~روداد
~جماعت اسلامی ہند
~حصہ اول
اجتماع اول و اجتماع دربھنگہ
اگست 1941ء—اکتوبر1943ء
شعبۂ نشر و اشاعت جماعت اسلامی ہند
║فہرست مضامین
روداد ِاجتماع اول
رودادِ اجتماع مجلس شوریٰ
جماعت کے عارضی مرکز کا قیام
رودادِ اجتماع مجلس شوریٰ شوال 1361 ھ
حساب آمد و خرچ
رفتار کار
روداد اجتماع دربھنگہ
║بسم اللہ الرحمان الرحیم
"مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ سوم" میں اسلامی تحریک کی تشریح اور اس کے لیے کام کرنے والی ایک جماعت کی ضرورت ظاہر کی جاچکی تھی اور اس مطلوبہ جماعت کی تشکیل کا نقشہ بھی پیش کردیا گیا تھا اس کی اشاعت کے بعد "ترجمان القرآن" ماہ صفر 60ھ میں عامۃ الناس کو دعوت دی گئی کہ جو لوگ اس نظریہ کو قبول کرکے اس طرز پر عمل کرنا چاہتے ہوں ، وہ دفتر کو مطلع کریں۔ پرچہ چھپنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاعات آنی شروع ہوگئیں اور معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے لوگوں کی ایک خاص تعداد موجود ہے، جو "جماعت اسلامی" کی تشکیل اور اس کے قیام و بقا کے لیے جدوجہد کرنے پر آمادہ ہیں۔چنانچہ یہ طے کرلیا گیا کہ ان تمام حضرات کو اکٹھا کرکے ایک جماعتی شکل شکل بنالی جائے اور پھراسلامی تحریک کو باقاعدہ اٹھانے کی تدابیر سوچی جائیں۔ اس غرض کے لیے یکم شعبان 1360ھ(25 اگست 1941ء) اجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی۔ جن لوگوں نے جماعتِ اسلامی میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، ان سب کو ہدایت کردی گئی کہ جہاں ابتدائی جماعتیں بن گئی ہیں، وہاں سے صرف منتخب نمائندے آئیں اور جہاں لوگ ابھی انفرادی صورت میں ہیں وہاں سے حتی الامکان ہر شخص آجائے۔
28/ رجب سے ہی لوگ آنے شروع ہوگئے اور یکم شعبان تک تقریباً ساٹھ آدمی آچکے تھے۔ باقی سب لوگ بعد میں آئے، شرکائے اجتماع کی کل تعداد 75 تھی۔
کارروائی
یکم شعبان 1360ھ
آنے والوں کا انتظار تھا نیز بعض دوسری وجوہ سے بھی باقاعدہ اجتماع نہ ہوسکا، البتہ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر لوگ بیٹھ گئے تھے۔ صبح سے شام تک جماعت اور تحریک کے متعلق بے ضابطہ تبادلۂ خیالات کا سلسلہ جاری رہا۔ شام کو دیر تک لوگ ترجمان القرآن کے صحن میں بیٹھے رہے۔ قریب قریب ہر شخص سید ابوالاعلٰی مودودی کی طرف متوجہ تھا۔ لوگ مختلف قسم کے مسائل پیش کرتے اور مودودی صاحب انہیں حل کرتے رہے ۔ عشاء کے بعد لوگ منتشر ہوئے اور اپنی اپنی قیام گاہوں میں چلے گئے۔
2/شعبان
آٹھ بجے صبح دفتر کے کمرے میں پہلا اجتماع ہوا۔ سب لوگ فرش پر بیٹھے تھے، مودودی صاحب ضرورتاً حاضرین کی اجازت سے کرسی پر بیٹھے اور اصل کارروائی شروع کرنے سے قبل آپ نے ایک نہایت اہم اور طویل خطبہ دیا۔ جس کے دوران میں موجودہ اسلامی تحریک کی تاریخ پر بہت ضروری اور مفید روشنی ڈالی۔ آپ نے بتایا کہ ایک وقت تھا کہ عام مسلمانوں کی طرح میں خود بھی روایتی اور نسلی مذہبیت کا قائل اور اس پر عمل پیرا تھا۔جب ہوش آیا تو ║محسوس ہوا کہ اس طرح محض مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَاکی پیروی ایک بے معنی چیز ہے۔ آخر کار میں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف توجہ کی۔ اسلام کو سمجھا اور جان بوجھ کر اس پر ایمان لایا۔ پھر آہستہ آہستہ اسلام کے مجموعی او ر تفصیلی نظام کو سمجھنے اور معلوم کرنے کی کوشش کی۔ جب اللہ تعالی نے قلب کو اس طرف سے پوری طرح مطمئن کردیا تو، جس حق پر خود ایمان لایا تھا اس کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اور اس مقصد کے لیے 52ھ میں رسالہ "ترجمان القرآن" جاری کیا۔ ابتدائی چند سال الجھنوں کو صاف کرنے اور دین کا ایک واضح تصور پیش کرنے میں صرف ہوئے۔ اس کے بعد دین کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کی۔ دین کو تحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامد و ساکن نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظام دینی کو عملاًنافذ و قائم کرنے اور مانع و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ "ادارۂ دار الاسلام" کا قیام اس سلسلے کا پہلا قدم تھا۔ 57ھ(1938ء) میں یہ قدم اٹھایا گیا اور اس وقت صرف چار آدمی رفیق کار بنے۔ اس چھوٹی سی ابتدا کو اس وقت بہت حقیر سمجھا گیا مگر الحمد للہ کہ ہم بددل نہ ہوئے اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لئے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگاتار کرتے چلے گئے۔ اس دوران میں ایک ایک دو دو کرکے رفقاء کی تعداد بڑھتی رہی۔ ملک کے مختلف حصوں میں ہم خیال لوگوں کے چھوٹے چھوٹے حلقے بھی بنتے رہے۔اور لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ ساتھ زبانی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ آخر کار تحریک کے اثرات کا گہرا جائزہ لینے کے بعد محسوس ہوا کہ اب جماعت اسلامی کی تاسیس اور تحریک اسلامی کو منظم طور پر اٹھانے کے لیے زمین ہموار ہو چکی ہے اور یہ وقت دوسرا قدم اٹھانے کے لیے موزوں وقت ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر یہ اجتماع منعقد کیا گیا ۔
اس تاریخی تبصرے کے بعد مودودی صاحب نے بیان کیا کہ مسلمانوں میں عموماً جو تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، اور جو اب چل رہی ہیں پہلے ان کے اور اس تحریک کے اصولی فرق کو ذہن نشین کرلینا چاہیئے۔
اوّلاً ان میں یا تو اسلام کے کسی جز کو یا مسلمانوں کے دنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر بنائے تحریک بنایا گیا ہے ۔ لیکن ہم عین اسلام اور اصل اسلام کو لے کر اٹھ رہے ہیں، اور پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے۔
ثانیاً ان میں جماعتی تنظیم دنیا کی مختلف انجمنوں اور پارٹیوں کے ڈھنگ پر کی گئی ہے۔ مگر ہم ٹھیک وہی نظام جماعت اختیار کررہے ہیں جو شروع میں رسول اللہ ﷺ کی قائم کردہ جماعت کا تھا۔
ثالثاً ان میں ہر قسم کے آدمی اس مفروضے پر بھرتی کرلیے گئے تھے کہ جب یہ مسلمان قوم میں پیدا ہوئے ہیں تو "مسلمان" ہی ہوں گے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ارکان سے لے کر کارکنوں اور لیڈروں تک بکثرت ایسے آدمی ان جماعتوں کے نظام میں گھس گئے، جو اپنی سیرت کے اعتبار سے ناقابل اعتماد تھے اور کسی بار امانت کو سنبھالنے کے لائق نہ تھے۔ لیکن ہم کسی شخص کو اس مفروضے پر نہیں لیتے کہ وہ مسلمان "ہوگا" بلکہ جب وہ کلمہ طیّبہ کے ║معنی و مفہوم اور مقتضیات کو جان کر اس پر ایمان لانے کا اقرار کرتا ہے تب اسے جماعت میں لیتے ہیں اور جماعت میں آنے کے بعد اس کے جماعت میں رہنے کے لیے اس بات کو شرط لازم قرار دیتے ہیں کہ اسلام میں جو کم سے کم مقتضیات ایمان ہیں ان کو پورا کرے۔اس طرح ان شاءاللہ مسلمان قوم میں سے صرف صالح عنصر ہی چھٹ کر جماعت میں آئے گا، اور جو جو صالح بنتا جائے گا اس جماعت میں داخل ہوتا جائے گا۔
رابعًا ان تحریکوں کی نظر ہندوستان تک اور ہندوستان میں بھی صرف مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔کسی نےزیادہ وسعت اختیار کی تو زیادہ سےزیادہ بس اتنی کہ دنیا کےمسلمانوں تک نظر پھیلادی۔ مگر بہرحال یہ تحریکیں صرف ان لوگوں تک محدود رہیں جو پہلے سے "مسلم قوم" میں شامل ہیں، اور ان کی دلچسپیاں بھی انہی تک محدود رہیں، جن کاتعلق مسلمانوں سے ہے۔ان کےکاموں میں کوئی ایسی چیز شامل نہیں رہی ہے، جو غیرمسلموں کو اپیل کرنے والی ہو بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیرمسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں الٹی سدّ راہ بن گئی ہیں۔ لیکن ہمارے لیے چوں کہ خود اسلام ہی تحریک ہے اور اسلام کی دعوت تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ، لہٰذا ہماری نظر کسی خاص قوم یا کسی خاص ملک کے مخصوص وقتی مسائل میں الجھی ہوئی نہیں ہے بلکہ پوری نوعِ انسانی اور سارے کرۂ زمین پر وسیع ہے۔ تمام انسانوں کے مسائل زندگی کا وہ حل پیش کرتے ہیں،جس میں سب کی فلاح اور سب کے لیے سعادت ہے۔ اس طرح ہماری جماعت میں نہ صرف پیدائشی مسلمانوں کا صالح عنصر کھنچ کر آئے گا بلکہ نسلی غیر مسلموں میں بھی، جو سعید روحیں موجود ہیں وہ ان شاءاللہ اس میں شامل ہوتی چلی جائیں گی۔
اس توضیح کے بعد مودودی صاحب نے فرمایا کہ یہی خصوصیات ہیں، جن کی بنا پر ہم اپنی اس جماعت کو "اسلامی جماعت" اور تحریک کو "اسلامی تحریک " کہتے ہیں کیوں کہ جب اس کا عقیدہ ، نصب العین ، نظامِ جماعت اور بلا کسی کمی بیشی کے وہی ہے، جو اسلام کا ہمیشہ سے رہا ہےتو اس کےلیے اسلامی جماعت کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں ہوسکتا۔ اور جب یہ عین اسلام کےنصب العین کی طرف اسلامی طریق ہی پر حرکت کرتی ہے تو اس کی تحریک اسلامی تحریک کے سوا کچھ نہیں ہے۔مگر زمانۂ نبوت کے بعد جب کبھی ایسی کوئی تحریک دنیا میں اٹھی ہے، اس کو دو زبردست اندرونی خطرے پیش آئے ہیں:
ایک یہ کہ ایسی جماعت بننے اور ایسی تحریک اٹھنے کے بعد بہت جلد لوگ اس غلط فہمی میں پڑگئے کہ ان کی جماعت کی حیثیت وہی ہے، جو انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں اسلامی جماعت کی تھی، بالفاظ دیگر یہ کہ، جو اس جماعت میں نہیں ، وہ مومن نہیں ہے اور من شذ شذّ فی النار ۔ یہ چیز بہت جلدی اس جماعت کو مسلمانوں کا ایک فرقہ بنا کر رکھ دیتی ہے اور پھر اس کا سارا وقت عملی کام کے بجائے دوسرے مسلمانوں سےالجھنے اور مناظرے کرنے میں کھپ جاتا ہے۔
دوسرے یہ کہ ایسی جماعتیں، جس کو اپنا امیر یا امام تسلیم کرتی ہیں اس کےمتعلق ان کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس کی وہی حیثیت ہے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین کی تھی، یعنی، جس کی گردن میں اس امام کی بیعت کا قلادہ نہیں وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر کار ان کی ساری تگ و دو بس اپنے امیر یا امام کی امارت و امامت منوانے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔
║مودودی صاحب نے کہا کہ ہم کو ان دونوں خطرات سےبچ کر چلنا ہے۔ خوب سمجھ لیجیے کہ ہماری حیثیت بعینہ اس جماعت کی سی نہیں ہے ، جو ابتداءً نبی علیہ السلام کی قیادت میں بنتی ہے، بلکہ ہماری صحیح حیثیت اس جماعت کی ہے ،جو اصل نظام جماعت کے درہم برہم ہوجانے کے بعد اس کو تازہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔نبی کی قیادت میں جو جماعت بنتی ہے وہ تمام دنیا میں ایک ہی اسلامی جماعت ہوتی ہےاور اس کے دائرے سے باہر صرف کفر ہی ہوتا ہے۔ مگر بعد میں اس نظام اور کام کو تازہ کرنے کےلیے جو لوگ اٹھیں، ضروری نہیں کہ ان سب کی بھی ایک ہی جماعت ہو۔ ایسی جماعتیں بیک وقت بہت سی ہوسکتی ہیں، اور ان میں سے کسی کو بھی یہ کہنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ بس ہم ہی اسلامی جماعت ہیں اور ہمارا امیر ہی امیر المومنین ہے۔ اس معاملے میں ان تمام لوگوں کو ، جو ہماری جماعت میں شامل ہوں غلو سے سخت پرہیز کرنا چاہیئے، کیوں کہ بہرحال ہم کو مسلمانوں میں ایک "فرقہ" بننا نہیں ہے، خدا ہمیں اس سے بچائے کہ ہم اس کے دین کے لیے کچھ کام کرنے کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کرنے کے موجب بن جائیں۔
اس کے بعد مودودی صاحب نے فرمایا کہ جماعت اسلامی کے لیے دنیا میں کرنے کا جو کام ہے اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک میدان نہیں ہے، بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔ اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے، اور ہرچیز ، جس کا انسان سے تعلق ہے اس کا اسلام سے بھی تعلق ہے۔ اسلامی تحریک ایک ہمہ گیرنوعیت کی تحریک ہے اور یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس تحریک میں کام کرنے کے لیے صرف خاص قابلیتوں اور خاص علمی معیار کے آدمیوں ہی کی ضرورت ہے۔ نہیں،یہاں ہر انسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بے کار نہیں ہے۔جو شخص جو قابیلت بھی رکھتا ہو۔ اس کے لحاظ سے وہ اسلام کی خدمت میں اپنا حصہ ادا کرسکتا ہے۔عورت ، مرد، بوڑھا، جوان ، دیہاتی، شہری، کسان ، مزدور، تاجر، ملازم، مقرر، محرر، ادیب، ان پڑھ اور فاضل اجل سب یکساں کارآمد اور یکساںمفید ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ جان بوجھ کر اسلام کے عقیدے کو اختیار کرلیں، اس کے مطابق عمل کرنے کا فیصلہ کرلیں، اور اس مقصد کو، جسے اسلام نے مسلمان کا نصب العین قرار دیا ہے اپنی زندگی کا مقصد بنا کر کام کرنے پر تیار ہوجائیں ۔ البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ وہ کو ہلکا اور آسان کام نہیں ہے، اسے دنیا کے پورے نظام زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے، دنیا میں، جو نظام حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے اور اس کام میں شیطانی طاقتوں سے اس کی جنگ ہے۔ اس کو اگر کوئی ہلکا سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔اس لیے ہر شخص کو قدم آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں، نہیں ۔یہاں پیچھے ہٹنے کے معنی ارتداد کے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس جماعت سے نکلنا ارتداد کا ہم معنی ہے، بلکہ اصل مطلب یہ ہے کہ خدا کے راستے میں پیش قدمی کرنے کے بعد مشکلات، مصائب، نقصانات اور خطرات کو سامنے دیکھ کر پیچھے ہٹ جانا اپنی روح اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے ارتداد ہے وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 16 الانفال جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری، الاّ یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دُوسری فوج ║سے جا ملنے کےلیے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھِر جائے گا۔ اُس کا ٹھکانہ جہنّم ہو گا، اور وہ بہت بُری جائے بازگشت ہے۔(16) لہٰذا قدم اٹھانے سے پہلے خوب سوچ لو، جو قدم برھاؤ اس عزم کے ساتھ بڑھاؤ کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہو بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رک جائے۔
آخر میں مودودی صاحب نے فرمایا کہ اس اجتماع کے انعقاد کی غرض یہ ہے کہ جو لوگ اسلامی عقیدے کو جان بوجھ کر قبول کریں اور اس کے نصب العین کے لیے کام کرنےپر تیار ہوں۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت کو ختم کرکے اللہ اور رسول کی ہدایت کے مطابق ایک جماعت بن جائیں، اور باہمی مشورے سے جماعتی طریق پر آئندہ کام کرنے کے لیے ایک نظام بنالیں۔ میرا کام آپ کو ایک جماعت بنادینے کے بعد پورا ہوجاتا ہے۔ میں صرف ایک داعی تھا، بھولا ہوا سبق یاددلانے کی کوشش کررہا تھا، اور میری مساعی کی غایت یہ تھی کہ ایسا ایک نظام جماعت بن جائے۔ جمات بن جانے کے بعد میں آپ میں کا ایک فرد ہوں، اب یہ جماعت کا کام ہے کہ اپنے میں سے کسی اہل تر آدمی کو اپنا امیر منتخب کرے۔ اور پھر یہ اس امیر کا کام ہے کہ آئندہ اس تحریک کو چلانے کے لیے اپنی صوابدید کے مطابق ایک پروگرام بنائے اور اسے عمل میں لائے۔ میرے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیئے کہ جب دعوت میں نے دی ہے تو آئندہ اس تحریک کی رہنمائی کو بھی میں اپنا حق سمجھتا ہوں، ہرگز نہیں، نہ میں اس کا خواہش مند ہوں، نہ اس نظریے کا قائل ہوں کہ داعی کو ہی، آخر کار لیڈر بھی ہوناچاہیئے، نہ مجھے اپنے متعلق یہ گمان ہے کہ اس عظیم الشان تحریک کا لیڈر بننے کی اہلیت مجھ میں ہے۔ اور نہ اس کام کی بھاری ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے کوئی صاحب عقل آدمی یہ حماقت کرسکتا ہے کہ اس بوجھ کے اپنے کندھوں پر لادے جانے کی خود تمنا کرے۔ درحقیقت میری غایت تمنا اگر کچھ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ایک صحیح اسلامی نظام جماعت موجود ہو اور میں اس میں شامل ہوں۔ اسلامی نظام جماعت کے تحت میرے نزدیک ایک چپراسی کی خدمت انجام دینا بھی اس سے زیادہ قابل فخر ہے کہ کسی غیر اسلامی نظام میں صدارت اور وزارت عظمیٰ کا منصب مجھے حاصل ہو۔لہٰذا اس مفروضے پر نہ چلیے کہ جس طرح تشکیل جماعت سے پہلے سارے کام میں اپنی ذمہ داری میں چلاتا رہا ہوں اسی طرح تشکیل جماعت کے بعد بھی میں آپ سے آپ امارت کا کام اپنے ہاتھ میں لے لوں گا۔ جماعت بن جانے کے بعد میری اب تک کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ آئندہ کے کام کی پوری ذمہ داری جماعت کی طرف منتقل ہوئی جاتی ہے اور جماعت اپنی طرف سے اس ذمے داری کو، جس کے بھی سپرد کرنے کا فیصلہ کرے اس کی اطاعت اور خیر خواہی اور اس کی ساتھ تعاون کرنا ہر فرد ِ جماعت کی طرح میرا بھی فرض ہوگا۔
اس تمہیدی تقریر کے بعد آپ نے دستور جماعت اسلامی کا مسودہ پڑھنا شروع کیا۔ اس مسودے کی کچھ کاپیاں پہلے ہی طبع کرالی گئی تھیں اور تمام آنے والوں کو اجتماع سے ایک یا دو روز قبل دے دی گئی تھیں تاکہ وہ اس پر اچھی طرح غور کرلیں۔ اجتماع عام میں اس کے متعلق ہر شخص کو اظہار رائے کا پورا پورا موقع دیا گیا۔ اس کا ایک ایک لفظ پڑھا گیا اور اس پر بحث ہوئی۔ قریب قریب مغرب کے وقت جاکے یہ جلسہ ختم ہوا۔ درمیان میں صرف دوپہر کے کھانے اور ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے جلسہ ملتوی کیا گیا تھا۔ بہرحال شام کے آتے آتے ہر ضروری مسئلہ زیر بحث آکے طے ہوچکا تھا۔ دستور بعض ترمیمات اور اضافوں کے ساتھ پورا کا پورا بالا تفاق ِ کلی پاس ہوگیا۔
║اس کے بعد سب سے پہلے مودودی صاحب اٹھے اور کلمۂ شہادت أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ
کا اعادہ کیا اور کہا کہ لوگو! گواہ رہو کہ میں آج ازسرنو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں۔ اس کے محمد منظور نعمانی صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی مودودی صاحب کی طرح تجدید ایمان کا اعلان کیا ۔ اکثر حضرات کی انکھوں سے آنسو جاری تھے۔ بلکہ بعض لوگ پر تو روتے روتے رقت طاری ہوگئی تھی ۔ قریب قریب ہر شخص کلمۂ شہادت ادا کرتے وقت ذمہ داری کے احساس سے کانپ رہا تھا۔ جب لوگ شہادت ادا کرچکے تو مودودی صاحب نے اعلان کیا کہ اب جماعت اسلامی کی تشکیل ہوگئی، آئیے ہم سب مل کر رب العالمین سے دعا کریں کہ وہ ہماری جماعت کو استقامت عطا فرمائے۔ دعا سے پہلے مودودی صاحب نے اسلامی جماعت کی حیثیت اس کے منشا اور نصب العین پر پھر ایک مرتبہ روشنی ڈالی اور حاضرین کو آگاہ کیا کہ انہوں نے آج کتنا بڑا عہد کیا ہے اور اس کو کس طرح نباہنا چاہیئے۔بعد ازاں منظور نعمانی صاحب نے دعا شروع کی، دیر تک لوگ خدا کے حضور میں روتے اور گڑگڑاتے رہے، بالآخر مودودی صاحب نے ایک مختصر سی دعا پڑھی ، اور جلسہ برخواست ہوا۔
3/شعبان
صبح آٹھ بجے پھر اجتماع شروع ہوا۔ سب سے پہلے مودودی صاحب نے ایک ایک رکن جماعت کو الگ الگ بلا کر اس دریافت کیا کہ وہ اپنے آپ کوجماعت کے کس طبقے کے لیے پیش کرتا ہے۔ پھر جب ارکان جماعت کی طبقہ وار فہرست مکمل ہوگئی تو مودودی صاحب تقریر کے لیے اٹھے اور حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ، جو لوگ ایک ہی عقیدہ ایک ہی نصب العین اور ایک ہی مسلک رکھتے ہوں ان کے لیے ایک جماعت بن جانے کے سوا کوئی چارہ نہین، اور ان کا ایک جماعت بن جانا بالکل ایک فطری امر ہے۔وحدت کلمہ کے باوجود نفسانیت کی بنا پر، جو تفرقہ رونما ہوتا ہے اس کی وجہ بھی دراصل یہ ہوتی ہے کہ نفسانیت خود ایک کلمہ ہے، جوکلمۂ اسلام کی ضد واقع ہے اور جو اس کلمے اور جو اس کلمے کا معتقد ہوتا ہے وہ باقی تمام امور میں دوسروں سے متفق ہونے کے باوجود اپنا راستہ الگ بناتا ہے۔ پس جب آپ نے کل شہادت ادا کی کہ آپ سب ایک ہی عقیدہ ، ایک ہی نصب العین ، اور ایک ہی راہ عمل رکھتے ہیں۔ یعنی آپ کا کلمہ واحد ہے تو آپ خود بخود ایک جماعت بن گئے اور میں اللہ کی مانگتا ہوں اس سے کہ مجھ میں یا آپ میں سے کسی میں وہ نفسانیت ہو،جو غیر سبیل المومنین کے اتباع پر کسی کو آمادہ کرلے۔ اب کہ آپ کی جماعتی زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔ تنظیم جماعت کی راہ میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد کیا ہیں، میں اس سلسلے میں چند اہم باتیں بیان کروں گا۔
پہلی چیز یہ ہے کہ جماعت کے ہر فرد کو نظام جماعت کا بحیثیت مجموعی اور جماعت کے افراد کا فرداً فرداً سچے دل سے خیر خواہ ہونا چاہیئے۔ جماعت کی بدخواہی ، یا افراد جماعت سے کینہ ، بغض، حسد، بدگمانی اور ایذا رسانی دو بدترین جرائم ہیں، جن کو اللہ اور اس کے رسول نے ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کی اس جماعت کی حیثیت دنیوی پارٹیوں کی سی نہیں ہے، جن کا تکیہ کلام یہ ہوتا ہے کہ "میری پارٹی حق پر ہو یا ناحق پر"۔ نہیں، آپ کو، جس رشتے نے ایک دوسرے سے جوڑا ہے وہ دراصل اللہ پر ایمان کا رشتہ ہے، اور اللہ پر ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت، جو کچھ بھی ہو، اللہ کے لیے ہو۔ آپ کو اللہ کی فرماں برداری میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے،نہ کہ اللہ کی نافرمانی میں ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ المائدہ اللہ تعالٰی کی طرف سے جماعت کی خیر خواہی کا، جو فرض آپ پر عائد ہوتا ہے اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ بیرونی حملوں سے آپ اس کی حفاظت کریں، بلکہ یہ بھی ہیں کہ ان اندرونی امراض سے بھی اس کی حفاظت کے لیے ہر وقت مستعد رہیں، جو نظام جماعت کو خراب کرنے والے ہیں۔ جماعت کی سب سے بڑی خیر خواہی یہ ║ہے کہ اس کو راہ راست سے نہ ہٹنے دیا جائے۔ اس میں غلط مقاصد اور غلط خیالات اور غلط طریقوں کے پھیلنے کو روکا جائے۔ اس میں نفسانی دھرے بندیاں نہ پیدا ہونے دی جائیں۔ اس میں کسی کا استبداد نہ چلنے دیا جائے، اس میں کسی دنیوی غرض یا کسی شخصیت کو بت نہ بننے دیا جائے،اور اس کے دستور کوبگڑنے سے بچایا جائے۔ اسی طرح اپنے رفقائے جماعت کی خیر خواہی کا، جو فرض آپ میں سے ہر فرد پر عائد ہوتا ہے اس کےمعنی یہ ہر گز نہیں کہ آپ اپنی جماعت کے آدمیوں کی بے جا حمایت کریں اور ان کی غلطیوں میں ان کا ساتھ دیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ معروف میں ان کے ساتھ تعاون کریں، اور منکر میں صرف عدم تعاون ہی پر اکتفا نہ کریں، عملاًان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی ، جو کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں اس کو راہ راست سے بھٹکتے ہوئے دیکھے وہاں اسے سیدھا راستہ دکھائے اور جب وہ اپنے نفس پر ظلم کررہا ہو تو اس کا ہاتھ پکڑے۔ البتہ آپس کی اصلاح میں یہ ضرور پیش نظررہنا چاہیئے کہ نصیحت میں عیب چینی او ر خوردہ گیری اور تشدد کا طریقہ نہ ہو بلکہ دوستانہ دردمندی و اخلاص کا طریقہ ہو، جس کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں اس کو آپ کے طرز عمل سے یہ محسوس ہونا چاہیئے کہ اس کی اخلاقی بیماری سےآپ کا دل دکھتا ہے نہ کہ اس کو اپنے سے فرو تر دیکھ کر آپ کا نفس متکبر لذّت لے رہا ہے۔
تیسری بات، جس کی طرف میں ابھی اشارہ کرچکا ہوں، مگر جس کی اہمیت اس کی متقاضی ہے کہ اسےواضح طور پر بیان کیا جائے، یہ ہے کہ جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیئے، سازشیں ، جتھہ بندیاں، نجویٰ (Canvassing) عہدوں کی امیدواری، حمیت جاہلانہ اور نفسانی رقابتیں، یہ وہ چیزیں ہیں، جوویسے بھی جماعتوں کی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتی ہیں۔ مگر اسلامی جماعت کے مزاج سے تو ان چیزوں کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح غیبت اور تنابز بالاقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں، جن سے بچنے کی ہم سے کو کوشش کرنی چاہیئے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ باہمی مشاورت جماعتی زندگی کی جان ہے، اس کو کبھی نظرانداز نہ کرنا چاہیئے کہ، جس شخص کے سپرد کسی جماعتی کام کی ذمہ داری ہو اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے کاموں میں دوسرے رفقا سے مشورے لے۔ اور جس سے مشورہ لیا جائے اس کا فرض ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی حقیقی رائے کا صاف صاف اظہار کرے، جو شخص اجتماعی مشاورت میں اپنی صوابدید کے مطابق رائے دینے سے پرہیز کرتا ہے وہ جماعت پر ظلم کرتا ہے۔ اور جو مصلحت سے اپنی صوابدید کے خلاف رائے دیتاہے وہ جماعت کے ساتھ غدر کرتا ہے، اور جو مشاورت کے موقعے پر اپنی رائے چھپاتا ہے اور بعد میں جب اس کے منشا کے خلاف کوئی بات طے ہوجاتی ہے تو جماعت میں بددلی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے وہ بدترین خیانت کا مجرم ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ جماعتی مشورے میں کسی شخص کو اپنی رائے پر اتنا مصر نہ ہونا چاہیئے کہ یا تو اس کی بات مانی جائے ورنہ جماعت سے تعاون نہ کرے گا یا اجماع کے خلاف عمل کرے گا۔ بعض نادان لوگ بربنائے جہالت اس کو حق پرستی سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ صریح اسلامی احکام اور صحابۂ کرام کے متفقہ تعامل کے خلاف ہے۔ خواہ کوئی مسئلہ کتاب و سنّت کی تعبیر اور نصوص سےکسی حکم کے استنباط سے تعلق رکھتا ہو یا دنیوی تدابیر سے متعلق ہو، دونوں صورتوں میں صحابۂ کرام کا طرز عمل یہ تھا کہ جب تک مسئلہ زیر بحث رہتا۔ اس میں ہر شخص اپنے علم اور اپنی صوابدید کے مطابق پوری صفائی سے اظہار خیال کرتا اور اپنی تائید میں دلائل پیش کرتا تھا۔ مگر جب کسی شخص کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوجاتا تو وہ یا تو اپنی رائے واپس لے لیتا تھا یا اپنی رائے کو درست سمجھنے کے باوجود فراخ دلی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دیتا تھا۔ جماعتی زندگی کے لیے یہ طریقہ ناگزیر ہے ورنہ ظاہر ہے کہ جہاں ایک ایک شخص اپنی رائے پر اس قدر مصر ہو کہ جماعتی فیصلوں کو قبول کرنے سے انکار کردے، وہاں آخر کار پورا نظام جماعت درہم برہم ہوکر رہے گا۔
║آخری چیز ، جو جماعتی زندگی کے لیے اہم ترین ہے وہ ہے کہ "اسلام بغیر جماعت کے نہیں ہے اور جماعت بغیر امارت کے نہیں ہے"۔ اس قاعدۂ کلیہ کے بموجب آپ کے لیے ضروری ہے کہ امور ملحوظ رکھنے چاہیئں وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص ، جو امارت کا امیدوار ہو اسے ہرگز منتخب نہ کیا جائے ۔ کیوں کہ، جس شخص میں اس کار عظیم کی ذمہ داری کا احساس ہوگا وہ کبھی اس بار کو اٹھانے کی خود خواہش نہ کرے گا، اور جو اس کی خواہش کرے گا وہ دراصل نفوذ و اقتدار کا خواہش مند ہوگا نہ کہ ذمہ داری سنبھالنے کا۔اس لیے اللہ کی طرف سے اس کی نصرت و تائید کبھی نہ ہوگی۔انتخاب کے سلسلے میں لوگ ایک دوسرے سے نیک نیتی کے ساتھ تبادلۂ خیال کرسکتے ہیں۔ مگر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف نجویٰ اور سعی نہ ہونی چاہیئے۔ شخصی حمایت و موافقت کے جذبات کو دل سے نکال کر بے لاگ طریقے سے دیکھیے کہ آپ کی جماعت میں کون ایسا شخص ہے، جس کے تقویٰ ، علم کتاب و سنت ، دینی بصیرت، تدبر ، معاملہ فہمی اور راہ خدا میں ثبات و استقامت پر آپ سب سے زیادہ اعتماد کرسکتے ہیں۔ پھر، جو بھی ایسا نظر آئے اللہ پر توکل کرکے اسے منتخب کرلیجیے۔ اور جب آپ اسے منتخب کرلیں تو اس کی خیر خواہی، اس کے ساتھ مخلصانہ تعاون، معروف میں اس کی اطاعت ، اور منکر میں اس کی اصلاح کی کوشش آپ کا فرض ہے۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلامی جماعت میں امیر کی وہ حیثیت نہیں ہے،جو مغربی جمہوریتوں میں صدر کی ہوتی ہے۔مغربی جمہوریتوں میں ، جو شخص صدر منتخب کیا جاتا ہے اس میں تمام صفات تلاش کی جاتی ہیں مگر کوئی صفت اگر نہیں تلاش کی جاتی تو ہو دیانت اور خوف خدا کی صفت ہے۔ بلکہ وہاں کا طریقِ انتخاب ہی ایسا ہے کہ، جو شخص ان میں سب سے زیادہ عیار اور سب سے بڑھ کر جوڑ توڑ کے فن میں ماہر اور جائز و ناجائز ہر قسم کی تدابیر سے کام لینے میں طاق ہوتا ہے وہی برسراقتدار آتا ہے۔ اس لیے فطری بات ہے کہ وہ لوگ خود اپنے منتخب کردہ صدر پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ وہ ہمیشہ اس کی بے ایمانی سے غیر مامون رہتے ہیں اور اپنے دستور میں طرح طرح کی پابندیاں اور رکاوٹیں عائد کردیتے ہیں تاکہ وہ حد سے زیادہ اقتدار حاصل کرکے مستبد فرماں روا نہ بن جائے۔ مگر اسلامی جماعت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے صاحب امر کے انتخاب میں تقویٰ اور دیانت ہی کو تلاش کرتی ہے، اور اس بنا پر وہ اپنے معاملات پورے اعتماد کے ساتھ اس کے سپرد کرتی ہے۔ لہٰذا مغربی طرز کی جمہور جماعتوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنے دستور میں اپنے امیر پر وہ پابندیاں عاید کرنے کی کوشش نہ کیجیے، جو عموماً وہاں صدر پر عائد کی جاتی ہیں۔ اگر آپ کسی کو خدا ترس اور متدین پاکر اسے امیر بناتے ہیں تو اس پر اعتمادکیجیے، اور اگر آپ کے نزدیک کسی کی خدا ترسی و دیانت اس قدر مشتبہ ہو کہ آپ اس پر اعتماد نہیں کرسکتے تو اس کو سرے سے منتخب ہی نہ کیجیے۔
اس تقریر کے بعد انتخاب امیر کے مسئلے پر مذاکرہ شروع ہوا، دوران مذاکرہ میں تین مختلف نظریے پیش کئے گئے، جن پر دوپہر تک بحث ہوتی رہی اور کسی متفقہ فیصلےپن ختم نہ ہوسکی:-
ایک گروہ کا خیال یہ تھا کہ سرِدست عارضی طور پر کسی معین مدت کے لیے امیر کا انتخاب کیا جائے۔ کیوں کہ اول تو ابھی ہماری جماعت میں اس قدر کم آدمی ہیں کہ انتخاب کی کچھ زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ اگر اس وقت ہم اپنی قلیل جماعت میں سے کسی اہل تر کا مستقل انتخاب کرلیں گے تو بعد میں جب جماعت بڑھے گی اور اہل ترین آدمی آئیں گے اس وقت مشکل پیش آئے گی۔
دوسرے یہ مٹھی بھر جماعت اگر اس وقت اپنا مستقل امیر منتخب کرلے تو باہر جو بہت سے لوگ ہمارے نظریے او ر مقصد سے متفق ہیں ان کو جماعت کے اندر آنے میں اس بنا پر تامل ہوگا کہ اس جماعت میں داخل ہونے کے ساتھ انہیں خود بخود اس امیر کو بھی تسلیم کرلینا پڑے گا ، جس کے انتخاب میں ان ║کی رائے کا دخل نہ تھا۔ اس طرح ہمارا انتخاب امیر آگے چل کر تو سیع جماعت کی راہ میں ایک زبردست رکاوٹ بن جائے گا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک بڑی جماعت بننے کے بجائے الگ الگ جماعتیں بننے لگیں گی اور بہت سی امارتوں کے جھنڈے بلند ہوں گے۔
دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ اس وقت سرے سے امیر منتخب ہی نہ کیا جائے۔ بلکہ چند آدمیوں کی ایک مجلس کو انتظام اور رہنمائی کے اختیارات دے دیے جائیں اور اس مجلس کے لیے ایک صدر منتخب کرلیا جائے۔ اس گروہ کے شبہات بھی مذکورہ بالا نوعیت کے تھے، اور مزید برآں ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ ابھی کوئی مردِ کامل ایسا نظر نہیں آتا جو انبیاء کی جانشینی کے قابل ہو۔
تیسرے گروہ کا خیال یہ تھا کہ جماعت بلا امیر تو بالکل بے اصل چیز ہے۔ رہا مدت معینہ کے لیے انتخاب تو وہ ایک غیر اسلامی طریقہ ہے، جس کا کوئی نشان ہم کو کتاب و سنّت میں نہیں ملتا۔ علاوہ بریں یہ بات حکمت کے خلاف ہے کہ ایک طرف تو ہم وہ انتہائی انقلابی نظریہ لے کر اٹھ رہے ہیں، جو تمام دنیا کی شیطانی قوتوں کے لیے اعلان جنگ کا ہم معنی ہے اور دوسری طرف ہم خود ہی اپنی جماعت کے نظام کو اتنا سست اور ڈھیلا رکھیں کہ وہ کسی بڑی جدوجہد میں ثابت و قائم نہ رہ سکتا ہو۔ یہ ظاہر ہے کہ امارت کے بغیر یا عارضی امارت کی بنیاد پر جو نظام جماعت بنایا جائے گا وہ ہر گز پختہ نہ ہوگا، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امیر کا انتخاب اسی وقت کیا جائے اور بلا تعین کیا جائے۔
کئی گھنٹے کی بحث کے بعد بھی جب اس مسئلے میں اتفاق رائے حاصل نہ ہوسکا تو بالآخر ظہر کے قریب یہ طے ہوا کہ اس مسئلے کو سات آدمیوں کی ایک مجلس کے سپرد کردیا جائے اور جو کچھ وہ مجلس طے کرے اسے سب قبول کرلیں۔ چنانچہ تین گروہوں نے بالاتفاق حسب ذیل اصحاب کو منتخب کیا:-
1. محمد منظور صاحب نعمانی مدیر "الفرقان" بریلی۔
2. سید صبغتہ اللہ صاحب بختیاروی، استاذ جامعہ دارالسلام عمرآباد، آرکاٹ مدراس۔
3. سید محمد جعفر صاحب پھلواروی، امام مسجد، کپورتھلہی
4. نذیر الحق صاحب میرٹھی، لائل پوری
5. مستری محمد صدیق صاحب، سلطان پور لودھی۔
6. ڈاکٹر سید نذیر علی صاحب زیدی، الٰہ آباد۔
7. محمد ابن علی صاحب علوی کاکوروی، لکھنؤ۔
اس مجلس نے خوب غور خوض اور بحث و تمحیص کے بعد بالاتفاق وہ تجویز مرتب کی ، جو لفظ بہ لفظ دستور جماعت کی دفعہ دہم میں پائی جاتی ہے۔ اس تجویز کا تجزیہ کرنے سے حسب ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے:-
1. گروہ ِ اوّل کی اس رائے کو رد کردیا گیا کہ امیر کا انتخاب عارضی ہو۔
2. گروہِ دوّم کی بھی یہ رائے قبول نہیں کی گئی کہ امیر کا انتخاب نہ کیا جائے ، اور صرف انتظامی اغراض کے لیے ایک مجلس بنادی جائے۔
3. گروہِ سوّم کی اس رائے سے اتفاق کیا گیا کہ علم کتاب و سنّت اور حکمتِ عملی دونوں کا اقتضا یہی ہے کہ جماعت بلا امیر نہ رہے اور امیر کا انتخاب کسی مدت کے ساتھ مقید نہ ہو۔
4. گروہِ اوّل کے تمام اعتراضات کو ان دو فقروں سے رفع کردیا گیا:
║"امیر کی خداترسی و احساسِ ذمہ داری سے یہ توقع کی جائے گی کہ اپنے سے زیادہ اہل آدمی کے آجانے پر وہ خود اس کے لیے جگہ خالی کردے گا۔ نیز ایسی صورت میں جب کہ جماعت اپنے نصب العین کے مفاد کے لیے ضرورت محسوس کرے تو وہ امیر کو معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی"۔
5۔ گروہ دوم کی اعتراض کو اس فقرے سے رفع کیا گیا :
"جماعت کی نظر میں انتخاب کے وقت، جو شخص بھی مذکورہ اوصاف(تقویٰ،علم دین میں بصیرت،اصابتِ رائےاور عزم و حزم) کے لحاظ سے اہل تر ہوگا اس کو وہ اس منصب کے لیے منتخب کرے گی”۔
چار بجے شام کو جب دوبارہ اجتماع ہوا تو محمد منظور صاحب نعمانی نے مجلس منتخبہ کی جانب سے اس تجویز کو پڑھ کر سنایا اور مختصر اً اس کی تشریح کی۔ جماعت نے بالاتفاق اسے قبول کرلیا اور طے کیا پوری تجویز دفعہ دہم کی حیثیت سے دستور میں بڑھادی جائے۔ اس کے بعد بالاتفاقِ کلی لوگوں نے سید ابولااعلی مودودی کو اپنا امیر منتخب کیا۔بیعت کا رسمی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا بلکہ پوری جماعت نے ایک ساتھ عہد کیا کہ مذکورہ بالا تصریحات کےتحت وہ امیر کی اطاعت اور اس کے حکم کی پابندی کریں گے۔ اس "بیعت عام" کی ادائی پر بھی وہی کیفیت طاری ہوئی، جو ایک روز قبل تجدید ایمان کے موقعے پر طاری ہوچکی تھی۔ لوگ پھر خدا کے حضور میں روئے اور گڑگڑائے اور التجا کی کہ وہ اس جماعت کو اس کے نصب العین کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر میں امیر جماعت نے کھڑے ہوکر مختصر تقریر کی، جس میں کہا کہ میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا نہ سب سے زیادہ متقی ، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی، بہرحال جب آپ نے مجھ پر اعتماد کرکے اس کارِ عظیم کا بار میرے اوپر رکھ دیا ہے تو میں اب اللہ سے دعا کرتا ہوں اور آپ لوگ بھی دعا کریں کہ مجھے اس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے اور آپ کے اس اعتماد کو مایوسی میں تبدیل نہ ہونے دے۔ میں اپنی حد وسع تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خداترسی اور پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ چلاؤں۔ میں قصداً اپنے فرض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا۔ میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہ اور خلفائے راشدین کے نقشِ قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھوں گا۔ تاہم اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ میں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں تو مجھ پر یہ بدگمانی نہ کرے کہ میں عمداً ایسا کررہا ہوں، بلکہ حسن ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھے سیدھا کرنے کی کوشش کرے۔ آپ کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں اپنے آرام و آسائش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں۔ جماعت کے نظم کی حفاظت کروں، ارکان جماعت کی درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں، جماعت کی طرف سے، جو امانتیں میرے سپرد ہوں ان کی حفاظت کروں، اور سب سےبڑھ کر یہ کہ اپنے دل و دماغ اور جسم و جان کی تمام طاقتوں کو اس مقصد کی خدمت صرف کردوں،جس کے لیے آپ کی جماعت اٹھی ہے۔اور میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک میں راہ راست پر چلوں آپ اس میں میرا ساتھ دیں، میرے حکم کی اطاعت کریں، نیک مشوروں سے اور امکانی امداد و اعانت سے میری تائید کریں ۔ اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیزکریں۔مجھے اس تحریک کی عظمت اور خود اپنے نقائص کا پورا احساس ہے، میں جانتا ہوں کہ یہ وہ تحریک ہے ، جس کی قیادت اولوالعزم پیغمبروں نے کی ہے، اور زمانۂ نبوت گزر جانے کے بعدوہ غیر معمولی انسان اس کو لے کر اٹھتے رہے ہیں ، جو نسل انسانی کے گلِ سرسبد تھے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ میں اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں۔ بلکہ میں تو اس کو اپنی بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے فرائض امارت کی انجام دہی کے ساتھ میں برابر تلاش میں رہوں گا کہ کوئی اہل تر آدمی اس کا بار اٹھانے کے لیے مل جائے اور جب میں ایسے آدمی کو پاؤں گا تو خود سب سے پہلے اس کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ نیز میں ہمیشہ ہر اجتماع عام کے موقع پر جماعت سے بھی درخواست کرتا رہوں گا کہ اگر اب اس نے کوئی مجھ سے بہتر آدمی پالیا ║ہے تو وہاسے اپنا امیر منتخب کرلے، اور میں اس منصب سے بخوشی دست بردار ہوجاؤں گا۔بہر حال میں ان شاءاللہ اپنی ذات کو کبھی خدا کے راستے میں سدِّراہ نہ بننے دوں گا اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دوں گا کہ ایک ناقص آدمی اس جماعت کی رہنمائی کررہا ہے، اس لیے ہم اس میں داخل نہیں ہوسکتے، نہیں، میں کہتا ہوں کہ کامل آئے اور یہ مقام ، جو آپ نے میرے سپرد کیا ہے ہر وقت اس کے لیے خالی ہوسکتا ہے۔ البتہ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی اس کام کو چلانے کے لیے نہ اٹھے تو میں بھی نہ اٹھوں۔ میرے لیے تو یہ تحریک عین مقصد زندگی ہے۔میرا مرنا جینا اس کے لیے ہے، کوئی اس پر چلنے کے لیے تیارہویا نہ ہو، بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا، کوئی ساتھ نہ دے گا تو میں اکیلا چلوں گا۔ ساری دنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اس سے لڑجانے میں بھی باک نہیں ہے۔
آخر میں ایک بات کی توضیح کودینا چاہتا ہوں ۔ فقہ اور کلام کے مسائل میں میرا ایک خاص مسلک ہے، جس کو میں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بنا پر اختیار کیا ہے، اور پچھلے آٹھ سال کر دوران میں، جو اصحاب "ترجمان القرآن" کا مطالعہ کرتے رہے ہیں وہ اس کو جانتے ہیں۔ اب کہ میری حیثیت اس جماعت کے امیر کی ہوگئی ہے، میرے لیے یہ بات صاف کردینی ضروری ہے کہ فقہ و کلام کے مسائل میں، جو کچھ میں نے پہلے لکھا ہے اور جو کچھ آئندہ لکھوں گا یا کہوں گا اس کی حیثیت امیر جماعت اسلامی کے فیصلے کی نہ ہوگی بلکہ میری ذاتی رائے کی ہوگی۔ میں نہ تو یہ چاہتا ہوں کہ اس مسائل میں اپنی رائے کو جماعت کے دوسرے اہل علم و تحقیق پر مسلط کروں، اور نہ اسی کو پسند کرتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی عائد ہو کہ مجھ سےعلمی تحقیق اور اظہار رائے کی آزادی سلب ہوجائے۔ ارکانِ جماعت کو میں خداوندِ برتر کا واسطہ دے کر ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص فقہی و کلامی مسائل میں میرے اقوال کو دوسرے کے سامنے حجت کے طور پر پیش نہ کرے۔ اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی ، جسے میں نے اپنی تحقیق کی بنا پر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے نہ تو دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلا تحقیق محض میرا عمل ہونے کی حیثیت سے اس کا اتباع کریں۔ ان معاملات میں ہر شخص کے لیے آزادی ہے۔ جو لوگ علم رکھتے ہوں وہ اپنی تحقیق پر، اور جو علم نہ رکھتے ہوں وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں اس کی تحقیق پر عمل کریں، نیز ان معاملات میں مجھ سے اختلاف رائے رکھنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی سب آزاد ہیں۔ ہم سب جزئیات و فروع میں اختلاف رائے رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کے بالمقابل بحث و استدلال کرتے ہوئے بھی ایک جماعت بن کر رہ سکتے ہیں۔ جس طرح صحابۂ کرام رہتے تھے۔
4/شعبان
گزشتہ شام کو امیر جماعت نے اصحاب شوریٰ کا انتخاب کرلیا تھا۔ آج صبح آٹھ بجے شوریٰ کا پہلا اجلاس ہوا اور تحریک کے مستقبل اور جماعت کے لائحۂ عمل پر سوچ بچار کیا گیا۔ کافی غور خوض اور بحث و مذاکرہ کے بعد ، جو کچھ طے ہوا وہ حسب ذیل ہے:
تقسیم کار
فی الحال جماعت کے کام کو حسب ذیل شعبوں میں تقسیم کیا گیا:
1۔ شعبۂ علمی و تعلیمی
اس شعبے کا کام یہ ہوگا کہ:
اسلام کے نظامِ فکر اور نظامِ حیات کا اس کے مختلف فلسفیانہ ، عملی اور تاریخی پہلوؤں میں گہرا تفصیلی مطالعہ کرے، دنیا کے دوسرے نظاماتِ فکر و عمل پر بھی وسیع تنقیدی و تحقیقی نظر ڈالے، اور اپنے نتائج تحقیق کو ایک ایسے زبردست لٹریچر کی شکل میں پیش کرے ، جو نہ صرف اسلامی اصول پر ذہنی و فکری انقلاب برپا کرنے والا ہو، بلکہ نظام اسلامی کے بالفعل قائم ہونے کے لیے بھی زمین تیار کرسکے۔
║ایک ایسا نظریۂ تعلیمی اور نظام تعلیم مرتب کرے، جو اسلام کے مزاج سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہو، اور دنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔ رائج الوقت تعلیمی نظریات اور نظامات کا بھی تنقیدی و تحقیقی مطالعہ کرنا ہوگا۔
اپنے نظریۂ تعلیمی کے مطابق نصاب اور معلمین تیار کرے اور بالآخر ایک درسگاہ قائم کرکے آئندہ نسل کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا کام شروع کردے۔
ایک ایسی تربیت گاہ قائم کرے، جو دنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کےلیے بہترین کارکن تیار کرے۔ تین سال قبل ادارۂ دارالاسلام کے نام سے، جو ادارہ قائم کیا گیا تھا وہ جماعت اسلامی کے اس شعبے میں ضم کردیا گیا۔ سردست یہ شعبہ مرکز میں امیر جماعت کی براہ راست نگرانی میں رہے گا۔ بعد میں اگر ممکن ہوا تو اس کی شاخیں باہر بھی مختلف ایسے مقامات پر قائم کردی جائیں گی جہاں ایسے ایک شعبے کی رہنمائی کرنے کے لیے مناسب اشخاص موجود ہوں گے۔
جماعت کے تمام کارکنوں اور خصوصاً مقامی جماعتوں کے امرا کا فرض ہوگا کہ جہاں جہاں اس شعبے میں کام کرنے کی اہلیت رکھنے والے لوگ ملیں ان کے متعلق ضروری معلومات امیر جماعت کو بہم پہنچائیں، نیزمقامی جماعتوں کو اس طرف بھی توجہ کرنی ہوگی کہ اپنے حلقے سے، جس شخص یا اشخاص کو وہ شعبۂ علمی کے لیے مرکز بھیجیں ان کی ضروریات زندگی کفالت کا انتظام مقامی طور پر کرنے کی کوشش کریں۔ علاوہ بریں مقامی جماعتیں اس شعبے کے کام میں اس طرح بھی مدد کرسکتی ہیں کہ اس کے کتب خانے کے لیے ہر علم و فن کی معیاری کتابیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
2۔ شعبۂ نشر و اشاعت
شعبۂ علمی و تعلیمی سے، جو لٹریچر تیار کیا جائے اس کو پھیلانے کا کام اس شعبے کے سپرد ہوگا۔ اس کا فرض ہوگا کہ جماعت کے لٹریچر کو جہاں تک ممکن ہو خدا کے بندوں تک پہنچانے کی کوشش کرے، اس شعبہ کے لیے ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جو نشر و اشاعت کے کام میں مہارت رکھتے ہوں، نیز اس شعبہ کو ایسے آدمیوں کی بھی ضرورت ہے، جو سفر کرکے مختلف مقامات پر جائیں اور مختلف حلقوں میں زبانی تبلیغ بھی کریں، اور اپنا لٹریچر بھی پھیلائیں۔
سر دست یہ شبعہ بھی مرکز میں امیر جماعت کی زیر نگرانی رہے گا، بعد میں کوشش کی جائے گی کہ باہر بھی مختلف مقامات پر ذمہ دار احاب کی نگرانی میں شعبہ نشر و اشاعت کے چھوٹے چھوٹے مرکز قائم کردیے جائیں، جہاں سے اخبار یا رسالے، یا پمفلٹوں اور کتابوں کی شکل میں جماعت کی نمائندگی کرنے والا لٹریچر شائع ہوسکے۔
ہر جگہ جماعت اسلامی کے ارکان کے لیے اور مقامی جماعتوں کے لیے اس شعبے کے ساتھ تعاون کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ طباعت کے کام، یا نشر و اشاعت کے طریقوں میں مہارت رکھتے ہوں، یا اچھے سفری مبلغ بن سکتے ہوں، یا تجارتی پہلو میں اس شعبےکو کامیاب بنانے کی قابلیت رکھتے ہوں وہ اپنی خدمات پیش کریں اور مقامی امرا اس قسم کی صلاحیتیں رکھنے والے اشخاص کی اطلاع ناظم شعبۂ نشر و اشاعت کو دیں۔ دوسرے یہ کہ ہر جگہ مقامی جماعت ایک ریڈنگ روم اور بکڈپو قائم کرے، جس میں ادارے کی مطبوعات جمع کی جائیں۔ جو لوگ پڑھنا چاہیں وہ دیڈنگ روم میں ان کا مطالعہ کریں اور جو خریدنا چاہیں وہ بکڈپو سے کتابیں خریدلیں۔
3۔شعبۂ تنظیم جماعت
║اس شعبے کے فرائض حسب ذیل ہوں گے: (1) کارکنوں کو ہدایت دینا، جہاں مقاقی جماعتیں بن گئی ہوں وہاں کے کام کی نگرانی کرنا، ان سے رپورٹیں طلب کرنا اور ان کو مشورے دینا۔ (2) جہاں انفرادی شکل میں جماعت کے ارکان موجود ہوں وہاں مقامی جماعتیں بنانے کی کوشش کرنا۔(3) جو اشخاص یا ادارے یا جماعتیں عقیدہ اور نصب العین میں اس جماعت سے متفق ہوں ان سے ربط قائم کرنے کی سعی کرنا۔ (4) تحریک کی رفتار کا جائزہ لیتے رہنا اور اس کو آگے بڑھانے کی تدابیر عمل میں لانا۔
اس شعبہ کا صدر دفتر مرکز میں امیر جماعت کے ماتحت ہوگا، خارج میں اس کی تین شاخیں حسب ذیل حلقوں میں قائم کی گئی ہیں:-
1. میرٹھ، بریلی، آگرہ اور لکھنؤ ڈویژن کے لیے صدر مقام بریلی ہے، جہاں محمد منظور صاحب نعمانی مدیر "الفرقان" نائب امیر کی حیثیت سے کام کریں گے۔
2. الہ آباد، بنارس، گورکھ پور، فیض آباد ڈویژن اور صوبہ بہار کے لیے صدر مقام سرائے میر ضلع اعظم گڑھ ہے جہاں امین احسن اصلاحی نائب امیر ہوں گے۔
3. صوبۂ مدراس و دکن کے لیے صدر مقام عمر آباد، ضلع شمالی آرکاٹ ہے جہاں سید صبغۃ اللہ صاحب بختیاری استاذ جامعہ دارالسلام نائب امیر ہوں گے۔
4. انبالہ و جالندھر ڈویژن کے لیے صدر مقام کپورتھلہ ہے جہاں سید محمد جعفر صاحب پھلواروی خطیب جامع کپورتھلہ نائب امیر ہوں گے۔
مذکورہ بالا حلقوں میں جماعت کے ارکان انفرادی طور پر رہتے ہوں، یا جو مقامی جماعتیں بنی ہوئی ہوں وہ جملہ معاملات میں اپنے اپنے حلقے کے نائب امیر کی طرف رجوع کریں۔ اور ان حلقوں کے ماسوا دوسرے مقامات پر جو اشخاص یا جماعتیں ہوں وہ سردست مرکزی دفتر سے تعلق رکھیں، بعد میں مزید حلقے قائم کرنے اور نائبین مقرر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
4۔ شعبۂ مالیات
سابق میں ادارۂ دارالاسلام کے حسابات 31 اگست 1941ء تک ختم کرکے جماعت اسلامی کی طرف منتقل کردیے گئے اور جماعت کا مرکزی بیت المال قائم کردیا گیا، جو براہ راست امیر جماعت کے ماتحت رہے گا۔ نیز ہر جگہ کی مقامی جماعتوں کے لیے طے کیا گیا کہ ہر جماعت اپنا مقامی بیت المال قائم کرکے مقامی ضروریات کو مقامی آمدنی سے پورا کرے، اپنے سہ ماہی حسابات اپنے حلقے کے نائب امیر کو، یا کوئی حلقہ نہ ہونے کی صورت میں امیر جماعت کو بھیجتی رہے۔ اور جب مرکزی بیت المال کو مدد کی ضرورت ہو تو امیر کی طرف سے حکم آنے پر اپنی زیر تحویل رقوم بھیج دے۔
سردست آمدنی کی سب سے بڑی مد ادارۂ دارالاسلام کی مطبوعات ہیں اور ان کی کثرت اشاعت پر ہی جماعت کے کام کی ترقی موقوف ہے۔ اس مد کی تمام آمدنی مرکزی بیت المال میں آنی چاہیئے۔ دوسری مد زکٰوۃ ہے۔ تمام ارکان جماعت جو صاحب نصاب ہوں اپنی زکٰوۃ مقامی جماعت کے بیت المال میں داخل کریں یا مقامی جماعت موجود نہ ہو تو مرکز میں بھیجیں۔ تیسری مد رقوم اعانت ہیں۔ جماعت کے ذی استطاعت ارکان کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ جس قدر مالی ایثار کرسکتے ہوں کریں اور جماعت کو مالی حیثیت سے مضبوط بنائیں۔ رہے جماعت کے باہر کے لوگ تو ان سے کوئی مدد طلب نہ کی جائے ۔ البتہ اگر وہ بخوشی اور بلا شرط خود کوئی مدد دینا چاہیں تو قبول کرلی جائے۔ لیکن کوئی بڑی سے بڑی مالی اعانت بھی اس صورت میں قبول نہ کی جائے جب کہ یہ اندیشہ ہو کہ اس کے معاوضے میں جماعت کی پالیسی پر اثر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔
║یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے موجودہ مالی پوزیشن بھی ظاہر کردی جائے۔ 1928ء میں جب ادارۂ دارالاسلام قائم کیا گیا تھا تومودودی صاحب موجودہ امیر جماعت نے اپنی تمام کتابیں (باستثنا الجہاد فی الاسلام و رسالۂ دینیات اردو و انگریزی) ادارے کے لیے وقف کردی تھیں۔ 7/جنوری 1939ء کو 132 روپے کے سرمایہ سے کام شروع کیا گیا ۔ اس وقت سے 31/اگست1941ءتک آمد و خرچ کی تفصیل حسب ذیل ہے:
آمدنی
از مد فروخت کتب3948روپے 615پائی
از مد زکٰوۃ130 روپے
از مد اعانت اہل خیر638روپے 12آنہ
میزان4717روپے6/11پائی
ابتدائی سرمایہ132 روپے
جملہ4849روپے 6/11پائی
جملہ آمدنی4948روپے6/11پائی
جملہ خرچ4774 روپے 6/13پائی
باقی47 روپے 14 آنہ
خرچ
طباعت کتب3200 روپے 6/3 پائی
خرچ ڈاک590 روپے 9/4 پائی
تنخواہ ملازمین480 روپے
سفر خرچ135 روپے 13 آنہ 3 پائی
مصارف دارالاقامہ125 روپے 1 آنہ
مصارف از مد زکٰوۃ63 روپے
متفرقات36 روپے 11 آنہ
اسٹیشنری27 روپے 3 آنہ 6 پائی
مصارف اجتماع اول116 روپے 8 آنہ 6 پائی
4774 روپے 3 آنہ 6 پائی
اس کے علاوہ ادارے کی جو رقوم تاریخ مذکورہ تک مختلف تاجروں اور ایجنٹوں کے ذمہ واجب الادا تھیں ان کی مقدار 1356 روپے 2 آنہ تھی۔ اور جو ذخیرۂ کتب ادارہ کے دفتر میں 31اگست 1941ء کو موجود تھا اس کی قیمت کا تخمینہ 2014 روپے ہے۔
║5۔ یہ شعبہ اس جماعت کا سب سے اہم شعبہ ہے۔ اور دراصل جماعت کی کامیابی کا انحصار ہی اس شعبے کی کاگزاری پر ہے، ہر شخص جو جماعت اسلامی کا رکن ہو، لازمی طور پر اس شعبہ کا رکن ہوگا۔ اس کو دائماً ایک مبلغ کی زندگی بسر کرنی ہوگی۔ اس کے لیے لازم ہوگا کہ جہاں جس حلقہ میں بھی اس کی پہنچ ہوسکتی ہو، جماعت کے عقیدے کو پھیلائے، اس کے نصب العین کی طرف دعوت دے، اور جماعت کے نظام کی تشریح کرے، مگر تبلیغی مصالح کے لحاظ سے یہ ضروری معلوم ہوا کہ کام کرنے کے لیے آٹھ مختلف حلقے متعین کردیے جائیں اور جماعت کا ہر رکن اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے صرف انہیں حلقوں میں تبلیغ کرے جن سے وہ زیادہ مناسبت رکھتا ہو۔ یہ حلقے حسب ذیل ہیں:
1۔کالجوں اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا حلقہ2۔علما اور مدارس عربیہ کہ حلقہ3۔صوفیہ اور مشائخ طریقت کا حلقہ
4۔سیاسی جماعتوں کا حلقہ5۔شہری عوام کا حلقہ6۔دیہاتی عوام کا حلقہ8۔عورتوں کا حلقہ8۔غیر مسلموں کا حلقہ
ہر کارکن کو اپنے متعلق ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا چاہیئے کہ وہ ان میں سے کس حلقہ یا کن حلقوں میں تبلیغ کا اہل ہے۔ جن حلقوں میں کام کرنے کی اہلیت وہ اپنے اندر نہ محسوس کرتا ہو، یا تجربے سے اس کو معلوم ہوجائے کہ وہ فلاں حلقوں میں ناکام رہے گا تو ان میں تبلیغ کرنے سے اس کو پرہیز کرنا چاہیئے۔ تاکہ وہ لوگوں کو قریب لانے کے بجائے دور پھینک دینے کا موجب نہ بن جائے۔
تبلیغ کے سلسلے میں جو مشکلات پیش آئیں ان میں رہنمائی کے لیے مقامی امرا یا نائبین ، یا خود امیر جماعت سے رجوع کیا جائے۔
مذکورۂ بالا لائحۂ عمل طے ہونے کے بعد 4/شعبان ہی کو پھر اجتماع عام ہوا، جس میں امیر جماعت نے حاضرین کو اس لائحۂ عمل کے تفصیلات سے آگاہ کیااور پھر کام کرنے کے لیے حسب ذیل ہدایات دیں:
(1) ہر وہ بستی جہاں دو آدمی ایسے موجود ہوں جو جماعت اسلامی میں داخل ہوچکے ہوں، وہاں لازم ہے کہ مقامی جماعت بنالی جائے اور دونوں میں سے ایک صالح تر آدمی مقامی امیر منتخب کیا جائے، اور امیر جماعت کو اطلاع دے کر اس کے انتخاب کی منظوری حاصل کی جائے۔ علٰی ہذا القیاس جہاں دو سے زیادہ آدمی شریک جماعت ہوں وہاں بھی بلا کسی نفسانیت کے کسی ایسے آدمی کو مقامی امارت کے لیے نامزد کیا جائے، جو زیادہ نیک سیرت، منبع شریعت، معاملہ فہم اور تحریک اسلامی کے مزاج کو سمجھنے والا ہو اور جس کو بستی کے لوگ بالعموم عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں۔ مگر مقامی لوگوں کا کسی کو منتخب کرلینا مقامی امارت کے لیے کافی نہ ہوگا تاوقتیکہ امیر جماعت اس کے تقرر کی اجازت نہ دے۔
(2) امیر جماعت اگر مصالح اجتماعی کے لحاظ سے کسی کو مقامی امارت یا کسی دوسرے منصب پر مقرر نہ کرے یا کسی کو معزول کرکے دوسرے کو مقرر کودے تو اس پر برا نہ ماننا چاہیئے۔ اس معاملے میں اصل چیز نصب العین کی خدمت ہے نہ کہ شخصی اعزاز، جس شخص کو آپ نے اپنی جماعت کا امیر منتخب کیا ہے اس پر اعتماد کیجیے کہ وہ جماعت کی عظیم تر مصلحتوں کے لحاظ ہی سے عزل و نصب کرے گا۔
(3) جماعت میں جب کوئی نیا شخص داخل ہو تو اسے پورا احساس ذمہ داری دلا کر ازسرنو کلمۂ شہادت ادا کرایا جائے۔ اس تجدید ایمان کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو شخص آج تجدید کررہا ہے وہ اب تک کافر تھا اور اب اسلام لارہا ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو عہد اس اور خدا کے درمیان پہلے سے موجود تھا آج وہ اسے تازہ اور مضبوط کررہا ہے، تجدید ایمان کے موقعےپر یہ بات ہر نئے داخل ہونے والے رکن کے ذہن نشین کردینی چاہیے کہ یہ دراصل زندگی کے ایک نئے باب کا افتتاح ہے ۔ آج سے تمہاری ذمہ دارانہ زندگی کا آغاز ہورہاے ہے، آج سے تم ایک پابند نظام مومن کی حیثیت سےاپنی زندگی شروع ║کررہے ہو، آج سے تمہاری زندگي ایک بامقصد زندگی بن رہی ہے۔ اور تم خدا اور مومنوں کو گواہ بنا رہے ہو کہ تمہاری تمام سعی و جہد اس مقصد کے لیے اس نظام کی پابندی میں صرف ہوگی۔
(4) جو شخص جماعت میں داخل ہو اس کو تحریک اسلامی کے لٹریچر کا بیشتر حصہ پڑھوادیا جائے ، تاکہ وہ اس تحریک کے تمام پہلوؤں سے واقف ہوجائے اور تحریک کے ارکان میں ذہنی و عملی ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔ اس معاملے میں کسی کے متعلق یہ فرض نہ کرلیا جائے کہ وہ تو پہلے ہی سے سب کچھ سمجھتا ہوگا۔ اگر اس مفروضے پر ایسے لوگوں کی بڑی تعداد جماعت میں داخل کرلی گئی ، جو اس تحریک کے لٹریچر پر نظر نہ رکھتے ہوں تو اندیشہ ہے کہ جماعت کے ارکان متضاد باتیں اور متضاد حرکات کریں گے۔ جو لوگ تعلیم یافتہ نہ ہوں ان کو زبانی طور پر ضروری مطالب سمجھا دیے جائیں اور تحریک کے مزاج کے مطابق ان کی ذہنیت تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس غرض کے لیے ہر مقامی جماعت میں کم از کم دو ایسے آدمیوں کا رہان ضروری ہے جنہوں نے خوب گہری نظر سے ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہو۔
(5) مقامی امرا اپنے حلقے کے ارکان جماعت کی صلاحیتوں کا فرداً فرداً جائزہ لیں اور جو شخص جس کام کا اہل ہو اس کو ہی کام سپرد کویں اور برابر دیکھتے رہیں کہ وہ اپنے کار مفوضہ کو کس طرح انجام دیتا ہے۔ اس معاملے میں ہر رکن جماعت کو خود بھی اپنی قوتوں اور قابلیتوں کا بے لاگ تخمینہ _بلا انکسار اور بلا مبالغہ) کرنا چاہیے اور اپنے سردار کو بتا دینا چاہیے کہ وہ کیا کام کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا۔
(6) ہر جگہ جہاں مقامی جماعت موجود ہو تمام ارکان جماعت کو جمعہ کے روز خواہ صبح یا شام، یا بعد نماز جمعہ ایک جگہ جمع ہونا چاہیے۔ اس اجتماع میں ہفتہ بھر کے کام کا جائزہ لیا جائے، آئندہ کام کے لیے باہمی مشورے سے تجاویز سوچی جائیں، بیت المال کے حسابات دیکھے جائیں اور تحریک کے لٹریچر کے متعلق کوئی نئی چیز شائع ہوئی ہو تو اس کا مطالعہ کیا جائے۔
(7) جماعت کے ارکان کو قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرۃ صحابہ سے خاص شغف ہونا چاہیے۔ان چیزوں کو بار بار زیادہ گہری نظر سے پڑھا جائے اور محض عقیدت کی پیاس بجھانے کے لیے نہیں بلکہ ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے، جہاں ایسا کوئی آدمی موجود ہو جو قرآن کا درس دینے کی اہلیت رکھتا ہو وہاں درس قرآن شروع کردیا جائے۔
(8) اس تحریک کی جان دراصل تعلق باللہ ہے۔ اگر اللہ سے آپ کا تعلق کمزور ہو تو آپ حکومت الہیہ قائم کرنے اور کامیابی کے ساتھ چلانے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا فرض عبادات کے ماسوا نفل عبادات کا بھی التزام کیجیے۔ نفل نماز، نفل روزے اور صدقات وہ چیزیں ہیں ، جو انسان میں خلوص پیدا کرتی ہیں، اور ان چیزوں کو زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ کرنا چاہیے تاکہ ریا پیدا نہ ہو۔ نماز سمجھ کر پڑھیے، اس طرح نہیں کہ ایک یاد کی ہوئی چیز کو آپ زبان سے دہرارہے ہیں، بلکہ اس طرح کو آپ خود اللہ سے کچھ عرض کررہے ہیں۔ نماز پڑھتے وقت اپنے نفس کا جائزہ لیجیے کہ جن باتوں کا اقرار آپ عالم الغیب کے سامنے کررہے ہیں کہیں آپ کا عمل ان کے خلاف تو نہیں ہے اور آپ کا اقرار جھوٹا تو نہیں ہے۔ اس محاسبۂ نفس میں جو کوتاہیاں آپ کو محسوس ہوں ان پر استغفار کیجیے، اور آئندہ ان خامیوں کو رفع کرنے کی کوشش کیجیے۔ عبادات میں اس امر کا خیال رکھیے جس قدر عمل آپ دائماً پابندی سے کرسکتے ہوں بس اسی کا التزام کیا جائے۔ نیز یہ کہ ان تمام مجاہدوں اور ریاضتوں اور مشاغل و اوراد سے پرہیز کیا جائے، جو احادیث صحیحہ سے ثابت نہ ہوںی اور احادیث کی صحت کے باب میں محدثین ہی سند ہوسکتے ہیں نہ کہ غیر محدثین، خواہ وہ بجائے خود کتنی ہی بڑی شخصیت کے بزرگ ہوں، زیادہ خطرناک بدعات وہ بری چیزیں نہیں، جن کی برائی کو سب جانتے ہیں بلکہ وہ بظاہر اچھی چیزیں ، جن کو اچھا سمجھ کر شریعت میں اضافہ کرلیا جاتا ہے۔
(9) ║جماعت کے ارکان کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ایک بہت بڑا دعویٰ لے کر بہت بڑے کام کے لیے اٹھ رہے ہیں۔ اگر ان کی سیرتیں ان کے دعوے کی نسبت اس قدر پست ہوں کہ نمایاں طور پر ان کی پستی محسوس ہوتی ہو تو وہ اپنے آپ کو اور اپنے دعوے کو مضحکہ بنا کر رکھ دیں گے، اس لیے ہر شخص کو، جواس جماعت میں شامل ہو، اپنی دوہری ذمہ داری محسوس کرنا چاہیے۔ خدا کے سامنے تو وہ بہرحال ذمہ دار ہے، مگر خلق کے سامنے بھی اس کی ذمے داری بہت سخت ہے۔ جس بستی میں آپ لوگ موجود ہوں وہاں عام آبادی سے آپ کے اخلاق بلند تر ہونے چاہیئں۔ بلکہ آپ کو بلندی اخلاق ، پاکیزگی سیرت، اور دیانت و امانت میں ضرب المثل بن جانا چاہیے۔ آپ کی ایک معمولی لغزش نہ صرف جماعت کے دامن پر بلکہ اسلام کے دامن پر دھبہ لائے گی اور بہت سے لوگوں کے لیے سبب گمراہی بن جائے گی۔
(10) جماعت کے ارکان کو ایسے تمام طریقوں سے پرہیز کرنا چاہیے، جو ان کو مسلمانوں میں ایک فرقہ بنانے والے ہوں۔ اپنی نمازیں عام مسلمانوں سے الگ نہ پڑھیے، نماز میں اپنی جماعت الگ نہ بنائيے۔ بحثیں مناظرے نہ کیجیے۔ جہاں تحقیق کے لیے نہیں بلکہ ضد اور مخالفت کی بنا پر اس تحریک کو معرض بحث میں لایا جائے وہاں صبر و ضبط سے کام لیجیے(خصوصاً جہاں میری ذات پر حملے کیے جائیں وہاں تو ہرگز مدافعت نہ کیجیے) میں نہ خود اپنی مدافعت کرتا ہوں اور نہ اپنے رفیقوں کو چاہتا ہوں کہ وہ اس فضول کام میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کریں البتہ جہاں کوئی شخص سنجیدگی سے طالب حق ہو وہاں اپنی تائید میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔ مگر جب بحث میں گرمی آتی محسوس ہو تو سلسلۂ بحث بند کردیجیے۔ کیوں کہ مناظرہ وہ بلا ہے جس سے ہزار فتنے پیدا ہوتے ہیں اور کوئی ایک فتنہ بھی فرو نہیں ہوتا۔
(11) تحریک اسلامی اپنا ایک خاص مزاج رکھتی ہے اور اس کا ایک مخصوص طریق کار ہے، جس کے ساتھ دوسری تحریکوں کے طریقے کسی طرح جوڑ نہیں کھاتے ،جو لوگ اب تک مختلف قومی تحریکوں میں حصہ لیتے رہے ہیں اور جن طبیعتیں انہی طریقوں سے مانوس رہی ہیں، انہیں اس جماعت میں آکر اپنے آپ کو بہت کچھ بدلنا ہوگا۔ جلسے اور جلوس، جھنڈے اور نعرے، یونیفارم اور مظاہرے، یزولیوشن اور ایڈریس، بے لگام تقریریں اور گرما گرم تحریریں، اور اس نوعیت کی تمام چیزیں ان تحریکوں کی جان ہیں۔ مگر اس تحریک کے لیے سم قاتل ہیں۔ آپ کو زبان یا قلم یا مظاہروں سے عوام پر سحر نہیں کرنا ہے کہ ان کے ریوڑ کے ریوڑ آپ کے پیچھے آجائیں اور آپ انہیں ہانکتے پھریں۔ آپ کو ان میں حقیقت اسلامی کی معرفت پیدا کرنی ہے، اور عرفان حقیقت کے بعد ان میں یہ عزم پیدا کرنا ہے کہ اپنی انفرادی زندگی اور گرد و پیش کی اجتماعی زندگی کو اس حقیقت کے مطابق بنائیں اور جو کچھ باطل ہو اس کو مٹانے میں جان کی بازی لگادیں۔ لوگوں کے اندر یہ گہری تبدیلی ساحری اور شاعری سے پیدا نہیں ہوا کرتی، آپ میں سے جو مقرر ہوں وہ پچھلے انداز تقریر کو بدلیں اور ذمہ دار مومن کی طرح جچی تلی تقریر کی عادت ڈالیں اور جو محرّر ہیں انھیں بھی غیر ذمہ دارانہ انداز تحریر کو بدل کر اس آدمی کی سی تحریر اختیار کرنی چاہیئے، جو لکھتے وقت احساس رکھتا ہے کہ اسے اپنے ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے۔
(12) اسلامی تحریک میں کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے گرد وپیش جو ہنگامے دنیا طلب لوگوں نے پرپا کررکھے ہیں اور جن کا آپ کی تحریک کے نصب العین سے کوئی تعلق نہیں ہے ان سے آپ اس قدر بے تعلق ہوکر رہیں کہ گویا وہ آپ کے لیے معدوم محض ہیں۔آپ کو اسمبلیوں ، ڈسٹرکٹ بورڈوں اور ان کے الیکشنوں سے اور ہندو اور مسلمان اور سکھ وغیرہ قوموں کے نفسیاتی جھگڑوں سے، اور مختلف پارٹیوں اور مذہبی فرقوں اور مقامی قبیلوں اور برادریوں کے نزاعات سے بالکل کنارہ کش رہنا چاہیئے۔ بالکل یکسو ہوکر اپنے نصب العین کے پیچھے لگ جائیے اور دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے ہونے دیجئے، جو عمل خدا کی راہ میں نہیں ہے اس میں مشغول ہوکر آپ اپن وقت اور اپنی قوتیں ضائع کریں گے، حالاں کہ آپ کو اپنے وقت اور قوتوں کا حساب دینا ہے۔
(13) ║اپنے مسلک کی تبلیغ میں حکمت اور موعظ حسنہ ملحوظ رکھیے۔ حکمت یہ ہے کہ آپ مخاطب کی ذہنیت کو سمجھیں، اس کی غلط فہمی یا گمراہی کے اصل سبب کی تشخیص کریں اور اس کو ایسے طریقے سے تلقین کریں، جو زیادہ سے زیادہ اس کے مناسب حال ہو۔ اور موعظۂ حسنہ یہ ہے کہ جس پر آپ تبلیغ کریں اس کے سامنے آپ اپنے آپ کو دشمن اور مخالف کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کے بہی خواہ اور دردمند کی حیثیت سے پیش کریں، اور ایسے باوقار، بلیغ اور شیریں انداز سے راہ راست کی طرف دعوت دیں، جو کم سے کم تلخی پیدا کرنے والا ہو، اس کے ساتھ دو باتیں اور بھی ملحوظ رکھیے،ایک یہ کہ جو شخص ہدایت سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہو اور دنیا کی زندگی میں مست ہو اس کے پیچھے نہ پڑئیے، بلکہ جس میں یہ کیفیت نظر آئے اس سے اعراض کیجیے۔ دوسرے یہ کہ بے موقع تبلیغ نہ کیجیے۔ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ دعوت الی الخیر سننے یا کسی نصیحت کو قبول کرنے کے موڈ میں نہ ہو اس وقت دعوت دینا ، یا تشدد، الحاح، زجر اور تلطف وغیرہ طریقوں کو بے محل استعمال کرنا بجائے مفید اثر ڈالنے کے الٹا خراب اثر ڈالتا ہے۔بعض لوگ کام کرنے کے جوش میں ان حدود کو نظر انداز کرجاتے ہیں، حالانکہ اسلام ایک حکیمانہ دین ہے، اور اس کے مبلغ کو حکیم ہونا چاہیئے۔
یہ ہدایات دینے کے بعد امیر جماعت او ر اصحاب شوریٰ ایک الگ کمرے میں بیٹھ گئے اور ارکان جماعت کو علاحدہ علاحدہ بلا کر ہرایک کے حالات اور صلاحیتوں کے لحاظ سے کام سپرد کیا، نیز جہاں جہاں مقامی جماعتیں بن چکی تھیں وہاں کے لیے امرا کا تقرر کیا۔
۵/شعبان
کل کا بقیہ کام آج انجام دے کر اجتماع عام ختم کردیا گیا، پھر امیر جماعت نے اصحاب شوریٰ کے مشورے سے حسب ذلی امور طے کیے۔
1. جماعت کے ارکان میں جو لوگ اہل قلم ہوں ان کو چاہیئے کہ ملک کے اخبارات و رسائل میں جماعت کے نظریے کو پھیلانے اور جماعت کے متعلق جو غلط فہمیاں شائع ہورہی ہیں ان کا سدّباب کرنے کی باحسن طریق سے کوشش کریں۔
2. جماعت کر ارکان کا اجتماع عام ہر سال کیا جائے، جس کے لیے موسم اور دوسرے اعتبارات سے مارچ کا مہینہ موزوں رہے گا۔ اجتماع عام کے موقع پر جن لوگوں کو امیر جماعت مناسب سمجھے یا جن کے متعلق امرا سفارش کریں ، انہیں ایک مہینہ تک مرکز میں تربیت کے لیے روک لیا جائے۔
3. جماعت کے چند منتخب ارکان ، جو ہر اعتبار سے جماعت کے مسلک کی بہترین ترجمانی کرسکتے ہوں، سال میں ایک مرتبہ وفد یا وفود کی شکل میں ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کریں اور دعوت عام کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ ملک کے بڑے بڑے اداروں ، کالجوں، یونیورسٹیوں، دینی مدرسوں اور انجمنوں میں نفاذ کی کوشش کریں۔
4. طے ہوا تھا کہ ایک ہفتہ وار اخبار جماعت کی طرف سے جاری کیا جائے اور اس کے لیے عبداللہ مصری صاحب نامزد بھی کردیے گئے تھے۔ مگر اب نصر اللہ خان عزیز صاحب کے شریک جماعت ہوجانے کے بعد ان تجویز کو سردست عملی جامہ پہنانے کی ضرورت نہیں رہی۔ جماعت کی ضروریات کے لیے جناب عزیز کا اخبار "مسلمان" (لاہور)اب کافی ہوگا۔
روداد مجلس شوریٰ محرم ۱۳۶۱ھ
جنگ کی وجہ سے ملک میں جو اضطراب کی حالت پیدا ہوچکی ہے، اس کی وجہ سے یہ مناسب نہ سمجھا گیا کہ مارچ میں جماعت کے ارکان کا اجتماع عام منعقد کیا جائے۔ اس لیے امیر جماعت نے حسب ذیل مجلس شوریٰ کو طلب کیا تاکہ جو فیصلہ طلب امور ہیں ان کے متعلق مشورہ کرکے فیصلہ کیا جائے:-
║محمد منظور صاحب نعمانی (بریلی) امین احسن صاحب اصلاحی(سرائے میر) ابوالحسن علی صاحب (لکھنؤ) سید محمد جعفر صاحب (کپورتھلہ) نذیر الحق صاحب میرٹھی۔ محمد علی صاحب کاندھلوی (سیالکوٹ) عبد العزیز صاحب شرقی (جالندھر) نصر اللہ خان صاحب عزیز (لاہور)چودھری محمد اکبر صاحب (لائلپور)ڈاکٹر سید نذیر علی صاحب (الہ آباد) مستری محمد صدیق صاحب، عبد الجبار صاحب غازی (دہلی) قمرالدین خاں صاحب ، عطاء اللہ صاحب(بنگال) محمد بن علی علوی صاحب، محمد یوسف صاحب(بھوپال)
۲۶،۲۷،۲۸ فروری ۱۹۴۲ء کو مجلس شوریٰ کے اجتماع ہوئے۔ سب سے پہلے تمام شرکاء نے فرداً فرداً تحریک کی عام رفتار اور بالخصوص اپنے اپنے علاقوں کے کام پر تبصرہ کیا، اپنے تجربات بیان کیے، اور اپنی اپنی مقامی جماعتوں کے مشورے سے جو تجاویز لے کر آئے تھے اور کام کو آگے بڑھانے کے لیے جن امور کی ضرورت وہ محسوس کرتے تھے انہیں پیش کیا۔پھر امیر جماعت نے ایک مفصل تقریر میں جماعت کے اب تک کے کام پر تبصرہ کیا اور بتایا کہ جماعت کے نظام میں کیا کیا خامیاں پائی جاتی ہیں، ان کے اسباب کیا ہیں، آئندہ کے لیے نظام جماعت کو بہتر بنانے اور تحریک کو باحسن وجوہ آگے لے چلنے کے لیے کن تدابیر کی ضرورت ہے، اور وہ مشکلات کیا ہیں ، جن کی وجہ سے کام کی رفتار اتنی اچھی نہیں ہے، جتنی ہونی چاہیئے تھی۔اس کے بعد مشورے باہمی سے جو امور بالاتفاق طے ہوئے وہ حسب ذیل ہیں:
1. جماعت کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ نظام جماعت میں بعض ایسے اصحاب بھی پائے جاتے ہیں، جو ذہنی حیثیت سے ابھی تک یکسو نہیں ہوئے ہیں اور اس جماعت کے مسلک اور طریق کار کو پوری طرح سمجھے بغیر جماعت میں داخل ہوگئے ہیں، اور ان سے کچھ زیادہ تعداد ایسے ارکان کی ہے، جن کی زندگی میں قابل اطمینان تبدیلی نہیں ہوئی ہے، یا جن کے اندر اپنے نصب العین کےلئے کام کرنے کا اندرونی جذبہ ابھی تک اتنا مشتعل نہیں ہوا ہےکہ وہ کسی بیرونی تحریک کے بغیر خود اپنے جذب دل کے تقاضے سے سرگرم عمل ہوں۔اس خامی کو دور کرنے کے لیے مقامی جماعتوں کے امرا کو امور ذیل کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیے:
اولاًارکان جماعت کی تعداد میں اضافہ کرنے کی خاطر خام یا نیم پختہ آدمیوں کی بھرتی نہ کی جائے، بلکہ صرف ان لوگوں کو جماعت میں داخل کیا جائے جو جماعت کے مسلک کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوں، جن کے خیالات میں پراگندگی باقی نہ رہی ہو، اور جنہوں نے دستور جماعت کی ذمہ دریوں کو بھی سمجھ لیا ہو۔
ثانیاً عام طور پر لوگوں کو شرکت جماعت کی دعوت نہ دی جائے بلکہ اس عقیدے اور نصب العین کی تبلیغ کی جائے، جس پر یہ جماعت قائم ہوئی ہے۔ پھر ان میں سے جو لوگ اس حد تک متاثر ہوجائیں کہ ان کی زندگی میں عملاً تبدیلی ہونی شروع ہوجائے، اور وہ خود جستجو کرنے لگیں کہ اس نصب العین کے لیے کام کرنے کا راستہ کیا ہے۔ تب ان کے سامنے جماعت کا دستور پیش کیا جائے۔ او ر دستور کو دیکھ کر جب وہ جماعت میں شریک ہونے کی خود خواہش کریں تب بھی فوراً داخل جماعت نہ کرلیا جائے بلکہ انہیں بار بار سوچنے کا موقع دیا جائے۔ اور جب وہ خوب سوچ سمجھ کر شرکت جماعت کا فیصلہ کریں تو ادائے شہادت کی ذمہ داریاں پوری طرح محسوس کراکے ان سے شہادت ادا کرائی جائے۔
ثالثاً یہ بات ہمیشہ ارکان جماعت کے ذہن نشین کرائی جاتی رہے کہ جماعت میں شریک ہوتے وقت انہوں نے اپنے خدا سے جو اقرار کیا ہے اسے پورا کرنا اور جو ذمہ داریاں قبول کی ہیں ان کو ادا کرنا اب ان کا اپنا کام ہے۔ انہیں اس بات کا محتاج نہ ہونا چاہیے کہ کوئی دوسرا انہیں اکسائے تو وہ کام کریں بلکہ انہیں انہیں خود اپنے جذبۂ ایمانی سے بھی اپنے مقصد زندگی کے لیے سرگرم ہونا چاہیے۔
║رابعاًانہیں ارکان جماعت کو نماز اور قرآن سمجھ کر پڑھنے اور ہر نماز و تلاوت کے وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کی تلقین کرنی چاہیئے۔ کیوں کہ اس ذریعہ سے نفوس کا تزکیہ بھی ہوگا اور دلوں میں وہ آگ بھی بھڑکے گی جو عمل پر ابھارنے والی ہے۔
خامساً ہر مقامی امیر کو اپنی جماعت کے ارکان پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور ان میں جو خامیاں محسوس ہوں، حکمت کے ساتھ ان کی اصلاح کرنی چاہیے۔
2. چوں کہ تبلیغ و دعوت کے کام میں ارکان جماعت کی رہنمائی کرنا ، ارکان کی اخلاقی تربیت کرنا اور جماعت کی تحریک کو ٹھیک ٹھیر صحیح راستے پر آگے بڑھانا مقامی جماعتوں کے امرا کا کام ہے ، اور ان اہم ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے خود ان کی اپنی تیاری بھی ضروری ہے۔ اس لیے طے کیا گیا ہے کہ مقامی جماعتوں کے امرا ہر سال کم ازکم ایک ایک دو دو مہینے کے لیے امیر جماعت کے ساتھ آکر رہیں، اس امر کا تعین کو کون صاحب کس مہینے آئیں ہر ایک کے اپنے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے، جن صاحب کے لیے جس مہینے آنا ممکن ہو، وہ امیر جماعت سے مراسلت کرکے خود طے کرلیں۔ نیز اگر وہ اپنے حلقے سے خاص خاص ارکان میں سے بھی کسی کو ساتھ لانا چاہیں تو لاسکتے ہیں۔
3. اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ جماعت کے چند بہترین دل و دماغ کے لوگ مرکز میں مستقل طور پر رہیں ۔ اور مرکز کسی ایسی جگہ بنایا جائے جہاں نہ صرف کارکنوں کی تربیت کا اچھا انتظام کیا جاسکتا ہو، بلکہ اس کے گرد و پیش کے علاقے میں کچھ نمونے کا کام بھی کیا جائے ، تاکہ دعوت و تبلیغ کا عملی تجربہ بھی کارکنوں کو حاصل ہوسکے۔ اس سلسلے میں مرکز کے لیے مقام کا انتخاب اور ان اشخاص کا انتخاب ، جن کا مرکزمیں رہنا ضروری ہے،اور دیگر عملی تدابیر کو امیر جماعت پر چھوڑدیا گیا ہے۔
4. دعوت و تبلیغ کے لیے لٹریچر کی تیاری کا بار اب تک امیر جماعت پر رہا ہے۔ لیکن اب ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ جماعت میں جو لوگ اہل قلم ہیں وہ اس کام میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق حصہ لیں۔
5. دستور جماعت پر باہر سے جو اعتراضات ہوئے ہیں ، اور خود ارکان جماعت نے تجربے اور تدبر سے جن اصلاحات کی ضرورت ظاہر کی ہے، ان پر غور کیا گیا، اور اصلاح کے بعد طے کیا گیا کہ نیا ترمیم شدہ دستور شائع کیا جائے۔
║جماعت کے عارضی مرکز کا قیام
فروری ۱۹۴۴ء کے اجتماع ِ شوریٰ میں مختلف مصالح کو پیش نظر رکھتے ہوئے طے کیا گیا تھا کہ ایک مرکزی ادارہ قائم کرنے کے لیے اگر کوئی مستقل مقام میسر نہیں آتا تو سردست عارضی طور پر ہی ایک مرکز بنا لیا جائے تاکہ ہم اپنی قوت کے ایک معتد بہ حصے کو مجتمع کرسکیں۔ اور ضروری تعمیری کاموں کی بنا رکھ دیں، اس غرض کے لیے ابتداءً سیالکوٹ کے ضلع میں ایک مناسب مقام تجویز کرلیا گیا تھا اور بیرونی جماعتوں کو اس کی اطلاع بھی دے دی گئی تھی مگر بعد میں چند اسباب سے اس تجویز کو ترکاکردینا پڑا پھر ارکانِ شوریٰ کے مشورے سے پٹھان کوٹ کے قریب قریہ جمال پور کی طرف منتقل ہونے کا فیصلہ کیا گیا، جہاں چودھری نیاز علی خاں صاحب نے ازراہِ عنایت اپنے وقف کی عمارات ہمیں مستعار دینا قبول فرمالیا۔ چنانچہ اس فیصلے کے مطابق ۱۵/ جون ۱۹۴۲ء کو امیر جماعت نے چند رفقا سمیت وہاں نقلِ مقام کیا اور اس وقت سے یہ مقام جماعت کا مرکز قرار پاگیا۔یہ جگہ ریلوے اسٹیشن سرنا سے تقریباً دو فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے۔ سردست اسے عارضی طور پر ہی مرکز بنایا گیا ہے۔ مستقل مرکز کا انتخاب ان شاء اللہ جنگ کے بعد اجتماع ِ عام میں کیا جائے گا۔
اس نئے مرکز میں کام کرنے کے لیے جو نقشہ بنایا گیا ہے اس کو ہم چار عنوانات پر تقسیم کرتے ہیں:
۱۔ تعلیم و تربیت۲۔ علمی تحقیق۳۔ دعوتِ عام۴۔ معاشی تدابیر
یہاں ہم ان عنوانات کے تحت اس نقشے کو بہ ترتیب بیان کریں گے تاکہ پیش نظر کا کی نوعیت اور اس کی عملی صورت اچھی طرح واضح ہوجائے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اس کام کو چلانے اور فروغ دینے کے لیے کس قسم کے آدمیوں اور کن وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے۔ "جماعت اسلامی" کے تحت جو جماعتیں ہندوستان کے مختلف مقامات پر قائم ہیں، ان کے امرا کو وقتاً فوقتاً اپنی مقامی جماعتوں کے ارکان کی صلاحیتوں اور اپنے جماعتی وسائل کا پوری طرح جائزہ لے کر مرکز کو مطلع کرتے رہنا چاہیئے کہ کس کس شعبے میں کام کرنے کے لیے ان کے پاس کس قابلیت کے آدمی موجود ہیں۔ اور ہر جماعت ان کاموں کو چلانے کے لیے کیا وسائل بہم پہنچاسکتی ہے۔جہاں جماعتیں موجود نہیں ہیں اور صرف ارکان انفرادی حیثیت میں موجود ہیں وہاں ہر فرد جماعت بطور خود اس نقشہ کو پیش نظر رکھ کر اپنا اور اپنے ذرائع کا جائزہ لے اور ہمیں بتائے کہ وہ اس سلسلہ میں کیا کام کرسکتا ہے یا کیا ذرائع بہم پہنچاسکتا ہے، نیزجو لوگ جماعت میں شریک نہیں ہیں مگر اس کام سے دلچسپی اور ہمدردی رکھتے ہیں وہ بھی اگر کسی حیثیت سے اس میں حصہ لینا چاہیں تو ہمیں مطلع فرمادیں کہ وہ کس نوعیت کا کتنا حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔
۱۔ تعلیم و تربیت
║سب سے پہلا کام جو ہم یہاں کرنا چاہتے ہیں ایک درسگاہ و تربیت گاہ کا قیام ہے۔ "نیا نظامِ تعلیم " اور "اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے"۔ میں اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے کہ کوئی تحریک ، جو انسانی زندگی میں ایک مکمل اور حقیقی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہو، کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خود اپنے مزاج اور اپنے مقتضیات کے مطابق انسانوں کو ڈھالنے اور بنانے کے لیے تعلیم و تربیت کا ایک نظام قائم نہ کرلے۔ اسی حقیقت کو مدنظر رکھ کر چند رفقا کے مشورے سے، جو فن تعلیم کو علمی حیثیت سے بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور عملی تجربہ بھی رکھتے ہیں، ایک درس گاہ کا خاکہ بھی مرتب کیا گیا ہے، بنیادی اصول وہی ہیں، جو ان دونوں مضامین میں بیان کیے جاچکے ہیں۔ عملی تفصیلات ابھی اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں تمام و کمال اسی مرحلے میں شائع کردیا جائے۔تجربےسے ابھی ان میں بہت کچھ ردوبدل ہونا ہے۔ جب ہمارا تجربہ کامیاب ہوجائے گا اور ہم خود اس پرمطمئن ہوجائیں گے تو ان شاء اللہ اپنا تعلیمی دستور اور نصاب دونوں شائع کردیں گے، تاہم اس کے سرسری خد و خال یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔
زمانۂ تعلیم کو ہم نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: اساسی، متوسط، اور عالی
اساسی تعلیم میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ ہر انسان کو مسلم ہونے کی حیثیت سے دنیا کا کام چلانے کے لیے لازماً، جن معلومات، جن اخلاقی اوصاف او ر جن ذہنی اور عملی استعدادوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب تعلیم و تربیت کے ذریعے سے بچے کی شخصیت میں جمع کردی جائیں، ہم اس کو صرف کتاب ہی نہیں پڑھائیں گے بلکہ ہمارا استاد عملاً اس کو اپنی معلومات اور اپنی قابلیتوں سے زندگی کے مختلف شعبوں میں کام لینا سکھائے گا اور اس کو اس قابل بنائے گا کہ اساسی تعلیم کے مرحلے سے فارغ ہوکر جب وہ نکلے تو ہر شعبۂ حیات میں وہ ایک عمدہ ابتدائی کارکن بن سکے، اس کی ذہنی اور جسمانی قوتوں میں سے کوئی قوت ایسی نہ ہو ، جس کا استعمال اسے نہ آتا ہو، اور زندگی کی مختلف راہوں میں سے کوئی راہ ایسی نہ ہو ، جس پر چلنے کے لیے کم از کم ناگزیر معلومات اس کے پاس نہ ہوں۔ علاوہ بریں ہم اسے اتنی عربی بھی سکھائیں گے کہ وہ قرآن کا سیدھا سادہ مفہوم خود سمجھ لے، نیز تعلیم اور تربیت دونوں کے ذریعے سے ہم کو اسلامی طرز زندگی کے ضروری آداب و اطوار اور قواعد و قوانین سے بھی نہ صرف آگاہ کردیں گے بلکہ عملاً ان کا خوگر بنادیں گے۔یہ تعلیم تمام بچوں کے لیے یکساں ہوگی۔ کیوں کہ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ اس مرتبہ کی تعلیم و تربیت ہر بچے کو حاصل ہونی چاہیے، قطع نظر اس سے کہ آگے چل کر اسے دنیا میں مزدور یا کسان کی حیثیت سے کام کرنا ہے یا وزیر کی حیثیت سے یا پروفیسر کی حیثیت سے۔
متوسط تعلیم میں بچے کے داخل ہونے کاانحصار اساسی تعلیم کے نائج پر ہوگآ۔ اساسی تعلیم کی انتہا کو پہنچتے پہنچتے ہر بچے کے متعلق اندازہ کرلیا جائے گا کہ آیا وہ دنیا کی زندگی میں ابتدائی کارکن کے مرتبے سے بلند تر خدمات انجام دینے کی قوت رکھتا ہے یا نہیں۔ جن بچوں کے متعلق استادوں کا تخمینہ اور آزمائشی امتحانات کا فیصلہ یہ ہوگا کہ وہ ایسی قوت رکھتے ہیں، صرف انہی کو دوسرے مرحلۂ تعلیم میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ اور اس مرحلے میں ہمارے پیش نظر یہ ہوگا کہ بچوں کو ان کاموں کے لیے تیار کیا جائے۔ جن میں جسمانی قوتوں کی بہ نسبت ذہنی قوتوں سے زیادہ کام لینا پڑتا ہے۔ یہاں ہر بچے کے لیے ان مضامین کا مجموعہ تجویز کیا جائے گا، جن کے ساتھ اس کے ذہن کو مناسبت ہوگی۔ جس شعبۂ زندگی کے لیے اسے تیار کرنا ہوگا اسی سے ║تعلق رکھنے والے علوم عالیہ کے مبادی اسے پڑھائے جائیں گے، مگر اس طرح کہ ہر دنیوی علم کے اندر دینی نقطۂ نظر روح کی جاری و ساری ہوگا اور ہر دینی علم کا انطباق دنیوی حالات پر کرکے بتایا جائے گا ۔ پھر طالب علم کو اپنے علم سے عملاً کام لینے کی پوری مشق بھی کرائی جائے گی، اور تربیت کے ذریعہ سے اس میں ایک سچے مسلمان کی سیرت بھی پیدا کی جائے گی۔
درجۂ اعلیٰ کی تعلیم بالکل اختصاصی تعلیم ہوگی اور اس میں ہمارے پیش نظرایسے علما اور ماہرین پیدا کرنا ہوگا جو زندگی کے مختلف شعبوں میں قیادت و رہنمائی کے اہل ہوں، جن میں یہ قابلیت ہو کہ اسلام کے اصول پر ایک پورے نظامِ تمدّن کی تعمیر کرسکیں اور ایک جدید ترین اسٹیٹ کی تنظیم کا بار اٹھاسکیں۔ اس کے لیے جس علم، جس قوتِ اجتہاد اور جس متقیانہ سیرت کی ضرورت ہے وہ ان میں تعلیم و تربیت کے ذریعے سے پیدا کی جائے گی اور اس درجے میں صرف وہی طلبہ لیے جائیں گے ، جن کے متعلق متوسط نتائج سے یہ اطمینان ہوجائے گا کہ وہ اپنی ذہنی و اخلاقی صلاحیتوں کے اعتبار سے اس کےاہل ہیں۔
۲۔علمی تحقیق
علمی تحقیق کا شعبہ دراصل ہماری تحریک کا دل اور دماغ ہوگا۔ اب تک اس تحریک کا علمی کام تنہا ایک ہی شخص کرتا رہا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ ایک اکیلا آدمی ایک ایسی ہمہ گیر و عالم گیر تحریک کے لیے علمی و فکری بنیاد فراہم کرنے کی خدمت انجام نہیں دے سکتا۔اگر ہمیں واقعی نظام ِ تمدّن و اخلاق میں کوئی انقلاب برپا کرنا ہے تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ صرف اردو زبان ہی میں نہیں بلکہ متعدد دوسری زبانوں اور خصوصاً دو تین بین الاقوامی زبانوں میں بھی ایسا لٹریچر فراہم کریں ، جو اسلامی نظام کی پوری شکل و صورت سے دنیا کو آشنا کرے اور اپنی تنقید سے موجودہ تہذیب و تمدّن کی جڑیں اکھاڑ کر دلوں اور دماغوں میں نظام اسلام کی صداقت کا یقین اون اس کے قیام کی خواہش پیدا کردے۔ نیز ہمیں قرآن ، حدیث ، فقہ اور تاریخ اسلام کے متعلق جملہ علوم کی تدوین جدید کرنی ہوگی، اور اسی طرح علوم جدیدہ کو بھی اسلامی نقطۂ نظر سے ازسر نو مدون کرنا ہوگا۔ یہ کام کیے بغیر ہم ہر گز یہ توقع نہیں کرسکتے کہ مجرد کسی عمومی یا عسکری تحریک سے کوئی حقیقی اسلامی انقلاب دنیا کے موجودہ نظامِ تمدّن و اخلاق میں رونما ہوجائے گا۔
اس غرض کے لیے ہم کو ایک طرف ایسے صاحب فکر و نظر آدمیوں کی ضرورت ہے، جو اس تحقیقی کام کے اہل ہوں اور ہمارے جماعتی نظم و ضبط کے اندر رہ کر یہ خدمت انجام دے سکیں۔ دوسری طرف ایک عمدہ کتب خانہ درکار ہے، اور اس کے ساتھ ایسے ذرائع درکار ہیں، جن سے ہم ان خدام دین کا سامانِ زیست بہم پہنچاسکیں۔
۳۔ دعوتِ عام
ان دونوں تعمیری کاموں کے ساتھ ہم دعوت عام کا کام بھی پوری قوت کے ساتھ چلانا چاہتے ہیں ، ہماری تعمیری کوششیں بے سود ہوجائیں گی اگر ساتھ ساتھ ان کی پشت پر ایک مضبوط رائے عام بھی تیار نہ ہوتی رہے۔جس طرح مذکورۂ بالا تعمیری کاموں کے بغیر کوئی اسلامی انقلاب رونما نہیں ہوسکتا، اسی ║طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ عامۃ الناس میں اسلام کی دعوت پھیلائے بغیر ایسا کوئی انقلاب برپا ہوسکے۔ ہمیں نہ صرف ہندوستان میں بلکہ حتی الامکان دنیا کے گوشے گوشے میں اپنی آواز پہنچانی ہوگی، کیوں کہ آج کسی ایک ملک میں کوئی حقیقی انقلاب واقع نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وسیع پیمانے پر بین الاقوامی رائے عام اس کی تائيد میں تیار نہ کرلی جائے۔ اربوں انسانوں کو ہمارے پیغام سے واقف ہونا چاہیے۔ کروڑوں انسانوں کو کم از کم اس حد تک اس سے متاثر ہونا چاہیے کہ وہ اس چيز کو حق مان لیں، جس کے لیے ہم اٹھ رہے ہیں۔ لاکھوں انسانوں کو ہماری پشت پر اخلاقی اورعملی تائيد کے لیے آمادہ ہونا چاہیئے، اور ایک کثیر تعداد ایسے سرفروشوں کی تیار ہونی چاہیئے، جو بلند ترین اخلاق کے حامل ہوں اور اس مقصد عظیم کے لیے کوئی خطرہ ، کوئی نقصان، کوئی مصیبت برداشت کرنے میں تامل نہ کریں۔ اس قسم کی دعوت عام شروع کرنے کے لیے ابتداءً ضروری ہے کہ چھوٹے پیمانے پر ایک محدود حلقے میں کچھ نمونے کا کام کیا جائے اور داعیوں کی اخلاقی و عملی تربیت کرکے اس حلقے میں ان سے کام لیا جائے تاکہ آئندہ وسیع پیمانے پر دعوت پھیلانے کراہ کھل جائے، اگرچہ اس ضرورت کا احساس ہمیں پہلے بھی تھا۔ لیکن گزشتہ ایک سال کے جماعتی کام سے، جو تجربہ حاصل ہوا ہے اس کی بنا پر ہم کسی تاخیر کے بغیر اس شعبے کی بنیاد رکھ دینا چاہتے ہیں۔
دعوت عام کے شعبے میں کام کرنے کے لیے تمام بیرونی جماعتوں کو اپنے اپنے ارکان کا جائزہ لے کر سردست ایسے ایک ایک دو دو آدمیوں کا انتخاب کرنا چاہیے، جو اس کےلیے موزوں تر ہوں اور ان کی صفات و خصوصیات سے مرکز کو مطلع کرنا چاہیے۔ نیز یہ بھی بتانا چاہیے کا وہ کتنی مدت کے لیے یہاں آکر وہ سکتے ہیں ان کی ضروریات کیا ہیں، ان کی ذات پر کس قسم کی ذمہ داریوں کا بار ہے۔ اور یہ کہ وہ خود یا مقامی جماعت کے ارکان کس حد تک ان کی ضروریات کے کفیل ہوسکتے ہیں۔
۴۔معاشی تدابیر
ظاہر ہے کہ اوپر جن کاموں کا ذکر کیا گیاہے ان سب کے لیے مالی ذرائع درکار ہیں اور یہاں ان کا فقدان ہے۔ اتنے بڑے کاموں کے لیے، جس اجتماعی اعانت کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہ ہمیں اب تک بہم پہنچی ہے، نہ آئندہ اس کی دوقع ہے، نہ ہم وہ تدبیریں اختیار کرسکتے ہیں۔ جن سے وہ بہم پہنچا کرتی ہے، اور نہ ہمیں ان لوگوں سے کسی مدد کی امید رکھنے کا کوئی حق ہے، جن کامقصد زندگی وہ نہیں ہے جو ہمارا ہے۔ چند اہل خیر ایسے ضرور ہیں، جو ہماری درخواست کے بغیر محض حسبۃ اللہ کچھ نہ کچھ بھیجتے رہتے ہیں، مگر یہ اعانت اب تک کے اجتماعی کاموں کےلیے بھی ناکافی تھی کجا کہ آئندہ، جو کام پیش نظر ہیں کے لیے یہ کچھ بھی کفالت کرسکے۔ اس وقت تک جو کچھ بھی کام ہوا ہے وہ زیادہ تر جماعت کے بکڈپو کی آمدنی سے ہوا ہے۔ اور وہ کچھ بہت زیادہ نہیں ہے کہ اس کے بل پر کام میں اتنی توسیع ہوسکے۔ اب اس کار عظیم کے لیے، جو ذرائع مطلوب ہیں۔ ان کی بہم رسانی دو ہی صورتوں سے ممکن ہے۔ ایک یہ کہ جو لوگ جماعت اسلامی میں شریک ہوئے ہیں، اور جو لوگ اس کے نصب العین سے ہمدردی رکھتے ہیں وہ اس راہ میں مالی قربانیاں کرنے کے لیے آمادہ ہوجائیں اور ان باطل پرستوں سے سبق لیں، جو آج اپنے نظریات کا اقتدار قائم کرنے یا قائم رکھنے کے لیے کروڑوں پونڈ روزانہ آگ میں پھونک رہے ║ہیں۔ ظاہر ہے کہ پرستاران باطل کی ان قربانیوں کے مقابلے میں اگر پرستاران حق کچھ بھی قربانی نہ کریں اور اپنے ذاتی مفاد ہی کی پرستش کرتے رہیں تو قانون فطرت کے تحت یہ قطعی ناممکن ہے کہ ہمیں باطل کے مقابلے میں اس حق کو فروغ دینے میں کامیابی حاصل ہوجائے، جس پر ہم ایمان لائے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ہماری جماعت میں جو لوگ کسی قسم کے صنعتی یا تجارتی کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں وہ یہاں آئیں اور اپنی قابلیتوں سے کام لے کر دولت پیدا کریں اور ایک حصہ اپنی ذات پر اور دوسرا حصہ اپنے مقصد زندگی کی خدمت پر صرف کریں۔
اسی غرض کے لیے ہم نے اپنے پروگرام میں ایک مد معاشی تدابیر کی بھی رکھی ہے۔ یہاں زمین بافراط موجود ہے اور نہایت شاداب و زرخیز ہے، بجلی موجود ہے، بڑی بڑی منڈیاں قریب ہیں، ذرائع حمل و نقل جنگی مشکلات کے باوجود اس وقت تک یہاں دستیاب ہورہے ہیں۔ متعدد زراعتی ، صنعتی، اور تجارتی کا م قلیل سرمائے سے یہاں شروع کئے جاسکتے ہیں۔ مقامی جماعتوں کے امرا اپنی اپنی جماعتوں کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ ان کے رفقاء میں کون لوگ کیا کام کرنے کی اہلیت رکھتےہیں اور کس قدر وسائل ان کی دسترس میں ہیں۔ اس باب میں ان کی رپورٹیں موصول ہونے کے بعد ہم ہر ایک کو اس کے حالات کے مطابق مشورے دیں گے اور جس قدر سہولتیں مرکزی ادرارے کی طرف سے بہم پہنچائی جاسکتی ہیں وہ پہنچائی جائیں گی۔
روداد اجتماع محلس شوریٰ
شوال ۱۳۶۱ھ
از ابو الاعلی مودودی امیر جماعت
شوال ۱۳۶۱ھ مطابق (اکتوبر ۱۹۴۲ء) کے دوسرےہفتے میں مجلس شوریٰ کا دوسرا اجتماع بمقام دہلی ہوا۔ اس اجتماع کی اصلی غرض چند ایسے اختلافات کا حل تلاش کرنا تھا، جو بدقسمتی سے ابتدائی مرحلے ہی میں اس نازک موقعے پر نظام جماعت کے اندررونما ہوگئے تھے اور جن کی وجہ سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں اقامتِ دین کی یہ منظم کوشش ، جو ایک صدی کے تعطل کے بعد پھر بمشکل شروع ہوئی ہے۔ شروع ہوتے ہی نہ ختم ہوجائے، اور ایسے مایوس کن اثرات اپنے پیچھے نہ چھوڑ جائے کہ اللہ کے دوسرے بندوں کو بھی اس کی ناکامی مدتوں تک ایک مثال بن کر دین حق کے قیام کی سعی و جہد سے روکتی رہے۔ میں نے ان اختلافات کو سلجھانے کی، جتنی کوششیں کیں ان میں مجھے سخت ناکامی ہوئی ہے، اور صرف ناکامی ہی نہیں بلکہ تفرق و اختلاف و بددلی اور بدگمانیوں کا زہر دور و نزدیک کے ارکان میں بالعموم پھیلنا شروع ہوگیا۔ تب میں نے مجبور ہوکر اصحاب شوریٰ کو دہلی میں جمع ہونے کی تکلیف دی تاکہ اس الجھن کو دور کرنے میں میری مدد کریں۔
حسب ذیل اصحاب شریک اجتماع تھے:
║مولانا ابوالحسن علی صاحب (لکھنؤ)محمد یوسف صاحب( بھوپال)، مولانا صبغۃ اللہ صاحب (عمر آباد، مدراس) مولانا حکیم عبد اللہ صاحب (روڑی، حصار) سید عبدالعزیز صاحب(شرقی، جالندھر) ملک نصر اللہ خان صاحب عزیز(لاہور) قاضی حمید اللہ صاحب (سیالکوٹ) عبد الجبار صاحب غازی (دہلی) محمد بن علی علوی صاحب (کاکوروی) مولانا محمد منظور صاحب نعمانی(بریلی) مولانا سید جعفر صاحب (کپورتھلہ) قمرالدین خان صاحب، عطاءاللہ صاحب (پتواکھالی)
چار پانچ روز ہم لوگ اس کام میں منہمک رہے۔ اولاً میں نے چاہا کہ اصل امور مختلف فیہ کو زیر بحث لایا جائے اور جو لوگ مجھ سے یا میرے کام سے مطمئن نہیں ہیں وہ خفیہ پرچہ نویسی ، نجویٰ، غیبت اور ارجاف کو چھوڑ کر جماعت کے سامنے اپنی بے اطمینانی کے اسباب صاف صاف بیان کردیں۔ پھر اگر جماعت ان بیان سے مطمئن ہوجائے تو مجھے رہنمائی کے منصب سے معزول کردیا جائے۔لیکن ان حضرات نے ایسا کرنے سے اجتناب کیا۔ اس کے بعد میں نے جماعت کے سامنے تین متبادل صورتیں پیش کیں۔
ایک یہ میں خود استعفیٰ دیتا ہوں، میری جگہ کسی دوسرے شخص کو رہنما منتخب کرلیا جائے۔
دوسرے یہ کہ ایک شخص نہیں ملتا تو تین چار آدمی مل کر اس کام کو سنبھالیں۔
تیسرے یہ کہ جماعت کا یہ نظام، جو ہم نے بنایا ہے اسے توڑدیا جائے اور ان سب لوگوں کو جو اس نصب العین کی خدمت کا عہد کرچکے ہیں آزاد چھوڑ دیا جائے کہ جس شخص کا جس پر اطمینان ہو اس سے وابستہ ہوکر کام کرے۔ اور جو لوگ کسی دوسرے سے مطمئن نہ ہوں مگر خود اپنے اوپر اطمینان رکھتے ہوں وہ خود اٹھیں اور کام کریں، اور جو لوگ دوسروں سے بھی مایوس ہوں اور اپنے آپ سے بھی وہ پھر "امام مہدی کے ظہور" کا انتظار کریں۔
پہلی تجویز اس بنا پر بالاتفاق رد کردی گئی کہ جو لوگ اس وقت جماعت میں شامل ہوئے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس بار کو سنبھال نہیں سکتا۔خود اختلاف کرنے والے اصحاب بھی اس امر پر متفق تھے ۔
دوسری تجویز بھی بالاتفاق رد کردی گئی، کیوں کہ وہ شرعاً صحیح ہے اور نہ عملاً ہمارے مقصد کے لیے مفید۔
رہی تیسری تجویز تو اختلاف رکھنے والے اصحاب کی خواہش یہ تھی کہ اسی پر عمل کیا جائے اور میں خود بھی اسی طرف مائل تھا کیوں کہ میں ایسے مختلف المزاج عناصر کے اجتماع میں کوئی خیر نہ دیکھتا تھا۔ جو ترکیب و امتزاج قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں، اور ان کم سے کم ضروری صفات سے بھی عاری ہوں جن کے بغیر کوئی کارکن جماعت نہیں بن سکتی۔ لیکن اصحابِ شوریٰ کی اکثریت نے اس تجویز سے سخت اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح جماعت توڑ کر ہم اپنے نصب العین کی خدمت کرنے کے بجائے اس کے ساتھ دشمنی کریں گے اور ہماری یہ حرکت اس جمود کو بقا اور استمرار کے لیے ایک اور حجت بن جائے گی، جو بالاکوٹ کی ٹریجڈی کے بعد سے ایک سو دس برس تک اسلامی تحریک پر طاری رہا ہے، اس لیے بجائے اس کے کہ چند اشخاص کو ║اختلاف کی وجہ سے جماعت ٹوٹے۔ کیوں نہ وہ اشخاص جماعت سے ٹوٹ جائیں، جو ساتھ مل کر نہیں چل سکتے۔ یہ دلیل اتنی وزنی تھی کہ آخر کار اسی کو غلبہ حاصل ہوا۔ جو حضرات اختلاف سے متاثر تھے ان میں سے بعض نے رجوع کرلیا اور صرف چار اصحاب ایسے رہ گئے، جنہوں نے اختلاف پر قائم رہتے ہوئے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی، ان اصحاب کے نام یہ ہیں:
۱۔ مولانا محمد منظور صاحب نعمانی، مدیر الفرقان، بریلی۔
۲۔ مولانا سید محمد جعفر صاحب ، خطیب مسجد جامع، کپورتھلہ۔
۳۔ قمرالدین خان صاحب سابق ناظم جماعت۔
۴۔ عطاء اللہ صاحب، پتواکھالی،بنگال۔
لیکن ان حضرات کی علیحدگی کے بعد بھی میں جماعت کی قیادت کا بار سنبھالنا اس وقت تک جائز نہ سمجھتا تھا جب تک کہ رفقا جماعت کو اختلاف کی پوری حقیقت سے آگاہ کرکے یہ دریافت نہ کرلیتا کہ آیا اس کے بعد بھی وہ مجھ پر اعتماد رکھتے ہیں یا نہیں۔ چنانچہ میں نے علیحدہ ہونے والوں کی وہ تحریر، جس میں انہوں نے میری ذات اور میرے کام پر اپنے اعتراضات تفصیل کے ساتھ بیان کیے تھے جماعت کے سامنے پیش کردی، اور ہر اعتراض کا جو جواب میرے پاس تھا وہ بھی بیان کردیا۔ پھر رفقا سے عرض کیا کہ دونوں پہلوؤں کا بے لاگ موازنہ کرلیں اور آزادی کے ساتھ فیصلہ کریں کہ، جس شخص کو انہوں نے ایک سال پہلے اپنا رہنما منتخب کیا تھا وہ اب بھی ان کی نگاہ میں اس لائق ہے یا نہیں کہ وہ اس کو رہنما تسلیم کریں، جماعت کی طرف سے اس سوال کا جواب اثبات میں تھا۔
(مجھے افسوس ہے کہ یہ تحریر ، جس کا تعلق تنہا میری ذات سے نہیں بلکہ دراصل جماعت اور تحریک سےہے،مجھے بصیغۂ راز دی گئی ہے اور ابھی تک اس کے مصنف اسے پرائیوٹ رکھنے ہی پر مصر ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو میں اسے اور اپنے جواب کو بلاتامل شائع کردیتا)۔
اس کے بعد مجلس شوریٰ جمعت کی تنظیم اور آئندہ کے کام کے متعلق بھی ضروری امور پر غور کیا اور حسب ذیل مسائل طے کیے:
۱۔ جماعت کی تنظیم کے لیے ابتداءً پنجاب، یوپی، بہار اور دکن کے بڑے بڑے حلقے بنائے گئے تھے اور جن پر مولانا منظور صاحب، مولانا امین احسن صاحب اصلاحی، مولانا سید جعفر صاحب اور مولانا صبغۃ اللہ صاحب وغیرہ حضرات کو امیر مقرر کیا گیا تھا، ان کو باستثناء حلقۂ دکن توڑدیا گیا، آئندہ سے ان تمام حلقوں کی مقامی جماعتوں ا تعلق براہ راست مرکز سے رہے گا، البتہ صرف دکن کی جماعتیں مولانا صبغۃ اللہ صاحب کی نگرانی میں کام کرتی رہیں گی۔
۲۔ جماعت کے نظام میں احتیاط کی کوششوں کے باوجود ایک معتد بہ تعداد ایسے لوگوں کی داخل ہوگئی ہے، جن کی ذہنی ، اخلاقی و دینی حالت اس جماعت کی رکنیت کے لیے کسی طرح موزوں نہیں ہے، ایسے ارکان کی اصلاحِ خیال و اصلاح حال کے لیے ایک مناسب مدت (جس کا تعین ہر شخص کی حالت کے لحاظ ہی سے ہوسکتا ہے) مقرر کی جائے اور اس دوران میں اصلاح کی پوری کوشش کی جائے۔ اور اگر اصلاح نہ ہوسکے تو ان سے درخواست کی جائے کہ اس وقت تک نظام جماعت سے باہر رہیں جب تک وہ کم از کم اس معیار پر نہ پہنچ جائیں، جو اس جماعت کی رکنیت کے لیے مطلوب ہے۔ نیز آئندہ کے لیے ║یہ ضروری ہے کہ کسی شخص کو اس وقت تک جماعت میں نہ لیا جائے جب تک کہ وہ جماعت کے مسلک سے پوری طرح واقف نہ ہوجائے اور اس کی زندگی میں عملاً نمایاں تبدیلی نہ ہو۔
۳۔ مرکز میں تعمیری کام کے لیے امیر جماعت نے جو نقشہ بنایا ہے اسے مجلس شوریٰ بھی پسند کرتی ہے۔
حساب آمد و خرچ جماعت اسلامی
از یکم ستمبر ۱۹۴۱ء تا ۳۱ دسمبر ۱۹۴۲ء
تفصیل آمد
تحویل اختتام اگست۰-۲۴-۷۴
فروخت کتب۹-۱۵-۷۴۱۳
اعانت اہل خیر۹-۱۳-۵۹۴۳
زکٰوۃ و صدقات واجبہ۳-۱۰-۶۱۶
قرض ۰-۰-۲۱۴۱
وصول یابی قرض۶-۲-۱۵۰
متفرق۳-۱۳-۶۶۴
میزان۶-۵-۱۷۰۰۵
میزان خرچ۰-۱۱-۱۳۹۶۳
تحویل اختتام دسمبر ۴۲ء
۶-۱۰-۳۰۴۱
تفصیل خرچ
معاوضہ کارکنان۰-۰۰-۶۲۴
اشتہار۰-۸-۲۵
اسٹیشنری۶-۴-۹۸
║سفر خرچ۰-۲-۲۸۶
مہمان خانہ۰-۱۳-۴۶۵
طباعتِ کتب ۳-۱۵-۵۳۶۵
پریس ۳-۱-۳۱۳۷
قرض جو بعض ارکانِ ادارہ کو دیا گیا
۶-۲-۲۵۹
ادائے قرض ۰-۰-۱۴۴۳
عربی ترجم ۰-۰-۲۰
اعانت اہلِ حاجت۰-۴-۱۵۰
خرچ ڈاک۶-۱۰-۵۸۹
کتب ایجنسی۰-۰-۱۱۹۵
متفرق۶-۱۳-۲۵۳
میزان۶-۱۰-۱۳۹۶۳
رفتارِ کار
از مولانا سید ابوالاعلی مودودی امیر جماعت
║"جماعت اسلامی" کی رفتارِ ترقی معلوم کرنے کے لیے ارکان کی طرف سے اکثر بے چینی کا اظہار کیا جا رہاہے اور یہ بے چینی ایک حد تک فطری ہے۔ میں اب تک اس اندیشے سے اس کو نظر انداز کرتا رہا ہوں کہ کہیں ہمارے کام میں بھی نمائش اور اشتہار کا عنصر داخل نہ ہوجائے اور اللہ کے لیے کام کرنے کی بجائے ہم دنیا کو دکھانے کے لیے کام نہ کرنے لگیں۔ مگر آج محض اس خیال سے اس کا ذکر کرتا ہوں کہ جو رفقا مرکز سے دور بیٹھے ہیں اور جن کو معلوم نہیں ہے کہ کام کس رفتار سے ہو رہا ہے، کہیں ان پر مایوسی نہ طاری ہونے لگے۔
جماعت کے ارکان کی تعداد اس وقت سات سو کے قریب ہے۔ بیرونی جماعتوں کی طرف سے اب تک پوری فہرستیں نہیں آئی ہیں، اس لیےصحیح تعداد متعین نہیں ہوسکتی۔
سندھ ، بلوچستان، سرحد، بنگال، بمبئی اور وسطِ ہند کے علاقے ابھی تک ہماری دعوت سے بہت بیگانہ ہیں۔جن علاقوں نے اس کا اثر قبول کیا ہے، وہ زیادہ تر پنجاب، یوپی، بہار، بہار ،دکن اور مدراس کے علاقے ہیں۔
جہاں تک لٹریچر کی اشاعت اور ارکانِ جماعت کے کام کی رپورٹوں سے اندازہ کرسکا ہوں، پچھلے دیڑھ دوسال میں تقریباً ایک لاکھ آدمیوں تک آواز پہنچائی جاچکی ہے، اور ان میں سے کم از کم دس فیصد حصہ ہماری دعوت سے متاثر ہوچکا ہے۔ غیر مسلموں میں ابھی دعوت کا کام بمنزلۂ صفر ہے۔لیکن جو تھوڑی سی کوشش اس سلسلے میں کی گئی ہے، اس کے نتائج مایوس کن نہیں ہیں۔ اس سے اتنا اندازہ تو ضرور ہوگیا کہ غیر مسلم قوموں میں مسلمانوں کے خلاف جو تاریخی اور قومی تعصبات پائے جاتے ہیں، وہ ان شاءاللہ ہماری اس دعوت کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہ بن سکیں گے۔عوام، دیہاتیوں اور محنت پیشہ طبقوں میں بھی ابھی تک کسی بڑے پیمانے پر کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ اس سلسلے میں ابھی میں خود بھی ابتدائی تجربات کررہا ہوں اور بعض دوسرے رفقا بھی اپنے مقام پر مختلف طریقوں سے کام کررہے ہیں، ان شاءاللہ کچھ زیادہ مدت نہ گزرے گی کہ ان تجربات سے ہم عوام میں تبلیغ کرنے کا ایک مناسب ترین ڈھنگ معلوم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
دعوت کے لیے اب تک ہم زیادہ تر اردو زبان ہی کو وسیلہ بناتے رہے ہیں، دوسری زبانوں سے کچھ زیادہ کام نہیں لے سکے ہیں۔ لیکن انگریزی ، ترکی، ہندی، ٹامل، تلنگی اور ملیالم میں لٹریچر کی تیاری کے لیے عملاً کوشش شروع ہوچکی ہے اور اگر اللہ کا فضل شامل حال رہا تو جنگ کے بعد ہم ہندوستان اور بیرون ہند میں ان زبانوں کے واسطے سے خیالات کی اشاعت شروع کردیں گے۔
سب سے بڑی چیز جو ہمارے نزدیک ہر دوسرے نتیجہ سے زیادہ قیمتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس دعوت کا اثر جہاں جہاں بھی پہنچا ہے، اس نے مردہ ضمیروں کو زندہ اور سوتے ہوئے ضمیروں کو بیدار کیا ہے۔اس کی اولین تاثیر یہ ہوئی ہے کہ نفس کا اپنا محاسبہ آپ کرنے لگے ہیں۔ حلال اور حرام ، پاک اورناپاک، حق اور ناحق کی تمیز پہلے کی محدود مذہبیت کی بہ نسبت اب بہت زیادہ وسیع پیمانے پر زندگی کے تمام مسائل میں شروع ہوگئی ہے۔ پہلے جو کچھ دینداری کے باوجود کرڈالا جاتا تھا، وہ اب گوارا نہیں ہوتا بلکہ اس کی یاد بھی شرمندہ کرنے لگی ہے۔ پہلے جن لوگوں کے لیے کسی معاملے کا یہ پہلو سب سے کم قابل توجہ تھا کہ یہ خدا کی نگاہ میں کیسا ہے، ان کے لیے اب یہی سوال سب سے مقدم ہوگیا ہے۔ پہلے جو دینی حس اتنی کند ہوچکی تھی کہ بڑی بڑی چیزیں بھی نہ کھٹکتی ║تھیں، اب وہ اتنی تیز ہوگئی ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی کھٹکنے لگی ہیں، خدا کے سامنے جوابدہی کا عقیدہ اب احساس بنتا جارہا ہے اور بہت سی زندگیوں میں اس احساس سے نمایاں تبدیلی ہورہی ہے۔ لوگ اب اس نقطۂ نظر سے سوچنے لگے ہیں کہ دنیا کی زندگی میں جو کچھ سعی و عمل وہ کررہے ہیں، وہ بحمد للہ اس دعوت نے جہاں بھی نفوذ کیا ہے، بے مقصد زندگیوں کو بامقصد بنایا ہے اور صرف ان کے مقصد زندگی ہی کو نہیں بلکہ مقصد تک پہنچنے کی راہ کو بھی ان کی نگاہوں کے سامنے بالکل واضح کردیا ہے۔ خیالات کی پراگندگی دور ہورہی ہے۔ فضول اور دور ازکار دلچسپیوں سے دل خود ہٹ رہے ہیں۔ زندگی کے حقیقی اور اہم تر مسائل مرکز توجہ بن رہے ہیں۔ فکر و نظر ایک منظم صورت اختیار کررہی ہے اور ایک شاہراہ مستقیم پر حرکت کرنے لگی ہے۔غرض بحیثیت مجموعی وہ ابتدائی خصوصیات اچھی خاصی قابل اطمینان رفتار کے ساتھ نشو نما پارہی ہیں، جو اسلام کے بلند ترین نصب العین کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے اولاً و لازماً مطلوب ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ جو کچھ ہونا چاہیئے تھا، اس کے لحاظ سے جو کچھ ہوا وہ بہت کم ہے۔ لیکن اس کمی کا احساس اگر کسی شخص کو مایوس ہوکر بیٹھ جانے پر آمادہ کرتا ہے تو اس کو متنبہ ہوجانا چاہیئے کہ اس قسم کے احساسات ہمیشہ نزغ شیطانی کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اگر یہ احساس اس کو تلافی مافات کے لیے سعی و جہد پر ابھارتا ہے تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جو کچھ کمی وہ محسوس کرتا ہے اسے پورا کرنے کے لیے مستعدی کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ جہاں تک یہ کمی ہماری کوتاہیوں کے سبب سے ہے اس پر ہم اللہ سے استغفار کرتے ہیں اور آئندہ زیادہ خدمت کی توفیق مانگتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہماری کوتاہیاں ہی اس کمی کا واحد سبب نہیں ہیں، بلکہ اس کے کچھ اور اسباب بھی ہیں جن پر ہمیں کوئی اقتدار حاصل نہیں ۔
سب سے پہلا اور اہم سبب جو ہمارے راستے میں غیر معمولی رکاوٹ پیدا کررہا ہے، وہ موجودہ جنگ ہے۔ ہمارے رفقا اکثر کام کی سست رفتاری دیکھ کر یاس و قنوط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کو یاد نہیں رہتا کہ ہم نے کام کی ابتدا ہی جنگ کے زمانے میں کی ہے اور آغاز کار سے لے کر اب تک جنگی حالات کی گرفت شدید تر ہی ہوتی چلی جارہی ہے۔ اول تو ایک نظام تمدن و سیاست جو پوری ہمہ گیری کے ساتھ مسلط ہو، اپنے دائرےمیں ویسے ہی کسی مخالف دعوے کے لیے اٹھنے اور پھیلنے کی گنجائش بہت کم چھوڑتا ہے۔ مگر خصوصیت کے سات جب وہ ایک بیرونی طاقت سے ہی حیات و موت کی کش مکش میں مبتلا ہو، اس کے حدود میں رہ کر اس نوعیت کی ایک دعوت شروع کرنا ، جیسی کہ ہم کررہے ہیں اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ نظام غالب اس وقت زمین اور اس کے تمام ذرائع پر شدت کے ساتھ قابض ہے اور اپنی بقا کے لیے تمام وسائل کو اس طرح استعمال کررہا ہے کہ دوسروں کے لیے معمولی اسباب حیات تک نہیں چھوڑنا چاہتا۔ ان حالات میں ان تحریکوں کے لیے بھی جینا محال ہورہا ہے، جو سالہا سال سے چل رہی تھیں اور گہری بنیادوں پر قائم ہوچکی تھیں۔ پھر کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک ایسی تحریک جو اس نظام کی بالکل ضد ہے اور جس نے عین جنگ میں جنم لیا ہے، آسانی کے ساتھ جڑ پکڑ سکے گی اور تیز رفتاری کے ساتھ چل سکے گی۔
دوسری بڑی رکاوٹ ہماری راہ میں ذرائع کی کمی ہے۔ تشکیل جماعت کے وقت ہمارے پاس صرف ۷۴ روپے کا سرمایہ تھا اور دو ہزار روپے کی کتابیں ہمارے بک ڈپو میں موجود تھیں، اتنے قلیل ذرائع سے ہم نے اس عظیم الشان کام کی ابتدا کی تھی، جس کا مقصد پورے نظام زندگی کو بدل ڈالنا تھا۔ ║جماعت میں جو لوگ داخل ہوئے وہ بیشتر غریب تھے اور اب تک خوشحال عنصر ہمارے اندر ایک فی صد سے بھی زیادہ نہیں ہے۔ عام اہل خیر سے مدد لینے میں جن اصولوں کی ہم پابندی کرتے ہیں وہ بھی ایسے نہیں ہیں کہ ہم بڑے پیمانے پر کوئی مستقل مالی اعانت حاصل کرنے کی توقع کرسکیں۔ صرف ایک مستقل ذریعہ ہمارے پاس جماعت کا بک ڈپو ہے، جس کے بل بوتے پر ہم اطمینان کے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اب تک میں نے زیادہ تر توجہ اسی ذریعہ کو ترقی دینے پر صرف کی ہے اور دوسرے کام شروع کرنے سے قصداً احتراز کیا ہے تاکہ کوئی قدم آگے بڑھنے کے بعد پیچھے نہ ہٹے۔اگر جنگی حالات شدت نہ اختیار کرگئے ہوتے تو بک ڈپو اس وقت اس حد تک ترقی کرچکا ہوتا کہ اس کی مدد سے ہم دوسری تجویزوں پر عمل شروع کردیتے، لیکن موجودہ حالات نے ہمیں مجبور کردیا کہ اپنے تمام ذرائع اور اپنی ساری قوتیں بک ڈپو کی زندگی برقرار رکھنے پر صرف کردیں۔
تیسری بڑی رکاوٹ مردان کار کی کمی ہے۔ بڑے اجتماعی کا صرف اسی طرح ہوسکتے ہیں کہ قیادت و رہنمائی کا کام جس شخص کے سپرد ہوں اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے عمدہ صلاحیتیں رکھنے والے چند آدمی موجود ہوں، جو ایک ایک شعبے کا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ سنبھال سکیں۔ اس قسم کے آدمی مجھے ابھی تک میسر نہیں آسکے۔ سات سو آدمیوں کی یہ جماعت ، جو گزشتہ ڈیڑھ پونے دوسال کی دعوت و تبلیغ سے فراہم ہوئی ہے، یہ ابھی بالکل ابتدائی حالت میں ہے، یہ محض ایک مواد خام ہے، جو آئندہ کی تعمیر کے لیے جمع کیا گیا ہے۔ ابھی اجزاء مختلفہ کے اس مجموعے نے کوئی ترکیبی مزاج اختیار نہیں کیا ہے۔ ابھی اس کے اجزاء کو جانچنے، چھانٹنے ، ان کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے اور ہر صلاحیت کے جزء کو اس کی مناسب جگہ پر رکھنے کا کام ابھی باقی ہے۔ یہ کام زیادہ آسان ہوتا اگر جنگی مشکلات حائل نہ ہوتیں اور بار بار ارکان کے اجتماعت کیے جاسکتے،یا کم از کم چار پانچ آدمی مجھے ایسے مل گئے ہوتے،جن پر مرکز کے کاموں کا بوجھ ڈال کر میں خود پے در پے دورے کرسکتا۔مگر جو حالات اس وقت درپیش ہیں، ان میں نہ تو اجتماعات ہی ہوسکتے ہیں اور نہ میں خود جگہ جگہ پہنچ کر ارکان جماعت سے شخصی روابط قائم کرسکتا ہےں۔ اس لیے اب تک میں پوری طرح جمات کا جائزہ لے کے یہ معلوم نہیں کرسکا ہوں کہ ہمارے رفقا میں کن کن صلاحیتوں کے لوگ موجود ہیں اور ان سے کیا کام لیے جاسکتے ہیں۔ جن رفقا کی صلاحیتوں کا مجھے علم ہوچکا ہے ان سے کام لینے میں بھی متعدد امور مانع ہیں۔ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو فکر معاش سے بے نیاز ہو۔ ان کا پورا وقت اگر جماعت کی خدمت کے لیے حاصل کیا جائے تو ان کی معاش کا انتظام جماعت کو کرنا چاہیئے،مگر جماعت کے ذرائع اس بار کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ان کو مرکز میں بلا کر یہ چاہوں کہ اپنی معاش وہ خود پیدا کریں اور جماعت کا کام بھی ساتھ ساتھ کریں تو یہ بھی ممکن نہیں، کیوں کہ موجودہ معاشی نظام اتنا نالائق ہے کہ یہ کسی کو دو وقت کی روٹی نہیں دیتا جب تک کہ اس کا سارا وقت اور اس کی تمام قوتیں سونت نہ لے۔
ان موانع کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جس کی وجہ سے اب تک نہ تو کام کی رفتار ہی تیز ہوسکی ہے اور نہ اتنا بہتر کام ہوسکا ہے جتنا ہونا چاہیئے تھا۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے ارکان کی تربیت بالکل ابتدائی حالت میں ہے۔ بہت کم ارکان جنہوں نے اس جماعت کے مزاج اور اس کے مقصد اور طریق کار کو اچھی طرح سمجھا ہو اور جو یہ جانتے ہوں کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے۔ بیشتر لوگ جو ہمارے حلقے میں داخل ہوئے ہیں، بہت زیادہ تربیت کے محتاج ہیں ان میں سے متعدد لوگ ایسے ہیں جومحض وقتی اور جزوی کشش کی بنا پر جماعت کے اندر داخل ہوگئے ہیں مگر ان کی ذہنیت، سیرت و اخلاق اور راہ سعی ║وعمل میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی ہے، بہت سے ایسے ہیں "عمل" اور "تنظیم" کے وہی تصورات ابھی تک اپنے ذہن میں لیے ہوئے ہیں جو پہلے کی جماعتوں کو دیکھ کر یا ان کے اندر کام کرکے انہوں نے اخذ کیے تھے، وہ بار بار اسی قسم کے "عمل" اور اسی طرز کی "تنظیم" کے مطالبے کرتے ہیں اور ان کے ذہن ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکے ہیں کہ مصنوعی تنظیم اور مظاہرے کے عمل کے سوا تنظیم اور عمل کی کچھ دوسری قوی صورتیں بھی ہیں اور اسلامی تحریک کے مزاج سے وہی زیادہ مناسبت رکھتی ہیں۔ کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اصولی حیثیت سے تو تمام باتیں اچھی طرح سمجھ لی ہیں مگر ابھی تک عملی طریق کار ان کی سمجھ میں پوری طرح نہیں آیا ہے۔ ان کی حالت اس طالب علم کی سی ہے جس نے صرف کتاب سے میکانکس کا علم حاصل کیا ہو، مگر جب مشین سے اس کو سابقہ پیش آئے تو وہ اس کے سامنے اپنے آپ کو بالکل مبتدی محسوس کرے۔ جماعت کی اکثریت ان مختلف حالتوں میں مبتلا ہے، رہے وہ قلیل التعداد ارکان جو خلاصۂ جماعت ہیں، تو ان کو بھی ابھی چند ارتقائی مدارج سے گزرنا ہے۔وہ خوب سمجھتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے اور حتی الامکان کام بھی کررہے ہیں۔ لیکن انہیں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو جن کی نشو نما اب تک کسی اور ڈھنگ پر ہوتی رہی ہے اور جن کو کسی اور طرز پر اب تک استعمال کیا جاتا رہا ہے، "اوور ہال" کرکے ازسرنو مرتب کرنا پڑرہا ہے اور یہ ترتیب جدید بہرحال ابھی کافی وقت لے گی۔ ان میں جو مقرر تھے اور اچھے مقرر تھے، اس جماعت کے اندر آنے کے بعد یکایک وہ گونگے ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ ان کی زبان اب تک جس راہ پر چلتی رہی تھی، یہ راہ اس سے بہت مختلف ہے اور اس راہ میں بولنے کے لیے انہیں زبان کو بالکل نئے سرے سے تیار کرنا ہے۔ یہی حال ادیبوں ، مصنفوں، معلموں، پبلک کارکنوں اور دوسری قابلیتوں کے رفقا کا ہے کہ ہر ایک اس جماعت میں آنے کے بعد اپنی شخصیت کو تبدیل کرنے میں لگا ہوا ہے اور یہ تبدیلی جب تک مکمل نہ ہولے، یہ لوگ جماعتی عمل میں اپنا پورا حصہ ادا کرنے سے معذورہیں۔-
ان اسباب پر غور کرنے سے کام کی رفتار سست اور غیر موثر ہونے کے وجوہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتے ہیں۔ جو عظیم الشان مقصد ہمارے سامنے ہےاور جن زبردست طاقتوں کے مقابلہ میں ہم کو اٹھ کر اس مقصد کے لیے کام کرنا ہے، اس کااولین تقاضا یہ ہے کہ ہم میں صبرہو، تدبر اور معاملہ فہمی ہو اور اتنا مضبوط ارادہ موجود ہو جس سے ہم دور رس نتائج برآمد کرنے کے لیے بہت سے ایسے سطحی کام کیے جاسکتے ہیں جن سے ایک وقتی ہلچل برپا ہوجائے۔ لیکناس کا کوئی حاصل اس کے سوا نہیں ہے کہ کچھ دنوں تک فضا میں شور رہے اور پھر ایک صدمہ کے ساتھ سارا کام اس طرح برباد ہوجائے کہ مدت ہائے دراز تک دوبارہ اس کا نام لینے کی بھی کوئی ہمت نہ کرسکے۔
(ترجمان القرآن-ربیع الاول۶۲ھ)
║روداد اجتماع دربھنگہ
از: سید عبد العزیز صاحب شرقی
حسب اعلان ۲۱،۲۲/ اکتوبر ۱۹۴۳ ء کو مشرقی یوپی اور بہار کے ارکان جماعت کا اجتماع دربھنگہ میں منعقد ہوا۔ جس میں حسب ذیل ارکان شریک ہوئے:
مرکز سے مولانا سید ابوالاعلی مودودی (امیر جماعت) اور سید عبد العزیز شرقی۔ لاہور سے جناب نصر اللہ خاں عزیز مدریر "مسلمان"۔ الہ آباد سے ڈاکٹر نذیر علی زیدی، محمد اسحاق و عبد الرشید صاحب ندوی، تقی الدین صاحب نعمانی، حافظ محمد عثمان صاحب، ڈاکٹر نورالعین صاحب اور ڈاکٹر غیاث الدین صاحب۔ مونگیر سےفضل الرحمان صاحب (سابق وکیل) اور دربھنگہ سے سید حسنین صاحب جامعی۔
ارکان کے علاوہ آٹھ دس ہمدردان جماعت بھی مختلف مقامات سے آگئے تھے۔اجتماع کے لیے دربھنگہ کی آبادی سے ڈیڑھ دو میل دور سرسبز کھیتوں کے درمیان ایک الگ تھلگ مقام تجویز کیا گیاتھا۔ تاکہ سکون کے ساتھ کام کیا جاسکے۔ ۲۱/اکتوبر کی صبح کو پہلی نشست ہوئی، تلاوت قرآن مجید کے بعد سب سے پہلے ارکان جماعت کا ایک دوسرے سے تفصیلی تعارف ہوا، اس کے بعد مولانا مودودی صاحب نے ایک افتتاحی تقریر کی، اور حسب ذیل امور پر روشنی ڈالی:
۱۔ تحریک اس وقت کس مرحلے میں ہے؟
۲۔ کس نوعیت کی مشکلات درپیش ہیں؟
۳۔ مالی حالات کیسے ہیں؟
۴۔ کام کو کس نقشے پر بڑھانا مدّ نظر ہے؟
۵۔ ہماری تحریک اور دوسری تحریکوں کی نوعیت میں فرق کیا ہے؟
۶۔ کس کس قسم کے کام اصلی انقلابی حرکت سے پہلے کرنے ضروری ہیں؟
۷۔ بعض ارکان جماعت میں جو سرد مہری پائی جاتی ہے، اس کے اصل وجوہ کیا ہیں؟
۸۔ کن غلط فہمیوں کے ماتحت محدود پروگراموں کا مطالبہ کیا جارہا ہے؟
پوری تقریر کو لفظ بہ لفظ یہاں نقل کرنا تو مشکل ہے۔ البتہ بعض ضروری حصے یہاں پیش کیے جاتے ہیں؟
║"ہماری تحریک اس وقت چند ارتقائی منازل کو عبور کرتی ہوئی اس مرحلہ پر پہنچ گئی ہے کہ جہاں تک ہمارے نصب العین کا تعلق ہے، ہندوستانی مسلمانوں کی مختلف جماعتیں اس سے متاثر ہوچکی ہیں اور وہ بات جسے تین چار سال پہلے ہماری مذہبی و سیاسی جماعتیں زبان لانے کے لیے تیار نہیں تھیں، اب اسے بیشتر جماعتیں اپنا نصب العین قرار دینے لگی ہیں۔ لیکن یہ چیز ہمارے لیے خواہ کتنی ہی باعث مسرت ہو، ہمیں اس پر مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے، کیوں کہ جہاں تک مسلم جماعتوں کا تعلق ہے، وہ جس آسانی سے اس نصب العین کو قبول کرلیتی ہیں ، اس آسانی سے اس نصب العین کے مخصوص طریق کار اور ذمہ داریوں اور اخلاقی مقتضیات کو قبول نہیں کرسکتیں۔ اس وقت یہ مسئلہ درپیش ہے کہ کہیں یہ نصب العین ہنگامہ پسندجماعتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر نہ رہ جائے، اور وہ اس کو ایک سنجیدہ مقصد حیات کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بجائے ایک، اضحوکہ نہ بنادیں۔ لہٰذا اب اس پہلو پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ اس نصب العین کے لیے جدوجہد کرنا تو درکنار ، اس کا نام زبان پر لانے کے لیے بھی اعلٰی کیرکٹر ضروری ہے۔ اس پہلو سے نشر و افکار کی مہم اس زور سے شروع ہوجانی چاہیے کہ حکومت الٰہیہ کا نعرہ بلند کرنے والی جماعتیں دیانت دارانہ طریقے سے اخلاقی ذمہ داریوں کو قبول کرنے پر مجبور ہوں اور اس نعرہ کے مطابق کام کریں، یا اگر انہیں کسی دوسرے راستہ ہی پر چلنا ہو تو عوام فریبی سے باز آجائیں۔
خطرے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پچھلے پچیس تیس سال سے مسلمانوں کی سیاسی تربیت غلط طرز پر ہوتی رہی ہے، ان کی مستقل اجتماعی خصلت یہ بن گئی ہے کہ ایک تخیل پر ٹھوس کام کرنے کی بجائے کسی نقشۂ کار(plan) کو مرتب کیے بغیر شور مچادیتے ہیں۔ یہ غلط طرز تحریک جو جمود سے کچھ کم مضر نہیں، بہت مقبول عوام ہے لیکن ہم اسے ختم کردینا چاہتے ہیں، ہمیں تحریک کا پورا نقشۂ کار مرتب کرنے (planning) سے پہلے دعوت کو ہنگامہ پسند عوام تک پہنچنے سے احتراز کرنا ہے۔ خوب سوچ لیجیے کہ جس میدان جنگ میں آپ اتر رہے ہیں اس میں دشمن کے مورچے کدھر کدھر اور کس ترتیب سے پھیلے ہوئے ہیں اور اس کے مقابلے میں آپ کو کس طرز پر مورچہ بندی کرنی ہے، آپ کے کمزور پہلو کون کون سے ہیں۔ آپ کی جمعیت کو کس کس پہلو سے مضبوط ہونا چاہیے۔ پیش قدمی کدھر سے اور کس رفتار سے ہو۔ غرض یہ کام ہلڑ مچانے سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے تو ایک ہوشیار جنرل کی دوربینی ووسیع النظری اور اس کے ساتھ ایک نظام اطاعت میں جکڑی ہوئی جمعیت کی جدوجہد مفید مطلب ہے۔
موجودہ مرحلے کی نزاکت کچھ اس وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ جہاں تک بنیادی افکار کا تعلق ہے ان کو پھیلانے میں تو ہم بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ایسی سیرت اور ایسی اعلٰی قابلیت رکھنے والا ایک منظم گروہ مہیا نہیں ہوسکا ہے، جو دنیا کے سامنے اس کی عملی تفصیلات کو پیش کرسکے، جن کی مانگ ہمارے ان افکار پن سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے والے لوگوں میں فوراً پیدا ہوجاتی ہے۔ جب لوگ ہم سے اجتماعی زندگی کا وہ تفصیلی نقشہ مانگنے لگتے ہیں ، جو ہمارے نظام فکر کی بنیاد پر بننا چاہیے تو ہم اسے پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ محض اس لیے کہ ان تفصیلات کو مرتب کرنا ایک شخص واحد کے بس کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے صاحب فکر محققین کا ایک گروہ درکار ہے جو پیہم محنت اور کاوش سے اس کام کو انجام دیتا رہے"۔
║ہماری دعوت پر لبیک کہنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد روشن اور تاریک دونوں پہلو رکھتی ہے۔ روشن پہلو یہ ہے کہ ہماری طرف مسلمانوں کا وہی عنصر کھنچ رہا ہے ، جو صالح اور کار آمد ہے، ہماری پکار پر جو لوگ "نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ"آل عمران 52 کہہ کر جمع ہورہے ہیں ان میں اایک نہایت خوش گوار اخلاقی تغیر پایا جاتا ہے، لیکن اس روشن پہلو کے ساتھ تاریک پہلو یہ ہے کہ ارکان جماعت میں صبر اور اپنے مقصد سے گہری وابستگی اور اپنے "ہولناک عہد" کی ذمہ داریوں کے احساس میں کمی پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے بہت جلدی سرد مہری پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے، اگر پیہم اکسانے اور گرمانے کا سلسلہ جاری نہ رہے۔ گویا اگر اکسانے والا نہ ہو اور کوئی دلچسپ کام ان کو فوراً نہ بتایا جائے تو "اِنْ قَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ"آل عمران 144 کی صورت بہت آسانی سے رونما ہوسکتی ہے۔ ہمارے ارکان میں یہ تصور پوری شدت کے ساتھ کار فرما نہیں ہے کہ شعور و ادراک اور احساس ذمہ داری کے ساتھ شہادت توحید و رسالت ادا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کا عہد کسی شخص یا جماعت کے ساتھ نہیں بندھ رہا ہے بلکہ خدا کے ساتھ بندھ رہا ہے اور اس شہادت کے ساتھ جو نصب العین خودبخود مسلمان کی زندگی کا قرار پاجاتا ہے، اس کے لیے کام کرنا شہادت ادا کرنے والے کا اپن فریضہ بن جاتا ہے۔ دوسرا تاریک پہلو ہمارے جماعتی نظام میں یہ ہے کہ اطاعت امر میں کمی پائی جاتی ہے۔ اور ارکان جماعت میں باہم وابستگی اور تعاون میں نمایاں ترقی نہیں ہوئی اورابھی تک ایسے لوگ ہم کو نہیں ملے ہیں جو مقامی امارتوں کے فرائض اچھی طرح سمجھیں اور مقامی جماعتوں کے ارکان سے صحیح طرز پر کام لے سکیں۔
"مشکلات کا جائزہ لینے سے تین چیزیں بہت نمایاں نظر آتی ہیں۔ اولاً ہمارے پاس مردان کار کی بہت کمی ہے۔ دوسرے ذرائع و وسائل بہت محدود ہیں، اور جنگ کی معاشی تاخت نے تو انہیں صفر کے درجے تک پہنچادیا ہے ۔ تیسری مشکل جو اسی دوسری مشکل سے پیدا ہوئی ہے، یہ ہے کہ تعمیری کام کرنے والے لوگوں کا جو محدود سا ذخیرہ جماعت کے ہاتھ آیا ہے وہ بالکل منتشر ہے اور اسے سمیٹنے کی کوئی تدبیر نہیں ہے۔کچھ پرزے ہیں جو ہندوستان کے حدود میں بکھرے پڑے ہیں، انہیں جمع کرکے جوڑ دینے کی اسکیم برسر عمل نہیں آسکی، یہی وجہ ہے کہ نہ تو مرکز کا فکری "پاور ہاؤس" مکمل ہوسکا ہے نہ عملی کارروائیوں کی ضروری مشین باضابطہ طور پر نصب ہوسکی ہے۔اس میں شک نہیں کہ اس صورت حال کے بعض اسباب پر ہماری دسترس نہیں ہے لیکن جماعت اس سلسلہ میں ذمہ داری سے بالکل بری نہیں ہے۔ ہمارے رفقا میں مالی ایثار کا جذبہ بہت کم بلکہ صفر بے برابر ہے۔ ابھی تک اپنے مقصد حیات کے لیے روپے صرف کرنا لوگوں نے نہیں سیکھا اور انفاق فی سبیل اللہ کا ولولہ ناپید ہے۔ ممکن ہے کہ اگر دوسری جماعتوں کی طرح چندہ کی اپیلوں سے لوگوں کو ٹھیلا جاتا رہے اور "اُدْخُلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ" کی صدا لگائی جاتی رہے تو یہ کمی پوری ہوجائے لیکن ہم اسے پسند نہیں کرتے کہ لوگ خارجی تحریک کے محتاج ہوکر رہ جائیں، ہماری تحریک کا مخصوص مزاج یہ چاہتا ہے کہ جو کچھ کیا جائے اندرونی تحریک سے کیا جائے۔ جس طرح ایک فرد اپنی بقاء کے لیے بغیر کسی خارجی تحریک کے معدہ کو غذا بہم پہنچاتا ہے ، اسی طرح جماعت کو اپنے جماعتی معدہ یعنی بیت المال کی بھوک کا خود احساس کرنا چاہیے ورنہ زندگی کی حرکت زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے گی۔
║یہ صحیح ہے کہ ہمارے ارکان بیشتر وہی لوگ ہیں جو معاشی اعتبار سے کچھ زیادہ خوش حال نہیں ہیں۔ لیکن اس امر کو نہ بھولنا چاہیے کہ اس دعوت نے کبھی بھی آغاز میں زیادہ خوش حال لوگوں کو اپیل نہیں کیا ہے۔ پہلے بھی زیادہ تر ایسے ہی لوگ اس کی طرف کھنچتے رہے ہیں، جن کی مالی حالت بہتر نہ تھی۔ دراصل مالی ایثار کے جذبے کا تعلق جیب کے ثقل سے اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا دل کی لگن سے ہے۔ اسی لگن میں کمی معلوم ہوتی ہے۔
تاہم مالی حالت بالکل مایوس کن بھی نہیں ہے ۔اس بدحالی کے زمانہ میں بھی کچھ نہ کچھ کام ہورہا ہے، لیکن بیت المال اس پوزیشن میں بھی نہیں ہے کہ کوئی بڑا کام شروع کیا جاسکے، جتنی تعمیری اسکیمیں مد نظر تھیں، معرض التوا میں ہیں۔ سب سے بڑا ذریعۂ آمدنی بک ڈپو تھا مگر کاغذ ک گرانی اور نایابی اس کی جان لاگو ہوگئی ہے۔ باہر سے جو رقمیں اعانت کے لیے بلا طلب آیا کرتی تھیں ۱۹۴۲ء کی بہ نسبت ۱۹۲۳ء میں ان کے اندر نمایاں کمی آگئی ہے۔ ان حالات کو مدّ نظر رکھ کر ہر رفیق کو اپنی جگہ سوچنا چاہیے اور اپنے احساس ذمہ داری سے استفتاء کرنا چاہیے کہ اس کا فرض کیا ہے۔
اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ارکان کو اپنی تحریک اور دوسری تحریکوں کے فرق کا پورا شعور نہیں ہے۔ حالانکہ اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک عام تحریکوں سے بنیادی اختلافا ت رکھتی ہے ، اولاًیہ کہ اس کے سامنے پوری زندگی کا مسئلہ ہے زندگی کے کسی ایک پہلو کا نہیں۔ ثانیاً یہ کہ خارج سے پہلے یہ باطن سے بحث کرتی ہے، جہاں تک پہلے پہلو کا تعلق ہے ہمارے سامنے کام اتنا بڑا اور اہم ہے جو اسلامی تحریک کے سوا دنیا کی کسی تحریک کے سامنے نہیں ہے اور ہم جلد بازی کے ساتھ کام نہیں کرسکتے، جس جلد بازی سے دوسرے کر سکتے ہیں، پھر چوں کہ ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے ، اس وجہ سے محض تنظیم اور محض ایک چھوٹے سے ضابطہ بند پروگرام پر لوگوں کو چلانے اور عوام کو کسی ڈھرّے پر لگادینے سے ہمارا کام نہیں چلتا۔ ہمیں عوام میں عمومی تحریک (Mass-movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلٰی درجہ کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوہرے فرائض کو سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلادینے کے لیے جلدی نہیں کررہا ہوں بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہل دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے، اور ان کو کھنگال کر صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے جو آگے چل کر عوام کے لیڈر بھی بن سکیں اور تہذیبی و تمدنی معمار بھی۔یہ کام چوں کہ ٹھنڈے دل سے کرنے کا ہے اور ایک عمومی تحریک کی طرح فوری ہلچل اس میں نظر نہیں آسکتی ہے، اس وجہ سے نہ صرف ہمارے ہمدرد و ہم خیال لوگ بلکہ خود ہمارے ارکان تک بددل ہونے لگے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ارکان جماعت کام کے اس نقشہ کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اپنی قوتیں بددلی کی نذر کرنے کی بجائے کسی مفید کا م میں استعمال کریں۔
یہ اعتراض بجا ہے کہ کثیرالتعداد عوام کو اس نقشہ کے مطابق بلند سیرت بنانے کے لیے مدّتِ مدید درکار ہے۔ مگر ہم اپنے انقلابی پروگروم کو عوام کی کامل اصلاح کے انتظار میں ملتوی نہیں کرنا چاہتے۔ ہمارے پیش نظر صرف یہ نقشہ ہے کہ عوام کی سربراہ کاری کےلیے ایک ایسی مختصر جماعت فراہم کرلی جائے، جس کا ایک ایک فرد اپنے بلند کیرکٹر کی جاذبیت سے ایک ایک علاقہ کے عوام کو سنبھال سکے، اس کی ذات عوام کا مرجع بن جائے اور کسی مصنوعی ║کوشش کے بغیر بالکل فطری طریقہ سے عوام کی لیڈرشپ کا منصب اسے حاصل ہوجائے۔ مگر صرف مرجعیت سے بھی کام نہیں چل سکتا، اس سے کام لینے کے لیے دماغی صلاحیتیں بھی ہونی چاہییں تاکہ ان مرکزی شخصیتوں کے ذریعہ سے عوام کی قوتیں مجتمع اور منظم ہوکر اسلامی انقلاب کی راہ میں صرف ہوں۔ ایک ٹھوس، پائدار اور ہمہ گیر انقلاب کا لازمی ابتدائی مرحلہ یہی ہے۔ اس مرحلے کو صبر سے طے کرنا ہی پڑے گا، ورنہ تحریک کی تباہی ناگزیر ہے۔ اگر موجودہ حالات میں عوام کو اکسادیا جائے جب کہ عوام کو سنبھال کر لے چلنے والے مقامی رہنما(sub leaders) موجود نہیں ہیں تو عوام بالکل بے راہ روی پر اتر آئیں گے اور اپنے آپ کو نااہل لوگوں کے حوالے کردیں گے۔
عمومی تحریک (Mass Movement) کے آغاز سے پہلے چند ناگزیر تعمیری کام کرلینے ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اپنے تعلیمی پروگرام کی بنا ڈال دیں، کیوں کہ ضروری نہیں کہ ہم اپنی زندگی میں اپنے نصب العین تک پہنچ جائیں۔ اس لیے ہمیں ابھی سے یہ فکر کرنی چاہیے کہ ہم اپنی جگہ اپنے سے بہتر کام کرنے کے لیے آئندہ نسل کو تیار کرنا شروع کردیں۔ دوسرے ہمیں اہل قلم کا ایک ایسا لشکر تیار کرلینا چاہیے جو علوم و فنون اور ادب کے ہر پہلو سے نظام حاضر پر حملہ آور ہوسکے۔ کچھ سیاسی مفکر ہوں جو حال کی کافرانہ سیاست کے مکروہ خدوخال کو خوب نمایاں کریں، کچھ معاشی ماہرین ہوں جو رائج الوقت معاشی تنظیم کے عیوب کھولیں، کچھ علمائے قانون کی ضرورت ہے جو انسانی قوانین کی بے اعتدالیوں کو نمایاں کریں، اخلاق و نفسیات کے کچھ حکماء چاہیئں جو عہد حاضر کے علم النفس اور علم الاخلاق کی کوتاہ بینیوں کی نشان دہی کریں، اور اس تخریبی کارروائی کے ساتھ ساتھ یہ لوگ علوم کی نئی تدوین کا تعمیری کام بھی سنبھال لیں۔ ان مجتہد مفکرین کو مدد بہم پہنچانے کے لیے ادیبوں ، افسانہ نگاروں اور ڈرامہ نویسوں کا ایک گروہ بھی ضرور ہونا چاہیے جو فکری میدان کارزار میں "گوریلا وار" لڑتا رہے۔ تیسرا تعمیری کام ہمیں یہ کرنا ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے عمومی تحریک کو چلانے کے لیے کارکنوں اور رضاکاروں کی تربیت کی جائے۔ ہمیں مقرروں سے لے کر خاموش کارکنوں تک بالکل نئی وضع کے کارندے درکار ہیں جن کے اندر خَشْـيَةِ اللّٰهِ کی روح جاری و ساری ہو۔ ان تینوں شعبوں میں جس میں کم سے کم تعمیری کام کی ضرورت ہے، اس کو انجام دینے سے پہلے یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ ہم عوام میں انقلابی دعوت پھیلانے کے لیے کوئی کامیاب اقدام کرسکتے ہیں۔
کام کے اس نقشہ کو اب تک سمجھا نہیں گیا اور آنکھیں انہی تحریکو ں سے واقف ہیں جو پچھلے ۲۰،۲۵ برس سے چلتی رہی ہیں، اس لیے لوگ بجائےاس کے کہ ان پہلوؤں میں اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو تیار کرنے پر اپنی قوتوں کو صرف کریں، وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کوئی چلتا پھرتا کام فوراً ہونے لگے اور جب وہ ہوتا نظر نہیں آتا تو ان پر مایوسی طاری ہوتی شروع ہوجاتی ہے۔ بہت سے ارکان جماعت ایسے ہیں جنہوں نے مجھ سے بالمشافہ اور بالمراسلہ یہ سوال کیا ہے کہ ہمارا پروگرام کیا ہے، اور ہم کیا کام کریں؟پروگرام کا مطالبہ اور یہ تصور کہ ان لوگوں کو کرنے کے لیے کوئی کام بتایا نہیں گیا، اس کی بناء بھی یہی ہے کہ ہمارے رفقا ابھی تک پوری طرح نہیں سمجھیں ہیں کہ جس تحریک کی خدمت کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اس کی نوعیت کیا ہے ۔ درحقیقت مسلمان کو اگر اس امر کا پورا شعور جاصل ہو کہ اس دنیا میں اس کی حیثیت کیا ہے اور اس کی ذمہ داری کتنی بھاری ہے ، تو اسے خودبخود معلوم ║ہوجائے کہ اس کی پوری زندگی کے لیے ایسا جامع اور ہمہ گیر پروگرام موجود ہے جس پر اگر وہ پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ عمل کرے تو اسے ایک لمحہ کی فرصت بھی نہیں مل سکتی۔
ہرشخص کو بہت سی جسمانی اور ذہنی قوتیں اللہ تعالی نے عطا کی ہیں۔ بہت سے اسباب زندگی بہ طور امانت اس کی تحویل میں دیے ہیں، بہت سے انسانوں کے ساتھ اسے تعلقات کے رشتوں میں باندھا ہے، اور ان رشتوں کے لحاظ سے مختلف ذمہ داریاں اس پر عاید کی ہیں۔ خدا کے سامنے ہر شخص کی ذمہ داری اس لحاظ سے ہے کہ وہ اپنی قوتوں کو کس طرح استعمال کررہا ہے اور خدا کی سپرد کی ہوئی امانتوں میں کن طریقوں سے تصرف کررہا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے پروگرام یہی ہے کہ وہ ہر وقت اپنا حساب لے کر دیکھتا رہے کہ اس عظیم الشان ٹرسٹ کا ٹرسٹی ہونے کی حیثیت سے وہ اپنے فرائض کو کہاں تک انجام دے رہا ہے، اور ان میں خدا کے منشا کو پورا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہے؟ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی قوت گویائی کے حساب ہی پر متوجہ رہے اور پیہم اس کوشش میں لگا ہے کہ زبان کی طاقت جس مقصد کےلیے اللہ نے اس کو عطا کی تھی ، اس کو کہاں تک پورا کررہا ہے اور اس عطیہ کے ساتھ جو ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ان کو کہاں تک نباہ رہا ہے تو شاید اسی سلسلے کے پروگرام سے اس کو اتنی فرصت نہ ملے کہ اس کے بعد کسی دوسرے پروگرام کے پوچھنے کی اس کو ضرورت پیش آئے۔ یہی حال دوسری بے شمار قوتوں کی ذمہ داریوں کا ہے۔
اگر میں چند چھوٹے موٹے کام کو بہ طور پروگرا م کے آپ لوگوں کے سامنے پیش کردوں تو اس کا نتجہ اس کے سوا اور کچھ نہ ہوگا کہ اس بڑے اور ہمہ گیر پروگرام سے، جس کی بےشمار مدّات ہیں اور جس پر زندگی کے ہر سانس میں آپ کو عمل کرنا ہے، آپ غافل ہوجائیں گے، اور سمجھیں گے کہ اصل کرنے کے کام وہ چند ہیں جو ایک چھوٹے سے لائحۂ عمل میں آپ کے سامنے پیش کیے گیے ہیں۔اس لیے شدید اور پے در پے مطالبوں کے باوجود ایسی کوئی چیز پیش کرنے سے سخت احتراز کرتا رہا ہوں اور آئندہ بھی احتراز کروں گا۔
میری انتہائی کوشش یہ ہے کہ ہر شخص جو جماعت میں داخل ہو وہ اس بڑے پروگرام کو سمجھے اور اس پر عمل درآمد کرے جو شعوری مسلمان ہونے کے ساتھ آپ سے آپ اس کی زندگی کے لیے بے قرار پاجاتا ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے جب میں اپنے رفقا سے بسا اوقات اس قسم کی باتیں سنتا ہوں کہ "ہمارے لیے کرنے کا کام کیا؟" میں پوچھتا ہوں کہ کیا اپنی تمام کمزوریوں کو آپ دور کرچکے ہیں اور اپنے نفس کو کامل طور پر اللہ کا بندہ بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں؟ کیا ان تمام حقوق کی ادائیگی سے بھی آپ فارغ ہوچکے ہیں جو اللہ اور اس کے دین کی طرف سے آپ کے دماغ پر آپ کے دل پر ، آپ کے اعضاء اور جوارح پر، آپ کی ذہنی و جسمانی قوتوں پر اور آپ کے مملوکہ اموال پر عاید ہوتے ہیں؟ اور کیا آپ کے گردوپیش کوئی انسان بھی خدا سے غافل یا گمراہ یا دین سے ناواقف یا اخلاقی پستیوں میں گرا ہوا باقی نہیں رہا ہے جس کی اصلاح کا فرض آپ پر عاید ہوتا ہو؟--- اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کے اندر یہ تخیل آ کہاں سے گیا کہ آپ کے لیے کرنے کا کوئی کام نہیں رہا ہے اور اپ کو کچھ اور کام بتایاجائے جس میں آپ مشغول ہوں۔ یہ سارے کام تو ان ہونے پڑے ہیں جو آپ سے ہر وقت شدید انہماک چاہتے ہیں، اور اگر آپ ان کو اس طرح انجام دینا چاہیں جیسا کہ ان کا حق ہے تو آپ کو ایک لمحہ کے لیے دم ║لینے کی فرصت بھی نہیں مل سکتی۔ مگر چوں کہ آپ کو ابھی تک پچھلی سطحی تحریکوں کے طور طریقوں کی چاٹ پڑی ہوئی ہے اور آپ کے اندر پوری طرح اسلامی تحریک کا احساس بیدار نہیں ہوا ہے اس لیے کام نہ ہونے کے اور پروگرام کے فقدان کی شکایتیں آپ کی زبان پر آتی ہیں۔ ان شکایتوں کے دفعیہ کی صحیح صورت میرے لیے یہی ہے کہ کا اور پروگرام بتانے کے بجائے میں آپ لوگوں میں صرف اس احساس ذمہ داری اور اس شعور اسلامی کو بیدار کرنے کی کوشش کروں جس کے بعد کبھی نہ ختم ہونے والے کام اور دائماً منہمک رہنے والے پروگرام کا نقشہ خودبخود آپ کے سامنے آسکتا ہے۔
ارکان جماعت کی طرف سے بار بار اس خواہش کا اظہار ہوتا رہتا ہے کہ مرکز سے پیہم ان کو ہدایت ملتی رہے۔ اور جماعتی کارروائیوں کے سلسلے میں لوگوں کو پیہم حرکت دی جاتی رہے۔ میں اس طریق کار کو صحیح نہیں سمجھتا۔میری کوشش یہ ہے کہ ہر جگم مقامی جماعت کے نظام کو چلانے کےلیے ایسے لوگ ہونے چاہیئں جن میں خود قوت کارکردگی(Initiative) موجود ہو، اورجو اپنے فرائض کو خود سمجھنے اور ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ لگے بندھے کاموں کو مقرر طریقوں کے مطابق انجام دیتے رہنے کی عادت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میرا کام یہ ہے کہ میں اصول اور طریق کار سمجھادوں اور اصولی ہدایات دے کر چھوڑدوں۔ اس کے بعد ارکان جماعت اور خصوصاً مقامی جماعتوں کے امراء کو خود اپنے کام کو سمجھنااور انجام دینا چاہیے۔ جہاں کسی قسم کی مشکلات پیش آئیں، کہیں کوئی پیچیدگی پیدا ہو یا کوئی نئی اسکیم وہ اپنے حلقہ میں عمل میں لانا چاہتے ہیں وہاں وہ مجھ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ لیکن ہر وقت انتظار میں رہنا کہ ہدایات ملیں اور ٹھیلا اور اکسایا جاتا رہے اور نگرنی اور بازپرس ہوتی رہے۔ یہ اس تحریک کو چلانے کے لیے کوئی مفید صورت نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ اس راہ پر چلنے کے لیے مستقل طور پر کسی حرکت اور ہدایت دینے والے کے محتاج رہیں گے۔اور اگر کسی وقت وہ ہٹ گیا تو الٹے پاؤں پھر جائیں گے۔کم از کم ہمارے ابتدائی کارکن جو سابقین اولین کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی تو صفت یہ ہونی چاہیے کہ ان میں سے ہر شخص کے اندر یہ داعیہ موجود ہو کہ اگر کوئی اس راہ پر چلنے والا نہ ہو تو وہ خود چلے گا اور کوئی اکسانے والا نہ ہو تو نہ صرف وہ خود حرکت کرے گا، بلکہ دوسروں کو بھی حرکت دے گا۔
منجملہ ان غلط فہمیوں کے جو آج کل عام طور پر پھیلی ہوئی ہیں، ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں میں بعض مخصوص طرز کے کاموں کی اہمیت کا غیر متناسب تصور پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ بس ہر شخص اسی طرز کے کام کرے اور لفظ "کام" کے معنی یہی سمجھے جاتے ہیں کہ ہوتو بس وہی کام ہو۔ مثلاً دیہات کا چکر لگانا یا عوام میں دعوت پھیلانا وغیرہ۔اب قطع نظر اس سے کہ کسی شخص میں دیہاتیوں سے خطاب کرنے اور عوام کی اصلاح کرنے کی اہلیت ہو یا نہ ہو، لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جو شخص بھی کام کرنے کے لیے اٹھے وہ یہی کام کرے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرے کام جو اپنے وزن اور نتائج کے لحاظ سے دیہاتیوں کی اصلاح اور عمومی دعوت سے کچھ کم اہم نہیں ہیں بلکہ بہت زیادہ عظیم الشان ہیں، ان کی اہمیت کو نہیں سمجھا جاتا۔
میں دیکھتا ہوں کہ اس غلط تصور عمل سے ہمارے رفقا بھی بہت کچھ متاثر ہیں اور بعض لوگوں میں یہ رحجان پایا جاتا ہے کہ اپنی قابلیتوں کو سمجھے بغیر وہ کام کریں جسے دنیا لفظ کام سے تعبیر کرتی ہے۔ اس چیز کی غلطی اچھی طرح سمجھ لیجیے اور اس میں مبتلا ہونے سے بچیے۔
║دراصل اللہ تعالٰی ہم میں سے ہر شخص سے اس عبادت کا مطالبہ کرتا ہے۔ جس کی صلاحیت اس نے اس کے اندر ودیعت کی ہے۔ جو قوتیں اللہ نے کسی شخص کو تفویض کی ہیں، ان ساری قوتوں سے اس کو عبادت بجا لانی چاہیے اور جو خاص قوت کسی کو زیادہ عطا فرمائی ہے اس پر عبادت کا حق بھی بہ نسبت دوسری قوتوں کے زیادہ عاید ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص کو اللہ نے کویائی کی قوت زیادہ عطا کی ہو تو اس کے لیے عبادت یہی ہوگی کہ اپنی زبان کو اعلائے کلمۃ اللہ کی خدمت میں استعمال کرے، اور جسے تحریر کی نمایاں صلاحیت بخشی گئی ہو، سب سے زیادہ اس کے قلم ہی پر فرائض عبودیت عائدہوں گے۔ غرض ہر شخص کے ذمہ وہی کام ہے جس کی قوت خاص طور پر اللہ تعالی نے اسے ودیعت کی ہو۔ اگر وہ اس کام کو چھوڑ کر کسی دوسرے ایسے کام میں اپنی قوتیں صرف کرتا ہےجس کی اہلیت اس میں نسبۃً کم ہے تو وہ اجر کا مستحق نہیں بلکہ اس کے مبتلائے وَزَر ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
جب اللہ کے دین کی خدمت کے بے شمار پہلو ہیں اور ہر پہلو اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے تو اشخاص کی مساعی کو کسی ایک دائرے میں سمیٹنا قطعاً غلط ہے۔ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ہم تعلیم و تدریس کے ماہرین ، مصنفین، سب کو دیہات میں کام کرنے کے لیے بھیج دیں۔ایسا ہی ایک تجربہ اشتراکی انقلاب کے علمبرداروں نے ابتداءً روس میں کیا تھا۔ انہوں نے اہل دماغ کا ایک بڑا لشکر مزدوروں اور کسانوں میں کام کرنے کے لیے پھیلادیا لیکن کثیر لوگوں کی زندگیاں ایک غلط مصرف پر صرف کردینے کے بعد معلوم ہوا کہ جو کچھ ہوا ہے غلط ہوا ہے۔یہ نازک دماغ لوگ دیہاتیوں کو انقلاب کے لیے تیار بھی نہ کرسکے اور دوسری خدمات سےبھی محروم رہے۔ ہم اس قسم کا تجربہ دہرانے کی ہمت نہیں رکھتے۔اس گذارش کا مدعا یہ ہرگز نہیں ہے کہ دیہاتیوں میں کام نہ کیا جائے یا عوام کی اصلاح کا کوئی کام اہمیت نہیں رکھتا۔جو لوگ اس کام کی صلاحیتیں رکھتے ہوں وہ ضرور اس میدان میں اپنی خدمات کو مصروف رکھیں اور عوام کو اپنے ساتھ کھینچ کر لے چلنے کی جدوجہد کریں پہلے بھی ہمارے کچھ اراکین عوام میں تحریک کو پھیلانے کا تجربہ کررہے ہیں۔اور ان کی عملی واقفیت سے فائدہ اٹھا کر دوسرے مقامات پر بھی یہ مہم شروع ہونی چاہیے۔ مگر جو لوگ دیہاتیوں اور عوام کی ذہنیت سے ناواقف اور ان سے خطاب کرنے کی اہلیت سے کورے ہوں اور اہل دماغ طبقہ کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں انہیں اپنی قوتیں اسی طبقے کی اصلاح میں صرف کرنی چاہیئں، اور اس طبقہ کی اصلاح کو کوئی معمولی درجہ کا کام نہ سمجھنا چاہیے۔فی الواقع اس طبقے کے ایک آدمی کی اصلاح طبقۂ عوام کے ہزار آدمیوں کی اصلاح سے زیادہ وزنی ہے۔علمی اور تعلیمی پہلو سے دین کی خدمت انجام دینے کی قابلیت رکھنے والے لوگ اپنے اوپر اور اپنے مقصد زندگی پر ظلم کریں گے۔ اگر ان کاموں کو چھوڑ کر دیہات کے چکر لگانے لگیں گے، یا مزدوروں کی بستیوں میں گھومنا شروع کردیں گے۔ہر آدمی اپنی صلاحیتوں کو سمجھے اور ان کے مطابق اپنے میدان کار کی حد بندی کرلے۔ اس طرح ہر پہلو کو مضبوط کرکے ہم کامیاب پیش قدمی کرسکیں گے۔
ا س تقریر کے بعد مختلف مقامات کی جماعتوں کے نمائندوں نے اپنے اپنے حلقے کی رپورٹیں پیش کیں اور تفصیل کے ساتھ بتایا کہ وہاں اب تک کیا کام ہوا ہے، کس قسم کے لوگ جماعت میں آئے ہیں، مقامی آبادی میں ہماری دعوت کا اثر کس حد تک پھیلا ہے، دعوت کی ترقی میں کس کس قسم کی مشکلات اور رکاوٹیں حائل ہیں، اور دعوت کے کیا کیا طریقے اختیار کیے گیے ہیں۔
║یہ سلسلہ ابھی چل رہا تھا کہ پہلی نشست ختم ہوگئی۔ دوسری نشست اسی روز ظہر کے بعد ہوئی اور اس میں بھی ابتداءً کچھ وقت بقیہ رپورٹیں پڑھنے پر صرف ہوا۔ اس کے بعد ان رپورٹوں پر بحث و تبصرہ ہوتا رہا جو کمزوریاں نظام جماعت میں نظر آئیں ان پر امیر جماعت نے گرفت کی اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی، مثلاً بعض مقامات پر نامناسب یا خام آدمیوں کو بے احتیاطی کے ساتھ جماعت میں شامل کرلیا گیا تھا اس کے متعلق ہدایت دی گئی کہ اس طرح جو لوگ تحریک کو اچھی طرح سمجھے بغیر جماعت میں آگئے ہیں اور جن کے اندر کوئی نمایاں اخلاقی تبدیلی نہیں پائی جاتی، ان کو پختہ کرنے کی کوشش کی جائے اور پھر بھی جن کے اندر خامی رہ گئی ہو ان سے درخواست کی جائے کہ نظام جماعت سے باہر رہ کرہر ممکن طریقہ سےہمارے ساتھ تعاون کریں۔
نیز آئندہ صرف انہیں لوگوں کو جماعت میں لیا جائے جنہوں نے اچھی طرح جماعت کے مسلک کو سمجھ لیا ہو، جو دستور کی روح کو جذب کرچکے ہوں اور جن کے اخلاق اور سیرت میں ضروری تبدیلیاں نمایاں نظر آتی ہوں۔
اسی طرح جہاں دعوت کے طریقوں میں کوئی کمزوری پائی جاتی تھی امیر جماعت نے اس پر بھی گرفت کی اور تفصیل کے ساتھ بتایا کہ دعوت کا صحیح طریقہ کیا ہے، نیز دعوت کی راہ میں جو مختلف رکاوٹیں اور مشکلات بیان کی گئی تھیں ان کو دور کرنے کی تدابیر کیا ہیں۔مثلاً آپ نے ہدایت کی کہ عوام میں سردست صرف دین کی حقیقت اور دین داری کے اصل مفہوم کی تبلیغ کی جائےآخری اور انتہائی مقتضیات کو پیش کرنے میں بھی احتیط سے کام لیا جائے فی الحال تمام تر زور توحید اور اطاعت خدا اور رسول کی دعوت اور اس تبلیغ و تلقین پر صرف کرنا چاہیے کہ لوگوں کے اندر خدا کے سامنے اپنی ذمے داری اور جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے، دعوت کے سلسلے میں اس امر کا بھی خاص طور پر لحاظ رکھنا چاہیے کہ داعی اپنے آپ کو کسی خاص نظام جماعت سے وابستگی رکھنے والے مبلغ کی حیثیت سے پیش نہ کرے اور نہ نظام جماعت کی طرف اپنی تقریروں یا گفتگوؤں میں عام دعوت دے۔
جو لوگ تعلیم یافتہ طبقہ میں کام کریں انہیں بحث و مذاکرہ کے بجائے لٹریچر کی اشاعت میں کوشش صرف کرنی چاہیے ہر شخص جس سے سابقہ پیش آئے اس کی ذہنیت کو ملحوظ رکھ کر جماعت کے لٹریچر میں سے خاص چیزیں ایک صحیح ترتیب سے اس کے مطالعے کے لیے تجویز کی جائیں۔ اس کے بعد جن امور کی مزید تفہیم کی ضرورت پیش آئ ان پر زبانی گفتگو کرلی جائے۔ لیکن جہاں گفتگو کا رخ بحث و مناظرہ کی طرف مڑتا نظر آئے وہاں پیش قدمی سے صاف انکار کردینا چاہیے اوراپنے آپ کو دماغی کشتی کے فتنے میں مبتلا ہونے بچانا چاہیے، جو لوگ دوسری جماعتوں کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں، یا اپنے نظری معتقدات میں غلو رکھتے ہیں انہیں خواہ مخواہ کھینچنے اور ایسی بحثیں چھیڑنے سے سخت پرہیز کیا جائے جو ان کے اندر ضرر پیدا کرنے والی ہوں۔
جہاں مخالفتیں اور رکاوٹیں پائی جاتی ہوں وہاں دیکھ لیا جائے کہ آیا یہ چیزیں کسی غلط فہمی کی بنا پر ہیں یا ہمارے مقصد اور مسلک کو ٹھیک ٹھیک جان لینے کے بعد قصداً مخالفت کی جارہی ہے۔ اگر پہلی صورت ہو تو معقول طریقوں سے غلط فہمی کو رفع کرنے کی کوشش کی جائے اور جہاں محسوس ہو کہ دوسری صورت ہے وہاں صبر جمیل سے کام لیا جائے۔
║ان ضروری باتوں کے خاتمے پر امیر جماعت نے رفقا سے کہا کہ "جو بات میں خاص طور پر آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تبلیغ صرف تقریر یا گفتگو یا تحریر ہی کے ذریعہ سے نہیں ہوا کرتی بلکہ اصل تبلیغ وہ ہوتی ہے جو ایک تخیل کے داعی اپنی پوری زندگی سے ہر آن کرتے رہتے ہیں بشرطیکہ ان کی زندگی اس تخیل کا مجسم ظہور اور اس کی زندہ شہادت بن گئ ہو۔ آپ جس تخیل کے داعی ہیں اگر اس کے سانچے میں آپ کی زندگی پوری طرح ڈھل جائے تو اس تخیل کے خلاف چلنے والی دنیا میں آپ کی حالت ایسی ہوگی جیسے ایک گول سوراخ میں ایک چوکھونٹی میخ اپنے پورے وجود سے ہر آن ہر زاویہ پر اس گول سوراخ کے پورے وجود کے ساتھ متصادم ہوتی رہتی ہے اور ہر وقت اپنے اور اس کے اختلاف کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے یا جیسے برف خانہ میں چند دہکتے ہوئے انگارے جو اگر کوئي آواز بلند نہ کررہے ہوں تب بھی ان کا محض موجود ہونا ہی بجائے خود برف کے تودوں کے خلاف ایک مستقل اعلان جنگ ہے۔اگر ان کے اردگرد کوئی آتش گیر مواد موجود ہوگا تو وہ کسی وعظ کے بغیر ان سے اثر لے کر مشتعل ہوجائے گا اور برف خانہ آتش کدے میں تبدیل ہوکر رہے گا۔ بے شعوری کے اسلام اور منافقانہ اسلام کا معاملہ تو دوسرا ہے لیکن جب کوئی شخص اخلاص کے ساتھ شعوری طریقے سے اسلام قبول کرلیتا ہے تو اس کےساتھ ہی افکار ، اخلاق ، معیشت ، معاشرت ، تمدن غرض ہر شعبۂ زندگی میں اپنے غیر اسلامی ماحول سے اس کا تصادم شروع ہوجاتا ہے اس کو یہ ماحول اور اس ماحول کو وہ ہر وقت کھٹکتا ہے اس کی پوری ہستی فضائے جاہلیت کے خلاف ایک احتجاج بن جاتی ہے اور اس فضا میں وہ اس طرح اجنبی و نامانوس ہوکر رہ جاتا ہے جیسے سیاہ چادر پر سفید دھبہ، میں چاہتا ہوں کہ اس کفر و جاہلیت کے مارے ہوئے ماحول میں آپ یہی کچھ بن کر رہ جائیں تاکہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں اس نظام کے ہر جزو سے ہر ہر قدم پر آپ کا تصادم ہو اور اپنے پورے وجود سے آپ اس کے خلاف ایک مستقل اعلان جنگ اور ایک ابدی و دائمی احتجاج بن جائیں یہ ہر آنی و ہر جہتی کش مکش اور یہ ہر لحظہ کا خاموش تصادم ہزار واعظوں ، تقریروں اور مقالوں سے زیادہ وزنی ہے بلکہ درحقیقت یہی اصل چیز ہے اور اس کے بغیر تبلیغ افکار کی مہم سر انجام نہیں پاسکتی۔
ان پر مغز مشوروں کے بعد آپ نے رفقا کی ایک بڑی اور عام کمزوری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ مختلف جماعتوں سے آنے والے لوگ اپنے ساتھ اپنی پچھلی گروہی اور سیاسی زندگیوں کے اثرات لے آئے ہیں ان میں اب تک سابق جماعتی تعصّبات کا اثر موجود ہے مثلاً جو گروہ کانگریس سے نکل کر آیا ہے وہ اگرچہ کانگریس کے حق میں اثباتی تعصب نہیں رکھتا ہے۔ لیکن لیگ کی مخالفت کا رحجان ان کے دماغوں میں واضح طور پر باقی ہے۔ یہی حال لیگ سے آنے والے حضرات کا ہے۔ پھر جو لوگ مخصوص مذہبی گروہوں سے ٹوٹ کر آئے ہیں ان میں بھی ان گروہوں کے خلاف اچھا خاصا تیز جذبۂ مخالفت پایا جاتا ہے جن سے لڑنے میں ان کی عمریں گزری ہیں۔ ان مختلف تعصّبات کے حاملین جب کبھی مل بیٹھتے ہیں اور بحث و مذاکرہ کا سلسلہ چل نکلتا ہے تو بسا اوقات یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ ان کی باہمی گفتگوئیں سابق عصبیتوں کو اسی طرح تازہ نہ کردیں جس طرح اورس و خزرج کے لوگوں میں منافقین کا چھوڑا ہوا شوشہ جنگ بعاث کے اثرات تازہ کردیتا تھا۔
اس تبصرے کا سلسلہ تیسری نشست تک جاری رہا۔ اس کے بعد تیسری نشست میں صوبہ کے کام کی تنظیم کے متعلق مشورہ ہوا۔ مشورہ کے دوران میں اندازہ ہوا کہ اس امر کی ضرورت بہ شدت محسوس کی جارہی ہے کہ صوبۂ بہار میں کم ازکم ایک قیم جماعت ضرور ہونا چاہیے جو مستعد اور فرض شناس ہو اور ║مختلف مقامات کی جماعتوں اور محتلف ارکان کے ساتھ ربط و ضبط رکھے۔ ان کی کارروائیوں سے واقف رہے۔وقتاً فوقتاً ان کو جمع کرتا رہے اور کبھ خود ان کے پاس پہنچتا رہے۔اس غرض کے لیے مولانا مسعود عالم صاحب ندوی موزوں آدمی ہوسکتے تھے لیکن افسوس ہے کہ ان کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی۔اس لیے تجویز کیا گیا کہے بہار کی جماعتوں کے ارکان جلدی سے جلدی آپس میں مشورہ کرکے ایک قیم جماعت کا انتخاب کریں۔دوسری چیز جس کے متعلق مختلف مقامی جماعتوں کے امراء کو ہدایت کی گئی وہ یہ تھی کہ اپنے اپنے حلقہ کے ارکان کی صلاحیتوں کا صحیح صحیح اندازہ کرکے ان سے کام لیں اور جمعہ کے اجتماع کا شدت سے التزام کریں،جو لوگ بلا عذر معقول جمعہ کے اجتماع میں نہ آئیں ان کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ جماعت سے دلچسپی نہیں رکھتے جمعہ کے اجتماعا سے حسب ذیل طریقوں سے استفادہ کیا جائے۔
۱۔جماعت کی طرف سے شائع ہونے والے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے، نہ صرف تازہ شائع ہونے والی چیزوں کا بلکہ پہلی مطبوعات کا بھی، تاکہ ان کے مضامین بار بار ذہن میں تازہ ہوتے رہیں۔
۲۔پس ماندہ رفقا کو اٹھانے اور ابھارنے اور ہمدردی و اخلاص کے ساتھ ان کی کمزوریوں کو رفع کرنے کی سعی کی جائے۔
۳۔دعوت کو مختلف حلقوں میں پھیلانے کی تدابیر پر غور و خوض کیا جائے۔
۴۔ہر فرد نے پچھلے ہفتے میں جو کام کیا ہو اس کو وہ پیش کرے اور دوسرے ارکان یا تو اس سے استفادہ کریں یا اگر اس کے طریق کار میں کوئی غلطی پائیں تو اس کی اصلاح کریں یا اگر اس کو مشکلات پیش آئی ہوں تو ان کا حل تلاش کریں۔
۵۔دعوت کی راہ میں جو مزاحمتیں پیش آرہی ہوں ان کا جائزہ لیا جائے اور انہیں دور کرنے کی تدابیر سوچی جائیں۔
۶۔ اگر مقامی جماعت میں کوئی صاحب درس قرآن کی اہلیت رکھتے ہوں تو ہفتہ وار درس ہو ورنہ تفہیم القرآن کی مدد سے کتاب اللہ میں بصیرت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ہفتہ وار اجتماع کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ارکان کو جماعت سے وابستہ رکھنے اور ان کے اندر تحریک سے دلچسپی اور باہمی تعاون کی روح کو برقرار رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس سے تغافل برتنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ جماعت یخ بستہ ہوجائے گی، ہمارے پاس معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ رہے گا کہ ہم میں سے کون لوگ تحریک سے واقعی دلچسپی رکھتے ہیں اور کون نہیں رکھتے، ہمارے ارکان ایک دوسرے سے اجنبی رہیں گے۔ ان کے درمیان نہ دوستی و رفاقت کا رشتہ مضبوط ہوسکے گا، نہ وہ جماعت کے کاموں میں تعاون کرسکیں گے، اور نہ ایک دوسرے کی اصلاح میں مددگار بن سکیں گے۔
║تیسری چیز جس کی طرف امیر جماعت نے تمام رفقا کو پورے زور کے ساتھ توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ انہیں اپنے عہد ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ادا کرنے کی فکر کرنی چاہیے اور ہر شخ کو اپنی قوتوں اور قابلیتوں کا پورا جائزہ لے کر ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنا چاہے کہ وہ کا کام کرسکتا ہے، پھر جس کام کی اہلیت و صلاحیت اسے اپنے اندر محسوس ہو اس کو انجام دینے میں بس لگ جانا چاہیے۔ یہ وقت وہ ہے جو ہم سے اپنی انتہائی حد وسع تک سعی و کوشش کا مطالبہ کررہا ہے۔ ضرورت ہے کہ ایک لمحہ کا انتظار کیے بغیر ہم میں سے اٹھے اور جس سے جو ہوسکتا ہے کرلے۔ جو اہل علم ہیں وہ تخریب و تعمیر افکار کی مہم میں مصروف ہوں۔جو اہل تعلیم ہیں وہ نئی نسل کی تیاری کے لیے مستعد ہوجائیں، جو ادیب ہیں وہ ادب کی مختلف راہوں سے نظام حاضر پر حملہ آور ہوں اور نظام اسلام کی دعوت پھیلائیں، جو مضمون نگار ہیں وہ اخباروں اور رسالوں میں اظہار خیال شروع کردیں، جو بات چیت سے لوگوں پر اثر ڈالنے کی قوت رکھتے ہیں وہ انفرادی تبلیغ کی مہم میں مصروف ہوجائیں ، جنہیں دیہاتوں میں کام کرنے یا عوام کو خطاب کرنے کا تجربہ ہو وہ دیہات میں گھومیں اور عامۃ الناس کی اصلاح کے لیے کوشش کریں۔ جن کو اللہ نے بہتر معاشی حالات دیے ہوں وہ بیت المال کی تقویت کی فکر کریں۔ غرض کسی قوت کی ایک رمق بھی ضائع نہ ہونے پائے۔ رہا یہ سوال کہ آپ کتنا کام کریں اور کس حد تک کیے چلے جائیں جس کے بعد آپ کا ضمیر مطمئن ہوجائے کہ خدا نے جب آپ سے آپ کے وقت اور قوتوں کا حساب لے گا تو آپ اس کارنامۂ خدمت کو پیش کرکے مغفرت کی امید کرسکیں گے۔
آخر میں جناب فضل الرحمان صاحب (مونگیر)ایک اسکیم زیر بحث آئی ، جس کا مفاد یہ تھا کہ ارکان جماعت کو مال حرام سے اجتناب کی وجہ جو مالی مشکلات پیش آتی ہیں انہیں دور کرنے کے لیے مختلف مقامات پر اس طرز کی کارو باری اسکیمیں عمل میں لائی جائیں کہ کچھ مالدار اور کچھ کارندے مل کر دولت فراہم کریں اور یہ دولت ایک مقررہ تناسب سے سرمایہ لگانے والوں ، محنت کرنے والوں اور جماعت کے بیت المال پر تقسیم ہوتی رہے اس طرح مختلف مقامات پر تبلیغی و تعلیمی مراکز کو جاری کرکے کام کی رفتار تیز کی جاسکتی ہے۔
اس تجویز پر مشاورتی گفتگو کچھ دیر تک ہوتی رہی۔ مولانا امین احسن صاحب نے اس سلسلے میں ایک مختصر تقریر کی جس میں انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اگر ارکان جماعت باہم انفرادی طورپر معاشی امور میں ایک دوسرے کی معاونت کریں تو یہ نہایت احسن اور ضروری ہے بلکہ جہاں کوئی رکن معاشی مشکلات میں مبتلا ہو وہاں تمام ارکان کا فرض ہے کہ اس کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے جو کچھ وہ کرسکتے ہیں، کریں، لیکن جماعت کو اپنی جماعتی حیثیت میں اعلائے کلمۃ اللہ کی دعوت اور جدوجہد کے سوا کوئی کاروباری حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ایک انقلابی جماعت ایک پہلو سے کاروباری ادارہ بھی بن جائے تو ایک تو اس کی مساعی بالکل تقسیم ہوکر رہ جائيں گی، دوسرے کچھ لوگ بلا تحقیقی جذبہ کے محض معاشی مفاد کی ہوس میں اس کے اندر جذب ہونے شروع ہوجائیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے اصل مقصد کو نقصان پہنچے گا۔ اس خیال کی تائید جناب امیر نے بھی کی اور بغیر کسی ووٹنگ کے فضل الرحمان نے خود اس نقطۂ نظر کو تسلیم کرلیا اور اپنی اس تجویز کو جو بہت دنوں کے غور و خوض کے بعد مرتب کرکے لائے تھے بلا تامل واپس لے لیا۔
║دوسرے ارکان جماعت سے انفرادی طور پر تبادلۂ خیال جاری رہا اور ہر شخص اور ہر جماعت کو مقامی ضروریات کے لحاظ سے امیر جماعت نے مشورے اور ہدایات دیں۔
عام ملاقاتوں کے لیے ۲۳/ اکتوبر کا دن مقرر کیا گیا تھا، لیکن دربھنگہ اور دوسرے مقامات سے مختلف اصحاب ۲۲/ اکتوبر کی شام سے ہی آنے لگے جن میں مسلم لیگ، امارت شرعیہ، جمعیت العلماء اور دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے حضرات بھی شامل تھے۔ان سے گھنٹوں امیر جماعت اور دوسرے رفقا تبادلۂ خیال فرماتے رہے اور اپنے مسلک کی وضاحت اور ان غلط فہمیوں کی تردید کی جو مختلف حلقوں میں جماعتوں کے متعلق پائی جاتی ہیں۔ ان گفتگوؤں کا خلاصہ پیش کردینا مشکل ہے۔ مختصراً دو تین باتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے،بعض حلقوں کی طرف سے مسلمانوں میں یہ غلط فہمی بہ کثرت پھیلائی گئی ہے کہ ہم عام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اس کا اثر دربھنگہ میں بھی پایا جاتا تھا۔ اگرچہ اس کی عملی تردید کے لیے یہ بات کافی تھی کہ ہم نے جمعہ کی نماز عام مسلمانوں کے ساتھ ادا کی، لین اس پر بھی لوگوں کے لیے یہ سوال دریافت طلب ہی رہا اور جواب میں امیر جماعت نے لوگوں کو صاف صاف بتادیاکہ یہ محض ایک بہتاں ہے جو ہماری دعوت اصلاح میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے جان بوجھ کر لگایا جارہا ہے۔ دوسرا شبہ عام طور پر مختلف جماعتوں میں یہ پھیلا ہوا ہے کہ ہماری ان سے براہ راست کوئی کش مکش ہے۔ اس سلسلہ میں بھی صاف صاف بتادیا گیا کہ براہ راست کسی جماعت کے خلاف ہمارا کوئی معرکہ (campaign) نہیں ہے۔ ہم جن امور میں مختلف جماعتوں کے مسلک سے اختلاف رکھتے ہیں ان کی وضاحت لٹریچر میں کردی گئی ہے۔ اب ہمارا اصل تصادم کافرانہ نظام حیات سے ہے۔ محدود مقاصد پر کام کرنے والی جماعتی ہیئیتوں(political bodies) سے نہیں ہے۔
بہت سے لوگ اس بات کو بھی سمجھنا چاہتے تھے کہ یہ اسلامی انقلاب برپا کس طرح ہوگا؟ اس کی توضیح کرتے ہوئے مولانا مودودی صاحب نے بتایاکہ آغاز ہمیشہ افکار کی تبدیلی اور ذہنیتوں کی نئی تعمیر سے ہوتا ہے اس کے بعد ایک اصولی جماعت کو اپنے نصب العین کی طرف بڑھنے کے لیے وہ مشکلات پیش نہیں آتیں جو ایک قومی گروہ کو پیش آتی ہیں۔ایک قوم کے لیے تو بے شک یہ سوال بڑا اہم ہے کہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے کے لیے تربیت یافتہ آدمی اور سامان کہاں سے لائے، لیکن ایک اصولی جماعت کے لیے یہ سوالات اہمیت نہیں رکھتے، اس کے لیے تو صرف یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی دعوت کو جو لوگ لے کر اٹھیں وہ اپنے اصولوں پر اعتقادی اور عملی طور پر سچا ایمان رکھنے والے ہوں جس کے ذریعہ سے حریفوں کے دل اور دماغ مفتوح ہوسکتے ہوں۔اس طرح جب دعوت اس منزل پر پہنچتی ہے جہاں نظام حاضر سے اس کا مسلح تصادم ہونے لگتا ہے تو اسے سازو سامان اور ہر قسم کے تربیت یافتہ آدمی خود نظام حاضر ہی سے ملتے چلے جاتے ہیں۔ اسے آدمی بنانے نہیں پڑتے بلکہ بنے بنائے آدمیوں کو مسخر کرنا ہوتا ہے"۔
"حلقہ مطالعۂ اسلامی" کی طرف سے عام جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا، اور پروگرام یہی تھا کہ جناب امیر عوام کو خطاب بھی کریں۔ اس پروگرام کے مطابق بہت سے لوگ تو محض مولانا کی تقریر سننے کے لیے آئے تھے مگر افسوس ہے کہ منتظمین جلسہ کو پروگرام بدلنا پڑا اور مولانا کی تقریر نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ ║تھی کہ دربھنگہ میں ایک گروہ چند روز پہلے سے فتنہ انگیزی میں مشغول تھا۔ اور اس بات کا امکان تھا کہ یہ لوگ جلسۂ عام میں افتراق برپا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ حالات سن کر امیر جماعت نے جلسہ میں شریک ہونے سے معذرت ظاہر کی۔ کیوں کہ ان کا مستقل مسلک یہ ہے کہ فتنہ سے اجتناب کیا جائے۔ اور جہاں لوگ ہماری دعوت کو سننا نہ چاہتے ہوں ، ان کے کانوں میں حق کی آوازکو زبردستی ٹھونسنے کی کوشش نہ کی جائے۔ چنانچہ ان کے بجائے اجلاس عام میں ملک نصر اللہ خاں عزیز مدیر "مسلمان" لاہور نے تقریر کی، جو بہ حیثیت مجموعی کامیاب رہی"۔