~دینیات ~سید ابولاعلی مودودی ~فہرست مضامین دیباچہ باب اول: اسلام وجہ تسمیہ لفظ اسلام کے معنی اسلام کی حقیقت کفر کی حقیقت کفر کے نقصانات اسلام کےفائدے اسلام کےفائدے باب دوم: ایمان اور اطاعت اطاعت کے لیے علم اور یقین کی ضرورت ایمان کی تعریف علم حاصل ہونے کاذریعہ ایمان بالغیب باب سوم: نبوت پیغمبری کی حقیقت ║ پیغمبری کی پہچان پیغمبروں پر ایمان لانے کی ضرورت پیغمبری کی مختصر تاریخ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت نبوت محمد کی کا ثبوت ختم نبوت ختم نبوت کے دلائل باب چہارم: ایمان مفصل خدا پر ایمان لاالہ الا اللہ کے معنی لاالہ الا اللہ کی حقیقت انسانی زندگی پر عقیدۂ توحید کااثر خدا کے فرشتوں پر ایمان خداکے رسولوں پر ایمان آخرت پر ایمان عقیدۂ آخرت کی ضرورت عقیدۂ آخرت کی صداقت کلمۂ طیبہ باب پنجم: عبادات ║ عباد ت کا مفہوم نماز روزہ زکوٰۃ حج حمایت اسلام باب ششم: دین اور شریعت دین اور شریعت کافرق احکام شریعت معلوم کرنے کے ذرائع فقہ تصوف باب ہفتم: شریعت کے احکام شریعت کے اصول حقوق کی چار قسمیں خدا کے حقوق نفس کے حقوق بندوں کے حقوق تمام مخلوقات کے حقوق عالمگیر اور دائمی شریعت ║ ~ بسم اللہ الرحمن الرحیم ~دیباچہ یہ مختصر رسالہ خصوصیت کے ساتھ نوجوانوں کےلیے لکھا گیا ہے جو ہائی اسکولوں کی آخری جماعتوں یا کالج کی ابتدائی منزلوں میں تعلیم پاتے ہوں۔ ان کے علاوہ عام ناظرین بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ اس کے پہلے ایڈیشن کو جو 1937ء میں شائع ہوا۔ ہندوستان کے بہت سے مدرسوں نے، اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے بھی بہت سے اسکولوں نے اپنی اونچی جماعتوں میں شریک نصاب کرلیا۔ چھبیس سال میں یہ اب تیئیسویں بار شائع ہورہا ہے اور دنیا کی پانچ بینالاقوامی زبانوں میں ایک لاکھ سے زائد چھپ چکا ہے۔ ہمارے ہاں دینیات کی پوری تعلیم کا عام انداز اب تک یہ رہا ہے کہ طلبہ کو زیادہ تر فقہی مسائل پڑھائے جاتے ہیں جن میں نماز، روزہ ، طہارت اور اسی نوعیت کی دوسری چیزوں کی تفصیلات ہوتی ہیں۔عقائد کی تعلیم نسبتاً کم ہوتی ہے۔ اور وہ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوتی۔ طالب علم کو آخر وقت تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسلام کیا ہے، کیا چاہتاہے اور کیوں چاہتا ہے، اس کے عقائد کا انسان کی زندگی سے کیاتعلق ہے، وہ اگر تسلیم کیے جائیں تو ان کا فائدہ کیا ہے اور نہ تسلیم کئے جائیں تو نقصان کیا ہے۔اسلام محض تحکم کو طور پر ان عقائد کو منوالینا چاہتا ہے یااس کے پاس ان کی صحت و صداقت کے لیے کوئی دلیل بھی ہے۔ یہ تمام امور دین کی سمجھ اور اعتقاد کی درستی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ جب تک یہ ذہن نشین نہ ہوں فقہی مسائل کی تعلیم کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ کیونکہ ایمان کے بغیر احکام کی اطاعت ممکن نہیں اور ایمان صرف عقائد ہی کے ٹھیک ٹھیک سمجھنے سے مستحکم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح نماز، روزہ کے متعلق احکام بتانے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ طالب علم کو عبادات اور احکام شریعت کی حکمتیں سمجھائی جائیں تاکہ وہ دل سے ان احکام کی پیروی پر آمادہ ہو۔نماز کی ترکیب ظاہر ہے کہ اسی شخص کے لیے مفید ہوکتی ہے جو نماز پڑھنا چاہتا ہو۔ ورنہ جو سرے سے نماز ہی پڑھنے کےلیے تیار نہ ہو تو اسے یہ بتانے سے کیاحاصل کہ نماز کس طرح پڑھنی چاہیے۔ لہذا احکام نماز بیان کرنے سے پہلے طالب علم کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ نماز درصل ہے کیا چیز؟ یہ تم پر کیوں فرض کی گئی ہے؟ اس کا فائدہ کیا ہے؟ اور اسے ضائع‏ کردینے سے تمہیں کیا نقصان پہنچے گا اسی پر دوسرے احکام کو بھی قیاس کرلیجیے کہ ان سب کو پہلے دل میں اتارنا ضروری ہے۔ بھر کہیں ان کی تفصیلات بیان کرنا مفید ہوسکتا ہے۔ میں نے یہ رسالہ اسی ضرورت کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا ہے۔ ام میں دینی تعلمی کا ایک نیا طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو پرانے طریقے سے بہت کچھ مختلف ہے اور خصوصاً موجودہ زمانے کے لحاظ سے مفید تر ہے۔ میں نےاس میں قرآن مجید کی تعلیمات کا خلاصہ پیش کیا ہے اور قرآن مجید ہی کے طرز استدلال کی پیروی کی ہے۔ خدا کرے یہ کوشش جس غرض کے لیے کی گئی ہے وہ پوری ہو اور یہ رسالہ تعلیم دینی کے ایک نئے طرز کا دروازہ کھول دے جو نسبتاً زیادہ نتیجہ خیز ہو۔ ابولاعلی مودودی اپریل 1960ء 1.~ ║ اسلام وجہ تسمیہ، لفظ "اسلام" کے معنی، اسلام کی حقیقت، کفر کی حقیقت، کفر کر نقصانات، اسلام کے فوائد ~وجہ تسمیہ دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں سے ہر ایک کا نام یاتو کیس خاص شخص کے نام پر رکھا گیا ہے یا اس قوم کے نام پر جس میں مذہب پیدا ہوا۔ مثلاً عیسائیت کا نام اس لیے عیسائیت ہے کہ اس کی نسبت حضرت عیسی کی طرف ہے۔ بودھ مت کا نام اس لیے بودھ مت ہے کہ اس کے بانی مہاتما بدھ تھے۔ زردشتی مذہب کا نام اپنے بانی زردشت کے نام پر ہے۔یہودی مذہب ایک خاص قبیلہ میں پیدا ہوا جس کانام یہوداہ تھا۔ایسا ہی حال دوسرے مذاہب کے ناموں کابھی ہے۔ مگر اسلام کی خصوصیت یہ ہےکہ وہ کسی شخص یا قوم کی طرف سےمنسوب نہیں ہے۔ بلکہ اس کانام ایک خاص صفت کو ظاہر کرتا ہے جو لفظ "اسلام" کے معنی میں پائی جاتی ہے۔یہ نام خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی ایک شخص کی ایجاد نہیں ہے۔ نہ کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کو شخص یاملک یا قوم سے کوئی علاقہ نہیں۔ صرف "اسلام" کی صفت لوگوں میں پیدا کرنا اس کا مقصد ہے۔ ہر زمانے اور ہر قوم کےجن سچے اور نیک لوگوں میں یہ صفت پائی گئی ہے وہ سب مسلم تھے، "مسلم" ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ ~لفظ اسلام کے معنی اسلام کے معنی عربی زبان میں اطاعت اور فرماں برداری کے ہیں۔ مذہب اسلام کا نام "اسلام" اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری ہے۔ ~اسلام کی حقیقت تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں سب ایک قاعدے اور قانون کی تابع ہیں۔ چاند اور تارے سب ایک زبردست قاعدے میں بندھے ہوئے ہیں جس کے خلاف اوہ بال برابر جننش نہیں کرسکتے۔ زمین اپنی خاص رفتار کے ساتھ گھوم رہی ہے اس کے لیے جو وقت اور رفتار اور راستہ مقرر کیا گیاہے اس میں ذرا برابر فرق نہیں آتا۔پانی اور ہوا ، روشنی اور حرارت، سب ایک ہی ضابطہ کے پابند ہیں۔ جمادات و نباتات اور حیوانات میں ہر ایک کے لیے جو قانون مقرر ہے اسی کے مطابق یہ سب پیدا ہوتے ہیں، بڑھتے ہیں اور گھٹتے ہیں، جیتے ہیں اور مرتے ہیں۔خود انسان کی حالت پر بھی تم غور کروگے تو تم کو معلوم ہوگا کہ وہ بھی قانون قدرت کا تابع ہے، جو قاعدہ اس کی پیدائش کے لیے مقررھ کیاگيا ہے اس کے مطابق سانس لیتاہے، پانی اور غذا اور حرارت اور روشنی حاصل کرتا ہے۔ اس کے دل کی حرکت، اس کے خون کی گردش، اس کے سانس کی آمد و رفت اسی ضابطے کی پابند ہے۔ اس کا دماغ، اس کا معدہ ، اس کے پھیپھڑے، اس کے اعصاب اور عضلات، اس کے ہاتھ پاؤں، زبان، آنکھیں،کان اور ناک، غرض اس کے جسم کا ایک ایک حصہ وہی کام کررہاہے جو اس کے لیے مقرر ہے۔ اور اسی طریقہ پر کام کررہا ہے جو اس کو بتادیاگیا ہے۔ یہ زبردست قانون جس کی بندش میں بڑے بڑے سیاروں سے لے کر زمین کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ذرہ تک جکڑا ہوا ہے، ایک بڑے حاکم کا بنایا ہوا قانو ہے۔ ساری کائنات اور کائنات کی ہرچیز اس حاکم کی مطیع اور فرماں بردار ہے، کیونکہ وہ اسی کے بنائے ہوئے قانون کی اطاعت و فرماں برداری کررہی ہے۔اس لحاظ سے ساری کائنات کامذہب اسلام ہے۔ کیونکہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ خدا کی اطاعت و فرماں برداری ہی کو اسلام کہتے ہیں۔ سورج، چاند اور تارے سب مسلم ہیں۔ زمین بھی مسلم ہے، ہوا اور ║ پانی اور روشنی بھی مسلم ہیں۔ درخت اور پتھر اور جانور بھی مسلم ہیں اور وہ انسان بھی جو خدا کو نہیں پہچانتا اور خدا کا انکار کرتا ہے، جو خدا کے سوا اور دوسروں کو پوجتا ہے، جو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتا ہے، ہاں وہ بھی اپنی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے مسلم ہی ہے۔ کیونکہ اس کاپیدا ہونا ، زندہ رہنا اور مرنا سب کچھ خدائی قانون ہی کے ماتحت ہے۔اس کےتمام اعضاء اور اس کے جسم کے ایک ایک رونگٹے کامذہب اسلام ہے۔کیونکہ وہ سب خدائی قانون کے مطابق بنتے اور بڑھتے اور حرکت کرتے ہیں۔ حتی کہ اس کی وہ زبان بھی اصل میں مسلم ہے جس سے وہ نادانی کے ساتھ شرک خدا کے سوا دوسروں کے سامنے جھکاتا ہے۔ اس کاوہ دل بھی فطرتاً مسلم ہے جس میں وہ بےعلمی کی وجہ سے خدا کے سوا دوسروں کی عزت اور محبت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ سب چیزیں خدائی قانون کی فرماں بردار ہیں اور ان کی ہر جنبش خدا ہی کے قانون کے ماتحت ہوتی ہے۔ اب ایک دوسرے پہلو سے دیکھو۔ انسان کی ایک حیثیت تو یہ ہے کہ وہ دیگر مخلوقات کی طرح قانون قدرت کے زبردست قاعدوں سے جکڑا ہواہے۔ اور ان کی پابندی پر مجبور ہے دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ عقل رکھتا ہے۔ سوچنے اور سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ اور اپنے اختیار سے ایک بات کو مانتا ہے، دوسری بات کو نہیں مانتا۔ ایک طریقہ کو پسند کرتا ہے، دوسرے طریقہ کو پسند نہیں کرتا۔ زندگی کے معاملات میں اپنے ارادے سے خود ایک ضابطہ کو بناتا ہے، یادوسروں کے بنائےضابطہ کواختیار کرتا ہے۔ اس حیثیت میں وہ دنیا کی دوسری چیزوں کے مانند کسی مقرر قانون کا پابند نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ اس کو اپنے خیال ، اپنی رائے اور عمل میں انتخاب کی آزادی بخشی گئی ہے۔ انسان کی زندگی میں یہ دو حیثیتیں الگ الگ پائی جاتی ہیں:- پہلی حیثیت میں وہ دنیا کی تمام دوسری چیزوں کے ساتھ پیدائشی مسلم ہے اور مسلم ہونے پرمجبور ہے۔ جیسا کہ ابھی تم کو معلوم ہوچکا ہے۔ دوسرےی حیثیت میں مسلم ہونا یا نہ ہونا اس کے اختیار میں ہے اوراسی اختیار کی بنا پر انسان دو طبقوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ایک انسان وہ ہے جو اپنے خالق کو پہچانتا ہے۔ اس کو اپنا آقا اور مالک تسلیم کرتا ہے۔ اور اپنی زندگی کے اختیاری کاموں میں بھی اس کے پسند کئے ہوئے قانون کی فرماں برداری کرتا ہے۔ یہ پورا مسلم ہے، اس کا اسلام مکمل ہوگیا۔ کیونکہ اب اس کی زندگی سراسر اسلام ہے۔ اب وہ جان بوجھ کر بھی اسی کافرماں بردار بن گیا، جس کی فرماں برداری بغیر جانے بوجھے کررہا تھا۔ اب وہ اپنے ارادے سے بھی اسی خدا کامطیع ہے جس کا مطیع وہ بلا ارادہ تھا۔ اب اس کا علم سچا ہے کیونکہ وہ اس خدا کو جان گیا،جس نے اس کو جاننے اور علم حاصل کرنے کی قوت دی ہے۔اب اس کی عقل اور اس کی رائے درست ہے کیونکہ اس نے سوچ سمجھ کر اس خدا کی اطاعت کا فیصلہ کیا جس نے اسے سوچنے سمجھنے کی اور رائے قائم کرنے کی قابلیت بخشی ہے۔اب اس کی زبان صادق ہے ، کیونکہ وہ اسی خدا کا اقرار کررہی ہے جس نے اس کو بولنے کی قوت عطا کی ہے۔ اب اس کی ساری زندگی میں راستی ہی راستی ہے، کیونکہ وہ اختیار و بے اختیاری دونوں حالتوں میں خدا کے قانون کا پابند ہے۔ اب ساری کائنات سے اس کی آشتی ہوگئی، کیونکہ کائنات کی ساری چیزیں جس کی بندگی کررہی ہیں، اسی کی بندگی وہ بھی کررہا ہے۔ اب وہ زمین پر خدا کا خلیفہ نائب ہے ساری دنیا اس کی ہے اور وہ خدا کا ہے۔   ~ ║ کفر کی حقیقت اس کے مقابلہ میں دوسرا انسان وہ ہے جو مسلم پیدا ہوا اور اپنی زندگی بھر بے جانے بوجھے مسلم ہی رہا۔ مگر اپنے علم اور عقل کی قوت سے کام لے کر اس نے خدا کو نہ پہچانا۔ اور اپنے اختیار کی حد میں اس نے خدا کی اطاعت کرنے سے انکار کردیا۔ یہ شخص کافر ہے۔ کفر کے اصلی معنی چھپانے اور پردہ ڈالنے کے ہیں۔ ایسے شخص کو کافر اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی فطرت پر نادانی کا پردہ ڈال رکھا ہے۔ وہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوا ہے۔ اس کاسارا جسم اور جسم کا ہر حصہ اسلام کی فطرت پر کام کررہا ہے ۔ اس کے گرد و پیش ساری دنیا اسلام پر چل وہی ہے۔ مگر اس کی عقل پر پردہ پڑگیا ہے۔ تمام دنیا کی اور خود اپنی فطرت اس سے چھپ گئی ہے وہ اس کے خلاف سوچتا ہے۔ اس کے خلاف چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب تم سمجھ سکتے ہو کہ جو شخص کافر ہے وہ کتنی بڑی گمراہی میں مبتلا ہے۔ ~کفر کے نقصانات کفر ایک جہالت ہے۔ بلکہ اصلی جہالت کفر ہی ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا جہالت ہوسکتی ہے کہ انسان خدا سے ناواقف ہو۔ ایک شخص کائنات کے اتنے بڑے کارخانے کا رات دن چلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ مگر نہیں جانتا کہ اس کارخانے کو بنانے اور چلانے والا کونا ہے۔ وہ کون کاریگر ہے جس نے کوئلے اور لوہے اور کیلشیم اور سوڈیم اور ایسی ہی چند چیزوں کو ملا کر انسان جیسی لاجواب مخلوق پیدا کردی۔ایک شخص دنیا میں ہر طرف ایسی چیزیں اور ایسے کام دیکھتا ہے جن میں بے نظیر انجنیری، ریاضی دانی، کیمیا دانی اور ساری دانائیوں کے کمالات نظر آتے ہیں۔ مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ علم اور حکمت اور دانش والی ہستی کونسی ہےجس نے کائنات میں یہ سارے کام انجام دیے ہیں۔ سوچو اور غور کرو۔ ایسے شخص کے لیے صحیح علم کے دروازے کیسے کھل سکتے ہیں جس کو علم کا پہلا سرا ہی نہ ملا ہو وہ خواہ کتنا ہی غور فکر کرے اور کتنی ہی تلاش و تجسس میں سرکھپائے اس کو کسی شعبے میں علم کا سیدھا اور یقینی راستہ نہ ملے گا، کیونکہ اس کو شروع میں بھی جہالت کا اندھیرا نظر آئے گا اور آخر میں بھی وہ اندھیرے کے سوا کچھ نہ دیکھے گا۔کفر ایک ظلم ہے۔ بلکہ سب سے بڑا ظلم کفر ہی ہے۔ تم جانتے ہو کہ ظلم کسے کہتے ہیں؟ ظلم یہ ہےکہ کسی چیز سے ان کی طبیعت اور فطرت کے خلاف زبردستی کام لیا جائے۔ تم کو معلوم ہوچکا ہے کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، سب اللہ کی تابع فرمان ہیں اور ان کی فطرت ہی "اسلام" یعنی قانون خداوندی کی اطاعت ہے۔ خود انسان کا پورا جسم اور اس کا ہر حصہ اسی فطرت پر پیدا ہوا ہے۔ خدا نے ان چیزوں پر انسان کو حکومت کرنے کا تھوڑا سا اختیار تو ضرور دیا ہے، مگر ہر چیز کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ اس سے خدا کی مرضی کے مطابق کام لیا جائے۔ لیکن جو شخص کفر کرتا ہے وہ ان سب چیزوں سے ان کی فطرت کے خلاف کام لیتا ہے۔ وہ اپنے دل میں دوسروں کی بزرگی اور محبت اور خوف کے بت بٹھاتا ہے۔ حالانکہ دل کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ اس میں خدا کی بزرگی اور محبت اور خوف ہو۔وہ اپنے تمام اعضاء سے اور دنیا کی ان سب چیزوں سے جو اس کے اختیار میں ہیں، خدا کی مرضی کے خلاف کام لیتا ہے، حالانکہ ہرچیز کی طبیعت یہ چاہتی ہے کہ اس سے قانون خداوندی کے مطابق کام لیا جائے، بتاؤ، ایسے شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوگا جو اپنی زندگی میں ہر وقت ہر چیز پر حتی کہ خود اپنے وجود پر بھی ظلم کرتا رہے۔ کفر صرف ظلم ہی نہیں، بغاوت اور ناشکری اور نمک حرامی بھی ہے۔ ذرا غور کرو، انسان کے پاس خود اپنی کیا چیز ہے؟ اپنے دماغ کو اس نے پیدا کیا ہے یا خدا نے؟ اپنے دل، اپدی آنکھوں اور اپنی زبان اور اپنے ہاتھ پاؤں اور اپنے تمام اعضاء کا وہ خود خالق ہے یا خدا؟ اس کے گرد و پیش جتنی چیزیں ہیں ان کو پیدا کرنے والا خود انسان ہے یا خدا؟ ان سب چیزوں کو انسان کے لیے مفید اور کارآمد بنانا اور انسان کو ان کے استعمال کی قوت دینا انسان کا اپنا کام ہے یا خدا کا؟ تم کہوگے یہ سب چیزیں خدا کی ہیں، خدا ہی نے ان کو پیدا کیا ہے، ║ خدا ہی ان کا مالک ہے۔ اور خدا ہی کی بخشش سے یہ انسان کو حاصل ہوئی ہیں۔ جب اصل حقیقت یہ ہے تو اس سے بڑا باغی کون ہوگا جو خدا کے دیے ہوئے دماغ سے خدا ہی کے خلاف سوچنے کی خدمت لے؟خدا کے بخشے ہوئے دل میں خدا ہی کے خلاف خیالات رکھے؟ خدا نے جو آنکھیں ، جو زبان، جو ہاتھ پاؤں اور جو دوسری چیزیں اس کو عطا کی ہیں ان کو خدا ہی کی پسند اور اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرے؟ اگر کوئی ملازم اپنے آقا کا نمک کھا کر اس سے بے وفائی کرتا ہے تو تم اس کو نمک حرام کہتے ہو۔ اگر کوئی سرکاری افسر حکومت کے دئے ہوئے اختیارات کو خود حکومت ہی کے خلاف استعمال کرتا ہے تو تو اسے باغی کہتے ہو۔ اگر کوئی اپنے محسن سے دغا کرتا ہے تو تم اسے احسان فراموش کہتے ہو۔ لیکن انسان کے مقابلہ میں انسان کی نمک حرامی ، غداری اور احسان فراموشی کی کیا حقیقت ہے؟ انسان ، انسان کو کہاں سے رزق دیتا ہے؟ وہ خدا کا دیا ہوا رزق ہی تو ہے ۔ حکومت اپنے ملازموں کو جو اختیار دیتی ہے وہ کہاں سے آئے ہیں؟ خدا ہی تو اس کو فرما روائی کی طاقت دی ہے۔ کوئی احسان کرنے والا دوسرے شخص پر کہاں سے احسان کرتا ہے سب کچھ خدا ہی کا تو بخشا ہوا ہے۔ انسان پرسب سے بڑا حق اس کے ماں اور باپ کا ہے۔مگر ماں اور باپ کے دل میں اولاد کے لیے محبت کس نے پیدا کی؟ ما ں کے سینے میں دودھ کس نے اتارا؟ باپ کے دل میں یہ بات کس نے ڈالی کہ اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی گوشت پوست کے ایک بیکار لوتھڑے پر خوشی خوشی لٹادے اور اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں اپنا وقت، اپنی دولت، اپنی آسائش سب کچھ قربان کردے؟ اب بتاؤ کہ جو خدا انسان کا اصلی محسن ہے، حقیقی بادشاہ ہے، سب سے بڑا پروردگار ہے۔ اگر اسی کے ساتھ انسان کفر کرے، اس کو خدا نہ مانے، اس کی بندگی سے انکار کرے اور اس کی اطاعت سے منہ موڑے ، تو ہ کیسی سخت بغاوت ہے، کتنی بڑی احسان فراموشی اور نمک حرامی ہے۔ کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ کفر سے انسان خدا کا کچھ بگاڑتا ہے۔ جس بادشاہ کی سلطنت اتنی بڑی ہے کہ ہم بڑی سے بڑی دوربین لگا کر بھی اب تک یہ معلوم نہ کرسکے کہ وہ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔جس بادشاہ کی طاقت اتنی زبردست ہے کہ ہماری زمین اور سورج اور مریخ اور ایسے ہی کروڑوں سیارے اس کے اشاروں پر گیند کی طرح پھر رہے ہیں۔ جس بادشاہ کی دولت ایسی بے پایاں ہے کہ ساری کائنات میں جوکچھ ہے اسی کا ہے، اس میں کوئی حصہ دار نہیں جو بادشاہ ایسا بے نیاز ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں۔ بھلا انسان کی کیا ہستی ہےکہ اس کے ماننے اور نہ ماننے سے ایسے بادشاہ کو کوئی نقصان ہو، اس سے کفر اور سرکشی اختیار کرکے انسان اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑتا البتہ خود اپنی تباہی کا سامان کرتا ہے۔ کفر اور نافرمانی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ کے لیے ناکام و نامراد ہوجائے، ایسے شخص کو علم سیدھا راستہ کبھی نہ مل سکے گا۔ کیونکہ جو علم خود اپنے خالق کو نہ جانے وہ کس چیز کو صحیح جان سکتا ہےاس کی عقل ہمیشہ ٹیڑھے راستہ پر چلے گی۔ کیونکہ جو عقل خود اپنے بنانے والے کے پہچاننے میں غلطی کرے وہ اور کس چیز کو صحیح سمجھ سکتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے سارے معاملات میں ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھائے گا۔ اس کے اخلاق خراب ہوں گے۔ اس کا تمدن خراب ہوگا۔ اس کی معاشرت خراب ہوگی اس کی معیشت خراب ہوگی اس کی حکومت اور سیاست خراب ہوگی۔ وہ دنیا میں بدامنی پھیلائے گا۔ کشت و خون کرے گا۔ دوسروں کے حقوق چھینے گا۔ ظلم و ستم کرے گا۔ خود اپنی زندگی کو اپنے برے خیالات اور اپنی شرارت اور بداعمالی سے اپنے لیے تلخ کرلے گا۔ پھر جب وہ اس دنیا سے گزر کر آخرت کے عالم میں پہنچے گا تو وہ سب چیزیں جن پر وہ تمام عمر ظلم کرتا رہا تھا، اس کے خلاف نالش کریں گی۔ اس کا دماغ ، اس کادل، اس کی آنکھیں، اس کے کان اس کے ہاتھ پاؤں، غرض اس کا رونگٹا رونگٹا، خدا کی عدالت میں اس کے خلاف استغاثہ کرے گا کہ اس ظالم نے تیرے خلاف بغاوت کی اور اس بغاوت میں ہم سے زبردستی کام لیا۔ اور وہ دولت جو حرام سے آئے اور حرام پر خرچ کی گئی وہ سب چیزیں جن پر اس نے باغی بن کر غاصبانہ تصرف کیا۔ وہ سب آلات و اسباب جن سے اس نے اس بغاوت میں کام لیا اس کے مقابلہ میں فریادی بن کر آئیں گے اور خدا جو حقیقی منصف ہے ، ان مظلوموں کی دادرسی میں اس باغی کو ذلت کی سزا دے گا۔ ~║ اسلام کےفائدے یہ ہیں کفر کے نقصانات، آؤ اب ایک نظر یہ بھی دیکھو کہ اسلام کاطریقہ اختیار کرنے میں کیا فائدہ ہے۔ اوپر تم کو معلوم ہوچکا ہے کہ اس جہاں میں ہر طرف خدا کی خدائی کے نشانات پھیلے ہوئے ہیں۔ کائنات کا یہ عظیم الشان کارخاہ جو ایک مکمل نظام اور ایک اٹل قانون کے تحت چل رہا ہے جو اس بات پر گواہ ہے کہ اس کا بنانے والا اور چلانے والا ایک زبردست فرماں روا ہے۔ جس کی حکومت سے کوئی چیز سرتابی نہیں کرسکتی۔ تمام کائنات کی طرح خود انسان کی فطرت بھی یہی ہے کہ اس کی اطاعت کرے۔ چنانچہ بے سمجھے وہ رات دن اس کی اطاعت کرہی رہا ہے کیونکہ اس کےقانون قدرت کی خلاف ورزی کرکے وہ زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ لیکن خدا نے انسان کو علم کی قابلیت ، سوچنے اور سمجھنے کی قوت اور نیک و بد کی تمیز دے کر ارادے اور اختیار میں تھوڑی سی آزادی بخش دی ہے۔ اس آزادی میں دراصل انسان کا امتحان ہے، اس کے علم کا امتحان ہے، اس کی عقل کا امتحان ہے، اس کی تمیز کا امتحان ہے اور اس بات کا امتحان ہے کہ اسے جو آزادی عطا کی گئی ہے اس کو وہ کس طرح استعمال کرتا ہے اور اس امتحان میں کوئی ایک طریقہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا ہے۔ کیونکہ مجبور کرنے سے امتحان کا مقصد ہے فوت ہوجاتا ہے۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ امتحان میں سوالات کا پرچہ دینے کے بعد اگر تم کو ایک خاص جواب دینے پر مجبور کردیا جائے تو ایسے امتحان سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ تمہاری اصل قابلیت تو اسی وقت کھلے گی جب تم کو ہر قسم کا جواب دینے کا اختیار حاصل ہو۔ اگر تم نے صحیح جواب دیا تو کامیاب ہوگے اور آئندہ ترقیوں کا دروازہ تمہارے لیے کھل جائے گا۔ اور اگر غلط جواب دیا تو ناکام ہوگے اور اپنی ناقابلیت سے خود ہی ترقی کا رستہ روک لوگے۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالٰی نے بھی اپنے امتحان میں انسان کو آزاد رکھا ہے کہ جو طریقہ چاہے اختیار کرے۔ اب ایک شخص تو وہ ہے جو خود اپنیاور کائنات کی فطرتکو نہیں سمجھتا، اپنے خالق کی ذات و صفات کو پہچاننے میں غلطی کرتا ہے اور اختیار کی جو آزادی اسے دی گئی ہے، اس سے فائدہ اٹھا کر نافرمانی اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ یہ شخص علم اور عقل اور تمیز اور فرض شناسی کے امتحان میں نکام ہوگیا۔ اس نے خود ثابت کردیا کہ وہ ہر حیثیت سے اندی درجے کا آدمی ہے۔ لہذا اس کاوہی انجام ہونا چاہیے جو تم نے اوپر دیکھ لیا۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص جو اس امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے علم اور عقل سے صحیح کام لے کر خدا کو جانا اور مانا، حالانکہ وہ ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔ اس نے نیک و بد کی تمیز میں بھی غلطی نہ کی اور اپنے آزاد انتخاب سے نیکی ہی کو پسند کیا۔ حالانکہ وہ بدی کی طرف بھی مائل ہونے کا اختیار رکھتا تھا۔اس نے اپنی فطرت کو سمجھا، اپنے خدا کو پہچانا اور نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود خدا کی فرمانبرداری ہی اختیار کی۔ اس شخص کو امتحان میں اسی وجہ سے تو کامیابی نصیب ہوئی کہ اس نے اپنی عقل سے ٹھیک کام لیا، آنکھوں سے ٹھیک دیکھا، کانوں سے ٹھیک سنا، دماغ سے ٹھیک رائے قائم کی اور دل سے اسی بات کی پیروی کا فیصلہ کیا جو ٹھیک تھی۔ اس نے حق کو پہچان کر یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ حق شناس ہے اور حق کے آگے سر جھکا کر یہ بھی دکھادیا کہ وہ حق پرست ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص میں یا صفات موجود ہوں، اس کو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونا ہی چاہیے۔ وہ علم اور عمل کے ہر میدان میں صحیح راستہ اختیار کرے گا۔ اس لیے کہ جو شخص ذات خداوندی سے واقف ہے اور اس کی صفات کو پہچانتا ہے، وہ دراصل علم کی ابتدا کو بھی جانتا ہے اور اس کی انتہا کو بھی۔ ایسا شخص کبھی غلط راستوں میں بھٹک نہیں سکتا۔ اس کا پہلا قدم بھی صحیح پڑا ہے اور جس آخری منزل پر اسے جانا ہے، اس کو بھی وہ یقین کے ساتھ جانتا ہے۔ اب وہ فلسفیانہ غور خوض سے کائنات کے اسرار سمجھنے کی کوشش کرے گا۔مگر ایک کافر فلسفی کی طرح کبھی شکوک و شبہات کی بھول بھلیوں میں گم نہ ہوگا۔ وہ ║ سائنس کے ذریعہ سے قدرت کے قوانین کو معلوم کرنے کی کوشش کرے گا۔کائنات کے چھپے ہوئے خزانوں کو نکالے گا۔ خدا نے جو قوتیں دنیا میں اور خود انسانوں کے وجود میں پیدا کی ہیں، ان سب کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر معلوم کرے گا۔ مگر خدا شناسی ہر موقع پر اس کے سائنس کے غلط استعمال سے روکے گی۔ وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہ پڑے گا کہ میں ان چیزوں کا مالک ہوں۔ میں نے فطرت پر فتح پالی ہے، میں اپنے نفع کے لیے سائنس سے مدد لوں گا، دنیا کو زیر و زبر کردوں گا، لوٹ مار اور کشت و خون کرکے اپنی طاقت کا سکہ سارے جہاں میں بٹھادوں گا۔یہ ایک کافر سائنٹسٹ کا کام ہے۔ مسلم سائنٹسٹ جتنا زیادہ سائنس پرعبور حاصل کرے گا اتنا ہی زیادہ خدا پر اس کا یقین بڑھے گا۔ اور اتنا ہی زیادہ وہ خدا کا شکر گزار بندہ بنے گا۔ اس کا عقیدہ یہ ہوگا کہ میرے مالک نے میری قوت اور علم میں جو اضافہ کیا ہے، اس سے میں اپنی اور تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے کوشش کروں گا۔ اور یہی اس کا صحیح شکریہ ہے۔ اس طرح تاریخ، معاشیات، سیاسیات، قانون اور دوسرے علوم و فنون میں بھی ایک مسلم اپنی تحقیق اور جدوجہد کے لحاظ سے ایک کافر کے مقابلہ میں کم نہ رہے گا۔ مگر دونوں کی نظر میں بڑا فرق ہوگا۔ مسلم ہر علم کا مطالعہ صحیح نظر سے کرے گا، اور صحیح نتیجہ پر پہنچے گا۔ تاریخ میں وہ انسان کے گزشتہ تجربوں سے ٹھیک ٹھیک سبق لے گا، قوموں کی ترقی و تنزل کے اسباب معلوم کرے گا۔ ان کی تہذیب و تمدن کی مفید چیزیں دریافت کرے گا، جن کی بدولت پچھلی قومیں تباہ ہوگئيں، معاشیات میں دولت کمانے اور خرچ کرنے کے ایسے طریقے معلوم کرے گا جن سے تمام انسانوں کا بھلا ہو، نہ ایک کا فائدہ اور بہتوں کا نقصان ہو، سیاسیات میں اس کی تمام توجہ اس طرف مبذول ہوگی کہ دنیا میں امن، عدل اور انصاف اور نیکی و شرافت کی حکومت ہو۔ کوئی شخص یا کوئی جماعت خدا کے بندوں کو اپنا بندہ نہ بنائے۔ کوئی شخص یا کوئی جماعت خدا کے بندوں کو اپنا بندہ نہ بنائے۔ حکومت اور اس کی تمام طاقتوں کو خدا کی امانت سمجھا جائے اور بندگان خدا کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے۔ قانون میں وہ اس نظر سے غور کرے گا کہ عدل و انصاف کے ساتھ لوگوں کے حقوق مقرر کئے جائیں اور کسی صورت سے کسی پر ظلم نہ ہونے پائے۔ مسلم کے اخلاق میں خدا ترسی، حق شناسی اور راست بازی ہوگی۔ وہ دنیا میں یہ سمجھ کر رہے گا کہ سب چیزوں کا مالک خدا ہے۔ میرے پاس اور سب انسانوں کے پاس جو کچھ ہے خدا ہی کا دیا ہوا ہے۔ میں کسی چیز کا حتی کہ خود اپنے جسم اور جسمانی قوتوں کا بھی مالک نہیں ہوں۔ سب کچھ خدا کی امانت ہے اور اس امانت میں تصرف کرنے کا جو اختیار مجھے دیا گیا ہے، اس کو خدا ہی کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ ایک دن خدا مجھ سے اپنی یہ امانت واپس لے گا، اور اس وقت مجھ کو ایک ایک چیز کا حساب دینا ہوگا۔ یہ سمجھ کر جو شخص دنیا میں رہے اس کے اخلاق کا اندازہ کرو۔ وہ اپنے دل کو برے خیالات سے پاک رکھے گا۔ وہ اپنے دماغ کو برائی کی فکر سے بچائے گا۔ وہ اپنی آنکھوں کو بری نگاہ سے روکے گا۔ وہ اپنے کانوں کو برائی سننے سے باز رکھے گا۔ وہ اپنی زبان کی حفاظت کرے گا تاکہ اس سے حق کے خلاف کوئی بات نہ نکلے۔ وہ اپنے پیٹ کو حرام رزق سے بھرنے کے بجائے بھوکا رہنا زیادہ پسند کرے گا۔ وہ اپنے ہاتھوں کو ظلم کے لیے کبھی نہ اٹھائے گا۔وہ اپنے پاؤں کو برائی کے راستے پر کبھی نہ چلائے گا۔ وہ اپنے سر کو باطل کے سامنے کبھی نہ جھکائے گا، خواہ وہ کاٹ ہی کیوں نہ ڈالا جائے۔ وہ اپنی کسی خواہش اور کسی ضرورت کو ظلم اور ناحق کے راستہ پر کبھی نہ پورا کرے گا۔ وہ نیکی اور شرافت کا مجسمہ ہوگا۔حق اور صداقت کو ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھے گا۔ اور اس کے لیے اپنی ذات کے ہر فائدے اور اپنے دل کی ہر خواہش کو، بلکہ اپنی ذات کو بھی قربان کردے گا۔ وہ ظلم اور ناراستی کو ہر چیز سے زیادہ ناپسند کرے گا، اور کسی نقصان کے خوف سے یا کسی فائدے کے لالچ میں اس کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوگا، دنیا کی کامیابی بھی ایسے شخص کا حصہ ہے۔ اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی معزز اور شریف نہ ہوگا۔ کیونکہ اس کا سر خدا کے سوا کسی کے سامنے جھکنے والا نہیں۔ اور اس کا ہاتھ خدا کے سواکسی کے سامنے پھیلنے والا نہیں ۔ ذلت ایسے شخص کے پاس کیسے پھٹک سکتی ہے۔ ║ اس سے بڑھ کر دنیامیں کوئی طاقتور بھی نہ ہوگا، کیونکہ اس کے دل میں خدا کے سوا کسی کا خوف نہیں اور اس کو خدا کے سوا کسی سے بخشش اور انعام کا لالچ بھی نہیں۔ کون سی طاقت ہے جو ایسے شخص کو حق اور راستی سے ہٹاسکتی ہو۔ اور کون سی دولت ہے جو اس کا ایمان خرید سکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی غنی اور دولت مند بھی نہ ہوگا۔ کیونکہ وہ عیش پرست نہیں، خواہشات نفس کا بندہ نہیں، حریص اور لالچی نہیں۔ اپنی جائز محنت سے جو کچھ کماتا ہے، اسی پر قناعت کرتا ہے اور ناجائز دولت کے ڈھیر بھی اگر اس کے سامنے لگادئے جائيں تو ان کو حقارت سے ٹھکرادیتا ہے، یہ اطمینان کی دولت ہے جس سے بڑی دولت انسان کے لئے نہیں ہوسکتی۔ اس سے بڑھ کر دنیامیں کوئی محبوب اور ہر دل عزیز بھی نہ ہوگا، کیونکہ وہ ہر شخص کا حق ادا کرے گا اور کسی کا حق نہ مارے گا۔ ہر شخص سے نیکی کرے گا اور کسی کے ساتھ برائی نہ کرے گا۔ بلکہ ہر شخص کی بھلائی کے لیے کوشش کرے گا۔ اور اس کے بدلے میں اپنے لیے کچھ نہ چاہے گا۔ لوگوں کے دل آپ سے آپ اس کی طرف کھنچیں گے اور ہر شخص اس کی عزت اور محبت کرنے پر مجبور ہوگا۔ اس سے بڑھ کر دنیامیں کسی کا اعتبار نہ ہوگا۔ کیونکہ وہ امانت میں خیانت نہ کرے گا۔ صداقت سے منہ نہ موڑے گا۔ وعدہ کا سچا اور معاملہ کا کھرا ہوگا۔ اور ہر کام میں یہ سمجھ کر ایمانداری برتے گا کہ کوئی دیکھنے والا ہو یا نہ ہو، مگر خدا تو سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ ایسے شخص کی ساکھ کا کیا پوچھنا، کون ہے جو اس پر بھروسہ نہ کرے گا؟ ایک مسلم کی سیرت کو اچھ طرح سمجھ لو تو تم کو یقین آجائے گا کہ مسلم کبھی دنیا میں ذلیل اور محکوم اور مغلوب بن کر نہیں رہ سکتا ۔ وہ ہمیشہ غالب اور حاکم ہی رہے گا۔ کیونکہ اسلام جو صفات اس میں پیدا کرتا ہے اس پر کوئی قوت غالب نہیں آسکتی۔ اس طرح دنیا میں عزت اور بزرگی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہوگا تو اس پر خدا اپنی نعمتوں اور رحمتوں کی بارش کرےگا۔ کیونکہ جو امانت اس کے سپرد کی گئی تھی اس کا پورار پورا حق اس نے ادا کردیا۔ اور جس امتحان میں خدا نے اس کو ڈالا تھا اس میں وہ پورے پورے نمبروں کے ساتھ کامیاب ہوا۔ یہ ابدی کامیابی ہے جو دنیا سے لے کر آخرت تک مسلسل چلی جاتی ہے اور کہیں اس کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ اسلام ہے انسان کا فطری مذہب۔ یہ کسی قوم اور ملک کے ساتھ خاص نہیں۔ ہر زمانے اور ہر قوم اور ہر ملک میں جو خدا شناس اور حق پسند لوگ گزرے ہیں ان سب کا یہی مذہب تھا وہ سب مسلم تھے۔ خواہ ان کی زبان میں اس مذہب نام اسلام ہو یا کچھ اور۔   2. ~ ║ ایمان اور اطاعت اطاعت کے لیے علم اور یقین کی ضرورت، ایمان کی تعریف، علم حاصل ہونے کا ذریعہ، ایمان بالغیب ~اطاعت کے لیے علم اور یقین کی ضرورت پچھلے باب میں تم کو معلوم ہوچکا ہے کہ اسلام دراصل پروردگار کی اطاعت کا نام ہے۔ اب ہم بتانا چاہتے ہیں کہ انسان اللہ تعالی کی اطاعت اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک اسے چند باتوں کو علم نہ ہو اور وہ علم یقین کی حد تک پہنچا ہوا نہ ہو۔ سب سے پہلے تو انسان کو خدا کی ہستی کا پورا یقین ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر اسے یہی یقین نہ ہو کہ خدا ہے، تو وہ اس کی اطاعت کیسے کرے گا۔ اس کے ساتھ خدا کی صفات کا علم بھی ضروری ہے۔ جس شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ خدا ایک ہے اور خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں، وہ دوسروں کے سامنےسرجھکانے اور ہاتھ پھیلانے سے کیونکر بچ سکتا ہے؟ جس شخص کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ خدا سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے ، اور ہر چیز کی خبر رکھتا ہے، وہ اپنے آپ کو خدا کی نافرمانی سے کیسے روک سکتا ہے؟اس بات پر جب تم غور کروگے تو ، تم کو معلوم ہوگا کہ خیالات اور اخلاق اور اعمال میں اسلام کے راستے پر چلنے کے لیےانسان میں جن صفات کا ہونا ضروری ہے وہ صفات اس وقت تک اس میں پیدا نہیں ہوسکتیں جب تک اس کو خدا کی صفات کا ٹھیک ٹھیک علم نہ ہو۔ اور یہ علم بھی محض جان لینے کی حد تک نہ رہے، بلکہ اس کو یقین کے ساتھ دل میں بیٹھ جانا چاہیے تاکہ انسان کا دل اس کے مخالف خیالات سے اور اس کی زندگی اس کے علم کے خلاف عمل کرنے سے محفوظ رہے۔ اس کے بعد انسان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ کس بات کو خدا پسند کرتا ہے، تاکہ اسے اختیار کیاجائے، اور کس بات کو خدا ناپسند کرتا ہے تاکہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو خدائی قانون اور خدائی ضابطہ سے پوری واقفیت ہو۔ اس کے متعلق وہ پورایقین رکھتا ہو کہ یہی خدائی قانون اور خدائی ضابطہ ہے، اور اسی کی پیروی سے خدا کی خوشنودی حاصل ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اگر اس کو سرے سے علم ہی نہ ہو تو وہ اطاعت کس چیز کی کرے گا؟ اور اگر علم تو ہو لیکن پورا یقین نہ ہو، یا دل میں یہ خیال ہو کہ اس قانون اور اس ضابطہ کے سوا دوسرا قانون اور ضابطہ بھی درست ہوسکتا ہے تو اس کی ٹھیک ٹھیک پابندی کیسے کرسکتا ہے؟ پھر انسان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ خدا کی مرضی کے خلاف چلنے اور اس کے پسند کئے ہوئے ضابطہ کی اطاعت نہ کرنے کا انجام کیا ہے اور اس کی فرماں برداری کرنے کا انعام کیا ہے۔ اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ اسے آخرت کی زندگی کا،خدا کی عدالت میں پیش ہونے کا ، نافرمانی کی سزا پانے کا اور فرماں برداری پر انعام پانے کا پورا علم اور یقین ہو۔ جو شخص آخرت کی زندگی سے ناواقف ہے وہ اطاعت اور نافرمانی دونوں کو بے نتیجہ سمجھتا ہے۔ اس کا خیال تو یہ ہے کہ آخر میں اطاعت کرنے والا اور نہ کرنے والا دونوں برابر ہی رہیں گے۔ کیونکہ دونوں خاک ہوجائیں گے۔ پھر اس سے کیونکر امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اطاعت کی پابندیاں اور تکلیفیں برداشت کرنا قبول کرلے گا۔ اور ان گناہوں سے پرہیز کرے گا جن سے اس دنیا میں کوئی نقصان پہنچنے کا اس کو اندیشہ نہیں ہے۔ ایسے عقیدے کے ساتھ انسان خدائی قانون کا کبھی مطیع نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح وہ ║ شخص اطاعت میں ثابت قدم نہیں ہوسکتا جسے آخرت کی زندگی اور خدائی عدالت کی پیشی کا علم تو ہے مگر یقین نہیں۔اس لئے کہ شک اور تردد کے ساتھ انسان کسی بات پر جم نہیں سکتا۔تم ایک کام کو دل لگا کر اسی وقت کرسکوگے جب تم کو یقین ہو کہ یہ کام فائدہ بخش ہے اور دوسرے کام میں پرہیز کرنے میں بھی اسی وقت مستقل رہ سکتے ہو جب تمہیں پورا یقین ہو کہ یہ کام نقصان دہ ہے، لہذا معلوم ہوا کہ ایک طریقہ کی پیروی کے لئے اس کے انجام اور نتیجہ کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔ اور یہ علم ایسا ہونا چاہیے جو یقین کی حد تک پہنچا ہوا ہو۔ ~ایمان کی تعریف اوپر کے بیان میں جس چیز کو ہم نے علم اور یقین سے تعبیر کیا ہے اسی کا نام ایمان ہے۔ ایمان کے معنی جاننے اور ماننے کے ہیں۔ جو شخص خدا کی وحدانیت اور اس کی حقیقی صفات اور اس کے قانون اور اس کی جزا و سزا کو جانتا ہو اور دل سے اس پر یقین رکھتا ہو اس کو مومن کہتے ہیں۔ اور ایمان کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان مسلم یعنی خدا کا مطیع و فرماں بردار ہوجاتا ہے۔ ایمان کی اس تعریف سے تم خود سمجھ سکتے ہو کہ ایمان کے بغیر کوئی انسان مسلم نہیں ہوسکتا۔ اسلام اور ایمان کا تعلق وہی ہے جو درخت کا تعلق بیج سے ہوتا ہے۔ بیج کے بغیر تو درخت پیدا ہی نہیں ہوتا۔ البتہ ہوسکتا ہے کہ بیج زمین میں بویا جائے مگر زمین خراب ہونے کی وجہ سے، یا آب و ہوا اچھی نہ ملنے کی وجہ سے درخت ناقص نکلےر۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص سرے سے ایمان ہی نہ رکھتا ہو تو یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ "مسلم" ہو۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ کسی شخص کے دل میں ایمان ہو مگر اپنے ارادے کی کمزوری یا ناقص تعلیم و تربیت اور بری صحبت کے اثر سے وہ پورا اور پکا مسلم نہ ہو۔ ایمان اور اسلام کے لحاظ سے تمام انسانوں کے چار درجے ہیں: 1 جو ایمان رکھتے ہیں اور ان کا ایمان انھیں خدا کے احکام کا پورا مطیع بنادیتا ہے۔ جس بات کو خدا ناپسند کرتا ہے، وہ اس سے اس طرح بچتے ہیں جیسے کوئی شخص آگ کو ہاتھ لگانے سے بچتا ہے اور جس بات کو خدا پسند کرتا ہے وہ اس کو ایسے شوق سے کرتے ہیں جیسے کوئی شخص دولت کمانے کے لیے شوق سے کام کرتا ہے۔ 2 جو ایمان تو رکھتے ہیں مگر ان کا ایمان اتنا طاقتور نہیں ہے کہ انھیں پوری طرح خدا کا فرماں بردار بنادے۔ یہ اگرچہ کمتر درجہ کے لوگ ہیں لیکن بہرحال مسلم ہیں۔ یہ اگر نافرمانی کرتے ہیں تو اپنے جرم کے لحاظ سے سزا کے مستحق ہیں۔ مگر ان کی حیثیت مجرم کی ہے، باغی کی نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ بادشاہ کو مانتے ہیں اور اس کے قانون کو قانون تسلیم کرتے ہیں۔ 3 وہ جو ایمان نہیں رکھتے مگر بظاہر ایسے عمل کرتے ہیں جو خدائی قانون کے مطابق نظر آتے ہیں۔ یہ دراصل باغی ہیں، ان کا ظاہری نیک عمل حقیقت میں خدا کی اطاعت اور فرماں برداری نہیں ہے۔ اس لیے اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ ان کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو بادشاہ کو بادشاہ نہیں مانتا اور اس کے قانون کو قانون ہی نہیں تسلیم کرتا۔ یہ شخص اگر بظاہر ایسا عمل کررہا ہو جو قانون کے خلاف نہ ہو تو تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بادشاہ کا وفادار اور اس کے قانون کا پیرو ہے۔ اس کا شمار تو بہرحال باغیوں ہی میں ہوگا۔ 4 وہ جو ایمان بھی نہیں رکھتے اور عمل کے لحاظ سے بھی شریر اور بدکار ہیں۔ یہ سب سے بدتر درجہ کے لوگ ہیں، کیونکہ یہ باغی بھی ہیں اور مفسد بھی۔ ║ انسای طبقہ کی اس تقسیم سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ ایمان ہی پر دراصل انسان کی کامیابی کا انحصار ہے۔ اسلام خواہ وہ کامل ہو یا ناقص ، صرف ایمان کے بیج سے پیدا ہوتا ہے۔ جہاں ایمان نہ ہوگا وہاں ایمان کی جگہ کفر ہوگا۔ جس کے دوسرے معنی خدا سے بغاوت کے ہیں، خواہ وہ بدتر درجہ کی بغاوت ہو یا کم تر درجہ کی ۔ ~علم حاصل ہونے کا ذریعہ اطاعت کے لیے ایمان کی ضرورت تو تم کو معلوم ہوگئی۔ اب سوال یہ ہے کہ خدا کی صفات اور اس کے پسندیدہ قانون اور آخرت کی زندگی کے متعلق صحیح علم اور ایسا علم جس پر یقین کیا جاسکے۔ کس ذریعہ سے حاصل ہوسکتا ہے؟ پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ کائنات میں ہر طرف خدا کی کاریگری کے آثار پھیلے ہوئے ہیں، جو اس بات پر گواہی دے رہے ہیں کہ کارخانے کو ایک ہی کاریگر نے بنایا ہے اور وہی اس کو چلا رہا ہے۔ ان آثار میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اس کی حکمت، اس کا علم، اس کی قدرت، اس کا رحم، اس کی پروردگاری، اس کا قہر، غرض کون سی صفت ہے جس کی شان اس کے کاموں میں نمایاں نہیں ہے۔ مگر انسان کی عقل اور اس کی قابلیت نے ان چیزوں کے دیکھنے اور سمجھنے میں اکثر غلطی کی ہے۔ یہ سب آثار آنکھوں کے سامنے موجود ہیں اور ان کے باوجود کسی نے کہا خدا دو ہیں۔ اور کسی نے کہا کہ تین ہیں ، کسی نے بے شمار خدا مان لیے، کسی نے خدائی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور کہا ایک بارش کاخدا ہے، ایک ہوا کا خدا ہے، ایک آگ کا خدا ہے غرض ایک ایک قوت کے الگ الگ خدا ہیں اور ایک خدا ان سب کا سردار ہے۔ اس طرح خدا کی ذات و صفات کو سمجھنے میں لوگوں کی عقل نے بہت دھوکے کھائے ہیں جن کی تفصیل کا یہا ں موقع نہیں۔ آخرت کی زندگی کے متعلق بھی لوگوں نے بہت سے غلط خیالات قائم کیے۔ کسی نے کہا کہ انسان مرکر مٹی ہوجائے گا، پھر اس کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ کسی نے کہا کہ انسان بار بار اسی دنیا میں جنم لے گا اور اپنے اعمال کی سزا یا جزا پائے گا۔ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے جس قانون کی پابندی ضروری ہے اس کو تو خود اپنی عقل سے بنانا اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ اگر انسان بہت صحیح عقل رکھتا ہو اور اس کی علمی قابلیت نہایت اعلی درجہ کی ہو، تب بھی سالہا سال کے تجربے اور غور و خوض کے بعد وہ کسی حد تک ان باتوں کے متعلق رائے قائم کرسکے گا اور پھر بھی اس کو کامل یقین نہ ہوگا کہ اس نے پورا پورا حق معلوم کرلیا ہے۔ اگرچہ علم اور عقل کا پورا امتحان تو اسی طرح ہوسکتاتھا کہ انسان کو بغیر کسی ہدایت کے چھوڑ دیا جاتا۔ پھر جو لوگ اپنی کوشش اور قابلیت سے حق اور صداقت تک پہنچ جاتے ، وہی کامیاب ہوتے اور جو نہ پہنچتے وہ ناکام رہتے۔لیکن اللہ تعالی ٰ نے انسانوں کو ایسے سخت امتحان میں نہیں ڈالا۔ اس نے اپنی مہربانی سے خود انسانوں ہی میں سے ایسے انسان پیدا کیے جن کو اپنی صفات کا صحیح علم دیا۔ وہ طریقہ بھی بتایا جس سے انسان دنیا میں خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرسکتا ہے۔ آخرت کی زندگی کے متعلق بھی صحیح واقفیت بخشی اور ان کو ہدایت کی کہ دوسرے انسانوں کو یہ حکم پہنچادیں، یہ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ جس ذریعہ سے خدا نے ان کو علم دیا ہے اس کا نام وحی ہے، اور جس کتاب میں ان کو یہ علم دیا گیا ہے اس کو اللہ کی کتاب اور اللہ کا کلام کہتے ہیں۔ اب انسان کی عقل اور اس کی قابلیت کا امتحان اس میں ہے کہ وہ پیغمبر کی پاک زندگی کو دیکھنے اور اس کی اعلی تعلیم پر غور کرنے کے بعد اس پر ایمان لاتا ہے یہ نہیں۔ اگر وہ حق شناس اور حق پرست ہے تو سچی بات اور سچے انسان کی تعلیم کو مان لے گا اور امتحان میں کامیاب ہوجائے گا۔ اور اگر اس نے نہ مانا تو انکار کے معنی یہی ہوں گے کہ اس نے حق اور صداقت کو سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت کھودی ہے۔ یہ انکار اس کو امتحان میں ناکام کردے گا۔ اور خد اور اس کے قانون اور آخرت کی زندگی کے متعلق وہ کبھی کوئی صحیح علم حاصل نہ کرسکے گا۔ ~║ ایمان بالغیب دیکھو ، جب تم کو کسی چیز کا علم حاصل نہیں ہوتا تو تم علم رکھنے والے کو تلاش کرتے ہو اور اس کی ہدایت پر عمل کرتے ہو۔ تم بیمار ہوتے ہو تو خود اپنے علاج نہیں کرلیتے، بلکہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہو۔ ڈاکٹر کا سند یافتہ ہونا، اس کا تجربہ کار ہونا، اس کے ہاتھ سے بہت مریضوں کا شفایاب ہونا، یہ ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے تم ایمان لے آتے ہو کہ تمہارے علاج کے لیے جس لیاقت کی ضرورت ہے وہ اس ڈاکٹر میں موجود ہے۔ اسی ایمان کی بناء پر وہ جس دوا کو جس طریقہ سے استعمال کرنے کی ہدایت کرتا ہے، اس کو تم استعمال کرتے ہو اور جس چیز سے پرہیز کا حکم دیتا ہے، اس سے پرہیز کرتے ہو۔ اسی طرح قانون کے معاملہ میں تم وکیل پر ایمان لاتے ہو اور اس کی اطاعت کرتے ہو۔ تعلیم کے مسئلہ میں استاد پر ایمان لاتے ہو اور جو کچھ وہ تمہیں بتاتا ہے اس کو مانتے چلے جاتے ہو۔ تمہیں کہیں جانا ہو اور راستہ معلوم نہ ہو تو کسی واقف کار پر ایمان لاتے ہو اور جو راستہ ہو تمہیں بتاتا ہے اسی پر چلتے ہو۔ غرض دنیا کے ہر معاملہ میں تم کو واقفیت اور علم حاصل کرنے کے لیے کسی جاننے والے آدمی پر ایمان لانا پڑتا ہے اور اس کی اطاعت کرنے پر تم مجبور ہوتے ہو۔ اسی کا نام ایمان بالغیب ہے۔ ایمان بالغیب کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ تم کو معلوم نہیں اس کا علم تم جاننے والے سے حاصل کرو اور اس پر یقین کرلو۔ خداوند تعالیٰ کی ذات و صفات سے تم واقف نہیں ہو۔ تم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے فرشتے اس کے حکم کے ماتحت تمام عالم کا کام کررہے ہیں اور تم کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ تم کو یہ بھی خبر نہیں کہ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ تم کو آخرت کی زندگی کا بھی صحیح حال معلوم نہیں۔ ان سب باتوں کا علم تو کو ایک ایسے انسان سے حاصل ہوتا ہے جس کی صداقت، راست بازی، خدا ترسی، نہایت پاک زندگی اور نہایت حکیمانہ باتوں کو دیکھ کر تم تسلیم کرلیتے ہو کہ وہ جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے۔ اور اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنے کےلیے ایمان بالغیب ضروری ہے۔ کیونکہ پیغمبر کے سوا کسی اور ذریعہ سے تم کو صحیح علم ہو نہیں سکتا اور صحیح علم کے بغیر تو اسلام کے طریقہ پر ٹھیک ٹھیک چل نہیں سکتے۔   3. ~ ║ باب سوم ~نبوت پیغمبری کی حقیقت، پیغمبر کی پہچان، پیغمبر کی اطاعت، پیغمبر پر ایمان لانے کی ضرورت، پیغمبری کی مختصر تاریخ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، نبوت محمدی کا ثبوت، ختم نبوت، ختم نبوت کے دلائل ~٭-------------٭--------------٭ پچھلے باب میں تم کو تین باتیں بتائی گئی ہیں: ایک یہ کہ خدا کی اطاعت کے لیے خدا کی ذات و صفات اور اس کے پسندیدہ طریقے اور آخرت کی جزا و سزا کے متعلق صحیح علم کی ضرورت ہے۔ اور یہ علم ایسا ہونا چاہیے کہ جس پر تم کو یقین کامل یعنی ایمان حاصل ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنے سخت امتحان میں نہیں ڈالا ہے کہ وہ اپنی کوشش سے یہ علم حاصل کرلے، بلکہ اس نے خود انسانوں ہی میں سے بعض برگزیدہ بندوں (یعنی پیغمبروں) کو وحی کے ذریعہ سے یہ علم عطا کیا اور ان کو حکم دیا کہ دوسرے بندوں تک اس علم کو پہنچادیں۔ تیسرے یہ کہ عام انسانوں پر اب صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کے سچے پیغمبروں کو پہچانیں۔ جب ان کو معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص حقیقت میں خدا کا سچا پیغمبر ہے ، تو ان کا فرض ہے کہ وہ جو کچھ تعلیم دے اس پر ایمان لائیں اور جو کچھ وہ حکم دے اس کو تسلیم کریں اور جس طریقہ پر وہ چلے اس کی پیروی کریں۔ اب سب سے پہلے ہم تمہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پیغمبری کی حقیقت کیا ہے؟ اور پیغمبروں کو پہچاننے کی صورت کیا ہے؟ ~پیغمبری کی حقیقت تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں انسان کو جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اللہ نے ان سب کا انتظام خود ہی کردیا ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو دیکھو کتنا سامان اس کو دے کر دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان، سونگھنے اور سانس لینے کے لیے ناک، محسوس کرنے کے لیے سارے جسم کی کھال میں قوت لامسہ، چلنے کے لیے پاؤں،کام کرنے کے لیے ہاتھ، سوچنے کے لیے دماغ اور ایسی ہی بے شمار دوسری چیزیں جو پہلے سے اس کی سب ضرورتوں کا لحاظ کرکے اس کے چھوٹے سے جسم میں لپیٹ کر رکھ دی گئی ہیں۔ پھر جب وہ دنیا میں قدم رکھتا ہے تو زندگی بسر کرنے کے لیے اتنا سامان اس کو ملتا ہے جس کو تم شمار بھی نہیں کرسکتے۔ ہوا ہے، روشنی ہے، حرارت ہے، پانی ہے، زمین ہے، ماں کے سینے میں دودھ پہلےسے موجود ہے، ماں اور باپ اور عزیزوں حتی کہ غیروں کے دلوں میں اس کی محبت اور شفقت پیدا کردی گئی ہے جس سے اس کو پالا پوسا جاتا ہے۔ پھر جتنا جتنا وہ بڑھتا جاتا ہے اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیےہر قسم کاسامان اس کو ملتا جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا زمین و آسمان کی ساری قوتیں اس کی پرورش اور خدمت کے لیے کام کررہی ہیں۔ اس کے بعد اور آگے بڑھو۔دنیام میں کام کرنے کے لیے جتنی قابلیتوں کی ضرورت ہے وہ سب انسان کو دی گئی ہیں۔ جسمانی قوت، عقل، سمجھ بوجھ، گویائی اور ایسی ہی بہت سی قابلیتیں تھوڑی یا بہت ہر انسان میں موجود ہیں۔ لیکن یہاں اللہ تعالی نے عجیب انتظام کیا ہے۔ ساری قابلیتیں سب انسانوں کو یکساں نہیں دی۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی کسی کا محتاج نہ ہوتا۔نہ کوئی کسی کی پروا کرتا۔ اس لیے اللہ نے تمام انسانوں کی مجموعی ضرورتوں کے لحاظ سے سب قابلیتیں پیدا تو انسانوں ہی میں کیں۔ مگر اس طرح کہ کسی کو ایک قابلیت زیادہ دے دی اور دوسرے کو دوسری قابلیت۔ تو دیکھتے ہو کہ بعض لوگ جسمانی محنت کی قوتیں دوسروں سے زیادہ لے کر آتے ہیں۔ بعض لوگوں میں کسی خاص ہنر یا پیشہ کی پیدائشی قابلیت ہوتی ہے جس سے دوسرے محروم ہوتے ہیں۔ اور بعض لوگوں میں ذہانت اور عقل کی قوت دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ بعض پیدائشی سپہ سالار ہوتے ہیں۔ بعض میں حکمرانی کی خاص قابلیت ہوتی ہے۔ بعض تقریر کی غیر معمولی قوت لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ بعض میں انشا پردازی کا فطری ملکہ ہوتا ہے۔ کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا ہے کہ اس کا دماغ ریاضی میں خوب لڑتا ہے حتی کہ اس فن کے بڑے بڑے پیچیدہ سوالات اس طرح حل کردیتا ہے کہ دوسروں کے ذہن وہاں تک نہیں پہنچتے۔ ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہےجو عجیب عجیب چیزیں ایجاد کرتا ہے اور اس کی ایجادوں کو دیکھ کر دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک اور شخص ایسا بے نظیر قانونی دماغ لے کر آتا ہے کہ قانون کے جو نکتے برسوں غور کرنے کے بعد بھی دوسروں کی سمجھ میں نہیں آنے، اس کی نظر خودبخود ان تک پہنچ جاتی ہے، یہ خدا کی دین ہے، کوئی شخص اپنے اندر خود یہ قابلیتیں پیدا نہیں کرسکتا، نہ تعلیم و تربیت سے یہ چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ دراصل یہ پیدائشی قابلیتیں ہیں اور خدا اپنی حکمت سے جس کو یہ قابلیت چاہتا ہے عطا کردیتا ہے۔ خدا کی اس بخشش پر بھی غور کروگے تو تم کو معلوم ہوگا کہ انسانی تمدن کے لیے جن قابلیتوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، وہ زیادہ انسانوں میں پیدا کی جاتی ہیں اور جن کی ضرورت جس قدر کم ہوتی ہے، وہ اسی قدر کم آدمیوں میں پیدا کی جاتی ہیں۔ سپاہی بہت پیدا ہوتے ہیں۔ کسان اور بڑھئی اور لوہار اور ایسے ہی دوسرے کاموں کے آدمی کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ مگر علمی و دماغی قوتیں رکھنے والے اور سیاست اور سپہ سالاری کی قابلیتیں رکھنے والے کم پیدا ہوتے ہیں۔ پھر وہ لوگ اور بھی زیادہ کم یاب ہوتے ہیں جو کسی خاص فن میں غیر معمولی قابلیت کے مالک ہوں، کیوں کہ ان کے کارنامے صدیوں کے لیے انسانوں کو اپنے جیسے ماہر فن کی ضرورت سے بے نیاز کردیتے ہیں۔ اب سوچنا چاہیے کہ دنیا میں انسانی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے صرف یہی ایک ضرورت تو نہیں ہے کہ انسانوں میں انجنیر، ریاضی داں، سائنس داں، قانون داں، سیاست کے ماہر، معاشیات کے باکمال اور مختلف پیشوں کی قابلیت رکھنے والے لوگ ہی پیدا ہوں۔ ان سب سے بڑھ کر ایک اور ضرورت بھی تو ہے، اور وہ یہ کہ کوئی ایسا ہو جو انسان کو خدا کا راستہ بتائے۔دوسرے لوگ تو صرف یہ بتانے والے ہیں کہ اس دنیا میں انسان کے لیے کیا ہے اور اس کو کس کس طرح برتا جاسکتا ہے۔ مگر کوئی یہ بتانے والا بھی تو ہونا چاہیے کہ انسان خود کس کےلیے ہے؟ اور انسان کو دنیا میں یہ سب سامان کس نے دیا ہے؟ اور اس دینے والے کی مرضی کیا ہے؟ تاکہ انسان اسی کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرکے یقینی اور دائمی کامیابی حاصل کرے۔ یہ انسان کی اصلی اور سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اور عقل یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ جس خدا نے ہماری چھوٹی سے چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کیا ہے اس نے ایسی اہم ضرورت کو پورا کرنے سے غفلت برتی ہوگی۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ خدا نے جس طرح ایک ایک ہنر اور ایک ایک علم و فن کی خاص قابلیت رکھنے والے انسان پیدا کیے ہیں۔ اسی طرح ایسے انسان بھی پیدا کیے ہین جن میں خود خدا کے پہچاننے کی اعلی قابلیت تھی۔ اس نے ان کو دین اور اخلاق اور شریعت کاعلم اپنے پاس سے عطا کیا ، اور ان کو اس خدمت پر مقرر کیا کہ دوسرے لوگوں کو ان چیزوں کی تعلیم دیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو ہماری زبان میں نبی یا رسول یا پیغمبر کہا جاتا ہے۔   ~ ║ پیغمبر کی پہچان جس طرح دوسرے علوم و فنون کے باکمال لوگ ایک خاص قسم کا ذہن اور ایک خاص قسم کی طبیعت لے کر پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح پیغمبر بھی ایک خاص قسم کی طبیعت لے کر آتے ہیں۔ ایک پیدائشی شاعر کا کلام سنتے ہی ہم کو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شاعری کی خاص قابلیت لے کر پیدا ہوا ہے، کیونکہ دوسرے لوگ خواہ کتنی ہی کوشش کریں ویسا شعر نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح ایک پیدائشی مقرر، ایک پیدائشی انشاپرداز، ایک پیدائشی موجد، ایک پیدائشی لیڈر بھی اپنے کارناموں سے صاف پہچان لیا جاتا ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے کام میں غیر معمولی قابلیت کا اظہارکرتا ہے جو دوسروں میں نہیں ہوتی۔ ایسا ہی حال پیغمبر کا بھی ہے۔ اس کے ذہن میں وہ باتیں آتی ہیں جو دوسرے لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔وہ ایسے مضامین بیان کرتا ہے جو اس کے سوا کوئی دوسرا انسان بیان نہیں کرسکتا۔ اس کی نظر ایسی باریک باتوں تک خودبخود پہنچ جاتی ہے ، جن تک دوسروں کی نظر برسوں کے غورفکر کے بعد بھی نہیں پہنچتی۔ وہ جو کچھ کہتا ہے ہماری عقل اس کو قبول کرتی ہے، ہمارا دل گواہی دیتا ہے کہ ضرور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ دنیا کے تجربات اور کائنا ت کے مشاہدوں سے اس کی ایک ایک بات سچی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم خود ویسی بات کہنا چاہیں تو نہیں کہہ سکتے۔ پھر اس کی طبیعت ایسی پاکیزہ ہوتی ہے کہ وہ ہر معاملہ میں سچا، سیدھا اور شریفانہ طریقہ اختیار کرتا ہے۔ وہ کبھی کوئی غلط بات نہیں کہتا، کوئی برا کام نہیں کرتا، ہمیشہ نیکی اور صداقت کی تعلیم دیتا ہے اور جو کچھ دوسروں سے کہتا ہے اس پر خود عمل کرکے دیکھاتا ہے۔ اس کی زندگی میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ وہ جو کچھ کہے اس کے خلاف عمل کرے۔ اس کے قول یا عمل میں کوئی ذاتی غرض نہیں ہوتی۔ وہ دوسروں کے بھلے کی خاطر خود نقصان اٹھاتا ہے اور اپنے بھلے کے لیے کسی کا نقصان نہیں کرتا۔ اس کی ساری زندگی سچائی، شرافت، پاک طینتی، بلند خیالی، اور اعلی درجہ کی انسانیت کا نمونہ ہوتی ہے جس میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی عیب نظر نہیں آتا۔ انہی چیزوں کو دیکھ کر صاف پہچان لیا جاتا ہے کہ یہ شخص خدا کا سچا پیغمبر ہے۔ ~پیغمبرکی اطاعت جب یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص خدا کا سچا پیغمبر ہے تو اس کی بات ماننا ، اس کی اطاعت کرنا اور اس کے طریقے کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ یہ بات بالکل خلاف عقل ہے کہ تم ایک شخص کو پیغمبر بھی تسلیم کرو اور پھر اس کی بات بھی نہ مانو اس لیے کہ پیغمبر تسلیم کرلینے کے معنی یہ ہیں کہ تم نے مان لیا کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے خدا کی طرف سے کہہ رہا ہے اور جو کچھ کررہا ہے خدا کی مرضی کے مطابق کررہا ہے، اب تم جو کچھ اس کے خلاف کہوگے یا کروگے وہ خدا کے خلاف ہوگا۔ اور جو بات خدا کے خلاف ہو وہ کبھی حق نہیں ہوسکتی۔ لہذا کسی کو پیغمبر تسلیم کرنے سے یہ بات خود بخود لازم ہوجاتا تی ہے کہ اس کی بات کو بے چون و چرا مان لیا جائے اور اس کے حکم کے آگے سر جھکادیا جائے، خواہ اس کی حکمت اور اس کا فائدہ تمہاری سمجھ میں آئے یہ نہ آئے۔ جو بات پیغمبر کی طرف سے ہے اس کا پیغمبر کی طرف سے ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سچی ہے اور تمام مصلحتیں اور حکمتیں اس میں موجود ہیں۔ اگر تمہاری سمجھ میں کسی بات کی مصلحت نہیں آتی تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس بات میں کوئی خرابی ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خود تمہاری سمجھ میں کوئی خرابی ہے۔ جو شخص کسی فن کا ماہر نہیں ہے ظاہر ہے کہ وہ فن کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن وہ کتنا بے وقوف ہوگا اگر وہ ماہر فن کی بات کو محض اس وجہ سے نہ مانے کہ اس کی سمجھ میں وہ بات نہیں آتی۔ دیکھو دنیا کے ہر کام میں اس کے ماہر کی ضرورت ہوتی ہے اور ماہر کی طرف رجوع کرنےکے بعد اس پر پور ا بھروسہ کیا جاتا ہے اور اس کے کام میں دخل نہیں دیا جاتا۔ کیونکہ سب لوگ سب کاموں کے ماہر نہیں ہوسکتے اور نہ دنیا بھر کی تمام چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں۔تمہیں اپنی تمام عقل اور ہوشیاری صرف اس بات میں ║ صرف کرنی چاہیے کہ ایک بہتریں ماہرفن کی تلاش کرو۔جب کسی کے متعلق تمہیں یقین ہوجائے کہ وہ بہترین ماہر فن ہے تو اس پر تم کو کامل بھروسہ کرنا چاہیے پھر اس کے کاموں میں دخل دینا اور ایک ایک بات کے متعلق یہ کہنا کہ پہلے ہمیں سمجھادو ورنہ ہم نہ مانیں گے، عقلمندی نہیں، بلکہ سراسر بے وقوفی ہے۔ کسی وکیل کو مقدمہ سپرد کرنے کے بعد تم ایسی حجتیں کروگے تو وہ تمہیں اپنے دفتر سے نکال دے گا۔ کسی ڈاکٹر سے تم اس کی ایک ایک ہدایت پر دلیل پوچھوگے تو وہ تمہارا علاج چھوڑدے گا، ایسا ہی معاملہ مذہب کا بھی ہے۔ تم کو خدا کے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے، تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ تمہارے پاس خود ان چیزوں کے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اب تمہارا فرض ہے کہ خدا کے سچے پیغمبر کی تلاش کرو۔ اس تلاش میں تم کو نہایت ہوشیاری اور سمجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔ کیونکہ اگر کسی غلط آدمی کو تم نے پیغمبر سمجھ لیا تو وہ تمہیں غلط راستے پر لگادے گا۔ مگر جب تمہیں خوب جانچ پڑتال کرنے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ فلاں شخص خدا کا پیغمبر ہے تو اس پر تم کو پورا اعتماد کرنا چاہیے اور اس کے ہر حکم کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ~پیغمبروں پر ایمان لانے کی ضرورت جب تمہیں معلوم ہوگیا کہ اسلام کا سچا اور سیدھا راستہ وہی ہے جو خدا کی طرف سے خدا کا پیغمبر بتائے،تو یہ بات تم خود سمجھ سکتے ہو کہ پیغمبر پر ایمان لانا اور اس کی اطاعت اور پیروی کرنا ، تمام انسانوں کے لیے ضروری ہے اور جو شخص پیغمبر کے طریقے کو چھوڑ کر خود اپنی عقل سے کوئی طریقہ نکالتا ہے وہ یقیناً گمراہ ہے۔ اس معاملے میں لوگ عجیب عجیب غلطیاں کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو پیغمبر کی صداقت کو تسلیم کرتے ہیں، مگر نہ اس پر ایمان لاتے ہیں، نہ اس کی پیروی قبول کرتے ہیں۔ یہ صرف کافر ہی نہیں، احمق بھی ہیں۔کیونکہ پیغمبر کو سچا پیغمبر ماننے کے بعد اس کی پیروی نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جان بوجھ کر جھوٹ کی پیروی کرے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی حماقت نہیں ہوسکتی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں پیغمبر کی پیروی کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہم خود اپنی عقل سے حق کا راستہ معلوم کرلیں گے، یہ بھی سخت غلطی ہے۔ تم نے ریاضی پڑھی ہے اور تم یہ جانتے ہو کہ ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک سیدھا خط صرف ایک ہی ہوسکتا ہے، اس کے سوا جتنے بھی خط کھینچے جائیں گے وہ سب یا تو ٹیڑھے ہوں گے یا اس دوسرے نقطہ تک نہ پہنچیں گے۔ ایسی ہی کیفیت حق کے راستے کی بھی ہے جس کو اسلام کی زبان میں صراط مستقیم (یعنی سیدھا راستہ) کہا جاتا ہے۔ یہ راستہ انسان سے شروع ہوکر خدا تک جاتا ہے اور ریاضی کے اسی قاعدے کے مطابق یہ بھی ایک ہی راستہ ہوسکتا ہے۔ اس کے سوا جتنے راستے بھی ہوں گے یا تو ٹیڑھے ہوں گے یا خدا تک نہ پہنچیں گے۔اب غور کرو کہ جو سیدھا راستہ ہے وہ تو پیغمبر نے بتادیا اور اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ صراط مستقیم ہے ہی نہیں۔ اس راستہ کو چھوڑ کر جو شخص خود کوئی راستہ تلاش کرے گا اس کو دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ضرور پیش آئے گی یا تو اس کو خدا تک پہنچنے کا کوئی راستہ ملے گا ہی نہیں یا اگر ملا بھی تو بہت پھیر کا راستہ ہوگا، خط مستقیم نہ ہوگا بلکہ خط منحنی ہوگا۔ پہلی صورت میں تو اس کی تباہی ظاہر ہے۔ رہی دوسری صورت ، تو اس کے بھی حماقت ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا۔ ایک بے عقل جانور بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے خط منحنی کو چھوڑ کر خط مستقیم ہی کو اختیار کرتا ہے۔ پھر اس انسان کو تم کیا کہوگے جس کو خدا کا ایک نیک بندہ سیدھا راستہ دکھائے اور وہ کہے کہ نہیں، میں تیرے بتائے ہوئے راستے پر نہیں چلوں گا، بلکہ خود ٹیڑھے راستے پر بھٹک بھٹکا کر منزل مقصود تلاش کرلوں گا۔ یو تو وہ بات ہےجو سرسری نظر میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے، لیکن اگرتم زیادہ غور کرکے دیکھوگے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ جو شخص پیغمبر پر ایمان لانے سے انکار کرتا ہے، اس کو خدا تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں مل سکتا۔ نہ ٹیڑھا نہ سیدھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص سچے آدمی کی بات ماننے سے انکار کرتا ہے اس کے دماغ میں ضرور کوئی ایسی خرابی ║ ہوگی جس کے سبب وہ سچائی سے منہ موڑتا ہے۔ یا تو اس کی سمجھ بوجھ ناقص ہوگی یا اس کے دل میں تکبر ہوگا یا اس کی طبیعت ایسی ٹیڑھی ہوگی کہ وہ نیکی اور صداقت کی باتوں کو قبول کرنے پر آمادہ ہی نہ ہوگی یا وہ باپ دادا کی اندھی تقلید میں گرفتار ہوگا اور جو غلط باتیں رسم کے طور پر پہلے سے چلی آتی ہیں، ان کے خلاف کسی کی بات ماننے پر تیار نہ ہوگا یا وہ اپنی خواہشات کا بندہ ہوگا اور پیغمبر کی تعلیم کو ماننے سے اس لیے انکار کرے گا کہ اس کے مان لینے کے بعد گناہوں اور ناجائز باتوں کی آزادی باقی نہیں رہتی۔ یہ تمام اسباب ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک سبب بھی کسی شخص میں موجود ہو تو اس کو خدا کا راستہ ملنا غیر ممکن ہے۔ اور اگر کوئی سبب بھی موجود نہ ہو تو یہ ناممکن ہے کہ ایک سچا غیر متعصب اور نیک آدمی ایک سچے پیغمبر کی تعلیم قبول کرنے سے انکار کردے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پیغمبر خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ہوتا ہے۔ اور خدا ہی کا یہ حکم ہے کہ اس پر ایمان لاؤ اور اس کی اطاعت کرو ، اب جو کوئی پیغمبر پر ایمان نہیں لاتا وہ خدا کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ دیکھو، تم جس سلطلت کی رعیت ہو اس کی طرف جو حاکم بھی مقرر ہوگا تمہیں اس کی اطاعت کرنی پڑے گی۔ اگر تم اس کو حاکم تسلیم کرنےسے انکار کروگے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم نے خود سلطنت کے خلاف بغاوت کی ہے۔ سلطنت کو ماننا اور اس کے مقرر کئے ہوئے حاکم کو نہ ماننا دونوں بالکل متضاد باتیں ہیں۔ ایسی ہی مثال خدا اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی بھی ہے۔ خدا تمام انسانوں کا حقیقی بادشاہ ہے۔ جس شخص کو اس نے انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا ہو اور جس کی اطاعت کا حکم دیا ہو، ہر انسان کا فرض ہے کہ اس کو پیغمبر تسلیم کرے اور ہر دوسری چیز کی پیروی چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی اختیار کرے۔ اس سے منہ موڑنے والا بہرحال کافر ہے خواہ وہ خدا کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔ ~پیغمبری کی مختصر تاریخ اب ہم تم کو بتاتے ہیں کہ نوع انسانی میں پیغمبری کا سلسلہ کس طرح شروع ہوا اور کس طرح ترقی کرتے کرتے ایک آخری اور سب سے بڑے پیغمبر ختم ہوا۔ تم نے سنا ہوگا کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے ایک انسان کو پیدا کیا ۔ پھر اسی انسان سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور اس جوڑے کی نسل چلائی، جو بے شمار صدیوں سے پھیلتے پھیلتے تمام روئے زمین پر چھا گئی۔دنیا میں جتنے انسان بھی پیدا ہوئے ہیں وہ سب اسی ایک جوڑے کی اولاد ہیں۔ تمام قوموں کی مذہبی اور تاریخی روایات متفق ہیں کہ نوع انسانی کی ابتدا ایک ہی انسان سے ہوئی ہے۔ سائنس کی تحقیقات سے بھی ثابت نہیں ہوا کہ زمین کے مختلف حصوں میں الگ الگ انسان بنائے گئے تھے، بلکہ سائنس کے اکثر علماء بھی یہی قیاس کرتے ہیں کہ پہلے ایک ہی انسان پیدا ہواہوگا۔اور انسان کی موجودہ نسل دنیامیں جہاں کہیں بھی پائی جاتی ہے اسی ایک شخص کی اولاد ہے۔ ہماری زبان میں اس پہلے انسان کو آدم کہتے ہیں، اسی سے لفظ آدمی نکلا ہے جو انسان کا ہم معنی ہے۔ اللہ تعالی نےسب سے پہلا پیغمبرحضرت آدم ہی کو بنایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ اپنی اولاد کو اسلام کی تعلیم دیں، یعنی ان کو یہ بتائیں کہ تمہارا اور تمہارا اور تمام دنیا کا خدا ایک ہے۔اسی کی تم عبادت کرو، اسی کے آگے سرجھکاؤ، اسی سے مدد مانگو اور اسی کی مرضی کے مطابق دنیا میں نیکی اور انصاف کی زندگی بسر کرو۔ اگر تم ایسا کروگے تو تم کو اچھا انعام ملے گا اور اگر اس کی اطاعت سے منہ موڑوگے تو بڑی سزا پاؤگے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں جو لوگ اچھے تھے وہ باپ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلتے ہے، مگر جو لوگ برے تھے انھوں نے اسے چھوڑدیا۔رفتہ رفتہ ہر قسم کی برائیاں پیدا ہوگئیں۔ کسی نے سورج اور چاند اور تاروں کو پوچنا شروع کردیا۔ کسی نے درختوں اور جانوروں اور دریاؤں کی پرستش شروع کردی، کسی نے خیال کیا کہ ہوا اور پانی اور آگ اور بیماری و تندرستی اور قدرت کی دوسری نعمتوں اور قوتوں کے خدا الگ الگ ہیں۔ ہر ایک کی پرستش کرنی چاہیے تاکہ سب خوش ہوکر ہم پر مہربان ہوں۔ اسی طرح جہالت کی وجہ سے شرک اور بت پرستی کی بہت سی صورتیں پیدا ہوگئیں جن سے بیسیوں مذہب نکل آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ حضرت آدم کی نسل دنیا کے مختلف حصوں ║ میں پھیل چکی تھی، مختلف قومیں بن گئی تھیں، ہر قوم نے اپنا ایک نیا مذہب بنالیا ۔ہر قوم نے اپنا ایک مذہب نیا مذہب بنالیا تھا اور ہر ایک کی رسمیں الگ تھیں۔ خدا کو بھولنے کے ساتھ لوگ اس قانون کو بھی بھول گئے تھے جو حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو سکھایا تھا۔ لوگوں نے خود اپنی خواہشات کی پیروی شروع کردی ، ہر قسم کی بری رسمیں پیدا ہوئیں، ہر قسم کے جاہلانہ خیالات پھیلے، اچھے اور برے کی تمیز میں غلطیاں کی گئیں، بہت سی بری چیزیں اچھی سمجھ لی گئیں اور بہت سی اچھی چیزوں کو برا ٹھیرالیا گیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں پیغمبر بھیجنے شروع کیے جو لوگوں کو اسی اسلام کی تعلیم دینے لگے جس کی تعلیم اول اول حضرت آدم علیہ السلام نے انسانوں کو دی تھی۔ ان پیغمبروں نے اپنی اپنی قوموں کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ انہیں ایک خدا کی پرستش سکھائی، شرک اور بت پرستی سے روکا، جاہلانہ رسموں کو توڑا، خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا طریقہ بتایا اور صحیح قوانین بتا کر ان کی پیروی کی ہدایت کی۔ ہندوستان، چین، عراق، ایران، مصر، افریقہ، یورپ، غرض دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں خدا کی طرف سے اس کے سچے پیغمبر نہ ہوئے ہوں۔ ان سب کا مذہب ایک ہی تھا اور وہ یہی مذہب تھا جس کو ہم اپنی زبان میں اسلام کہتے ہیں ۔البتہ تعلیم کے طریقے اور زندگی کے قوانین ذرا مختلف تھے۔ ہر قوم میں جس قسم کی جہالت پھیلی ہوئی تھی اسی کو دور کرنے پر زور دیا گیا۔ جس قسم کے غلط خیالات رائج تھے، انہی کی اصلاح پر زیادہ توجہ صرف کی گئی۔ تہذیب و تمدن اور علم و عقل کے لحاظ سے جب قومیں ابتدائی درجہ میں تھیں تو ان کو سادہ تعلیم اور سادہ شریعت دی گئی۔ جیسی جیسی ترقی ہوتی گئی تعلیم اور شریعت کو بھی وسیع کیا جاتا رہا۔ مگر یہ اختلافات صرف ظاہری شکل کے تھے، روح سب کی ایک تھی۔ یعنی اعتقادمیں توحید ، اعمال نیکی و سلامت روی اور آخرت کی جزا و سزا پر یقین۔ پیغمبروں کے ساتھ بھی انسان نے عجیب معاملہ کیا۔ پہلے تو ان کو تکلیفیں دی گئیں، ان کی ہدایت کو ماننے سے انکار کردیا گیا، کسی کو وطن سے نکالا گیا، کسی کو قتل کیا گيا، کسی کو عمر بھر کی تعلیم و تلقین کے بعد مشکل سے پانچ دس پیرو میسر آسکے۔ مگر خدا کے برگزیدہ بندے برابر اپنا کام کیے چلے گئے، یہاں تک کہ ان کی تعلیمات نے اثر کیا اور بڑی بڑی قومیں ان کی پیرو بن گئیں۔ اس کے بعد گمراہی نے دوسری صورت اختیار کی۔ پیغمبروں کی وفات کے بعد ان کی امتوں نے ان کی تعلیمات کو بدل ڈالا، ان کی کتابوں میں اپنی طرف سے ہر قسم کے خیالات ملادیے، عبادتوں کے نئے نئے طریقے اختیار کیے ۔ بعضوں نے خود پیغمبروں کی پرستش شروع کردی، کسی نے اپنے پیغمبر کو خدا کا اوتار قرار دیا(یعنی یہ کہ خدا خود انسان کی صورت میں اتر آیا تھا) کسی نے اپنے اپنے پیغمبر کو خدا کا بیٹا کہا۔ کسی نے اپنے پیغمبر کو خدائی میں شریک ٹھیرایا۔ غرض انسان نے عجیب ستم ظریفی کی کہ جن لوگوں نے بتوں کو توڑا تھا، انسان نے خود ان ہی کو بت بنالیا۔ پھر جو شریعتیں یہ پیغمبر اپنی امتوں کو دے گئے تھے ان کو بھی طرح طرح سے بگاڑا گیا، ان میں ہر قسم کی جاہلانہ رسمیں ملادی گئیں، افسانوں اور جھوٹی رویتوں کی آمیزش کردی گئی، انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو ان کے ساتھ خلط ملط کردیا گیا۔ یہاں تک کہ چند صدیوں کے بعد یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہا کہ پیغمبر کی اصلی تعلیم اور اصلی شریعت کیا تھی، اور بعد والوں نے اس میں کیا کیا ملادیا۔ خود پیغمبروں کی زندگی کے حالات بھی روایتوں میں ایسے گم ہوگئے ہیں کہ ان کے متعلق کوئی چیز بھی قابل اعتبار نہ رہی۔ تاہم پیغمبروں کی کوششیں سب کی سب رائگاں نہیں گئیں۔ تمام ملاوٹوں کے باوجود کچھ نہ کچھ اصل صداقت ہر قوم میں باقی رہ گئی۔خدا کا خیال اور آخرت کی زندگی کا خیال کسی نہ کسی صورت میں تمام قوموں کے اندر پھیل گیا۔ نیکی اور صداقت اور اخلاق کے چند اصول عام طور پر دنیا میں تعلیم کرلیے گئے اور تمام قوموں کے پیغمبروں نے الگ الگ ایک ایک قوم کو اس حد تک تیار کردیا کہ دنیا میں ایک ایسے مذہب کی تعلیم پھیلائی جاسکے جو بلا امتیاز ساری نوع انسانی کا مذہب ہے۔ ║ جیسا کہ ہم نے تم کو اوپر بتایا ہے کہ ابتداءً ہر قوم میں الگ الگ پیغمبر آتے تھے اور ان کی تعلیم ان کی قوم ہی کے اندر محدود رہتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت سب قومیں ایک دوسرے سے الگ تھیں، ان کے درمیاں زیادہ میل جول نہ تھا، ہر قوم اپنے وطن کے حدود میں گویا مقید تھی۔ ایسی حالت میں کوئی عام اور مشترک تعلیم تمام قوموں میں پھیلنی بہت مشکل تھی۔اس کے علاوہ مختلف قوموں کے حالات ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ جہالت زیادہ بڑھی ہوئی تھی۔اس جہالت کی بدولت اعتقاد اور اخلاق کی جو خرابیاں پیدا ہوئی تھیں، ہر جگہ مختلف صورت کی تھیں۔ اس لیے ضروری تھا کہ خدا کے پیغمبر ہر قوم کو الگ الگ تعلیم و ہدایت دیں۔ آہستہ آہستہ غلط خیالات کو مٹا کر صحیح خیالات کو پھیلائیں۔ رفتہ رفتہ جاہلانہ طریقوں کو چھوڑ کر اعلی درجہ کے قوانین کی پیروی سکھائیں اور اس طرح ان کی تربیت کریں جیسے بچوں کی کی جاتی ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس طریقہ سے قوموں کی تعلیم میں کتنے ہزار برس صرف ہوئے ہوں گے۔بہرحال ترقی کرتے کرتے آخرکار وہ وقت آیا جب نوع انسانی بچپن کی حالت سے گزر کر سنّ بلوغ کو پہنچنے لگی۔ تجارت و صنعت و حرفت کی ترقی کے ساتھ ساتھ قوموں کے تعلقات ایک دوسرے سے قائم ہوگئے۔ چین و جاپان سے لے کر یورپ اور افریقہ کے دور دراز ملکوں تک جہاز رانی اور خشکی کے سفروں کا سلسلہ قائم ہوگیا۔اکثر قوموں میں تحریر کا رواج ہوا۔ علوم و فنون پھیلے اور قوموں کے درمیان خیالات اور علمی مضامین کا تبادلہ ہونے لگا۔ بڑے بڑے فاتح پیدا ہوئے اور انہوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کرکے کئی کئی ملکوں اور کئی کئی قوموں کو ایک سیاسی نظام میں ملادیا۔ اس طرح وہ دوری اور جدائی جو پہلے انسانی قوموں میں پائی جاتی تھی ، رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی اور یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کی ایک ہی تعلیم اور ایک ہی شرعیت تمام دنیا کے لیے بھیجی جائے۔ اب سے ڈھائی ہزار برس پہلے انسان کی حالت اس حد تک ترقی کرچکی تھی کہ گویا وہ خود ہی ایک مشترک مذہب مانگ رہا تھا۔ بودھ مت اگرچہ کوئی پورا مذہب نہ تھا اور اس میں محض چند اخلاقی اصول ہی تھے مگر ہندوستان سے نکل کر وہ ایک طرف جاپان اور منگولیا تک اور دوسری طرف افغانستان اور بخارا تک پھیل گیا اور اس کی تبلیغ کرنے والے دور دور ملکوں تک جاپہنچے۔ اس کے چند صدی بعد عیسائی مذہب پیدا ہوا، اگرچہ حضرت عیسی علیہ السلام اسلام کی تعلیم لے کر آئے تھےمگر ان کے بعد عیسائیت کے نام سے ایک ناقص مذہب بنالیا گیا۔ اور عیسائیوں نے اس مذہب کو ایران سے لے کر افریقہ اور افریقہ سے دور دراز ملکوں میں پھیلادیا۔یہ واقعات بتارہے ہیں کہ اس وقت دنیا خود ایک عام انسانی مذہب مانگ رہی تھی اور اس کے لیے یہاں تک تیار ہوگئی تھی کہ جب اسے کوئی پورا اور صحیح مذہب نہ ملا تو اس نے کچے اور ناتمام مذہبوں ہی کو انسانی قوموں میں پھیلانا شروع کردیا۔ ~حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت یہ وقت تھا جب تمام دنیا اور تمام انسانی قوموں کے لیے ایک پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب کی سرزمین میں پیدا کیا گیا اور ان کو اسلام کی پوری تعلیم اور مکلمل قانون دے کے اس خدمت پر مامور کیا گیا کہ اسے سارے جہان میں پھیلادیں۔ دنیا کا جغرافیہ اٹھا کر دیکھو، تم ایک ہی نظر میں محسوس کرلوگے کہ تمام جہان کی پیغمبری کے لیے روئے زمین پر عرب سے زیادہ موزوں مقام اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہ ملک ایشیا اور افریقہ کے عین وسط میں واقع ہے۔ اور یورپ بھی یہاں سے بہت زیادہ قریب ہے، خصوصاً اس زمانہ میں یورپ کی متمدن قومیں زیادہ تر یورپ کے جنوبی حصہ میں آباد تھیں اور یہ حصہ عرب سے اتنا ہی قریب ہے جتنا ہندوستان ہے۔ پھر اس زمانہ کی تاریخ پڑھو، تم کو معلوم ہوگا کہ اس نبوت کے لیے اس زمانہ میں عربی قوم سے زیادہ موزوں کوئی قوم نہ تھی۔ دوسری بڑی بڑی قومیں اپنا اپنا زور دکھا کر گویا بے دم ہوچکی تھین اور عربی قوم تازہ دم تھی۔ تمدن کی ترقی سے دوسری قوموں کی عادتیں بگڑ گئیں تھیں اور عربی قومی میں اس وقت کوئی ایسا تمدن نہیں تھا جو اس کو آرام طلب اور عیش پسند اور رزیل بنادیتا۔ چھٹی صدی عیسوی کے عرب اس زمانے کی متمدن قوموں کے برے اثرات سےبالکل پاک تھے۔ ان میں وہ تمام انسانی خوبیاں موجود تھیں ║ جو ایک ایسی قوم میں ہوسکتی ہیں جس کو تمدن کی ہوا نہ لگی ہو۔ وہ بہادر تھے، بے خوف تھے، فیاض تھے، عہد کے پابند تھے، آزاد خیال اور آزادی کو پسند کرنے والے تھے، کسی قوم کے غلام نہ تھے، اپنی عزت پر جان دے دینا ان کے لیے اسان تھا، نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور عیش و عشرت سے بیگانہ تھے۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں بہت سی برائیاں بھی تھیں جیسا کہ آگے چل کر تم کو معلوم ہوگا مگر یہ برائیاں اس لیے تھیں کہ ڈھائی ہزار برس سے ان کے یہاں کوئی پیغمبر نہ آیا تھا ۔نہ کوئی ایسا رہنما پیدا ہوا تھا جو ان کے اخلاق درست کرتا اور انھیں تہذیب سکھاتا۔ صدیوں تک ریگستان میں آزادی کی زندگی بسر کرنے کے سبب سے ان میں جہالت پھیل گئی تھی۔ اور وہ اپنی جہالت میں اس قدر سخت ہوگئے تھے کہ ان کو آدمی بنانا کسی معمولی انسان کے بس کا کام نہ تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ان میں یہ قابلیت ضرور موجود تھی کہ اگر کوئی زبردست انسان ان کی اصلاح کردے اور اس کی تعلیم کے اثر سے وہ کسی اعلی ٰ درجہ کے مقصد کو لے کر اٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کو زیر و زبر کرڈالیں۔ پیغمبر عالم کی تعلیم کو پھیلانے کے لیے ایسی ہی جوان اور طاقت ور قوم کی ضرورت تھی۔ اس کےبعد عربی زبان کو دیکھو، تم جب اس زبان کو پڑھوگے اور اس کے علم ادب کا مطالعہ کروگے تو تم کو معلوم ہوگا کہ بلند خیالات کو ادا کرنے اور خدائی علم کی نہایت نازک اور باریک باتیں معلوم کرنے اور دلوں میں اثر پیدا کرنے کے لیے اس سے زیادہ موزوں کوئی زبان نہیں ہے۔ اس زبان کے مختصر جملوں میں بڑے بڑے مضامین ادا ہوجاتے ہیں۔ اور پھر ان میں ایسا زور ہوتا ہے کہ دلوں میں تیر و نشتر کی طرح اثر کرتے ہیں۔ ایسی شیرینی ہوتی ہے کہ کانوں میں رس پڑتا معلوم ہوتاہے۔ ایسا نغمہ ہوتا ہے ہے آدمی بے اختیار جھومنے لگتا ہے۔ قرآن جیسی کتاب کے لیے ایسی ہی زبان کی ضرورت تھی۔ پس اللہ تعالیٰ کی یہ بہت بڑی حکمت تھی کہ اس نے تمام جہان کی پیغمبری کے لیے عرب کے مقام کو منتخب کیا۔ آؤ اب ہم تمہیں بتائیں کہ جس ذات مبارک کو اس کام کے لیے پسند کیا گیا وہ کیسی بے نظیر تھی۔ ~نبوت محمد کا ثبوت ذرا ایک ہزار چارسو برس پیچھے پلٹ کر دیکھو، دنیامیں نہ تار برقی تھی، نہ ٹیلیوفون تھے، نہ ریل تھی، نہ چھاپے خانے تھے، نہ اخبار اور رسالے شائع ہوتے تھے، نہ کتابیں چھپتی تھیں،نہ سفر اور سیاحت کی وہ آسانیاں تھی جو آج کل پائی جاتی ہیں۔ ایک ملک سے دوسرے ملک تک جانے میں مہینوں کی مسافت طے کرنی پڑتی تھی۔ ان حالات میں دنیا کے درمیان عرب کا ملک سب سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا۔ اس کے گرد ایران ، روم، اور مصر کے ملک تھے جن میں کچھ علوم و فنون کا چرچا تھا۔ مگر ریت کے بڑے بڑے سمندروں نے عرب کو ان سب سے جدا کررکھا تھا۔ عرب سوداگر اونٹوں پر مہینوں کی راہ طے کرکے ان ملکوں میں تجارت کے لیے جاتے تھے ۔ مگر یہ تعلق صرف مال کی خرید و فروخت کی حد تک تھا۔ خود عرب میں کوئی اعلیٰ درجہ کا تمدن نہ تھا، نہ کوئی مدرسہ تھا، نہ کوئی کتب خانہ تھا۔ نہ لوگوں میں تعلیم کا چرچا تھا، تمام ملک میں گنتی کے لوگ تھےجن کو کچھ لکھنا پڑھنا آتا تھا۔ مگر وہ بھی اتنا نہیں کہ اس زمانے کے علوم و فنون سے آشنا ہوتے۔ وہاں کوئی باقاعدہ حکومت بھی نہ تھی۔کوئی قانون بھی نہ تھا۔ ہر قبیلہ اپنی جگہ خود مختار تھا۔ آزادی کے ساتھ لوٹ مار ہوتی تھی۔ آئے دن خون ریز لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ آدمی کی جان کوئی قیمت ہی نہ رکھتی تھی۔ جس کا جس پر بس چلتا اسے مارڈالتا اور اس کے مال پر قبضہ کرلیتا۔ اخلاق اور تہذیب کی ان کو ہوا تک نہ لگی تھی۔ بدکاری اور شراب خوری اور جوئے بازی کا بازار گرم تھا۔لوگ ایک دوسرے کے سامنے بے تکلف برہنہ ہوجاتے تھے۔ عورتیں تک خانہ کعبہ میں ننگی ہوکر طواف کرتی تھیں۔ حرام و حلال کی کوئی تمیز نہ تھی۔ عربوں کی آزادی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ کوئی شخص کسی قاعدے ، کسی قانون، ║ کسی ضابطہ کی پابندی کے لیے تیار نہ تھا، نہ کسی حاکم کی اطاعت قبول کرسکتا تھا۔ اس پر جہالت کی یہ کیفیت کہ ساری قوم پتھر کے بتوں کو پوجتی تھی۔ راستہ چلتے کوئی اچھا سا چکنا پتھر مل جاتا تو اسی کو سامنے رکھ کر پرستش کرلیتے تھے۔ یعنی جو گردنیں کسی کے سامنے نہ جھکتی تھیں وہ پتھروں کے سامنے جھک جاتی تھیں، اور یہ سمجھا جاتاتھا کہ یہ پتھر ان کی حاجت روائی کریں گے۔ ایسی قوم اور ایسے حالات میں ایک شخص پیدا ہوتا ہے۔ بچپن ہی میں ماں باپ اور دادا کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔ اس لیے اس گئی گزری حالت میں جو تربیت مل سکتی تھی وہ بھی اس کو نہیں ملتی ہوش سنبھالتا ہے تو عرب لڑکوں کے ساتھ بکریان چرانے لگتا ہے، جوان ہوتا ہے تو سوداگری میں لگ جاتا ہے۔ اٹھنا ، بیٹھنا، ملنا جلنا، سب انہی عربوں کے ساتھ ہے جن کی حالت تم نے اوپر دیکھی ہے۔ تعلیم کا نام تک نہیں حتی کہ پڑھنا بھی نہیں آتا مگر اس کے باوجود اس کی عادتیں، اس کے اخلاق، اس کے خیالات سب سے جدا ہیں۔ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا کسی سے بدکلامی نہیں کرتا، اس کی زبان میں سختی کے بجائے شیرینی ہے۔اور وہ بھی ایسی کہ لوگ اس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ وہ کسی کا ایک پیسہ بھی ناجائز طریقہ سے نہیں لیتا۔ اس کی ایمانداری کا حال یہ ہے کہ لوگ اپنے قیمتی مال اس کے پاس حفاظت کے لیے رکھواتے ہیں اور وہ ہر ایک کے مال کی حفاظت اپنی جان کی طرح کرتا ہے۔ ساری قوم اس کی دیانت بھروسہ کرتی ہے۔ اور اسے امین کے سام نے پکارتی ہے، اس کی شرم و حیا کا یہ حال ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد کسی نے اس کو برہنہ نہیں دیکھا۔ اس کی شائستگی کا یہ حال ہے کہ بدتمیز اور گندے لوگوں میں پلنے اور رہنے کے باوجود ہر بدتمیزی اور ہر گندگی سے نفرت کرتا ہے اور اس کے ہر کام میں صفائی اور ستھرائی پائی جاتی ہے۔ اس کے خیالات اتنے پاکیزیہ ہیں کہ اپنی قوم کو لوٹ مار اور خوں ریزی کرتے دیکھ کر اس کا دل دکھتا ہے اور وہ لڑائیوں کے موقع پر صلح و صفائی کرانے کی کوشش کرتا ہے ۔ دل ایسا نرم ہے کہہ ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔ یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرتا ہے۔ بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے ۔ مسافروں کی میزبانی کرتا ہے۔ کسی کو اس سے دکھ نہیں پہنچتا، وہ خود دوسروں کی خاطر دکھ اٹھاتا ہے۔ پھر عقل ایسی صحیح ہے کہ بت پرستوں کی اس قوم میں وہ کر بھی وہ بتوں سے نفرت کرتا ہے، کبھی کسی مخلوق کے آگے سر نہیں جھکاتا۔ اس کے اندر سے خود بخود آواز آتی ہے کہ زمین و آسمان میں جتنی چیزیں نظر آتی ہیں، ان میں سے کوئی پوجنے کے لائق نہیں ۔ اس کا دل آپ سے آپ کہتا ہے کہ خدا تو ایک ہی ہوسکتا ہے اور ایک ہی ہے۔ اس جاہل قوم میں یہ شخص ایسا ممتاز نظر آتا ہے ، گویا پتھروں کے ڈھیر میں ایک ہیرا چمک رہا ہے۔ یا گھٹاٹوپ اندھیرے میں ایک شمع روشن ہے۔ چالیس برس کے قریب اس طرح پاک صوف اور اعلی درجہ کی شریفانہ زندگی بسر کرنے کے بعد یہ شخص اس تاریکی سے جو اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، گھبرا اٹھتا ہے۔ جہالت، بداخلاقی، بدکرداری، بدنظمی اور شرک و بت پرستی کا یہ ہولناک سمندر جو اس کو گھیرے ہوئے تھا اس سے وہ نکل جانا چاہتا ہے کیونکہ یہاں کوئی چیز بھی اس کی طبیعت کے مناسب نہیں۔ آخر وہ آبادی سے دور ایک پہاڑ کے غار میں جا جا کر تنہائی اور سکون کے عالم میں کئی کئی دن گزارنے لگتا ہے۔ فاقے کرکرکے اپنی روح اور اپنے دل و دماغ کو اور زیادہ پاک و صاف کرتا ہے۔ سوچتا ہے، غورفکر کرتا ہےاور کوئی روشنی ڈھونڈتا ہے جس سے وہ اس چاروں طرف پھیلی ہوئی تاریکی کو دور کردے۔ ایسی طاقتور چیز حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے وہ اس بگڑی ہوئی دنیا کو توڑ پھوڑ کر پھرسے سنواردے۔ یکا یک اس کی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر رونما ہوتا ہے۔ ایک دم سے اس کے دل میں وہ روشنی آجاتی ہے جس کو اس کی فطرت مانگ رہی تھی۔اچانک اس کے اندر وہ طاقت بھرجاتی ہےجس کا ظہور اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ وہ غار کی تنہائی سے نکل آتا ہے۔ اپنی قوم کے پاس آتا ہے۔ اس سے کہتا ہے کہ بت کسی کام کے نہیں ۔ انھیں چھوڑدو۔ یہ زمین ، یہ چاند، یہ سورج ، یہ تارے، یہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں ایک خدا کی مخلوق ہیں، وہی تمہارا پیدا کرنے والا ہے۔ وہی رزق دینے والا ہے۔ وہی مارنے اور جلانے والا ہے۔ سب کو چھوڑ کر اسی کو پوجو۔ سب کو چھوڑ کر اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرو۔ یہ چوری، یہ لوٹ مار، یہ شراب خوری، یہ جوا، یہ بدکاریاں جو تم کرتے ہو، سب گناہ ║ ہیں، انھیں چھوڑدو۔ خدا انھیں پسند نہیں کرتا۔ سچ بولو، انصاف کرو۔ نہ کسی کی جان لو، نہ کسی کا مال چھینو، جو کچھ لو حق کے ساتھ لو۔ جو کچھ دو حق کے ساتھ دو۔ تم سب انسان ہو، انسان اور انسان سب برابر ہیں، بزرگی اور شرافت انسان کی نسل اور نسب میں نہیں، رنگ و روپ اور مال و دولت میں نہیں، خدا پرستی ، نیکی اور پاکیزگی میں ہے۔ جو شخص خدا سے ڈرتا ہے اور نیک اور پاک ہے وہی اعلی درجہ کا انسان ہے اور جو ایسا نہیں وہ کچھ بھی نہیں۔ مرنے کے بعد تم سب کو اپنے خدا کے پاس حاضر ہونا ہے۔ اس عادل حقیقی کے ہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی، نہ رشوت چلے گی، نہ کسی کا نسب پوچھا جائے گا۔ وہاں صرف ایمان اور نیک عمل کی پوچھ ہوگی، جس کے پاس یہ سامان ہوگا، وہ جنت میں جائے گا اور جس کے پاس ان میں سے کچھ نہ ہوگا وہ نامراد دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ جاہل قوم نے اس نیک انسان کو محض اس قصور میں ستانا شروع کیا کہ وہ ایسی باتیں کو برا کیوں کہتا ہے جو باپ دادا کے وقتوں سے ہوتی چلی آرہی ہیں۔ اور ان باتوں کی تعلیم کیوں دیتا ہے جو بزرگوں کے طریقے کے خلاف ہیں۔ اسی قصور میں انھوں نے اسے گالیاں دیں، پتھر مارے، اس کے لیے جینا مشکل کردیا۔ اس کے قتل کی سازشیں کیں۔ ایک دن نہیں دو دن نہیں، اکٹھے تیرہ برس تک سخت سے سخت ظلم توڑے، یہاں تک کہ اسے وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اور پھر وطن سے نکال کر بھی دم نہ لیا۔ جہاں اس نے پناہ لی تھی وہاں بھی کئی برس تک اس کو پریشان کرتے رہے۔ یہ سب تکلیفیں اس نیک انسان نے کس لیے اٹھائیں؟ صرف اس لیے کہ وہ اپنی قوم کو سیدھا راستہ بتانا چاہتا تھا۔اس کی قوم اسے بادشاہی دینے کے لیے تیار تھی، دولت کے ڈھیر اس کے قدموں میں ڈالنے پر آمادہ تھی۔ بشرطیکہ وہ اپنی تعلیم سے باز آجائے۔ مگر اس نے سب چیزوں کو ٹھکرادیا۔ اور اپنی بات پر قائم رہا۔ کیا اس سے بڑھ کر نیک دلی اور صداقت تمہارے خیال میں آسکتی ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی فائدے کی خاطر نہیں محض دوسروں کے بھلے کی خاطر تکلیفیں اٹھائے؟ وہی لوگ جن کے فائدے کے لیے وہ کوشش کررہا ہے اس کو پتھر سے مارتے ہیں اور وہ ان کے لیے دعائے خیر کرتا ہے۔ انسان تو کیا فرشتے بھی اس نیکی پر قربان جائیں۔ پھر دیکھو، جب یہ شخص اپے غار سے یہ تعلیم لے کر نکلا تو اس میں کتنا بڑا انقلاب ہوگیا۔ اب جو کلام وہ سنارہا تھا، وہ ایسا فصیح و بلیغ تھا کہ کسی نے نہ اس سے پہلے ایسا کلام کہا نہ اس کے بعد کوئی کہہ سکا۔ عرب والوں کو اپنی شاعری ، اپنی خطابت، اپنی فصاحت پر بڑا ناز تھا۔ اس نے عربوں سے کہا کہ تم ایک ہی سورت اس کلام کی مانند بنا لاؤ۔ مگر سب کی گردنیں عاجزی سے جھک گئیں۔ حد یہ ہے کہ خود اس شخص کی عام بول چال اور تقریر کی زبان بھی اتنی اعلی درجہ کی نہ تھی جتنی اس خاص کلام کی تھی۔ چنانچہ آج بھی جب ہم اس کی دوسری تقریروں کا مقابلہ اس کلام سے کرتے ہیں تو دونوں میں نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے۔ اس نے، اس ان پڑھ صحرا نشین انسان نے حکمت اور دانائی کی ایسی باتیں کہنی شروع کیں کہ نہ اس سے پہلے کسی انسان نے کہی تھیں ، نہ اس کے بعد آج تک کوئی کہہ سکا۔ نہ چالیس برس کی عمر سے پہلے خود اس کی زبان سے وہ کبھی سنی گئی تھیں۔ اس امی نے اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، اور انسانی زندگی کے تمام معاملات کے متعلق ایسے قانون بنائے کہ بڑے بڑے عالم اور عاقل برسوں کے غور و خوض اور ساری عمر کے تجربات کے بعد بمشکل ان کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں، اور دنیا کے تجربات جتنے بڑھتے جاتے ہیں ان کی حکمتیں اور زیادہ کھلتی جاتی ہیں۔ تیرہ سو برس سے زیادہ مدت گزر چکی ہے مگر آج بھی اس کے بنائے ہوئے قانون میں کسی ترمیم کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ دنیا کے قانون ہزاروں مرتبہ بنے اور بگڑے ، ہر آزمائش میں ناکام ہوئے اور ہر بان ان میں ترمیم کرنی پڑی۔ مگر اس صحرا نشین امی نے تن تنہا بغیر کسی دوسرے انسان کی مدد کے جو قانون بنادیے ان کی کوئی ایک دفعہ بھی ایسی نہیں جو اپنی جگہ سے ہٹائی جاسکتی ہو۔ ║ اس نے تیئیس برس کی مدت میں اپنے اخلاق ، اپنی نیکی و شرافت اور اپنی اعلی تعلیم کے زور سے اپنے دشمنوں کو دوست بنایا، اپنے مخالفوں کو موافق بنایا، بڑی بڑی طاقتیں اس کے مقابلہ میں اٹھیں اور آخر شکست کھاکر اس کے قدموں میں آرہیں۔ اس نے جب فتح پائی تو کسی دشمن سے بدلہ نہ لیا۔ کسی پر سختی نہ کی، جنہوں نے اس کے حقیقی چچا کو قتل کیا اور اس کا کلیجہ نکال کر چبا گئے تھے ان کو بھی فتح پاکر اس نے معاف کردیا۔ جنہوں نے اس کے پتھر مارے تھے،اس کو وطن سے نکالا تھا، ان کو فتح پاکر اس نے بخش دیا۔ اس نے کبھی کسی سے دغا نہ کی، عہد کرکے کبھی نہ توڑا، جنگ میں بھی کسی پر زیادتی نہ کی، اس کے سخت سے سخت دشمن بھی کبھی اس پر گناہ یا ظلم کا الزام نہ رکھ سکے۔ یہی نیکی تھی جن نے بالآخر تمام عرب کا دل موہ لیا۔ پھر اس نے اپنی تعلیم و ہدایت سے انہی عربوں کو جن کا حال تم اوپر پڑھ چکے ہو، وحشت اور جہالت سے نکال کر اعلی درجہ کی مہذب قوم بنادیا۔ جو عرب کسی قانون کی پابندی پر تیار نہ تھے، ان کو اس نے ایسا پابند قانون بنادیا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی قوم ایسی پابند قانون نظر نہیں آتی۔ جو عرب کسی کی اطاعت پر آمادہ نہ تھے، اس نے ان کو ایک عظیم الشان سلطنت کا تابع بنادیا۔ جن لوگوں کو اخلاق کی ہوا تک نہ لگی تھی، ان کے اخلاق ایسے پاکیزہ بنادیے کہ آج ان کے حالات پڑھ کر دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ جو عرب اس وقت دنیا کی قوموں میں سب سے زیادہ پست تھے وہ اس تنہا انسان کے اثر سے تیئیس برس کے اندر یکایک ایسے زبردست ہوگئے کہ انھوں نے ایران، روم اور مصر کی عظیم الشان سلطنتوں کے تختے الٹ دیے، دنیا کو تمدن ، تہذیب، اخلاق اور انسانیت کا سبق دیا اور اسلام کی ایک تعلیم اور ایک شریعت کو لے کر ایشیا ، افریقہ اور یورپ کے دور دراز گوشوں تک پھیلتے چلے گئے۔ یہ تو وہ اثرات تھے جو عرب قوم پر ہوئے۔اس سے زیادہ حیرت انگیز اثرات اس امی کی تعلیم سے تمام دنیا پر ہوئے۔ اس نے ساری دنیا کے خیالات، عادات اور قوانین میں انقلاب پیدا کردیا۔ ان کو چھوڑو جنہوں نے اس کو اپنا رہنما ہی مان لیا ہے ۔ مگر حیرت یہ ہے کہ جنہوں نے اس کی پیروی سے انکار کیا، جو اس کے مخالف ہیں، اس کے دشمن ہیں، وہ بھی اس کے اثرات سے نہ بچ سکے۔ دنیا توحید کا سبق بھول گئی تھی۔ اس نے یہ سبق پر سے یاد دلایا اور اپنے زور کے ساتھ اس کا صور پھونکا کہ آج بت پرستوں اور مشرکوں کے مذہب بھی توحید کا دعوی کرنے پر مجبور ہرگئے ہیں۔ اس سے اخلاق کی ایسی زبردست تعلیم دی کہ اس کے بنائے ہوئے اصول تمام دنیا کے اخلاقیات میں پھیل گئے اور پھیلتے چلے جارہے ہیں۔ اس نے قانون اور سیاست اور تہذیب و معاشرت کے جو اصول بتائے وہ ایسے پکے اور سچے اصول تھے کہ مخالفوں نے بھی چپکے چپکے ان کی خوشہ چینی شروع کردی اور آج تک کیے جاہے ہیں۔ جیسا کہ تم کو اوپر بتایا جاچکا ہے، یہ شخص ایک جاہل قوم اور ایک نہایت تاریک ملک میں پیدا ہوا تھا۔چالیس برس کی عمر تک گلہ بانی اور سوداگری کے سوا اس نے کوئی کام نہ کیا تھا، کسی قسم کی تعلیم و تربیت بھی اس نے نہ پائی تھی، مگر غور کرو، چالیس برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد کہاں سے اس کے اندر یکایک اتنے کمالات جمع ہوگئے؟ کہاں سے اس کے پاس ایسا علم آگیا ، کہاں سے اس میں یہ طاقت پیدا ہوگئی؟ ایک اکیلا انسان ہے اور ایک ہی وقت میں بے نظیر سپہ سالار بھی ہے، ایک اعلی درجہ کا جج بھی ہے، ایک زبردست مقنن بھی ہے، ایک بے مثل فلاسفر بھی ہے، ایک لاجواب مصلح اخلاق و تمدن بھی ہے، ایک حیرت انگیز ماہر سیاست بھی ہے۔ پھر اتنی مصروفیتوں کے باوجود وہراتوں کو گھنٹوں اپنے خدا کی عبادت بھی کرتا ہے۔ اپنی بیویوں اور بچوں کے حقوق بھی ادا کرتا ہے۔ غریبوں اور مصیبت زدوں کی خدمت بھی کرتا ہے۔ ایک بڑے ملک کی بادشاہی مل جانے پر بھی وہ ایک فقیر کی سی زندگی بسر کرتا ہے۔ بوریے پر سوتا ہے۔ موٹا جھوٹا پہنتا ہے غریبوں کی سی غذا کھاتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی فاقے کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ یہ حیرت انگیز کمالات دکھا کر اگر وہ کہتا کہ میں انسان سے بالاتر ہستی ہوں تب بھی کوئی اس کے دعوی ٰکی تردید نہ کرسکتا تھا، مگر جانتے ہو کہ اس نے کیا کہا؟ اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ سب میرے اپنے کمالات ہیں۔ اس ہمیشہ یہی کہا کہ میرے پاس کچھ بھی اپنا نہیں، سب کچھ خدا کا ہے اور خدا کی طرف سے ہے۔ میں نے جو کلام پیش کیا ہے، جس کی نظیر لانے سے سب انسان عاجز ہیں، یہ میرا کلام نہیں ہے، نہ میرے دماغ کی قابلیت کا نتیجہ ہے۔ یہ خدا کا کلام ہے اور اس کی ساری تعریف خدا کے لیے ہے۔ میرے جتنے کام ║ ہیں یہ بھی میری اپنی قابلیت سے نہیں ہیں۔ محض خدا کی ہدایت سے ہیں، ادھر سے جو کچھ اشارہ ہوتا ہے وہی کرتا ہوں اور کہتا ہوں۔ اب بتاؤ کہ ایسے سچے انسان کو خدا کا پیغمبر کیسے نہ مانا جائے، اس کے کمالات ایسے ہیں کہ تمام دنیا میں ابتدا سے لے کر آج تک ایک انسان بھی اس کے مانند نہیں ملتا۔ مگر اس کی سچائی ایسی ہے کہ وہ ان کمالات پر فخر نہیں کرتا۔ ان کی تعریف خود حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ جس نے یہ سب کچھ دیا ہے صاف صاف اسی کا حوالہ دیتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اس کی تصدیق نہ کریں؟ جب وہ خود اپنی خوبیوں کے متعلق کہتا ہے کہ یہ خدا کی دی ہوئی ہیں۔ تو ہم کیوں کہیں کہ نہیں یہ سب تیرے اپنے دماغ کی پیداوار ہیں؟ جھوٹا آدمی تو دوسروں کی خوبیوں کو بھی اپنی طرف منسوب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر یہ شخص ان خوبیوں کو بھی اپنی طرف منسوب نہیں کرتا جنہیں وہ آسانی کے ساتھ اپنی خوبیاں کہہ سکتا تھا۔ جن کے حاصل ہونے کا ذریعہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ جن کی بنا پر اگر وہ انسان سے بالاتر ہونے کا بھی دعویٰ کرتا تو کوئی اس کی تردید نہ کرسکتا تھا، پھر بتاؤ کہ اس سے زیادہ سچا انسان کون ہوگا۔ دیکھو یہ ہیں ہمارے سرکار، تمام جہان کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ان کی پیغمبری کی دلیل خود ان کی سچائی ہے۔ ان کے عظیم الشان کارنامے، ان کے اخلاق، ان کی پاک زندگی کے واقعات، سب تاریخوں سے ثابت ہیں۔ جو شخص صاف دل سے، حق پسندی اور انصاف کےساتھ ان کو پڑھے گا، اس کا دل خود گواہی دے گا کہ وہ ضرور خدا کے پیغمبر ہیں۔ وہ کلام جو انھوں نے پیش کیا وہ یہی قرآن ہے جسے تو پڑھتے ہو۔ اس بے نظیر کتاب کو جو شخص بھی سمجھ کر کھلے دل سے پڑھے گا، اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ ضرور خدا کی کتاب ہے۔ کوئی انسان ایسی کتاب تصنیف نہیں کرسکتا۔ ~ختم نبوت اب تم کو جاننا چاہیے کہ اس زمانہ میں اسلام کا سچا اور سیدھا راستہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور قرآن مجید کے سوا نہیں ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام نوع انسانی کے لیے خدا کے پیغمبر ہیں۔ ان پر پیغمبری کاسلسلہ ختم کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ انسان کی جس قدر ہدایت کرنا چاہتا تھا، وہ سب کی سب اس نے اپنے آخری پیغمبر کے ذریعہ بھیج دی۔ اب جو شخص حق کا طالب ہو اور خدا کا مسلم بندہ بننا چاہتا ہے، اس پر لازم ہے کہ خدا کے آخری پیغمبر پر ایمان لائے۔ جو کچھ تعلیم انھوں نے دی ہے اس کو مانے اور جو طریقہ انھوں نے بتایا ہے اس کی پیروی کرے۔ ~ختم نبوت پر دلائل پیغمبری کی حقیقت ہم نے تم کو پہلے بتادی ہے، اس کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے سے تم کو خود معلوم ہوجائے گا کہ پیغمبر روز بروز پیدا نہیں ہوتے، نہ یہ ضروری ہے کہ ہر قوم کے لیے ہر وقت ایک پیغمبر ہو۔ پیغمبر کی زندگی دراصل اس کی تعلیم ہدایت کی زندگی ہے۔ جب تک اس کی تعلیم اور ہدایت زندہ ہے، اس وقت تک گویا وہ خود زندہ ہے۔ پچھلے پیغمبر مرگئے، کیونکہ جو تعلیم انھوں نے دی تھی، دنیا نے اس کو بدل ڈالا۔ جو کتابیں وہ لائے تھے، ان میں سے ایک بھی آج اصلی صورت میں موجود نہیں ۔خود ان کے پیرو بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہمارے پاس پیغمبروں کی دی ہوئی اصلی کتابیں موجود ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی سیرتوں کو بھی بھلادیا۔ پچھلے پیغمبروں میں سے ایک کے بھی صحیح اور معتبر حالات آج کہیں نہیں ملتے۔ یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کس زمانہ میں پیدا ہوئے؟ کہاں پیدا ہوئے؟ کیا کام انھوں نے کیے؟ کس طرح زندگی بسر کی؟ کن باتوں کی تعلیم دی اور کن باتوں سے روکا؟ یہی ان کی موت ہے۔ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں، کیونکہ ان کی تعلیم و ہدایت زندہ ہے۔ جو قرآن انھوں نے دیا تھا وہ اپنے اصلی الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ اس میں ایک حرف، ایک نقطہ، ایک زیر و زبر کا بھی فرق نہیں آیا۔ ان کی زندگی کے حالات، ان کے اقوال، ان کے افعال سب کے سب محفوظ ہیں۔ اور تیرہ سو برس سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد بھی تاریخ میں ان کا نقشہ ایسا صاف نظر آتا ہے کہ گویا ہم خود آنحضرت کو دیکھ رہے ہیں۔دنیا کے کسی شخص کی ║ زندگی بھی اتنی محفوظ نہیں جتنی آنحضرت کی زندگی محفوظ ہے۔ ہم اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے سبق لے سکتے ہیں۔ یہی اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت کے بعد کسی دوسرے پیغمبر کی ضرورت نہیں۔ ایک پیغمبر کے بعد دوسرا پیغمبر آنے کی صرف تین وجہیں ہوسکتی ہیں: 1. یا تو پہلے پیغمبر کی تعلیم و ہدایت مٹ گئی ہو اور اس کو پھر پیش کرنے کی ضرورت ہو۔ 2. یا پہلے پیغمبر کی تعلیم مکمل نہ ہو اور اس میں ترمیم یا اضافہ کی ضرورت ہو۔ 3. یا پہلے پیغمبر کی تعلیم ایک خاص قوم تک محدود ہو اور دوسری قوم یا قوموں کے لیے پیغمبر کی ضرورت ہو یہ تینوں وجہیں اب باقی نہیں رہیں۔ 1. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت زندہ ہے اور وہ ذرائع پوری طرح محفوظ ہیں، جن سے ہر وقت یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ حضور کا دین کیا تھا۔ کیا ہدایت لے کے آئے تھے۔ کس طریق زندگی کو آپ نے رائج کیا اور کن طریقوں کو آپ نے مٹانے اور بند کرنے کی کوشش فرمائی۔ پس جب کہ آپ کی تعلیم و ہدایت مٹی ہی نہیں تو اس کو ازسرنو پیش کرنے کے لیے کسی نبی کے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 2. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے دنیا کو اسلام کی مکمل تعلیم دی جاچکی ہے۔ اب نہ اس میں کچھ گھٹانے بڑھانے کی ضرورت ہے اور نہ کوئی ایسا نقص باقی رہ گیا ہے جس کی تکمیل کے لیے کسی نبی کے آنے کی حاجت ہو۔ لہذا دوسری وجہ دور ہوگئی۔ 3. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص قوم کے لیے نہیں ، بلکہ تمام دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اور تمام انسانوں کے لیے آپ کی تعلیم کافی ہے۔ لہذا اب کسی خاص قوم کے لیے الگ نبی آنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح تیسری وجہ بھی دور ہوگئی۔ اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم النبین کہا گیا ہے، یعنی سلسلۂ نبوت کو ختم کردینے والا۔ اب دنیا کو کسی دوسرے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ صرف ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر خود چلیں اور دوسروں کو چلائیں۔ آپ کی تعلیمات کو سمجھیں ، ان پر عمل کریں اور دنیا میں اس قانون کی حکومت قائم کریں جس کو لے کر آنحضرت تشریف لائے تھے۔   4. ~ ║ ایمان مفصل خدا پر ایمان، لاالہ الا اللہ کے معنیٰ، لاالہ الااللہ کی حقیقت، انسان کی زندگی پر عقیدۂ توحید کا اثر، خدا کے فرشتوں پر ایمان، خدا کی کتابوں پر ایمان، خدا کے رسولوں پر ایمان، آخرت پر ایمان، عقیدۂ آخرت کی ضرورت، عقیدۂ آخرت کی صداقت، کلمۂ طیبہ۔ ~٭-----٭-----٭ آگے بڑھنے سے پہلے تم کو ایک مرتبہ پھر ان معلومات کا جائزہ لے لینا چاہیے جو تمہیں پچھلے ابواب میں حاصل ہوئی ہیں۔ 1. اگرچہ مسلمان کے معنی خدا کی اطاعت اور فرماں برداری کے ہیں لیکن چونکہ خدا کی ذات و صفات اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا طریقہ اور آخرت کی جزا و سزا کا صحیح حال صرف خدا کے پیغمبر ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوسکتا ہے اس لیے مذہب اسلام کی صحیح تعریف یہ ہوئی کہ پیغمبر کی تعلیم پر ایمان لانا اور اس کے بتائے ہوئے طریقہ پر خدا کی بندگی کرنا اسلام ہے۔جو شخص پیغمبر کے واسطے کو چھوڑ کر براہ راست خدا کی اطاعت و فرماں برداری کا دعویٰ کرے وہ مسلم نہیں ہے۔ 2. قدیم زمانہ میں الگ الگ قوموں کے لیے الگ الگ پیغمبر آتے تھے اور ایک ہی قوم میں یکے بعد دیگرے کئی پیغمبر آیا کرتے تھے۔ اس وقت ہر قوم کے لیے "اسلام" اس مذہب کا نام تھا جو خاص اسی قوم کے پیغمبر یا پیغمبروں نے سکھایا۔ اگرچہ اسلام کی حقیقت ہر ملک اور ہر زمانے میں ایک ہی تھی۔ مگر شریعتیں یعنی قوانین اور عبادات کے طریقے کچھ مختلف تھے۔ اس لیے ایک قوم پر دوسری قوم کے پیغمبروں کی پیروی ضروری نہ تھی۔، اگرچہ ایمان لانا سب پر ضروری تھا۔ 3. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تو آپ کے ذریعہ سے اسلام کی تعلیم کو مکمل کردیا گیا۔ اور تمام دنیا کے لیے ایک ہی شریعت بھیجی گئی۔ آپ کی نبوت کسی خاص ملک یا قوم کے لیے نہیں بلکہ تمام اولاد آدم کے لیے ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔ اسلام کی جو شریعتیں پچھلے پیغمبروں نے پیش کی تھیں وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر منسوخ کردی گئیں اور اب قیامت تک نہ کوئی نبی آنے والا ہے اور نہ کوئی دوسری شریعت خدا کی طرف سے اترنے والی ہے۔ لہذا اب "اسلام" صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا نام ہے ۔ آپ کی نبوت کو تسلیم کرنا اور آپ کے اعتماد پر ان سب باتوں کو ماننا جن پر ایمان لانے کی آپ نے تعلیم دی ہے اور آپ کے تمام احکام کو خدا کے احکام کو خدا کے احکام سمجھ کر ان کی اطاعت کرنا "اسلام" ہے۔ اب کوئی اور ایسا شخص خدا کی طرف سے آنے والا نہیں ہے جس کو ماننا مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہو، اور جسے نہ ماننے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔ آؤ اب ہم تمہیں بتائیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کن کن باتوں پر ایمان لانے کی تعلیم دی ہے،وہ کیسی سچی باتیں ہیں اور ان کو ماننے سے انسان کا درجہ کس قدر بلند ہوجاتا ہے۔ ~خدا پر ایمان آنحضرت کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ اہم تعلیم یہ ہے: "لاالہ الا اللہ" (اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے)۔ ║ یہ کلمہ اسلام کی بنیاد ہے۔ جو چیز مسلم کو ایک کافر، ایک مشرک اور ایک دہریے سے الگ کرتی ہے وہ یہی ہے۔ اسی کلمہ کے اقرار و انکار سے انسان اور انسان کے درمیان عظیم الشان فرق ہوجاتا ہے۔ اس کو ماننے والے ایک گروہ بن جاتے ہیں اور نہ ماننے والے دوسرا گروہ۔ اس کے ماننے والوں کے لیے دنیا سے لے کر آحرت تک ترقی، کامیابی اور سرفرازی ہے۔ اور نہ ماننے والوں کو لیے نامرادی، ذلت اور پستی۔ اتنا بڑا فرق جو انسان اور انسان کے درمیان واقع ہوتا ہے، یہ محض ل، ا ، ہ سے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے جملے کو زبان سے ادا کردینے کا نتیجہ نہیں ہے۔ زبان سے اگر تم دس لاکھ مرتبہ کونین کونین پکارتے رہو اور کھاؤ نہیں تو تمہارا بخار نہ اترے گا۔ اسی طرح اگر زبان سے "لا الہ الا اللہ " کہہ دیا، مگر یہ نہ سمجھے کہ اس کے معنی کیا ہیں اور یہ الفاظ کہہ کر تم نے کتنی بڑی چیز کا اقرار کیا ہے، اور اس اقرار سے تم پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوگئی ہے تو ایسا بے سمجھی کا تلفظ کچھ بھی مفید نہیں۔ دراصل فرق تو اسی وقت واقع ہوگا جب کہ 'لاالہ الا اللہ' کے معنی تمہارے دل میں اتر جائیں، اس کے معنی پر تم کو کامل یقین ہوجائے اس کے خلاف جتنے اعتقادات ہیں ان سے تمہارا دل بالکل پاک ہوجائے اور اس کلم کااثر تمہارے دل و دماغ پر کم از کم اتنا گہرا ہو جتنا اس بات کا اثر ہے کہ آگ جلانے والی چیز ہے اور زہر مارڈالنے والی چیز۔ یعنی جس طرح آگ کی خاصیت پر ایمان تم کو چولھے میں ہاتھ ڈالنے سے روکتا ہے، اور زہر کی خاصیت پر ایمان تم کو زہر کھانے سے باز رکھتا ہے، اسی طرح 'لاالہ الا اللہ ' پر ایمان تم کو شرک اور کفر اور دہریت کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی روک دے خواہ وہ اعتقاد میں ہو یا عمل میں۔ ~لاالہ الا اللہ کے معنی سب سے پہلے یہ سمجھو کہ "الہ" کسے کہتے ہیں۔ عربی زبان میں "الہ" کے معنی " مستحق عبادت" کے ہیں۔ یعنی ایسی ہستی جو اپنی شان اور جلال اور برتری کے لحاظ سے اس قابل ہو کہ اس کی پرستش کی جائے اور بندگی اور عبادت میں اس کے آگے سرجھکا دیا جائے۔ "الہ" کے معنی میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ وہ بے انتہا قدرت کا مالک ہو جس کی وسعت کو سمجھنے میں انسان کی عقل حیران رہ جائے۔ "الہ" کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ خودکسی کا محتاج نہ ہو اور سب اپنی زندکی کے معاملات میں اس کے محتاج ہوں اور اس سے مدد مانگنے کے لیے مجبور ہوں"۔ "الہ" کے لفظ میں پوشیدگی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی الہ اس کو کہیں گے جس کی طاقتیں پراسرار ہوں۔ فارسی زبان میں "خدا" اور ہندی میں " دیوتا" اور انگریزی میں "گاڈ" کے معنی بھی اس سے ملتے جلتے ہیں اور دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی اس مطلب کے لیے مخصوص الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ لفظ 'اللہ' دراصل خدائے وحدہٗ لاشریک کا اسم ذات ہے۔ لا الہ الا اللہ کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ "کوئی الہ نہیں ہے سوائے اس ذات خاص کے جس کا نام اللہ ہے"۔ مطلب یہ ہے کہ تمام کائنات نہیں کہ عبادت اور بندگی و اطاعت اور بندگی و اطاعت میں اس کے آگے سرجھکایا جائے، صرف وہی ایک ذات تمام جہاں کی مالک اور حاکم ہے، تمام چیزیں اس کی محتاج ہیں، سب اسی سے مدد مانگنے پر مجبور ہیں، وہ حواس سے پوشیدہ ہے اور اس کی ہستی کو سمجھنے میں عقل دنگ ہے۔ ~لاالہ الا اللہ کی حقیقت یہ تو صرف الفاظ کا مفہوم تھا، اب اس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرو! انسان کی قدیم سے قدیم تاریخ کے جو حالات ہم تک پہنچے ہیں، اور پرانی سے پرانی قوموں کے جو آثار دیکھے گئے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے ہر زمانے میں کسی نہ کسی کو خدا مانا ہے اور کسی نہ کسی کی عبادت ضرور کی ہے۔اب بھی دنیا میں جتنی قومیں ہیں، خواہ وہ نہایت وحشی ہوں یا نہایت مہذب، ان سب میں یہ بات موجود ہے کہ وہ ║ کسی کو خدا مانتی ہیں اور اس کی عبادت کرتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی فطرت میں خدا کا خیال بیٹھا ہوا ہے، اس کے اندر کوئی ایسی چیز ہے جو اسے مجبور کرتی ہے کہ کسی کو خدا مانے اور اس کی عبادت کرے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے؟ تم خود اپنی ہستی پر اور تمام انسانوں کی حالت پر نظر ڈال کر اس سوال کا جواب معلوم کرسکتے ہو۔ انسان دراصل بندہ ہی پیدا ہوا ہے۔ وہ فطرتاً محتاج ہے، کمزور ہے، فقیر ہے۔ بے شمار چیزیں جو اس کی ہستی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں، مگر اس کے قبضۂ قدرت میں نہیں ہیں، آپ سے آپ اس کو حاصل بھی ہوتی ہیں اور اس سے چھن بھی جاتی ہیں۔ بہت سی چیزیں ہیں جو اس کے لیے فائدہ مند ہیں، وہ ان کوحاصل کرنا چاہتا ہے، مگر کبھی وہ اس کو مل جاتی ہیں اور کبھی نہیں ملتیں۔ کیونکہ ان کو حاصل کرنا بالکل اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ بہت سی چیزیں ہیں جو اس کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس کی عمر بھر کی محنتوں کو آن کی آن میں برباد کردیتی ہیں، اس کی آرزوؤں کو خاک میں ملادیتی ہیں۔ اس کو بیماری اور ہلاکت میں مبتلا کردیتی ہیں وہ ان کو دفع کرنا چاہتا ہے، کبھی وہ دفع ہوجاتی ہیں اور کبھی نہیں ہوتیں۔ اس سے وہ جان لیتا کہ ان کا آنا اور نہ آنا، دفع ہونا یا نہ ہونا اس کے اختیار سے باہر ہے۔ بہت سی چیزیں ہیں جن کی شان و شوکت اور بزرگی کو دیکھ کر وہ مرعوب ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں کو دیکھتا ہے، دریاؤں کو دیکھتا ہے، بڑے بڑے ہولناک جانور دیکھتا ہے۔ ہواؤں کے طوفان اور پانی کے سیلاب اور زمین کے زلزلے دیکھتا ہے۔ بادلوں کی گرچ اور گھٹاؤں کی سیاہی اور بجلی کی کڑک، چمک اور موسلادھار بارش کے مناظر اس کے سامنے آتے ہیں۔ سورج، اور چاند اور تارے اس کو گردش کرنے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ سب چیزیں کتنی بڑی کتنی طاقتور، کتنی شاندار ہیں اور ان کے مقابلہ میں وہ خود کتنا ضعیف اور حقیر ہے۔ یہ مختلف نظارے اور خود اپنی مجبوریوں کے مختلف حالات دیکھ کر اس کے دل میں آپ سے آپ اپنی بندگی ، محتاجی اور کمزوری کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ اور جب یہ احساس پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی خودبخود الوہیت یعنی خدا کا تصور بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ ان کے ہاتھوں کا خیال کرتا ہے جو اتنی بڑی طاقتوں کے مالک ہیں۔ ان کی بزرگی کا احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ان کی عبادت میں سرجھکادے۔ ان کی قوت کا احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ان کے آگے اپنی عاجزی پیش کرے۔ ان کو نفع پہنچانے والی قوتوں کا احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ان کے آگے اپنی مشکل کشائی کے لیے ہاتھ پھیلائے اور ان کی نقصان پہنچانے والی طاقتوں کا احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ان سے خوف کرے اور ان کے غضب سے بچے۔ جہالت کے سب سے نیچے درجہ میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ جو چیزیں اس کو شان اور طاقت والی نظر آتی ہیں، یا کسی طرح نفع یا نقصان پہنچاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ یہی خدا ہیں ۔ چنانچہ وہ جانوروں اور دریاؤں اور پہاڑوں کو پوجتا ہے، زمین کی پرستش کرتا ہے، آگ اور بارش اور ہوا، چاند اور سورج کی عبادت کرنے لگتا ہے۔ یہ جہالت جب ذرا کم ہوتی ہے اور کچھ علم کی روشنی آتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب چیزیں تو خود اسی کی طرح محتاج اور کمزور ہیں۔ بڑے سے بڑا جانور بھی ایک ادنی مچھر کی طرح مرتا ہے، بڑے بڑے دریا خشک ہوجاتے ہیں اور چڑھتے اترتے رہتے ہیں، پہاڑوں کو خود انسان توڑتا پھوڑتا ہے، زمین کا پھلنا پھولنا خود زمیں کے اپنے ║ اختیار میں نہیں۔ جب پانی اس کا ساتھ نہیں دیتا تو وہ خشک ہوجاتی ہے۔ پانی بھی بے اختیار ہے، اس کی آمد ہوا کی محتاج ہے۔ ہوا بھی اپنے اختیار میں نہیں، اس کا مفید یا یا غیر مفید ہونا دوسرے اسباب کے تحت ہے۔ چاند اور سورج اور تارے بھی کسی قانون کے تابع ہیں۔ اس قانون کے خلاف وہ کبھی ادنٰی جنبش بھی نہیں کرسکتے۔اب اس کا ذہن مخفی اور پراسرار قوتوں کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ ان ظاہری چیزوں کی پشت پر کچھ پوشیدہ قوتیں ہیں جو ان پر حکومت کررہی ہیں اور سب کچھ انہی کے اختیار میں ہے۔ یہیں سے خداؤں اور دیوتاؤں کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے۔ روشنی اور ہوا اور پانی اور بیماری و تندرستی اور مختلف دوسری چیزوں کے خدا الگ الگ مان لیے جاتے ہیں اور ان کی خیالی صورتیں بنا کر ان کی عبادتیں کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد جب اور زیادہ علم کی روشنی آتی ہے تو انسان دیکھتا ہے کہ دنیا کے انتظام میں ایک زبردست قانون اور ایک بڑے ضابطہ کی پابندی پائی جاتی ہے۔ ہواؤں کی رفتار، بارش کی آمد، سیاروں کی گردش، فصلوں، موسموں کے تغیر میں کیسی باقاعدگی ہے؟ کس طرح بے شمار قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں؟ کیسا زبردست قانون ہے کہ جو وقت جس کا م کے مقرر کردیا گیا ہے، ٹھیک اسی وقت پر کائنات کے تمام اسباب جمع ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے سے اشتراک عمل کرتے ہیں۔ انتظامِ عالم کی یہ ہم آہنگی دیکھ کر مشرک انسان یہ ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ایک سب سے بڑا خدا بھی ہے جو ان تمام چھوٹے چھوٹے خداؤں پر حکومت کررہا ہے، ورنہ اگر سب ایک دوسرےسے الگ اور بالکل خود مختار ہوں تو دنیا کا سارے کا سارا کارخانہ درہم برہم ہوجائے۔ وہ اس بڑے خدا کو "اللہ" اور "پرمیشور"، "خدائے خدائگاں" وغیرہ ناموں سے موسوم کرتا ہے۔ مگر عبادت میں اس کے ساتھ چھوٹے خداؤں کو بھی شریک رکھتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ خدائی بھی دنیوی بادشاہی کے نمونہ پر ہے جس طرح دنیا میں ایک بادشاہ ہوتا ہے اور اس کے بہت سے وزیر اور معتمد اور ناظم اور دوسرے بااختیار عہدہ دار ہوتے ہیں۔ اسی طرح کائنات میں بھی ایک بڑا خدا ہے اور بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔جب تک چھوٹے خداؤں کو خوش نہ کیا جائے گا بڑے خدا تک رسائی نہ ہوسکے گی۔ اس لیے ان کی عبادت بھی کرو، اس کے آگے بھی ہاتھ پھیلاؤ، ان کی ناراضی سے بھی ڈرو، ان کے بڑے خدا تک پہنچنے کا ذریعہ بناؤ اور نذروں اور نیازوں سے انھیں خوش رکھو۔ پھر جب علم میں اور ترقی ہوتی ہے تو خداؤں کی تعداد گھٹنے لگتی ہے۔ جتنے خیالی خدا جاہلوں نے بنارکھے ہیں ان میں سے ایک ایک کے متعلق غور کرنے سے انسان کو معلوم ہوتا چلا جاتا ہے کہ وہ خدا نہیں ہیں، ہماری طرح کے ہی بندے ہیں بلکہ ہم سے بھی زیادہ بے بس ہیں۔ اس طرح وہ ان کو چھوڑ تا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر صرف ایک خدا رہ جاتا ہے،یہاں تک کہ آخر میں صرف ایک خدا رہ جاتا ہے، مگر اس ایک کے متعلق پھر بھی اس کے خیالات میں بہت کچھ جہالت باقی رہ جاتی ہے۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ خدا ہماری طرح جسم رکھتا ہے اور ایک جگہ بیٹھ کر خدائی کررہا ہے۔ کوئی یہ سمجھتاہے کہ خدا بیوی بچے رکھتا ہے اور انسان کی طرح اس کے ہاں بھی اولاد کا سلسلہ چل رہا ہے۔ کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ خدا انسان کی صورت میں زمین پر اترتا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ خدا اس دنیا کے کارخانے کو چلا کر خاموش بیٹھ گیا ہے اور اب کہیں آرام کررہا ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ خدا کے ہاں بزرگوں اور روحوں کی سفارش سے جانا ضروری ہے اور ان کو وسیلہ بنائے بغیر وہاں کام نہیں چلتا۔ کوئی اپنے خیال میں خدا کی ایک صورت تجویز کرتا ہےاور عبادت کے لیے اس صورت کو سامنے رکھنا ضروری سمجھتا ہے۔ اس طرح کی بہت سی غلط فہمیاں توحید کا اعتقاد رکھنے کے باوجود انسان کے ذہن میں باقی رہ جاتی ہیں جن کے سبب سے وہ شرک یا کفر میں مبتلا ہوتا ہے اور یہ سب جہالت کا نتیجہ ہیں۔ سب سے اوپر "لاالہ الا اللہ" کا درجہ ہے۔ یہ وہ علم ہے جو خود اللہ نے ہر زمانے میں اپنے نبیوں کے ذریعے سے انسان کے پاس بھیجا ہے۔ یہی علم سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو دے کر زمین پر اتارا گیا تھا۔ یہی علم آدم علیہ السلام کے بعد حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ، اور دوسرے تمام پیغمبروں کو دیا گیا تھا۔ پھر اسی علم کو لے کر سب سے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ یہ خالص علم ہے جس میں جہالت کا شائبہ تک نہیں۔ اوپر ہم نے شرک اور بت پرستی اور کفر کی ║ جتنی صورتیں لکھی ہیں، ان سب میں انسان اسی وجہ سے مبتلا ہوا کہ اس نے پیغمبروں کی تعلیم سے منہ موڑکر خود اپنے حواس اور اپنی عقل پر بھروسا کیا۔ آؤ ہم بتائیں کہ اس چھوٹے سے فقرے میں کتنی بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے: 1. سب سے پہلی چیز الوہیت یعنی خدائی کا تصور ہے۔ یہ وسیع کائنات جس کے آغاز اور انجام اور انتہا کا خیال کرنے سے ہمارا ذہن تھک جاتا ہے جو نامعلوم زمانہ سے چلی آرہی ہے اور نامعلوم زمانہ تک چلی جارہی ہے جس میں بے حد و حساب مخلوق پیدا ہوئی اور پیدا ہوئے چلی جارہی ہے۔جس میں ایسے ایسے حیرت انگیز کرشمے ہورہے ہیں کہ ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کائنات کی خدائی صرف وہی کرسکتا ہے جو غیر محدود ہو، ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے، کسی کا محتاج نہ ہو، بے نیاز ہو، قادر مطلق ہو، حکیم اور دانا ہو، ہر چیز کا علم رکھتا ہو اور کوئی چیز اس سے مخفی نہ ہو، سب پر غالب ہو اور کوئی اس کے حکم سے سرتابی نہ کرسکے، بے حساب قوتوں کا مالک ہو اور کائنا ت کی ساری چیزوں کو اس سے زندگی اور رزق کا سامان بہم پہنچے، عیب و نقص اور کمزوری کی تمام صفات سے پاک ہو اور اس کے کاموں میں کوئی دخل نہ دے سکے۔ 2. خدائی کی یہ تمام صفات ایک ہی ذات میں جمع ہونی ضروری ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ دو ہستیاں یہ صفات برابر رکھتی ہیں، کیوں کہ سب پر غالب اور سب پر حاکم تو ایک ہی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ یہ صفات تقسیم ہو کر بہت سے خداؤں میں بٹ جائیں، کیونکہ اگر حاکم ایک ہو اور عالم دوسرا اور رازق تیسرا، تو ہر ایک خدا دوسرے کا محتاج ہوگا۔ اور اگر ایک نے دوسرے کا ساتھ نہ دیا تو ساری کائنات یک لخت فنا ہوجائے گی۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ یہ صفات ایک دوسرے کو منتقل ہوں۔ یعنی کبھی ایک خدا میں پائی جائیں اور کبھی دوسرے میں، کیونکہ جو خدا خود زندہ رہنے کی قوت نہ رکھتا ہو وہ ساری کائنات کو زندگی نہیں بخش سکتا، اور جو خدا خود اپنی خدائی کی حفاظت نہ کرسکتا ہو وہ اتنی بڑی کائنات پر حکومت نہیں کرسکتا۔ پس تم کو علم کی جتنی زیادہ روشنی ملے گی اتنا ہی زیادہ تم کو یقین ہوتا جائے گا کہ خدائی کی صفات صرف ایک ذات میں جمع ہونی ضروری ہیں۔ 3. خدائی کے اس کامل اور صحیح تصور کو نظر میں رکھو، پھر ساری کائنات پر نظر ڈالو، جتنی چیزیں تم دیکھتے ہو، جتنی چیزوں کو کسی ذریعہ سے محسوس کرتے ہو، جتنی چیزوں تک تمہارے علم کی محتاج ہیں، محکوم ہیں، بنتی اور بگڑتی ہیں،مرتی اور جیتی ہیں۔ کسی کو ایک حال پر قیام نہیں ، کسی کو اپنے اختیار سے کچھ کرنے کی قدرت نہیں۔ کسی کو ایک بالاتر قانون کے خلاف بال برابر حرکت کرنے کا اختیار نہیں۔ ان کے حالات خود ہی گواہی دیتے ہیں کہ ان میں سے کوئی خدا نہیں ہے۔ کسی میں خدا کی ادنی جھلک تھک نہیں پائی جاتی۔ کسی کا خدائی میں ذرہ برابر بھی دخل نہیں ہے۔ یہی معنی ہیں لاالہ کے۔ 4. کائنات کی ساری چیزوں سے چیزوں سے خدائی چھین لینے کے بعد تم کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ایک اور ہستی ہے جو سب سے بالاتر ہے۔ صرف وہی تمام خدائی صفات رکھتی ہے اور اس کے سواکوئی خدا نہیں۔ یہی معنی ہیں الا اللہ کے۔ یہ سب سے بڑا علم ہے ۔ تم جس قدر تحقیق اور جستجو کروگے تم کو یہی معلوم ہوگا کہ یہی علم کا سرا بھی ہے اور یہی علم کی آخری حد بی۔ طبیعیات، کیمیا، ہیئت، ریاضیات، حیاتیات، حیوانیات، انسانیت غرض کائنات کی حقیقتوں کا کھوج لگانے والے جتنے علوم ہیں ان میں سے خواہ کوئی علم لے لو، اس کی تحقیق میں جس قدر تم آگے بڑھتے جاؤگے لاالہ الا اللہ کی صداقت تم پر زیادہ کھلتی جائے گی اور اس پر تمہارا یقین بڑھتا جائے گا۔ تم کو علمی تحقیقات کے میدان میں ہر ہر قدم پر محسوس ہوگا کہ اس سب سے بڑی سچائی سے انکار کرنے کے بعد کائنات کی ہر چیز بے معنی ہوجاتی ہے۔   ║ ~ انسانی زندگی پر عقیدۂ توحید کا اثر اب ہم تمہیں بتائیں گے کہ لاالہ الا اللہ کے اقرار سے انسان کی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے، اور اس کو نہ ماننے والا دنیا اور آخرت میں کیوں نامراد ہوجاتا ہے۔ 1. اس کلمہ پر ایمان رکھنے والا کبھی تنگ نظر نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے خدا کا قائل ہوتا ہے جو زمیں و آسمان کا خالق، مشرق و مغرب مالک اور تمام جہان کا پالنے پوسنے والا ہے۔ اس ایمان کے بعد ساری کائنات میں کوئی چیز بھی اس کو غیر نظر نہیں آتی ، وہ سب کو اپنی ذات کی طرح ایک ہی مالک کی ملکیت اور ایک بادشاہ کی رعیت سمجھتا ہے۔ اس کی ہمدردی اور محبت و خدمت کسی دائرے کی پابند نہیں رہتی۔ اس کی نظر ویسی ہی غیر محدود ہوجاتی ہے جیسی خود اللہ تعالیٰ کی بادشاہی غیر محدود ہے۔ یہ بات کسی ایسے شخص کو ویسی ہی غیر محدود ہوجاتی ہے جیسی خود اللہ تعالیٰ کی بادشاہی غیر محدود ہے۔ یہ بات کسی ایسے شخص کو حاصل نہیں ہوسکتی جو بہت سے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا قائل ہو، یا خدا میں انسان کی محدود اور ناقص صفات مانتا ہو یا سرے سے خدا کا قائل ہی نہ ہو۔ 2. یہ کلمہ انسان میں انتہا درجہ کی خودداری اور عزت نفس پیدا کردیتا ہے۔ اس پر اعتقاد رکھنے والا جانتا ہے کہ صرف ایک خدا تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی نفع پہنچانے والا نہیں، کوئی مارنے اور جلانے والا نہیں، کوئی صاحب اختیار اور بااثر نہیں۔ یہ علم اور یقیناس کو خدا کے سوا تمام قوتوں سے بے نیاز اور بے خوف کردیتا ہے، اس کی گردن کسی مخلوق کے آگے نہیں جھکتی، اس کا ہاتھ کسی کے آگے نہیں پھیلتا، اس کے دل میں کسی کی بزرگی کا سکہ نہیں بیٹھتا۔ یہ صفت سوائے عقیدۂ توحید کے اور کسی عقیدہ سے پیدا نہیں ہوسکتی۔ شرک اور کفر اور دہریت کی لازمی خاصیت یہ ہے کہ انسان مخلوقات کے آگے جھکے، ان کو نفع اور نقصان کا مالک سمجھے، ان سے خوف کھائے اور ان ہی سے امیدیں وابستہ رکھے۔ 3. خودداری کے ساتھ یہ کلمہ انسان میں انکساری بھی پیدا کرتا ہے، اس کا قائل کبھی مغرور اور متکبر نہیں ہوسکتا، اپنی قوت اور دولت اور قابلیت کا گھمنڈ اس کے دل میں سما ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے خدا ہی کا دیا ہوا ہے۔ اور خدا جس طرح دینے پر قادر ہے اسی طرح چھین لینے پر قادر ہے۔ اس کے مقابلہ میں عقیدۂ الحاد کے ساتھ جب انسان کو کسی قسم کا دنیوی کمال حاصل ہوتا ہے تو وہ متکبر ہوجاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے کمال کو محض اپنی قابلیت کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ اسی طرح شرک اور کفر کے استھ بھی غرور پیدا ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ مشرک اور کافر اپنے خیال میں یہ سمجھتا ہے کہ خداؤں اور دیوتاؤں سے اس کا کوئی خاص تعلق ہے جو دوسروں کو نصیب نہیں۔ 4. اس کلمہ پر اعتقاد رکھنے والا اچھی طرح جانتا ہے کہ نفس کی پاکیزگی اور ایک نیک عمل کے سوا اس کے لیے نجات اور فلاح کا کوئی ذریعہ نہیں، کیونکہ وہ ایک ایسے خدا پر اعتقاد رکھتا ہے جو بے نیاز ہے، کسی سے کوئی رشتہ نہیں رکھتا۔اس کے مقابلے میں مشرکین اور کفار ہمیشہ جھوٹی توقعات پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی سمجھتا ہے کہ خدا کا بیٹا ہمارے لیے کفارہ بن گیا ہے کوئی خیال کرتا ہے کہ ہم خدا کے چہیتے ہیں اور ہمیں سزا مل ہی نہیں سکتی۔ کسی کا گمان یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں سے خدا کے ہاں سفارش کرالیں گے۔ کوئی اپنے دیوتاؤں کو نذر و نیاز دے کر سمجھ لیتا ہے کہ اب اسے دنیا میں سب کچھ کرنے کا لائسنس مل گیا ہے۔ اس قسم کے جھوٹے اعتقادات ان لوگوں کو ہمیشہ گناہوں اور بدکاریوں کے چکر میں پھنسائے رکھتے ہیں اور وہ ان کے بھروسے پر نفس کی پاکیزگی اور عمل کی نیکی سے غافل ہوجاتے ہیں۔ رہے دہریے تو وہ سرے سے یہ اعتقاد ہی نہیں رکھتے کہ کوئی بالاتر ہستی ان سے بھلے یا برے کاموں کی بازپرس کرنے والی بھی ہے۔ اس لیے وہ دنیا میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔ ان کے نفس کی خواہش ان کی خدا ہوتی ہے اور وہ اس کے بندے ہوتے ہیں۔ ║ 5. اس کلمہ کا قائل کسی حال میں مایوس اور دل شکستہ نہیں ہوتا، وہ ایک ایسے خدا پر ایمان رکھتا ہے جو زمین و آسمان کے سارے خزانوں کا مالک ہے، جس کا فضل و کرم بے حد و حساب ہے اور جس کی قوتیں بے پایاں ہیں۔ یہ ایمان اس کے دل کو غیر معمولی تسکین بخشتا ہے۔ اس کو اطمینان سے بھر دیتا ہے اور ہمیشہ امیدوں سے لبریز رکھتا ہے، چاہے وہ تمام دنیا کے دروازوں سے ٹھکرادیا جائے، سارے اسباب کا رشتہ ٹوٹ جائے اور وسائل و ذرا‏ئع ایک ایک کرکے اس کا ساتھ چھوڑدیں۔ پھر بھی ایک خدا کا سہارا کسی حال میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اسی کے بل بوتے پر وہ نئی امیدوں کے ساتھ کوشش پر کوشش کیے چلا جاتا ہے۔ یہ اطمینان قلب عقیدۂ توحید کے سوااور کسی عقیدے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ مشرکین اور کفار اور دہریے چھوٹے دل کے ہوتے ہیں، ان کا بھروسہ محدود طاقتوں پر ہوتا ہے، اس لیے مشکلات میں بہت جلد مایوسی ان کو گھیر لیتی ہے اور اکثر ایسی حالتوں میں وہ خودکشی تک کر گزرتے ہیں۔ 6. اس کلمہ کا اعتقاد انسان میں عزم اور حوصلہ اور صبر و توکل کی زبردست طاقت پیدا کردیتا ہے۔ وہ جب خدا کی خوشنودی کے لیے دنیا میں بڑے کام انجام دینے کے لیے اٹھتا ہے تو اس کے دل میں یہ یقین ہوتا ہے کہ میری پشت پر زمین و آسمان کے بادشاہ کی قوت ہے۔ یہ خیال اس میں پہاڑ کی سی مضبوطی پیدا کرتا ہے اور دنیا کی ساری مشکلات اور مصیبتیں اور مخالف طاقتیں مل کر بھی اس کو اپنے عزم سے نہیں ہٹاسکتیں۔ 7. یہ کلمہ انسان کو بہادر بنادیتا ہے۔ دیکھو! آدمی کو بزدل بنانے والی دراصل دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک تو جان اور مال اور بال بچوں کی محبت، دوسرے یہ خیال کہ خدا کے سوا کوئی اور مارنے والا ہے، اور یہ کہ آدمی اپنی تدبیر سے موت کو ٹال سکتا ہے۔ لاالہ الا اللہ کا اعتقاد ان دونوں چیزوں کو دل سے نکال دیتا ہے۔ پہلی چیز تو اس لیے نکل جاتی ہے کہ اس کا قائل اپنی جان و مال اور ہر چیز کا مالک خدا ہی کو سمجھتا ہے اور اس کی خوشنودی کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہوجاتا ہے۔ رہی دوسری چیز تو وہ اس وجہ سے باقی نہیں رہتی کہ لا الہ الا اللہ کہنے والے کے نزدیک جان لینے کی قدرت کسی انسان یا حیوان یا توپ یا تلوار یا لکڑی یا پتھر میں نہیں ہے، اس کا اختیار صرف خدا کو ہے اور اس نے موت کا جو وقت مقرر کردیا ہے اس سے پہلے دنیا کی تمام قوتیں مل کر بھی چاہیں تو کسی کی جان نہیں لے سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے سے زیادہ بہادر دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلہ میں تلواروں کی باڑھ اور گولیوں کی بوچھاڑ اور فوجوں کی یورش سب ناکام رہ جاتی ہیں۔ جب وہ خدا کی راہ میں لڑنے کے لیے بڑھتا ہے تو اپنے سے دس گنی طاقت کا بھی منہ پھیر دیتا ہے۔ مشرکین اور کفار اور دہریے یہ قوت کہاں سے لائیں گے؟ ان کو تو جان سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موت دشمن کے لانے سے آتی ہے اور ان کے بھاگنے سے بھاگ سکتی ہے۔ 8. لا الہ الا اللہ کا اعتقاد انسان میں قناعت اور بے نیازی کی شان پیدا کردیتا ہے۔ حرض و ہوس اور شک و حسد کے رکیک جذبات اس کے دل سے نکال دیتا ہے۔ کامیابی حاصل کرنے کے ناجائز اور ذلیل طریقے اختیار کرنے کا خیال تک اس کے ذہن میں نہیں آنے دیتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، جس کو چاہے زیادہ دے جس کو چاہے کم دے۔ عزت اور طاقت اور ناموری اور حکومت سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے۔ وہ اپنی مصلحتوں کے لحاظ سے جس کو جس قدر چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ہمارا کام صرف اپنی حد تک جائز کوشش کرنا ہے۔ کامیابی اور ناکامی خدا کے فضل پر موقوف ہے۔ وہ اگر دینا چاہے تو دنیا کی کوئی قوت اسے روک نہیں سکتی، اور نہ دینا چاہے تو کوئی طاقت دلوانہیں سکتی۔ اس کے مقابلے میں مشرکین اور کفار اور دہریے اپنی کامیابی اور ناکامی کو اپنی کوشش اور دنیوی طاقتوں کی مدد یا مخالفت پر موقوف سمجھتے ہیں، اس لیے ان پر حرص اور ہوس مسلط رہتی ہے۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے رشوت، خوشامد، سازش اور ہر قسم کے بدترین ذرائع اختیار کرنے میں انہیں باک نہیں ہوتا۔ دوسروں کی کامیابی پر رشک و حسد میں جلے مرتے ہیں اور ان کو نیچا دکھانے کی کوئی بری سے بری تدبیر بھی نہیں چھوڑتے۔ ║ 9. سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کا اعتقاد انسان کو خدا کے قانون کا پابند بناتاہے۔ اس کلمہ پر ایمان لانے والا یقین رکھتا ہے کہ خدا پر چھپی اور کھلی چیز سے باخبر ہے۔ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، اگر ہم رات کے اندھیرے میں اور تنہائی کے گوشے میں بھی کوئی گناہ کریں تو خدا کو اس کا علم ہوجاتا ہے۔ اگر ہمارے دل کی گہرائی میں بھی کوئی برا ارادہ پیدا ہو تو خدا تک اس کی خبر پہنچ جاتی ہے۔ ہم سب سے چھپاسکتے ہیں ، مگر خدا سے نہیں چھپا سکتے۔ سب سے بھاگ سکتے ہیں، مگر خدا کی سلطنت سے نہیں نکل سکتے۔ سب سے بچ سکتے ہیں، مگر خدا کی پکڑ سے بچنا غیر ممکن ہے۔ یہ یقین جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی زیادہ انسان اپنے خدا کے احکام کا مطیع ہوگا۔ جس چیز کو خدا نے حرام کیا ہے وہ اس کے پاس بھی نہ پھٹکے گا اور جس چیز کا اس نے حکم دیا ہے وہ اس کو تنہائی اور تاریکی میں بھی بجالائے گا ۔ کیوں کہ اس کے ساتھ ایک ایسی پولیس لگی ہوتی ہے جو کسی حال میں اس کا پیچھانہیں چھوڑتی اور اس کو ایسی عدالت کا کھٹکا لگا رہتا ہے جس کے وارنٹ سے وہ کہیں بھاگ نہیں سکتا۔یہی وجہ ہے کہ مسلم ہونے کے لیے سب سے پہلی اور ضروری شرط لا الہ الا اللہ پر ایمان لانا ہے۔ مسلم کے معنی جیسا کہ تم کو ابتدا میں بتایا جاچکا ہے خدا کے فرماں بردار بندے کے ہیں۔ اور خدا کا فرماں بردار ہونا ممکن ہی نہیں جب تک کہ انسان اس بات پر یقین نہ لائے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں یہ ایمان باللہ سب سے اہم اور بنیادی چیز ہے۔ یہ اسلام کا مرکز ہے، اس کی جڑ ہے، اس کی قوت کا منبع ہے، اس کے سوا اسلام کے جتنے اعتقادات اور احکام اور قوانین ہیں سب اسی بنیاد پر قائم ہیں اور ان سب کو اسی مرکز سے قوت پہنچتی ہے۔ اس کو ہٹادینے کے بعد اسلام کوئی چیز نہیں رہتا۔ ~خدا کے فرشتوں پر ایمان ایمان باللہ کے بعد دوسری چیز جس پر آنحضرتﷺ نے ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہے، وہ فرشتوں کی ہستی ہے۔ اور بڑا فائدہ اس تعلیم کایہ ہے کہ اس سے توحید کا اعتقاد شرک کے تمام خطروں سے پاک ہوجاتا ہے۔ اوپر تم کو بتایا جاچکا ہے کہ مشرکین نے خدائی میں دو قسم کی مخلوقات کو شریک کیا ہے۔ ایک قسم ان مخلوقات کی ہے جو جسمانی وجود رکھتی ہیں اور نظر آتی ہیں۔ مثلاًسورج اور چاند اور تارے، آگ اور پانی اور بزرگ انسان وغیرہ۔دوسری قسم ان مخلوقات کی ہے جن کا وجود جسمانی نہیں ہے، بلکہ وہ نظروں سے اوجھل ہیں اور پس پردہ کائنات کا انتظام کررہی ہیں مثلاً کوئی ہوا چلانے والی اور کوئی پانی برسانے والی اور کوئی روشنی بہم پہنچانے والی۔ ان میں سے پہلی قسم کی چیزیں تو انسان کی آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ اس لیے ان کی خدائی کی نفی خود لا الہ الا اللہ کے الفاظ ہی سے ہوجاتی ہے۔ لیکن دوسری قسم کی مخلوقات پوشیدہ اور پراسرار ہیں۔ مشرکین زیادہ تر انہی کے گرویدہ ہیں، انہی کو دیوتا اور خدا اور خدا کی اولاد سمجھتے ہیں۔ انہی کی فرضی مورتیں بنا کر نذر و نیاز چڑھاتے ہیں۔ لہذا توحید الہٰی کو شرک کے اس دوسرے شعبے سے پاک کرنے کے لیے ایک مستقبل عقیدہ بیان کیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ پوشیدہ نورانی ہستیاں جن کو تم دیوتا اور خدا اور اولاد ِخدا کہتے ہو دراصل یہ خدا کے فرشتے ہیں، ان کا خدائی میں کوئی دخل نہیں۔ یہ سب خدا کے تابع فرمان ہیں اور اس قدر مطیع ہیں کہ حکم الہٰی سے بال برابر بھی سرتابی نہیں کرسکتے۔ خدا ان کے ذریعہ سے اپنی سلطنت کی تدبیر کرتا ہے اور یہ ٹھیک ٹھیک اس کے فرمان بجالاتے ہیں ان کو خود اپنے اختیار سے کچھ کرنے کی قدرت نہیں، یہ اپنی طاقت سے خدا کے حضور میں کوئی تجویز پیش نہیں کرسکتے۔ ان کی اتنی مجال بھی نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش کریں۔ ان کی عبادت کرنا اور ان سے مدد مانگنا تو انسان کے لیے ذلت ہے۔ کیونکہ روزِ اوّل میں اللہ تعالیٰ نے ان سے آدم علیہ السلام کو ║ سجدہ کرایا تھا اور ان سے بڑھ کر آدم علیہ السلام کو علم عطا کیا تھا۔ اور ان کو چھوڑ کرآدم علیہ السلام کو زمین کی خلافت عطا کی تھی۔ پس جو انسان خود ان فرشتوں کا مسجود ہے اس کے اس سے بڑھ کر کیا ذلت ہوسکتی ہے کہ وہ الٹا ان کے آگے سجدہ کرے اور ان سے بھیک مانگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو ہم کو فرشتوں کی پرستش کرنے اور خدائی میں ان کو شریک ٹھیرانے سے روک دیا۔دوسری طرف آپ نے ہمیں یہ بتایا کہ فرشتے خدا کی برگزیدہ مخلوق ہیں، گناہوں سے پاک ہیں، ان کی فطرت ایسی ہے کہ ہمیں یہ بتایا کہ فرشتے خدا کی برگزیدہ مخلوق ہیں، گناہوں سے پاک ہیں، ان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ خدا کے احکام کی نافرمانی کرہی نہیں سکتے، وہ ہمیشہ خدا کی بندگی و عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ انہی میں سے ایک برگزیدہ فرشتے کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں پر وحی بھیجتا ہے جن کا نام جبریل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل علیہ السلام ہی کے ذریعہ سے قرآن کی آیتیں نازل ہوئی تھیں، انہی فرشتوں میں وہ فرشتے بھی ہیں جو ہر وقت تمہارے ساتھ لگے ہوئے ہیں، تمہاری ہر اچھی اور بری حرکت کو ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں ۔ تمہاری ہر اچھی بری بات کو ہر وقت سنتے ہیں اور نوٹ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس ہر شخص کی زندگی کا ریکارڈ محفوظ رہتا ہے۔ مرنے کے بعد جب تم خدا کے سامنے حاضر ہوگے تو یہ تمہارا نامۂ اعمال پیش کردیں گے اور تم دیکھوگے کہ عمر بھر تم نے چھپے اور کھلے جو بھی نیکیاں اور بدیاں کی تھیں وہ سب اس میں موجود ہیں۔ فرشتوں کی حقیقت ہم کو نہیں بتائی گئی ، صرف ان کی صفات بتائی گئی ہیں اور ان کی ہستی پر یقین رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں وہ کیسے ہیں اور کیسے نہیں۔ لہذا اپنی عقل سے ان کی ذات کے متعلق کوئی بات تراش لینا جہالت ہے اور ان کے وجود سے انکار کرنا کفر ہے۔ کیونکہ انکار کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں اور انکار کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ جھوٹا قرار دینے کے ہیں۔ ہم ان کے وجود پر صرف اس لیے ایمان لاتے ہیں کہ خدا کے سچے رسول نے ہم کو ان کی خبر دی ہے۔ ~خدا کی کتابوں پر ایمان تیسری چیز جس پر ایمان لانے کی تعلیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہم کو دی گئی ہے، وہ اللہ کی کتابیں ہیں جو اس نے اپنی نبیوں پر نازل کیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل فرمایا ہے، اسی طرح آپ سے پہلے جو رسول گزرے تھے، ان کے پاس بھی اپنی کتابیں بھیجی تھیں۔ ان میں سے بعض کتابوں کے نام ہم کو بتائے گئے ہیں۔ مثلاً صحفِ ابراہیم جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اترے، تورات ؔ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ، زبور جو حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس بھیجی گئی ، اور انجیل جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دی گئی۔ ان کے سوا دوسری مذہبی کتابیں جو رسولوں کے پاس آئی تھیں ان کے نام ہم کو نہیں بتائے گئے۔ اس لیے کسی اورمذہبی کتاب کے متعلق ہم یقین کےساتھ نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ البتہ ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کتابیں بھی خدا کی طرف سے آئی تھیں وہ سب برحق تھیں۔ جن کتابوں کے نام ہم کو بتائے گئے ہیں ان میں صحف ابراہیم  تو اب دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ رہیں تورات اور زبور اور انجیل تو وہ البتہ یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس موجود ہیں، مگر قرآن شریف میں ہم کو بتایا گیا ہے کہ ان سب کتابوں میں لوگوں نے خدا کے کلام کو بدل ڈالا ہے اور اپنی طرف سے بہت سی باتیں ان کے اندر ملادی ہیں۔ خود عیسائی اور یہودی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اصل کتابیں ان کے پاس نہیں ہیں، صرف ان کے ترجمے باقی رہ گئے ہیں، جن میں صدیوں سے ترمیم ہوتی رہی ہے اب تک ہوتی چلی جارہی ہے۔ پھر ان کتابوں کے پڑھنے سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے جو کتابیں موجود ہیں وہ ٹھیک ║ ٹھیک خدا کی کتابیں نہیں ہیں، ان میں خدا کا کلام اور انسان کے کلام کون سا۔ لہذا پچھلی کتابوں پر ایمان کا جو حکم ہو کو دیا گیا ہے وہ صرف اس حیثیت سے ہے کہ خدا نے قرآن سے پہلے بھی دنیا کی ہر قوم کے پاس اپنے احکام اپنے نبیوں کے ذریعہ سے بھیجے تھے۔ اور وہ سب اسی ایک خدا کے احکام تھے جس کی طرف سے قران آیا ہے اور ‌قرآن کوئی نئی اور انوکھی کتاب نہیں ہے، بلکہ اسی کتاب نہیں ہے، بلکہ اسی تعلیم کو زندہ کرنے کے لیے بھیجی گئی ہے جس کو پہلے زمانہ کے لوگوں نے پایا اور کھودیا، یا بدل ڈالا، یا انسانی کلاموں سے خلط ملط کردیا۔ قرآن شریف خدا کی سب سے آخری کتاب ہے۔ اس میں اور پچھلی کتابوں میں کئی حیثیتوں سے فرق ہے: 1. پہلے جو کتابیں آئی تھیں ان میں سے اکثر کے اصلی نسخے دنیا سے گم ہوگئے اور ان کے صرف ترجمے رہ گئے ہیں۔لیکن قرآن جن الفاظ میں اترا تھا، ٹھیک ٹھیک انہی الفاظ میں موجود ہے، اس کے ایک حرف، بلکہ ایک شوشہ میں بھی تغیر نہیں ہوا۔ 2. پچھلی کتابوں میں لوگوں نے کلام ِ الٰہی کے ساتھ اپنا کلام ملادیاہے۔ ایک ہی کتاب میں کلام ِ الہٰی بھی ہے، قومی تاریخ بھی ہے، بزرگوں کے حالات بھی ہیں، تفسیر بھی ہے، فقیہوں کے نکالے ہوئے شرعی مسئلے بھی ہیں اور یہ سب چیزیں اس طرح گڈمڈ ہیں کہ خدا کے کلام کو ان میں سے الگ چھانٹ لینا ممکن نہیں ہے۔مگر قرآن میں خالص کلامِ الہیٰ ہمیں ملتا ہے۔ اور اس کے اندر کسی دوسرے کے کلام کی ذرّہ برابر بھی آمیزش نہیں ہے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت رسول، سیرت صحابہ اور تاریخ اسلام پر مسلمانوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ سب قرآن سے بالکل الگ دوسری کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ قرآن میں ان کا ایک لفظ بھی ملنے نہیں پایا ہے ۔ 3. جتنی مذہبی کتابیں دنیاکی مختلف قوموں کے پاس ہیں، ان میں سے ایک کے متعلق بھی تاریخی سند سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جس نبی کی طرف منسوب ہے، واقعی اسی نبی کی ہے۔ بلکہ بعض مذہبی کتابیں ایسی بھی ہیں جن کے متعلق سرے سے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس زمانہ میں کس نبی پر اتری تھیں۔مگر قرآن کے متعلق اتنی زبردست تاریخی شہادتیں موجود ہیں کہ کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت میں شک کرہی نہیں سکتا۔ اس کی آیتوں تک کے متعلق یہ معلوم ہے کہ کون سی آیت کب اور کہاں نازل ہوئی۔ 4. پچھلی کتابیں جن زبانوں میں نازل ہوئی تھیں وہ ایک مدت سے مردہ ہوچکی ہیں۔ اب دنیا میں کہیں بھی ان کے بولنے والے باقی نہیں رہے اور ان کے سمجھنے والے بھی بہت کم پائے جاتے ہیں۔ ایسی کتابیں اگر اصلی اور صحیح حالت میں موجود بھی ہوں تو ان کے احکام کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور ان کی پیروی کرنا ممکن نہیں، لیکن قرآن جس زبان مین ہے وہ ایک زندہ زبان ہے، دنیامیں کروڑوں آدمی آج بھی اس کو بولتے ہیں اور کروڑوں آدمی اسے جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اس کی تعلیم کا سلسلہ دنیا میں ہر جگہ جارہی ہے۔ ہر شخص اس کو سیکھ سکتا ہے اور جو اس کے سیکھنے کی فرصت نہیں رکھتا اس کو ہر جگہ ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو قرآن کے معنی اسے سمجھانے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ 5. جتنی مذہبی کتابیں دنیا کی مختلف قوموں کے پاس ہیں، ان میں سے ہر کتاب میں کسی خاص قوم کو مخاطب کیا گیا ہے اور ہر کتاب میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جو معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک خاص زمانے کے حالات اور ضروریات کے لیے تھے، مگر اب نہ ان کی ضرورت ہے اور نہ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ سب کتابیں الگ الگ قوموں کے لیے مخصوص تھیں، ان میں سے کوئی کتاب بھی تمام دنیا کے لیے نہ آئی تھی۔ پھر جن قوموں کے لیے یہ کتابیں آئی تھیں، ان کے لیے بھی یہ ہمیشہ کے واسطے نہ تھیں، بلکہ کسی خاص زمانے کے لیے تھیں۔ اب قرآن کو دیکھو، اس کتاب میں ہر جگہ انسان کو مخاطب کیا گیا ║ ہے اس کے کسی ایک فقرے سے بھی یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ وہ خاص کسی قوم کے لیے ہے۔ نیز اس کتاب میں جتنے احکام دیے گئے ہیں وہ سب ایسے ہیں جن پر ہر زمانے میں ہر جگہ عمل کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ قرآن ساری دنیا کے لیے ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔ 6. پچھلی کتابوں میں سے ہر ایک میں نیکی اور صداقت کی باتیں بیان کی گئی تھیں، اخلاق اور راست بازی کے اصول سکھائے گئے تھے، خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے طریقےبتائے گئے تھے۔ لیکن کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہ تھی جس میں ساری خوبیوں کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہو اور کوئی چیز چھوڑی نہ گئی ہو۔ یہ بات صرف قرآن میں ہے کہ جتنی خوبیاں پچھلی کتابوں میں الگ الگ تھیں وہ سب اس میں جمع کردی گئی ہیں۔ اور جو خوبیاں پچھلی کتابوں سے چھوٹ گئی تھیں وہ بھی اس کتاب میں آگئی ہیں۔ تمام مذہبی کتابوں میں انسان کے دخل درمعقولات سے ایسی باتیں مل گئی ہیں جو حقیقت کے خلاف ہیں، عقل کے خلاف ہیں، ظلم اور بے انصافی پر مبنی ہیں، انسان کے عقیدے اور عمل دونوں کو خراب کرتی ہیں۔ حتّٰی کہ بہت سی کتابوں میں فحش اور بداخلاقی کی باتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ قرآن ان سب چیزوں سے پاک ہے۔ اس میں کوئی بات بھی ایسی نہیں جو عقل کے خلاف ہو، یا جس کو دلیل یا تجربے سے غلط ثابت کیا جاسکتا ہو۔اس کے کسی حکم میں بے انصافی نہیں ہے۔ اس کی کوئی بات انسان کو گمراہی میں ڈالنے والی نہیں ہے۔ اس میں فحش اور بداخلاقی کا نام و نشان تک نہیں ہے، اوّل سے لے کر آخر تک سارا قرآن اعلیٰ درجہ کی حکمت و دانائی اور عدل و انصاف کی تعلیم اور راہ راست کی ہدایت اور بہترین احکام اور قوانین سے بھرا ہوا ہے۔ یہی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر تمام دنیا کی قوموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ قرآن پر ایمان لائیں اور تمام کتابوں کو چھوڑ کر صرف اسی ایک کتاب کی پیروی کریں، کیونکہ انسان کو خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے جس قدر ہدایات کی ضرورت ہے وہ سب اس میں کے کم و کاست بیان کردی گئی ہیں۔ یہ کتاب آجانے کے بعد کسی دوسری کتاب کی حاجت باقی نہیں رہی۔ جب تم کو معلوم ہوگیا کہ قرآن اور دوسری کتابوں میں کیا فرق ہے تو یہ بات تم خود سمجھ سکتے ہو کہ دوسری کتابوں پر ایمان اور قرآن پر ایمان میں کیا فرق ہونا چاہیے۔ پچھلی کتابوں پر ایمان صرف تصدیق کی حد تک ہے یعنی وہ سب خدا کی طرف سے تھیں اور سچی تھیں اور اسی غرض کے لیے آئی تھیں جس کو پورا کرنے کے لیےقرآن آیا ہے۔ اور قرآن پر ایمان اس حیثیت سے ہے کہ یہ خدا کا خالص کلام ہے، سراسر حق ہے، اس کا ہر لفظ محفوظ ہے، اس کی ہر بات سچی ہے، اس کے ہر حکم کی پیروی فرض ہے اور وہ ہر بات رد کردینے کے قابل ہے جو قرآن کے خلاف ہو۔ ~خدا کے رسولوں پر ایمان کتابوں کے بعد ہم کو خدا کے تمام رسولوں پر بھی ایمان لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ بات تم کو پچھلے باب میں بتائی جاچکی ہے کہ خدا کے رسول دنیا کی تمام قوموں کے پاس آئے تھے اور ان سب نے اسی اسلام کی تعلیم دی تھی جس کی تعلیم دینے کے لیے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔اس لحاظ سے خدا کے تمام رسول ایک ہی گروہ کے لوگ تھے، اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کو بھی جھوٹا قرار دے تو گویا اس نے سب کو جھٹلایا، اور کسی ایک کی بھی تصدیق کرے تو آپ سے آپ اس کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ سب کی تصدیق کرے، فرض کرو کر دس آدمی ایک ہی بات کہتے ہیں، جب تم نے ایک کو سچا تسلیم کیا تو خود بخود تم نے باقی نوکو سچا تسلیم کرلیا۔ اگر تم ایک کو جھوٹا کہوگے تو اس معنی یہ ہیں کہ تم نے خود اس بات ہی کو جھوٹ قرار دے دیا جسے وہ ║ بیان کررہا ہے اور اس سے دسوں کی تکذیب لازم آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں تمام رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ جو شخص کسی رسول پر ایمان نہ لائے گا وہ کافر ہوگا خواہ وہ باقی رسولوں کو مانتا ہو۔ روایات میں آیا ہے کہ دنیا کی مختلف قوموں میں جو نبی بھیجے گئے ہیں، ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ اگر تم خیال کرو کہ دنیا کب سے آباد ہے اور اس میں کتنی قومیں گزر چکی ہیں تو یہ تعداد کچھ بھی زیادہ معلوم نہ ہوگی۔ان سوا لاکھ نبیوں میں سے جن کے نام ہم کو قرآن میں بتائے گئے ہیں، ان پر تو صراحت کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے، باقی تمام کے متعلق ہم کو صرف یہ عقیدہ رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے کہ جو لوگ بھی خدا کی طرف سے اس کے بندوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے وہ سب سچے تھے۔ہندوستان ، چین، ایران، مصر، افریقہ، یورپ اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں جو نبی آئے ہوں گے ہم ان سب پر ایمان لاتے ہیں، مگر ہم کسی خاص شخص کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ نبی تھا اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نبی نہ تھا۔اس لیے کہ ہمیں اس کے متعلق کچھ بتایا نہیں گیا۔ البتہ مختلف مذاہب کے پیرو جن لوکوں کو اپنا پیشوا مانتے ہیں ، ان کے خلاف کچھ کہنا ہمارے لیے جائز نہیں۔ بہت ممکن ہے کہ درحقیقت وہ نبی ہوں اور بعد میں ان کے پیروؤں نے ان کے مذہب کو بگاڑ دیا ہو، جس طرح حضرت موسیٰ  اور عیسی ٰ  کے پیروؤں نے بگاڑا، لہذا ہم جو کچھ بھی اظہار رائے کریں گے، ان کے مذہب اور ان کی رسموں کے متعلق کریں گے، مگر پیشواؤں کے حق میں خاموش رہیں گے تاکہ بغیر جانے بوجھے ہم سے کسی رسول کی شان میں گستاخی نہ ہوجائے۔ پچھلے رسولوں میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اس لحاظ سے تو کوئی فرق نہیں کہ آپ کی طرح وہ بھی سچے تھے، خدا کے بھیجے ہوئے تھے۔ اسلام کا سیدھا راستہ بتانے والے تھے۔ اور ہمیں سب پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس ساری حیثیتوں میں یکساں ہونے کے باوجود آپ میں اور دوسرے پیغمبروں میں تین باتوں کا فرق بھی ہے۔ ایک یہ کہ پچھلے انبیاء خاص قوموں میں خاص زمانوں کے لیے آئے تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ جیسا کہ ہم پچھلے باب میں تفصیل کے ساتھ بیان کرچکے ہیں۔ دوسرے یہ کہ پچھلے انبیاء کی تعلمات یا تو بالکل دنیا سے ناپید ہوچکی ہیں، یا کسی قدر باقی بھی رہ گئی ہیں تو اپنی خالص صورت میں محفوظ نہیں رہی ہیں۔ اسی طرح ان کے ٹھیک ٹھیک حالات زندگی بھی آج دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ بلکہ ان پر بکثرت افسانوں کے ردے چڑھ گئے ہیں۔ اس وجہ سے اگر کوئی ان کی پیروی کرنا چاہے بھی تو نہیں کرسکتا۔ بخلاف اس کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم، آپ کی سیرت پاک، آپ کی زبانی ہدایت، آپ کے عملی طریقے، آپ کے اخلاق و عادات ، خصائل، غرض ہر چیز دنیا میں بالکل محفوظ ہے۔ اس لیے درحقیقت تمام پیغمبروں میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک زندہ پیغمبر ہیں۔ اور صرف آپ ہی کی پیروی کرنا ممکن ہے۔ تیسرے یہ کہ پچھلے انبیاء کے ذریعہ سے اسلام کی جو تعلیم دی گئی تھی وہ مکمل نہیں تھی، ہر نبی کے بعد دوسرا نبی آکر اس کے احکام اور قوانین اور ہدایات میں ترمیم و اضافہ کرتا رہا اور اصلاح و ترقی کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ اسی لیے ان نبیوں کی تعلیمات کو ان کا زمانہ گزر جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے محفوظ بھی نہیں رکھا۔ کیونکہ ہر کامل تعلیم کے بعد پچھلی ناقص تعلیم کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اسلام کی ایسی تعلیم دی گئی ہو جو ہر حیثیت سے مکمل تھی۔ اس کے تمام انبیاء کی شریعتیں آپ سے آپ منسوخ ہوگئیں۔ کیونکہ کامل کو چھوڑ کر ناقص کی پیروی کرنا عقل کے خلاف ہے ۔ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے گا اس نے گویا ║ تمام نبیوں کی پیروی کی، اس لیے کہ تمام نبیوں کی تعلیم میں جو کچھ بھلائی تھی وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں موجود ہے۔ اور جو شخص آپ کی پیروی چھوڑ کر کسی پچھلے نبی کی پیروی کرے گا وہ بہت سی بھلائیوں سے محروم رہ جائے گا۔ اس لیے کہ جو بھلائیاں بعد میں آئی ہیں وہ اس پرانی تعلیم میں نہ تھیں۔ ان وجودہ سے تمام دنیا کے انسانوں پر لازم ہوگیا ہے کہ وہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں۔ مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تین حیثیتوں سے ایمان لائے: ایک یہ کہ آپ خدا کے سچے پیغمبر ہیں۔ دوسرے یہ کہ آپ کی ہدایت بالکل کامل ہے، اس میں کوئی نقص نہیں اور وہ ہر غلطی سے پاک ہے۔ تیسرے یہ کہ آپ خدا کے آخری پیغمبر ہیں۔ آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی کسی قوم میں آنے والا نہیں ہے، نہ کوئی ایسا شخص آنے والا ہے جس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے شرط ہو، جس کو نہ ماننے سے کوئی شخص کافر ہوجائے۔ ~آخرت پر ایمان پانچویں چیز جس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہو کو ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہے وہ آخرت ہے۔ آخرت کے متعلق جن جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے وہ یہ ہیں: 1. ایک دن اللہ تعالیٰ تمام عالم اور اس کی مخلوقات کو مٹادے گا، اس دن کا نام قیامت ہے۔ 2. پھر وہ سب کو ایک دوسری زندگی بخشے گا اور سب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے، اس کو حشر کہتے ہیں۔ 3. تمام لوگوں نے اپنی دنیوی زندگی میں جو کچھ کیا ہے اس کا پورا کارنامۂ اعمال خدا کی عدالت میں پیش ہوگا۔ 4. اللہ تعالیٰ ہر شخص کے اچھے اور برے اعمال وزن فرمائے گا جس کی بھلائی خدا کی میزان میں برائی سے زیادہ وزنی ہوگی اس کو بخش دے گا اور جس کی برائی کا پلہ بھاری رہے گااسے سزا دے گا۔ 5. جن لوگوں کی بخشش ہوجائے گی وہ جنت میں جائیں گے اور جن کو سزا دی جائے گی وہ دوزخ میں جائیں گے۔ ~عقیدۂ آخرت کی ضرورت آخرت کا یہ عقیدہ جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے، اسی طرح پچھلے تمام انبیاء بھی اسے پیش کرتے آئے ہیں اور ہر زمانے میں اس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازمی شرط رہا ہے ۔ تمام نبیوں نے اس شخص کو کافر قرار دیا ہے جو اس سے انکار کرے یا اس میں شک کرے ۔ کیونکہ اس عقیدہ کے بغیر خدا اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو ماننا بالکل بے معنی ہوجاتا ہے اور انسان کی ساری زندگی خراب ہوجاتی ہے۔ اگر غور کرو تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ تم سے جب کبھی کسی کام کے لیے کہا جاتا ہے تو سب سے پہلاسوال جو تمہارے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ یہی ہےکہ اس کے کرنے سے کیا فائدہ ہے اور نہ کرنے کا نقصان کیا ہے؟ یہ سوال کیوں پیدا ہوتا ہے؟ اس ║ کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت ہر ایسے کام کو لغو اور فضول سمجھتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور اسی طرح تم کسی ایسی چیز سے پرہیز کرنا بھی قبول نہ کروگے جس کے متعلق تم کو یقین ہو کہ اس سے کوئی نقصان نہیں۔ یہی حال شک کا بھی ہے،جس کام کا فائدہ مشکوک ہو اس میں تمہارا جی ہرگز نہ لگے گا۔ اور جس کام کے نقصان دہ ہونے میں شک ہو،اس سے بچنے کی بھی تم کوئی خاص کوشش نہ کرگے۔ بچوں کو دیکھو! وہ آگ میں کیوں ہاتھ ڈال دیتے ہیں؟ اس لیے ناکہ ان کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ آگ جلادینے والی چیز ہے، اور وہ پڑھنے سے کیوں بھاگتے ہیں؟ اسی وجہ سے نا کہ جو کچھ فائدے ان کے بڑے انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ ان کے دل کو نہیں لگتے۔ اب خیال کرو کہ جو شخص آخرت کو نہیں مانتا وہ خدا کی فرمانبرداری کا کوئی فائدہ ہے اور نہ اس کی نافرمانی کا کوئی نقصان۔پھر کیوں کر ممکن ہے کہ وہ ان احکام کی اطاعت کرے جو خدا نے اپنے رسولوں اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے دیے ہیں؟ بالفرض اگر اس نے خدا کو مان بھی لیا تو ایسا ماننا بالکل بیکار ہوگا، کیونکہ وہ خدا کے قانون کی اطاعت نہ کرے گا اور اس کی مرضی کے مطابق نہ چلے گا۔ لیکن یہ معاملہ یہیں تک نہیں رہتا۔ تم اور زیادہ غور کروگے تو تم معلوم ہوگا کہ آخرت کا انکار یا اقرار انسان کی زندکی میں فیصلہ کن اثر رکھتا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا انسان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ ہر کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اس کے فائدے اور نقصان کے لحاظ سے کرتاہے۔ اب ایک شخص تو وہ ہے جس کی نظر صرف اسی دنیا کے فائدے اور نقصان پر ہے۔ وہ کسی ایسے نیک کام پر ہر گز آمادہ نہ ہوگا جس سے کوئی فائدہ اس دنیا میں حاصل ہونے کی امید نہ ہو۔اور کسی ایسے نیک کام پر ہر گز آمادہ نہ ہوگا جس سے کوئی فائدہ اس دنیا میں حاصل ہونے کی امید نہ ہو۔ اور کسی ایسے برے کام سے پرہیز نہ کرے گا جس سے اس دنیا میں کوئی نقصان پہنچنے کا خطرہ نہ ہو۔ایک دوسرا شخص ہے جس کی نظر افعال کے آخری نتائج پر ہے ۔ وہ دنیا کے فائدے اور نقصان کو محض عارضی چیز سمجھے گا اورآخرت کے دائمی فائدے یا نقصان کا لحاظ کرکے نیکی اختیار کرے گا اور بدی کو چھوڑ دے گا، خواہ اس دنیا میں نیکی سے کتنا بڑا نقصان اور بدی سے کتنا ہی بڑا فائدہ ہوتا ہو۔ دیکھو! دونوں میں کتنا بڑا فرق ہوگیا۔ ایک کے نزدیک نیکی وہ ہے جس کا کوئی اچھا نتیجہ اس دنیا کی ذرا سی زندگی میں حاصل ہوجائے۔ مثلاً کچھ روپیہ ملے، کوئی زمین ہاتھ آجائے، کوئی عہدہ مل جائے۔ کچھ خواہشات کی تسکین ہو، کچھ نفس کو مزہ آجائے۔ اور بدی وہ ہے جس سے کوئی برا نتیجہ اس زندگی میں ظاہر ہو یا ظاہر ہونے کا خوف ہو۔ مثلاً جان و مال کا نقصان صحت کی خرابی، بدنامی، حکومت کی سزا، کسی قسم کی تکلیف یا رنج یا بدمزگی۔ اس کے مقابلہ میں دوسرے شخص کے نزدیک نیکی وہ ہے جس سے خدا خوش ہو، اور بدی وہ جس سے خدا ناراض ہو۔ نیکی اگر دنیا میں اس کو کسی قسم کا فائدہ نہ پہنچائے، بلکہ الٹا نقصان ہی نقصان دے تب بھی وہ اس کو نیکی ہی سمجھتا ہے اور یقین رکھتاہے کہ آخرکار خدا اس کو ہمیشہ باقی رہنے والا فائدہ عطا کرے گا۔ اور بدی سے خواہ یہاں کسی قسم کا نقصان پہنچے، نہ نقصان کو خوف ہو، بلکہ سراسر فائدہ ہی فائدہ نظر آئے پھر بھی وہ اس کو بدی ہی سمجھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اگر میں دنیا کی اس مختصر زندکی میں سزا سے بچ گیا اور چند روز مزے لوٹتا رہا تب بھی آخر کار خدا کے عذاب سے نہ بچوں گا۔ یہ دو مختلف خیالات ہیں جن کے اثر سے انسان دو مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔جو شخص آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کے لیے قطعی ناممکن ہے کہ وہ ایک قدم بھی اسلام کےطریقے پر چل سکے۔ اسلام کہتا ہے کہ خدا کی رہ میں غریبوں کو زکوۃ دو، وہ جواب دیتا ہے زکوۃ سے میری دولت گھٹ جائے گی، میں تو اپنے مال پر الٹا سود لوں گا اور سود کی ڈگری میں غریبوں کے گھر کا تنکا تک قرق کرالوں گا۔ اسلام کہتا ہے ہمیشہ سچ بولو اور جھوٹ سے پرہیز کرو، خواہ سچائی میں کتناہی نقصان اور جھوٹ میں کتنا ہی فائدہ ہو۔وہ جواب دیتا ہے کہ میں سچائی کو لے کر کیا کروں جس سے مجھے نقصان پہنچے اور فائدہ کچھ نہ ہو،اور ایسے جھوٹ سے پرہیز کیوں کروں جو فائدہ مند ہو اور جس میں بدنامی کا خوف تک نہ ہو؟ وہ ایک سنسان راستہ سے گذرتا ہے ، ایک قیمتی چیز پڑی ہوئی اس کو نظر آتی ہے۔ اسلام کہتا ہےکہ یہ تیرا مال نہیں ہے تو اس کو ہرگز نہ لے۔ وہ جواب دیتا ہے کہ مفت ہاتھ آئی ہوئی چیز کو کیوں چھوڑدوں؟ یہاں کوئی دیکھنے والا نہیں جو پولیس کو خبر کرے یا عدالت میں گواہی دے یا لوگوں میں مجھے بدنام کرے، پھر کیوں نہ میں اس مال سے فائدہ اٹھاؤں؟ ایک ║ شخص پوشیدہ طور پر اس کے پاس کوئی امانت رکھواتا ہے اور مرجاتا ہے، اسلام کہتا ہے کہ امانت میں خیانت نہ کر۔ اس کے مال اس کے بال بچوں کو پہنچادے۔ وہ کہتا ہے کیوں؟ کوئی شہادت اس بات کی نہیں کہ مرنے والے کا مال میرے پاس ہے، خود اس کے بال بچوں کو اس کی خبر تک نہیں، جب میں آسانی کے ساتھ اس کو کھاسکتا ہوں اور کسی دعوے یا کسی بدنامی کا خوف بھی نہیں تو کیوں نہ اسے کھاجاؤں؟ غرض یہ کہ زندگی کے راستہ میں ہر ہر قدم پر اسلام اس کو ایک طریقے پر چلنے کی ہدایت کرے گا اور وہ اس کے بالکل خلاف دوسرا طریقہ اختیار کرے گا۔ کیونکہ اسلام میں ہر چیز کی قدر و قیمت آخرت کے دائمی نتائج کے لحاظ سے ہے۔ مگر ہو شخص ہر معاملہ میں نظر صرف ان نتائج پر رکھتا ہے جو اس دنیا کی چند روزہ زندگی میں حاصل ہوتے ہیں۔ اب تم سمجھ سکتے ہو کہ آخرت پر ایمان لائے بغیر انسان کیوں مسلمان نہیں ہوسکتا۔ مسلمان تو خیر بڑی چیز ہے، سچ یہ ہے کہ آخرت کا انکار انسان کو انسانیت سے گرا کر حیوانیت سے بھی بدتر درجہ میں لے جاتا ہے۔ ~عقیدۂ آخرت کی صداقت عقیدۂ آخرت کی ضرورت اور اس کی منفعت تم کو معلوم ہوگئی۔ اب ہم مختصر طور پر تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عقیدہ آخرت کے متعلق بیان فرمایا ہے، عقل کی رو سے بھی وہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ اس عقیدے پر ہمارا ایمان صرف رسول خداکے اعتماد پر ہے، عقل پر اس کا مدار نہیں ہے۔ لیکن جب ہم غور فکر سے کام لیتے ہیں تو ہم کو آخرت کے متعلق تمام عقیدوں میں سب سے زیادہ یہی عقیدہ مطابق عقل معلوم ہوتا ہے۔ آخرت کے متعلق دنیا میں تین مختلف عقیدے پائے جاتے ہیں: ایک گروہ کہتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد فنا ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد کوئی زندگی نہیں، یہ دہریوں کا خیال ہے جو سائنسداں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ انسان اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتنے کے لیے بار بار اسی دنیا میں جنم لیتا ہے۔ اگر اس کے اعمال برے ہیں تو وہ دوسرے جنم میں کوئی جانور مثلاً کتا یا بلی بن کر آئے گا، یا کوئی درخت بن کر پیدا ہوگا یا کسی بدتر درجہ کے انسان کی شکل اختیار کرے گا۔ اور اگر اچھے اعمال ہیں تو زیادہ زیادہ اونچے درجے پر پہنچے گا۔ یہ خیال محض خام مذہبوں میں پایا جاتا ہے۔ اب پہلے گروہ کے عقیدے پر غور کرو، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مرنے کے بعد کسی کو زندہ ہوتے ہم نے نہیں دیکھا۔ ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ جو مرتا ہے وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔ لہذا مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ مگر غور کرو کیا یہ کوئی دلیل ہے؟ مرنے کے بعد تم نے کسی کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا تو تم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہو کہ " ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا"۔ اس سے آگے بڑھ کر تم یہ دعوی جو کرتے ہو کہ " ہم جانتے ہیں کہ مرنے کےبعد کچھ نہ ہوگا"۔ اس کا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے؟ ایک گنوار نے اگر ہوائی جہاز نہیں دیکھا تو وہ کہہ سکتا ہے کہ "مجھے معلوم نہیں کہ ہوائی جہاز کیا چیز ہے"۔ لیکن جب وہ کہے گا کہ " میں جانتا ہوں ، ہوائی جہاز کوئی چیز نہیں ہے"۔ تو عقلمند اس کو احمق کہیں گے۔ اس لیے کہ اس کا کسی چیز کر نہ دیکھنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ایک کیا، اگر ساری دنیاکے لوگوں نے بھی کسی چیز کو نہ دیکھاہو تو یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نہیں ہے یا نہیں ہوسکتی۔ ║ اس کےبعد دوسرے عقیدے کو لیجیے، اس عقیدے کی رو سے ایک شخص جو اس وقت انسان ہے وہ اس لیے انسان ہوگیا کہ جب وہ جانور تھا تو اس نے اچھے عمل کیےتھے۔ اور ایک جانور جو اس وقت جانور ہے وہ اس لیے جانور ہوگیا کہ انسان کی جون میں اس نے برے عمل کیے تھے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ انسان اور حیوان اور درخت ہونا سب دراصل پہلے جنم کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے کیا چیز تھی؟ اگر کہتے ہو کہ پہلے انسان تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس سے پہلے حیوان یا درخت ہو، ورنہ پوچھا جائے کہ انسان کا قالب اس کو کس اچھے عمل کے بدلے میں ملا۔ اگر کہتے ہو کہ حیوان تھا یا درخت تھا تو، ماننا پڑے گا کہ اس سے پہلے انسان ہو، ورنہ سوال ہوگا کہ درخت یا حیوان کا قالب اس کو کس برے عمل کی سزا میں ملا؟ غرض یہ ہے کہ اس عقیدے کے ماننے والے مخلوقات کی ابتدا کسی جون سے بھی قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ ہر جون سے پہلے ایک جون ہونی ضروری ہے تاکہ بعد والی جون کو پہلی جون کے عمل کا نتیجہ قرار دیا جائے ۔ یہ بات صریح عقل کے خلاف ہے۔ اب تیسرے عقیدے کو لو۔ اس مین سب سے پہلے یہ بیان کیا گیا ہے کہ "ایک دن قیامت آئے گی اور خدا اپنے کارخانے کو توڑ پھوڑ کر نئے سرے سے ایک دوسرا زیادہ اعلی درجہ کا پائدار کارخانہ بنائے گا۔ یہ ایسی بات ہے کہ جس کے صحیح ہونےمیں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ دنیا کے اس کارخانے پر جتنا غور کیا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ دائمی کارخانہ نہیں ہے۔ کیونکہ جتنی قوتیں کام کررہی ہیں وہ سب محدود ہوچکے ہیں کہ ایک دن سورج ٹھنڈا اور بے نور ہوجائے گا، سیارے ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے اور دنیا تباہ ہوجائے گی۔ دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ "انسان کو دوبارہ زندگی بخشی جائے گی" کیا یہ ممکن ہے؟ اگر ناممکن ہے تو اب جو زندگی انسان کو حاصل ہے یہ کیسے ممکن ہوگئی؟ ظاہر ہے کہ جس خدا نے اس دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے وہ دوسری دنیا میں بھی پیدا کرسکتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ "انسان نے اس دنیا کی زندگی میں جتنے عمل کیے ہیں ان سب کا ریکارڈ محفوظ ہے اور وہ حشر کے دن پیش ہوگا"۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا ثبوت آج ہم کو اس دنیامیں بھی مل رہا ہے۔ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ جو آواز ہمارے منہ سے نکلتی ہے وہ ہوا میں تھوڑی سی لہر پیدا کرکے فنا ہوجاتی ہے۔ مگر اب معلوم ہوا کہ ہر آواز اپنے گرد و پیش کی چیزوں پر اپنا نقش چھوڑ جاتی ہے جس کو دوبارہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ گراموفون کا ریکارڈ اسی اصول پر بنا ہے۔ اسی سے یہ معلوم ہوا کہ ہماری ہر حرکت کا ریکارڈ ان تمام چیزوں پر منقوش ہورہا ہے جن کے ساتھ اس حرکت کا کسی طورپر تصادم ہوتا ہے۔ جب حال یہ ہے تو یہ بات بالکل یقینی معلوم ہوتی ہے کہ ہمارا پورا نامۂ اعمال محفوظ ہے اور دوبارہ اس کو حاضر کیا جاسکتا ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ "خدا حشر کے دن عدالت کرے گا اور حق کے ساتھ ہمارے اچھے اور برے اعمال کی جزا و سزا دے گا"۔ اس کو کون ناممکن کہہ سکتا ہے؟ اس میں کون سی بات خلاف عقل ہے؟ عقل تو خود یہ چاہتی ہے کہ کبھی خدا کی عدالت ہو اور ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلے کیے جائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نیکی کرتا ہے اور اس کاکوئی فائدہ اس کو دنیا میں حاصل نہیں ہوتا۔ایک شخص بدی کرتا ہے اور اس سے کوئی نقصان اس کو نہیں پہنچتا۔ یہی نہیں بلکہ ہم ہزاروں مثالیں ایسی دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نے نیکی کی اور اسے الٹا نقصان ہوا۔ ایک دوسرے شحص نے بدی کی اور وہ خوب مزے کرتا رہا۔ اس قسم کے واقعات کو دیکھ کر عقل مطالبہ کرتی ہے کہ کہیں نہ کہیں نیک آدمی کو نیکی کا اور شریر آدمی کو شرارت کا پھل ملنا چاہیے۔ ║ آخری چیز جنت اور دوزخ ہے، ان کا وجود بھی ناممکن نہیں، اگر سورج اور چاند اور مریخ اور زمین کو خدا بنا سکتا ہے تو آخر جنت اور دوزخ نہ بناسکنے کی کیا وجہ ہے؟ جب وہ عدالت کرے گا اور لوگوں کو جزا و سزا دے گا تو جزا پانے والوں کے لیے کوئی عزت اور لطف و مسرت کا مقام اور سزا پانے والوں کے لیے کوئی ذلت اور رنج اور تکلیف کا مقام بھی ہونا چاہیے۔ ان باتوں پر جب تم غور کروگے تو تمہاری عقل خود کہدے گی کہ انسان کے انجام کے متعلق جتنے عقیدے دنیامیں پائے جاتے ہیں ان میں سب سے زیادہ دل کو لگتا ہوا عقیدہ یہی ہے۔ اور اس میں کوئی چیز خلاف یا ناممکن نہیں ہے۔ پھر جب ایسی ایک بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے سچے نبی نے بیان کی ہے اور اس میں سراسر ہماری بھلائی ہے، تو عقلمندی یہ ہے کہ اس پر یقین کیاجائے، نہ یہ کہ خواہ مخواہ بلا کسی دلیل کے شک کیا جائے۔ ~کلمۂ طیبہ یہ پانچ عقیدے ہیں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔ ان پانچوں عقیدوں کا خلاصہ صرف ایک کلمہ میں آجاتا ہے: }لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ { جب تم } لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ { کہتے ہو تو تمام باطل معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک خدا کی بندگی کا اقرار کرتے ہو، اور جب } مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ { کہتے ہو تو اس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں۔رسالت کی تصدیق کے ساتھ خود بخود یہ بات تم پر لازم ہوجاتی ہے کہ خدا کی ذات و صفات اور ملائکہ اور کتب آسمانی اور انبیاء اور آخرت کے متعلق جو کچھ اور جیسا کچھ آنحضرت نے تعلیم فرمایا ہے اس پر ایمان لاؤ اور خدا کی عبادت اور فرماں برداری کا جو طریقہ آپ نے بتایا ہے اس کی پیروی کرو۔   5. ~ ║عبادات ~عبادات کا مفہوم، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، حمایت اسلام ~٭-----٭-----٭ ~ پچھلے باب میں تو کو بتایا گیا ہے ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ امور پر ایمان لانے کی تعلیم دی ہے: 1. خدائے وحدہ لاشریک پر: 2. خدا کے فرشتوں پر 3. خداکی کتابوں پر، اور بالخصوص قرآن مجید پر، 4. خدا کے رسولوں پر اور بالخصوص اس کے آخری نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، 5. آخرت کی زندگی پر، یہ اسلام کی بنیاد ہے۔ جب تم ان پانچ چیزوں پر ایمان لے آئے تو مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوگئے لیکن ابھی پورے مسلم نہیں ہوئے۔پورا مسلم انسان اس وقت ہوتا ہے جب وہ ان احکام کی اطاعت کرے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی طرف سے دئے ہیں۔ کیوں کہ ایمان لانے کے ساتھ ہی اطاعت تم پر لازم ہوجاتی ہے اور اطاعت ہی کا نام اسلام ہے۔ دیکھو! تو نے اقرار کیا کہ خدا ہی تمہارا خدا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمہارا آقا اور تم اس کے غلام ہو۔ وہ تمہارا فرماں روا ہے اور تم اس کے فرماں بردار۔ اب اگر اس کو آقا اور فرماں روا مان کر تم نے نافرمانی کی تو تم خود اپنے اقرار کے بموجب باغی اور مجرم ہوئے۔ پھر تم نے اقرار کیا کہ قرآن مجید خدا کی کتاب ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن مجید میں جو کچھ ہے تم نے تسلیم کرلیا کہ وہ خدا ہی کا فرمان ہے۔ اب تم پر لازم آگیا کہ اس کی ہربات کو مانو اور ہر حکم پر سر جھکادو۔پھر تم نے یہ بھی اقرار کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں۔ یہ دراصل اس بات کا اقرار ہے کہ آنحضرت جس چیز کا حکم دیتے ہیں اور جس چیز سے روکتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہے۔اب اس اقرار کے بعد آنحضرت کی اطاعت تم پر فرض ہوگئی۔ لہذا تم پورے "مسلم" اسی وقت ہوگئے جب تمہارا عمل تمہارے ایمان کے مطابق ہو، ورنہ جس قدر تمہارے ایمان اور تمہارے عمل میں فرق رہے گا اتنا ہی تمہارا ایمان ناقص رہے گا۔ آؤ اب ہم تمہیں بتائيں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا کیا طریقہ سکھایا ہے۔ کن چیزوں پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور کن چیزوں سے منع فرمایا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی چیز وہ عبادات ہیں جو تم پر فرض کی گئی ہیں۔ ~عبادت کا مفہوم عبادت کے معنی دراصل بندگی کے ہیں۔ تم عبد(بندہ)ہو، اللہ تمہارا معبود ہے۔ عبد اپنے معبود کی اطاعت میں جو کچھ کرے، عبادت ہے۔ مثلاً تم لوگوں سے باتیں کرتے ہو، ان باتوں کے دوران میں اگر تم نے جھوٹ سے، غیبت سے فحش گوئی سے اس لیے پرہیز کیا کہ خدا نے ان چیزوں سے منع کیا ہے، اور ہمیشہ سچائی، انصاف، نیکی اور پاکیزگی کی باتیں کیں، اس لیے کہ خداان کو پسند کرتا ہے تو تمہاری یہ سب باتیں عبادت ہوں گی، خو اہ وہ سب دنیا کے معاملات ہی میں کیوں نہ ہوں۔تم لوگوں سے لین ║ دین کرتے ہو، بازار میں خرید و فروخت کرتے ہو، اپنے گھر میں ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہتے سہتے ہو، اپنے دوستوں اور عزیزوں سے ملتے جلتے ہو، اگر اپنی زندگی کے ان سارے معاملات میں تم نے خدا کے احکام کو اور اس کے قوانین کو ملحوظ رکھا، ہر ایک کے حقوق ادا کیے، یہ سمجھ کر کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہے اور کسی کی کوئی حق تلفی نہ کی،یہ سمجھ کر کہ خدا نے اس سے روکا ہے، تو گویا تمہاری یہ ساری زندگی خدا کی عبادت ہی میں گزری۔ تم نے کسی غریب کی مدد کی، کسی بھوکے کو کھانا کھلایا، کسی بیمار کی خدمت کی اور ان سب کاموں میں تم نے اپنے کسی ذاتی فائدے یا عزت یا ناموری کو نہیں، بلکہ خدا کی خوشنودی کو پیش نظر رکھا تو یہ سب کچھ عبادت میں شمار ہوگا۔ تم نے تجارت یا صنعت یا مزدوری کی اور اس میں خدا کا خوف کرکے پوری دیانت اور ایمانداری سے کام کیا، حلال کی روٹی کمائی اور حرام سے بچے، تو یہ روٹی کمانا بھی خدا کی عبادت میں لکھا جائے گا، حالانکہ تم نے اپنی روزی کمانے کے لیے یہ کام کیے تھے۔ غرض یہ کہ دنیا کی زندگی میں ہر وقت ہر معاملہ میں خدا سے خوف کرنا، اس کی خوشنودی کو پیش نظر رکھنا، اس کے قانون کی پیروی کرنا، ہر ایسے فائدے کو ٹھکرادینا جو اس کی نافرمانی سے حاصل ہوتا ہو،اور ہر ایسے نقصان کو انگیز کرلینا جو اس کی فرماں برداری میں پہنچے یا پہنچنے کا خوف ہو، یہ خدا کی عبادت ہے۔ اس طریقہ کی زندگی سراسر عبادت ہی عبادت ہے۔ حتی کہ ایسی زندگی میں کھانا ، پینا، چلنا پھرنا، سونا ،جاگنا، بات چیت کرنا سب کچھ داخل عبادت ہے۔ یہ عبادت کا اصلی مفہوم ہے۔ اور اسلام کا اصلی مقصد مسلمان کو ایسا ہی عبادت گزار بندہ بنانا ہے۔اس غرض کے لیے اسلام میں چند ایسی عبادتیں فرض کی گئی ہیں جو انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتی ہیں۔ گویا یوں سمجھو کہ یہ خاص عبادتیں اس بڑی عبادت کے لیے ٹریننگ کورس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جو شخص یہ ٹریننگ اچھی طرح لے گا وہ اس بڑی اور اصلی عبادت کو اتنی ہی اچھی طرح ادا کرسکے گا۔اسی لیے ان خاص عبادتوں کو فرض عین قرار دیا گیا ہے اور انھیں ارکان دین یعنی "دین کے ستون " کہا گیا ہے۔ جس طرح ایک عمارت چند ستونوں پر قائم ہوتی ہے اسی طرح اسلامی زندگی کی عمارت بھی ان ستونوں پر قائم ہے، ان کو توڑوگے تو اسلام کی عمارت کو گرادوگے۔ ~نماز ان فرائض میں سب سے پہلا فرض نماز ہے۔یہ نماز کیا ہے؟ دن میں پانچ وقت زبان اور عمل سے انہی چیزوں کا اعادہ جن پر تم ایمان لائے ہو۔ تم صبح اٹھے اور سب سے پہلے پاک صاف ہوکر اپنے خدا کے سامنے حاضر ہوگئے۔ اس کے سامنے کھڑے ہوکر، بیٹھ کر، جھک کر، زمین پر سر ٹیک کر اپنی بندگی کا اقرار کیا،اس سے مدد مانگی، اس سے ہدایت طلب کی، اس سے اطاعت کا عہد تازہ کیا،اس کی خوشنودی چاہنے اور اس کے غضب سے بچنے کی خواہش کا بار بار اعادہ کیا، اس کی کتاب کا سبق دہرایا، اس کے رسول کی سچائی پر گواہی دی اور اس دن کو بھی یاد کرلیا جب تم اس کی عدالت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کے حاضر ہوگے۔ اس طرح تمہارا دن شروع ہوا۔ چند گھنٹے تم اپنے کاموں میں لگے رہے، پھر ظہر کے وقت مؤذن نے تم کو یاد دلایا کہ آؤ چند منٹ کے لیے اس سبق کو پھر دہرالو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کو بھول کر تم خدا سے غافل ہوجاؤ۔ تم اٹھے اور ایمان تازہ کرکے پھر دنیا کی اور اس کے کاموں کی طرف پلٹ آئے۔ چند گھنٹوں کے بعد عصر کے وقت تمہاری طلبی ہوئی اور تو نے پھر ایمان تازہ کرلیا۔ اس کے بعد مغرب ہوئی اور رات شروع ہوئی، صبح کو تم نے دن کا آغاز جس عبادت کے ساتھ کیا تھا رات کا آغاز بھی اسی سے کیا، تاکہ رات کو بھی تم اس سبق کو نہ بھولنے پاؤ اور اسے بھول کر بھٹک نہ جاؤ۔ چند گھنٹوں کے بعدعشاء ہوئی اور سونے کا وقت آگیا۔ اب آخری بار تم کو ایمان کی ساری تعلیم یاد کرادی گئی، کیونکہ یہ سکون کاوقت ہے، دن کے ہنگامے میں اگر تم کو پوری توجہ کا موقع نہ ملا ہو تو اس وقت اطمینان کے ساتھ توجہ کرسکتے ہو۔ دیکھو! یہ وہ چیزہے جو ہر روز دن میں پانچ وقت تمہارے اسلام کی بنیاد کو مضبوط کرتی رہتی ہے، یہ بار بار تم کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتی ہے جس کا مفہوم ہم نے ابھی چند سطور پہلے تم کو سمجھا دیا ہے۔ یہ ان تمام عقیدوں کو تازہ کرتی رہتی ہے جن پر تمہارے نفس کی پاکیزگی ، روح کی ترقی، اخلاق کی درستی اور عمل کی اصلاح موقوف ہے۔ غور کرو! وضو میں تو اس طریقہ کی کیوں پیروی کرتے ہو جو رسول اللہ نے بتایا ہے، اور نماز میں وہ سب چیزیں کیوں پڑھتے ہو جو آپ نے تعلیم کی ہیں؟ اسی لیے نا کہ تم آنحضرت صلی اللہ ║ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض سمجھتے ہو۔ قرآن کو تم قصداً غلط کیوں نہیں پڑھتے؟ اسی لیے نا کہ تمہیں اس کے کلام الہی ٰہونے کا یقین ہے۔ نماز میں جو چیزیں خاموشی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں، اگر تم ان کو نہ پڑھو یا ان کی جگہ اور کچھ پڑھ دو تو تمہیں کس کا خوف ہے؟ کوئی انسان تو سننے والا نہیں۔ ظاہر ہے کہ تم یہی سمجھتے ہو کہ خاموشی کے ساتھ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں اسے بھی خدا سن رہا ہے، اور ہماری کسی ڈھکی چھپی حرکت سے بھی وہ بے خبر نہیں۔ جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا وہاں کون سی چیز تمہیں نماز کے لیے اٹھاتی ہے؟وہ یہی اعتقاد تو ہے کہ خدا تم کو دیکھ رہا ہے۔ نماز کے وقت ضروری سے ضروری کام چھڑا کر کون سی چیز تمہیں نماز کی طرف لے جاتی ہے؟ وہ یہی احساس تو ہے کہ نماز خدا نے فرض کی ہے۔ جاڑے میں صبح کے وقت ، اور گرمی میں دوپہر کے وقت اور روزانہ شام کی دلچسپ تفریحوں میں مغرب کے وقت کون سی چیز تم کو نماز پڑھنے پر مجبور کردیتی ہے؟ وہ فرض شناسی نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر نماز پڑھنے یا نماز میں جان بوجھ کر غلطی کرنے سے تم کیوں ڈرتے ہو؟اسی لیے نا کہ تم کو خدا کا خوف ہے اور تم جانتے ہو کہ ایک دن اس کی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اب بتاؤ کہ نماز سے بہتر اور کون سی ٹریننگ ہوسکتی ہے جو تم کو پورا اور سچا مسلمان بنانے والی ہو؟ مسلمان کے لیے اس سے اچھی تربیت کیا ہوسکتی ہے کہ وہ ہر روز کئی کئی مرتبہ خدا کی یاد اور اس کے خوف اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کے یقین اور عدالتِ الہیٰ میں پیش ہونے کے اعتقاد کو تازہ کرتا رہے اور روزانہ کئی بار لازمی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے اور صبح سے لے کر رات تک ہر چند گھنٹوں کے بعد اس کو فرض بجالانے کی مشق کرائی جاتی رہے ، ایسے شخص سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جب وہ نماز سے فارغ ہوکر دنیا کے کاموں میں مشغول ہوگا تو وہاں بھی وہ خدا سے ڈرے گا اور اس کے قانون کی پیروی کرے گا اور ہر گناہ کے موقع پر اس کو یاد آجائے گا کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ اگر کوئی اتنی اعلیٰ درجہ کی ٹریننگ کے بعد بھی خدا سے بے خوف ہو اور اس کے احکام کی خلاف ورزی نہ چھوڑے تو یہ نماز کا قصور نہیں، بلکہ خود اس شخص کے نفس کی خرابی ہے۔ پھر دیکھو! اللہ تعالیٰ نے نماز کو باجماعت پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے اور خاص طور پر ہفتہ میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا فرض کردیا ہے، یہ مسلمانوں میں اتحاد اور برابری پیدا کرنے والی چیز ہے، ان کو ملا کر ایک مضبوط جتھا بناتی ہے۔ جب وہ سب مل کر ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں، ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں تو آپ سے آپ ان کے دل ایک دوسرے سے جڑجاتے ہیں اور ان میں یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ پھر یہی چیز ان میں ایک سردار کی اطاعت کا مادہ پیدا کرتی ہے اور ان کو باضابطگی کا سبق سکھاتی ہے۔ اسی سے ان میں آپس میں ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔ مساوات اور یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ امیر اور غریب، بڑے اور چھوٹے، اعلیٰ عہدہ دار اور ادنی ٰچپراسی سب ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کوئی اونچ ذات ہوتا ہے نہ نیچ ذات۔ یہ ان بے شمار فائدوں میں سے چند فائدے ہیں جو تمہاری نماز سے خدا کو نہیں، بلکہ خود تمہیں کو حاصل ہوتے ہیں۔ خدا نے تمہارے فائدے کے لیے اس چیز کو فرض کیا ہے، اور نہ پڑھنے پر اس کی ناراضی اس لیے نہیں ہے کہ تم نے اس کا کوئی نقصان کیا ، بلکہ اس لیے ہے کہ تم نے خود اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے، بلکہ دست طاقت نماز کے ذریعہ سے خدا تم کو دے رہا ہے اور تم اس کو لینے سے جی چراتے ہو، کس قدر شرم کا مقام ہے کہ تم زبان سے تو خدا کی خدائی اور رسول کی اطاعت اور آخرت کی باز پرس کا اقرار کرو اور تمہارا عمل یہ ہو کہ خدا اور رسول نے سب سے بڑا فرض جو تم پر عائد کیا ہے اس کو ادا نہ کرو۔تمہارا یہ عمل دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔یا تم کو نماز کے فرض ہونے سے انکار ہے تو تم قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کو جھٹلاتے ہو اور پھر ان دونوں پر ایمان لانے کا دعویٰ جھوٹا کرتے ہو۔ اور اگر تم اسے فرض مان کر پھر ادا نہیں کرتے تو تم سخت ناقابل اعتبار آدمی ہو۔ تم پر دنیا کے کسی معاملہ میں بھی بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ جب تم خدا کی ڈیوٹی میں چوری کرسکتے ہو تو کوئی کیا امید کرسکتا ہے کہ انسانوں کی ڈیوٹی میں چوری نہ کروگے۔   ~روزہ ║ دوسرا فرض روزہ ہے۔ یہ روزہ کیا ہے؟ جس سبق کو نماز روزانہ پانچ وقت یاد دلاتی ہے اسے روزہ سال میں ایک مرتبہ پورے ایک مہینہ تک ہر وقت یاد دلاتا رہتا ہے۔رمضان آیا اور صبح سے لے کر شام تک تمہارا کھانا پینا بند ہوا۔ سحری کے وقت تم کھاپی رہے تھے یکایک اڈان ہوئی اور تم نے فوراً ہاتھ روک لیا۔ اب کیسی ہی مرغوب غذا سامنے آئے، کیسی ہی بھوک پیاس ہو، کتنا ہی دل چاہے، تم شام تک کچھ نہیں کھاتے، یہی نہیں کہ لوگوں کے سامنے نہیں کھاتے، نہیں، تنہائی میں بھی جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا، ایک قطرہ پانی پینا یا ایک دانہ نگل جانا بھی تمہارے لیے ناممکن ہوتا ہے۔ پھر یہ ساری رکاوٹ ایک خاص وقت تک رہتی ہے۔ ادھر مشرب کی اذان ہوئی اور تم افطار کے لیے لپکے، اب رات پھر بے خوف و خطر تم جب اور جو چیز چاہتے ہو کھاتے ہو۔ غور کرو! یہ کیا چیز ہے؟ اس کی تہہ میں خدا کا خوف ہے۔ اس کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین ہے۔آخرت کی زندگی اور خدا کی عدالت پر ایمان ہے۔ قرآن اور رسول کی سخت اطاعت ہے۔ فرض کا زبردست احساس ہے۔ صبر اور مصائب کے مقابلہ کی مشق ہے۔خدا کی خوشنودی کے مقابلہ میں خواہشات نفس کو روکنے اور دبانے کی طاقت ہے۔ ہر سال رمضان کا مہینہ آتا ہے تاکہ پورے تیس دن تک روزے تمہاری تربیت کریں اور تمہارے اندر یہ تمام اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ تم پورے اور پکے مسلمان بنو، اور یہ اوصاف تمہیں اس عبات کے قابل بنائیں جو ایک مسلمان کو اپنی زندگی میں ہر وقت بجا لانی چاہیے۔ پھر دیکھو! اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کے لیے روزہ ایک ہی مہینہ میں فرض کیا تاکہ سب مل کر روزہ رکھیں، علیحدہ علیحدہ نہ رکھیں۔ اس کے بے شمار دوسرے فائدے بھی ہیں۔ ساری اسلامی آبادی میں پورا ایک مہینہ پاکیزگی کا مہینہ ہوتا ہے،ساری فضا پر ایمان اور خوف خدا اور اطاعت احکام اور پاکیزگئ اخلاق اور حسن عمل چھاجاتا ہے۔ اس فضاء میں برائیاں دب جاتی ہیں اور نیکیاں ابھرتی ہیں۔ اچھے لوگ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ برے لوگ بدی کے کام کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔امیروں میں غریبوں کی امداد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ خدا کی راہ میں مال صرف کیا جاتا ہے۔ سارے مسلمان ایک حال میں ہوتے ہیں، اور یہ ایک حال میں ہونا ان کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ہم سب ایک جماعت ہیں۔ ان میں برادری، ہمدردی اور باہمی اتحاد پیدا کرنے کے لیے یہ ایک کارگر نسخہ ہے۔ یہ سب ہمارے فائدے کے لیے ہیں۔ ہمیں بھوکا رکھنے سے خدا کا کوئی فائدہ نہیں، اس نے ہمارے بھلائی ہی کے لیے رمضان کے روزے ہم پر فرض کیے ہیں۔ اس فرض کو جو لوگ بغیر کسی معقول وجہ کے ادا نہیں کرتے وہ اپنے اوپر خود ظلم کرتے ہیں، اور سب سے زیادہ شرمناک طریقہ ان کا ہے جو رمضان میں علانیہ کھاتے پیتے ہیں۔ وہ گویا اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی جماعت سے نہیں ہیں۔ ہم کو اسلام کے احکام کی کوئی پروا نہیں ہے اور ہم ایسے بے باک ہیں کہ جس کو خدا مانتے ہیں اس کی اطاعت سے بھی کھلم کھلا منہ موڑجاتے ہیں۔ بتاؤ، جن لوگوں کے لیے اپنی جماعت الگ ہونا ایک آسان بات ہو، جن کو اپنے خالق و رازق کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ذرا بھی شرم نہ آئے، اور جو اپنے دین کے سب سے بڑے پیشوا کے مقرر کیے ہوئے قانون کو علانیہ توڑدیں، ان سے کوئی شخص کس وفاداری ، کس نیک چلنی اور امانت داری،کس فرض شناسی اور پابندی قانون کی امید کرسکتا ہے۔ ~زکوٰۃ تیسرا فرض زکوٰۃ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان مالدار پر فرض کیا ہے کہ اگر اس کے پاس کم سے کم چالیس روپے ہوں اور ان پر پورا ایک سال گذر جائے تو وہ ان میں سے ایک روپیہ کسی غریب رشتہ دار یا کسی محتاج، کسی مسکین، کسی نو مسلم، کسی مسافر یا کسی قرض دار شخص کو دے دے۔ ║ اس طرح اللہ نے امیروں کی دولت میں غریبوں کے لیے کم از کم ڈھائی فیصد حصہ مقرر کردیا ہے۔ اس سے زیادہ کوئی دے تو یہ احسان ہے جس کا ثواب اور زیادہ ہوگا۔ دیکھو! یہ حصہ اللہ کو نہیں پہنچتا، وہ تمہاری کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن وہ فرماتا ہے کہ تم نے اگر خوشدلی کے ساتھ میری خاطر اپنے کسی غریب بھائی کو کچھ دیا تو گویا مجھ کو دیا، اس کی طرف سے میں تم کو کئی گنا زیادہ بدلہ دوں گا البتہ شرط یہ ہے کہ اس کو دے کر تم کوئی احسان نہ جتاؤ، اس کو ذلیل و حقیر نہ کرو، اس سے شکریہ کی بھی خواہش نہ رکھو۔ یہ بھی کوشش نہ کرو کہ تمہاری اس بخشش کا لوگوں میں چرچا ہو اور لوگ تمہاری تعریف کریں کہ فلاں صاحب بڑے سخی داتا ہیں، اگر ان تمام ناپاک خیالات سے اپنے دل کو پاک رکھوگے اور محض میری خوشنودی کے لیے اپنی دولت میں سے غریبوں کو حصہ دوگے تو میں اپنی بے پایاں دولت میں سے تم کو وہ حصہ دوں گا جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ اللہ تعالی ٰنے اس زکوٰۃ کو بھی اسی طرح فرض کیا ہے جس طرح نماز روزے کو فرض کیا ہے۔یہ اسلام کابہت بڑا رکن ہے اور اس کو رکن اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ یہ مسلمانوں میں خدا کی خاطر قربانی اور ایثار کرنے کی صفت پیدا کرتا ہے۔ اور خودغرضی ، تنگ دلی اور زرپرستی کی بری صفات کو دور کرتا ہے۔ لچھمی کی پوجا کرنے والا اور روپے پر جان دینے والا حریص اور بخیل آدمی اسلام کے کسی کام کا نہیں۔جو شخص خد کے حکم پر اپنی گاڑھی محنت سے کمایا ہوا مال اپنی کسی ذاتی غرض کے بغیر قربان کرسکتا ہو وہی اسلام کے سیدھے راستے پر چل سکتا ہے۔ زکوٰۃ مسلمان کو اس قربانی کی مشق کراتی ہے اور اس کو اس قابل بناتی ہے کہ خدا کی راہ میں جب مال صرف کرنے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی دولت کو سینے سے چمٹائے نہ بیٹھا رہے ، بلکہ دل کھول کر خرچ کرے۔ زکوٰۃ کا دنیا وی فائدہ یہ ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ کوئی مسلمان ننگا بھوکا اور ذلیل و خوار نہ ہو، جو امیر ہیں وہ غریبوں کو سنبھال لیں اور جو غریب ہیں وہ بھیک مانگتے نہ پھریں، کوئی شخص اپنی دولت کو صرف اپنے عیش و آرام اور اپنی شان و شوکت ہی پر نہ اڑادے، بلکہ یہ بھی یادرکھے کہ اس میں اس قوم کے یتیموں اور بیواؤں اور محتاجوں کا بھی حق ہے۔ اس میں ان لوگوں کا بھی حق ہے جو کام کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں، مگر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کرسکتے۔ اس میں ان بچوں کا بھی حق ہے جو قدرت سے دماغ اور ذہانت لائے ہیں، مگر غریب ہونے کی وجہ سے تعلیم نہیں پاسکتے۔اس میں ان کا بھی حق ہے جو معذور ہوگئے ہیں اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔ جو شخص اس حق کو نہیں مانتا وہ ظالم ہے۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ تم اپنے پاس روپے کے کھتے کے کھتے بھرے بیٹھے رہو، کوٹھیوں میں عیش کرو، موٹر وں میں چڑھے چڑھے پھرو اور تمہاری قوم کے ہزاروں آدمی روٹیوں کے محتاج ہوں اور ہزاروں کام کے آدمی بیکار مارے مارے پھریں۔ اسلام ایسی خود غرضی کا دشمن ہے۔ کافروں کو ان کی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ جو کچھ دولت ان کے ہاتھ لگے اس کو سمیٹ سمیٹ کر رکھیں اور اسے سود پر چلا کر آس پاس کے لوگوں کی کمائی بھی اپنے پاس کھینچ لیں۔ لیکن مسلمانوں کو ان کا مذہب یہ سکھاتا ہے کہ اگر خدا تمہیں اس قدر رزق دے جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو تو اس کو سمیٹ کر نہ رکھو، بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں کو دو تاکہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں اور تمہاری طرح وہ بھی کچھ کمانے اور کام کرنے کے قابل ہوجائیں۔ ~حج چوتھا فرض حج ہے، یہ عمر میں صرف ایک مرتبہ ادا کرنا ضروری ہے۔ اور وہ بھی ان کےلیے جو مکہ معظمہ تک جانے کا خرچ برداشت کرسکتے ہوں۔ ║ جہاں اب مکہ معظمہ آبات ہے یہاں اب سے ہزاروں برس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک چھوٹا سا گھر اللہ کی عبادت کے لیے بنایا تھا۔ اللہ نے ان کے خلوص اور محبت کی یہ قدر فرمائی کہ اس کو اپنے گھر قرار دیا اور فرمایا کہ جس کو ہماری عبادت کرنی ہو وہ اسی گھر کی طرف رخ کرکے عبادت کرے اور فرمایا کہ ہر مسلمان خواہ دنیا کے کسی کونے میں ہو، بشرط استطاعت عمر میں کم از کم ایک مرتبہ اس گھر کی زیارت کے لیے آئےاور اسی محبت کے ساتھ ہمارے اس گھر کا طواف کرے جس کے ساتھ ہمارا پیارا بندہ ابراہیم طواف کرتا تھا۔پھر یہ بھی حکم دیا کہ جب ہمارے گھر کی طرف آؤ تو اپنے دلوں کو پاک کرو، نفسانی خواہشات کو روکو، خوں ریزی اور بدکاری اور بدزبانی سے بچو، اسی ادب و احترام اور عاجزی کے ساتھ آؤ جس کے ساتھ تو کو اپنے مالک کے دربار میں حاضر ہونا چاہیے۔یہ سمجھو کہ ہم اس بادشاہ کی خدمت میں جارہے ہیں جو زمین اور آسمان کا حاکم ہے اور جس کے مقابلہ میں سب انسان فقیر ہیں۔ اس عاجزی کے ساتھ جب آؤگے اور خلوص دل کے ساتھ ہماری عبادت کروگے تو ہم تمہیں اپنی نوازشوں سے مالا مال کردیں گے۔ ایک لحاظ سے دیکھو تو حج سب سے بڑی عبادت ہے۔ خدا کی محبت اگر انسان کے دل میں نہ ہو تو وہ اپنے کاروبار چھوڑ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں سے جدا ہوکر اتنے لمبے سفر کی زحمت ہی کیوں کرے گا، اس لیے حج کا ارادہ خود ہی محبت اور اخلاص کی دلیل ہے۔ پھر جب انسان اس سفر کے لیے نکلتا ہے تو اس کی کیفیت عام سفروں جیسی نہیں ہوتی۔ اس سفر میں زیادہ تر اس کی توجہ خدا کی طرف رہتی ہے۔ اس کے دل میں شوق اور ولولہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جوں جوں کعبہ قریب آتا جاتا ہے ، محبت کی آگ اور زیادہ بھڑکتی ہے۔ گناہوں اور نافرمانیوں سے دل خود بخود نفرت کرتا ہے، پچھلے گناہوں پر شرمندگی ہوتی ہے، آئندہ کے لیے خدا سے دعا کرتا ہے کہ فرماں برداری کی توفیق بخشے، عبادت اور ذکر الہیٰ میں مزہ آنے لگتا ہے، سجدے لمبے لمبے ہونے لگتے ہیں اور دیر تک سراٹھانے کو جی نہیں چاہتا۔ قرآن پڑھتا ہے تو اس میں کچھ لطف ہی اور آتا ہے۔ روزہ رکھتا ہے تو اس کی حلاوت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ پھر جب وہ حجاز کی سرزمین پر قدم رکھتا ہے تو اسلام کی ساری ابتدائی تاریخ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرجاتی ہے۔ چپے چپے پر خدا سے محبت کرنے والوں اور اس کے نام پر جان نثار کرنے والوں کے آثار دکھائی دیتے ہیں، وہاں کی ریت کا ایک ایک ذرہ اسلام کی عظمت پر گواہی دیتا ہے اور وہاں کی ہر کنکری پکارتی ہے یہ ہے وہ سرزمین جہاں سے خدا کا کلمہ بلند ہوا۔اس طرح مسلمان کا دل خدا کے عشق اور اسلام کی محبت سے بھر جاتا ہے اور وہاں سے وہ ایسا گہرا اثر لے کر آتا ہے جو مرتے دم تک دل سے محو نہیں ہوتا۔ دین کے ساتھ اللہ نے حج میں دنیا کے بھی بے شمار فائدے رکھے ہیں۔ حج کی وجہ سے مکہ دنیا کے مسلمانوں کا مرکز بنادیا گیا ہے۔ زمین کے ہر کونے سے اللہ کا نام لینے والے ایک زمانے میں وہاں جمع ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ آپس میں اسلامی محبت قائم ہوتی ہے۔ یہ نقش دلوں میں بیٹھ جاتا ہے کہ مسلمان خواہ کسی ملک اور کسی نسل کے ہوں سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک ہی قوم ہیں۔ اس بنا پر حج ایک طرف خدا کی عبادت ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ تمام دنیاکے مسلمانوں کی کانفرنس بھی ہے اور مسلمانوں کی عالم گیر برادری میں اتحاد پیدا کرنے کاسب سے بڑا ذریعہ بھی۔ ~حمایت اسلام آخری فرض جو خدا کی طرف سے تم پر عائد کیا گیا ہے، حمایت اسلام ہے۔ اگرچہ یہ ارکان اسلام میں سے نہیں ہے، مگر یہ اسلامی فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے اور قرآن و حدیث میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حمایت اسلام کیا چیز ہے اور کیوں فرض کی گئی ہے؟ اس کو تم ایک مثال سے بہ آسانی سمجھ سکتے ہو۔ فرض کرو کہ ایک شخص تم سے دوستی کرتا ہے، مگر ہر آزمائش کے موقع پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کو تم سے کوئی ہمدردی نہیں۔ وہ تمہارے فائدے اور نقصان کی کوئی پروا نہیں کرتا۔جس کام میں تمہارا نقصان ہوتا ہو اس کو وہ اپنے ذاتی فائدے کی خاطر بے تکلف کرگزرتا ہے جس کام میں تمہارا فائدہ ہوتا ہے ، اس میں تمہارا ساتھ دینے سے وہ صرف اس لیے پرہیز کرتا ہے کہ اس میں خود اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم پر کوئی ║ مصیبت آئے تو وہ تمہاری کوئی مدد نہیں کرتا۔ کہیں تمہاری برائی کی جارہی ہو تو وہ خود بھی برائی کرنے والوں میں شریک ہوجاتا ہے،یا کم از کم تمہاری برائی کو خاموشی کے ساتھ سنتا ہے۔ تمہارے دشمن تمہارے خلاف کوئی کام کریں تو وہ ان کے ساتھ شریک ہوجاتا ہے، یا کم از کم تمہیں ان کی شرارتوں سے بچانے کی ذرا کوشش نہیں کرتا۔ بتاؤ کیا تم ایسے شخص کو اپنا دوست سمجھوگے؟ تم یقیناً کہوگے کہ ہر گز نہیں۔ اس لیے کہ وہ محض زبان سے دوستی کا دعوی کرتا ہے۔ مگر درحقیقت دوستی اس کے دل میں نہیں ہے۔ دوستی کے معنی تو یہ ہیں کہ انسان جس کا دوست ہو اس سے محبت اور خلوص رکھے، اس کا ہمدرد و خیر خواہ ہو، وقت پر اس کے کام آئے، دشمنوں کےمقابلہ میں اس کی مدد کرے، اس کی برائی سننے تک کا روادار نہ ہو۔ جب یہ بات اس میں نہیں تو وہ منافق ہے، اس کا دوستی کا دعوی جھوٹا ہے۔ اسی مثال پر قیاس کرلو کہ جب تم مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہو تو تم پر کیا فرض عائد ہوتا ہے۔ مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ تم میں اسلامی حمیت ہو، ایمانی غیرت ہو، اسلام کی محبت اور اپنے مسلمان بھائیوں کی سچی خیر خواہی ہو۔تم خواہ دنیا کا کوئی کام کرو، اس میں اسلام کا مفاد اورمسلمانوں کی بھلائی ہمیشہ تمہارے پیش نظر رہے۔ اپنے ذاتی فائدے کی خاطر یا اپنے کسی ذاتی نقصان سے بچنے کی خاطر تم سے کبھی کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جو اسلام کے مقاصد اور مسلمانوں کی فلاح کے خلاف ہو اور ہر اس کام میں دل اور جان اور مال سے حصہ لو جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے مفید ہو اور ہر اس کام سے الگ رہو جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہو۔اپنے دین اور اپنی دینی جماعت کی عزت کو اپنی عزت سمجھو۔ جس طرح تم خود اپنی توہین برداشت نہیں کرسکتے، اسی طرح اسلام اور اہل اسلام کی توہین بھی برداشت نہ کرو۔ جس طرح تم خود اپنے خلاف اپنے دشمنوں کا ساتھ نہیں دیتے، اسی طرح اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا بھی ساتھ نہ دو۔ جس طرح تم اپنی جان و مال اور عزت کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانی پر آمادہ ہوجاتے ہو، اسی طرح اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لیے بھی ہر قربانی پر آمادہ رہو۔ یہ صفات ہر اس شخص میں ہونی چاہیئیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو، ورنہ اسکا شمار منافقوں میں ہوگا اور اس کا عمل خود ہی اس کے زبانی دعوے کو جھوٹا ثابت کردے گا۔ اس حمایت اسلام کا ایک شعبہ ہو ہے جس کو شریعت کی زبان میں "جہاد" کہتے ہیں۔ جہاد کے لفظی معنی ہیں کسی کام میں اپنی انتہائی طاقت صرف کردینا۔ اس معنی کے لحاظ سے جو شخص خدا کا کلمہ بلند کرنے کےلیے روپے سے، زبان سے، قلم سے، ہاتھ پاؤں سے کوشش کرتا ہے وہ بھی جہاد ہی کرتا ہے، مگر خاص طور پر "جہاد" کا لفظ اس جنگ کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو تمام دنیوی اغراض سے پاک ہو کر محض خدا کے لیے اسلام کے دشمنوں سے کی جائے۔ شریعت میں اس جہاد کو فرض کفایہ کہتے ہیں۔ یعنی ایسا فرض جو تمام مسلمانوں پر عائد تو ہوتا ہے، لیکن اگر ایک جماعت اس کو ادا کردے تو باقی لوگوں پر سے اس کو ادا کردینے کی ذمہ داری ساقط ہوجاتی ہے۔ البتہ اگر کسی اسلامی ملک پر دشمنوں کا حملہ ہو تو اس صورتمیں جہاد اس ملک کے تمام باشندوں پر نماز اور روزہ کی طرح فرض عین ہوجاتا ہے۔ اور اگر وہ مقابلہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو ان کے قریب جو ملک واقع ہوں وہاں کے بھی ہر مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے کہ جان اور مال سے ان کی مدد کرے اور اگر ان کی مدد سے بھی دشمن کا حملہ دفع نہ ہو تو اس صورت میں جہاد اس ملک کے تمام دنیاکے مسلمانوں پر ان کی حمایت اسی طرح فرض ہوجاتی ہے جس طرح نماز روزہ فرض ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص بھی یہ فرض ادا کرنے میں کوتاہی کرے گا تو گنہگار ہوگا۔ ایسی صورتوں میں جہاد کی اہمیت نماز اور روزے سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے، اس لیے کہ وہ وقت ایمان کے امتحان کا ہوتا ہے جو شخص مصیبت کے وقت اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ نہ دے اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے پھر اس کی نماز کس کام کی اور اس کے روزے کی کیا وقعت؟ اور اگر کوئی بدبخت ایسا ہو کہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ دے تو وہ یقیناً منافق ہے۔ اس کی نماز اور اس کا روزہ اور اس کی زکٰوۃ اور اس کا حج سب کچھ بیکار ہے۔   6. ~ ║ دین اور شریعت ~دین اور شریعت کا فرق، احکام شریعت معلوم کرنے کے ذرائع، فقہ، تصوف۔ ~دین اور شریعت کا فرق پچھلے ابواب میں تم کو بتایا جاچکا ہے کہ تمام انبیاء دین اسلام ہی کی تعلیم دیتے چلے آئے ہیں۔ اور دین اسلام یہ ہے کہ خدا کی ذات و صفات اور آخرت کی جزا اور سزا پر اس طرح ایمان لاؤ جس طرح خدا کے سچے پیغمبروں نے تعلیم دی ہے۔خدا کی کتابوں کو مانو اور تمام من مانے طریقے چھوڑ کر اسی طریقے کو حق سمجھو جس کی طرف ان کتابوں میں رہ نمائی کی گئی ہے۔ خدا کے پیغمبروں کی اطاعت کرو اور سب کو چھوڑ کر انہی کی پیروی کرو۔ خدا کی عبادت میں خدا کے سوا کسی کو شریک نہ کرو۔ اسی ایمان اور عبادت کا نام دین ہے، اور یہ چیز تمام انبیاء کی تعلیمات میں مشترک ہے۔ اس کے بعدایک دوسری چیز بھی ہے جس کو شریعت کہتے ہیں۔ یعنی عبادت کے طریقے ، معاشرت کے اصول، باہمی معاملات اور تعلقات کو قوانین، حرام اور حلال ، جائز اور ناجائز کے حدود وغیرہ۔ ان امور کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں کے حالات کا لحاظ کرکے اپنے پیغمبروں کے پاس مختلف شریعتیں بھیجی تھیں، تاکہ وہ ہر قوم کو الگ الگ شائستگی اور تہذیب و اخلاق کی تعلیم دے کر ایک بڑے قانون کی پیروی کے لیے تیار کرتے رہیں۔ جب یہ کام مکمل ہوگیا تو اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بڑا قانون دے کر بھیج دیا جس کے تمام دفعات تمام دنیا کے لیے ہیں۔ اب دین تو وہی ہے جو پچھلے انبیاء نے سکھایا تھا، مگر پرانی شریعتیں منسوخ کردی گئی ہیں۔ اور ان کی جگہ ایسی شریعت قائم کی گئی ہے جس میں تمام انسانوں کےلیے عبادت کے طریقے اور معاشرت کے اصول اور باہمی معاملات کے قانون اور حلال و حرام کے حدود یکساں ہیں۔ ~احکام شریعت معلوم کرنے کے ذرائع شریعت ِ محمدی کے اصول اور احکام معلوم کرنے کے لیے ہمارے پاس دو ذریعے ہیں۔ ایک قرآن مجید، دوسرے حدیث، قرآن مجید کے متعلق تو تم جانتے ہو کہ وہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا ہر لفظ اللہ کی طرف سے ہے۔ رہی حدیث، تو اس سے وہ روایتیں مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی قرآن کی تشریح تھی۔ نبی ہونے کے بعد سے 23/ سال کی مدت تک آپ ہر وقت تعلیم اور ہدایت میں مشغول رہے اور اپنی زبان اور اپنے عمل سے لوگوں کو بتاتے رہے کہ اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ اس زبردست زندگی میں صحابی مرد اور صحابیہ عورتیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز رشتہ دار اور آپ کی بیویاں سب کی سب آپ کی ہر بات غور سے سنتے تھے، ہر کام پر نگاہ رکھتے تھے، اور ہر معاملہ میں جو ان کو پیش آتا تھا، آپ سے شریعت کا حکم دریافت کرتے تھے۔ کبھی آپ فرماتے فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو، جو لوگ حاضر ہوتے وہ اس فرمان کو یاد کرلیتے تھے۔ اسی طرح کبھی آپ کوئی کام کسی خاص طریقے پر کرتے تھے، دیکھنے والے اس کو بھی یاد رکھتے تھے اور نہ دیکھنے والوں کو بیان کردیتے تھے کہ آپ نے فلاں کام فلاں طریقے پر کیا تھا۔ اسی طرح کبھی کوئی شخص آپ کے سامنے کوئی کام کرتا تو آپ یا تو اس پر خاموش رہتے یا پسندیدگی کا اظہار فرماتے یا منع کردیتے تھے، ان سب باتوں کو بھی لوگ محفوظ رکھتے تھے۔ ایسی جتنی باتیں صحابی مردوں اور صحابیہ عورتوں سے لوگوں نے سنیں، ║ ان کو بعض نے حفظ کرلیا اور بعض نے لکھ لیا اور یہ بھی یاد کرلیا کہ یہ خبر ہم کو کس سے پہنچی ہے، پھر ان سب روایتوں کو رفتہ رفتہ کتابوں میں جمع کرلیا گیا۔ اس طرح حدیث کا ایک بڑا ذخیرہ فراہم ہوگیا، جس میں خصوصیت کے ساتھ امام مالک  اور امام بخاری  اور امام مسلم  اور امام ترمذی اور امام ابوداؤد اور امام نسائی اور امام ابن ماجہ کی کتابیں بہت مستند خیال کی جاتی ہیں۔ ~فقہ قران اور حدیث کے احکام پر غور کرکے بعض بزرگان دین نے عام لوگوں کی آسانی کے لیے مفصل قوانین مرتب کردیے ہیں جن کو "فقہ" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ چونکہ ہر شخص قرآن کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتا، نہ ہر شخص کے پاس حدیث کاایسا علم ہے کہ وہ خود شریعت کے احکام معلوم کرسکے۔ اس لیے بزرگان دین نے برسوں کی محنت اور غور و تحقیق کے بعد "فقہ" کو مرتب کیا ہے ان کے بار احسان سے دنیا کے مسلمان کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ یہ انہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے کہ آج کروڑوں مسلمان بغیر کسی زحمت کے شریعت کی پیروی کررہے ہیں۔ اور کسی کو خدا اور رسول کے احکام معلوم کرنے میں دقت نہیں پیش آتی۔ ابتداء میں بہت سے بزرگوں نے فقہ کو اپنے اپنے طریقہ پر مرتب کیا تھا، مگر رفتہ رفتہ چار فقہیں دنیا میں باقی رہ گئيں۔ اور آج دنیا میں مسلمان زیادہ تر انہی کی پیروی کرتے ہیں۔ 1. امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ، جس کی ترتیب میں امام ابویوسف اور امام محمد اور امام زُفر اور ایسے ہی چند اور بڑے علماء کا مشوررہ شامل تھا، اسے فقہ حنفی کہا جاتا ہے۔ 2. امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ۔ یہ فقہ مالکی کے نام سے مشہور ہے۔ 3. امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ۔ یہ فقہ شافعی کہلاتی ہے۔ 4. امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ۔ اس کو فقہ حنبلی کہتے ہیں۔ یہ چاروں فقہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دو سو برس اندر اندر مرتب ہوگئی تھیں۔ان میں جو اختلاف پائے جاتے ہیں وہ بالکل قدرتی اختلافات ہیں۔ چند آدمی جب کسی معاملہ کی تحقیق کرتے ہیں ، یا کسی بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی تحقیق اور سمجھ میں تھوڑا بہت اختلاف ضرور ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ سب حق پسند اور نیک نیت اور مسلمانوں کے خیر خواہ بزرگ تھے اس لیے تمام مسلمان ان چاروں فقہوں کو برحق مانتے ہیں۔ البتہ یہ ظاہر ہے کہ ایک معاملہ میں ایک ہی طریقہ کی پیروی کی جاسکتی ہے، چار مختلف طریقوں کی پیروی نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان چاروں میں سے کسی ایک کی پیروی کرنی چاہیے، ان کے علماء کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ کسی خاص فقہ کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ علم رکھنے والے آدمی کو براہ راست قرآن اور حدیث سے احکام معلوم کرنے چاہئیں۔ اور جو لوگ علم نہ رکھتے ہوں انھیں چاہییے کہ جس عالم پر بھی ان کا اطمینان ہو اس کی پیروی کریں۔یہ لوگ اہلِ حدیث کہلاتے ہیں اور اوپر کے چار گروہوں کی طرح یہ بھی حق پر ہیں۔ تصوف ║ فقہ کا تعلق انسان کےظاہری عمل سے ہے، وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ تم کو جیسا اور جس طرح حکم دیا گیا تھا اس کو تم بجالائے یا نہیں۔ اگر بجا لائے ہو تو فقہ کو اس سے کچھ بحث نہں کہ تمہارے دل کا کیا حال تھا۔ دل کے حال سے جو چیز بحث کرتی ہے اس کا نام تصوف ہے۔ مثلاً تم نماز پڑھتے ہو اس عبادت میں فقہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ تم نے ٹھیک سے وضو کیاہے، قبلہ رو کھڑے ہوئے ہو، نماز کے تمام ارکان ادا کیے ہیں، جو چیزیں نمازمیں پڑھی جاتی ہیں وہ سب پڑھ لی ہیں، اور جس وقت جتنی رکعتیں مقرر کی گئی ہیں، ٹھیک اسی وقت اتنی ہی رکعتیں پڑھی ہیں، جب تم نے یہ سب کردیا تو فقہ کی رو سے تمہاری نماز پوری ہوگئی۔ لیکن تصوف یہ دیکھتا ہے کہ اس عبادت میں تمہارے دل کا کیا حال رہا۔ تم خدا کی طرف متوجہ ہوئے یا نہیں؟ تمہارا دل دنیا کے خیالات سے پاک ہوا یا نہیں؟ تمہارے اندر نماز سے خدا کا خوف اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین اور صرف اسی کی خوشنودی چاہنے کا جذبہ بھی پیدا ہوا یا نہیں؟ اس نماز نے تمہاری روح کو کس قدر پاک کیا؟ تمہارے اخلاق کہاں تک درست کیے؟ تم کو کس حد تک سچاّ اور پکاّ عملی مسلمان بنادیا ہے؟ یہ تمام باتیں جو نماز کے اصل مقصد سے تعلق رکھتی ہیں جس قدر کمال کے ساتھ حاصل ہوں گی تصوّف کی نظر میں تمہاری نماز اتنی ہی زیادہ کام ہوگی اور ان میں جتنا نقص رہے گا اسی لحاظ سے وہ تمہاری نماز کو ناقص قرار دے گا۔ اسی طرح شریعت کے جتنے احکام ہیں ان سب میں فقہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ تم کو جو حکم جس صورت میں دیا گیا تھا، اسی صورت میں تم اسے بجالائے یا نہیں۔ اور تصوّف یہ دیکھتا ہے کہ اس حکم پر عمل کرنے میں تمہارے اندر خلوص اور نیک نیتی اور سچی اطاعت کس قدر تھی۔ اس فرق کو تم ایک مثال سے اچھی طرح سمجھ سکتے ہو۔ جب کوئی شخص تم سے ملتا ہے تو تم اس پر دو حیثیتوں سے نظر ڈالتے ہو، ایک حیثیت تو یہ ہوتی ہے کہ وہ صحیح و تندرست ہے یا نہیں۔ اندھا، لنگڑا لولا تو نہیں ہے۔ خوبصورت ہے یا بدصورت، اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہے یا میلا کچیلا ہے۔ دوسری حیثیت یہ ہوتی ہےکہ اس کے اخلاق کیسے ہیں، اس کی عادات و خصائل کا کیا حال ہے، اس عقل، سمجھ بوجھ کیسی ہے، وہ عالم ہے یا جاہل، نیک ہے یابد۔ ان میں سے پہلی نظر گویا فقہ کی ہے اور دوسری نظر گویا تصوّف کی ہے، دوستی کے لیے جب تم کسی شخص کو پسند کرنا چاہو گے تو اس کی شخصیت کے دونوں پہلوؤں کو دیکھوگے، تمہاری خواہش یہ ہوگی کہ اس کے ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا۔ اسی طرح اسلام میں بھی پسندیدہ زندگی وہی ہے جس میں شریعت کے احکام کی پابندی ظاہر کے اعتبار سے بھی صحیح ہو اور باطن کے اعتبار سے بھی۔ جس شخص کی ظاہری اطاعت درست ہے مگر باطن میں اطاعت کی روح نہیں ہے۔ اس کے عمل کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی آدمی خوبصورت ہو مگر مردہ ہو۔ اور جس شخص کے عمل میں تمام باطنی خوبیاں موجود ہوں، مگر ظاہری اطاعت درست نہ ہو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص بہت شریف اور نیک ہو مگر بدصورت اور اپاہج ہو۔ اس مثال سے تم کو فقہ اور تصوف کا باہمی تعلق بھی معلوم ہوگیا ہوگا۔ مگر افسوس ہے کہ بعد کے زمانوں میں علم اور اخلاق کے زوال سے جہاں اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں، تصوف کے پاک چشمے کو بھی گندہ کردیا گیا۔ لوگوں نے طرح طرح کے غیر اسلامی فلسفے گمراہ قوموں سے سیکھے اور ان کو تصوف کے نام سے اسلام میں داخل کردیا۔ عجیب عجیب قسم کے عقیدوں اور طریقوں پر تصوف کا نام چسپاں کیا۔ جن کی کوئی اصل قرآن اور حدیث میں نہیں ہے۔ پھر اس قسم کے لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو شریعت کی پابندی سے بھی آزاد کرلیا۔وہ کہتے ہیں کہ تصوف کو شریعت سے کوئی واسطہ نہیں، یہ کوچہ ہی دوسرا ہے۔ صوفی کو قانون اور قاعدے کی پابندی سے کیا سروکار۔ اس قسم کی باتیں اکثر جاہل صوفیوں سے سننے میں آتی ہیں، مگر دراصل یہ بالکل غلط ہیں۔ اسلام میں کسی ایسے تصوف کی گنجائش نہیں ہے جو شریعت کے احکام سے بے تعلق ہو۔ کسی صوفی کو یہ حق نہیں کہ وہ نماز اور روزے اور حج اور زکوٰۃکی پابندی سے آزاد ہوجائے۔ کوئی صوفی ان قوانین کے خلاف عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا جو معاشرت اور معیشت اور اخلاق اور معاملات اور حقوق و فرائض اور حدود ِ حلال و حرام کے متعلق خدا اور رسول نے بتائے ہیں۔کوئی ایسا شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح پیروی نہ کرتا ہو اور آپ کے ║ مقرر کیے ہوئے طریقہ کا پابند نہ ہو مسلمان صوفی کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے۔ تصوف تو درحقیقت خدا اور رسول کی سچی محبت بلکہ عشق کا نام ہے۔ اور عشق کا تقاضا یہ ہے کہ خدا کے احکام اور اس کے رسول کی پیروی سے بال برابر انحراف نہ کیا جائے۔ پس اسلامی تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ شریعت کے احکام کو انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ بجالانے اور اطاعت میں خدا کی محبت اور اس کے خوف کی روح بھردینے ہی کا نام تصوف ہے۔ ~شریعت کے احکام شریعت کے اصول، حقوق کی چار قسمیں، خدا کے حقوق، نفس کے حقوق، بندوں کے حقوق، تمام مخلوقات کے حقوق، عالمگیر اور دائمی شریعت اس آخری باب میں ہم شریعت کے اصول اور خاص خاص احکام بیان کریں گے جن سے تم کو معلوم ہوگا کہ اسلامی شریعت انسان کی زندگی کو کس طرح ایک بہترین ضابطہ کا پابند بناتی ہے۔ اور اس ضابطہ میں کیسی کیسی حکمتیں رکھی گئی ہیں۔ ~شریعت کے اصول تم اپنی حالت پر غور کروگے تو تم کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں بہت سی قوتیں لے کر آئے ہو اور ہر قوت کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے کام لیا جائے، تم میں عقل ہے، ارادہ ہے، خواہش ہے، بینائی ہے، سماعت ہے، ذائقہ ہے، ہاتھ پاؤں کی طاقت ہے، نفرت اور غضت ہے، شوق اور محبت ہے، خوف اور لالچ ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی بیکار نہیں۔ ہر چیز تم کو اس لیے دی گئی ہے کہ تم کو اس کی ضرورت ہے۔ دنیا میں تمہاری زندگی اور زندگی کی کامیابی اسی پر موقوف ہے کہ تمہاری طبیعت اور فطرت جو کچھ مانگتی ہے اس کو پورا کرو۔ اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ تم ان تمام قوتوں سے کام لو جو خدا نے تم کو دی ہیں۔ پھر تم دیکھوگے کہ جتنی قوتیں تمہارے اندر رکھی گئی ہیں ان سب سے کام لینے کے ذرائع بھی تم کو دئے گئے ہیں۔ سب سے پہلے تو خود تمہارا اپنا جسم ہے جس میں تمام ضروری آلات موجود ہیں۔ اس کے بعد تمہارے گردوپیش کی دنیا ہے جس میں ہر طرح کے بے شمار ذرائع پھیلے ہوئے ہیں، تمہاری مدد کےلیے خود تمہاری اپنی جنس کے انسان موجود ہیں۔ تمہاری خدمت کےلیے جانور ہیں، نباتات اور جمادات ہیں، زمین اور پانی اور ہوا اور حرارت اور روشنی اور ایسی ہی بے حد وحساب چیزیں ہیں، خدا نے ان سب کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ تم ان سے کام لو اور زندگی بسر کرنے میں ان سے مدد حاصل کرو۔ اب ایک دوسری حیثیت سے دیکھو! تم کو جو قوتیں دی گئی ہیں وہ فائدے کے لیے دی گئی ہیں، نقصان کے لیے نہیں دی گئیں۔ ان کے استعمال کی صحیح صورت وہی ہوسکتی ہے جس سے صرف فائدہ ہو اور نقصان یا تو بالکل نہ ہو یا اگر ہو بھی تو کم سے کم جو ناگزیر ہے۔ اس کے سوا جتنی صورتیں ہیں عقل کہتی ہے کہ وہ سب غلط ہونی چاہیئں۔ مثلاً اگر تم کوئی کام ایسا کرو جس سے خود تو کو نقصان پہنچے تو یہ بھی غلطی ہوگی۔ اگر تم کسی قوت سے ایسا کام کرو جس سے دوسرے انسانوں کو نقصان پہنچے تو یہ بھی غلطی ہوگی۔ اگر تم کسی ║ قوت کو اس طرح استعمال کرو جو وسائل تمہیں دیے گئے ہیں وہ فضول ضائع ہوں تو یہ بھی غلطی ہوگی۔ تمہاری عقل خود اس بات کی گواہی دے سکتی ہے کہ نقصان خواہ کسی قسم کا ہو بچنے کے لائق چیز ہے۔ اور اس کو اگر گوارا کیا جاسکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ اس سے بچنا یا تو ممکن ہی نہ ہو یا اس کے مقابلے میں کوئی بہت بڑا فائدہ ہو۔ اس کے بعد اور آگے بڑھو۔ دنیا میں دو قسم کے انسان پائے جاتے ہیں۔ ایک تو وہ جو قصداً اپنی بعض قوتوں کو اس طرح استعمال کرتے ہیں جن سے یا تو خود انہی کی بعض دوسری قوتوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے یا دوسرے انسانوں کو پہنچتا ہے یا ان کے ہاتھوں وہ چیزیں فضول ضائع ہوتی ہیں جو محض فائدہ اٹھانے کے لیے ان کو دی گئی ہیں، نہ کو ضائع کرنے کے لیے۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو قصداً تو ایسا نہیں کرتے مگر ناواقفیت کی وجہ سے ایسی غلطیاں ان سے ہوجاتی ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ شریر ہیں اور ان کے لیے ایسے قانون اور ضابطہ کی ضرورت ہے جو ان کو قابو میں رکھے۔ اور دوسری قسم کے لوگ ناواقف ہیں اور ان کے لیے ایسے علم کی ضرورت ہے جس سے انہیں اپنی موتوں کے استعمال کی صحیح صورت معلوم ہوجائے۔ خدا نے جو شریعت اپنے پیغمبر کے پاس بھیجی ہے۔ وہ اسی ضرورت کو پورا کرتی ہے، وہ تمہاری کسی قوت کو ضائع کرنا نہیں چاہتی، نہ کسی خواہش کو مٹانا چاہتی ہے، نہ کسی جذبہ کو فنا کرنا چاہتی ہے وہ تم سے یہ نہیں کہتی کہ دنیا کو چھوڑدو۔جنگلوں اور پہاڑوں میں جارہو، بھوکے مرو، اور ننگے پھرو، نفس کشی کرکے اپنے آپ کو تکلیفوں میں ڈالو اور دنیا کی راحت و آسائش کو اپنے اوپر حرام کرلو، ہر گز نہیں۔ یہ خدا کی بنائی ہوئی شریعت ہے۔اور خدا وہی ہے جس نے یہ دنیا انسان کے لیے بنائی ہے۔ وہ اپنے اس کارخانے کو مٹانا اور بے رونق کرنا کیسے پسند کرے گا۔اس نے انسان کے اندر کوئی قوت بے کار و بے ضرورت نہیں رکھی ہے، نہ زمین و آسمان میں کوئی چیز اس لیے پیدا کی ہے کہ اس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔ وہ تو خود یہ چاہتا ہے کہ دنیا کا یہ کارخانہ پوری رونق کےساتھ چلے۔ ہر قوت سے انسان پورا پورا کا م لے، دنیا کی ہر چیز سے فائدہ اٹھائے اور ان تمام ذرائع کو استعمال کرے جو زمین و آسمان میں مہیا کیے گئے ہیں۔ مگر اس طرح کہ جہالت یا شرارت سے نہ خود اپنا نقصان کرے نہ دوسروں کو نقصان پہنچائے۔ خدا نے شریعت کے تمام ضابطے اسی غرض کے لیے بنائے ہیں۔ جتنی چیزیں انسان کے لیے نقصان دہ ہیں، ان سب کو شریعت میں حرام کردیا گیا ہے اور جو چیزیں مفید ہیں ان کو حلال قرار دیا گیا ہے، جن کاموں سے انسان خود اپنا یا دوسروں کا نقصان کرتا ہے ان کو شریعت ممنوع ٹھہراتی ہے اور ایسے کاموں کی اجازت دیتی ہے جو اس کے لیے فائدہ مند ہوں اور کسی کے لیے نقصان دہ نہ ہوں۔ اس کے تمام قوانین اس اصول پر مبنی ہیں کہ انسان کو دنیا میں تمام خواہشیں اور ضرورتیں پوری کرنے اور اپنے فائدے کےلیے ہر قسم کی کوشش کرنے کا حق ہے۔ مگر اس حق سے اس کو اس طرح فائدہ اٹھانا چاہیے کہ جہالت اور شرارت سے وہ دوسروں کی حق تلفی نہ کرے، بلکہ جہاں تک ممکن ہو دوسروں کے لیے معاون اور مدد گار ہو۔ پھر جن کاموں میں ایک پہلو فائدے کا اور دوسرا پہلو نقصان کا ہو، ان میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ بڑے فائدے کے لیے چھوٹے نقصان کو قبول کیا جائے اور بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹے فائدے کو چھوڑدیا جائے۔ چونکہ ہر شخص ہر زمانے میں ہر چیز اور ہر کام کے متعلق یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا فائدہ اور کیا نقصان ہے۔ اس لیے خدا نے جس کے علم سے کائنات کا کوئی راز چھپا ہوا نہیں ہے، انسان کی پوری زندگی کے لیے ایک ہی صحیح ضابطہ بنادیا ہے۔ اس ضابطہ کی بہت سی مصلحتیں اب سے صدیوں پہلے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھی، مگر اب علم کی ترقی نے ان پر سے پردہ اٹھادیا ہے، بہت سی مصلحتوں کو اب بھی لوگ نہیں سمجھتے، مگر جتنا علم ترقی کرے گا وہ ظاہر ہوتی چلی جائیں گی۔ جو لوگ خود اپنے ناقص علم اور اپنی ناقص عقل پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ صدیوں تک علطیاں کرنے اور ٹھوکریں کھانے کے بعد آخر کار اسی شریعت کے کسی نہ کسی قائدے کو اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ مگر جن لوگوں نے خدا کے رسول پر بھروسا کیا ہے وہ جہالت اور ناواقفیت کے نقصانات سے محفوظ ہیں، کیوں کہ ان کو خواہ مصلحتوں کاعلم ہو یا نہ ہو وہ ہر حال میں محض رسول خدا کے اعتماد پر ایک ایسے قانون کی پابندی کرتے ہیں جو خالص اور صحیح علم کے مطابق بنایا گیا ہے۔ ║ ~ حقوق کی چار قسمیں شریعت کی رو سے ہر انسان پر چار قسم کے حقوق عائد ہوتے ہیں: ایک خدا کے حقوق، دوسرے خود اس کے نفس اور جسم کے حقوق، تیسرے بندوں کے حقوق، چوتھے ان چیزوں کے حقوق جن کو خدا نے اس کے اختیار میں دیا ہے تاکہ وہ ان سے کام لے اور فائدہ اٹھائے۔ انہی چار حقوق کو سمجھنا اور ٹھیک ٹھیک ادا کرنا ایک سچے مسلمان کا فرض ہے۔ شریعت ان تمام حقوق کو الگ الگ بیان کرتی ہے اور ان کو ادا کرنے کے لیے ایسے طریقے مقرر کرتی ہے کہ ایک ساتھ سب حقوق ادا ہوں اور حتی الامکان کوئی حق تلف نہ ہونے پائے۔ ~خدا کے حقوق خدا کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ انسان صرف اسی کو خدا مانے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ یہ حق کلمہ "لاالہ الا اللہ" پر ایمان لانے سے ادا ہوجاتا ہے جیسا کہ ہم پہلے تو کو بتا چکے ہیں۔ خدا کا دوسرا حق یہ ہے کہ جو ہدایت اس کے طرف سے آئے اس کو سچے دل سے تسلیم کیا جائے۔جوہدایت اس کی طرف سے آئے اس کو سچے دل سے تسلیم کیا جائے۔ یہ حق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے ادا ہوتا ہے اور اس کی تفصیل بھی ہم نے تم کو پہلے بتادی ہے۔ خدا کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جائے۔ یہ حق اس قانون کی پیروی سے ادا ہوجاتا ہے جو خدا کی کتاب اور رسول کی سنت میں بیان ہوا ہے اس کی طرف بھی ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں۔ خدا کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔اسی حق کو ادا کرنے کے لیے وہ فرائض انسان پر عائد کئے گئے ہیں جن کا ذکر پچھلے باب میں کیاگیا ہے۔کیونکہ یہ حق تمام حقوق پر مقدم ہے اس لیے اس کو ادا کرنےم یں دوسرے حقوق کی قربانی کسی نہ کسی حد تک ضروری ہے۔ مثلاً نماز روزہ وغیرہ فرائض کو ادا کرنے میں انسان خود اپنے نفس اور جسم کے بہت سے حقوق قربان کرتا ہے۔ نماز کے انسان صبح اٹھتا ہے اور ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا ہے، دن اور رات میں کئی بار اپنے ضروری کام اور اپنی دلچسپ تفریحات کو چھوڑتا ہے، رمضان میں مہینہ بھر بھوک پیاس اور خواہشات کو روکنے کی تکلیف اٹھاتا ہے،زکوٰۃ ادا کرنے میں اپنے مال کی محبت کو خدا کی محبت پر قربان کرتا ہے۔ حج میں سفر کی تکلیف اور مال کی قربانی گوارا کرتا ہے، جہاد میں خود اپنی جان اور مال قربان کردیتا ہے اسی طرح دوسرے لوگوں کے حقوق بھی خدا کے کم و بیش قربان کیے جاتے ہیں، مثلاً نماز میں ایک ملازم اپنے آقا کا کام چھوڑ کر اپنے بڑے آقا کی عبادت کے لیے جاتا ہے۔ حج میں ایک شخص سارے کاروبار ترک کرکے مکہ معظمہ کا سفر کرتا ہے اور اس میں بہت سے لوگوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ جہاد میں انسان محض خدا کی خاطر جان لیتا ہے اور جان دیتا ہے۔ اسی طرح بہت سی وہ چیزیں بھی اللہ کے حق پر فدا کی جاتی ہیں جو انسان کے اختیار میں ہیں۔ مثلاً جانوروں کی قربانی اور مال کا صرفہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے لیے ایسی حدیں قرر کردی ہیں کہ اس کے جس حق کو ادا کرنے کیے دوسرے حقوق کی جتنی قربانی ضروری ہے اس سے زیادہ نہ کی جائے۔ مثلاً نماز کو لو، خدا نے جو نمازیں تو پر فرض کردی ہیں ان کو ادا کرنے میں ہر طرح کی سہولتیں رکھی ہیں۔وضو کے لیے پانی نہ ملے، یا بیمار ہو تو تیمم کرلو، سفر میں ہو تو نماز قصر کردو، بیمار ہو تو بیٹھ کر یا لیٹ کر پڑھ لو۔ پھر نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے وہ بھی اتنا زیادہ نہیں ہے کہ ایک وقت کی نماز میں چند منٹ سے زیادہ صرف ہوں۔ سکون کے اوقات میں انسان ║ چاہے تو پوری سورہ بقرہ پڑھ لیے، مگر کاروبار کے اوقات میں لمبی نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ پھر فرض نمازوں سے بڑھ کر اگر کوئی شخص نفل نمازیں پڑھنا چاہے تو خدا اس سے خوش ہوتا ہے۔مگر خدا یہ نہیں چاہتا کہ تم راتوں کی نیند اور دن کا آرام اپنے اوپرحرام کرلو، یا اپنی روزی کمانے کے اوقات کو نمازیں پڑھنے میں صرف کردو، یا بندگان خدا کے حقوق تلف کرکے نمازیں پڑھتے چلے جاؤ۔ اسی طرح روزے میں بھی ہر قسم کی آسانیاں رکھی گئی ہیں۔ صرف سال میں ایک مہینہ کے روزے فرض کئے گئے ہیں، وہ بھی سفر کی حالت میں اور بیماری میں قضا کئے جاسکتے ہیں۔ اگر روزہ دار بیمار ہوجائے اور جان کو خوف ہو توروزہ توڑ سکتا ہے۔ روزے کے لیے جتنا وقت مقرر کیا گیاہے اس میں ایک منٹ کا اضافہ کرنا بھی درست نہیں۔ سحری کے آخری وقت تک کھانے کی اجازت ہے اور افطار کا وقت آتے ہی فوراً روزہ کھول لینے کا حکم ہے۔ فرض روزوں کے علاوہ اگر کوئی شخص نفلی روزے رکھے تو یہ خدا کی مزید خوشنودی کا سبب ہوگا۔ مگر خدا اس کو پسند نہیں کرتا کہ تم پے در پے روزے رکھتے چلے جاؤ اور اپنے آپ کو اتنا کمزور کرلو کہ دنیا کے کام کاج نہ کرسکو۔ زکوٰۃ کے لیے بھی خدا نے کم سے کم مقدار مقرر کی ہے، اور وہ بھی ان لوگوں پر فرض ہے جو بقدر نصاب مال رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ اگر کوئی شخص خدا کی راہ میں صدقہ و خیرات کرے تو خدا اس سے خوش ہوگا۔ مگر خدا یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنے نفس اور اپنے متعلقین کے حقوق کو قربان کرکے سب کچھ صدقہ و خیرات میں دے ڈالو، اور خود تنگ دست ہوکر بیٹھ رہو۔ اس میں بھی اعتدال برتنے کا حکم ہے۔ پھر حج کو دیکھو! اول تو یہ فرض ہی ان لوگوں پر کیا گیا ہے جو زاد راہ رکھتے ہوں اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے قابل ہوں، پھر اس میں مزید آسانی یہ رکھی گئی ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ، جب سہولت ہو جاسکتے ہو اور اگر راستہ میں لڑائی ہورہی ہو، یا بدامنی ہو کہ جان کا خطرہ غالب ہو تو حج کا ارادہ ملتوی کرسکتے ہو۔اس کے ساتھ والدین کی اجازت بھی ضروری قرار دی گئی ہے تاکہ بوڑھے ماں باپ کو تمہاری غیر موجودگی میں تکلیف نہ ہو۔ ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق میں دوسروں کے حقوق کا کس قدر لحاظ رکھا ہے۔ اللہ کے حق پر انسانی حقوق کی سب سے بڑی قربانی جہاد میں کی جاتی ہے، کیونکہ اس میں انسان اپنی جان اور مال بھی خدا کی رہ میں فدا کرتا ہے اور دوسروں کی جان و مال کو بھی قربان کردیتا ہے ۔ مگر جیسا کہ ہم نے اوپر تمہیں بتایا ہے، اسلام کا اصول یہ ہے کہ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹے نقصان کو گوارہ کرنا چاہیے، اس اصول کو پیش نظر رکھو اور پھر دیکھو کہ چند سو یا چند ہزار یا چند لاکھ آدمیوں کے ہلاک ہوجانے کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ حق کے مقابلہ میں باطل کو فروغ ہو، خدا کا دین کفر و شرک اور دہریت کے مقابلہ میں دب کر رہے اور دنیا میں گمراہیاں اور بداخلاقیاں پھیلیں۔ لہذا اس بڑے نقصان سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جان و مال کے کم تر نقصان کو ہماری خوشنودی کے لیے گوارا کرلو، مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ جتنی خوں ریزی ضروری ہے اس سے زیادہ نہ کرو۔ بوڑھوں، بچوں اور عورتوں اور زخمیوں اور بیماروں پر ہاتھ نہ اٹھاؤ۔ صرف ان لوگوں سے لڑو جو باطل کی حمایت میں تلوار اٹھاتے ہیں۔ دشمن کے ملک میں بلا ضرورت تباہی و بربادی نہ پھیلاؤ۔دشمنوں پر فتح پاؤ تو ان کے ساتھ انصاف کرو۔ کسی بات پر ان سے معاہدہ ہوجائے تو اس کی پابندی کرو۔ جب وہ حق کی دشمنی سے باز آجائیں تو لڑائی بند کردو۔ یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ خدا کا حق ادا کرنے کے لیے انسانی حقوق کی جتنی قربانی ضروری ہے اس سے زیادہ قربانی کو جائز نہیں رکھا۔   ║ ~نفس کے حقوق اب دوسری قسم کے حقوق کو لو، یعنی انسان پر حود اس کے اپنے نفس اور جسم کے حقوق۔ شاید تم کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ انسان سب سے بڑھ کر خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے بھی۔ کیونکہ ظاہر میں تو ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کو سب سے زیادہ اپنے آپ سے محبت ہے۔ اور شاید کوئی شخص بھی اس بات کا اقرار نہ کرے گا کہ وہ اپنا آپ ہی دشمن ہے۔ لیکن تم ذرا غور کروگے تو اس کی حقیقت تم کو معلوم ہوجائے گی۔ انسان میں ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس پر جب کوئی خواہش غالب ہوجاتی ہے تو وہ اس کا غلام بن جاتا ہے اور اس کی خاطر جان بوجھ کر ، یا بے جانے بوجھے اپنا بہت کچھ نقصان کرلیتا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ ایک شخص کو نشہ کی چاٹ لگ گئی ہے تو وہ اس کے پیچھے دیوانہ ہورہا ہے اور صحت کا نقصان، روپے کا نقصان، عزت کا نقصان، غرض ہر چیز کا نقصان گوارا کئے جاتا ہے۔ایک دوسرا شخص کھانے کا ایسا دلدادہ ہے کہ ہر قسم کی الا بلا کھا جاتا ہے اور اپنی جان کو ہلاک کئے ڈالتا ہے۔ ایک تیسرا شخص شہوانی خواہشات کا بندہ بن گیا ہے اور ایسی حرکتیں کررہا ہے جن کا لازمی نتیجہ اس کی تباہی ہے۔ ایک چوتھے شخص کو روحانی ترقی کی دھن سماتی ہے تو وہ اپنی جان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پر پڑگیا ہے۔ اپنے نفس کی تمام خواہشات کو دبا رہا ہے۔ اپنے جسم کی ضروریات کو پورا کرنے سے انکار کررہا ہے۔شادی سے بچتا ہے، کھانے پینے سے پرہیز کرتا ہے، کپڑے پہننے سے انکار کرتا ہے، حتی کہ سانس لینے پر بھی راضی نہیں۔ جنگلوں اور پہاڑوں میں جا بیٹھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ دنیا اس کے لیے بنائی ہی نہیں گئی ہے۔ ہم نے مثال کے طور پر انسان کی انتہا پسندی کے یہ چند نمونے پیش کئے ہیں، ورنہ اس کی بے شمار صورتیں ہیں جن کو ہم رات دن اپنے گرد و پیش دیکھ رہے ہیں۔ اسلامی شریعت چونکہ انسان کی فلاح و بہبود چاہتی ہے اس لیے وہ اس کو خبردار کرتی ہے کہ لنفسک علیک حق (تیرے اوپر خود تیرے اپنے بھی حقوق ہیں۔) وہ ان تمام چیزوں سے اس کو روکتی ہے جو اس کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔ مثلاً شراب، تاڑی، افیون اور دوسری نشہ آور چیزیں، سور کا گوشت، درندے اور زہریلے جانور، ناپاک حیوانات، خون اور مردار جانور وغیرہ۔کیونکہ انسان کی صحت اور اخلاق اور عقلی و روحانی قوتوں پر ان چیزوں کا بہت برا اثر ہوتا ہے۔ ان کے مقابلہ میں وہ پاک اور مفید چیزوں کو اس کے لیے حلال کرتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ تو اپنے جسم کو پاک غذاؤں سے محروم نہ کر کیونکہ تیرے جسم کا تیرے اوپر حق ہے۔ وہ اس کو ننگا کرنے سے روکتی ہے اور اسے حکم دیتی ہے کہ خدا نے تیرے جسم کو لیے جو زینت(لباس) اتاری ہے اس سے فائدہ اٹھا، اور اپنے جسم کو ان حصوں کو ڈھانک رکھ جنھیں کھولنا بے شرمی ہے۔ وہ اس کو روزی کمانے کا حکم دیتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ بیکار نہ بیٹھ، بھیک نہ مانگ، بھوکا نہ مر، خدا نے جو قوتیں تجھے دی ہیں ان سے کام لے اور جس قدر ذرائع زمین و آسمان میں تیری پرورش اور آسائش کےلیے پیدا کیے گئے ہیں ان کو جائز طریقوں سے حاصل کر۔ وہ اس کو نفسانی خواہشات کے دبانے سے روکتی ہے اور اسے حکم دیتی ہے کہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے نکاح کر۔ ║ وہ اس کو نفس کشی سے منع کرتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ تو آرام و آسائش اور زندگی کے لطف کو اپنے اوپر حرام نہ کرلے ۔ اگر روحانی ترقی اور خدا سے قربت اور آخرت کی نجات چاہتا ہے تو اس کے لیے دنیا چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ اسی دنیا میں پوری اور پکی دنیاداری کرتے ہوئے خدا کو یاد کرنا اور اس کی نافرمانی سے ڈرنا اور اس کے بنائے ہوئے قوانین کی پیروی کرنا دنیا و آخرت کی تمام کامیابیوں کا ذریعہ ہے۔ وہ خودکشی کو حرام کرتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ تیری جان دراصل خدا کی ملک ہے اور یہ امانت تجھے اس لیے دی گئی ہے کہ تو خدا کی مقرر کی ہوئی مدت تک اس سے کام لے، نہ اس لیے کہ اس کو ضائع کردے۔ ~بندوں کے حقوق ایک طرف شریعت نے انسان کو اپنے نفس اور جسم کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے، تو دوسری طرف یہ بھی قید لگادی کہ ان حقوق کو ادا کرنے میں وہ کوئی ایسا طریقہ نہ اختیار کرے جس سے دوسرے لوگوں کے حقوق متاثر ہوں۔کیونکہ اس طرح اپنی خواہشات اور ضرورتیں پوری کرنے سے انسان کا اپنا نفس بھی گندہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی طرح طرح کے نقصانات پہنچتے ہیں۔ چنانچہ شریعت نے چوری، لوٹ مار، رشوت، خیانت، سودخواری اور جعلسازی کو حرام کیا ہے۔ کیونکہ ان ذرائع سے انسان جو کچھ بھی فائدہ اٹھاتا ہے وہ دراصل دوسروں کے نقصان سے حاصل ہوتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، چغلخوری اور بہتان تراشی کو بھی حرام کیا ہے۔ کیونکہ یہ سب افعال دوسروں کے لیے نقصان رساں ہیں۔ جوئے، سٹے اور لاٹری کو بھی حرام کیا ہے۔ کیونکہ اس میں ایک شخص کا فائدہ ہزاروں آدمیوں کے نقصان پر مبنی ہوتا ہے۔دھوکے اور فریب کے لین دین اور ایسے تمام تجارتی معاہدات کو بھی حرام کیا ہے جن میں کسی ایک فریق کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو۔ قتل اور فتنہ و فساد کو بھی حرام کیا ہے۔ کیونکہ ایک شخص کو اپنے کسی فائدے یا اپنی کسی خواہش کی تسکین کے لیے دوسروں کی جان لینے یا ان کو تکلیف پہنچانے کا حق نہیں ہے۔ زنا اور عمل قوم لوط کو بھی حرام کیا ہے۔ کیونکہ یہ افعال ایک طرف خود اس شخص کی صحت کو خراب اور اس کے اخلاق کو گندہ کرتے ہیں جو ان کا ارتکاب کرتا ہے اور دوسری صرف ان سے تمام سوسائٹی میں بے حیائی اور بداخلاقی پھیلتی ہے، گندی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، نسلیں خراب ہوتی ہیں، فتنے برپا ہوتے ہیں، انسانی تعلقات بگڑتے ہیں اور تہذیب و تمدن کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ یہ تو پابندیاں ہیں جو شریعت نے اس غرض سے لگائی ہیں کہ ایک شخص اپنے نفس اور جسم کے حقوق ادا کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق تلف نہ کرے۔مگر انسانی تمدن کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو نقصان نہ پہنچائے۔ بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں میں باہمی تعلقات اس طرح قائم کئے جائیں کہ وہ سب ایک دوسرے کی بہتری کے میں مددگار ہوں۔ اس غرض کےلیے شریعت نے جو قوانین بنائے ہیں ان کا محض ایک خلاصہ ہم یہاں بیان کرتے ہیں: انسانی تعلقات کی ابتداء خاندان سے ہوتی ہے ۔ اس لئے سب سے پہلے اس پر نظر ڈالو۔ خاندان دراصل اس مجموعہ کو کہتے ہیں جو شوہر بیوی اور بچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے لئے اسلامی قاعدہ یہ ہے کہ روزی کمانا اور خاندان کی ضروریات مہیا کرنا اور اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرنا مرد کا فرض ہے۔ اور عورت کا فرض یہ ہے کہ مرد جو کچھ کما کر لائے، اس سے وہ گھر کا انتظام کرے۔ شوہر اور بچوں کو زیادہ سے زیادہ آسائش بہم پہنچائے اور بچوں کی تربیت کرے اور بچوں کا فرض یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کریں، ان کا ادب ملحوظ رکھیں اور جب بڑے ہوں تو ان کی خدمت کریں۔ خاندان کے اس انتظام کو درست رکھنے کے لئے اسلام نے دو تدبیریں اختیار کی ہیں۔ ایک یہ کہ شوہر اور باپ کو گھر کا حاکم مقرر کردیا ہے۔ کیونکہ جس طرح ایک شہر کا انتظام ایک حاکم کے بغیر اور ایک مدرسہ کا انتظام ایک ہیڈماسٹر کے بغیر درست نہیں رہ سکتا، اسی طرح گھر کا انتظام بھی ایک حاکم ║ کے بغیر درست نہیں رہ سکتا۔ جس گھر میں ہر ایک اپنی مرضی کا مختار ہوگا، اس گھر میں خواہ مخواہ افراتفری مچے گی، آسائش اور خوشی نام کو نہ رہے گی۔ شوہر ایک طرف تشریف لے جائیں گے، بیوی دوسری طرف کا راستہ لے گی اور بچوّں کی مٹّی پلید ہوگی۔ ان سب خرابیوں کو دور کرنے کے لئے گھر کا ایک حاکم ہونا ضروری ہے، اور وہ مرد ہی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وہ گھر والوں کی پرورش اور حفاظت کا ذمہ دار ہے۔دوسری تدبیر یہ ہے کہ گھر سے باہر کے سب کاموں کابوجھ مرد پر ڈال کر عورت کو حکم دیا گیا ہے کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ جائے۔ اس کو بیرون خانہ کے فرائض سے اسی لئے سبکدوش کیا گیا ہے کہ وہ سکون کے ساتھ اندرون خانہ کے فرائض انجام دے اور اس کے باہر نکلنے سے گھر کی آسائش اور بچوں کی تربیت میں خلل نہ واقع ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں بالکل گھر سے باہر قدم ہی نہ نکالیں، ضرورت پیش آنے پر ان کو جانے کی اجازت ہے۔ مگر شریعت کا منشا یہ ہے کہ ان کے فرائض کا اصلی دائرہ ان کا گھر ہونا چاہیے اور ان کی قوت تمام تر گھر کی زندگی کو بہتر بنانے پر صرف ہونی چاہیے۔ خون کے رشتوں اور شادی بیاہ کے تعلقات سے خاندان کا دائرہ پھیلتا ہے۔ اس دائرے میں جو لوگ ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے ہیں، ان کے تعلقات درست رکھنے اور ان کو ایک دوسرے کا مددگار بنانے کے لیے شریعت نے مختلف قاعدے مقرر کئے ہیں جو بڑی حکمتوں پر مبنی ہیں۔ ان میں سے چند قاعدے یہ ہیں: 1. جن مردوں اور عورتوں کو فطرتاً ایک دوسرے کےساتھ گھل مل کر رہنا پڑتا ہے ان کو ایک دوسرے کے لیے حرام کردیا ہے۔ مثلاً ماں اور بیٹا، باپ اور بیٹی، سوتیلی بیٹی اور سوتیلا باپ، سوتیلی ماں اور سوتیلا بیٹا، بھائی اور بہن، دودھ شریک بھائی اور بہن، چچا اور بھتیجی، پھوپھی اور بھتیجا، ماموں اور بھانجی، خالہ اور بھانجہ، ساس اور داماد، خسر اور بہو۔ ان سب رشتوں کو حرام کرنے کے بیشمار فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ ایسے مرد اور عورتوں کے تعلقات نہایت پاک رہتے ہیں اور وہ خالص محبت اور بے لوث اور بے تکلف ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں۔ 2. حرام رشتوں کے علاوہ کنبے کے دوسرے مردوں اور عورتوں کے درمیان شادی بیاہ کو جائز قرار دیا گیا تاکہ آپس کے تعلقات اور زیادہ بڑھیں، جو لوگ ایک دوسرے کی عادتوں اور خصلتوں سے واقف ہوتے ہیں ان کے درمیان شادی بیاہ کا تعلق زیادہ کامیاب ہوتا ہے اجنبی گھرانوں میں جوڑ لگانے سے اکثر ناموافقت کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے اسلام میں کفو والے کو غیر کفر پر ترجیح دی گئی ہے۔ 3. کنبے میں غریب اور امیر، خوشحال اور بدحال سب ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اسلام کا حکم یہ ہے کہ ہر شخص پر سب سے زیادہ حق اس کے رشتہ داروں کا ہے۔ اس کا نام شریعت میں صلۂ رحمی ہے جس کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ رشتہ داروں سے بے وفائی کرنے کو قطع رحمی کہتے ہیں اور یہ اسلام میں بہت بڑا گناہ ہے۔ کوئی قرابت دار مفلس ہو یا اس پر کوئی مصیبت آئے تو خوشحال عزیزوں کا فرض ہے کہ اس کی مدد کریں۔ صدقہ و خیرات میں بھی خاص طور پر رشتہ داروں کے حق کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔ 4. وراثت کا قانون بھی اس طرح بنایا گیا ہے کہ جو شخص کچھ مال چھوڑ کر مرے، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ ، بہر حال وہ ایک جگہ سمٹ کر نہ رہ جائے، بلکہ اس کے رشتہ داروں کو تھوڑا یا بہت حصہ پہنچ جائے۔ بیٹا ، بیٹی، بیوی، شوہر، ماں، باپ، بھائی، بہن انسان کے سب سے زیادہ قریبی حقدار ہیں۔ اس لیے وراثت میں پہلے ان ہی کے حصے مقرر کئے گئے ہیں۔ یہ اگر نہ ہوں تو ان کے بعد جو رشتہ دار قریب تر ہوں ان کو حصہ پہنچتا ہے۔ اور اس طرح ایک شخص کے مرنے کے بعد اس کی چھوڑی ہوئے دولت بہت سے عزیزوں کے کام آتی ہے۔ اسلام کا یہ قانون دنیامیں بے نظیر قانون ہے اور اب دوسری قومیں بھی اس کی نقل کررہی ہیں۔ مگر افسوس کہ مسلمان اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے اکثر اس قانون کی خلاف ورزی کرنے لگے ہیں۔ خصوصاً لڑکیوں کا حصہ نہ دینے کی رسم پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں میں بہت پھیلی ہوئی ہے۔حالانکہ یہ بہت بڑا ظلم ہے اور قرآن کے صریح احکام کی مخالفت ہے۔ ║ خاندان کے بعد انسان کے تعلقات اپنے دوستوں، ہمسایوں اہل محلہ، اہل شہر اور ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن سے اس کو کسی نہ کسی طرح کے معاملات پیش آتے ہیں۔ اسلام کا حکم یہ ہے کہ ان سب کےساتھ راستبازی، انصاف اور حسن اخلاق برتو، کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ، کسی کی دل آزاری نہ کرو، فحش گوئی اور بدکلامی سے بچو، ایک دوسرے کی مدد کرو، بیماروں کی عیادت کے لیے جاؤ، کوئی مرجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، کسی پر مصیبت آئے تو اس سے ہمدردی کرو، جو غریب، محتاج، معذور لوگ ہوں ان کو ڈھانک چھپا کر مدد پہنچاؤ۔ یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری کرو۔ بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔ ننگوں کو کپڑے پہناؤ۔ بے کاروں کو کام پر لگانے میں مدد دو۔ اگر تم کو خدا نے دولت دی ہے تو اس کو صرف اپنے عیش میں نہ اڑادو۔ چاندی سونے کے برتن استعمال کرنا اور ریشمی لباس پہننا اور اپنے روپے کو فضول تفریحوں، اسائشوں میں ضائع کرنا اسی لیے اسلام میں ممنوع ہے کہ جو دولت ہزاروں بندگان خدا کو رزق بہم پہنچاسکتی ہے، اسے کوئی شخص صرف اپنے ہی اوپر خرچ نہ کردے، یہ ایک ظلم ہے کہ جس روپے سے بہتوں کے پیٹ پل سکتے ہوں وہ محض ایک زیور کی شکل میں تمہارے جسم پر لٹکا رہے، یا ایک برتنی کی شکل میں تمہاری میز پر سجا کرے، یا ایک قالین بنا ہوا تمہارے کمرے میں پڑا رہے، یا آتش بازی بن کر آگ میں جل جائے۔ اسلام تم سے تمہاری دولت چھیننا نہیں چاہتا، جو کچھ تم نے کمایا ہے یا ورثہ میں پایا ہے اس کے وارث تم ہی ہو۔ وہ تمہیں اس بات کا پورا حق دیتا ہے کہ اپنی دولت سے لطف اٹھاؤ۔ وہ اس کو بھی جائز رکھتا ہے کہ جو نعمت خدا نے تم کو دی ہے اس کا اثر تمہارے لباس اور مکان اور سواری میں ظاہر ہو۔ مگر اس کی تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ تم ایک سادہ اور معتدل زندگی اختیار کرو، اپنی ضرورتوں کو حد سے نہ بڑھاؤ اور اپنے نفس کے ساتھ اپنے عزیزوں، دوستوں، ہمسایوں، اہل ملک اور اہل قوم اور عام انسانوں کے حقوق کا بھی خیال رکھو۔ ان چھوٹے دائروں سے نکل کر اب بڑے دائرے پر نظر ڈالو، جو تمام دنیا کے مسلمانوں پر حاوی ہے۔ اس دائرے میں اسلام نے ایسے قوانین اور ضابطے مقرر کئے ہیں جن سے مسلمان ایک دوسرے کی بھلائی میں مددگار ہوں اور برائیاں رونما ہونے کی صورتیں جہاں تک ممکن ہو پیدا ہی نہ ہونے دی جائیں۔ مثال کے طور پر ان میں چند کی طرف ہم یہاں اشارہ کرتے ہیں: 1. قومی اخلاق کی حفاظت کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا ہے کہ جن عورتوں اور مردوں کے درمیان حرام رشتے نہیں ہیں وہ ایک دوسرے سے آزادانہ میل جول نہ رکھیں۔ عورتوں کی سوسائٹی الگ رہے اور مردوں کی الگ۔ عورتیں زیادہ تر خانگی زندگی کے فرائض کی طرف متوجہ رہیں۔ اگر ضرورتاً باہر نکلیں تو بناؤ سنگھار کے ساتھ نہ نکلیں۔ سادہ کپڑے پہن کر آئیں، جسم کو اچھی طرح ڈھانکیں۔ چہرہ اور ہاتھ اگر کھولنے کی شدید ضرورت نہ ہو تو ان کو بھی چھپائیں۔ اور اگر واقعی کوئی ضرورت پیش آجائے تو صرف اس کو پورا کرنے کے لیے ہاتھ منہ کھولیں۔ اس کے ساتھ مردوں کو حکم دیا کہ غیر عورتوں کی طرف دیکھنے سے پرہیز کریں۔ اچانک نظر پڑجائے تو نظر ہٹالیں، دوبارہ دیکھنے کی کوشش کرنا معیوب ہے اور اس سے ملنے کی کوشش معیوب تر، ہر مرد اور عورت کا فرض ہے کہ وہ اپنے اخلاق کی حفاظت کرے۔اور خدا نے خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کے لیے نکاح کا جو دائرہ مقرر کردیا ہے اس سے باہر نکلنے کی کوشش کیا معنی، خواہش بھی اپنے دل میں پیدا نہ ہونے دیں۔ 2. قومی اخلاق ہی کی حفاظت کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا ہے کہ کوئی مرد گھٹنے اورناف کے درمیان کا حصہ ، اور کوئی عورت چہرے اور ہاتھ کے سوا اپنے جسم کا کوئی حصہ کسی کے سامنے نہ کھولےخواہ وہ اس کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ اس کو شریعت کی زبان میں "ستر" کہتے ہیں اور اس کا چھپانا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں حیا کا مادہ پیدا ہو اور وہ بے حیائیاں نہ پھیل سکیں جن سے آخر کار بداخلاقی پیدا ہوتی ہے۔ ║ 3. اسلام ایسی تفریحوں اور مشغلوں کو بھی پسند نہیں کرتا جو اخلاق کو خراب کرنے والے اور بری خواہشات کو ابھارنے والے اور وقت اور صحت اور روپے کو ضائع کرنے والے ہوں۔تفریح بجائے خود نہایت ضروری چیز ہے۔ انسان میں زندگی کی روح اور عمل کی طاقت پیدا کرنے کے لیے کام اور محنت کے ساتھ اس کا ہونا بھی لازم ہے۔ مگر وہ ایسی ہونی چاہیے جو روح کو تازہ کرنے والی ہو نہ کہ اور زیادہ غلیظ اور کثیف بنانے والی ۔ بیہودہ تفریحیں جن میں ہزاروں آدمی ایک ساتھ بیٹھ کر جرائم کے فرضی واقعات اور بے شرمی کے نظارے دیکھتے ہیں، تمام قوموں کے اخلاق و عادات کو بگاڑنے والی چیزیں ہیں، خواہ بظاہر کیسی ہی خوش نما ہوں۔ 4. قومی اتحاد اور فلاح و بہبود کےلیے مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ آپس کی مخالفت سے بچیں، فرقہ بندی سے پرہیز کریں، کسی معاملہ میں اختلاف رائے ہو تو نیک نیتی کے ساتھ قرآن اور حدیث سے اس کافیصلہ کرنے کی کوشش کریں۔ اگر تصفیہ نہ ہوسکے تو آپس میں لڑنے کے بجائے خدا پر اس کا فیصلہ چھوڑدیں۔ قومی فلاح و بہبود کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت کریں۔ اپنی قوم کے سرداروں کی اطاعت کرتے رہیں۔ جھگڑے برپا کرنے والوں سے الگ ہوجائیں اور آپس کی لڑائیوں سے اپنی طاقت کو برباد اور اپنی قوم کو رسوا نہ کریں۔ 5. مسلمانوں کو غیر مسلم قوموں سے علوم فنون حاصل کرنے اور ان کے کارآمد طریقے سیکھنے کی پوری اجازت ہے۔ مگر زندگی میں ان کی نقالی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ایک قوم دوسری قوم کی نقالی اسی وقت کرتی ہے جب وہ اپنی ذلت اور کمتری تسلیم کرلیتی ہے۔ یہ غلامی کی بدتریں قسم ہے، اپنی شکست کا کھلا اعلان ہے اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ نقالی کرنے والی قوم کی تہذیب فنا ہوجاتی ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر قوموں کی معاشرت اختیار کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ یہ بات معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ کسی قوم کی طاقت اس کے لباس یا اس کے طرز زندگی کی وجہ سے نہیں ہوتی، بلکہ اس کے علم اور اس کی تنظیم اور اس کی قوت عمل کے سبب سے ہوتی ہے۔ پس اگر طاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو وہ چیزیں لو جن سے قومیں طاقت حاصل کرتی ہیں۔نہ کہ وہ چیزیں جن سے قومیں غلام ہوتی ہیں اور آخرکار دوسروں میں جذب ہوکر اپنی قومی ہستی فنا کردیتی ہیں۔ غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں مسلمانوں کو تعصب اور تنگ نظری کی تعلیم نہیں دی گئی ہے۔ ان کے بزرگوں کو برا کہنے یا ان کے مذہب کی توہین کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ان سے خود جھگڑا نکالنے سے بھی روکا گیا ہے۔ وہ اگر ہمارے ساتھ صلح و آشتی رکھیں اور ہمارے حقوق پر دست درازی نہ کریں تو ہم کو بھی ان کے ساتھ صلح رکھنے اور دوستی کا برتاؤ کرنے اور انصاف کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہماری اسلامی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سب سے بڑھ کر انسانی ہمدردی اور خوش اخلاقی برتیں، کج خلقی اور ظلم اور تنگ دلی مسلمان کی شان سے بعید ہے۔ مسلمان دنیا میں اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ حسن اخلاق اور شرافت اور نیکی کا بہترین نمونہ بنے اور اپنے اصولوں سے دلوں کو مسخر کرے۔ ~تمام مخلوقات کے حقوق اب ہم مختصراً چوتھی قسم کے حقوق بیان کریں گے: خدا نے اپنی بے شمار مخلوق پر انسان کو اختیارات عطا کئے ہیں، انسان اپنی قوت سے ان کو تابع کرتا ہے، ان سے کام لیتا ہے، ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ بالاتر مخلوق ہونے کی حیثیت سے اس کو ایسا کرنے کا پورا حق حاصل ہے، مگر اس کے مقابلہ میں ان چیزوں کے حقوق بھی انسان پر ہیں، اور وہ حقوق یہ ہیں کہ انسان ان کو فضول ضائع نہ کرے، ان کو ║ بلاضرورت نقصان یا تکلیف نہ پہنچائے، اپنے فائدے کے لیے ان کو کم سے کم اور اتنا ہی نقصان پہنچائے جو ضروری ہو۔ اور ان کو استعمال کرنے کے لیے بہتر سے بہتر طریقے اختیار کرے۔ شریعت میں اس کے متعلق بکثرت احکام بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً جانوروں کو صرف ان کے نقصان سے بچنے کے لیے یا غذا کے لیے ہلاک کرنے کی اجازت دی گئی ہے، مگر بلا ضرورت کھیل اور تفریح کے لیے ان کی جان لینے سے روکا گیا ہے۔کھانے کے جانوروں کو ہلاک کرنے کے لیے ذبح کا طریقہ مقرر کیا گیا ہےجو حیوان سے مفید گوشت حاصل کرنے کا سب سے زیادہ بہتر طریقہ ہے۔ اس کے سوا جو طریقے ہیں، وہ اگر کم تکلیف دہ ہیں تو گوشت کے بہت سے فائدے ان میں ضائع ہوجاتے ہیں۔ اور اگر گوشت کے فائدے محفوظ رکھنے والے ہیں تو ذبح کے طریقے سے زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ اسلام ان دونوں پہلوؤں سے بچنا چاہتا ہے۔ اسلام میں جانوروں کو تکلیف دے دے کر بے رحمی کے ساتھ مارنا سخت مکروہ ہے۔ وہ زہریلے جانوروں اور درندوں کو صرف اس لیے مارنے کی اجازت دیتا ہے کہ انسانی جان ان کی جان سے زیادہ قیمتی ہے۔ مگر ان کو بھی عذاب دے کر مارنا جائز نہیں رکھتا۔ جو حیوانات سواری اور باربرداری کے کام آتے ہیں ، ان کو بھوکا رکھنے اور ان سے سخت مشقت لینے اور ان کو بے رحمی کے ساتھ مارنے پیٹنے سے منع کرتا ہے۔ پرندوں کو خواہ مخواہ قید کرنا بھی مکروہ قرار دیتا ہے۔ جانور تو جانور، اسلام تو اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ درختوں کو بے فائدہ نقصان پہنچایا جائے۔ تم ان کے پھل پھول توڑ سکتے ہو، مگر انہیں خواہ مخواہ برباد کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ نباتات تو پھر بھی جان رکھتے ہیں اسلام کسی بے جاں چیز کو بھی فضول ضائع کرنا جائز نہیں رکھتا، حتی کہ پانی کو بھی خواہ مخواہ بہانے سے منع کرتا ہے۔ ~عالمگیر اور دائمی شریعت یہ اس شریعت کے احکام اور قوانین کا ایک بہت ہی سرسری خلاصہ ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے تمام دنیا کے لیے اور ہمیشہ کے لیے بھیجی گئی ۔ اس شریعت میں انسان اور انسان کے درمیان بجز عقیدے اور عمل کے کسی اور چیز کی بنا پر فرق نہیں کیا گیا ہے جن مذہبوں اور شریعتوں میں نسل اور ملک اور رنک کے لحاظ سے انسانوں میں امتیاز کیا گیا ہے وہ کبھی عالمگیر نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ ایک نسل کا انسان دوسری نسل کا انسان نہیں بن سکتا، نہ ساری دنیا سمٹ کر ایک ملک میں سماسکتی ہے، نہ حبشی کی سیاہی اور چینی کی زردی اور فرنکی کی سپیدی کبھی بدل سکتی ہے۔ اس لیے اس قسم کے مذاہب اور قوانین لازمی طور پر ایک ہی قوم میں رہتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں اسلام کی شریعت ایک عالمگیر شریعت ہے۔ ہر شخص جو لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لاغے وہ شریعت کی رو سے مسلمانوں کی قوم میں بالکل مساوی حقوق کے ساتھ داخل ہوسکتا ہے۔ یہاں نسل، زبان، ملک، وطن، رنگ، کسی چیز کا بھی کوئی امتیاز نہیں۔ پھر یہ شریعت ایک دائمی شریعت بھی ہے۔ اس کے قوانین کسی مخصوص قوم اور مخصوص زمانے کے رسم و رواج پر مبنی نہیں ہیں۔ بلکہ اس فطرت کے اصول پر مبنی ہیں جس پر انسان پیدا کیا گیا ہے۔ جب یہ فطرت ہر زمانے اور ہر حال میں قائم ہے تو وہ قوانین بھی ہر زمانے اور ہر حال میں قائم رہنے چاہیئیں جو اس پر مبنی ہوں۔