~نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا عقلی ثبوت تھوڑی دیر کے لئے جسمانی آنکھیں بند کرکے تصور کی آنکھیں کھول لیجیے اور ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دنیا کی حالت پر نظرڈالیے۔یہ کیسی دنیا تھی؟ انسان اور انسان کے درمیان تبادلۂ خیال کے وسائل کس قدر کم تھے۔ قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلق کے ذرائع کتنے محدود تھے۔ انسان کی معلومات کس قدر کم تھیں۔اس کے خیالات کس قدر تنگ تھے۔ اس پر وہم اور توحش کا کس قدر غلبہ تھا۔ جہالت کے اندھیرے میں علم کی روشنی کتنی دھندلی تھی اور اس اندھیرے کو دھکیل دھکیل کر کتنی دقّتوں کے ساتھ پھیل رہی تھی۔ دنیا میں نہ تار تھا، نہ ٹیلیفون تھا، نہ ریڈیو تھا، نہ ریل اور ہوئی جہاز تھے، نہ مطابع اور اشاعت خانے تھے، نہ مدرسوں اور کالجوں کی کثرت تھی، نہ اخبارات اور رسالے شائع ہوتے تھے، نہ کتابیں کثرت سے لکھی جاتی تھیں، نہ کثرت سے ان کی اشاعت ہوتی تھی۔ اس زمانے کے ایک عالم کی معلومات بھی بعض حیثیات سے موجودہ زمانے کے ایک عامی کی بہ نسبت کم تھیں۔ اس زمانے کی اونچی سوسائٹی کا آدمی بھی موجودہ زمانے کے ایک مزدور کی بہ نسبت کم شائستہ تھا۔ اس زمانے کا ایک نہایت روشن خیال آدمی بھی آج کل کے تاریک خیال آدمی سے زیادہ تاریک خیال تھا۔ جو باتیں آج ہرکس و ناکس کو معلوم ہیں وہ اس زمانے میں برسوں کی محنت اور تلاش و تحقیق کے بعد بھی بہ مشکل معلوم ہوسکتی تھیں۔جو معلومات آج روشنی کی طرح فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہر بچے کو ہوش سنبھالتے ہی حاصل ہوجاتی ہیں ان کےلئے اس زمانے میں سینکڑوں میل کے سفر کیے جاتے تھے اور عمریں ان کی جستجو میں بیت جاتی تھیں۔ جن باتوں کو آج اوہام و خرافات سمجھا جاتا ہے وہ اس زمانے کے "حقائق" تھے۔ جن افعال کو آج ناشائستہ اور وحشیانہ کہا جاتا ہے وہ اس زمانے کے عام معمولات تھے۔جن طریقوں سے آج انسان کا ضمیر نفرت کرتا ہے وہ اس زمانے کے اخلاقیات میں نہ صرف جائز تھے بلکہ کوئی شخص یہ خیال بھی نہ کرسکتا تھا کہ ان کے خلاف بھی کوئی طریقہ ہوسکتا ہے۔ انسان کی عجائب پرستی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ ہو کسی چیز میں اس وقت تک کوئی صداقت ، کوئی بزرگی، کوئی پاکیزگی تسلیم ہی نہ کرسکتا تھا جب تک کہ وہ فوق الفطرت نہ ہو، خلافِ عادت نہ ہو، غیر معمولی نہ ہو۔ حتی کہ انسان خود اپنے آپ کو اس قدر ذلیل سمجھتا تھا کہ کسی انسان کا خدا رسیدہ ہونا اور کسی خدا رسیدہ ہستی کا انسان ہونا اس کے تصور کی رسائی سے بہت دور تھا۔ اس تاریک دور میں زمین کا ایک گوشہ ایسا بھی تھا جہاں تاریکی کا تسلط اور بھی زیادہ بڑھا ہوا تھا۔ جو ممالک اس زمانے کے معیارِ تمدّن کے لحاظ سے متمدّن تھے ان کے درمیان عرب کا ملک سب سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد ایران ، روم ، اور مصر کے ملکوںمیں علوم و فنون اور تہذیب و شائستگی کی کچھ روشنی پائی جاتی تھی، مگر ریت کے بڑے بڑے سمندروں نے عرب کو ان سے جدا کررکھا تھ۔ عرب سوداگر اونٹوں پر مہینوں کی راہ طے کرکے ان ملکوں میں تجارت کے لیے جاتے تھے اور صرف اموال کا مبادلہ کرکے واپس آجاتے تھے۔عل و تہذیب کی کوئی روشنی ان کے ساتھ نہ آتی تھی۔ ان کے ملک میں گنتی کے چند آدمی تھے جنھیں کچھ لکھنا پڑھنا آتا تھا، مگر وہ بھی اتنا نہیں کہ اس زمانے کے علوم و فنون سے آشنا ہوتے۔ ان کے پاس ایک درجے کی زبان ضرور تھی جس میں بلند خیالات کو ادا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ ان میں بہترین ادبی مذاق بھی موجود تھا۔ مگر ان کے لٹریچر کے جو کچھ باقیات ہم تک پہنچے ہیں ان کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی معلومات کس قدر محدود تھیں، تہذیب و تمدّن میں ان کا درجہ کس قدر پست تھا، ان پر اوہام کا کس قدر غلبہ تھا، ان کے خیالات اور ان کی عادات میں کتنی جہالت اور وحشت تھی، ان کے اخلاقی تصورات کتنے بھدّے تھے۔ وہاں کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی۔ کوئی ضابطہ اور قانون نہ تھا۔ ہر قبیلہ اپنی جگہ خود مختار تھا اور صرف "جنگل کے قانون " کی پیروی کی جاتی تھی، جس کا جس پر بس چلتا اسے مارڈالتا اور اس کے مال پر قابض ہوجاتا۔ یہ بات ایک عرب بدوی کے فہم سے بالاتر تھی کہ جو شخص اس کے قبیلہ کا نہیں ہے اسے وہ کیوں نہ مارڈالے اور اس کے مال پر کیوں نہ متصرف ہوجائے۔ ║اخلاق اور تہذیب و شائستگی کے جو کچھ بھی تصورات ان لوگوں میں تھے وہ نہایت ادنی اور سخت ناتراشیدہ تھے۔ پاک اور ناپاک، جائز اور ناجائز ، شائستہ اور ناشائستہ کی تمیز سے و ہ تقریباً نا آشنا تھے۔ ان کی زندگی نہایت گندی تھی۔ ان کے طریقے وحشیانہ تھے۔ زنا، جوا،شراب، چوری، رہزنی اور قتل و خوں ریزی ان کی زندگی کے معمولات تھے۔ وہ ایک دوسرے کے سامنے بے تکلف برہنہ ہوجاتے تھے۔ ان کی عورتیں تک ننگی ہوکر کعبہ کا طواف کرتی تھیں۔ وہ اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھ سے زندہ دفن کردیتے تھے، محض اس جاہلانہ خیال کی بنا پر کہ کوئی ان کا داماد بنے۔ وہ اپنے باپوں کے مرنے کے بعد اپنی سوتیلی ماؤں سے نکاح کرلیتے تھے۔ انھیں کھانے اور لباس اور طہارت کے معمولی آداب تک معلوم نہ تھے۔ مذہب کے باب میں وہ ان تمام جہالتوں اور ضلالتوں کے حصہ دار تھے، جن میں اس زمانے کی دنیامبتلا تھی۔ بت پرستی، ارواح پرستی، کواکب پرستی، غرض ایک خدا کی پرستش کے سوا اس وقت دنیا میں جتنی "پرستیاں" پائی جاتی تھیں وہ سب ان میں رائج تھیں۔ انبیائے قدیم اور ان کی تعلیمات کے متعلق کوئی صحیح علم ان کے پاس نہ تھا۔ وہ اتنا ضرور جاتے تھے کہ ابراہیژ علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام ان کے باپ ہیں مگر یہ نہ جانتے تھے کہ ان دونوں باپ بیٹوں کا دین کیا تھا اور وہ کس کی عبادت کرتے تھے۔عاد اور ثمود کے قصے بھی ان میں مشہور تھے، مگر ان کی جو روایتیں عرب کے مؤرخین نے نقل کی ہیں، ان کو پڑھ جائيے، کہیں آپ کو صالح اور ہود علیہم السلام کی تعلیمات کا نشان نہ ملے گا۔ ان کو یہودیوں اور عیسائیوں کے واسطے سے انبیائے بنی اسرائيل کی کہانیاں بھی پہنچی تھیں، مگر وہ جیسی کچھ تھیں ان کا اندازہ کرنے کے لیے صرف ایک نظر ان اسرائيلی روایات پر ڈال لینا کافی ہے جو مفسرینِ اسلام نے نقل کی ہیں۔آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اہلِ عرب اور خود بنی اسرائیل جن انبیاء سے واقف تھے وہ کیسے انسان تھے اور نبوت کے متعلق ان لوگوں کا تصور کس قدر گھٹیا درجے کا تھا۔ ایسے زمانے میں ، ایسے ملک میں، ایک شخص پیدا ہوتا ہے۔ بچپن ہی میں ماں باپ اور دادا کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جاتا ہے اس لیے اس گئی گزری حالت میں ایک عرب بچے کو جو تھوڑی بہت تربیت مل سکتی تھی وہ بھی اس کو نہیں ملتی۔ ہوش سنبھالتے ہے تو بدوی لڑکوں کے ساتھ بکریاں چرانے لگتا ہے۔جوان ہوتا ہے تو سوداگری میں لگ جاتا ہے۔ اٹھنابیٹھنا، ملنا جلنا، سب کچھ انہی عربوں کے ساتھ ہےجن کا حال اوپر آپ نے دیکھ لیا۔ تعلیم کا نام تک نہیں ، حتّٰی کہ پڑھنا لکھنا تک نہیں آتا۔ کسی عالم کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی کہ "عالم" کو وجود اس وقت تمام عرب میں کہیں نہیں تھا۔ چند مرتبہ اسے عرب سے باہر قدم نکالنے کا اتفاق ضرور ہوا مگر یہ سفر صرف شام کے علاقے تک تھے، اور ویسے ہی تجارتی سفر تھے جیسے اس زمانے میں عرب کے تجارتی قافلے کیا کرتے تھے۔بالفرض اگر ان اسفار کے دوران میں اس نے کچھ آثار ِ علم و تہذیب کا مشاہدہ کیا اور کچھ اہلِ علم سے ملاقات کا اتفاق بھی ہوا ہو تو ظاہر ہے ایسے منتشر مشاہدات اور ایسی ہنگامی ملاقاتوں سے کسی انسان کی سیرت نہیں بن جاتی۔ان کا اثر کسی شخص پر اتنا زبردست ہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے ماحول سے بالکل آزاد، بالکل مختلف، اور اتنا بلند ہوجائے کہ اس میں اور اس کے ماحول میں کچھ نسبت ہی نہ رہے۔ ان سے ایسا علم حاصل ہونا ممکن نہیں ہے جو ایک ان پڑھ بدوی کو ایک ملک کا نہیں، تمام دنیا کا ، اور ایک زمانے کا نہیں، تمام زمانوں کا لیڈر بنادے۔ اگر کسی درجہ میں اس نے باہر کے لوگوں سے علمی استفادہ کیا بھی ہو تو جو معلومات اس وقت دنیا میں کسی کو حاصل ہی نہ تھیں ، مذہب، اخلاق، تہذیب اور تمدّن کے جو تصوّرات اور اصول اس وقت دنیا میں کہیں موجود ہی نہ تھے، انسانی سیرت کے جو نمونے اس وقت کہیں پائے ہی نہیں جاتے تھے ، ان کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا تھا۔ صرف عرب ہی کا نہیں تمام دنیا کا ماحول پیش نظر رکھیے اور دیکھیے ۔ یہ شخص جن لوگوں میں پیدا ہوا، جن میں بچپن گزارا، جن کے ساتھ پل کر جوان ہوا، جن سے اس کا میل جول رہا، جن سے اس کے معاملات رہے، ابتدا ہی سے عادات میں، اخلاق میں، وہ ان سب سے مختلف نظر آتا ہے۔ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس کی صداقت پر اس کی ساری قوم گواہی دیتی ہے۔ اس کے کسی بدترین دشمن نے بھی کبھی اس پر یہ الزام نہیں لگایا کہ وہ فلاں موقع پر جھوٹ بولا تھا۔ وہ کسی سے بدکلامی نہیں کرتا۔ کسی نے اس کی زبان سے کبھی ║گالی یا کوئی فحش بات نہیں سنی۔ وہ لوگوں سے ہر قسم کے معاملات کرتا ہے، مگر کبھی کسی سے تلخ کلامی اور تو تو میں میں کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس کی زبان میں سختی کے بجائے شیرینی ہے اور وہ بھی ایسی کہ جو اس سے ملتا ہے گرویدہ ہوجاتا ہے۔ وہ کسی سے بدمعاملگی نہیں کرتا۔ کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔ برسوں سوداگری کا پیشہ کرنے کے باوجود کسی کا ایک پیسہ بھی ناجائز طریقہ سے نہیں لیتا۔ جن لوگوں سے اس کے معاملات پیش آتے ہیں وہ سب اس کی ایمان داری پر کامل بھروسا رکھتے ہیں۔ساری قوم اس کو "امین" کہتی ہے۔ دشمن تک اس کے پاس اپنے قیمتی مال رکھواتے ہیں اور وہ ان کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ بے حیا لوگوں کے درمیان وہ ایسا حیادار ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد کسی نے اس کو برہنہ نہیں دیکھا۔ بد اخلاق لوگوں کے درمیان وہ ایسا پاکیزہ اخلاق ہے کہ کبھی کسی بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتا، شراب اور جوئے کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ ناشائستہ لوگوں کے درمیان وہ ایسا شائستہ ہے کہ ہر بدتمیزی اور گندگی سے نفرت کرتا اور اس کے ہرکام میں ستھرائی اور پاکیزگی پائی جاتی ہے۔ سنگادلوں کے درمیان وہ ایسا نرم دل ہے کہ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرتا ہے، مسافروں کی میزبانی کرتا ہے، کسی کو اس سے دکھ نہیں پہنچتا اور دو دوسروں کی خاطر دکھ اٹھاتا ہے۔ وحشیوں کے درمیان وہ ایسا صلح پسند ہے کہ اپنی قوم میں فساد اور خوں ریزی کی گرم بازاری دیکھ کر اس کو اذیت ہوتی ہے، اپنے قبیلہ کی لڑائیوں سے دامن بچاتا ہے اور مصالحت کی کوششوں میں پیش پیش رہتا ہے۔بت پرستوں کے درمیان وہ ایسا سیلم الفطرت اور صحیح العقل ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی چیز اسے پوچنے کے لائق نظر نہیں آتی، کسی مخلوق کے آگے اس کا سر نہیں جھکتا، بتوں کے چڑھاوے کا کھانا بھی وہ قبول نہیں کرتا، اس کا دل خود بخود شرک اور مخلوق پرستی سے نفرت کرتا ہے۔ اس ماحول میں یہ شخص ایسا ممتاز نظر آتا ہے کہ جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک شمع روشن ہے، یا پتھروں کے ڈھیر میں ایک ہیرا چمک رہا ہے۔ تقریباًچالیس سال تک ایسی پاک ، صاف، شریفانہ زندگی بسر کرنے کے بعد اس کی زندگی میں ایک انقلاب شروع ہوتا ہے۔ وہ اس تاریکی سے گھبرا اٹھتا ہے جس اس کو ہر طرف سے محیط نظر آرہی ہے۔ وہ جہالت ، بداخلاقی، بدکرداری ، بدنظمی، شرک اور بت پرستی کے اس ہولناک سمندر سے نکل جانا چاہتا ہے، جو اس کو گھیرے ہوئے تھا۔اس ماحول میں کوئی چیز بھی اس کو اپنی طبیعت کے مناسب نظر نہیں آتی۔ وہ سب سے الگ ہوکر آبادی سے دور پہاڑوں کی صحبت میں جا جا کر بیٹھنے لگتا ہے۔ تنہائی اور سکون کے عالم میں کئی کئی دن گزارتا ہے۔ روزے رکھ رکھ کر اپنی روح اور اپنے دل و دماغ کو اور زیادہ پاک صاف کرتا ہے۔ سوچتا ہے، غور و فکر کرتا ہے، کوئی ایسی روشنی ڈھونڈتا ہے، جس سے وہ اس چاروں طرف چھائی ہوئی تاریکی کو دورکردے۔ایسی طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے ، جس سے اس بگڑی ہوئی دنیا کو توڑ پھوڑ کر پھر سنواردے۔ یکایک اس کی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر رونما ہوتا ہے ۔ ایک دم سے اس کے دل میں وہ روشنی آجاتی ہے جو پہلے اس میں نہ تھی۔ اچانک اس کے اندر و ہ طاقت بھرجاتی ہے ، جس سے وہ اس وقت تک خالی تھا۔ وہ غار کی تنہائی سے نکل آتا ہے۔ اپنی قوم کے پاس آتا ہے ۔ اس سے کہتا ہے کہ یہ بت جن کے آگے تم جھکتے ہو، یہ سب بے حقیقت چیزین ہیں انھیں چھوڑدو۔ کوئی انسان، کوئی درخت، کوئی پتھر، کوئی روح، کوئی سیارہ اس قابل نہیں کہ تم اس کے آگے سر جھکاؤ، اس کی بندگی و عبادت کرو اور اس کی فرماں برداری و اطاعت کرو۔ یہ زمین، یہ چاند، یہ سورج، یہ ستارے، یہ زمین اور آسمان کی ساری چیزیں ایک خدا کی مخلوق ہیں۔ وہی تمہارا اور اس سب کا پیدا کرنے والا ہے۔اسی کی بندگی کرو، اسی کا حکم مانو اور اسی کے آگے سرجھکاؤ۔ یہ چوری ، یہ لوٹ مار، یہ قتل و غارت، یہ ظلم و ستم، یہ بدکاریاں جو تم کرتے ہو، سب گناہ ہیں، انھیں چھوڑدو۔ خدا انھیں پسند نہیں کرتا۔ سچ بولو، انصاف کرو، نہ کسی کی جان لو، نہ کسی کا مال چھینو۔ جو کچھ لو حق کے ساتھ لو، جو کچھ دو حق کے ساتھ دو۔ تم سب انسان ہو۔ انسان اور انسان سب برابر ہیں۔ نہ کوئی ذلّت کا داغ لے کر پیدا ہوا اور نہ کوئی عزت کا تمغہ لے کر دنیا میں آیا۔ بزرگی اور شرف نسل اور نسب میں نہیں، صرف خدا پرستی اور نیک اور پاکیزگی میں ہے۔ جو خدا سے ڈرتا ہے اور نیک اور پاک ہے وہی اعلیٰ درجہ کا انسان ہے، اور جو ایسا نہیں وہ کچھ بھی نہیں۔مرنے کے بعد تم سب کو اپنے خدا کے پاس حاضر ہونا ہے۔ تم میں سے ہر ہر شخص اپنے اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے، اس خدا کے سامنے جو سب دیکھتا اور سنتا ہے۔ تم کوئی چیز اس سے نہیں چھپا سکتے۔تمہاری زندگی کا کارنامہ اس کے سامنے جو سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے۔ ║تم کوئی چیز اس سے نہیں چھپا سکتے۔ تمہاری زندگی کا کارنامہ اس کے سامنے بے کم و کاست پیش ہوگا اور اسی کارنامے کے لحاظ سے وہ تمہارے انجام کا فیصلہ کرے گا اس عادل حقیقی کے ہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی، نہ رشوت چلے گی، نہ کسی کا نسب پوچھا جائے گا۔ وہاں صرف ایمان اور نیک عمل کی پوچھ ہوگی، جس کے پاس یہ سامان ہوگا وہ جنت میں جائے گا اور جس کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہ ہوگا وہ نامراد دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ یہ تھا وہ پیغام جسے لے کر وہ غار سے نکلا۔ جاہل قوم اس کی دشمن ہوجاتی ہے۔ گالیاں دیتی ہے۔ پتھر مارتی ہے۔ ایک دو دن نہیں اکٹھے تیرہ برس تک اس پر سخت ظلم توڑتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے وطن سے نکال باہر کرتی ہے۔ اور پھر نکالنے پر بھی دم نہیں لیتی، جہاں وہ جاکر پناہ لیتا ہے وہاں بھی اسے ہر طرح ستاتی ہے ۔ تمام عرب کو اس کے خلاف ابھاردیتی ہے اور کامل آٹھ برس اس کے خلاف برسرِ پیکار رہتی ہے۔ وہ ان سب تکلیفوں کو سہتا ہے مگر اپنی بات سے نہیں ٹلتا۔ یہ قوم اس کی دشمن کیوں ہوئی؟ کیا زر اور زمین کا کوئی جھگڑا تھا؟ کیا خون کا کوئی دعویٰ تھا؟ کیا وہ ان سے دنیا کی کوئی چیز مانگ رہا تھا؟ نہیں ساری دشمنی صرف اس بات پر تھی کہ وہ ایک خدا کی بندگی اور پرہیزگاری اور نیکوکاری کی تعلیم کیوں دیتا ہے، بت پرستی اور شرک اور بدعملی کے خلاف تبلیغ کیوں کرتا ہے، پجاریوں اور پروہتوں کی پیشوائی پر کیوں ضرب لگاتا ہے، سرداروں کی سرداری کا طلسم کیوں توڑتا ہے، انسان اور انسان کے درمیان سے اونچ نیچ کا فرق کیوں مٹانا چاہتا ہے، قبائلی اور نسلی تعصّبات کو جاہلیت کیوں قرار دیتا ہے، زمانۂ قدیم سے سوسائٹی کا جو نظام بندھا چلا آرہا ہے اسے کیوں توڑنا چاہتا ہے۔ قوم کہتی ہے کہ یہ باتیں جو تو کہہ رہا ہے، یہ سب خاندانی روایات اور قومی طریقہ کے خلاف ہیں۔ تو ان کو چھوڑدے ورنہ ہم تیرا جینا مشکل کردیں گے۔ اچھا تو اس شخص نے یہ تکلیفیں کیوں اٹھائیں؟ قوم اس کو بادشاہی دینے پر آمادہ تھی، دولت کے ڈھیر اس کے قدموں میں ڈالنے کو تیار تھی، بشرطیکہ وہ اپنی اس تعلیم سے باز آجائے۔ مگر اس نے ان سب کو ٹھکرادیا اور اپنی تعلیم کی خاطر پتھر کھانا اور ظلم سہنا قبول کیا۔ یہ آخر کیوں؟کیا ان کے خدا پرست اور نیکو کار بن جانے میں اس کا کوئی ذاتی فائدہ تھا؟ کیا کوئی ایسا فائدہ تھا، جس کے مقابلے میں ریاست اور امارت اور دولت اور عیش کے سارے لالچ بھی ناقابل ِ التفات تھے؟ کیا کوئی ایسا فائدہ تھا، جس کی خاطر ایک شخص سخت سے سخت جسمانی اور روحانی اذیتوں میں مبتلا ہونا اور کامل ۲۱ سال مبتلا رہنا بھی گوارا کرسکتا ہو؟غور کرو ! کیا نیک نفسی، ایثار اور ہمدردئِ بنی نوع کا اس سے بھی بلند تر کوئی مرتبہ تمہارے تصور میں آسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی فائدہ کی خاطر نہیں ، دوسروں کے بھلے کی خطر تکلیفیں اٹھائے؟ جن کی بھلائی اور بہتری کے لے وہ کوشش کرتا ہے وہی اس کو پتھر ماریں، گالیاں دیں، گھر سے بے گھر کردیں،غریب الوطنی میں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑیں ، اور ان سب باتوں پر بھی وہ ان کا بھلا چاہنے سے باز نہ آئے۔ پھر دیکھو! کیا کوئی جھوٹا شخص کسی بے اصل بات کے پیچھے ایسی مصیبتیں برداشت کرسکتا ہے؟ کیا کوئی تیر تکے لڑانے والا انسان محض گمان اور قیاس سے کوئی بات کہہ کر اس پر اتنا جم سکتا ہےکہ مصیبتوں کے پہاڑ اس پر ٹوٹ جائیں، زمین اس پر تنگ کردی جائے، تمام ملک اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، بڑی بڑی فوجیں اس پر امنڈ امنڈکر آئیں، مگر وہ اپنی بات سے یک سرِ مو ہٹنے پر آمادہ نہ ہو؟ یہ استقامت، یہ عزم، یہ ثبات، خود گواہی دے رہا ہے کہ اس کو اپنی صداقت پر یقین اور کامل یقین تھا۔ اگر اس کے دل میں شک اور شبہ کا ادنٰی شائبہ بھی ہوتا تو وہ مسلسل ۲۱ سال تک مصائب کے ان پے در پے طوفانوں کے مقابلے میں کبھی نہ ٹھیر سکتا۔ یہ اس شخص کے انقلابِ حال کا ایک پہلو تھا۔ دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔ ║چالیس برس کی عمر تک وہ ایک عرب تھا، عام عربوں کی طرح۔ اس دوران میں کسی نے اس سوداگر کو ایک خطیب ، ایک جادو بیان مقرر کی حیثیت سے نہ جانا۔ کسی نے اس کو حکمت اور دانائی کی باتیں کرتے نہ سنا۔ کسی نے اس کو الٰہیات او ر فلسفۂ اخلاق اور قانون اور سیاسیات اور معاشیات اور عمرانیات کے مسائل پر بحث کرنے نہ دیکھا۔کسی نے اس سے خدا اور ملائکہ اور آسمانی کتابوں اور پچھلے انبیاء اور امم ِ قدیمہ اور قیامت اور حیات بعدالموت اور دوزخ جنت کے متعلق ایک لفظ بھی نہ سنا۔ وہ پاکیزہ اخلاق، شائستہ اطوار اور بہترین سیرت تو ضرور رکھتا تھا، مگر چالیس برس کی عمر کو پہنچنے تک اس کی ذات میں کوئی بھی غیر معمولی بات نہ پائی گئی، جس سے لوگ متوقع ہوتے کہ یہ شخص اب کچھ بننے والا ہے۔ اس وقت تک جاننے والے اس کو محض ایک خاموش، امن پسند اور نہایت شریف انسان کی حیثیت سے جانتے تھے۔ مگر چالیس برس کے بعد جب وہ اپنے غار سے ایک نیا پیغام لے کے نکلا تو یک لخت اس کی کایا ہی پلٹی ہوئی تھی۔ اب وہ ایک حیرت انگیز کلام سنا رہاتھا جس کو سن کر سارا عرب مبہوت ہوگیا۔اس کلام کی شدّتِ تاثیر کا یہ حال تھا کہ اس کٹّر دشمن بھی اس کو سنتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں یہ دل میں نہ اتر جائے۔ اس کی فصاحت و بلاغت اور زورِ بیان کا یہ عالم تھا کہ تمام قومِ عرب کو جس میں بڑے بڑے شاعر، خطیب اور زبان آوری کے مدّعی موجود تھے، اس نے چیلنج دیا اور بار بار چیلنج دیا کہ تم سب مل کر ایک ہی سورۃ اس کے مانند بنا لاؤ۔ مگر کوئی اس کے مقابلہ کی جراءت نہ کرسکا۔ ایسا بے مثل کلام کبھی عرب کے کانوں نے سناہی نہ تھا۔ اب یکایک وہ ایک بے مثل حکیم، ایک لاجواب مصلحِ اخلاق و تمدّن، ایک حیرت انگیز ماہر سیاست، ایک زبردست مقنّن، ایک اعلیٰ درجہ کا جج، ایک بے نظیر سپہ سالار بن کا ظاہر ہوا۔ اس ان پڑھ صحر نشین نے حکمت اور دانائی کی وہ باتیں کہنی شروع کردیں جو نہ اس سے پہلے کسی نے کہی تھیں، نہ اس کے بعد کوئی کہہ سکا۔وہ امیّ الٰہیاّت کے عظیم الشان مسائل پر فیصلہ کن تقریریں کرنے لگا۔ تاریخ ِ اقوام سے عروج و زوالِ اُمم کے فلسفہ پر لکچر دینے لگا۔ پرانے مصلحین کے کارناموں پر تبصرے اور مذاہب عالم پر تنقید اور اختلافاتِ اقوام کے فیصلے کرنے لگا۔ اخلاق اور تہذیب اور شائستگی کا درس دینے لگا۔ اس نے معاشرت اور معیشت اور اجتماعی معاملات اور بین الاقوامی تعلقات کے متعلق قوانین بنانے شروع کردئے اور ایسے قوانین بنائے کہ بڑے بڑے علماء اور عقلاء غور و خوض اور عمر بھر کے تجربات کے بعد بہ مشکل ان کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں، اور دنیا کے تجربات جتنے بڑھتے جاتے ہیں، ان کی حکمتیں اور زیادہ کھلتی جاتی ہیں۔ وہ خاموش پر امن سوداگر، جس نے تمام عمر کبھی تلوار نہ چلائی تھی، کبھی کوئی فوجی تربیت نہ پائی تھی ، حتّٰی کہ جو عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ ایک لڑائی میں محض ایک تماشائی کی حیثیت سے شریک ہوا تھا، دیکھتے دیکھتے وہ ایک ایسا بہادر سپاہی بن گیا جس کا قدم سخت سے سخت معرکوں میں بھی اپنے مقام سے ایک انچ نہ ہٹا۔ ایسا زبردست جنرل بن گیا جس نے ۹ سال کے اندر تمام ملکِ عرب کو فتح کرلیا۔ ایسا حیرت انگیز ملٹری لیڈر بن گیا کہ اس کی پیدا کی ہوئی فوجی تنظیم اور جنگی روح کے اثر سے بے سروسامان عربوں نے چند سالوں میں دنیا کی دو عظیم الشان فوجی طاقتوں کو الٹ کر رکھ دیا۔ وہ الگ تھلگ رہنے والا سکون پسند انسان، جس کے اندر کسی نے چالیس برس تک سیاسی دل چسپی کی بو بھی نہ پائی تھی، یکایک اتنا زبردست ریفارمر اور مدبر بن کر ظاہر ہوا کہ ۲۳ سال کے اندر اس نے ۱۲ لاکر مربّع میل میں پھیلے ہوئے ریگستان کے منتشر ، جنگجو، جاہل ، سرکش، غیر متمدّن اور ہمیشہ آپس میں لڑنے والے قبائل کو ، ریل اور تار اور ریڈیو اور پریس کی مدد کے بغیر ، ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک قانون اور نظامِ حکومت کا تابع بنادیا۔اس نے ان کے خیالات بدل دئیے۔ ان کے خصائل بدل ديئے۔ ان کے اخلاق بدل دیئے۔ ان کی ناشائستگی کو صلاح و تقویٰ اور مکارمِ اخلاق میں، ان کی سرکشی اور انارکی کو انتہا درجہ کی پابند ِ قانون اور اطاعتِ امر میں تبدیل کردیا۔ اس بانجھ قوم کو، جس کی گود میں ║صدیوں سے کوئی ایک بھی قابل ِ ذکر انسان پیدا نہ ہوا تھا، اس نے ایسا مردم خیز بنایا کہ اس میں ہزار ہزار اعاظم ِ رجال اٹھ کھڑے ہوئے اور دنیا کو دین اور اخلاق اور تہذیب کا درس دینے کے لئے چار دانگِ عالم میں پھیل گئے۔ اور یہ کام اس نے ظلم اور جبر ، دغا اور فریب سے انجام نہیں دیا بلکہ دل موہ لینے والے اخلاق اور روحوں کو مسخر کرلینے والی شرافت اور دماغوں پر قبضہ کرلینے والی تعلیم سے انجام دیا۔ اس نے اپنے اخلاق سے دشمنوں کو دوست بنایا۔ رحم اور شفقت سے دلوں کو موم کیا۔ عدل اور انصاف سے حکومت کی۔ حق اور صداقت سے کبھی یک سرِ مو انحراف نہ کیا۔جنگ میں بھی کسی سے بدعہدی اور دغا نہ کی۔ اپنے بدترین دشمنوں پر بھی ظلم نہ کیا۔ جو اس کے خون کے پیاسے تھے، جنھوں نے اس کو پتھر مارے تھے، اس کو وطن سے نکالا تھا، اس کے خلاف تمام عرب کو کھڑا کردیا تھا، حتّٰی کہ جنھوں نے جوش عداوت میں اس کے چچا کا کلیجہ تک نکال کر چبا ڈالا تھا، ان کو بھی اس نے فتح پاکر بخش دیا۔ اپنی ذات کے لئے کبھی اس نے کسی سے بدلہ نہ لیا۔ ان سب باتوں کے ساتھ اس کے ضبطِ نفس بلکہ بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ تمام ملک کا بادشاہ ہوگیا اس وقت بھی وہ جیسا فقیر پہلے تھا ویسا ہی فقیر رہا۔ پھونس کے چھپر میں رہتا تھا۔ بوریے پر سوتا تھا۔موٹا جھوٹا پہنتا تھا۔ غریبوں کی سی غذاکھاتا تھا۔ فاقے تک کر گزرتا تھا۔ رات رات بھر اپنے خد کی عبادت میں کھڑا رہتا تھا۔ غریبوں اور مصیبت زدوں کی خدمت کرتا تھا۔ ایک مزدور کی طرح کام کرنے میں بھی اسے تامل نہ تھا۔ آخر وقت تک اس کے اندر شاہانہ تمکنت اور امیرانہ ترفّع اور بڑے آدمیوں کے سے تکبر کی ذرا سی بو بھی پیدا نہ ہوئی۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح لوگوں سے ملتا تھا۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا تھا۔ عوام کے درمیان اس طرح بیٹھتا تھا کہ اجنبی آدمی کو یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا تھا کہ اس محفل میں قوم کا سردار اور ملک کا بادشاہ کون ہے۔ اتنا بڑا آدمی ہونے کے باوجود چھوٹے سے چھوٹے آدمی کے ساتھ بھی ایسا برتاؤ کرتا تھا کہ گویا اسی جیسا ایک انسان ہے۔ تمام عمر کی جدوجہد میں اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اپنا پورا ترکہ اپنی قوم پر وقف کردیا۔ اپنے پیروؤں پر اس نے اپنے یا اپنی اولاد کے کچھ بھی حقوق قائم نہ کئے ۔ حتّٰی کہ اپنی اولاد کو زکٰوۃ لینے کے حق سے بھی محروم کردیا ۔ محض اس خوف سے کہ کہیں آگے چل کر اس کے پیرو اس کی اولاد ہی کو ساری زکٰوۃ نہ دینے لگ جائیں۔ ابھی اس عظیم الشان آدمی کے کمالات کی فہرست ختم نہیں ہوئی۔ اس کے مرتبہ کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے آپ کو تاریخ ِ عالم پر بہ حیثیت ِ مجموعی ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ آپ دیکھیں گے کہ صحرائے عرب کا یہ ان پڑھ بادیہ نشین ، جو چودہ سو برس پہلے اس تاریک دور میں پیدا ہوا تھا، درصل دور جدید کا بانی اور تمام دنیا کا لیڈر ہے۔وہ نہ صرف ان کا لیڈر ہے جو اسے مانتے ہیں، بلکہ ان کا بھی لیڈر ہے جو اسے نہیں مانتے۔ ان کو اس امر کا احساس تک نہیں کہ جس کے خلاف وہ زبان کھولتے ہیں۔ اس کی رہ نمائی کس طرح ان کے خیالات میں، ان کے اصولِ حیات اور قوانین ِ عمل میں، اور ان کے عصرِ جدید کی روح میں پیوست ہوگئی ہے۔ یہی شخص ہے جس نے دنیا کےتصوّرات کا رخ وہمیت اور عجائب پرستی اور رہبانیت کی طرف سےہٹا کر عقلیت اور حقیقت پسندی اور متقیانہ دنیا داری کی طرف پھیر دیا۔ اسی نے محسوس معجزے مانگنے والی دنیا میں عقلی معجزوں کو سمجھنے اور انہی کو معیارِ صداقت ماننے کا مذاق پیدا کیا۔ اسی نے خرقِ عادت میں خدا کی خدائی کے آثار ڈھونڈنے والوں کی آنکھیں کھولیں اور انھیں آثارِ فطرت natural phenomena میں خدا کی نشانیاں دیکھنے کا خوگر بنایا۔ اسی نےخیالی گھوڑے دوڑانے والوں کو قیاس آرائی speculation سے ہٹا کر تعقُّل اور تفکّر اور مشاہدہ اور تحقیق کی راستےپرلگایا۔ اسی نے عقل اور حس اور وجدان کے امتیازی حدود انسان کو بتائے۔ مادّیت اور روحانیت میں ماسبت پیدا کی۔ دین سے علم و عمل کا علم و عمل سے دین کا ربط قائم کی۔ مذہب کی طاقت سے دنیا میں سائنٹفک اسپرٹ اور سائنٹفک اسپرٹ سے صحیح مذہبیت پیدا کی۔ اسی نے شرک اور مخلوق پرستی کی بنیادوں کو اکھاڑ ا اور علم کی طاقت سے توحید کا اعتقاد ایسی مظبوطی کے ساتھ قائم کیا کہ مشرکوں اور بت پرستوں کے مذہب بھی وحدانیت کا رنک اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اسی نے اخلاق اور روحانیت کے بنیادی تصورات کو بدلا۔ جو لوگ ترکِ دنیا اور نفس کشی کو عین اخلاق سمجھتے تھے، جن کے نزدیک نفس و جسم کے حقوق ادا کرنے اور دنیوی زندگی کے ║معاملات میں حصہ لینے کے ساتھ روحانی ترقی اور نجات ممکن ہی نہ تھی۔ان کواسی نے تمدن اور سماج اور دنیوی عمل کے اندر فضیلت ِ اخلاق اور ارتقائے روحانی اور حصولِ نجات کا راستہ دکھایا۔ پھر وہی ہے جس نے انسان کو اس کی حقیقی قدر و قیمت سے آگاہ کیا۔جو لوگ بھگوان اور اوتار اور ابن اللہ کے سوا کسی کو ہادی و رہنما تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے، ان کو اسی نے بتایا کہ انسان اور تمہارے ہی جیسا انسان آسمانی بادشاہت کا نمائندہ اور خداوندِ عالم کا خلیفہ ہوسکتا ہے۔ جو لوگ ہر طاقت ور انسان کو اپنا خدا بناتے تھے ان کو اسی نے سمجھایا کہ انسان بجز انسان کے اور کچھ نہیں ہے۔ نہ کوئی شخص تقدّس اور حکمرانی اور آقائی کا پیدائشی حق لے کر آیا ہےاور نہ کسی پر ناپاکی اور محکومیت اور غلامی کا پیدائشی داغ لگا ہوا ہے۔ اسی تعلیم نے دنیا میں وحدتِ انسانی اور مساوات اور جمہوریات اور آزادی کے تخیلات پیدا کیے ہیں۔ تصوّرات سے آگے بڑھیے ۔ آپکو اس امیّ کی لیڈرشپ کے عملی نتائج دنیا کے قوانین اور طریقوں اور معاملات میں اس کثرت سے نظر آئیں گے کہ ان کاشمار مشکل ہوجائے گا۔ اخلاق اور تہذیب ، شائستکی اور طہارت و نظافت کے کتنے ہی اصول ہیں جو اس کی تعلیم سے نکل کر تمام دنیا میں پھیل گئے ہیں۔معاشرت کے جو قوانین اس نے بنائے ہیں دنیا نے کس قدر ان کی خوشہ چینی کی اور اب تک کیے جارہی ہے۔ معاشیات کے جو اصول اس نے سکھائے تھے ان سے دنیامیں کتنی تحریکیں پیدا ہوئیں اور اب تک پیدا ہوئے جارہی ہیں۔ حکومت کے جو طریقے اس نے اختیار کیے تھے، ان سے دنیا کے سیاسی نظریات میں کتنے انقلاب برپا ہوئے اور ہورہے ہیں۔ عدل اور قانون کے جو اصول اس نے وضع کیے تھے انہوں نے دنیا کے عدالتی نظامات اور قانونی افکار کو کس قدر متاثر کیا اور اب تک ان کی تاثیر خاموشی کےساتھ جارہی ہے۔ جنگ اور صلح اور بین الاقوامی تعلقات کی تہذیب جس شخص نے عملاًدنیا میں قائم کی وہ دراصل یہی عرب کا امی ہے ورنہ پہلے دنیا اس سے ناواقف تھی کہ جنگ کی بھی کوئی تہذیب ہوسکتی ہے اور مختلف قوموں میں مشترک انسانیت کی بنیاد پر بھی معاملات ہونے ممکن ہیں۔ انسانی تاریخ کے منظر میں اس حیرت انگیز انسان کی بلند و بالا شخصیت اتنی ابھری ہوئی نظر آتی ہے کہ ابتدا سے لے کر اب تک کے بڑے سے بڑے تاریخی انسان جن کو دنیا اکابر heroes میں شمار کرتی ہے، جب اس کے مقابلے میں لائے جاتے ہیں تو اس کے آگے بونے نظر آتے ہیں۔ دنیا کے اکابر میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کمال کی چمک دمک انسانی زندگی کے ایک دو شعبوں سے آگے بڑھ سکی ہو۔کوئی نظریات کا بادشاہ ہے مگر عملی قوت نہیں رکھتا۔ کوئی عمل کا پتلا ہے مگر فکر میں کمزور ہے۔ کسی کے کمالات سیاسی تھبیر تک محدود ہیں۔ کوئی محض فوجی ذہانت کا مظہرہے۔ کسی کی نظر اجتماعی زندگی کے ایک پہلو پر اتنی زیادہ گہری جمی ہے کہ دوسرے پہلو اوجھل ہوگئے ہیں۔ کسی نے اخلاق اور روحانیت کو لیا تو معیشت و سیاست کو بھلادیا۔کسی نے معیشت و سیاست کو لیا تو اخلاق و روحانیت کو نظر انداز کردیا۔ غرض تاریخ میں ہر طرف یک رخے ہیرو ہی نظر آتے ہیں۔ مگر تنہا یہی ایک شخصیت ایسی ہے، جس میں تمام کمالات جمع ہیں۔ وہ خود ہی فلسفی اور حکیم بھی ہے اور خود ہی اپنے فلسفہ کو عملی زندگی میں نافذ کرنے والا بھی۔ وہ سیاسی مدبر بھی ہے، فوجی لیڈر بھی ہے، واضع قانون بھی ہے، معلم اخلاق بھی ہے، مذہبی اور روحانی پیشوا بھی ہے، اس کی نظر انسان کی پوری زندکی پر پھیلتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات تک جاتی ہے۔کھانے اور پینے کے آداب اور جسم کی صفائی کے طریقوں سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک ایک ایک چیز کے متعلق وہ احکام اور ہدایات دیتا ہے، اپنے نظریات کے مطابق ایک مستقل تہذیب civilization وجود میں لاکر دکھا دیتا ہے، اور زندگی کے تمام مختلف پہلوؤں میں ایسا صحیح توازن equilibrium قائم کرتا ہے کہ افراط و تفریط کا کہیں نشان تک نظر نہیں آتا۔ کیا کوئی دوسرا شخص اس جامعیت کا تمہاری نظرمیں ہے؟ دنیا کی بڑی بڑی تاریخی شخصیتوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو کم و بیش اپنے ماحول کی پیدا کردہ نہ ہو۔ مگر اس شخص کی شان سب سے نرالی ہے۔ اس کے بنانے میں اس کے ماحول کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا۔ اور نہ کسی دلیل سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ عرب کا ماحول اس وقت تاریخی طور پر ایسے ایک انسان کی پیدائش کا مقتضی تھا۔ بہت کھینچ تان کر تم جو کچھ کہہ سکتے ہو وہ اس سے زیادہ کچھ نہ ہوگا کہ تاریخی اسباب عرب میں ایک ایسے لیڈر کے ظہور کا تقاضا کرتے تھے جو قبائلی انتشار کو مٹا کر ایک قوم بناتا اور ممالک فتح کرکے ║عربوں کی معاشی فلاح و بہبود کا سامان کرتا۔۔۔۔ یعنی ایک نیشنلسٹ لیڈر جو اس وقت کی تمام عربی خصوصیا ت کا حامل ہوتا۔ ظلم، بے رحمی، خوں ریزی اور مکر و دغا ، غرض ہر ممکن تھبیر سے اپنی قوم کو خوش حال بناتا اور ایک سلطنت پیدا کرکے اپنے پسماندوں کے لئے چھوڑ جاتا۔ اس کے سوا اس وقت کی عربی تاریخ کا کوئی تقاضا تم ثابت نہیں کرسکتے۔ہیگل کے فلسفۂ تاریخ یا مارکس کی مادی بعبیر تاریخ کے نقطۂ نظر سے تم حد سے حد یہی حکم لگاسکتے ہو کہ اس وقت اس ماحول میں ایک قوم اور ایک سلطنت بنانے والا ظاہر ہونا چاہیے تھا، یا ظاہر ہوسکتا تھا۔ مکر ہیگلی یا مارکسی فلسفہ اس واقعہ کی توجیہ کیوں کر کرے گا کہ اس وقت اس ماحول میں ایسا شخص پیدا ہوا جو بہترین اخلاق سکھانے والا، انسانیت کو سنوارنے اور نفوس کا تزکیہ کرنے والا اور جاہلیت کے اوہام و تعصبات کو مٹانے والا تھا۔ جس کی نظر قوم اور نسل اور ملک کی حدیں توڑ کو پوری انسانیت پر پھیل گئی ۔جس نے اپنی قوم کے لئے نہیں بلکہ عالمِ انسانی کے لیے ایک اخلاقی و روحانی اور تمدنی و سیاسی نظام کی بنا ڈالی۔ جس نے معاشی معاملات اور سیاستِ مَدن اور بین الاقوامی تعلقات کو عالمِ خیال میں نہیں بلکہ عالمِ واقعہ میں اخلاقی بنیادوں پر قائم کرکے دکھایا اور روحنیت و مادیت کی ایسی معتدل و متوازن آمیزش کی و آج بھی حکمت و دانائی کا ویسا ہی شاہکار ہے جیسا اس وقت تھا۔ کیا ایسے شخص کو تم عرب جاہلیت کے ماحول کی پیداوار کہہ سکتے ہو؟ یہی نہیں کہ وہ شخص اپنے ماحول کی پیداوار نظر نہیں آتا۔ بلکہ جب ہم اس کے کارنامے پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہے۔ اس کی نظر وقت اور حالات کی بندشوں کو توڑتی ہوئی صدیوں اور ہزاروں (millennium) کے پردوں کو چاک کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ وہ انسان کو ہر زمانے اور ہر ماحول میں دیکھتا ہے اور اس کی زندگی کے لیے ایسی اخلاقی اور عملی ہدایات دیتا ہے جو ہر حال میں یکساں مناسبت کے ساتھ ٹھیک بیٹھتی ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کو تاریخ نے پرانا کردیا ہے، جن کی تعریف ہم صرف اس حیثیت سے کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے کے اچھے رہ نما تھے۔ سب سے الگ اور سب سے ممتاز، وہ انسانیت کا ایسا رہنما ہے جو تاریخ کے ساتھ حرکت (march) کرتا ہے اور ہر دور میں ویسا ہی جدید (modern) نظر آتا ہے جیسا اس سے پہلے دور کے لیے تھا۔ تم جن لوگز کو فیّاضی کے ساتھ "تاریخ بنانے والے" (makers of history) کا لقب دیتے ہو وہ حقیقت میں تاریخ کے بنائے ہوئے (creatures of history) ہیں۔ دراصل تاریخ بنانے والا پوری انسانی تاریخ میں صرف یہی ایک شخص ہے۔ دنیا کے جتنے لیڈروں نے تاریخ میں انقلاب برپا کیے ہیں ا ن کے حالات پر تحقیقی نظر ڈالو۔تم دیکھوگے کہ ہر ایسے موقع پر پہلے سے انقلاب کے اسباب پیدا ہورہے تھے، اور وہ اسباب خود ہی اس انقلاب کا رخ اور راستہ بھی متعین کررہے تھے جس کے برپا ہونے کے وہ مقتضی تھے۔ انقلابی لیڈر نے صرف اتنا کیا کہ حالات کے اقتضا کو قوت سے فعل میں لانے کے لیے اس ایکٹر کا پارٹ ادا کردیا جس کے لیے اسٹیج اور کام دونوں پہلے سے معین ہوں۔مگرتاریخ بنانے والوںیا انقلاب برپا کرنے والوں کی پوری جماعت میں یہ اکیلاایسا شخص ہے کہ جہاں انقلاب کے اسباب موجود نہ تھے وہاں اس نے خود اسباب کو پیدا کیا، جہاں انقلاب کا مواد موجود نہ تھا وہاں اس نے خود مواد تیار کیا، جہاں اس انقلاب کی تسپرٹ اور عملی استعداد لوگوں میں نہ پائی جاتی تھی وہاں اس نے خود اپنے مطلب کے آدمی تیار کیے، اپنی زبردست شخصیت کو پگھلا کر ہزارہا انسانوں کے قالب میں اتاردیا اور ان کو ویسا بنادیا جیسا وہ بنانا چاہتا تھا۔اس کی طاقت اور قوتِ ارادی نے خود ہی انقلاب کا سامان کیا، خود ہی اس کی صور ت اور نوعیت معیّن کی، اور خود ہی اپنے ارادے کے زور سے حالات کی رفتار کو موڑ کر اس راستے پر چلا یا جس پر وہ اسے چلانا چاہتا تھا۔ اس شان کا تاریخ ساز اور اس مرتبے کا انقلاب انگیز تم کو اور کہاں نظر آتا ہے؟ آئیے اب اس سوال پر غور کیجیے کہ ۱۴ سو برس پہلے کی تاریک دنیا میں، عرب جیسے تاریک تر ملک کے ایک گوشے میں، ایک گلہ بانی اور سوداگری کرنے والے ان پڑھ بادیہ نشین کے اندر یکایک اتنا علم، اتنی روشنی، اتنی طاقت، اتنے کمالات، اتنی زبردست تربیت یافتہ قوتیں پیدا ہوجانے کا کون سا ذریعہ تھا؟ آپ کہتے ہیں کہ یہ سب اس کے اپنے دل و دماغ کی پیداوار تھی۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ اسی کے دل و دماغ کی پیداوار تھی تو اس کو خدائی کا دعویٰ کرنا چاہیے تھا، اور اگروہ ایسا دعویٰ کرتا تو وہ دنیا جس نے رام کو خدا بناڈالا، جس نے ║کرشن کو بھگوان قرار دینے میں تامل نہ کیا، جس نے بودھ کو خود بہ خود معبود بنالیا، جس نے مسیح کو آپ اپنی مرضی سے ابن اللہ مان لیا، جس نے آک اور پانی اور ہوا تک کو پوج ڈالا، وہ ایسے زبردست باکمال شخص کو خدا مان لینے سے کبھی انکار نہ کرتی۔مگر دیکھو ، وہ خود کیا کہہ رہا ہے۔ وہ اپنے کمالات میں سے ایک کا کریڈٹ بھی خود نہیں لیتا۔ کہتا ہے کہ میں ایک انسان ہوں، تمہیں جیسا انسان۔میرے پاس میرا اپنا کچھ بھی نہیں۔ سب کچھ خدا کا ہے اور خدا ہی کی طرف سے ہے۔ یہ کلام جس کی نظیر لانے سے تمام نوعِ انسانی عاجز ہے میرا کلام نہیں ہے۔ میرے دمعغ کی قابلیت کا نتیجہ نہیں ہے۔ لفظ بہ لفظ خد کی طرف سے میرے پاس آیا ہے اور اس کی تعریف خدا ہی کے لیے ہے۔یہ کارنامے جو میں نےدکھائے، یہ قوانین جو میں نے وضع کیے، یہ اصول جو میں نے تمہیں سکھائے، ان میں سے کوئی چیز بھی میں نے خود نہیں گھڑی ہے۔ میں کچھ بھی اپنی ذاتی قابلیت سے پیش نہیں کررہا ہوں۔ ہر ہر چیز میں خدا کی رہنمائی کا محتاج ہوں۔ ادھر سے جو اشارہ ہوتا ہے وہی کرتا ہوں اور وہی کہتا ہوں۔ دیکھو یہ کیسی حیرت انگیز صداقت ہے۔ کیسی امانت اور راست بازی ہے۔ جھوٹا انسان تو بڑا بننے کے لیے دوسروں کے ایسے کمالات کا کریڈٹ بھی لے لینے میں تامل نہیں کرتا جن کے اصل ماخذ کا پتہ بآسانی چل جاتا ہے ۔ لیکن یہ شخص ان کمالات کو بھی اپنی طرف منسوب نہیں کرتا جن کو اگر وہ اپنے کمالات کہتا تو کوئی اس کو جھٹلانہ سکتا تھا، کیوں کہ کسی کے پاس ان کے اصلی ماخذ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ سچائی کی اس سے زیادہ کھلی ہوئی دلیل اور کیاہوسکتی ہے؟ اس شخص سے زیادہ سچا اور کون ہوگا جس کو ایک نہایت مخفی ذریعہ سے ایسے بے نظیر کمالات حاصل ہوں اور وہ بلا تکلف اپنے اصلی ماخذ کا حوالہ دے دے؟ بتاؤ کیا وجہ ہے کہ ہم اس کی تصدیق نہ کریں؟