~بسم اللہ الرحمان الرحیم
~شہادت حق
~مولاناسید ابوالاعلی مودودی
ترتیب
1امت مسلمہ کا فرض اور مقصد وجود
2 شہادت حق
3 ادائے شہادت کا طریقہ
4قولی شہادت
5عملی شہادت
6شہادت زور
7ہمارا فرض منصبی
8اصل مسئلہ
9نصب العین
10اجتماعیت
11ہماری دعوت
12نئی جماعت کا قیام
13ہمارا لائحۂ عمل
14ایک الزام
15امیر کی اصطلاح پر اعتراض
16ایک مضحکہ خیز اعتراض اور اس کا ازالہ
║~بسم اللہ الرحمان الرحیم
~امت مسلمہ کا فرض اور مقصد وجود
ساری تعریف اس خدا کے لئے ہے جو کائنات کا تنہا خالق ،مالک،اور حاکم ہے جو کمال درجہ کی حکمت، قدرت اور رحمت کے ساتھ اس میں فرمانروائی کررہا ہے۔ جس سے انسان کو پیدا کیا، اس کو علم و عقل کی قوتیں بخشیں، اسے زمین میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا اور اس کی رہ نمائی کے لئے کتابیں اتاریں اور پیغمبر بھیجے۔پھر خدا کی بے شمار رحمتیں ہوں اس کے ان نیک اور برگزیدہ بندوں پر جو انسان کو انسانیت سکھانے آئے۔جنھوں نے آدمی کو اس کے مقصد زندگی سے خبردار کیا اور اسے دنیا میں جینے کا صحیح طریقہ بتایا۔آج دنیا میں ہدایت کی روشنی ، اخلاق کی پاکیزگی اور نیکی و پرہیزگاری جو کچھ بھی پائی جاتی ہے وہ سب خدا کے انہی برگزیدہ بندوں کی رہنمائی کی بدولت ہےاور انسان کبھی ان کے بارِ احسان سے سبکدوش نہیں ہوسکتا۔
عزیزو اور دوستو! ہم اپنے اجتماعات کو دو حصوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں۔ ایک حصہ اس غرض کے لئے ہوتا ہے کہ ہم خود آپس میں بیٹھ کر اپنے کام کا جائزہ لیں اور اسے آگے بڑھانے کے لئے باہم مشورہ کریں۔ دوسرا حصہ اس مقصد کے لئے خاص ہوتا ہےکہ جس مقام پر ہمارا اجتماع ہو وہاں کے عام باشندوں کے سامنے ہم اپنی دعوت کو پیش کریں۔اس وقت کا یہ اجتماع اسی دوسری غرض کے لئے ہے۔ ہم نے آپ کو اس لئے تکلیف دی ہے کہ آپ کو بتائیں کہ ہماری دعوت کیا ہے اور کس چیز کی طرف ہم بلاتے ہیں۔ ہماری دعوت کا خطاب ایک تو ان لوگوں سے ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں۔ دوسرے ان عام بندگان خدا سے ہے جو مسلمان نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے لئے ہمارے پاس ایک پیغام ہے۔ مگر افسوس ہے کہ یہاں دوسرے گروہ کے لوگ مجھے نظر نہیں آتے۔یہ ہماری پچھلی غلطیوں اور آج کی بے تدبیریوں کا نتیجہ ہے کہ خدا کے بندوں کا بہت بڑا حصہ ہم سے دور ہوگیا ہے۔اور مشکل ہی سے کبھی ہم یہ موقع پاتے ہیں کہ ان کو اپنے پاس بلا کر یا خود ان کے قریب جاکر وہ پیغام ان کو سنائیں جو ان کے اور ہمارے خدا نے ہم سب کی رہنمائی کے لئے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ بہر حال اب کہ وہ موجود نہیں ہیں میں دعوت کے صرف اس حصہ کو پیش کروں گا جو مسلمانوں کے لئے خاص ہے۔
مسلمانوں کو ہم جس چیز کی طرف بلاتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ادا کریں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔آپ صرف اتنا کہہ کر نہیں چھوٹ سکتے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم نے خدا کو اور اس کے دین کو مان لیا۔ بلکہ جب آپ نے خدا کو اپنا خدا اور اس کے دین کو اپنا دین مانا ہےتو اس کے ساتھ آپ پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ جن کا شعور آپ کو ہونا چاہیئے۔ اور جن کے ادا کرنے کی فکر آپ کو ہونی چاہیئے۔ اگر آپ انہیں ادا نہ کریں گے تو ا س کے وبال سے نہ دنیا میں چھوٹ سکیں گے نہ آخرت میں۔ وہ ذمہ داریاں کیا ہیں؟وہ صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ خدا پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور یوم ِ آخرت پر ایمان لائیں ۔وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نماز پڑھیں ۔ روزہ رکھیں، حج کریں اور زکٰوۃ دیں۔ وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نکاح ،طلاق،وراثت وغیرہ معاملات میں اسلام کے مقرر کئے ہوئے ضابطے پر عمل کریں بلکہ ان سب کے علاوہ ایک بڑی اور بھاری ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ آپ تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں جس پر آپ ایمان لائے ہیں۔مسلمان کے نام سے قرآن میں آپ کو ایک مستقل امت بنانے کی جو واحد غرض بیان کی گئی ہےوہ یہی ہے کہ آپ تمام بندگانِ خدا پر شہادت حق کی حجت پوری کریں۔
}وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا..
البقره:۱۴۳{
اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’ امتِ وسط ‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو ۔
یہ آپ کی امت کا عین مقصدِوجود ہے جسے آپ نے پورا نہ کیا تو گویا اپنی زندگی ہی اکارت گنوادی۔ یہ آپ پر خدا کا عائد کیاہوا فرض ہے کیونکہ خدا کا حکم یہ ہے کہ :
║ }يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ ..المائده:۸{
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو ۔
اور یہ نرا حکم ہی نہیں بلکہ تاکیدی حکم ہے کیوں کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے :
}وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ .. البقرہ : ۱۴۰{
اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا ، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے ؟
پھر اللہ تعالٰی نے آپ کو یہ بھی بتادیا کہ اس فرض کو انجام نہ دینے کا نتیجہ کیا ہے۔ آپ سے پہلے اس گواہی کٹہرے میں یہودی کھڑے کئے گئے تھے مگر انھوں نے کچھ تو حق کو چھپایا اور کچھ حق کے خلاف گواہی دی اور فی الجملہ حق کے نہیں بلکہ باطل کے گواہ بن کر رہ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے انھیں دھتکار دیا اور ان پر وہ پھٹکار پڑی کہ :
}..وَضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ الذِّلَّةُ وَالۡمَسۡکَنَةُ وَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ .. البقرہ : ۶۱{
آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی اُن پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے ۔
شہادت حق
یہ شہادت جس کی ذمہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جو حق آپ کے پاس آیا ہے، جو صداقت آپ پر منکشف کی گئی ہے، انسان کے لئے فلاح و نجات کی ایک ہی راہ جو آپ کو دکھائی گئی ہے آپ دنیا کے سامنے اس کے حق اور صداقت ہونے پر اور اس کے راہ راست ہونے پر گواہی دیں۔ ایسی گواہی جو اس کے حق اور راستی ہونے کو مبرہن کردے۔ اور دنیا کے لوگوں پر دین کی حجت پوری کردے۔اسی شہادت کے لئے انبیاء علیہم السلام دنیا میں بھیجے گئے تھے اور اس کا ادا کرنا ان پر فرض تھا۔پھر یہی شہادت تمام انبیاء کے بعد ان کی امتوں پر فرض ہوتی رہی۔ اور اب خاتم النبیین ﷺ کے بعد یہ فرض امت مسلمہ پر بحیثیت مجموعی اسی طرح عائد ہوتا ہے جس طرح حضور ﷺ پر آپ کی زندگی میں شخصی طور پر عائد تھا۔ اس گواہی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ نوعِ انسانی کے لئے اللہ تعالٰی نے بازپرس اور جزا و سزا کا جو قانون مقرر کیا ہے اس کی ساری بنیاد ہی اس گواہی پر ہے۔ اللہ تعالٰی حکیم و رحیم اور قائم بالقسط ہے، اس کی حکمت و رحمت اور اس کے انصاف سے یہ بعید ہے کہ لوگوں کو اس کی مرضی نہ معلوم ہو اور وہ انھیں اس بات پر پکڑے کہ وہ اس کی مرضی کے خلاف چلے۔ لوگ نہ جانتے ہوں کہ راہ راست کیا ہے اور وہ ان کی کج روی پر ان سے مواخذہ کرے۔لوگ اس سے بے خبر ہوں کہ ان سے کس چیز کی بازپرس ہونی ہے اور وہ ان جانی چیز کی ان سے باز پرس کرے۔اس لئے اللہ تعالٰی نے آفرینش کی ابتداء ہی ایک پیغمبر سے کی اور پھر وقتاً فوقتاً بے شمار پیغمبر بھیجے تاکہ وہ نوعِ انسانی کو خبردار کریں کہ تمہارے معاملے میں تمہارے خالق کی مرضی یہ ہے، تمہارے لئے دنیا میں زندگی بسر کرنے طریقہ یہ ہے ، یہ رویّہ ہے جس سے تم اپنے مالک کی رضا کو پہنچ سکتے ہو، یہ کام ہیں جو تم کو کرنے چاہیئیں اور یہ کام ہیں جن سے تم کو بچنا چاہیئے۔ اور یہ امور ہیں جن کی تم سے بازپرس کی جائے گی۔ یہ شہادت جو اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبروں سے دلوائی اس کی غرض قرآن مجید مین صاف صاف یہی بتائی گئی ہے کہ لوگوں کو اللہ پر یہ حجت قائم کرنے کا موقع باقی نہ رہے کہ ہم بے خبر تھے اور آپ ہمیں اس چیز پر پکڑتے ہیں جس سے ہم کو خبردار نہ کیا گیا تھا۔ } رُسُلًا مُّبَشِّرِيۡنَ وَمُنۡذِرِيۡنَ لِئَلَّا يَكُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌ ۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيۡزًا حَكِيۡمًا.. النسآء: ۱۶۵{
یہ سارے رسول ﷺ خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ اُن کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے ۔(165)
║اس طرح خدا نے لوگوں کی حجّت اپنے اوپر سے اتار کر پیغمبروں پر ڈال دی۔ اور پیغمبر اس اہم ذمہ داری کے منصب پر کھڑے کردئے گئے کہ اگر وہ شہادت حق کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کردیں تو لوگ اپنے اعمال پر خود بازپرس کے مستحق ہوں اور اگر ان کی طرف سے ادائے شہادت میں کوئی کوتاہی ہو تو لوگوں کی گمراہی و کج روی کا مواخذہ پیغمبروں سے کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں پیغمبروں کے منصب کی نزاکت یہ تھی کہ یا تو وہ حق کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا کرکے لوگوں پر حجّت قائم کریں ورنہ لوگوں کی حجّت الٹی ان پر قائم ہوئی جاتی تھی کہ خدا نے حقیقت کا جو علم آپ حضرات کو دیا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ پہنچایا ، اور جو صحیح طریقِ زندگی اس نے آپ کو بتایا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ بتایا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنے اوپر اس ذمہ داری کے بار کو شدّت کے ساتھ محسوس کرتے تھے اور اسی بنا پر انھوں نے اپنی طرف سے حق کی شہادت ادا کرنے اور لوگوں پر حجّت تمام کردینے کی جان توڑ کوششیں کیں۔ پھر انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ سے جن لوگوں نے حق کا علم اور ہدایت کا راستہ پایا وہ ایک امت بنائے گئے اور وہی منصب شہادت کی نازک ذمہ داری جس کا بار انبیاء پر ڈالا گیا تھا اب اس امّت کے حصے میں آئی اور انبیاء کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے اس کا یہ مقام قرار پایا کہ اگر یہ امت شہادت کا حق ادا کردے اور لوگ درست نہ ہوں تو یہ اجر پائے گی اور لوگ پکڑے جائیں گے۔ اور اگر یہ حق کی شہادت دینے میں کوتاہی کرے یا حق کے بجائے الٹی باطل کی شہادت دینے لگے تو لوگوں سے پہلے یہ پکڑی جائے گی۔اس سے خود اس کے اعمال کی باز پرس بھی ہوگی اور ان لوگوں کے اعمال کی بھی جو اس کے صحیح شہادت نہ دینے یا غلط شہادت دینے کی وجہ سے گمراہ ، مفسد اور غلط کار رہے۔
ادائے شہادت کا طریقہ
حضرات! یہ ہے وہ شہادت حق کی نازک ذمہ داری جو مجھ پر ،آپ پر اور ان سب پر عائد ہوتی ہےجو اپنے کو امت مسلمہ کہتے ہیں اور جن کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے انبیاءکی ہدایت پہنچ چکی ہے۔ اب دیکھئے کہ اس شہادت کے ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے۔شہادتیں دو طرح کی ہوتی ہیں : ایک قولی شہادت دوسرے عملی شہادت۔ قولی شہادت کی صورت یہ ہے کہ ہم زبان اور قلق سے دنیا پر اس حق کو واضح کریں جو انبیاء کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے۔ سمجھانے اور دل نشین کرنے کے جتنے طریقے ممکن ہیں ان سب سے کام لے کر، تبلیغ و دعوت اور نشر و اطاعت کے جتنے ذرائع ممکن ہیں ان سب کو استعمال کرکے علوم و فنون نے جس قدر مواد فراہم کیا ہے وہ سب اپنےہاتھ میں لے کر ہم دنیا کو اس دین کی تعلیم سے روشناس کریں جو خدا نے انسان کے لئے مقرر کیا ہے۔ فکر و اعتقاد میں، اخلاق و سیرت میں، سیاست و تدبیرمملکت میں اور بین الانسانی معاملات کے تمام دوسرے پہلوؤں میں اس دین نے انسان کی رہنمائی کے لئے جو کچھ پیش کیا ہےاسے ہم خوب کھول کھول کر بیان کریں، دلائل اور شواہد سے اس کا حق ہونا ثابت کریں اور جو کچھ اس کے خلاف ہے اس پر معقول تنقید کرکے بتائیں کہ اس میں کیا خرابی ہے۔ اس قولی شہادت کا حق ادا نہیں ہوسکتا جب تک کہ امّت مجموعی طور پر ہدایت ِ خلق کے لئے اسی طرح فکر مند نہ ہو جس طرح انبیاء علیہم السلام انفرادی طور پر اس کے لئے فکر مند رہا کرتے تھے۔ یہ حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ کام ہماری تمام اجتماعی کوششوں اور قومی سعی و جہد کا مرکزی نقطہ ہو۔ ہم اپنے دل و دماغ کی سارے وسائل و ذرائع اس پر لگادیں، ہمارے تمام کاموں میں یہ مقصد لازماًملحوظ رہے اور ہم اپنے درمیان سے کسی ایسی آواز کے اٹھنے کو تو کسی حال میں برداشت ہی نہ کریں جو حق کے خلاف شہادت دینے والی ہو۔رہی عملی شہادت تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان اصولوں کا عملاً مظاہرہ کریں جن کو ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا صرف ہماری زبان ہی سے ان کی صداقت کا ذکر نہ سنےبلکہ خود اپنی آنکھوں سے خود ہماری زندگی میں ان کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کرلے۔وہ ہمارے برتاؤ میں اس شیرینی کا ذائقہ چکھ لے کہ اس دین کی رہنمائی میں کیسے اچھے انسان بنتے ہیں، کیسی عادل سوسائٹی تیار ہوتی ہے، کیسی صالح معاشرت وجود میں آتی ہے، کس قدر ستھرا اور پاکیزہ تمدّن پیدا ہوتا ہے، کیسے صحیح خطوط پر علوم و آداب اور فنون کا نشونما ہوتا ہے، کیسا منصفانہ ،ہمدردانہ اور بے داغ معاشی تعاون رونما ہوتا ہے، اور انفرادی و اجتماعی زندگی کا ہر پہلو کس طرح سدھر جاتا ہے، سنور جاتا ہے اور بھلائیوں سے مالا مال ہوجاتا ہے۔اس شہادت کا حق صرف اس طرح ادا ہوسکتا ہے کہ ہم فرداً فرداً بھی اور قومی حیثیت سے بھی اپنے کی حقانیت پر مجسّم شہادت بن جائیں۔ ہمارے افراد کا کردار اس کی صداقت کا ثبوت دے۔ ہمارے گھر اس کی خوشبو سے مہکیں، اور ہماری دوکانیں اور ہمارے کارخانے اس کی روشنی سے جگمگائیں، ہمارے ادارے اور ہمارے مدرسے اس کے نور سے منور ہوں، ہمارا لٹریچر اور ہماری صحافت اس کی خوبیوں کی سند پیش کریں ۔ہماری قومی پالیسی اور اجتماعی سعی و جہد اس کے برحق ہونے کی روشن دلیل ہو۔ غرض ہم سے جہاں اور جس حیثیت میں بھی کسی شخص یا قوم کو سابقہ پیش آئے وہ ہمارے شخصی او قومی کردار میں اس بات کا ثبوت پالے کہ جن اصولوں کو ہم حق کہتے ہیں وہ واقعی حق ہیں اور ان سے فی الواقع انسانی زندگی اصلح و اعلٰی او ارفع ہوجاتی ہے۔پھر یہ عرض کردوں کہ اس شہادت کی تکمیل اگر ہوسکتی ہے تو صرف اس وقت جب کہ ایک اسٹیٹ انہی اصولوں پر قائم ہوجائے اور وہ پورے دین کو عمل میں لاکر اپنے عدل و انصاف سے، اپنے اصلاحی پروگرام سے، ║اپنے حسن انتظام سے، اپنے امن سے، اپنے باشندوں کی فلاح و بہبود سے، اپنے حکمرانوں کی نیک سیرت سے، اپنی صالح داخلی سیاست سے، اپنی راست بازانہ خارجی پالیسی سے، اپنی شریفانہ جنگ سے، اور اپنی وفادارانہ صلح سے، ساری دنیا کے سامنے اس بات کی شہادت دے کہ جس دین نے اس اسٹیٹ کو جنم دیا ہے وہ درحقیقت انسانی فلاح کا ضامن ہے اور اسی کی پیروی میں نوعِ انسانی کی بھلائی ہے۔یہ شہادت جب قولی شہادت کے ساتھ مل جائے تب وہ ذمے داری پوری طرح ادا ہوجاتی ہے جو امّتِ مسلمہ پر ڈالی گئی ہے، تب نوعِ انسانی پر بالکل اتمام حجّت ہوجاتا ہے اور تب ہی ہماری امت اس قابل ہوسکتی ہے کہ آخرت کی عدالت میں نبیﷺ کے بعد کھڑی ہوکر شہادت دے سکے کہ جو کچھ حضور ﷺ نے ہم کو پہنچایا تھا وہ ہم نے لوگوں تک پہنچادیا۔اور اس پر بھی جو لوگ راہ ِ راست پر نہ آئے وہ اپنی کج روی کے خودذمہ دار ہیں۔
قولی شہادت
حضرات! یہ تو وہ شہادت ہے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں قول و عمل میں دینی چاہیئے تھی۔مگر اب دیکھیئے کہ آج ہم فی الواقع کیا شہادت دے رہے ہیں۔ پہلے قولی شہادت کا جائزہ لیجئے۔ ہمارے اندر ایک بہت ہی قلیل گروہ ایسا ہے جو کہیں ان نفرادی طور پر اور کہیں اجتماعی طور پر زبان و قلم سے اسلام کی شہادت دیتا ہے اور اس میں بھی ایسے لوگ شاید انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو اس شہادت کو اس طرح ادا کررہے ہوں، جیسا اس کے ادا کرنے کا حق ہے۔ اس شرذمۂ قلیل کو اگر آپ الگ کرلیں تو آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کی عام شہادت اسلام کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف جارہی ہے۔ہمارے زمین دار شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کا قانون وراثت غلط ہے اور جاہلیت کے رواج صحیح ہیں۔ہمارے وکیل اور جج اور مجسٹریٹ شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کے سارے قوانین غلط ہیں۔ بلکہ اسلامی قانون کا بنیادی نظریہ بھی قابل قبول نہیں اور صحیح صرف وہ قوانین ہیں جو انسانوں نے وضع کئے ہیں۔ ہمارے معلم اور پروفیسر اور تعلیمی ادارے شہادت دے رہے ہیں کہ فلسفہ و حکمت، تاریخ و اجتماعیت، معاشیات و سیاست اور قانون و اخلاق کے متعلق وہی نظریات برحق ہیں جو مغرب کی ملحدانہ تعلیم سے ماخوذ ہیں اور ان امور میں اسلام کا نقطۂ نظر قابل التفات تک نہیں ہے۔
ہمارے ادیب شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی ادب کا وہی پیغام ہے جو امریکہ ،انگلستان، فرانس اور روس کے دہری ادیبوں کے پاس ہے۔ اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کے ادب کی سرے سے کوئی مستقل روح ہی نہیں ہے۔ ہمارا پریس شہادت دے رہا ہے کہ ان کے پاس بھی مباحث اور مسائل اور پروپیگنڈہ کے وہی انداز ہیں جو غیر مسلموں کے پاس ہیں۔ ہمارے تاجر اور اہل صنعت شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام نے لین دین پر جو حدود قائم کئے ہیں وہ ناقابل عمل ہیں اور کاروبار صرف انہی طریقوں پر ہوسکتا ہے جن پر کفار عامل ہیں۔ ہمارے لیڈر شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی قومیت اور وطنیت کے وہی نعرے ہیں ، وہی قومی مقاصد ہیں، قومی مسائل کو حل کرنے کے وہی ڈھنگ ہیں ،سیاست اور دستور کے وہی اصول ہیں جو کفار کے پاس ہیں۔ اور اسلام نے اس بارے میں کوئی رہنمائی نہیں کی ہے۔ہمارے عوام شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس زبان کا کوئی مصرف دنیا اور اس کے معاملات کے سوا نہیں ہے۔ اور وہ کوئی ایسا دین رکھتے ہی نہیں جس کا وہ چرچا کریں یا جس کی باتوں میں وہ اپنا کچھ وقت صرف کریں۔ یہ ہے وہ قولی شہادت جو مجموعی طور پر ہماری پوری امت ہندوستان ہی میں نہیں، ساری دنیا میں دے رہی ہے۔
عملی شہادت
اب عملی شہادت کی طرف آئیے اس کا حال قولی شہادت سے بھی بدتر ہے۔ بلاشبہ کہیں کہیں کچھ صالح افراد ہمارے اندر ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنی زندگی میں اسلام کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔مگر سوادِ اعظم کا کیا حال ہے؟ انفرادی طور پر عام مسلمان اپنے عمل میں اسلام کی جو نمائندگی کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کے زیرِ اثر پرورش پانے والے افراد کسی حیثیت سے بھی کفر کے تیار کئے ہوئے افراد سے بلند یا مختلف نہیں ہیں بلکہ بہت سی حیثیتوں سے ان کی بہ نسبت فروتر ہیں۔ وہ جھوٹ بول سکتے ہیں، وہ خیانت کرسکتے ہیں، وہ ظلق کرسکتے ہیں، وہ دھوکہ دے سکتے ہیں، وہ قول و قرار سے پھر سکتے ہیں، وہ چوری اور ڈاکہ زنی کرسکتے ہیں، وہ دنگا اور فساد کرسکتے ہیں ، وہ بے غیرتی اور بے حیائی کے سارے کام کرسکتے ہیں، اور ان سب بداخلاقیوں میں ان کا اوسط کسی کافر قوم سے کم نہیں ہے، پھر ہماری معاشرت، ہمارا رہن سہن، ہمارے رسم و رواج او ر ہماری تقریبات، ہمارے میلے اور عرس، ہمارے جلسے اور جلوس، غرض ہماری اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں ہم اسلام کی کسی حد تک بھی صحیح نمائندگی کرتے ہوں۔ یہ چیز گویا اس بات کی زندہ شہادت ہے کہ اسلام کے پیرو خود ہی اپنے لئے اسلام کے بجائے جاہلیت کو زیادہ قابل ِ ترجیح سمجھتے ہیں۔ ہم مدرسے بناتے ہیں تو علم اور نظامِ تعلیم اور روحِ تعلیم سب کچھ کفار سے لیتے ہیں، ہم انجمنیں قائم کرتے ہیں تو مقصد، نظام اور طریقِ کار سب کچھ وہی رکھتے ہیں جو کفارکی کسی انجمن کا ہوسکتا ہے۔ ہماری پوری قوم بحیثیت مجموعی جدوجہد کرنے اٹھتی ║ہے تو اس کا مطالبہ، اس کی جدوجہد کا طریقہ، اس کی جمعیت کا دستور و نظام، اس کی تجویزیں، تقریریں اور بیانات سب کچھ ہوبہو کافر قوموں کی جدوجہد کا چربہ ہوتا ہے۔ حد یہ کہ جہاں ہماری آزاد یا نیم آزاد حکومتیں موجود ہیں وہاں بھی ہم نے اساسِ حکومت، نظامِ حکومت، اور مجموعۂ قوانین کفار سے لے لیا ہے، اسلام کا قانون بعض حکومتوں میں صرف پرسنل لا کی حد تک رہ گیا ہے او ر بعض نے اس کو بھی ترمیم کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے۔ حال میں ایک انگریز مصنف نے (Lawrence Brown) نے اپنی کتاب The prospects of Islam میں طعنہ دیا ہے کہ ہم نے جب ہندوستان میں اسلام کے دیوانی اور فوجداری قوانین کو دقیانوسی اور ناقابلِ عمل سمجھ کر منسوخ کیا تھا او ر مسلمانوں کے لئے ان کے پرسنل لا کو رہنے دیا تھا تو مسلمانوں کو یہ سخت ناگوار ہوا تھا کیوں کہ اس طرح ان کی پوزیشن وہی ہوئی جاتی تھی جو کبھی اسلام کی حکومت میں ذمیوں کی تھی لیکن اب صرف یہی نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اسے پسند کرلیا ہے بلکہ خود مسلمان حکومتوں نے بھی اس معاملے میں ہماری تقلید کی ہے، ترکی اور البانیہ نے تو اس سے تجاوز کرکے قوانین ِ نکاح و طلاق و وراثت تک میں بھی ہمارے معیارات کے مطابق "اصلاحات" کردی ہیں۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ مسلمانوں کا یہ تصور کہ قانون کا ماخذ رارادۂ الٰہی ہے ایک مقدّس افسانے (Pious Fiction) سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ ۔۔ یہ ہے وہ عملی شہادت جو تمام دنیا کے مسلمان تقریباً متفق ہوکر اسلام کے خلاف دے رہے ہیں۔ہم زبان سے خواہ کچھ کہیں ، مگر ہمارا اجتماعی عمل گواہی دے رہا ہے کہ اس دین کا کوئی طریقہ ہمیں پسند نہیں اور اس کے کسی قانون میں ہم اپنی فلاح و نجات نہیں پاتے۔
شہادتِ زور
یہ کتمانِ حق اور یہ شہادتِ زُور جس کا ہم ارتکاب کررہے ہیں اس کا انجام بھی ہمیں وہی کچھ دیکھنا پڑا ہے جو ایسے سخت جُرم کے لئے قانون الٰہی میں مقرر ہے۔ جب کوئی قوم خدا کی نعمت کو ٹھکراتی ہے اور اپنے خالق سے غداری کرتی ہے تو خدا اس کو دنیا میں بھی عذاب دیتا ہے اور آخرت میں بھی۔ یہودیوں کے معاملے میں خدا کی یہ سُنّت پوری ہوچکی ہے اور اب ہم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ خدا کو یہود سے کوئی ذاتی پرخاش نہ تھی کہ وہ صرف انھیں کو اس جرم کی سزا دیتا۔ اور ہمارے ساتھ اس کی کوئی رشتے داری نہیں کہ ہم اسی جُرم کا ارتکاب کریں او ر سزا سے بچ جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم حق کی شہادت دینے میں جتنی جتنی کوتاہی کرتے گئے ہیں اور باطل کی شہادت ادا کرنے میں ہمارا قدم جس رفتار سے آگے بڑھا ہے، ٹھیک اسی رفتار سے ہم گرتے چلے گئے ہیں۔ پچھلی ایک صدی کے اندر مراکش سے لے کر شرق الہند تک ملک کے ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ مسلمان قومیں ایک ایک کرکے مغلوب اور محکوم ہوتی چلی گئیں۔ مسلمان کا نام فخر و عزت کا نام نہ رہا بلکہ ذلّت و مسکنت اور پس ماندگی کا نشان بن گیا۔ دنیا میں ہماری کوئی آبرو باقی نہ رہی۔ کہیں ہمارا قتلِ عام ہو، کہیں ہم گھر سے بے گھر کئے گئے، کہیں ہم کو سوء العذاب کا مزہ چکھایا گیا اور کہیں ہم کو چاکری اورخدمت گاری کے لئے زندہ رکھا گیا۔ جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں باقی رہ گئیں وہاں بھی انھوں نے شکستوں پر شکستیں کھائیں اور آج ان کا حال یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کے خوف سے لرز رہے ہیں۔ حالاں کہ اگر وہ اسلام کی قولی و عملی شہادت دینے والے ہوتے تو کفر کے علم بردار ان کے خوف سے کانپ رہے ہوتے۔ دور کیوں جائیے خود ہندوستان میں اپنی حالت دیکھ لیجئے۔ادائے شہادت میں جو کوتاہی آپ نے کی بلکہ الٹی خلاف حق شہادت جو آپ اپنے قول و عمل سے دیتے رہے ہیں اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کا ملک آپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ پہلے مرہٹوں اور سکھوں کے ہاتھوں آپ پامال ہوئے۔ پھر انگریز کی غلامی آپ کو نصیب ہوئی۔ اور اب پچھلی پامالیوں سے بڑھ کر پامالیاں آپ کے سامنے آرہی ہیں۔ آج آپ کے سامنے سب سے بڑا سوال اکثریت و اقلیت کا ہے اور آپ اس اندیشے سے کانپ رہے ہیں کہ کہیں ہندو اکثریت آپ کو اپنا محکوم نہ بنالے۔ اور آپ وہ انجام نہ دیکھیں جو شودر قومیں دیکھ چکی ہیں۔ مگر خدارا مجھے بتائیے کہ اگر آپ اسلام کے سچے گواہ ہوتے تو یہاں کوئی اکثریت ایسی ہوسکتی تھی جس سے آپ کو کوئی خطرہ ہوتا؟ یا آج بھی اگر آپ قول و عمل سے اسلام کی گواہی دینے والے بن جائیں تو کیا یہ اقلیت و اکثریت کا سوال چند سال کے اندر ہی ختم نہ ہوجائے گا؟ عرب میں ایک فی لاکھ کی اقلیت کو نہایت متعصب اور سخت ظالم اکثریت نے دنیا سے نیست و نابود کردینے کی ٹھانی تھی، مگر اسلام کی سچی گواہی نے دس سال کے اندر اسی اقلیت کو سو فیصد اکثریت میں تبدیل کردیا۔ پھر جب یہ اسلام کے گواہ عرب سے باہر نکلے تو پچیس سال کے اندر ترکستان سے لے کر مراکش تک قومیں کی قومیں ان کی شہادت پر ایمان لاتی چلی گئیں۔ اور جہاں سو فی صدی مجوسی، بت پرست اور عیسائی رہتے تھے وہاں سو فی صد مسلمان بسنے لگے۔ کوئی ہٹ دھرمی، کوئی قومی عصبیت اور کوئی مذہبی تنگ نظری اتنی سخت ثابت نہ ہوئی کہ حق کی زندہ اور سچی شہادت کے آگے قدم جماسکتی۔اب اگر آپ پامال ہورہے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے شدید تر پامالی کے خطرے میں مبتلا پاتے ہیں تو یہ کتمانِ حق اور شہادتِ زُور کی سزا کے سوا اور کیا ہے۔ یہ تو اس جُرم کی وہ سزا ہے جو آپ کو دنیا میں مل رہی ہے۔ آخرت میں اس سے سخت تر سزا کا اندیشہ ہے۔جب تک آپ حق کے گواہ ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض انجام نہیں دیتے اس ║وقت تک دنیا میں جو گمراہی بھی پھیلے گی ، ظلم و فساد اور طغیان بھی برپا ہوگا، جو بداخلاقیاں اور بدکرداریاں بھی رواج پائیں گی ان کی ذمے داری سے آپ بری نہیں ہوسکتے۔ آپ اگر ان برائیوں کے پیدا کرنے کے ذمے دار نہیں ہیں تو ان کی پیدائش کے اسباب باقی رکھنے اور انھیں پھیلنے کی اجازت دینے کے ذمے دار ضرور ہیں۔
ہمارا فرضِ منصبی
حضرات! یہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں کیا کرنا چاہیئے تھا اور ہم کیا کررہے ہیں اور یہ کہ جو کچھ ہم کررہے ہیں اس کا خمیازہ کیا بھگت رہے ہیں؟ اس پہلو سے اگر آپ حقیقت ِ معاملہ پر نگاہ ڈالیں گے تو یہ بات خود ہی آپ پر کھل جائے گی کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں جن مسائل کو اپنی قومی زندگی کے اصل مسائل سمجھ رکھا ہے اور جنھیں حل کرنے کے لئے وہ کچھ اپنے ذہن کی گھڑی ہوئی اور زیادہ تر دوسروں سے سیکھی ہوئی تدبیروں پر اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہےہیں، فی الواقع ان میں سے کوئی بھی ان کا اصل مسئلہ نہیں ہے اور اس کے حل کی تدبیر میں وقت، قوت، اور مال کا یہ سارا صرفہ محض زیاں کاری ہے۔ یہ سوالات کہ کوئی اقلیت ایک غالب اکثریت کے درمیان رہتے ہوئے اپنے وجود اور مفاد اور حقوق کو کیسے محفوظ رکھے، اور کوئی اقلیت اپنے حدود میں وہ اقتدار کیسے حاصل کرے جو اکثریت میں ہونے کی بنا پر اسے ملنا چاہیئے، اور ایک محکوم قوم کسی غالب قوم کے تسلط سے کس طرح آزاد ہو، اور ایک کمزور قوم وہ ترقی ، خوش حالی اور طاقت کیسے حاصل کرے جو دنیا کی زور آور قوموں کو حاصل ہے؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے مسائل غیر مسلموں کے لئے تو ضرور اہم ہیں اور مقدم ترین مسائل ہوسکتے ہیں اور ان کی تمام توجہات اور کوششوں کے مرکز و محور بھی قرار پاسکتے ہیں مگر ہم مسلمانوں کے لئے یہ بجائے خود مستقل مسائل نہیں ہیں بلکہ محض اس غفلت کے شاخسانے ہیں جو ہم اپنے اصل کام سے برتتے رہے اور آج تک برتے جارہے ہیں۔ اگر ہم نے وہ کام کیا ہوتا تو آج اتنے بہت سے پیچیدہ اور پریشان کن مسائل کا یہ جنگل ہمارے لئے پیدا ہی نہ ہوتا اور اگر اب بھی ہم اس جنگل کو کاٹنے میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے اس کام پر اپنی ساری توجہ اور سعی مبذول کردیں تو دیکھتے دیکھتے نہ صرف ہمارے لئے بلکہ ساری دنیا کے لئے پریشان کن مسائل کا یہ جنگل خود بخود صاف ہوجائے۔ کیوں کہ دنیا کی صفائی و اصلاح کے ذمے دار ہم تھے۔ہم نے اپنا فرض منصبی ادا کرنا چھوڑا تو دنیا خاردار جنگلوں سے بھر گئی اور سب سے زیادہ پر خار حصہ ہمارے نصیب میں لکھا گیا۔
اصل مسئلہ
افسوس ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور سیاسی رہ نما اس معاملے کو سمجھنےکی کوشش نہیں کرتے اور ہر جگہ ان کو یہی باور کرائے جارہےہیں کہ تمہارے اصل مسائل وہی اقلیت و اکثریت اور آزادی وطن او ر تحفظ قوم اور مادّی ترقی کے مسائل ہیں نیز یہ حضرات ان مسائل کے حل کی تدبیریں بھی مسلمانوں کو وہی کچھ بتارہے ہیں جو انھوں نے غیر مسلموں سے سیکھی ہیں۔ لیکن میں جتنا خدا کی ہستی پر یقین رکھتا ہوں اتنا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ یہ آپ کی بالکل غلط رہ نمائی کی جا رہی ہے اور ان راہوں پر چل کر آپ کبھی اپنی فلاح کی منزل کو نہ پہنچ سکیں گے۔ میں آپ کا سخت بدخواہ ہوں گا اگر لاگ لپیٹ کے بغیر آپ کو صاف صاف نہ بتادوں کہ آپ کی زندگی کا اصل مسئلہ کیا ہے، میرے علم میں آپ کا حال اور مستقبل معلق ہے اس سوال پر کہ آپ اس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں جو آپ کو خدا کے رسول کی معرفت پہنچی ہے، جس کی نسبت سے آپ کو مسلمان کہا جاتا ہے اور اجس کے تعلق سے خواہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں بہرحال دنیا میں اسلام کے نمائندے قرار پاتے ہیں۔ اگر آپ اس کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول و عمل سے اس کی شہادت دیں اور آپ کے اجتماعی کردار میں پورے اسلام کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے، تو آپ دنیا میں سربلند اور آخرت میں سرخرو ہوکر رہیں گے۔ خوف اور حزن ، ذلّت و مسکنت ، مغلوبی اور محکومی کے یہ سیاہ بادل جو آپ پر چھائے ہوئے ہیں چند سال کے اندر چھٹ جائیں گے۔ آپ کی دعوت ِ حق اور سیرتِ صالحہ دِلوں اور دماغوں کو مسخر کرتی چلی جائے گی۔ آپ کی ساکھ اور دھاک دنیا پر بیٹھتی چلی جائے گی۔انصاف کی امیدیں آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ بھروسہ آپ کی امانت اور دیانت پر کیا جائے گا۔ سند آپ کے قول کی لائی جائے گی۔ بھلائی کی توقعات آپ سے باندھی جائیں گی۔ ائمہ کفر کوئی ساکھ آپ کے مقابلے میں باقی نہ رہ جائے گی۔ ان کے تمام فلسفے اور سیاسی و معاشی نظرئے آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔اور وہ طاقتیں جو آج ان کے کیمپ میں نظر آرہی ہیں ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی۔حتّٰی کہ ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لئے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لئے لرزہ براندام ہوگی۔ مادّہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسیٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی۔ اور یہ آج کا دور صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام جیسی عالم گیر و جہاں کشا طاقت کے نام لیوا کبھی اتنے بیوقوف ہوگئے تھے کہ ║عصائے موسیٰ بغل میں تھا اور لاٹھیوں اور رسّیوں کو دیکھ دیکھ کر کانپ رہے تھے۔ یہ مستقبل تو آپ کا اس صورت میں ہے جب کہ آپ اسلام کے مخلص پیرو اور سچے گواہ ہوں۔ لیکن اگر اس کے برعکس آپ کا رویّہ یہ رہا کہ خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت پر مارزر بنے بیٹھے ہیں نہ خود اس سے مستفید ہوتے ہیں نہ دوسروں کو اس کا فائدہ پہنچنے دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر نمائندے تو اسلام کے بنے ہوئے ہیں مگر اپنے مجموعی قول و عمل سے شہادت زیادہ تر جاہلیت، شرک، دنیا پرستی اور اخلاقی بے قیدی کی دے رہے ہیں۔ خدا کی کتاب طاق پر رکھی ہے اور رہ نمائی کے لئے ہر امام کفر اور منبعِ ضلالت کی طرف رجوع کیا جارہا ہے۔ دعویٰ خدا کی بندگی کا ہے اور بندگی ہر شیطان اور ہر طاغوت کی کی جارہی ہے۔ دوستی اور دشمنی نفس کے لئے ہے اور فریق دونوں صورتوں میں اسلام کو بنایا جارہا ہے اور اس طرح اپنی زندگی کو بھی اسلام کی برکتوں سے محروم کررکھا ہے اور دنیا کو بھی اس کی طرف راغب کرنے کے بجائے الٹا متنفر کررہے ہیں۔ تو اس صورت میں نہ آپ کی دنیا ہی درست ہوسکتی ہے اور نہ آخرت۔ اس کا انجام تو سنّت اللہ کے مطابق وہی کچھ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ اور بعید نہیں کہ مستقبل اس حال سے بھی بدتر ہو۔ اسلام کا لیبل اتار کر کھلم کھلا کفر اختیار کرلیجئے تو کم از کم آپ کی دنیا تو ویسی ہی بن جائے گی جیسی امریکہ، روس اور برطانیہ کی بنی ہوئی ہے۔ لیکن مسلمان ہوکر نامسلمان بنے رہنا اور خدا کے دین کی جھوٹی نمائندگی کرکے دنیا کے لئے بھی ہدایت کا دروازہ بند کردینا وہ جرم ہے جو آپ کو دنیا میں بھی نہ پنپنے دے گا۔ اس جرم کی سزا جو قرآن میں لکھی ہوئی ہے اور جس کا زندہ ثبوت یہودی قوم آپ کے سامنے موجود ہے اس کو آپ ٹال نہیں سکتے۔ خواہ متحدہ قومیت کے "اہون البلیتین" کو اختیار کریں یا اپنی الگ قومیت منوا کر وہ سب کچھ حاصل کریں جو مسلم قوم پرستی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ٹلنے کی صورت صرف یہی ہے کہ اس جرم سے باز آجائیے۔
نصب العین
اب میں مختصراً آپ کو بتاؤں گا کہ ہم کس غرض کے لئے اٹھے ہیں۔ ہم ان سب لوگوں کو جو اسلام کو اپنا دین مانتے ہیں، یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس دین کو واقعی اپنا دین بنائیں۔ اس کو انفرادی طور پر اپنی زندگیوں میں اور اجتماعی طور پر اپنے گھروں ، اپنے خاندان میں، اپنی سوسائٹی میں ، اپنی تعلیم گاہوں میں، اپنے ادب اور صحافت میں، اپنے کاروبار اور معاشی معاملات میں، اپنی انجمنوں اور قومی اداروں میں اور بحیثیت مجموعی اپنی قومی پالیسی میں عملاً قائم کریں اور اپنے قول اور عمل سے دنیا کے سامنے اس کی سچی گواہی دیں، اور ہم ان سے کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اقامتِ دین اور شہادت حق تمہاری زندگی کا اصل مقصد ہے اس لئے تمہاری تمام سعی و عمل کا مرکز و محور اسی چیز کو ہونا چاہیئے۔ ہر اس بات اور کام سے دست کش ہوجاؤ ، جو اس کی ضد ہو اور جس سے اسلام کی غلط نمائندگی ہوتی ہو۔اسلام کو سامنے رکھ کر اپنے پورے قولی اور عملی رویے نظر ثانی کرو۔ اور اپنی تمام کوششیں اس راہ میں لگادو کہ دین پورا کا پورا عملاً قائم ہوجائے۔ اس کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا ہو۔ اور اس کی طرف دنیا کو ایسی دعوت دی جائے جو اتمام حجت کے لئے کافی ہو۔
یہ ہے جماعتِ اسلامی کے قیام کی واحد غرض۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے جو طریقہ ہم نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کو ان کا فرض یاد دلاتے ہیں اور انھیں صاف صاف بتاتے ہیں کہ اسلام کیا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں، مسلمان ہونے کے معنٰی کیا ہیں اور مسلمان ہونے کے ساتھ کیا ذمے داریاں آدمی پر عائد ہوتی ہیں؟
اجتماعیت
اس چیز کو جو لوگ سمجھ لیتے ہیں ان کو پھر ہم یہ بتاتے ہیں کہ اسلام کے سب تقاضے انفرادی طور پر پورے نہیں کئے جاسکتے، اس کے لئے اجتماعی سعی ضروری ہے۔ دین کا ایک بہت ہی قلیل حصہ انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اس کو تم نے قائم کربھی لیا تو نہ پورا دین ہی قائم ہوگا اور نہ اس کی شہادت ہی ادا ہوسکے گی بلکہ جب اجتماعی زندگی پر نظام کفر مسلط ہو تو خود انفرادی زندگی کے بھی بیشتر حصوں میں دین قائم نہ کیا جاسکے گا۔اور اجتماعی نظام کی گرفت روز بروز اس انفرادی اسلام کی حدود کو گھٹاتی چلی جائے گی۔ اس لئے پورے دین کو قائم کرنے اور اس کی صحیح شہادت ادا کرنے کے لئے قطعاً ناگزیر ہے کہ تمام ایسے لوگ جو مسلمان ہونے کی ذمے داریوں کا شعور اور انھیں ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں ، متحد ہوجائیں اور منظم طریقے سے دین کو عملاً قائم کرنے اور دنیا کو اس کی طرف دعوت دینے کی کوشش کریں ، اور ان مزاحمتوں کو راستے سے ہٹائیں جو اقامت دین اور دعوتِ دین کی راہ میں حائل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں جماعت کو لازم قرار دیا گیا ہے، اور اقامتِ دین اور دعوتِ دین کی جدّ و جہد کے لئے ترتیب یہ رکھی گئی ہے کہ پہلے ایک ║جماعت ہو، پھر خدا کی راہ میں سعی و جہد کی جائے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جماعت کے بغیر زندگی کو جاہلیت کی زندگی ، اور جماعت سے علیحدہ ہوکر رہنے کو اسلام سے علیحدگی کا ہم معنی قرار دیا گیا ہے۔
ہماری دعوت
جو لوگ اس بات کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور اس فہم سے ان کے اندر مسلمان ہونے کی ذمےّ داری کا احساس اس حد تک قوی ہوجاتا ہے کہ اپنے دین کی خاطر اپنی انفرادیت اور خود پرستی کو قربان کرکے جماعتی نظم کی پابندی قبول کرلیں، ان سے ہم کہتے ہیں کہ اب تمہارے سامنے تین راستے ہیں اور تمہیں پوری آزادی ہے کہ ان میں سے جس کو چاہو اختیار کرو۔ اگر تمہارا دل گواہی دے کہ ہماری دعوت، عقیدہ، نصب العین، نظام جماعت اور طریقِ کار سب کچھ اسلامی ہے اور ہم وہی کام کرنے اٹھے ہیں جو قرآن و حدیث کی رو سے امت مسلمہ کا اصل کام ہے تو ہمارے ساتھ آجاؤ۔اگر کسی وجہ سے تمہیں ہم پر اطمینان نہ ہو اور کوئی دوسری جماعت تم کو ایسی نظر آتی ہو جو خالص اسلامی نصب العین کے لئے اسلامی طریق پر کام کررہی ہو تو اس میں شامل ہوجاؤ۔ ہم خود بھی ایسی جماعت پاتے تو اس میں شامل ہوجاتے ، کیوں کہ ہمیں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ چننے کا شوق نہیں ہے۔ اور اگر تم کو نہ ہم پر اطمینان ہے نہ کسی دوسری جماعت پر تو پھر تمہیں اپنے فرض اسلامی کو ادا کرنے کے لئے خود اٹھنا چاہیئے۔ اور اسلامی طریق پر ایک ایسی جماعت بنانی چاہیئے جس کا مقصد پورے دین کو قائم کرنا اور قول و عمل سے اس کی شہادت دینا ہو۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی تم اختیار کروگے ان شاءاللہ حق پر ہوگے۔ ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا اور انہ بہ ہوش و حواس ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ صرف ہماری ہی جماعت کی طرف دعوت نہیں دی ہے ، ہماری دعوت تو صرف اس فرض کی طرف ہے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر اور آپ پر یکساں عائد ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کو ادا کررہے ہیں تو برحق ہیں خواہ ہمارے ساتھ مل کر کام کریں یا نہ کریں البتہ یہ بات کسی طرح درست نہیں ہے کہ آپ نہ خود اٹھیں ، نہ کسی اٹھنے والے کا ساتھ دیں اور طرح طرح کے حیلے اور بہانے کرکے اقامت دین و شہادت علی الناس کے فریضے سے جی چرائیں۔ یا ان کاموں میں اپنی قوتیں خرچ کریں جن سے دین کے بجائے کوئی دوسرا نظام قائم ہوتا ہو اور اسلام کے بجائے کسی اور چیز کی گواہی آپ کے قول و عمل سے ملے۔ معاملہ دنیا اور اس کے لوگوں سے ہوتا تو حیلوں اور بہانوں سے کام چل سکتا تھا۔ مگر یہاں معاملہ اس خدا کے ہاتھ ہے جو علیم بذات الصدور ہے، اسے کسی چال بازی سے دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔
║نئی جماعت کا قیام
اس میں شک نہیں کہ ایک ہی مقصد اور ایک ہی کام کے لئے مختلف جماعتیں بننا بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے۔ اور اس میں انتشار کا بھی اندیشہ ہے۔ مگر جب نظام اسلامی درہم برہم ہوچکا ہو اور سوال صرف اس نظام کے چلانے کا نہیں بلکہ اس کے از سرِ نوقائم کرنے کا ہو تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ابتدا ہی میں وہ الجماعۃ وجود میں آجائے جو تمام امت کو شامل ہو۔ جس سے علیحدہ ہونا ارتداد کا ہم معنی ہو۔ آغاز کار میں اس کے سوا چارہ نہیں کہ جگہ جگہ مختلف جماعتیں اس مقصد کے لئےبنیں۔ اور اپنے اپنے طور پر کام کریں۔ یہ سب جماعتیں بالآخر ایک ہوجائیں گی اگر نفسانیت اور افراط و تفریط سے پاک ہوں اور خلوص کے ساتھ اصل اسلامی مقصد کے لئے اسلامی طریق پر کام کریں۔ حق کی راہ میں چلنے والے زیادہ دیر تک الگ نہیں رہ سکتے۔ حق ان کو جمع کرکے ہی رہتا ہے، کیوں کہ حق کی فطرت ہی جمع و تالیف اور وحدت و یگانگت کی متقاضی ہے ۔ تفرقہ صرف اس صورت میں رونما ہوتا ہے جب حق کے ساتھ کچھ نہ کچھ باطل کی آمیزش ہو یا اوپر حق کی نمائش ہو اور اندر باطل کام کررہا ہو۔
ہمارا لائحہ عمل
اب میں اختصار کے ساتھ یہ بھی عرض کردوں کہ جو لوگ ہماری جماعت کو پسند کرکے اس میں داخل ہوتے ہیں ان سے ہمارا مطالبہ کیا ہوتا ہے اور ان کے لئے ہمارے پاس کام کیا ہے؟ اپنے ارکان سے ہمارا کوئی مطالبہ اس مطالبے کے سوا نہیں ہے جو اسلام نے ہر مسلمان سے کیا ہے۔ ہم نہ تو اسلام کے اصل مطالبے پر ذرّہ برابر کسی چیز کا اصافہ کرتے ہیں اور نہ اس میں سے کوئی چیز گھٹاتے ہیں۔ ہم ہر شخص کے سامنے اسلام کو بے کم و کاست پیش کردیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اس دین کو جان بوجھ کر شعور کے ساتھ قبول کرو۔ اس کے تقاضوں کو سمجھ کر ٹھیک ٹھیک ادا کرو۔ اپنے خیالات اور اقوال و اعمال سے ہر اس چیز کو خارج کرو جو دین کے احکام او ر اس کی روح کے خلاف ہو، اور اپنی پوری زندگی سے "اسلام"کی شہادت دو۔ بس یہی ہمارے ہاں داخلے کی فیس ہے اور یہی ہمارے قواعد رکنیت ہیں۔ ہمارا دستور، ہمارا نظامِ جماعت اور وہ چیز جس کی طرف ہم دعوت دیتے ہیں سب کے سامنے عیاں ہے، اور اس کا جائزہ لے کر ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ ہم نے اصل اسلام میں----اس اسلام میں جو قرآن و سنت پر مبنی ہے-----نہ کوئی کمی کی ہے نہ بیشی ، اور ہم ہر وقت تیار ہیں کہ ہماری جس چیز کے متعلق بھی کوئی ثابت کردے گا کہ وہ قرآن و سنّت کی تعلیم پر اضافہ ہے اسے ہم اپنے ہاں سے خارج کردیں گے۔ اور جس چیز کے متعلق بھی بتادے گا کہ وہ اس تعلیم میں ہے اور ہمارے ہاں نہیں ہے اسے بلا تامل اختیار کرلیں گے۔ کیوں کہ ہم تو اٹھے ہی پورے دین کی کم و کاست اقامت اور شہادت کے لئے ہیں۔ پھر ہم سے بڑا ظالم اور کون ہوگا اگر ہم اپنے اسی مقصد میں منافق ثابت ہوں۔
اس طرح جو لوگ ہمارے نظام جماعت میں شامل ہوتے ہیں ان کے لئے ہمارے پاس صرف یہ کام ہے کہ وہ اپنے قول و عمل سے اسلام کی شہادت دیں، اور نظام دین کو مکمل طور پر قائم کرنے کے لئے اجتماعی جدوجہد کریں۔ تاکہ شہادت علی الناس کا حق پوری طرح اداہوسکے۔ جہاں تک قولی شہادت کا تعلق ہے ہم اپنے ارکان کو ایسی تربیت دے رہے ہیں جس سے وہ اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق زبان اور قلم سے اسلام کی زیادہ سے زیادہ معقول شہادت ادا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ نیز ہم ایسے ادارے بھی قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو منظم طریقے سے علم و ادب کے ہر شعبےمیں زندگی کے جملہ مسائل سے متعلق اسلامی تعلیمات کی حقانیت کو دنیا پر واضح کردیں۔ اور اس مقصد کے لئے نشر و اشاعت کے تمام ممکن ذرائع سے کام لیں۔ رہی عملی شہادت تو اس بارے میں ہماری کوشش یہ ہے کہ اول تو ایک ایک شخص اسلام کا زندہ گواہ ہو پھر ان افراد سے ایک ایسی منظم سوسائٹی نشونما پائےجس کے اندر اسلام اپنی اصل اسپرٹ میں کام کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہو۔ اور بالآخر یہ سوسائٹی اپنی جد وجہد سے نظام باطل کے غلبے کو مٹاکر وہ نظام حق قائم کرے جو دنیا میں اسلام کی مکمل نمائندگی کرنے والا ہو۔
ایک الزام
حضرات! بس یہ ہے ہمارا مقصد اور یہ ہے ہمارا پروگرام۔ ہمیں امید نہ تھی کہ یہ چیز بھی ایسی ہوسکتی ہے جس پر کسی مسلمان کو اعتراض ہو۔ مگر جس روز سے ہم نے اس راہ میں قدم رکھا ہے اعتراضات کا ایک نہ رکنے والا سیلاب ہے کہ امڈا چلا آرہاہے۔ تمام اعتراضات تو نہ قابل قدر ہیں اور نہ ایک صحبت میں ان سب سے تعرض ہی کیا جاسکتا ہے مگر اس موقع پر میں صرف ان چند اعتراضات پر کچھ عرض کروں گا، جو آپ کے شہر میں غلط فہمیاں پھیلانے کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ تمہاری یہ جماعت (جماعت اسلامی) اسلام میں ایک نئے فرقے کی بنا ڈال رہی ہے۔ یہ بات جو لوگ کہتے ہیں انھیں شاید معلوم نہیں ہے کہ فرقہ بندی کے اصل اسباب کیا ہوتے ہیں۔ دین میں جن باتوں کی وجہ سے تفرقہ برپا ہوتا ہے ، ان سب کا اگر آپ استقصاء کریں گے تو وہ صرف چار عنوانات پر تقسیم ہوں گی۔ ایک یہ کہ اصل دین پر ║کسی ایسی چیز کا اضافہ کیا جائےجو دین میں نہ ہو اور اسی کو اختلاف ِ کفر و ایمان یا فرق ہدایت و ضلالت کی بنیاد بنا ڈالا جائے ۔ دوسرے یہ کہ دین کے کسی خاص مسئلے کو لے کر اس کو وہ اہمیت دی جائے جو کتاب و سنت کی رو سے اس کو حاصل نہیں ہے اور اسی کو گروہ بندی کی بنا قرار دے لیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اجتہادی و استنباطی مسائل میں غلو کیا جائے اور ان امور میں اپنے مسلک کے سوا دوسرے مسلک والوں کی تفسیق و تذلیل یا تکفیر کی جائے یا کم از کم ان سے امتیازی معاملہ کیا جائے۔ چوتھے یہ کہ نبی کے بعد کسی خاص شخصیت کے معاملے میں غلو کیا جائے اور اس کے لئے کسی ایسے منصب کا دعویٰ کیا جائے جسے تسلیم کرنے یا نہ کرنے پر آدمی کے مومن یا کافر ہونے کا مدار ہو۔ یا کوئی جماعت یہ دعویٰ کرے کہ جو اس میں داخل ہے صرف وہی حق پر ہے، باقی سب مسلمان باطل پر ہیں۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ ہم نے ان چاروں عنوانات میں سے کس عنوان کی غلطی کی ہے؟ اگر کوئی صاحب دلیل و ثبوت کے ساتھ ہمیں صاف صاف بتادیں کہ ہم نے واقعی فلاں عنوان کی غلطی کی ہے تو ہم فی الفور توبہ کریں گے۔ اور ہمیں اپنی اصلاح کرنے میں ہرگز تامل نہ ہوگا۔ کیوں کہ ہم خدا کے دین کو قائم کرنےاٹھے ہیں۔ تفرقہ برپا کرنے نہیں اٹھے ہیں۔لیکن اگر ایسی کوئی غلطی ہم نے نہیں کی ہے تو پھر ہمارے کام سے کسی فرقے کی پیدائش کا اندیشہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟
ہم صرف اصل اسلام اور بے کم و کاست پورے اسلام کو لے کر اٹھے ہیں اور مسلمانوں کو ہماری دعوت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آؤ ہم سب مل کر اس کو عملاً قائم کریں اور دنیا کے سامنے اس کی شہادت دیں۔
اجتماع کی بنیاد ہم نے پورے دین کو قرار دیا ہے نہ کہ اس کے کسی ایک مسئلے یا چند مسائل کو ۔ اجتہادی مسائل میں ہم تمام ان مذاہب و مسالک کو برحق تسلیم کرتے ہیں جن کے لئے قواعد شریعت میں گنجائش ہے۔ ہر ایک کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ ان مذاہب و مسالک میں سے جس کا جس پر اطمینان ہو وہ اپنی حد تک اس پر عمل کرے اور کسی خاص اجتہادی مسلک کی بنیاد پر گروہ بندی کو ہم جائز نہیں رکھتے۔
اپنی جماعت کے بارے میں بھی ہم نے کوئی غلو نہیں کیا کہ حق ہماری جماعت میں دائر و منحصر ہے۔ ہم کو اپنے فرض کا احساس ہوا اور ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ کو آپ کا فرض یاد دلا رہے ہیں۔ اب یہ آپ کی خوشی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں یا خود اٹھیں اور اپنا فرض ادا کریں، یا جو بھی آپ کو یہ فرض ادا کرتا نظر آئے اس کے ساتھ مل جائیں۔
امارت کے باب میں بھی ہم کسی غلو کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں ہماری یہ تحریک کسی شخصیت کے بل پر نہیں اٹھی ہے جس کے لئے کسی خاص منصب کا دعویٰ کیا گیا ہو، جس کی کرامتوں اور الہامات اور تقدس کی داستانوں کا اشتہار دیا جاتا ہو، جس کی ذاتی عقیدت پر جماعت کی بنیاد رکھی گئی ہو اور جس کی طرف لوگوں کو دعوت دی جاتی ہو۔ دعووں او رخوابوں اور کشوف و کرامات اور شخصی تقدس کے تذکروں سے ہماری تحریک بالکل پاک ہے۔ یہاں دعوت کسی شخص یا اشخاص کی طرف نہیں ہے بلکہ اس مقصد کی طرف ہے جو قرآن کی رُو ہر مسلمان کا مقصد زندگی ہے۔ اور ان اصولوں کی طرف ہے جن کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ جو لوگ بھی اس مقصد کے لئے ان اصولوں پر ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں وہ مساوی حیثیت سے ہماری جماعت کے رکن بنتے ہیں۔ یہ ارکان ایک شخص کو اپنا امیر منتخب کرتے ہیں، نہ اس بنا پر کہ امارت اس کا کوئی ذاتی حق ہے بلکہ اس بنا پر کہ بہرحال منظم طریقے پر کام کرنے کے لئے ایک سربراہ کار ہونا چاہیئے۔ یہ منتخب کردہ امیر معزول کیا جاسکتا ہے اور جماعت میں سے کوئی دوسرا شخص اس کی جگہ امارت کے لئے چنا جاسکتا ہے۔ یہ امیر صرف اسی جماعت کا امیر ہے نہ کہ تمام امت کا، اس کی اطاعت صرف انہی لوگوں پر لازم ہے جو اس جماعت میں شامل ہوں اور ہمارے ذہنوں میں ایسا کوئی تصور تک نہیں ہے کہ "جس کی گردن میں اس کی بیعت کا قلادہ نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا"۔اب خدارا مجھے بتائیے کہ جب ہم اس طریقے پر کام کررہے ہیں تو آخر ہماری اس تحریک سے امت میں ایک نیا فرقہ کیسے بن جائے گا؟ عجیب ترین بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے دامن خود ان غلطیوں سے آلودہ ہیں، جن کی وجہ سے فرقہ بندی کا فتنہ رونما ہوتا ہے، جن کے ہاں سارا کام کسی "حضرت" کی شخصی عقیدت کے بل پر چل رہا ہے، جن کےہاں کسی شخصیت کے لئے مخصوص منصب کا دعویٰ کیا جاتا ہے، جن کے ہاں فروعی مسائل پر جھگڑے اور مناظرے ہوتے ہیں اور اجتہادی مسالک پر دھڑے بندیاں کی جاتی ہیں وہی ہم کو الزام دینے میں پیش پیش ہیں۔اگر کوئی برا نہ مانے تو میں صاف صاف کہوں کہ ہمارا اصل قصور جس پر یہ حضرات بگڑے ہوئے ہیں وہ نہیں ہے جو یہ زبانوں سے کہتے ہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ ہم نے دین کے اس اصل کام کی طرف دعوت دی ہے جو ان کے نفس کو مرغوب نہیں ہے، اور اس کام کے لئے وہ صحیح طریقہ اختیار کیا ہے جس سے ان کے اپنے طریقوں کی غلطیاں بے نقاب ہونے لگیں۔
║ہم سے کہا جاتا ہے کہ اگر تمہیں یہی کام کرنا تھا تو ضرور کرتے مگر تم نے ایک الگ جماعت مستقل نام ساتھ کیوں بنائی۔ اس سے تو امت میں انتشار پیدا ہوتا ہے----- فی الواقع یہ ایک عجیب اعتراض ہے ۔ میں حیران ہوں کہ جب لادینی یا خلاف دین سیاست کے لئے، غیر اسلامی تعلیم کے لئے، مذہبی دھڑے بندیوں کے لیے اور خالص دنیوی اغراض و مقاصد کے لیے، مغرب کے جمہوری یا فاشسی طریقوں پر مسلمانوں کی انجمنیں اور جماعتیں مستقل ناموں کے ساتھ بنتی ہیں تو انھیں ٹھنڈے دل سے برداشت کیا جاتا ہے، لیکن اگر دین کے اصل کام کے لیے خالص دینی اصولوں پر کوئی جماعت بنتی ہے تو یکایک امت میں انتشار کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے اور صرف یہی ایک جماعت سازی قابل برداشت نہیں ہوتی۔ اس سے تو شبہ ہوتا ہے کہ معترضین کو اصل میں چڑھ جماعت سازی سے نہیں بلکہ اس بات سے ہے کہ کوئی جماعت دین کے اصل کام کے لیے بنے۔ تاہم میں ان سے عرض کروں گا کہ جماعت سازی کا یہ قصور ہم نے مجبوراً کیا ہےنہ کہ شوقیہ۔ سب کو معلوم ہے کہ اس جماعت کی تشکیل سے پہلے میں برسوں اکیلا پکارتا رہا ہوں کہ مسلمانو! یہ تو کن راہوں میں اپنی قوتیں اور کوششیں صرف کررہے ہو، تمہارے کرنے کا اصل کام تو یہ ہے، اس پر اپنی تمام مساعی مرکوز کرو۔ یہ دعوت اگر سب مسلمان قبول کرلیتے تو کہنا ہی کیا تھا، مسلمانوں میں ایک جماعت بننے کے بجائے مسلمانوں کی ایک جماعت بنتی اور کم از کم ہندوستان کی حد تک وہ "الجماعۃ" ہوتی، جس کی موجودگی میں کوئی دوسری جماعت بنانا شرعاً حرام ہوتا۔ یہ بھی نہیں تو مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں سے کوئی ایک ہی اسے مان لیتی تب بھی ہم راضی تھے، اسی میں بخوشی شامل ہوجاتے۔ مگر جب پکار پکار کر ہم تھک گئے اور کسی نے سن کر نہ دیا ، تب ہم نے مجبوراً یہ فیصلہ کیا کہ وہ سب لوگ جو اس کام کو حق اور فرض سمجھ چکے ہیں خود ہی مجتمع ہوں اور اس کے لیے اجتماعی سعی کریں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ نہیں تو ہمیں اور کیا کرنا چاہیئے تھا؟ تم کو اگر اس کام کے فرض ہونے سے انکار ہے تو دلیل انکار ارشاد ہو۔ اگر انکار نہیں تو بتاؤ کیا واقعی تمہاری یہ مختلف انجمنیں اور جماعتیں یہی فرض انجام دے رہی ہیں؟ اگر یہ بھی نہیں تو کیا اب تمہارے ہاں یہ نوبت آگئی ہے کہ جو فرض کو پہچانے اور اسے ادا کرنے کے لیے اٹھے وہی الٹا قصوروار قرار پائے۔
امیر کی اصطلاح پر اعتراض
ہم سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تم نے اپنی جماعت کے لیڈر کو لیے "امیر" کا لفظ کیوں اختیار کیا؟ امیر یا امام تو صرف بااختیار اور صاحب سیف ہی ہوسکتا ہے۔ اس کی تائید میں کچھ حدیثیں بھی پیش کی جاتی ہین جن سے استدلال کیا جاتا ہے کہ امامت یا امامت علم ہے ، یا امامت نماز، یا امامت قتال و جہاد۔اس کے سوا کوئی تیسری قسم امامت کی نہیں ہے----یہ اعترض جو حضرات کرتے ہیں وہ صرف اس وقت کی فقہ اور اسی وقت کی احادیث سے واقف ہیں جب اسلامی نظام سیاسی اقتدار کی منزل کو پہنچ چکا تھا۔ اور صاحب سیف امامت قائم ہوگئی تھی۔ مگر ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ جب سیف چھن جائے، مسلمانوں کی جماعت اختیار و اقتدار سے محروم ہوجائے اور اسلامی نظام جماعت بھی درہم برہم ہوجائے تو اس وقت کے کیا احکام ہیں؟ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ایسی حالت میں کیا مسلمانوں کو یہی کام کرنا چاہیئے کہ فرد فرد الگ ہو جائے، اور بیٹھ کر بس دعا کرتا ہے کہ خدایا کوئی صاحب سیف امام بھیج دے؟ یا ایسی امامت قائم کرنے کے لئے کوئی اجتماعی سعی بھی ہونی چاہیئے؟ اگر وہ کہتے ہیں کہ اجتماعی سعی ہونی چاہیئے تو براہ کرم وہ ہمیں بتائیں کہ جماعت بنائےبغیر بھی کوئی اجتماعی سعی کی جاسکتی ہے؟ اگر وہ مانتے ہیں کہ جماعت بنائے بغیر چارہ نہیں ہے تو کیا کوئی جماعت کسی رہ نما، کسی سربراہ کار، کسی صاحب امر کے بغیر بھی چل سکتی ہے؟ اگر وہ اس کی ضرورت بھی تسلیم کرتے ہیں تو وہ خود ہی ہم کو بتائیں کہ اس اسلامی مقصد کے لیے جو اسلامی جماعت بنائی جائے اس کے سربراہ کارکے لئےاسلام میں کیا اصطلاح مقرر ہے؟ جو اصطلاح بھی وہ ارشاد فرمائیں گے ، ہم اسی کو قبول کرلیں گے بشرطیکہ وہ ہو اسلامی اصطلاح ! یا پھر وہ صاف صاف یہی کہہ دیں کہ اسلام میں سیف حاصل ہونے کے بعد کے لیے تو ہدایات موجود ہیں، لیکن "بے سیفی" کی حالت میں سیف کس طرح حاصل کی جائے، اس باب میں اس نے کوئی ہدایت نہیں دی ہے۔ اور یہ کام جس کو کرنا ہو اسے غیر اسلامی طریقوں پر غیر اسلامی اصطلاحوں سے کرنا چاہیئے۔ اگر ان حضرات کا یہ منشا نہیں ہے تو ہمارے لئے یہ معمہ ناقابل حل ہےکہ صدر ، لیڈر اور قائد وغیرہ اصطلاحیں استعمال کی جائیں تو وہ سب انھیں گوارا ہیں مگر امیر کی اسلامی اصطلاح سنتے ہی یہ کیوں چراغ پا ہوتے ہیں۔
عام طور پر لوگوں کو اس مسئلے کے سمجھنے میں جو دقّت پیش آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے عہد میں جب امیر یا امام کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی اس وقت اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی اور جس زمانے میں اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اس وقت حضور ﷺ خود نبی کی حیثیت سے اقامت دین کی جدوجہد کی قیادت فرما رہے تھے۔ اس لیے امارت یا امامت کی اصطلاحیں استعمال کرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ لیکن اسلام کے پورے نظام پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کام جماعت بن کر کیا جائے۔ جمعت ║میں سمع و طاعت ہو، اور ایک شخص اس کا امیر ہو۔ نماز پڑھی جائے تو جماعت کے ساتھ پڑھی جائے، اور ایک اس کا امام ہونا چاہیئے، حج کیا جائے تو منظم طریق سے کیا جائے اور ایک اس کا امیر حج ہونا چاہیئے۔ حتی کہ تین آدمی اگر سفر کو نکلیں تب بھی ان کو منظم طریقے سے سفر کرنا چاہیئے اور اپنے ایک ساتھی کو امیر بنالینا چاہیئے۔
}عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ .(ابوداؤود) {
اسلامی شریعت کی یہی روح ہے جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
جماعت کے بغیر اسلام نہیں اور امارت کے بغیر جماعت نہیں اور اطاعت کے بغیر امارت نہیں۔
پس ہمارا استنباط یہ ہے کہ اقامت دین اور شہادت علی الناس کی سعی کے لئے جو جماعت بنائی جائے اس کے سربراہ کار کے لیے امیر یا امام کے لفظ کا استعمال بالکل صحیح ہے۔ مگر چوں کہ لفظ "امام" کے سات بعض خاص معنی لگ گئے ہیں اس لئے ہم نے اس فتنے سے بچنے کی خاطر اس لفظ کو چھوڑ کر امیر کا لفظ استعمال کیا ہے۔
ایک مضحکہ خیز اعتراض اور اس کا ازالہ
ایک نرالہ اعتراض یہ بھی سننے میں آیا کہ جو شخص اس طرح جماعت کا سربراہ کار چنا جائے اس کو زکٰوۃ وصول کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ، کیوں کہ زکٰوۃ صرف اسلامی حکومت کا امیر ہی وصول کرسکتا ہے۔ غالباً ان معترضین کو تحصیل زکٰوۃ کے معاملے میں ہمارا طریقہ معلوم نہیں ہے۔ ہم نے عام مسلمانوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا ہے کہ وہ اپنی زکٰوۃ ہمارے بیت المال میں داخل کریں۔ اور نہ ہم نے کبھی یہ کہا ہے کہ جو مسلمان زکٰوۃ ہمارے حوالے نہ کرے گا اس کی زکٰوۃ ادا نہیں ہوگی۔ہم صرف اپنی جماعت کے ارکان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی زکٰوۃ جماعت کے بیت المال میں جمع کیا کریں اور اس سے ہمارا بڑامقصد یہ ہےکہ مسلمانوں کو شریعت کے منشاء کے مطابق اجتماعی طور پر زکٰوۃ جمع اور صرف کرنے کی عادت ہو۔ براہ کرم کوئی ہمیں بتائے کہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اس میں کیا شرعی قباحت ہے اور یہ کس حکم شرعی کے خلاف ہے؟ اگر ہمیں لوگوں سے یہ کہنے کا حق ہے کہ نماز گھروں میں الگ الگ نہ پڑھو، بلکہ جماعت کے ساتھ پڑھو تو آخر یہ کہنے کا حق کیوں نہیں ہے کہ زکٰوۃ انفرادی طور پر ادا کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر ادا کرو؟ پھر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر چندہ لیا جائے تو جائز ، داخلے کی فیس اور رکنیت کی فیس لگائی جائے تو درست مگر خدا اور رسول کے عائد کئے ہوئے فرض کو ادا کرنے کی دعوت دی جائے تو ناجائز؟
اس سے بھی زیادہ ایک نرالا اعتراض یہ سننے میں آیا کہ "تم نے بیت المال کیوں بنایا؟"--- اس قسم کے اعتراضات سن کر معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو شاید اسلام کی اصطلاحات ہی سے کچھ بغض ہوگیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ہر جماعت اور ہر انجمن اپنا ایک خزانہ ضرور رکھتی ہے تاکہ اجتماعی کاموں میں مال صرف کرسکے۔ ہماری جماعت کا بھی ایک خزانہ ہے اوراس کو ہم بیت المال کہتے ہیں۔ کیوں کہ یہی اسلامی اصطلاح ہے۔ اگر ہم اس کا نام خزانہ رکھتے تو اس کو کوئی اعتراض نہ تھا، اگر ہم اس (Treasury) کہتے تب بھی یہ خوش تھے۔ مگر جب ہم نے اس کے لیے ایک اسلامی اصطلاح استعمال کی تو یہ اس کو برداشت نہ کرسکے۔
ان اعتراضات میں سے اکثر اتنے مہمل تھے کہ میں ان کا ذکر کرکے اور ان کا جواب دے کر حاضرین کا وقت ضائع کرنا کبھی پسند نہ کرتا، مگر میں نے یہ چند نمونے کے طور پر صرف اس لیے پیش کیے ہیں کہ جو لوگ نہ خود اپنا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو اداکرنے دینا چاہتے ہیں وہ کس قسم کے حیلے بہانے اور اعتراضات شبہات ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے ہیں اور کس طرح خدا کے راستے سے خود رکتے ہیں اور دوسروں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا طریقہ جھگڑے اور مناظرے کرنے کا نہیں ہے اگر کوئی شخص ہماری بات کو سیدھی طرح سمجھنا چاہے تو ہم ہر وقت اس کو سمجھانے کے لیے حاضر ہیں اور اگر کوئی ہماری غلطی ہم کو معقول طریقے سے سمجھانا چاہے تو ہم سمجھنے کے لیے
--------------
بلکہ مسند احمد میں جو روایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل ہوئی ہے اس میں تو یہ الفاظ ہیں کہ لا یحل لثلاثۃ یکونوا بفلاۃ من الارض الا امرو علیھم احدھم "حلال نہیں ہے کہ یہ بات تین آدمی کسی جنگل میں ہوں اور وہ اپنے اوپر اپنے میں سے ایک کو امیر نہ بنالیں" اس سے معلوم ہوا کہ صرف سفر ہی میں نہیں بلکہ ہر حالت میں مسلمانوں کو منظم زندگی بسے کرنی چاہیئے۔ اور ان کا کوئی اجتماعی کام بھی جماعت اور امارت کے بغیر نہیں ہونا چاہیئے۔
لا اسلام الا بجماعۃ ولا جماعۃ الا بامارۃ ولا امارۃ الا بطاعۃ (جامع بیان العلم لابن عبد البر)
║بھی تیار ہیں، لیکن اگر کسی کے پیش نظر محض الجھنا اور الجھانا ہی ہو تو ہم اس سے کوئی تعرض کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس کو اختیار ہے جب تک چاہے اپنا یہ شغل جاری رکھے۔(30 دسمبر 1946ء)