیصلے کریگی، کیونکہ اس کے اندر جو تقاضے پائے جاتے ہیں، وہ اس کوصحیح فیصلہ کرنے کےبجائے ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں جس سے مطلوب کسی نہ کسی طرح جلدی اور بآسانی حاصل ہوجائے۔ یہ نفس "خواہش انسانی "کی طبعی کمزوری ہے۔ لہذا خواہ ایک فرد کی خواہش ہو، یا ایک طبقے کی ہو، یا وہ خواہش عام(general will) ہو جس کا روسوؔ نے ذکر کیا ہے، بہرحال کسی قسم کی انسانی خواہش میں بھی فطرتاً یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ایک "الدین" کے وضع کرنے میں مددگار بن سکے، جلکہ جہاں تک مسائلِ عالیہ (ultimate problem) مثلاً حیات انسانی کیحقیقت ، اس کے مآل اور اس کی غایت کا تعلق ہے، اس کو حل کرنے میں تو وہ کسی طرح مددگار بن ہی نہیں سکتی۔ عقل پھر عقل کو لیجئے۔ اس کی تمام بہتریں صلاحیتیں مسلم، انسانی زندگی میں اس کی اہمیت بھی ناقابل انکار، اور یہ بھی تسلیم کہ انسان کے اندر یہ بہت بڑی رہنما طاقت ہے، لیکن قطع نظر اس سوال کے کہ انسان کے لیے "الدین" کس کی عقل کرےگی؟ زید کی؟ بکر کی؟ تمام انسانوں کی؟ یا انسانوں کے کسی خاص گروہ کی؟ اس زمانے کے لوگوں کی؟ یہ پچھلے کسی زمانے کے لوگوں کی؟ یا آئندہ آنے والوں کی؟ سوال صرف یہ ہے کہ نفس "عقل انسانی" کے حدود کا جائزہ لینے کے بعد کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ "الدین" کے وضع کرنے میں اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ اس کے تمام فیصلے منحصر ہیں اس مواد پر ، جوحواس اس کو فراہم کرکے دیں۔وہ غلط مواد فراہم کرکے دیں گے ، تو یہ غلط فیصلہ کردے گی، وہ ناقص مواد فراہم کرکے دیں گے،یہ ناقص فیصلہ کردے گی۔ اور جن امور میں وہ کوئی مواد فراہم کرکے نہ دیں گے، ان میں اگر یہ خود شناس ہے تو کوئی فیصلہ کرے گی، اور اگر بر خود غلط ہے تو اندھیرے میں چوپائی تیر چلاتی رہے گی۔یہ محدودیتیں جس بیچاری عقل کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، وہ آخر کس طرح اس کی اہل ہوسکتی ہے کہ نوع انسانی کے لیے "الدین" بنانے کی تکلیف اسے دی جائے۔ "الدین" بنانے کا انحصارجن مسائل عالیہ کے حل پرہے ان میں حواس سرے سے کوئی مواد ║ فراہم ہی نہیں کرتے، پھر کیا ان مسائل کافیصلہ تخیلات، لاطائل قیاسات اور مجرد اوہام سے کیا جائےگا؟ "الدین بنانے کے لیے جن مستقل اخلاقی قدروں کا تعین ناگزیر ہےان کے لیے حواس بہت ہی ناقص مواد فراہم کرتے ہیں۔ پھر کیا عقل سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ناقص مواد پر صحیح و کامل قدریں متعین کرے گی؟ اسی طرح "الدین" کے جو دوسرے اجزائے ترکیبی میں نے بیان کئے ہیں، ان میں سے کسی ایک جز کے لئے بھی حواس سے بالکل صحیح اور مکمل مواد حاصل نہیں ہوسکتا، جس کی بنا پر عقل ایک جامع اور مکمل نظام بناسکے اور اس پر مزید یہ ہے کہ عقل کے ساتھ خواہش کا عنصر مستقل طور پر لگا ہوا ہے۔ جو اسے ٹھیٹھ عقلی فیصلے دینے سے روکتاہے، اور اس کی راست روی کو کچھ نہ کچھ ٹیڑھ کی طرف مائل کرکے ہی چھوڑتا ہے۔ لہذا اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ عقل انسانی حواس کے فراہم کردہ مواد کی ترتیب اور اس سے استدلال کرنے میں کوئی غلطی نہ کرے گی، تب بھی اپنی کمزوریوں کی بنا پر وہ اتنا بل بوتا نہیں رکھتی کہ اتنے بڑے کام کا بوجھ اس پر ڈالا جاسکے۔ یہ بوجھ اس پر ڈالنا اس پر بھی ظلم ہے اور خود اپنے اوپر بھی۔ سائنس اب تیسرے ذریعے کو لیجئے، یعنی وہ علم جومشاہدات و تجربات سے حاصل ہوتا ہے،میں اس علم کی قدر و قیمت کا اعتراف کرنے میں کسی طالب علم سے پیچھے نہیں ہوں۔ نہ ذرہ برابر اس کی تحقیر کرنا پسند کرتا ہوں۔ لیکن اس کی محدودیتوں کو نظرانداز کرکے اسے و ہ وسعت دینا جو فی الواقع اسے حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک بے علمی ہے۔ "علم انسانی" کی حقیقت پر جس شخص کی بھی نظر ہوگی، وہ اس بات کو ماننے سے انکار نہ کرے گا، جہاں تک مسائل عالیہ کا تعلق ہے، ان کی کنہ تک اس کی رسائی محال ہے، کیونکہ انسان کو وہ ذرائع حاصل ہی نہیں ہیں، جن سے وہ اس تک پہنچ سکے۔ نہ وہ اس کا براہ راست مشاہدہ کرسکتا ہے اور نہ مشاہدہ و تجربہ کے تحت آنے والی اشیاء تک استدلال کرکے اس کے متعلق ایسی رائے قائم کرسکتا ہے، جس پر علم کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ لہذا "الدین "وضع کرنے کے لیے جن مسائل کا حل معلوم کرنا سب سے پہلی ناگزیر ضرورت ہے، وہ تو علم کی دسترس سے باہر ہی ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ اخلاقی قدریں ، تمدن کے اصول اور بے راہ روی سے بچانے والی حدود متعین کرنے کا کام ، آیا علم کے حوالے کیا جاسکتا ہے یا نہیں، تو اس بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ یہ کام کس شخص کا یا کس گروہ یا کس زمانے کا علم انجام دے گا۔ ہمیں یہ دیکھناچاہیے کہ علمی طور پر یہ کام انجام دینے کے لیے ناگزیر شرائط کیا ہیں، اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ ان تما م قوانین فطرت کا علم حاصل ہو جن کے تحت انسان اس دنیا میں جی رہا ہے۔ اس کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ خود انسان کی اپنی زندگی سے جو علوم تعلق رکھتے ہیں، وہ مکمل ہوں، اس کے لیے تیسری شرط یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے علوم یعنی کائناتی اور لسانیات کے علوم کی معلومات یکجا ہوں، اور کوئی ذہنِ کامل اس کو صحیح ترتیب دے کر ان سے صحیح استدلال کرکے انسان کے لیے اخلاقی قدروں، تمدن کے اصولوں اور بے راہ روی سے بچانے والی حدوں کاتعین کرے۔ یہ شرائط نہ اس وقت تک پوری ہوئی ہیں، نہ امید کی جاسکتی ہے کہ پانچ ہزار برس بعد پوری ہوجائیں گی۔ ممکن ہے کہ انسانیت کی وفات سے ایک دن پہلے یہ پوری ہوجائیں۔ مگر اس وقت اس کا فائدہ ہی کیا ہوگا۔ تاریخ آخر میں اس ذریعۂ علم کو لیجیے جسے ہم پہلے انسانی تجربات کا تاریخی ریکارڈ یا انسانیت کا نامۂ اعمال کہتے ہیں۔ اس کی اہمیت اور اس کے فائدوں سے مجھے انکار نہیں ہے۔ مگر میں کہتا ہوں اور غور کریں گے تو آپ بھی مان لیں گے کہ الدین وضع کرنے کا عظیم الشان کام انجام دینے کے لیے یہ بھی ناکافی ہے۔میں یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ ریکارڈ ماضی سے حال کے لوگوں تک صحت اور جامعیت کے پہنچابھی ہے یا نہیں۔ میں یہ بھی نہیں پوچھتا کہ اس ریکارڈ کی مدد سے الدین وضع کرنے کے لیے انسانیت کا نمائندہ کس ذہن کو بنایا جائے گا؟ ہیگل کے ذہن کو؟ مارکس کے ذہن کو؟ ارنسٹ ہیکل کے ذہن کو؟ یا کسی اور ذہن کو؟ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ماضی، حال یا مستقبل میں کس تاریخ تک کا ریکارڈ ایک الدین وضع کرنے کے لیے کافی مواد فراہم کرسکےگا؟ اس تاریخ کے بعد پیدا ہونے والے خوش قسمت ہیں، باقی رہے اس سے پہلے گذرجانے والے، تو ان کا بس اللہ ہی حافظ ہے۔ ║ مایوس کن نتیجہ یہ مختصر اشارات جو میں نے کئے ہیں، مجھے توقع ہے کہ میں نے ان میں کوئی علمی استدلالی غلطی نہیں کی ہے اور اگر انسان کے ذرائع کا جائزہ ، جو میں نے لیا ہے، صحیح ہے تو پھر ہمیں کوئی چیز اس یقین تک پہنچنے سے باز نہیں رکھ سکتی کہ انسان اپنے لیے کوئی کچھ پکا، غلط سلط وقتی اور مقامی دین تو وضع کرسکتا ہے، لیکن وہ چاہے کہ الدین وضع کرسکے تو یہ قطعی محال ہے۔ پہلے بھی محال تھا، آج بھی محال ہے اور آئندہ کے لیے بھی اس کےامکان سے پوری مایوسی ہے۔ اب اگر کوئی خدا رہنمائی کے لیے موجود نہیں ، جیسے کہ منکرین خدا کا خیال ہے، تو انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ خود کشی کرلے۔ جس مسافر کے لیے نہ کوئی رہنما موجود ہو اور نہ جس کے اپنے پاس راستہ معلوم کرنے کے ذرائع موجود ہوں، اس کے لیے یاس اور کامل یاس کے سوا کچھ مقدر نہیں۔ اس کا کوئی ہمدرد اس کےسوا اسے اور کیا مشورہ دے سکتا ہے کہ سر راہ ایک پتھر سے اپنی مشکل آسان کرلے اور اگر خدا ہے، لیکن رہنمائی کرنے والا خدا نہیں ہے، جیسا کہ بعض فلسفیانہ اور سائنٹفک طرز کے مثبتین خدا کا گمان ہے تو یہ اور بھی زیادہ افسوسناک صورت حال ہے۔ جس خدا نے موجودان عالم کی بقا و نشو و نما کے لیےہر اس چیز کی فراہمی کا انتظام کیا ہے جس کی ضرورت کا تصور کیا جاسکتا ہو، لیکن نہیں کیا تو صرف انسان کی سب سے بڑی ضرورت کا انتظام جس کے بغیر نوع کی زندگی غلط ہوئی جاتی ہے، اس کی بنائی ہوئی دنیا میں رہنا ایک مصیبت ہے، ایسی سخت مصیبت جس سے بڑھ کر کسی دوسری مصیبت کا تصور ممکن نہیں۔ آپ غریبوں اور مفلسوں، بیماروں اور زخمیوں، مظلوموں اور دکھی جنتاؤں کی مصیبت پر کیا روتے ہیں۔ روئیے اس پوری نوع کی مصیبت پر جو اس بے چارگی کے عالم میں چھوڑ دی گئی ہے کہ بار بار غلط تجربے کرکے ناکام ہوتی ہے۔ ٹھوکریں کھا کر گرتی ہے اور پھر اٹھ کر چلتی ہے تاکہ پھر ٹھوکر کھائے۔ہر ٹھوکر پر ملک کے ملک اور قوموں کی قومیں تباہ ہوجاتی ہیں، اس غریب کو اپنے مقصد زندگی تک کی خبر نہیں ہے، کچھ نہیں جانتی ہے کہ کاہے کے لیے سعی و عمل کرے اور کس ڈھنک پرکرے۔ یہ سب کچھ وہ خدا دیکھ رہا ہے، جو اسے زمین پر وجود میں لایا ہے مگر وہ بس پیدا کرنے سے مطلب رکھتا ہے، رہنمائی کی پروا نہیں کرتا۔ امید کی ایک ہی کرن اس تصویر کے بالکل برعکس قرآن ہمارے سامنے صورت حال کا ایک دوسرا نقشہ پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا محض پیدا کردینے والا ہی نہیں ہے، بلکہ رہنمائی برنے والا بھی ہے۔اس نے موجودات عالم میں ہر چیز کو وہ ہدایت بخشی ہے، جو اس کی فطرت کے لحاظ سے ان کے لیے ضروری ہے: }رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى { ’’ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت ، بخشی پھر اس کو راستہ بتایا‘‘طہ 50 اگر اس کا ثبوت چاہو تو جس چیونٹی، جس مکھی، جس مکڑی کو چاہو پکڑ کر دیکھ لو۔ وہی خدا انسان کی بھی رہنمائی کرنے والا ہے۔ لہذا انسان کے لیے صحیح طریقۂ کار یہ ہے کہ خود سری چھوڑ کر اس کے آگے سر تسلیم خم کردے اور جس جامع اور مکمل نظام زندگی یا الدین کی ہدایت اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجی ہے، اس کی پیروی اختیار کرے۔ دیکھیے ایک طرف تو وہ نتیجہ ہے جو انسان کی قوتوں اور اس کے ذرائع کا جائزہ لینے سے ہم کو حاصل ہوتا ہے اور دوسری طرف قران کایہ دعوی ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ یا تو اس دعوے کو قبول کریں یا پھر اپنے آپ کو مایوسی اور اس مایوسی کے حوالے کردیں جس کے اندھیرے میں برائے نام بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔دراصل صورت حال یہ ہے ہی نہیں کہ الدین حاصل ہونے کے دو وسیلے موجود ہوں اورسوال یہ ہو کہ ہم ان میں سے کس وسیلے سے مدد لیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ الدین جس وسیلے سے ہم کو مل سکتا ہے، وہ صرف ایک ہے اور انتخاب کا سوال صرف اس امر میں ہے کہ آیا ہم اس تنہا وسیلے سے مدد لیں، یا اس کی دستگیری کا فائدہ اٹھانے کے بجائے تاریکی میں بھٹکتے پھرنے کو ترجیح دیں۔ ║ قرآن کے دلائل یہاں تک جو استدلال میں نے کیا ہے، وہ تو ہم کومحض اس حد تک پہنچتا ہے کہ ہماری فلاح کے لیے قرآن کے اس دعوے کو قبول کئے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔یعنی بالفاظ دیگر کافر نتوانی شد ناچار مسلمان شو۔لیکن قرآن اپنے دعوے کی تائید میں جو دلائل پیش کرتا ہے، وہ اس سے بہت زیادہ اعلی و اشرف ہیں۔ کیونکہ وہ ہمیں بادل نخواستہ مسلمان ہونے کے بجائے برضا و رغبت مسلمان ہونے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس کی بہت سی دلیلوں میں چار سب سے زیادہ پرزور ہیں اور ان ہی کو اس نے بار بار بتکرار پیش کیاہے۔ (1) انسان کے لیے اسلام ہی ایک صحیح طریق زندگی ہے اس لیے کہ یہی حقیقت نفس الامری کے مطابق ہے اور اس کے سوا ہر دوسرا رویہ خلاف حقیقت ہے۔ } اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللّٰهِ يَبْغُوْنَ وَلَهٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ { اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم ) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟ (83)آل عمران (2) انسان کے لیے یہی ایک صحیح طریق زندگی ہے، کیونکہ یہی حق ہے اور ازروئے انصاف اس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہوسکتا۔ } اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 54 { درحقیقت تمہارا ربّ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ، پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے ۔ جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار رہو ! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار ۔ (54)الاعراف (3) انسان کے لیے یہی رویہ صحیح ہے ۔ کیونکہ تمام حقیقتوں کا صحیح علم صرف خدا کو ہے اور بے خطا ہدایت صرف وہی کرسکتا ہے۔ } اِنَّ اللّٰهَ لَا يَخْفٰى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ Ĉ۝ۭ { زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں۔ (5)آل عمران } يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ{ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے ، اُس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفتِ ادراک میں نہیں آسکتی اِلاّ یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے۔البقرۃ 255 } قُلْ اِنَّ ھُدَى اللّٰهِ ھُوَ الْهُدٰى { صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ البقرۃ 120 ║ (4) انسان کے لئے یہی ایک راہ راست ہے، کیونکہ اس کے بغیر عدل ممکن نہیں۔ اس کے سوا جس راہ پر بھی انسان چلے گا وہ بالآخر ظلم ہی کی طرف جائےگی۔ } وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ { اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔(229 البقرۃ } وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ 45 { اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔(المائدہ45 یہ دلائل ہیں جس کی بنا پر ایک معقول انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ کے آگے سر تسلیم خم کردے اور ہدایت کے لیےاس کی طرف رجوع کرے۔ خدائی ہدایت کے پرکھنے کا معیار اب آگے بڑھنے سے پہلے میں ایک سوال کاجواب دینا ضروری سمجھتا ہوں جو لازماً اس مرحلے پر پہنچ کر ہر شخص کے دل مین پیدا ہوتا ہے اور اپنی تحقیق کے دوران میں، خود میرے دل میں بھی پیدا ہوچکا ہے، وہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہر اس شخص کی بات مان لیں جو ایکدن ہمارے سامنے اس دعوی کے ساتھ پیش کردے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمارے پاس وہ کیا معیار ہے، جس سے ہم انسانی ساخت کے دین اور خدائی ہدایت کے دین میں فرق کرسکیں؟ اس کا جواب بڑی مفصل تحقیقی بحث چاہتا ہے، مگر میں یہاں مختصرا ًاشاروں میں وہ چار بڑے معیار بیان کروں گا ، جو انسانی فکر اور خدائی فکر کو ممیز کرتے ہیں۔ انسانی فکر کی پہلی اور اہم خصیوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی غلطی اور محدودیت کا اثر لازماً پایا جاتاہے۔اس کے برعکس خدائی فکر میں غیر محدود علم اور صحیح علم کی شان نمایاں ہوتی ہے، جو چیز خدا کی طرف سے ہوگی اس میں آپ ایسی کوئی چیز نہیں پاسکتے جو کبھی زمانے میں کسی ثابت شدہ علمی حقیقت کے خلاف ہو، یا جس کے متعلق یہ ثابت کیا جاسکے کہ اس کے مصنف کی نظر سے حقیقت کا فلاں پہلو چھوٹ اوجھل رہ گیا، مگر اس معیار تحقیق کو استعمال کرتے ہوئے یہ بات نہ بھول جائے کہ علم اور علمی قیاس اور نظریۂ علمی میں بڑا فرق ہے۔ ایک وقت میں جو علمی قیاسات اور علمی نظریات دماغوں پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں اکثر غلطی سے ان کو "علم" سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کے غلط ہونے کااتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے صحیح ہونے کا، اور تاریخِ علم میں ایسے بہت کم قیاسات و نظریات کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جو بالآخر "علم" ثابت ہوئے ہیں۔ انسانی فکر کی دوسری بڑی کمزوری نقطۂ نظر کی تنگی ہے۔ اس کے برخلاف خدائی فکر میں وسیع ترین نقطۂ نظر پایا جاتا ہے۔ جب آپ خدائی فکر سے نکلی ہوئی کسی چیز کو دیکھیں گے تو آپ کو ایسا محسوس ہوگا جیسے اس کامصنف ازل سے ابد تک دیکھ رہا ہے۔ تمام حقیقتوں کو بیک نگاہ دیکھ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں بڑے سے بڑے فلسفی اور مفکر کی فکر بھی ایک بچے کی فکر محسوس ہوگی۔ انسانی فکر کا تیسرا اہم خاصہ یہ ہے کہ اس میں حکمت و دانش ، جذبات و خواہشات کے ساتھ کہیں نہ کہیں سازباز اور مصالحت کرتی نظر آہی جاتی ہے۔ بہ خلاف اس کے خدائی فکر میں بے لاگ حکمت اور خالص دانشمندی کی شان اتنی نمایاں ہوتی ہے کہ اس کے احکام میں کہیں آپ جذباتی جھکاؤ کی نشاندہی نہیں کرسکتے۔ انسانی فکر کی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ نظام زندکی وہ خود تصنیف کرےگا۔ اس میں جانب داری، انسان اور انسان کے درمیان غیر عقلی امتیاز ، اور غیر عقلی بنیادوں ہی پر ترجیح بعض علی بعض کا عنصر لازماً پایا جائے گا۔ کیونکہ ہر انسان کی کچھ ذاتی دلچسپیاں ہوتی ہیں، جو بعض انسانوں کےساتھ وابستہ ہوتی ہیں اور بعض کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتیں۔ اس معیار پر آپ ہر اس نظام زندگی کو جانچ کر دیکھیے جو اپنے آپ کو خدا کی طرف سے الدین کہتا ہو۔ اگر وہ انسانی فکر کی ان تمام خصوصیات سے خالی ہو اور ║ پھرجامعیت اور ہمہ گیری کی شان بھی رکھتا ہو جو اس سے پہلے میں نے الدین کی ضرورت ثابت کرتے ہوئے بیان کی ہے ، تو کوئی وجہ نہیں کہ آپاس پر ایمان لانے میں تامل کریں۔ ایمان کے تقاضے اب مجھے اپنے خطبے کے بنیادی سوالات میں آخری سوال پرکچھ گفتگو کرنی ہے اور وہ یہ ہےکہ آدمی جب قرآن کے اس دعوے کو تسلیم کرلے اور اس الدین پر ایمان لے آئے جس کے من جانب اللہ ہونے کا اطمینان اسے حاصل ہوگیا ، تو اس کوتسلیم کرنے اور ایمان لانے کے مقتضیات کیا ہیں؟ میں ابتداء میں عرض کرچکا ہوں کہ اسلام کے معنی جھک جانے، سپر ڈال دینے، اپنے آپ کو سپرد کردینے کے ہیں۔ اس جھکاؤ، سپردگی اور سپر اندازی کے ساتھ خودرائی، خودمختاری اور فکر و عمل کی آزادی ہرگز نہیں نبھ سکتی۔ جس دین پر بھی آپ ایمان لائیں۔ آپ کو اپنی پوری شخصیت اس کے حوالے کردینی ہوگی، اپنی کسی چیز کو بھی آپ اس پیروی سے مستثنی نہیں کرسکتے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آپ کے دل اور دماغ کا دین ہو۔ آپ کی آنکھ اور کان کا دین ہو، آپ کے ہاتھ اور پاؤں کا دین ہو، اپ کے پیٹ اور دھڑ کا دین ہو، آپ کے قلم اور زبان کا دین ہو، آپ کے اوقات اور آپ کی محنتوں کا دین ہو، آپ کی سعی اور عمل کا دین ہو، آپ کی محبت اور نفرت کا دین ہو، آپ کی دوستی اور دشمنی کا دین ہو، غرض آپ کی شخصیت کا کوئی جز اور کوئی پہلوبھی اس دین سے خارج نہ ہو۔ جس چیز کو بھی جتنا اور جس حیثیت سے آپ اس دین کے احاطے سے باہر اور اس کی پیروی سے مستثنی رکھیں گے، سمجھ لیجیے کہ اسی قدر آپ کے دعوائے ایمان میں جھوٹ شامل ہے اور ہر راستی پسند انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کو جھوٹ سے پاک رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔ پھر یہ بھی میں ابتدا میں عرض کرچکا ہوں کہ انسانی زندگی ایک کل ہے جسے شعبوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا انسان کی پوری زندگی کا ایک ہی دین ہونا چاہیے۔ دو دو تین تین دینوں کی بیک وقت پیروی بجز اس کے کچھ نہیں کہ ایمان کے ڈانوا ڈول اور عقلی فیصلے کے مضطرب ہونے کاثبوت ہے۔ جب فی الواقع کسی دین کے الدین ہونے کا اطمینان آپ حاصل کرلیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو لازماً اس کو آپ کی زندگی کے تمام شعبوں کا دین ہونا چاہیے۔ اگر وہ شخصی حیثیت سے آپ کا دین ہے ، تو کوئی وجہ نہیں کہ وہی آپ کے گھر کا دین بھی نہ ہو، آپ کی تربیت اولاد کا، آپ کی تعلیم اور آپ کے مدرسے کا، آپ کے کاروبار اور آپ کی معاش کا، آپ کی مجلسی زندگی اور قومی طرز عمل کا، آپ کے کاروبار اور آپ کی معاش کا، اپ کی مجلسی زندگی اور قومی طرز عمل کا، آپ کے تمدن اور سیاست کا، آپ کے ادب اور آرٹ کادین بھی نہ ہو۔ جس طرح یہ بات محال ہے کہ ایک ایک موتی اپنی جگہ تو موتی ہو۔ مگر جب تسبیح کے رشتے میں بہت سے موتی منظم ہوں، تو سب مل کر دانۂ نخور بن جائیں۔اسی طرح یہ بات بھی میرے دماغ کو اپیل نہیں کرتی کہ انفرادی حیثیت سے تو ہم ایک دین کے پیرو ہوں، مگر جب اپنی زندگی کو منظم کریں ، تو اس منظم زندکی کا کوئی پہلو اس دین کی پیروی سے مستثنی رہ جائے۔ ان سب سے بڑھ کر ایمان کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ جس دین کے الدین ہونے پر آپ ایمان لے آئیں، اس کی برکتوں سے ابنائے نوع کو بہرہ ور کرنے کی کوشش کریں اور آپ کی تمام سعی و جدوجہد کا مرکز و محور یہ ہو کہ یہی الدین تمام دنیا کا دین بن جائے جس طرح حق کی فطرت یہ ہے کہ وہ غالب ہوکر رہنا چاہتا ہے، اسی طرح حق پرستی کی بھی یہ عین فطرت ہے کہ وہ حق کو جان لینے کے بعد باطل پر اسے غالب کرنے کی سعی کئے بغیر چین نہیں لے سکتی۔ جوشخص دیکھ رہا ہو کہ باطل ہر طرف زمین اور اس کے باشندوں پر چھایا ہوا ہے، اور پھر یہ منظر ، اس کے اندر کوئی بےکلی، کوئی چبھن، کوئی تڑپ پیدا نہیں کرتا، اس کے دل میں اگر حق پرستی ہے بھی تو سوئی ہوئی ہے۔ اسے فکر کرنی چآہیے کہ یہ نیند کا سکوت کہیں موت کے سکوت میں تبدیل نہ ہوجائے۔