تحریک اور کارکن
مولانا سید ابو الاعلی مودودی
بسم اللہ الرحمان الرحیم
پیش لفظ
اسلامی تحریک کی کامیابی دو باتوں پر منحصر ہے۔ ایک مضبوط نظم اور ٹھوس منصوبہ
بندی اور دوسرے کارکنوں کی اعلٰی فکری اور اخلاقی تربیت۔ یہ دونوں مل کر
اسلامی تحریک کو ایک ایسی ناقابل تسخیر قوت بنادیتی ہیں کہ بڑے سے بڑا طوفان
بھی اسے پشت بمنزل نہیں کرسکتا۔ اوّل الذکر بات کی مثال اس ستھری مشینری کی ہے
جو اپنی پوری طاقت کو بروئے کار لاکر اعلٰی سے اعلٰی مصنوعات تیار کرکے ناظرین
کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ اور ثانی الذّکر بات کی مثال برقی رَوْ کی ہے
جس کے بل بوتے پر مشینری اپنے یہ تمام معجزات دکھاتی ہے۔
چنانچہ اس وقت ہم تحریک کے تربیتی پہلو کو سامنے رکھ کر قارئین کے سامنے
"تحریک اور کارکن" کے نام سے ایک نئی اور مفید کتاب پیش کررہے ہیں۔یہ کتاب
مولانا محترم کی ان تقریروں اور تحریروں کا مجموعہ ہے جو مختلف مواقع پر اور
مختلف مراحل میں مولانا محترم نے اسلامی تحریک کے کارکنوں کے سامنے کی ہیں۔
مولانا محترم کا یہ طریقہ تھا کہ وہ جماعت کے سالانہ اجتماعات کے موقع پر
جماعت کی کارکردگی کی رپورٹیں سننے اور جماعت کے سال بھر کے کام کا جائزہ لینے
کے بعد آخر میں کارکنوں کو اخلاقی ہدایات دیتے۔ اور جائزے کے دوران انہیں
کارکنوں کے اندر جس لحاظ سے کوئی خامی محسوس ہوتی اس پر انگلی رکھ کر اس کا
علاج تجویز فرماتے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ قافلۂ تحریک میں شامل افراد جوں جوں
منزل کی طرف بڑھتے گئے، دوران سفر ان کے اندر انفرادی یا اجتماعی جس نوعیت کی
خرابی یا کمزوری ظہور پذیر ہوتی رہی قائد تحریک اسے دور کرنے کی کوشش کرتا
رہا۔ چنانچہ یہ مجموعۂ ہدایات جو اَب مرتّب شکل میں قارئین کے سامنے ہے دراصل
ایسا تحریکی ریکارڈ ہے جس میں تحریک کی اخلاقی تاریخ پڑھی جاسکتی ہے۔ اور ساتھ
ساتھ یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس راہ میں کن کن کمزوریوں سے بچ کر
اور کن کن خوبیوں سے سج کرچلنا پڑتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عہد حاضر کی اسلامی تحریکیں ہمیشہ کارکنوں کی تربیت پر زور دیتی رہی ہیں۔ لیکن پچھلے سالوں کے تجربات و حوادث نے یہ بات مزید عیاں کردی ہے کہ کارکنوں کے اندر تربیت کی کمی وہ کچھ نقصان پہنچاسکتی ہے جو دشمن2/149 بھی نہیں پہنچاسکتا۔ ہمارے سامنے عالم اسلام کی اسلامی تحریکوں کی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں ایک طرف اعلی تربیت نے تحریک کو کڑی سے کڑی آزمائش سے سرخ رو کرکے نکالا، وہاں دوسری طرف نقص تربیت کی وجہ سے تحریک سالوں پیچھے رہ گئی۔ اور یہ ناخوشگوار منظر دیکھنے میں آیا کہ:
رفتم کہ خار از پاکشم محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل بودم و صدسالہ راہم دورشد
اب یہ بات انتہائی باعث اطمینان ہے کہ اسلامی تحریکوں نے تجربات کی روشنی میں
تربیتی پہلو پر نسبتًہ زیادہ توجہ دے رکھی ہے۔ اور نئے جوش و ولولہ کے ساتھ
تربیتی پروگرام روبعمل لائے جارہے ہیں۔ چند سال پیشتر ہمیں تربیت کے موضوع پر
صرف ایک کتاب عربی زبان میں ملتی تھی۔ وہ تھی مصر کے اخوانی رہنما البہی
الخولی کی کتاب : تذکرۃ الدعاۃ (داعیان حق کو نصیحتیں)۔ مگر اب اس میدان میں
اچھی اچھی کتابیں منصۂ ظہور پر آرہی ہیں۔ڈاکٹر عبدالکریم زیدان(عراق) کی ضخیم
کتاب اصول الدعوۃ ، سعید حوی (شام) کی کتاب : "جند اللہ اخلاقاً و ثقافتًہ"،
(خدا کے سپاہی علم و اخلاق کے لحاظ سے)، سید قطب شہید (مصر) کی کتاب : فی ظلال
الدعوۃ جو ان کی مشہور تفسیر فی ظلال القرآن کے مضامین سے مرتب کی گئی ہے، اور
فتحی یکن (لبنان) کی کتاب : مشکلات الدعوۃ والداعیۃ (دعوت اور داعی کے مسائل)
اس موضوع پر قابل ذکر کاوشیں ہیں۔ یہ کتابیں اس مادہ پرستی کے دور اور نفسانی
خواہشات کے حملوں کے اندر دعوت اسلامی کے کارکنوں کو اخلاق و روحانیت کے اسلحہ
سے مسلح کرنے میں بڑی مدد دینے والی ہیں۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی مدظلہ العالی کے جن افکار کا مجموعہ آج ہم قارئین کے سامنے پیش کررہے ہیں اسے آج سے بارہ سال پیشتر ہم نے عربی زبان میں تذکرۃ دعاۃ الاسلام کے نام سے بیروت سے شائع کیا تھا۔ آج تک اس کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اور اسے اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی ہے کہ عربی کے علاوہ ترکی اور دیگر زبانوں میں بھی اس کے تراجم چھپ رہے ہیں، اور ہر جگہ اسلامی تحریکوں نے اسے اپنے تربیتی نصاب میں شامل کررکھا ہے۔اس کتاب کے بارے میں ایک عرب دوست نے ان الفاظ میں اپنے تاثر کا اظہار کیا ہے کہ "اس کتاب نے اکثر نوجوانوں کی نیند اڑادی ہے"۔ اردو داں حضرات کے لئے یہ مضامین نئے نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ مسلسل کسی نہ کسی صورت میں چھپتے رہے ہیں۔ البتہ یکجا شکل میں انہیں پہلی مرتبہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش یہ کی گئی ہے کہ اسلامی تحریک کے کارکن اس کتاب کے اندر نہ صرف دعوت اور اس کے طریقہ کار سے آگاہ ہو بلکہ یہ کتاب اسے ایک ایسا آئینہ فراہم کردے جس میں وہ اپنے کردار کے خدوخال کا مشاہدہ کرسکے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب تھکی ہوئی روحوں کو تازہ اور مردہ کھیتیوں کو3/149 شاداب کردے گی۔ اور راہ حق کے مسافر کے لیے انشاءاللہ بہترین زاد راہ ثابت ہوگی۔
ڼوَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى ۡ وَاتَّقُوْنِ يٰٓاُولِي
الْاَلْبَابِ البقرہ 197
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ البقرہ 189
یکم جنوری 1979ء خلیل احمد حامدی
تحریک اور کارکن
فہرست
باب اول : دعوت اسلامی کی فکری بنیادیں 17
الف : دعوت اسلامی کی اساسیات 19
مغربی تہذیب کے فاسد اصول 19
لادینی اور اس کی قباحت 23
قوم پرستی اور اس کی تباہ کاریاں 26
مغربی جمہوریت کا فساد 28
تین صالح اصول 30
خدا پرستی کے معنی 30
انسانیت کا مطلب 31 4/149
خلافت جمہور کا مفہوم 33
ب : دعوت اسلامی کے تین نکات 36
بندگی رب کا حقیقی مفہوم 37
منافقت کی حقیقت 39
تناقض کی حقیقت 40
امامت میں تغیر کی ضرورت 43
امامت میں انقلاب کیسے ہوتا ہے 44
ج : جماعت اسلامی کا مقصد اور مسلک 46
مقصد 46
ہماری دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے 47
اسلام، مسلم قومیت اور ہم 47
ہمارا تصور دین 49
مذہب و سیاست کی یکجائی 50
اسلامی حکومت 53
مسلک 54 5/149
باب دوم: دعوت اسلامی کی اخلاقی بنیادیں 57
الف: بنیادی انسانی اخلاقیات 59
اسلامی اخلاقیات 62
امامت کے باب میں اللہ کی سنت 65
بنیادی اخلاقیات اور اسلامی اخلاقیات کی طاقت کا فرق 67
اسلامی اخلاقیات کے چار مراتب 74
1. ایمان 75
2. اسلام 79
3. تقوی 81
4. احسان 85
باب سوم : عملی خاکہ 89
الف : ہمارا طریق کار اور اس کی حکمتیں اور فائدے 91
پہلا فائدہ 91
دوسرا فائدہ 93
تیسرا فائدہ 94 6/149
طریق دعوت 95
طریق کار کا ایک اہم جز اور اس کے مضمرات 96
استدراک 100
ب : ہمارا طریق تربیت 101
دعوت و تبلیغ 103
نظم جماعت 104
روح تنقید 105
ج : لائحۂ عمل 108
1. تطہیر افکار و تعمیر افکار 108
2. صالح افراد کی تنظیم و تربیت 109
3. اصلاح معاشرہ 110
4. نظام حکومت کی اصلاح 112
باب چہارم : تحریک اسلامی کے علمبرداروں کی لازمی خصوصیات 115
الف : صالح گروہ کے لیے کم از کم ضروری صفات 117
شخصی اوصاف 118 7/149
1. مجاہدۂ نفس 118
2. ہجرت وسیع معنی کے لحاظ سے 118
3. فنا فی الاسلام ہوجانا 120
جماعتی اوصاف : 124
باہمی ہمدردی و محبت 124
مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لوازم: 125
صبر 126
ایثار 127
دل کی لگن 128
سعئی پیہم 130
ب : تحریک اسلامی سے وابستگی کا معیار: 132
تحریک سے وابستگی کا معیار 132
ج : کارکنوں کا اصلی سرمایہ 138
د : راہ حق کے لیے ضروری توشہ : 145
تعلق باللہ 145 8/149
تعلق باللہ کے معنی 148
تعلق باللہ بڑھانے کا طریقہ 150
تعلق باللہ کی افزائش کے وسائل 153
تعلق باللہ کو ناپنے کا پیمانہ 154
ترجیح آخرت 156
فکر آخرت کی تربیت کے ذرائع 158
بے جا پندار سے احتراز 161
تربیت گاہوں سے فائدہ اٹھائیے 165
اپنے گھروں کی طرف توجہ کیجیے 166
آپس کی اصلاح اور اس کا طریقہ 167
اجتماعی تنقید کا صحیح طریقہ 168
سمع و طاعت اور نظم جماعت کی پابندی 170
اصحاب امر کو نصیحت 172
آخری نصیحت 173
خواتین کے لیے ہدایات 174 9/149
باب پنجم : اسلامی انقلاب کے لیے کن اوصاف سے آراستہ
اور کن عیوب سے مبرّا ہونا چاہیے 179
الف : انفرادی اوصاف : 183
اسلام کا صحیح فہم 183
اسلام پر پختہ ایمان 184
قول و عمل کی مطابقت 185
دین بحیثیت مقصد 186
ب : اجتماعی اوصاف : 187
اخوت و محبت 187
باہمی مشاورت 188
نظم و ضبط 189
تنقید بغرض اصلاح 190
ج : تکمیلی اوصاف 191
تعلق باللہ اور خلوص 192
حسن سیرت 193 10/149
صبر و استقامت 195
حکمت 197
د : وہ عیوب جو ہر بھلائی کی بیخ کنی کردیتے ہیں: 201
کبر و غرور 201
احساس بندگی 202
نمود و نمائش 204
نیت کا کھوٹ 207
ہ : وہ نقائص جن کی تاثیر کام کو بگاڑ دیتی ہے : 210
نفسانیت 211
مزاج کی بے اعتدالی 223
تنگ دلی 229
ضعف ارادہ 131
دعوت اسلامی کی اخلاقی بنیادیں
· بنیادی انسانی اخلاقیات
- dir="RTL" align="center"> اسلامی اخلاقیات 11/149
دعوت اسلامی کی اساسات¹
دعوت اسلامی کی اساسات کو بیان کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ یہ واضح
طور پر سمجھ لیں کہ وہ اصول کیا ہیں جن کو ہم مٹانا چاہتے ہیں اور ان کی
جگہ ہم اسلام کے صالح اصول قائم کرنا چاہتے ہیں۔
¹یہ وہ تقریر ہے جن 9/مئی 1947ء کو دارالاسلام پٹھانکوٹ (واقع مشرقی پنجاب)
میں جماعت اسلامی حلقہ شمالی ہند کے اجتماع عام کا افتتاح کرتے ہوئے مولانا
سید ابوالاعلی مودودی نے بحیثیت امیر جماعت اسلامی کی تھی۔مشرقی پنجاب میں یہ
جماعت کا آخری اجتماع تھا جس کے تین مہینے بعد پورا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے
خالی ہوگیا اور جماعت اسلامی کو بھی اپنا مرکز چھوڑنا پڑا۔
اس تقریر کے ابتدائی حصے میں مولانا محترم نے سب سے پہلے حاضرین کو تعلق باللہ
اور توجہ الی اللہ کی تلقین فرمائی۔ اجتماع میں نظم و ضبط کی پابندی کی ضرورت
بیان کی اور ایام اجتماع کو زیادہ سے زیادہ مفید کاموں میں صرف کردینے پر زور
دیا۔ یہ ابتدائی حصہ ہم نے خارج کردیا ہے اور صرف ان اصولی بحث کو کتاب میں
شامل کیا ہے جو تحریک اسلامی کی دعوت کی اساس و بنیاد ہے۔ (مرتب)
مغربی تہذیب کے فاسد اصول
موجودہ تہذیب جس پر آج دنیا کا پورا فکری ، اخلاقی،تمدنی ، سیاسی اور معاشی
نظام چل رہا ہے دراصل تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے ۔
1. (secularism) یعنی لادینی یا لادینیت۔
2. (Nationalism) یعنی قوم پرستی۔
3. (Democracy) یعنی حاکمیت جمہور۔
ان میں سے پہلے اصول، یعنی لادینی کا مطلب یہ ہے کہ " خدا اور اس کی ہدایت اور اس کی عبادت کے معاملے کو ایک ایک شخص کی ذاتی حیثیت تک محدود کردیا جائے اور انفرادی زندگی کے اس چھوٹے سے دائرے کے سوا دنیا کے باقی12/149 تمام معاملات کو ہم خالص دنیوی نقطۂ نظر سے اپنی صوابدید کے مطابق خود جس طرح چاہیں طے کریں۔ ان معاملات میں یہ سوال خارج از بحث ہونا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے اور اس کی ہدایت کیا ہے اور اس کی کتابوں میں کیا لکھا ہے"۔ ابتداءً یہ طرزِ عمل اہلِ مغرب نے عیسائی پادریوں کی اس خود ساختہ دینیات (Theology) سےبیزار ہوکر اختیار کیا تھا جو ان کے لیے زنجیر پا بن کر رہ گئی تھی، لیکن رفتہ رفتہ یہی طرزِ عمل ایک مستقل نظریۂ حیات بن گیا اور تہذیبِ جدید کا سنگ بنیاد قرار پایا۔ آپ نے اکثر یہ فقرہ سنا ہوگا کہ "مذہب ایک پرائیویٹ معاہدہ ہے خدا اور بندے کے درمیان"۔ یہ مختصر سا فقرہ دراصل تہذیب حاضر کا "کلمہ" ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اگر کسی کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی پرستش کی جانی چاہیے تو وہ اپنی انفرادی زندگی میں بخوشی اپنے خدا کو پوجے، مگر دنیا اور اس کے معاملات سے خدا اور مذہب کاکوئی تعلق نہیں۔ اس "کلمہ" کی بنیاد پر جس نظامِ زندگی کی عمارت اٹھی ہے اس میں انسان اور انسان کے تعلق اور انسان اور دنیا کے تعلق کی تمام صورتیں خدا اور مذہب سے آزاد ہیں۔ معاشرت ہے تو اس سے آزاد، تعلیم ہے تو اس سے آزاد، معاشی کاروبار ہے تو اس سے آزاد، قانون ہے تو اس سے آزاد، پارلیمنٹ ہے تو اس سے آزاد، سیاست اور انتظامِ ملکی ہے تو اس سے آزاد، بین الاقوامی ربط و ضبط ہے تو اس سے آزاد۔ زندگی کے ان بے شمار مختلف پہلوؤں میں جو کچھ بھی طے کیا جاتا ہے، اپنی خواہش اور دانست کے مطابق طے کیا جاتا۔ اور اس سوال کو نہ صرف ناقابلِ لحاظ، بلکہ اصولاً غلط اور انتہائی تاریک خیالی سمجھا جاتا ہے کہ ان امور کے متعلق خدا نے بھی کچھ اصول اور احکام ہمارے لیے مقرر کیے ہیں کہ نہیں۔ رہی انفرادی زندگی تو وہ بھی غیر دینی تعلیم اور بے دین اجتماعیت کی بدولت اکثر و بیشتر افراد کے معاملے میں نری دنیاوی (Secular) ہی ہوکر رہ گئی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے، کیونکہ اب بہت ہی کم افراد کا ضمیر واقعی یہ گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی بندگی کی جانی چاہیے۔خصوصاً جو لوگ اس وقت تمدن کے اصلی کارفرما اور کارکن ہیں ان کے لیے تو مذہب اب ایک پرائيوٹ معاملہ بھی باقی نہیں رہا ہے۔ ان کا ذاتی تعلق بھی خدا سے ٹوٹ چکا ہے۔
دوسرے اصول ، یعنی قوم پرستی کی ابتدا تو پوپ اور قیصر کے عالمگیر استبداد کے خلاف بغاوت کے طور پر ہوئی تھی اور اس کا مطلب صرف اتنا تھا کہ مختلف قومیں اپنی اپنی سیاست و مصلحت کی آپ ہی مالک و مختار ہوں، کسی عالمگیر روحانی یا سیاسی اقتدار کے ہاتھوں میں شطرنج کے مہروں کی طرح نہ کھیلیں، مگر اس معصوم آغاز سے چل کر جب یہ تخیل آگے بڑھا تو رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جس جگہ سے بے دینی کی تحریک نے خدا کو بے دخل کیا تھا وہاں قوم پرستی نے قومیت کو لابٹھایا۔ اب ہر قوم کے لیے بلند ترین اخلاقی قدر اس کا قومی مفاد اور اس کے قومی حوصلے (Aspirations) ہیں۔ نیکی وہ ہے جو قوم کے مفید ہو، خواہ وہ جھوٹ ہو، بے ایمانی ہو، ظلم ہو یا اور کوئی ایسا فعل ہو جو پرانے مذہب و اخلاق میں بدترین گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اور بدی وہ ہے جس سے قوم کے مفاد کو نقصان پہنچے خواہ وہ سچائی13/149 ہو، انصاف ہو، وفائے عہد ہو، ادائے حق ہو یا اور کوئی ایسی چیز جسے کبھی فضائل اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ افراد قوم کی خوبی اور زندگی و بیداری کا پیمانہ یہ ہے کہ قوم کا مفاد ان سے جس قربانی کا مطالبہ بھی کرے ، خواہ وہ جان و مال اور وقت کی قربانی ہو یا ضمیر و ایمان کی، اخلاق و انسانیت کی قربانی ہو یا شرافت نفس کی، بہرحال وہ اس میں دریغ نہ کریں اور متحد و منظم ہوکر قوم کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کو پورا کرنے میں لگے رہیں۔ اجتماعی کوششوں کی غایت اب یہ ہے کہ ہر قوم ایسے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد بہم پہنچائے اور ان میں ایکا اور نظم پیدا کرے تاکہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی قوم کا جھنڈا بلند کریں۔
تیسرے اصول ، یعنی جمہور کی حاکمیت (Sovereignty of the people) کو ابتداءً
بادشاہوں اور جاگیرداروں کے اقتدار کی گرفت توڑنے کے لیے پیش کیا گيا تھا، اور
اس حد تک بات درست تھی کہ ایک شخص یا ایک طبقہ کو لاکھوں کروڑوں انسانوں پر
اپنی مرضی مسلط کردینے اور اپنی اغراض کے لیے انہیں استعمال کرنے کا کوئی حق
نہیں ہے، لیکن اس منفی پہلو کے ساتھ اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ ایک ایک ملک
اور ایک ایک علاقے کے باشندے اپنے آپ حاکم اور اپنے آپ مالک ہیں۔ اسی مثبت
پہلو پر ترقی کرکے جمہوریت نے اب جو شکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی
مرضی کی مختارِکل ہے۔ اس کی مجموعی خواہش (یا عملاً اس کی اکثریت کی خواہش )
کو پابند کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ اخلاق ہو یا تمدن، معاشرت ہو یا سیاست،
ہر چیز کے لیے برحق اصول وہ ہیں جو قومی خواہش سے طے ہوں اور جن اصولوں کو قوم
کی رائے عام رد کردے وہ باطل ہیں۔ قانون ، قوم کی مرضی پر منحصر ہے، جو قانون
چاہے بنائے اور جس قانون کوچاہے توڑدے یا بدل دے۔ حکومت قوم کی رضا کے مطابق
بننی چاہیئے قوم ہی کی رضا کا اسے پابند ہونا چاہیئے اور اس کی پوری طاقت قومی
خواہش کو پورا کرنے پر صرف ہونی چاہیئے۔
یہ تین اصول ، جن کی تشریح میں نے مختصراً آپ کے سامنے بیان کی ہے۔ موجودہ دور
کے نظامِ زندگی کی بنیادہیں اور انہی اصولوں پر وہ بے دین جمہوری قومی ریاست
(Secular democratic national state) بنتی ہے جسے آج کل اجتماعی تنظیم کی مہذب
ترین معیاری صورت سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ تینوں اصول غلط ہیں۔ صرف غلط ہی نہیں، ہم پوری بصیرت کے ساتھ یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہی اصول ان تمام مصائب کی جڑ ہیں جن میں آج انسانیت مبتلا ہے۔ ہماری عداوت دراصل انہی اصولوں سے ہے اور ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان اصولوں پر کیا اعتراض ہے اور کیوں اعتراض ہے؟ اس کی تفصیل کے لیے تو بڑی لمبی بحث درکار ہے، مگرمیں اسے چند الفاظ میں آپ کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کروں گا14/149 تاکہ آپ ہماری اس لڑائی کی اہمیت اچھی طرح سمجھ سکیں اور آپ کو اندازہ ہو کہ کیوں یہ معاملہ اتنا سنگین ہےکہ ان اصولوں کے خلاف جنگ کرنا ناگزیر ہے۔
لادینی اور اس کی قباحت
سب سے پہلے اس لادینی یا دنیاویت کو لیجئے جو اس نظام زندگی کا اوّلین سنگِ
بنیاد ہے۔ یہ نظریہ کہ خدا اور مذہب کا تعلق صرف آدمی کی انفرادی زندگی سے ہے۔
سراسر مہمل نظریہ ہے جسے عقل و خرد سےکوئی سروکار نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ خدا
اور انسان کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یا تو خدا انسان کا اور اس
ساری کائنات کا جس میں انسان رہتا ہے، خالق اور مالک اور حاکم ہے، یا نہیں ہے۔
اگر وہ نہ خالق ہے نہ مالک اور نہ حاکم، تب تو اس کے ساتھ پرائیویٹ تعلق کی
بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔نہایت لغو بات ہے کہ ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خواہ
مخواہ پرستش کی جائے جس کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور اگر وہ فی الواقع
ہمارا اور اس تمام جہانِ ہست و بود کا خالق ، مالک اور حاکم ہے تو اس کے کوئی
معنی نہیں ہیں کہ اس کی عملداری (Jurisdiction) محض ایک ایک شخص کی پرائیویٹ
زندگی تک محدود ہو اور جہاں سے ایک اور ایک دو آدمیوں کااجتماعی تعلق شروع
ہوتا ہے وہیں سے اس کے اختیارات ختم ہوجائیں۔ یہ حد بندی اگر خدا نے خود کی ہے
تو اس کی کوئی سند ہونی چاہئیے اور اگراپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خدا سے
بے نیاز ہوکر خود ہی خود مختاری اختیار کی ہے تو یہ اپنے خالق اور مالک اور
حاکم سے اس کی کھلی بغاوت ہے۔ اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی
زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں۔ صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کی
عقل ماری گئی ہو۔ اس سے زیادہ لغو بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایک شخص فرداً
فرداً تو خدا کا بندہ ہو مگر یہ الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تو بندے
نہ رہیں۔ اجزا میں سے ہر ایک بندہ اور اجزا کامجموعہ غیر بندہ، یہ ایک ایسی
بات ہے جس کا تصور صرف ایک پاگل ہی کرسکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ
میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی رہنمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی
معاشرت میں ہے، نہ محلے اور شہر میں، نہ مدرسےاور کالج میں، نہ منڈی اور بازار
میں نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ھاؤس میں، نہ ہائیکورٹ اور نہ سول سیکریٹریٹ میں،
نہ چھاؤنی اور پولیس لائن میں اور نہ میدان جنگ اور صلح کانفرنس میں، تو آخر
اس کی ضرورت ہے کہاں؟ کیوں ایسے خدا کو مانا جائے اور اس کی خواہ مخواہ پوجا
پاٹ کی جائے جو یا تو اتنا بے کار ہے کہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری
رہنمائی نہیں کرتا، یا معاذ اللہ ایسا نادان ہے کہ کسی معاملے میں بھی اس کی
کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابل عمل نظر نہیں آئی؟
یہ تو اس معاملہ کا محض عقلی پہلو ہے۔ عملی پہلو سے دیکھئے تو اس کے نتائج بڑے ہی خوفناک ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان15/149 کی زندگی میں جس معاملے کا تعلق بھی خدا سے ٹوٹتا ہے اس کا تعلق شیطان سے جڑ جاتا ہے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی اصل میں اجتماعی زندگی ہے۔ وہ پیدا ہی ایک ماں اور ایک باپ کے معاشرتی تعلق سے ہوتا ہے۔ دنیا میں آتے ہی وہ ایک خاندان میں آنکھیں کھولتا ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی اس کو ایک سوسائٹی سے، ایک برادری سے، ایک بستی سے، ایک قوم سے، ایک نظام تمدن اور نظامِ معیشت و سیاست سے واسطہ پیش آتا ہے۔ یہ بے شمار روابط جو اس کو دوسرے انسانوں سے اور دوسرے انسانوں کو اس سے جوڑے ہوئے ہیں۔ انہی کی درستی پر ایک ایک انسان کی اور مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ہے۔ اور وہ صرف خدا ہی ہے جوانسانوں کو ان روابط کےلیے صحیح اور منصفانہ اور پائدار اصول و حدود بتاتا ہے۔ جہاں انسان اس کی ہدایت سے بے نیاز ہوکر خود مختار بنا، پھر نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف اور راستی۔ اس لیے کہ خدا کی رہنمائی سے محروم ہوجانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربہ کے سوا کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جس کی طرف انسان رہنمائی کے لیے رجوع کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس سوسائٹی کا نظام لادینی یا دنیاویت کے اصول پر چلتا ہے اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم، بے انصافی، بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی، طبقاتی، قومی اور نسلی خود غرضیاں مسلّط ہوگئی ہیں۔دو انسانوں کے تعلق سے لے کر قوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو۔ ہر ایک شخص نے، ہر ایک گروہ نے، ہر ایک طبقے نے، ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے دائرہ اختیار میں ، جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے، پوری خود غرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے اور قانون بنالیے ہیں اور کوئی بھی اس کی پروا نہیں کرتا کہ دوسرے اشخاص، گروہوں، طبقوں اور قوموں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ پروا کروانے کی صرف ایک ہی طاقت رہ گئی ہے اور وہ ہے جوتا۔ جہاں مقابلہ میں جوتا یا جوتے کا اندیشہ ہوتا ہے صرف وہیں اپنی حد سے زیادہ پھیلے ہوئے ہاتھ اور پاؤں کچھ سکڑ جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے جوتا کسی عالم اور منصف ہستی کا نام نہیں ہے وہ تو ایک اندھی طاقت کا نام ہے اس لیے اس کے زور سے کبھی توازن قائم نہیں ہوتا۔ جس کا جوتا زبردست ہوتا ہے وہ دوسروں کو صرف اتنا ہی نہیں سکیڑتا جتنا سکیڑنا چاہیے بلکہ وہ خود اپنی حد سے زیادہ پھیلنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ پس لادینی اور دنیاویت کا ما حصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرزِ عمل کو اختیار کرے گا بے لگام، غیر ذمہ دار اور بندۂ نفس ہوکر رہے گا، خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعۂ اقوام۔
قوم پرستی اور اس کی تباہ کاریاں
اب دوسرے اصول کو لیجئے : قوم پرستی کی جو تشریح ابھی تھوڑی دیر پہلے میں آپ کے سامنے کرچکا ہوں وہ اگر آپ کے ذہن میں تازہ ہے تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی لعنت ہے جو اس دور میں انسانیت پر مسلّط ہوئی ہے۔ ہمارا16/149 اعتراض قومیت (Nationality) پر نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک فطری حقیقت ہے۔ ہم قومی خیرخواہی کے بھی مخالف نہیں ہیں بشرطیکہ اس کے اندر دوسری قوموں کی بدخواہی شامل نہ ہو۔ ہمیں محبت پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے بشرطیکہ وہ قومی تعصب اور اپنی قوم کی بے جا پاسداری اور دوسروں سے نفرت کی حد تک نہ جا پہنچے۔ ہم قومی آزادی کو بھی صحیح تمجھتے ہیں کیونکہ اپنے معاملات کو خود انجام دینا اور اپنے گھر کا آپ انتظام کرنا ہر قوم کا حق ہے اور ایک قوم پردوسری قوم کی حکومت درست نہیں ہے۔ دراصل جو چیز ہمارے نزدیک قابل اعتراض بلکہ قابل نفرت ہے، قوم پرستی (Nationalism) ہے، اس قوم پرستی کی کوئی حقیقت اس کے سوا نہیں ہے کہ یہ قومی خود پرستی کا دوسرا نام ہے_______ اگر ایک سوسائٹی کے اندر اس شخص کا وجود ایک لعنت ہے جو اپنے نفس اور اپنی غرض کا بندہ ہو اور اپنے مفاد کے لیے سب کچھ کرگزرنے کے لیے تیار ہو۔ اگر ایک بستی کے اندر وہ خاندان ایک لعنت ہے جس کے افراد اپنے خاندانی مفاد کے اندھے پرستار ہوں اور جائزو ناجائز تمام ذرائع سے بس اپنا بھلا کرنے پر تلے ہوئے ہوں، اگر ایک ملک کے اندر وہ طبقہ ایک لعنت ہےجو اپنی طبقاتی خود غرضی میں اندھا ہورہا ہو اور دوسروں کے بھلے برے کی پروا کیے بغیر صرف اپنے فائدے کے پیچھے پڑجائے (مثلاً بلیک مارکیٹنگ کرنے والے) تو آخر انسانیت کے وسیع دائرے میں وہ خود غرض قوم ایک لعنت کیوں نہیں ہے جو اپنے قومی مفاد کو اپنا خدا بنالے اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے اس کی پوجا کرنے لگے؟ آپ کا ضمیر گواہی دے گا کہ تمام خود غرضیوں اور نفسانیتوں کی طرح یہ قومی خود غرضی و نفسانیت بھی یقیناً ایک لعنت ہے مگر آپ دیکھ رہے ہیں آج اس تہذیبِ جدید نے تمام قوموں کو اسی لعنت میں مبتلا کردیا ہے اور اس کی بدولت ساری دنیا ایسے قومی اکھاڑوں میں تبدیل ہوگئی ہے جن میں سے ہر اکھاڑے کی دوسرےاکھاڑ ے سے لاگ ڈانٹ ہے اور دو عالمگیر دنگل ہوچکنے کے بعد ابھی پسینہ بھی خشک نہیں ہوا ہے کہ تیسرے دنگل کے لیے ڈنڑ خم تازہ کیے جارہے ہیں۔
---------
مغربی جمہوریت کا فساد
تیسرا اصول پہلے دونوں اصولوں کے ساتھ مل کر اس بلا کی تکمیل کردیتا ہے ۔جیسا کہ میں ابھی عرض کرچکا ہوں، موجودہ تہذیب میں جمہوریت کے معنی جمہور کی حاکمیت، یعنی ایک علاقے کے لوگوں کی مجموعی خواہش کا اپنے علاقے میں مختار مطلق ہونا اور حکومت کی غرض صرف یہ ہونا کہ اس کا نظم اور اس کی طاقت لوگوں کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرنے کے کام آئے۔ اب غور کیجئے کہ پہلے تو لادینی نے ان لوگوں کو خدا کے خوف اور اخلاق کے مستقل اصولوں کی17/149 گرفت سے آزاد کرکے بے لگام اور غیر ذمہ دارا اور بندۂ نفس بنادیا۔ پھر قوم پرستی نے ان کو شدید قسم کی قومی خود غرضی اور اندھی عصبیت اور قومی غرور کے نشے سے بدمست کردیا اور اب یہ جمہوریت انھی بے لگام بدمست بندگانِ نفس کی خواہشات کو قانون سازی کے مکمل اختیارات دیتی ہے اور حکومت کا واحد مقصد یہ قرار دیتی ہے کہ اس کی طاقت ہر اس چیز کے حصول میں صرف ہو جس کی یہ لوگ اجتماعی طور پر خواہش کریں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی خود مختار صاحبِ حاکمیت قوم کا حال آخر ایک طاقتور بدمعاش سے کس بات میں مختلف ہوگا۔ جو کچھ ایک بدمعاش فرد خودمختار اور طاقتور ہوکر چھوٹے پیمانے پر کرے گا وہی تو اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اس طرح کی ایک قوم کرے گی۔ پھر جب دنیا میں صرف ایک ہی قوم ایسی نہ ہو بلکہ ساری متمدن قومیں اسی ڈھنگ پر بے دینی، قوم پرستی اور جمہوریت کے اصولوں پر منظم ہوں تو دنیا بھیڑیوں کا میدان جنگ نہ بنے گی تو اور کیا بنے گی۔
یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر ہم ہر اس نظامِ اجتماعی کو فاسد سمجھتے ہیں جو ان
تین اصولوں کی بنیاد ہے۔ ہماری دشمنی لادینی قومی جمہوری نظام سے ہے خواہ اس
کے قائم کرنے اور چلانے والے مغربی ہوں یا مشرقی، غیر مسلم ہوں یا نام نہاد
مسلمان۔ جہاں جس ملک اور جس قوم پر بھی یہ بلا مسلّط ہوگی، ہم بندگانِ خدا کو
اس سے ہوشیار کرنے کی فکر کریں گے کہ اسے دفع کرو۔
تین صالح اصول
ان تینوں اصولوں کے جواب میں ہم دوسرے تین اصول پیش کرتے ہیں۔ اور سب انسانوں
کے ضمیر سے اپیل کرتے ہیں کہ انہیں جانچ کر، پرکھ کر خود دیکھ لو کہ تمہارا
بھلا اور ساری دنیا کا بھلا ان پاک اصولوں میں ہے یا ان خبیث اصولوں میں؟
لادینی کے مقابلے میں خدا کی بندگی و اطاعت،
قوم پرستی کے مقابلے میں انسانیت،
جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت۔
خدا پرستی کے معنی 18/149
پہلے اصول کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب اس خدا کو اپنا آقا تسلیم کریں جو ہمارا اور
تمام کائنات کا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ ہم اس سے آزاد اور بے نیاز بنکر نہیں
بلکہ اس کے تابع فرمان اور اس کی رہنمائی کے پیرو بن کر زندگی بسر کریں۔ ہم
صرف اس کی پوجا ہی نہ کریں بلکہ اس کی اطاعت اور بندگی بھی کریں۔ ہم صرف فرداً
فرداً اپنی پرائیویٹ حیثیت ہی میں اس کے احکام اور ہدایات کے پابند نہ ہوں
بلکہ اپنی اجتماعی زندگی کے بھی ہر پہلو میں اسی کے پابند ہوں۔ ہماری معاشرت،
ہمارا تمدن، ہماری معیشت، ہمارا نظامِ تعلیم و تربیت، ہمارے قوانین ، ہماری
عدالتیں، ہماری حکومت، ہماری صلح و جنگ اور ہمارے بین الاقوامی تعلقات، سب کے
سب ان اصولوں اور حدوں کےپابند ہوں جو خدا نے مقرر کیے ہیں۔ ہم اپنے دنیوی
معاملات کو طے کرنے میں بالکل آزاد ہوں بلکہ ہماری آزادی ان سرحدوں کے اندر
محدود ہو جو خدا کے مقرر کیے ہوئے اصول اور حدود نے کھینچ دی ہیں۔ یہ اصول اور
حدود ہرحال میں ہمارے اختیارات سے بالاتر رہیں۔
انسا
نیت کا مطلب
dir="RTL"> دوسرے اصول کا مطلب یہ ہے کہ خدا پرستی کی بنیاد پر جو نظامِ زندگی بنے اس میں قوم، نسل، وطن، رنگ اور زبان کے فرق و امتیاز کی بنا پر کسی قسم کے تعصبات اور خود غرضیاں راہ نہ پائیں۔ وہ ایک قومی نظام کے بجائےایک اصولی نظام ہونا چاہیئےجس کے دروازے ہر اس انسان کے لیے کھلے ہوئے ہوں جو اس کے بنیادی اصولوں کو مان لے اور جو انسان بھی ان کو مان جائے وہ بغیر کسی امتیاز کے پورے مساویانہ حقوق کے ساتھ اس میں شریک ہوسکے۔اس نظام میں شہریت (Citizenship) کی بنیاد پیدائش اور نسل و وطن پر نہ رکھی جائے بلکہ صرف اصول پر رکھی جائے۔ رہے وہ لوگ جو ان اصولوں پر مطمئن نہ ہوں یا کسی وجہ سے ان کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوں تو ان کو مٹانے اور دبانے اور ہضم کرنے کی کوشش نہ ہو بلکہ وہ متعین حقوق کے ساتھ اس نظام کی حفاظت (Protection) میں رہیں اور ان کےلیے ہر وقت یہ موقع کھلا رہے کہ جب بھی ان اصولوں کی صحت و درستی پر ان کا اطمینان ہوجائے وہ برابر کے حقوق کے ساتھ اپنی آزادانہ مرضی سے اس نظام کے شہری بن سکیں۔ یہ چیز جس کو ہم اصولِ انسانیت سے تعبیر کررہے ہیں قومیت کی نفی نہیں کرتی بلکہ اسے اس کی صحیح فطری حد میں رکھتی ہے۔ اس میں قومی محبت کے لیے جگہ ہے مگر قومی تعصب کے لیے جگہ نہیں ہے۔ قومی خیر خواہی جائز ہے مگر قومی خود غرضی حرام ہے۔ قومی آزادی مسلم ہے اور ایک قوم پر دوسری قوم کے خود غرضانہ تسلّط سے بھی سخت انکار ہے مگر ایسی قومی آزادی ہرگز تسلیم نہیں ہے جو انسانیت کو ناقابل ِ عبور سرحدوں میں تقسیم کردے۔ اصول انسانیت کامطالبہ یہ ہے کہ اگرچہ ہر19/149 قوم اپنے گھر کا انتظام آپ کرے، اور کوئی قوم من حیث القوم دوسری قوم کی تابع نہ ہو، لیکن تمام وہ قومیں جو تہذیبِ انسانی کے بنیادی اصولوں میں متفق ہوجائیں ان کے درمیان انسانی فلاح و ترقی کے کاموں میں پورا تعاون ہو، مسابقت (Competition) کے بجائے معاونت ہو، باہم امتیازات اور تعصبات اور تفریقیں نہ ہوں بلکہ تہذیب و تمدن اور اسباب زندگی کا آزادانہ لین دین ہو، اور اس مہذب نظامِ زندگی کے تحت زندگی بسر کرنے والی دنیا کا ہر انسان اس پوری دنیا کا شہری ہو نہ کہ ایک ملک یا ایک قوم کا۔ حتی ٰکہ وہ کہہ سکے کہ " ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست"۔ موجودہ حالت کو ہم ایک قابل نفرت حالت سمجھتے ہیں جس میں ایک انسان نہ تو خود ہی اپنی قوم اور ملک کے سوا کسی دوسری قوم اور ملک کا وفادار ہوسکتا ہے اور نہ کوئی قوم اپنے افراد کے سوا کسی دوسری قوم کے افراد پر اعتماد کرسکتی ہے۔ آدمی اپنے ملک کے حدود سے باہر نکلتے ہی یہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کی زمین میں ہر جگہ اس کے لیے رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں،ہر جگہ وہ چوروں اچکوں کی طرح شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ہر جگہ پوچھ گچھ ہے تلاشیاں ہیں،زبان و قلم اور نقل و حرکت پر پابندیاں ہیں اور کہیں اس کے لیے نہ آزادی ہے نہ حقوق۔ ہم اس کے مقابلے میں ایسا عالمگیر نظام چاہتے ہیں ، جس میں اصولوں کی وحدت کو بنیاد بنا کرقوموں کے درمیان وفاق قائم ہو اور اس وفاق میں بالکل مساویانہ اور مشترک شہریت (Common citizenship) اور بے روک ٹوک آمد و رفت کا طریقہ رائج ہو، ہماری آنکھیں پھر ایک دفعہ یہ منظر دیکھنا چاہتی ہیں کہ آج کا کوئی ابن بطوطہ اٹلانٹک کے ساحل سے بحرالکاحل کے جزائر تک اس طرح جائے کہ کہیں بھی وہ غیر (Alien) نہ ہو اور ہر جگہ اس کےلیے جج، مجسٹریٹ، وزیر یا سفیر بن جانے کے موقع ہو۔
خلافت جمہور کا مفہوم
اب تیسرے اصول کو لیجیے ۔ ہم جمہوری حاکمیت کے بجائے جمہوری خلافت کے قائل ہیں۔ شخصی بادشاہی (Monarchy) اور امیروں کے اقتدار اور طبقوں کی اجارہ داری کے ہم بھی اتنے ہی مخالف ہیں جتنا موجودہ زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا جمہوریت پرست ہو سکتا ہے۔اجتماعی زندگی میں تمام لوگوں کے یکساں حقوق مساویانہ حیثیت اور کھلے مواقع پر ہمیں بھی اتنا ہی اصرار ہے جتنا مغربی جمہوریت کے کسی بڑے سے بڑے حامی کو ہوسکتا ہے۔ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ حکومت کا انتظام اور حکمران کا انتخاب تمام باشندوں کی آزادانہ مرضی اور رائے سے ہونا چاہیے۔ ہم بھی اس نظام زندگی کے سخت مخالف ہیں جس میں لوگوں کے لئے اظہار رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی اور سعی و عمل کی آزادی نہ ہو۔یا جس میں پیدائش،اور نسل اور طبقات کی بنا پر بعض لوگوں کے لیے مخصوص حقوق اور بعض دوسرے لوگوں کے لئے مخصوص رکاوٹیں ہوں۔ یہ امور جو جمہوریت کا اصل جوہر (Essence) ہیں۔ ان میں ہماری جمہوریت اور مغربی جمہوریت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اہل20/149 مغرب نے ہمیں سکھائی ہو۔ہم اس جمہوریت کو اس وقت سے جانتے ہیں اور دنیا کو اس کا بہترین عملی نمونہ دکھا چکے ہیں جبکہ مغربی جمہوریت پرستوں کی پیدائش میں ابھی سیکڑوں برس کی دیر تھی۔دراصل ہمیں اس نوخیز جمہوریت سے جس چیز میں اختلاف اور نہایت سخت اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ یہ جمہور کی مطلق العنان بادشاہی کا اصول پیش کرتی ہےاور ہم اس کو حقیقت کے اعتبار سے غلط اور نتائج کے اعتبار سے تباہ کن سمجھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہی (Sovereignty) صرف اس کا حق ہے جس نے لوگوں کو پیدا کیا، جو ان کی پرورش اور بالیدگی کا سامان کررہا ہے۔جس کے سہارے پر ان کی اور ساری دنیا کی ہستی قائم ہے۔ اور جس کے زبردست قانون کی گرفت میں کائنات کی ایک ایک چیز جکڑی ہوئی ہے۔ اس کی واقعی اور حقیقی بادشاہی کے اندر جس بادشاہی کا بھی دعویٰ کیا جائے گا، خواہ ایک شخص اور ایک خاندان کی بادشاہی ہو یا ایک قوم اور اس کے عوام کی، بہرحال وہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہ ہوگا اور اس غلط فہمی کی چوٹ کائنات کے اصل بادشاہ پر نہیں بلکہ اس احمق مدعی پر پڑے گی جس نے اپنی قدر خود نہ پہچانی۔ اس حقیقت کی موجودگی میں صحیح بھی یہی ہے اور نتائج کے اعتبار سے انسان کی بھلائی بھی اسی میں ہے کہ خدا کو حاکم مان کر انسانی زندگی کا نظامِ حکومت خلافت و نیابت کے نظریہ پر بنایا جائے۔ یہ خلافت بلاشبہ جمہوری ہونی چاہئیے۔ جمہور کی رائے ہی سے حکومت کے امیر یا ناظمِ اعلیٰ کا انتخاب ہونا چاہیئے۔ انہی کی رائے سے اہل شوریٰ منتخب ہونے چاہیئں۔ انہی کے مشورے سے حکومت کے سارے انتظامات چلنے چاہیئں۔ ان کو تنقید و احتساب کا کھلا حق ہونا چاہیئے، لیکن یہ سب کچھ اس احساس و شعور کے ساتھ ہونا چاہیئے کہ ملک خدا کا ہے، ہم مالک نہیں بلکہ نائب ہیں اور ہمیں اپنے ہر کام کا حساب اصل مالک کو دینا ہے۔ نیز وہ اخلاقی اصول اور وہ قانونی احکام اور حدود اپنی جگہ اٹل ہونے چاہیئں جو خدا نے ہماری زندگی کے لیے مقرر کردیے ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ کا اساسی نظریہ یہ ہونا چاہیئے کہ
جن امور میں خدانے ہمیں ہدایات دی ہیں ان میں ہم قانون سازی نہیں کریں گے بلکہ
اپنی ضروریات کے لیے خدا کی ہدایات سے تفصیلی قوانین اخذ کریں گے۔
اور جن امور میں خدا نے ہدایات نہیں دی ہیں ان میں ہم یہ سمجھیں گے کہ خدا نے
خود ہی ہم کو آزادئ عمل بخشی ہے اس لیے صرف انہی امور میں ہم باہمی مشورے سے
قوانین بنائیں گے۔
مگر یہ قوانین لازماً اس مجموعی سانچے کے مزاج سے مطابقت رکھنے والے ہونگے جو خدا کی اصولی ہدایات نے ہمارے لیے بنادیا ہے۔ 21/149
پھر یہ ضروری ہے کہ اس پورے نظامِ تمدن و سیاست کی کارفرمائی اور اس کا انتظام
ان لوگوں کے سپر د ہو۔ جو خدا سے ڈرنے والے اور اس کی اطاعت کرنے والے اور ہر
کام میں اس کی رضا چاہنے والے ہوں۔ جن کی زندگی گواہ ہو کہ وہ خدا کے حضور
اپنی پیشی اور جواب دہی کا یقین رکھتے ہیں۔ جن کی پبلک پرائیویٹ دونوں قسم کی
زندگیوں سے یہ شہادت ملے کہ وہ بے لگام گھوڑے کی طرح نہیں ہیں۔ جو ہر کھیت میں
چرتا اور ہر حد کو پھاندتا پھرتا ہو، بلکہ ایک الٰہی ضابطہ کی رسی سے بندھے
ہوئے اور ایک خدا پرستی کے کھونٹے سے مربوط ہیں اور ان کی ساری چلت پھرت اسی
حد تک محدود ہے جہاں تک وہ رسی انہیں جانے دیتی ہے۔
حضرات ! یہ تینوں اصول ہیں جن کی بہت ہی مختصر تشریح میں نےآپ کے سامنے بیان
کی ہے۔ موجودہ تہذیب کی قوم پرستانہ لادینی جمہوری حاکمیت کے مقابلہ میں ایک
خدا پرستانہ انسانی جمہوری خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اسی کا قیام ہمارا
نصب العین ہے۔ یہ بات تو آپ بیک نظر معلوم کرسکتے ہیں کہ ان دونوں نظاموں کے
درمیان کیا اختلاف ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ کے اپنے ضمیر پر منحصر ہے کہ ان میں سے
کون بہتر ہے، کس میں آپ کی فلاح ہے، کس کے قیام کا آپ کو خواہشمند ہونا چاہیئے
اور کس کے قائم کرنے اور قائم رکھنے میں آپ کی قوتیں صرف ہونی چاہئیں۔
دعوتِ اسلامی کے تین نکات¹
اگر ہم اپنی اس دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا
چاہیں تو یہ تین نکات (Points) پر مشتمل ہوگی۔
¹ یہ وہ تقریر ہے جو مولانا سید ابولاعلی مودودی نے جماعتِ اسلامی کے کل ہند اجتماع کے موقع پر کی جو 19 اپریل تا 21 اپریل 1945 ء کو دارالاسلام (پٹھانکوٹ) پنجاب میں منعقد ہوا تھا۔ تقریر کا عنوان تھا " دعوت اسلامی اور اس کا طریقِ کار"۔ اس تقریر کو پڑھتے ہوئے یہ ذہن میں رہنا چاہیئے کہ جب یہ تقریر تیار کی گئی تھی اس وقت ابھی پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔ ایک غیر مسلم حکومت ملک پر مسلط تھی، مگر تقسیم ملک کے بعد جب پاکستان قائم ہوا اور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی تو اب ریاست کی حیثیت تبدیل ہوگئی اور جماعت اسلامی کے نزدیک اب اس ریاست کی خدمت اور حفاظت اور اس میں اسلامی قانون کا نفاذ دینی فریضہ قرار پایا اور اس میں ملازمت کی وہ پابندیاں جو پہلے شرعی طور پر عائد تھیں ختم ہوگئیں اور مکمل اسلامی قانون کے نفاذ تک عبوری مرحلے میں اس کی عدالتوں میں مقدمات لے کر جانے اور مقدمات کی پیروی کرنے کے سلسلے میں وہ ممانعت باقی نہیں رہی جو قرار داد22/149 مقاصد سے پہلے تھی۔ (مرتب)
1. یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص
اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
2. یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے اس
کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کردے اور
جب وہ مسلمان ہے، یا بنا ہے، تو مخلص مسلمان بنے۔ اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر
یک رنگ ہوجائے۔
3. یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں او ر فساق و فجار کی رہنمائی اور
قیادت و فرمانروائی میں چل رہا ہے اور معاملاتِ دنیا کے نظام کی زمامِ کار جو
خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور
رہنمائی و امامت نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین و صالحین کے ہاتھ میں
منتقل ہو۔
بندگی رب کا حقیقی مفہوم
اللہ تعالٰی کی بندگی کی دعوت دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ خدا کو خدا
اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ تو مان لیا جائے، مگر اس کے بعد اخلاقی و عملی اور
اجتماعی زندگی ویسی کی ویسی ہی رہے جیسی خدا کو نہ ماننے اور اس کی بندگی کا
اعتراف نہ کرنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا یہ مطلب بھی
نہیں ہے کہ خدا کو فوق الفطری طریقے پر خالق اور رازق اور معبود تسلیم کرلیا
جائے مگر عملی زندگی کی فرمانروائی و حکمرانی سے اس کو بیدخل کردیا جائے۔ اسی
طرح خداکی بندگی کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ زندگی کومذہبی اور دنیوی دو الگ
الگ حصوں میں تقسیم کیا جائے اور صرف مذہبی زندگی میں جس کا تعلق عقائد اور
عبادات اور حرام و حلال کی چند محدود قیود سے سمجھا جاتا ہے۔ خدا کی بندگی کی
جائے۔باقی رہے دنیاوی معاملات جو تمدن ، معاشرت، سیاست، معیشت، علوم و فنون
اور ادب وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں تو ان میں انسان خدا کی بندگی سے بالکل آزاد
رہے اور جس نظام کوچاہے خود وضع کرے یا دوسروں کے وضع کئے ہوئے کو اختیار
کرلے۔ بندگئی رب کے ان سب مفہومات کو ہم سراسر غلط سمجھتے ہیں، ان کو مٹانا
چاہتے ہیں اور ہماری لڑائی جتنی شدت کے ساتھ نظامِ کفر کے ساتھ ہے، اتنی ہی
بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ بندگی کے ان مفہومات کے خلاف ہے، کیونکہ ان کی
بدولت دین کا تصور ہی سرے سے مسخ ہوگیا ہے۔
ہمارے نزدیک قرآن اور اس سے پہلے کی تمام آسمانی کتابیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے کے تمام پیغمبر جو23/149 دنیا کے مختلف گوشوں میں آئے۔ ان کی بالاتفاق دعوت جس بندگئی رب کی طرف تھی وہ یہ تھی کہ انسان خدا کو پورے معنی میں، الہ اور رب، معبود اور حاکم، آقا اور مالک، رہنما اور قانون ساز، محاسب اور مجازی (جزا دینے والا) تسلیم کرے اور اپنی پوری زندگی کو خواہ وہ شخصی (Private) ہو یا اجتماعی، اخلاقی ہو یا مذہبی، تمدنی و سیاسی اور معاشی ہو یا علمی اور نظری، اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کردے۔ یہی مطالبہ ہے جو قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے کہيٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّةً اے ایمان لانے والو ! تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ یعنی اپنی زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے کو بندگئی رب سے محفوظ (Reserve) کرکے نہ رکھو۔ اپنے تمام وجود کے ساتھ، اپنی پوری ہستی کے ساتھ خدا کی غلامی و اطاعت میں آجاؤ۔ زندگی کے کسی معاملہ میں بھی تمہارا یہ طرزِ عمل نہ ہو کہ اپنے آپ کو خدا کی بندگی سے آزاد سمجھو او ر اس کی رہنمائی اور ہدایت سے مستعفی ہوکر اور اس کے مقابلے میں خود مختار بنے ہوئے بند ے کے پیرو یا مطیع ہوکر وہ راہ چلنے لگو، جس کی ہدایت خود خدا نے نہ دی ہو۔ بندگی کا یہی وہ مفہوم ہے جس کی ہم تبلیغ کرتے ہیں اور جسے قبول کرنے کی سب لوگوں کو مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کو دعوت دیتے ہیں۔
منافقت کی حقیقت
دوسری چیز جس کی ہم دعوت دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یا اسلام قبول کرنے والے سب لوگ منافقانہ رویے کو بھی چھوڑیں اور اپنی زندگی کو تناقضات (Inconsistencies) سے بھی پاک کریں۔منافقانہ رویے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کا دعویٰ کرے اس کے بالکل برخلاف نظامِ زندگی کو اپنے اوپر حاوی و مسلّط پاکر راضی و مطمئن رہے۔ اس کو بدل کر اپنے دین کو اس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے بلکہ اس کے برعکس اسی فاسقانہ و باغیانہ نظامِ زندگی کو اپنے لیے سازگار بنانے اور اس میں اپنے لیے آرام کی جگہ پیدا کرنے کی فکر کرتا رہے یا اگر اس کو بدلنے کی کوشش بھی کرے تو اس کی غرض یہ نہ ہو کہ اس فاسقانہ نظامِ زندگی کی جگہ دینِ حق قائم ہو۔ بلکہ صرف یہ کوشش کرے کہ ایک فاسقانہ نظام ہٹاکر دوسرا فاسقانہ نظام اس کی جگہ قائم ہوجائے۔ ہمارے نزدیک یہ طرزِ عمل سراسر منافقانہ ہے اس لیے کہ ہمارا ایک نظام ِزندگی پر ایمان رکھنا اور دوسرے نظام ِزندگی میں راضی رہنا بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مخلصانہ ایمان کااولین تقاضا یہ ہے کہ جس طریقِ زندگی پر ہم ایمان رکھتے ہیں اسی کو ہم اپنا قانون حیات دیکھنا چاہیں اور ہماری روح اپنی آخری گہرائیوں تک ہر اس رکاوٹ کے پیش آجانے پر بے چین و مضطرب ہوجائے، جو اس طریقِ زندگی کے مطابق جینے میں سدِّ راہ بن رہی ہو۔ ایمان تو ایسی کسی چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ کجا کہ اس کا پورے کا پورا دین کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع مہمل بن کر رہ گیا ہو۔ اس دین کے کچھ اجزاء پر عمل ہوتا بھی ہو، تو صرف اس وجہ سے کہ24/149 غالب نظامِ زندگی نے ان کو بے ضرر سمجھ کر رعایتاً باقی رکھا ہو اور ان رعایات (Concessions) کے ماسوا ساری زندگی کے معاملات دین کی بنیادوں سے ہٹ کر غالب نظامِ زندگی کی بنیادوں پر چل رہے ہوں اور پھر بھی ایمان اپنی جگہ نہ صرف خوش اور مطمئن ہو بلکہ جو کچھ بھی سوچے اسی غلبۂکفر کو اصولِ موضوعہ کے طور پر تسلیم کرکے سوچے۔اس قسم کا ایمان چاہے فقہی اعتبار سے معتبر ہو،لیکن دینی لحاظ سے تو اس میں اور نفاق میں کوئي فرق نہیں ہے اور قرآن کی متعدد آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ حقیقت میں نفاق ہی ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ لوگ بھی اپنے آپ کو بندگئی رب کے اس مفہوم کے مطابق جس کی ابھی میں نے تشریح کی ہے۔ خدائے واحد کی بندگی میں دینے کا اقرار کریں۔ ان کی زندگی اس نفاق سے پاک ہو۔ بندگئی حق کے اس مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچے دل سے یہ چاہیں کہ جو طریق ِ زندگی، قانون حیات، جو اصولِ تمدن و اخلاق و معاشرت و سیاست جو نظامِ فکر و عمل اللہ تعالٰے نے اپنے انبیاء کے واسطے سے ہمیں دیا ہے۔ ہماری زندگی کا پورا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلے اور ہم ایک لمحے کے لیے بھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے شعبے کے اندر بھی اس نظامِ حق کے خلاف کسی دوسرے نظام کے تسلط کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اب آپ خود سمجھ لیں کہ نظامِ باطل کے تسلط کو برداشت کرنا بھی جبکہ تقاضائے ایمان کے خلاف ہو، تو اس پر راضی و مطمئن رہنا اس کے قیام و بقا کی سعی میں حصہ لینا، یا ایک نظامِ باطل کی جگہ دوسرے نظامِ باطل کو سرفراز کرنے کی کوشش کرنا ایمان کے ساتھ کیسے میل کھاسکتا ہے۔
تناقض کی حقیقت
اس نفاق کےبعد دوسری چیز جس کو ہم نے ہر پرانے اور نئے مسلمان کی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں اور جس کے خارج کرنے کی ہر مدّعی ایمان کو دعوت دیتے ہیں وہ تناقُض ہے۔ تناقُض سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس چیز کا زبان سے دعويٰ کرے عمل سے اس کی خلاف ورزی کرے۔ نیز یہ بھی تناقُض ہے کہ آدمی کا اپنا عمل ایک معاملے میں کچھ ہو اور دوسرے معاملے میں کچھ۔ اس لیے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگي کو خدا کی بندگی میں دے دیا ہے تو اسے جان بوجھ کر کوئی حرکت بھی ایسی نہ کرنی چاہیئے جو بندگئی رب کی ضد ہو اور اگر بشری کمزوری کی بنا پر ایسی کوئی حرکت اس سے سرزد ہوجائے تو اسے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے پھر بندگئی رب کی طرف پلٹنا چاہئے۔ ایمان کے مقتضیات میں سے یہ بھی ایک اہم مقتضا ہے کہ پوری زندگی صبغۃ اللہ میں رنگی ہوئي ہو، پچرنگی اور چورنگی تو درکناردورنگی زندگی بھی دعوائے ایمان کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ ہمارے نزدیک یہ بات بہروپئےپن سے کم نہیں ہے کہ ہم ایک طرف تو خدا اور آخرت اور وحی اور نبوت اور شریعت کو ماننے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف دنیا کی طلب میں لپکے ہوئے ان درسگاہوں کی طرف خود دوڑیں، دوسروں کو ان کا شوق دلائیں اور آپ خود اپنے اہتمام میں25/149 ایسی درسگاہیں چلائیں جن میں انسان کو خدا سے دور کرنے والی، آخرت کو بھلادینے والی، مادہ پرستی میں غرق کردینے والی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک طرف ہم خدا کی شریعت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف ان عدالتوں کے وکیل اور جج بنیں جو شریعتِ غیر الٰہی کی بنیاد پر قائم کی گئي ہوں۔ ایک طرف ہم مسجد میں جا جا کر نمازیں پڑھیں اور دوسری طرف مسجد سے باہر نکلتے ہی اپنے گھر کی زندگی میں، اپنے لین دین میں، اپنی معاش کی فراہمی میں، اپنی شادی بیاہ میں، اپنی میراثوں کی تقسیم میں، اپنی سیاسی تحریکوں میں اور اپنے سارے دنیوی معاملات میں خدا اور اس کی شریعت کو بھول کر، کہیں اپنے نفس کے قانون کی، کہیں اپنی برادری کے رواج کی، کہیں اپنی سوسائٹی کے طور طریقوں کی اور کہیں خدا سے پھرے ہوئے حکمرانوں کے قوانین کی پیروی میں کام کرنے لگیں۔ ایک طرف ہم اپنے خدا کو بار بار یقین دلائیں کہ ہم تیرے ہی بندے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور دوسری طرف ہر اس بُت کی پوجا کریں جس کے ساتھ ہمارے مفاد، ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اور آسائشیں کچھ بھی وابستگی رکھتی ہوں۔ یہ اور ایسے ہی بے شمار متناقضات جو آج مسلمانوں کی زندگی میں پائے جاتے ہیں جن کے موجود ہونے سے کوئی ایسا شخص جو بینائی رکھتا ہو انکار نہیں کرسکتا۔ ہمارے نزدیک وہ اصلی گھن ہیں جو امتِ مسلمہ کی سیرت و اخلاق کو اور اس کے دین و ایمان کو اندر ہی اندر کھائے جاتے ہیں اور آج زندگی کے ہر پہلو میں مسلمانوں کو یہ اطمینان دلایا جاتا رہا ہے کہ تم شہادتِ توحید و رسالت زبان سے ادا کرنے اور روزہ و نماز وغیرہ چند مذہبی اعمال کرلینے کے بعد خواہ کتنے ہی غیر دینی اور غیر ایمانی طرزِ عمل کرجاؤ، بہرحال نہ تمہارے اسلام پر کوئی آنچ آسکتی ہے اور نہ تمہاری نجات کو کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ اس ڈھیل (Allowance) کی حدود اس حد تک بڑھیں کہ تماز روزہ بھی مسلمان ہونے کے لیے شرط نہ رہا اور مسلمانوں میں عام طور پر یہ تخیل پیدا کردیا گیا کہ ایک طرف ایمان اور اسلام کا اقرار ہو اور دوسری طرف ساری زندگی اس کی ضد ہو، تب بھی کچھ نہیں بگڑتا۔لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں اِلاّ یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ اسی چیز کا نتیجہ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کے نام کے ساتھ ہر فسق، ہر کفر اور ہر معصیت و نافرمانی اور ہر ظلم و سرکشی کا جوڑ آسانی سے لگ جاتا ہے اور مسلمان مشکل ہی سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ جن راہوں میں وہ اکثر اپنے اوقات ،اپنی محنتیں، اپنے مال، اپنی قوتیں اور قابلیتیں اور اپنی جانیں کھپارہے ہیں اور جن مقاصد کے پیچھے ان کی انفرادی اور اجتماعی کوششیں صرف ہورہی ہیں وہ اکثر ان کے ایمان کی ضد ہیں، جس کا وہ دعويٰ رکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال جب تک جاری رہے گی، اسلام کے دائرے میں نومسلموں کا داخلہ بھی کوئی مفید نتیجہ پیدا نہ کرسکے گا۔ کیونکہ جو منتشر افراد اس کانِ نمک میں آتے جائیں گے وہ اسی طرح نمک بنتے چلے جائیں گے۔ پس ہماری دعوت کا ایک لازمی عنصر یہ ہے کہ ہم ہر مدعی ایمان کی زندگی کو ان تناقُضات سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہر مومن سے یہ ہے کہ وہ حنیف ہو، یکسو ہو، ایک رنگ مومن و مسلم ہو۔ ہر اس چیز سے کٹ جائے اور نہ کٹ26/149 سکتا ہو تو پیہم کٹنے کی جِدّوجُہد کرتا رہے جو ایمان کی ضد اور مسلمانہ طریقِ زندگی کے منافی ہو اور خوب اچھی طرح مقتضیات ایمان میں سے ایک ایک تقاضے کو تمجھے اور اسے پورا کرنے کی پیہم سعی کرتا رہے۔
امامت میں تغیر کی ضرورت 27/149
اب ہماری دعوت کے تیسرے نکتہ کو لیجئے ابھی جن دو نکات کی تشریح میں آپ کے
سامنے کرچکا ہوں۔ یہ تیسرا نکتہ ان سے بالکل ایک منطقی نتیجے کے طور پر نکلتا
ہے۔ ہمارا اپنے آپ کو بندگئی رب کے حوالے کردینا اور اس کی حوالگی و سپردگي
میں ہمارا منافق نہ ہونا، بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگي کو
تناقُضات سے پاک کرکے مسلمِ حنیف بننے کی کوشش کرنا، لازمی طور پر اس بات کا
تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظامِ زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر، دہریت،شرک،
فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے
مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبّرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے
اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے
ہاتھ میں رہے گی اور جب تک علوم و فنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشر و
اشاعت، قانون سازی اور تنفیذِ قانون، مالیات، صنعت و حرفت، تجارت اور انتظامِ
ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں
گے۔ کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی
بندگی کو اپنا ضابطۂ حیات بنا کر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے، بلکہ اپنی آئندہ
نسلوں کو اعتقاداً بھی اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیر ممکن ہے۔ اس کے علاوہ صحیح
معنوں میں جو شخص بندۂ رب ہو، اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض
یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک
کرے اور صلاح پر قائم کرے اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں
ہوسکتا جب تک کہ زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔ فُسّاق و فجُّار اور خدا
کے باغی اور شیطان کے مطیع دنیا کے امام و پیشوا اور منتظم رہیں اور پھر دنیا
میں ظلم و فساد، بد اخلاقی اور گمراہی کا دور دورہ نہ ہو۔ یہ عقل اور فطرت کے
خلاف ہے اور آج تجربہ و مشاہدے سے کالشمس فی النہار ثابت ہوچکا ہے کہ ایسا
ہونا ناممکن ہے۔ پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے
ائمۂ ضلالت کی پیشوائی ختم کردینے اور غلبۂ کفر و شرک کو مٹا کر دینِ حق کو اس
کی جگہ قائم کرنے کی سعی کریں۔
امامت میں انقلاب کیسے ہوتا ہے
dir="RTL"> مگر یہ تغیّر محض چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالٰی کی مشیّت بہرحال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور28/149 دنیا کے انتظام کے لیے کچھ صلاحیتیں اور قوتیں اور صفات درکار ہیں، جن کے بغیر کوئی گروہ اس انتظام کو ہاتھ میں لینے اور چلانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔اگر مومنین صالحین کا ایک منظم جتھا ایسا موجود نہ ہو جو انتظامِ دنیا کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو، تو پھر مشیّت الٰہی غیر مومن اور غیر صالح لوگوں کو اپنی دنیا کا انتظام سونپ دیتی ہے، لیکن اگر کوئی گروہ ایسا موجود ہو جو ایمان بھی رکھتا ہو، صالح بھی ہو اور ان صفات اور صلاحیتوں اور قوتوں میں کفار سے بڑھ جائے، جو دنیا کا انتظام چلانے کے لیے ضروری ہیں تو مشیّت الٰہی نہ ظالم ہے اور نہ فساد پسند کہ پھر بھی اپنی دنیا کا انتظام فساق و فجار اور کفار ہی کے ہاتھ میں رہنے دے۔ پس ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمامِ کار فساق و فجار کے ہاتھ سے نکل کر مومنین صالحین کے ہاتھ میں آئے بلکہ ایجاباً (Positively) ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ ایمان و صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کافرماؤں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق تر ثابت کردے۔
جماعت اسلامی کا مقصد اور مسلک¹
مقصد
جماعت اسلامی جس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ:
" انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں (فکرونظر، عقیدہ و خیال،
مذہب و اخلاق، سیرت و کردار، تعلیم و تربیت، تہذیب و ثقافت، تمدن و معاشرت،
معیشت و سیاست، قانون و عدالت، صلح و جنگ اور بین الاقوامی تعلقات) سمیت خدا
کی بندگی اور انبیاء علیہم السلام کی ہدایت پر قائم کیا جائے"۔
یہ مقصد اول روز سے ہمارے پیش نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے جس کے لیے ہم کام کررہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہمارے پیش نظر کبھی تھا، نہ آج ہے، نہ انشاءاللہ کبھی ہوگا۔ آج تک جس کام سے بھی ہم نے دلچسپی لی ہے اسی مقصد کے لیے لی ہے اور اسی حد تک لی ہے جس حد تک ہماری دانست میں اس کا تعلق اس مقصد سے تھا۔ 29/149
جس چیز کو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں اس کا جامع نام قرآن کی اصطلاح میں "دین حق"
ہے، یعنی وہ نظامِ زندگی (دین) جو پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اللہ
کی بندگی و اطاعت پر مبنی ہو، مگر اس کے لیے کبھی کبھی ہم نے " حکومت الٰہیہ"
کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے جس کا مفہوم دوسروں کے نزدیک چاہے جو کچھ بھی ہو،
ہمارے نزدیک یہ ہے کہ " اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی
زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنا"۔ اس لحاظ سے یہ لفظ بالکل اسلام کا ہم معنی
ہے۔ اسی بنا پر ہم ان تینوں اصطلاحوں (دینِ حق، حکومت الٰہیہ اور اسلام) کو
مترادف الفاظ کی طرح بولتے رہے ہیں اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کا نام ہم
نے اقامتِ دین، شہادتِ حق اور تحریک اسلامی رکھا ہے جن سے پہلے دو لفظ قرآن سے
ماخوذ ہیں اور دوسرا لفظ عام فہم ہونے کی وجہ سے اختیار کیا گیا ہے۔ ان الفاظ
میں سے کسی پر اگر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی ہے تو اس لیےکہ انہوں نے ہماری
اصطلاح سے اپنا مفہوم مراد لے لیا۔ ہمارا مفہوم لیتے تو امید نہ ہوتی کہ اس پر
وہ ناراض ہوتے۔
¹ماخوذ از کتاب : "جماعت اسلامی کا مقصد،تاریخ اور لائحۂ عمل"۔ یہ کتاب پہلی
مرتبہ نومبر 1951ء میں شائع ہوئی۔ اس لیے اس مضمون کو پڑھتے وقت اس وقت کے
حالات کو سامنے رکھنا چاہیئے۔ (مرتب)
ہماری دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے
ہمارے نزدیک اسلام ان لوگوں کی جائداد نہیں ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں، بلکہ خدا نے یہ نعمت ان سب کے لیے بھیجی ہے جو انسان پیدا ہوئے ہیں۔ خواہ وہ روئے زمین کے کسی خطے میں بستے ہوں۔ اس بنا پر ہمارا مقصد محض مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کی زندگی کو دینِ حق پر قائم کرنا ہے۔ مقصد کی یہ وسعت آپ سےآپ تقاضا کرتی ہے کہ ہماری اپیل عام رہے اور کسی مخصوص قوم کے مفاد کو مدّ نظر رکھ کر کوئی ایسا طرزِ عمل نہ اختیار کیا جائے جو اسلام کی اس عام اپیل کو نقصان پہنچانے والا ہو یا اس کی نقیض واقع ہونا ہو۔ مسلمانوں سے ہم کو دلچسپی اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم ان میں پیدا ہوئے ہیں اور وہ ہماری قوم ہیں بلکہ ان کے ساتھ ہماری دلچسپی کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کو مانتے ہیں، دنیا میں اس کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں، نوعِ انسانی تک اس کا پیغام پہنچانے کے لیے انہی کو ذریعہ بنایا جاسکتا ہے اور دوسروں کے لیے اس پیغام کو مؤثر بنانا اس کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے کہ جو لوگ پہلے سے مسلمان ہیں وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں پورے اسلام کا صحیح نمونہ پیش کریں۔ اس بنا پر ہمارا راستہ ان لوگوں کے راستہ سے ہمیشہ الگ رہا ہے اور آج بھی الگ ہے جنہیں مسلمانوں سے دلچسپی اس لیے ہے کہ وہ ان کی قوم ہیں اور اسلام سے یا تو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے یا ہے تو اس وجہ سے ہو کہ وہ ان کی قوم کا مذہب ہے۔ 30/149
اسلام، مسلم قومیت اور ہم
ہم نے اپنے مقصد کے لحاظ سے اپنی تحریک کو اس طرز پر اٹھایا ہے کہ ایک طرف اس
کی دعوت تمام انسانوں کے لیے عام رہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو اسلام کی مکمل
اور صحیح علمی اور عملی شہادت دینے کے لیے تیار کیا جائے۔ ہم نے کبھی اسلام
اور مسلم قومیت کے فرق اور امتیاز کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا ہے۔ ہم نے
اسلام کے اصول و احکام اور اسلامی دعوت کے مفاد کو ہمیشہ قوم اور قومی مفاد پر
مقدم رکھا ہے اور جہاں کہیں ان دونوں چیزوں میں تناقض واقع ہوا – ہمیں ایک
لمحے کے لیے بھی اسلام کی خاطر قوم او ر اس کے مفاد سے لڑ جانے میں تامل نہیں
ہوا ہے۔ ہم نے مسلمانوں کے قومی تحفظ کے لیے کوشش کی تو اس لیے نہیں کہ دوسری
قوموں کی طرح اس قوم کا بھی امتیازی وجود برقرار رہے بلکہ صرف اس لیے کہ یہ
قوم دنیا میں حق کی شہادت ادا کرنے کے لیے قائم و دائم رہے۔ ہم نے ایک آزاد
مسلم مملکت کا قیام بھی چاہا تو اس غرض سے نہیں کہ روئے زمین پر ایک اور ٹرکی
یا ایک اور مصر یا ایران کا اضافہ ہوجائے بلکہ صرف اس غرض سے کہ ایک خالص
اسلامی ریاست قائم ہو جو اسلامی نظام زندگی کا مکمل نمونہ دنیا کے سامنے پیش
کرے۔ ہماری اس پوزیشن کو وہ لوگ کبھی نہ سمجھ سکے جو اسلام اور مسلم قومیت کو
گڈمڈ کرتے ہیں یا قوم کو دین پر مقدم رکھتے ہیں، یا دین کے بجائے صرف قوم سے
دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے اور ان کے راستے اگر کبھی کہیں ملے بھی تو عارضی طور
پر اس جگہ جہاں اتفاقاً اسلام نے ہمیں اور ان کو جمع کردیا ورنہ اکثر ہمارے
اور ان کے طرز فکر و عمل میں تصادم ہی رہا ۔ اس تصادم کے نتیجے میں ہم کو
بارہا "غداری" کے طعنے بھی سننے پڑے ہیں مگر یہ طعنے ہمارے لیے بے بالکل بے
معنی ہیں۔ ہم وفاداری کا مستحق صرف خدا اور رسول کو سمجھتے ہیں۔ پھر اس کو جو
خدا او رسول کا وفادار ہو۔اس وفاداری سے انحراف تو البتہ ہمارے نزدیک دنیا و
آخرت میں لعنت کا موجب ہے۔ لیکن اگر اس وفاداری میں ہم ثابت قدم ہوں تو پھر
دوسری جس چیز کا بھی ہمیں غدار ٹھیرایا جائے وہ ہمارے لیے باعثِ شرم نہیں بلکہ
باعث فخر ہے۔
ہمارا تصوّرِ دین
"دین حق" اور" اقامتِ دین" کے تصور میں بھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ ہم دین کو محض پوجا پاٹ اور چند مخصوص مذہبی عقائد و رسوم کا مجموعہ نہیں سمجھتے، بلکہ ہمارے نزدیک یہ لفظ طریقِ زندگی اور نظامِ حیات کا ہم معنی ہے اور اس کا دائرہ انسانی زندگی کے سارے پہلوؤں اور تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ زندگی کو الگ الگ حصوں میں بانٹ کر الگ الگ اسکیموں کے تحت چلایا جاسکتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ31/149 اس طرح کی تقسیم اگر کی بھی جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی، کیونکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلو، انسانی جسم کے اعضاء کی طرح، ایک دوسرے سے ممیّز ہونے کے باوجود آپس میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ وہ سب مل کر ایک کل بن جاتے ہیں اور ان کے اندر ایک ہی روح جاری و ساری ہوتی ہے۔یہ روح اگر خدا اور آخرت سے بے نیازی اور تعلیمِ انبیاء سے بے تعلقی کی روح ہو تو پوری زندگی کا نظام ایک دینِ باطل بن کر رہتا ہے اور اس کے ساتھ خدا پرستانہ مذہب کا ضمیمہ اگر لگا کا رکھا بھی جائے تو مجموعی نظام کی فطرت بتدریج اس کو مضمحل کرتے کرتے آخر کار بالکل محو کردیتی ہے اور اگر یہ روح خدا اور آخرت پر ایمان اور تعلیمِ انبیاء کے اتباع کی روح ہو تو اس سے زندگی کا پورا نظام ایک دینِ حق بن جاتا ہےجس کے حدود عمل میں ناخداشناسی کا فتنہ اگر کہیں رہ بھی جائے تو زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتا۔اس لیے ہم جب "اقامتِ دین" کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کردینا نہیں ہوتا بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد، کالج اور منڈی، تھانے اور چھاؤنی، ہائیکورٹ اور پارلیمنٹ، ایوانِ وزارت اور سفارت خانے سب پر اس ہی ایک خدا کا دین قائم کیا جائے جس کو ہم نے اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ہے اور سب کا انتظام اسی ایک رسول کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے جسے ہم اپنا ہادی برحق مان چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیئے۔ اپنی زندگی کے کسی پہلو کو بھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے۔ شیطان یا قیصر کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
مذہب اور سیاست کی یکجائی
ہماری ان باتوں پر وہ سب لوگ برہم ہیں جنہوں نے مذہب کا ایک محدود تصور اختیار
کر رکھا ہے جو تفریقِ دین و دنیا اور امتیاز مذہب و سیاست کے قائل ہیں جن کے
نزدیک خدا اور قیصر کے درمیان تقسیم ہوسکتی اور ہونی چاہیئے اور جن کی نگاہ
میں خدا پرستی کا دین،بے خدا تمدن و سیاست کےساتھ زندگی کا بٹوارہ قبول کرسکتا
ہے اور صرف مسجد و خانقاہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر باقی سب کچھ اپنے حریف کے
لیے چھوڑ سکتا ہے۔ یہ لوگ ہم پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ تم مذہب کی تبلیغ کرو۔ سیاست میں کیوں دخل دیتے ہو؟ مگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ " جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"۔ اب کیا یہ لوگ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست پر چنگیزی مسلّط رہے اور ہم مسجد میں "مذہب " کی تبلیغ کرتے رہیں؟ اور آخر وہ مذہب کونسا ہے جس کی تبلیغ کے لیے وہ ہم سے کہہ رہے ہیں؟ اگر وہ پادریوں والا مذہب ہے جو سیاست میں دخل نہیں دیتا تو ہم اس پر ایمان نہیں رکھتے اور اگر وہ قرآن و حدیث کا مذہب32/149 ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں تو وہ سیاست میں محض دخل ہی نہیں دیتا بلکہ اس کو اپنا ایک جُز بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ تم پہلے مذہبی لوگ تھے اب سیاسی گروہ بن گئے ہو۔ حالانکہ ہم
پر کبھی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا ہے جب ہم غیر سیاسی مذہب کے لحاظ سے "مذہبی
" رہے ہوں اور آج خدا کی لعنت ہو ہم پر اگر ہم غیر مذہبی سیاست کے لحاظ سے
"سیاسی " بن گئے ہوں۔ ہم تو "اسلام" کے پیرو ہیں اور اسی کو قائم کرنا چاہتے
ہیں۔ وہ جتنا "مذہبی" ہے اتنے ہی ہم مذہبی ہیں اور ابتدا سے تھے۔ تم نے نہ کل
ہمیں سمجھا تھا جب کہ ہم کو "مذہبی" گروہ قرار دیا۔ نہ آج سمجھا ہے جب کہ
ہمارا نام "سیاسی جماعت" رکھا۔ سیاست اور مذہب میں تمہارا استاد یورپ ہے۔ اس
لیے نہ تم نے اسلام کو سمجھا اور نہ ہمیں۔
کوئی کہتا ہے کہ خدا تو صرف معبود ہے۔ تم نے یہ سیاسی حاکمیت اس کے لیے کہاں سے ثابت کردی؟ اور اس پر غضب یہ ہے کہ تم اس حاکمیت کو اللہ کے لیے مخصوص کرتے ہو اور انسانی حاکمیت کے منکر ہو۔ یہ تو خالص خارجیت ہے کیونکہ تمہاری طرح خارجی بھی یہی کہتے ہیں کہ "ان الحکم الاّ للہ" ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی رُو سے خدا کا حق صرف عبادت و پرستش ہی نہیں ہے بلکہ طاعت و عبدیت بھی ہے۔ ان میں سے جس حق میں بھی خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا جائے گا شرک ہوگا، بندوں میں سے کسی کی اطاعت اگر کی جاسکتی ہے تو صرف خدا کے اِذنِ شرعی کی بنا پر کی جاسکتی ہے اور وہ بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر۔ رہا خدا سے بے نیاز ہوکر مستقل بالذات مطاع ہونا تو وہ رسول کا حق بھی نہیں ہے کجا کہ کسی انسانی ریاست یا سیاسی و تمدنی ادارے کا حق ہو۔ جس قانون ، عدالت اور حکومت میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو سند نہ مانا جائے، جس کا بنیادی اصول یہ ہو کہ اجتماعی زندگی کے جملہ معاملات میں اصول اور فروع تجویز کرنا انسانوں کا اپنا کام ہے اور جس میں قانون ساز مجلسیں خدائی احکام کی طرف رجوع کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہ تسلیم کرتی ہوں اور عملاً ان کے خلاف قوانین بناتی ہوں۔ اس کی اطاعت کا لزوم تو درکنار جواز تک کاکوئی ثبوت قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے۔اس بلا کو زیادہ سے زیادہ صرف برداشت کیا جاسکتا ہے جب کہ انسان اس کے پنجۂ اقتدار میں گرفتار ہوجائے۔ مگر جو شخص ایسی حکومتوں کے حقِ فرمانروائی کو تسلیم کرتا ہے اور اس بات کو ایک اصولِ برحق کی حیثیت سے مانتا ہے کہ خدائی ہدایت کو چھوڑ کر انسان بطور خود اپنے تمدن،سیاست اور معیشت کے اصول و قوانین وضع کرلینے کے مجاز ہیں وہ اگر خدا کو مانتا ہے تو شرک میں مبتلا ہے ورنہ زندقہ میں۔ہمارے اس مسلک کو "خارجیت" سے تعبیر کرنا مذہب اہلِ سنت اور مذہب خوارج دونوں سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔علماءاہل ِسنت کی لکھی ہوئی کتب اصول میں سے جس کو چاہے اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ اس میں یہی لکھا ملے گا کہ حکم دینے کا حق اللہ کے لیے خاص ہے۔ مثال کے طور پر علامہ آمدی اپنی کتاب الاحکام فی اصول الاحکام میں لکھتے ہیں: اعلم انہ لا حاکم سوی اللہ ولا33/149 حکم الا ما حکم بہ (جان لو کہ حاکم اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے اور حکم صرف وہ ہے جو اللہ نے دیا) اور شیخ محمد خضری اپنی اصول الفقہ میں کہتے ہیں : ان الحکم ھو خطاب اللہ فلا حکم الّا لہ و ھذہ قضیۃ اتفق علیھا المسلمون قاطیۃ۔ (درحقیقت حکم اللہ کے فرمان کا نام ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکم دینے کا حق اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس پر تمام مسلمان متفق ہیں) یہ صرف دو "خارجیوں" کے اقوال ہم نے بطور مثال نقل کردیے ہیں۔ اس طرح کے "خوارج" کی آپ جس قدر چاہیں طویل فہرست دی جاسکتی ہے۔
اسلامی حکومت
کچھ اور لوگ ہیں جو چندرا چندرا کر پوچھتے ہیں کہ یہ حکومت الہیہ یا اسلامی
حکومت کا قیام کس نبی کی دعوت کا مقصود رہا ہے؟ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ قرآن
اور توراۃ میں عقائد و عبادات کے ساتھ دیوانی اور فوجداری قوانین اور صلح و
جنگ کے احکام اور معیشت و معاشرت کے قواعد و ضوابط اور سیاسی تنظیم کے اصول
بیان ہوئے ہیں کیا یہ سب محض تفنّنِ طبع کے لیے ہیں؟ کیا یہ آپ کے اختیار
تمیزی پر چھوڑا گیا ہے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات میں سے جس چیز کو چاہیں جُزوِ
دین مانیں اور جسے چاہیں غیر ضروری زوائد میں شمار کریں؟ کیا انبیاء بنی
اسرائیل علیہم السلام اور خاتم النبیّین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سیاسی
نظام قائم کئے وہ ان کی پیغمبرانہ دعوت کے مقاصد میں سے نہ تھے؟ محض اتفاقات
سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اپنا شوقِ فرمانروائی پورا کیا تھا؟ کیا دنیا میں
کوئی قانون اس لیے بنایا جاتا ہے کہ صرف اس کی تلاوت کرلی جائے، اس کا نفاذ
سرے سے مقصود ہی نہ ہو؟ کیا واقعی ایمان اسی چیز کا نام ہے کہ ہم روز اپنی
نمازوں میں کتاب اللہ کی وہ آیات پڑھیں جن میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق
اصول اور احکام بیان ہوئے ہیں اور رات دن ہماری زندگی کے اکثر و بیشتر معاملات
ان کے خلاف چلتے رہیں۔
مسلک
خدا کی بندگی جس پر ہم پورے نظامِ زندگی کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بارے میں بھی ہمارا ایک واضح مسلک ہے اور وہ مختلف گروہوں کو مختلف وجوہ سے پسند نہیں آتا۔ ہمارے نزدیک ہر شخص اس کا مختار نہیں ہے کہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جس طرح چاہے خدا کی بندگی کرے بلکہ اس کی ایک ہی صحیح صورت ہے اور وہ اس شریعت کی پابندی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔ اس شریعت کے معاملےمیں کسی مسلمان کے اس حق کو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ وہ شریعت کی جن باتوں کو چاہے قبول کرے اور جن باتوں کو چاہے ردّ کردے بلکہ ہم اسلام کے معنی ہی34/149 اطاعتِ حکمِ خداوندی اور اتّباعِ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے ہیں۔ شریعت کے علم کا ذریعہ ہمارے نزدیک صرف قرآن پاک نہیں ہے بلکہ حدیثِ رسول بھی ہے اور قرآن و حدیث سے استدلال کا صحیح طریقہ ہمارے نزدیک یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے نظریات پر خدا اور رسول کی ہدایات کو ڈھالے بلکہ یہ ہے کہ آدمی اپنے نظریات کو خدا اور رسول کی ہدایات پر ڈھالے۔ پھر ہم نہ تو تقلیدِ جامد کے قائل ہیں جس میں اجتہاد کی جگہ نہ ہو اور نہ ایسے اجتہاد کے قائل ہیں کہ ہر بعد کی نسل اپنے سے پہلے کی نسلوں کے سارے کام پر پانی پھیردے اور بالکل نئے سرے سے ساری عمارت اٹھانے کی کوشش کرے۔
اس مسلک کا ہر جزو ایسا ہے جس سے ہماری قوم کا کوئی نہ کوئی گروہ ہم سے ناراض
ہے۔ کوئی سرے سے خدا کی بندگی کا قائل ہی نہیں ہے۔کوئی شریعت سے بے نیاز ہوکر
اپنی صوابدید کے مطابق خدا کی بندگی کرنا چاہتا ہے۔ کوئی شریعت میں اپنا
اختیار چلانا چاہتا ہے اور اس کامطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ اسے پسند ہے وہ اس
شریعت میں رہے اور جو اسے پسند نہیں ہے وہ شریعت سے خارج ہوجائے۔ کوئی قرآن و
حدیث سے قطع نظر کرکے اپنے من گھڑت اصولوں کا نام اسلام رکھے ہوئے ہے کوئی
حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن کو مانتا ہے کوئی اصول اور نظریات کہیں باہر سے لے
آیا ہے یا اپنے دل سے گھڑ کر لایا ہے اور پھر زبردستی قرآن و حدیث کے ارشادات
کو ان پر ڈھالنے کی کوشش کررہا ہے۔ کسی کو تقلیدِ جامد پر اصرار ہے اور کوئی
تمام ائمہ کے کارناموں کو دریا بُرد کرکے نیا اجتہاد کرنا چاہتا ہے۔
دعوت اسلامی کی فکری بُنیادیں
o دعوت اسلامی کی اساسات
o دعوت اسلامی کے تین نکات
بنیادی انسانی اخلاقیات [1]
بنیادی انسانی اخلاقیات سے مراد وہ اوصاف ہیں جن پر انسان کے اخلاقی وجود کی اساس قائم ہے۔ ان میں وہ تمام صفات35/149 شامل ہیں جو دنیا میں انسان کی کامیابی کے لیے بہرحال شرطِ لازم ہیں خواہ وہ صحیح مقصد کے لیے کام کررہا ہو یا غلط مقصد کے لیے۔ ان اخلاقیات میں اس سوال کا کوئی دخل نہیں ہے کہ آدمی خدا اور وحی اور رسول اور آخرت کو مانتا ے یا نہیں، طہارتِ نفس اور نیتِ خیر اور عملِ صالح سے آراستہ ہے یا نہیں، اچھے مقصد کے لیے کام کررہا ہے یا برے مقصد کے لیے، قطع نظر اس سے کہ کسی میں ایمان ہو یا نہ ہو، اور اس کی زندگی پاک ہو یا ناپاک، اس کی سعی کا مقصد اچھا ہو یا برا، جو شخص اور جو گروہ بھی اپنے اندر وہ اوصاف رکھتا ہوگا جو دنیا میں کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں وہ یقیناً کامیاب ہوگا اور ان لوگوں سے بازی لے جائے گا جو ان اوصاف کے لحاظ سے اس کے مقابلے میں ناقص ہوں گے۔
مومن ہو یا کافر، نیک ہو یا بد، مصلح ہو یا مفسد، غرض جو بھی ہو، وہ اگر کارگر
انسان ہوسکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ اس کے اندر ارادے کی طاقت اور
فیصلے کی قوت ہو، عزم اور حوصلہ،صبر و ثبات اور استقلال ہو، تحمّل اور برداشت
ہو، ہمّت اور شجاعت ہو، مستعدی اور جفاکشی ہو، اپنے مقصد کا عشق اور اس کے لیے
ہر چیز قربان کردینے کا بل بوتا ہو، حزم و احتیاط اور معاملہ فہمی و تدبّر ہو،
حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی
قابلیت ہو ، اپنے جذبات و خواہشات اور ہیجانات پر قابو ہو، اور دوسرے انسانوں
کو موہنے اور ان کے دل میں جگہ پیدا کرنے اور ان سے کام لینے کی صلاحیت ہو۔
پھر ناگزیر ہے کہ اسکے اندر وہ شریفانہ خصائل بھی کچھ نہ کچھ موجود ہوں جو فی
الحقیقت جوہر آدمیت ہیں اور جن کی بدولت آدمی کا وقار و اعتبار دنیا میں قائم
ہوتا ہے۔ مثلاً خود داری، فیاضی، رحم، ہمدردی، انصاف، وسعتِ قلب و نظر،سچائی،
امانت، راستبازی، پاسِ عہد، معقولیت، اعتدال، شائستگی، طہارت و نظافت اور ذہن
و نفس کا انضباط۔
یہ اوصاف اگر کسی قوم یا گروہ کے بیشتر افراد میں موجود ہوں تو گویا یوں سمجھیے کہ اس کے پاس وہ سرمایۂ انسانیت موجود ہے جس سے ایک طاقتور اجتماعیت وجود میں آسکتی ہے۔ لیکن یہ سرمایہ مجتمع ہوکر بالفعل ایک مضبوط و مستحکم اور کارگر اجتماعی طاقت نہیں بن سکتا جب تک کہ کچھ دوسرے اخلاقی اوصاف بھی اس کی مدد پر نہ آئیں۔مثلاً تمام یا بیشتر افرادکسی اجتماعی نصب العین پر متفق ہوں اور اس نصب العین کو اپنی انفرادی اغراض ، بلکہ اپنی جان، مال اور اولاد سے بھی عزیز تر رکھیں۔ ان کے اندر آپس کی محبت اور ہمدردی ہو۔ انہیں مل کر کام کرنا آتا ہو۔ وہ اپنی خودی و نفسانیت کو کم از کم اس حد تک قربان کرسکیں جو منظم سعی کے لیے ناگزیر ہے۔وہ صحیح و غلط رہنماء میں تمیز کرسکتے ہوں اور موزوں آدمیوں ہی کو اپنا رہنما بنائیں۔ ان کے رہنماؤں میں اخلاص اور حسنِ تدبیر اور رہنمائی کی دوسری ضروری صفات موجود ہوں۔ اور خود قوم یا جماعت بھی اپنے رہنماؤں کی اطاعت کرنا جانتی ہو، ان پر اعتماد رکھتی ہو، اور اپنے تمام ذہنی، جسمانی اور مادّی ذرائع36/149 ان کے تصرّف میں دے دینے پر تیار ہو۔ نیزپوری قوم کے اندر ایسی زندہ اور حسّاس رائے عام پائی جاتی ہو جو کسی ایسی چیز کو اپنے اندر پنپنے نہ دے جو اجتماعی فلاح کے لیے نقصان دہ ہو۔
یہ ہیں وہ اخلاقیات جن کو میں "بنیادی اخلاقیات" کے لفظ سے تعبیر کرتا ہوں۔
کیونکہ فی الواقع یہی اخلاقی اوصاف انسان کی اخلاقی طاقت کا اصل منبع ہیں اور
انسان کسی مقصد کے لیے بھی دنیا میں کامیاب سعی نہیں کرسکتا جب تک ان اوصاف کا
زور اس کے اندر موجود نہ ہو۔ ان اخلاقیات کی مثال ایسی ہے جیسے فولاد کہ وہ
اپنی ذات میں مضبوطی و استحکام رکھتا ہے اور اگرکوئی کارگر ہتھیار بن سکتا ہے
تو اسی سے بن سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ غلط مقصد کے لیے استعمال ہو یا
صحیح مقصد کے لیے۔ آپ کے پیشِ نظر صحیح مقصد ہو تب بھی آپ کے لیے مفید وہی
ہتھیار ہوسکتا ہے جو فولاد سے بنا ہو نہ کہ سڑی گلی پھس پھسی لکڑی سے جو ایک
ذرا سے بوجھ اور معمولی سی چوٹ کی بھی تاب نہ لاسکتی ہو۔ یہی وہ بات ہے جسے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ " خیارکم فی
الجاھلیۃ خیارکم فی الاسلام"۔ "تم میں جو لوگ جاہلیت میں اچّھے تھے وہی اسلام
میں اچھے ہیں"۔ یعنی زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ اپنے اندر جوہر قابل رکھتے تھے
وہی زمانۂاسلام میں مردان کار ثابت ہوئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی قابلیتیں
پہلے غلط راہوں میں صرف ہورہی تھیں اور اسلام نے آکر انہیں صحیح راہ پر لگا
دیا۔ مگر بہرحال ناکارہ انسان نہ جاہلیت کے کسی کام کے تھے نہ اسلام کے،نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور جس کے اثرات
تھوڑی ہی مدت گزرنے کے بعد دریائے سندھ سے لے کر اٹلانٹک کے ساحل تک دنیا کے
ایک بڑے حصے نے محسوس کرلیے، اس کی وجہ یہی تو تھی کہ آپ کو عرب میں بہترین
انسانی مواد مل گیا تھا جس کے اندر کیرکٹر کی زبردست طاقت موجود تھی۔ اگر
خدانخواستہ آپ کو بودے، کم ہمت، ضعیف الارادہ اور ناقابل اعتماد لوگوں کی بھیڑ
مل جاتی تو پھر بھی وہ نتائج نکل سکتے تھے؟
اسلامی اخلاقیات
اب اخلاقیات کے دوسرے شعبے کو لیجیے جسے میں "اسلامی اخلاقیات" کے لفظ سے
تعبیر کررہا ہوں۔ یہ بنیادی انسانی اخلاقیات سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اسی
کی تصحیح اور تکمیل ہے۔
اسلام کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی اخلاقیات کو ایک صحیح مرکز و محور مہیا کردیتا ہے جس سے وابستہ ہوکر وہ سراپا خیر بن جاتے ہیں۔ اپنی ابتدائی صورت میں تو یہ اخلاقیات مجرد ایک قوت ہیں جو خیر بھی ہوسکتی ہے اور شر بھی۔ جس طرح تلوار کا حال ہے کہ بس وہ ایک کاٹ ہے جو ڈاکو کے ہاتھ میں جاکر آلۂ ظلم بھی بن سکتی ہے اور مجاہد فی سبیل اللہ کے ہاتھ37/149 میں جاکر وسیلۂ خیر بھی، اسی طرح ان اخلاقیات کا بھی کسی شخص یا گروہ میں ہونا بجائے خود خیر نہیں ہے بلکہ اس کا خیر ہونا موقوف ہے اس امر پر کہ یہ قوت صحیح راہ میں صرف ہو۔ اور اس کو صحیح راہ پر لگانے کی خدمت اسلام انجام دیتا ہے۔ اسلام کی دعوت توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں انسان کی تمام کوششوں اور محنتوں اور اس کی دوڑ دھوپ کا مقصد وحید اللہ تعالی کی رضا کا حصول ہو۔
والیک نسعٰی ونحفد[2] اور اس
کا پورا دائرۂ فکر و عمل ان حدود سے محدود ہوجائے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر
کردی ہیں۔ ایاک نعبد ولک نصلی ونسجد [3] اس اساسی اصلاح کا نتیجہ
یہ ہے کہ وہ تمام بنیادی اخلاقیات جن کا ابھی میں نے آپ سے ذکر کیا ہے صحیح
راہ پر لگ جائے اور وہ قوت جو ان اخلاقیات کی موجودگی سے پیدا ہوتی ہے، بجائے
اس کے کہ نفس یا خاندان یا قوم یا ملک کی سربلندی پر ہر ممکن طریقے سے صرف ہو۔
خالص حق کی سربلندی پر صرف جائز طریقوں ہی سے صرف ہونے لگتی ہے۔ یہی چیز اس کو
ایک مجرد قوت کے مرتبے سے اٹھا کر ایجاباً ایک بھلائی اور دنیا کے لیے ایک
رحمت بنادیتی ہے۔
دوسرا کام جو اخلاق کے باب میں اسلام کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی اخلاقیات کو مستحکم بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر صبر کو لیجیے۔ بڑے سے بڑے صابر آدمی میں بھی جو صبر دنیوی اغراض کے لیے ہو اور جسے شرک یا مادّہ پرستی کی فکری جڑوں سے غذا مل رہی ہو، اس کی برداشت اور اس کے ثبات و قرار کی بس ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد وہ گھبرا اٹھتا ہے،۔ لیکن جس صبر کو توحید کی جڑ سے غذا ملے اور جو دنیا کے لیے نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کے لیے ہو، وہ تحمل و برداشت اور پامردی کا ایک اتھاہ خزانہ ہوتا ہے جسے دنیا کی تمام ممکن مشکلات مل کر بھی لوٹ نہیں سکتیں۔پھر غیر مسلم کا صبر نہایت محدود نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ابھی تو گولوں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں نہایت استقلال کے ساتھ ڈٹا ہوا تھا اور ابھی جو جذباتِ شہوانی کی تسکین کا کوئی موقع سامنے آیا تو نفسِ امارہ کی ایک معمولی تحریک کے مقابلے میں بھی نہ ٹھرسکا۔ لیکن اسلام صبر کو انسان کی پوری زندگی میں پھیلادیتا ہے اور اسے صرف چند مخصوص قسم کے خطرات، مصائب اور مشکلات ہی کے مقابلے میں نہیں بلکہ ہر اس خوف، ہر اس اندیشے اور ہر اس خواہش کے مقابلے میں ٹھیراؤ کی ایک زبردست طاقت بنادیتا ہے جو آدمی کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کرے۔ درحقیقت اسلام مومن کی پوری زندگی کو ایک صابرانہ زندگی بنادیتا ہے جس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ عمر بھر صحیح طرز عمل پر قائم رہو خواہ اس میں کتنےہی خطرات و نقصانات اور مشکلات ہوں اور اس دنیا کی زندگی میں اس کا کوئی مفید نتیجہ نکلتا نظر نہ آئے اور کبھی فکر و عمل کی برائی اختیار نہ کرو خواہ فائدوں اور امیدوں کا کیسا ہی خوشنما سبز باغ تمہارے سامنے لہلہارہا ہو۔ یہ آخرت کے قطعی نتائج کی توقع پر دنیا کی ساری زندگی میں بدی سے رکنا اور خیر کی راہ پر جم کر چلنا اسلامی صبر ہے اور38/149 اس کا ظہور لازماً ان شکلوں میں بھی ہوتا ہے جو بہت محدود پیمانے پر کفار کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔ اسی مثال پر دوسرے تمام بنیادی اخلاقیات کو بھی آپ قیاس کرسکتے ہیں۔ کفار کی زندگی میں صحیح فکری بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ ضعیف اور محدود ہوتے ہیں اور اسلام ان سب کو ایک صحیح بنیاد دے کر محکم بھی کرتا ہے اور وسیع بھی کردیتا ہے۔
اسلام کا تیسرا کام یہ ہے کہ وہ بنیادی اخلاقیات کی ابتدائی منزل پر اخلاق
فاضلہ کی ایک نہایت شاندار بالائی منزل تعمیر کرتا ہے جسکی بدولت انسان اپنے
شرف کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ اس کے نفس کو خود غرضی سے،
نفسانیت سے، ظلم سے، بیحیائی اور خلاعت و بےقیدی سے پاک کردیتا ہے۔ اس میں
خداترسی، تقويٰ و پرہیزگاری اور حق پرستی پیدا کرتا ہے۔ اس کے اندر اخلاقی ذمہ
داریوں کا شعور و احساس ابھارتا ہے۔ اس کو ضبطِ نفس کا خوگر بناتا ہے۔ اسے
تمام مخلوقات کے لیے کریم، فیاض، رحیم، ہمدرد، امین، بےغرض خیر خواہ، بے لوث
منصف، اور ہرحال میں صادق و راست باز بنادیتا ہے اور اس میں ایک ایسی بلند
پایہ سیرت پرورش کرتا ہے جس سے ہمیشہ صرف بھلائی ہی متوقع ہو اور برائی کا
کوئی اندیشہ نہ ہو۔ پھر اسلام آدمی کو محض نیک ہی بنانے پر اکتفا نہیں کرتا
بلکہ حدیثِ رسول کے الفاظ میں وہ اسے مِفتاح للخیر مِغلاق للشر (بھلائی کا
دروازہ کھولنے والا اور برائی کا دروازہ بند کرنے والا) بناتا ہے، یعنی وہ
ایجاباً یہ مشن اس کے سپرد کرتا ہے کہ دنیا میں بھلائی پھیلائے اور برائی کو
روکے۔ اس سیرت و اخلاق میں فطرتاً وہ حسن ہے، وہ کشش ہے، وہ بلا کی قوتِ تسخیر
ہے کہ اگر کوئی منظم جماعت اس سیرت کی حامل ہو اور عملاً اپنے اس مشن کے لیے
کام بھی کرے جو اسلام نے اس کے سپرد کیا ہے تو اس کی جہانگیری کا مقابلہ کرنا
دنیا کی کسی قوت کے بس کا کام نہیں ہے۔
امامت کے بارے میں اللہ کی سنت
اب میں چند الفاظ میں اس سنت اللہ کو بیان کیے دیتا ہوں جو امامت کے باب میں
ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور جب تک نوع انسانی اپنی موجودہ فطرت پر زندہ ہے
اس وقت تک برابر جاری رہے گی اور وہ یہ ہے:
اگر دنیا میں کوئی منظم انسانی گروہ ایسا موجود ہو جو اسلامی اخلاقیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات دونوں سے آراستہ ہو اور پھر مادی اسباب و وسائل بھی استعمال کرے تو دنیا کی امامت و قیادت لازماً کسی ایسے گروہ کے قبضے میں دے دی جاتی ہے جو اسلامی اخلاقیات سے چاہے بالکل ہی عاری ہو لیکن بنیادی انسانی اخلاقیات اور مادی اسباب و وسائل کے اعتبار سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بڑھا ہوا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہرحال اپنی دنیا کا انتظام چاہتا ہے اور انتظام اسی گروہ کے سپرد کیا جاتا ہے جو موجود الوقت گروہوں میں اہل تر ہو۔ 39/149
لیکن اگر کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو اسلامی اخلاقیات اور بنیادی انسانی
اخلاقیات دونوں میں باقی ماندہ انسانی دنیا پر فضیلت رکھتاہو، اور وہ مادی
اسباب و وسائل کے استعمال میں بھی کوتاہی نہ کرے، تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے
کہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا گروہ دنیا کی امامت و قیادت پر قابض رہ سکے۔
ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے، اللہ کی اس سنت کے خلاف ہے جو انسانوں کے معاملے
میں اس نے مقرر کررکھی ہے، ان وعدوں کے خلاف ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں
مومنین صالحین سے کیے ہیں اور اللہ ہرگز فساد پسند نہیں کرتا کہ اس کی دنیا
میں ایک صالح گروہ انتظامِ عالم کو ٹھیک ٹھیک اس کی رضا کے مطابق درست رکھنے
والا موجود ہو اور پھر بھی وہ مفسدوں ہی کے ہاتھ میں اس انتظام کی باگ ڈور
رہنے دے۔
مگر یہ خیال رہے کہ اس نتیجے کا ظہور صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ ایک جماعت
صالحہ ان اوصاف کی موجود ہو۔ کسی ایک صالح فرد، یا متفرق طور پر بہت سے صالح
افراد اپنی جگہ کیسے ہی زبردست اولیاء اللہ بلکہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ
نے استخلاف فی الارض کے متعلق جتنے وعدے بھی کیے ہیں ، منتشر و متفرق افراد سے
نہیں، بلکہ ایک ایسی جمعت سے کیے ہیں جو دنیا میں اپنے آپ کو عملاً "خيرِ امت"
اور "امت وسط" ثابت کردے۔
نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسے ایک گروہ کے محض وجود میں آجانے ہی سے نظام
امامت میں تغیر واقع نہ ہوجائے گا ادھر وہ بنے اور ادھر اچانک آسمان سے کچھ
فرشتے اتریں اور فساق و فجار کو اقتدار کی گدی سے ہٹا کر انہیں مسند نشین
کردیں، بلکہ اس جماعت کو کفر و فسق کی طاقتوں سے زندگی کے ہر میدان میں، ہر ہر
قدم پر کشمکش اور مجاہدہ کرنا ہوگا اور اقامت حق کی راہ میں ہر قسم کی
قربانیاں دے کر اپنی محبت حق اور اپنی اہلیت کا ثبوت دینا پڑے گا۔ یہ ایسی شرط
ہے جس سے انبیاء تک مستثنیٰ نہ رکھے گئے، کجا کہ آج کوئی اس سے مستثنیٰ ہونے
کی توقع کرے۔
بنیادی انسانی اخلاقیات اور اسلامی اخلاقیات کی طاقت کا فرق
مادّی طاقت اور اخلاقی طاقت کے تناسب کے باب میں قرآن اور تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو سنت اللہ میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں اخلاقی طاقت کا سارا انحصار صرف بنیادی انسانی اخلاقیات پر ہو، وہاں مادی وسائل بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ حتٰی کہ اس امر کا بھی امکان ہے کہ اگر ایک گروہ کے پاس مادی وسائل کی طاقت بہت زیادہ ہو تو وہ تھوڑی اخلاقی طاقت سے بھی دنیا پر چھا جاتا ہے اور دوسرے گروہ اخلاقی طاقت میں فائق تر ہونے کے باوجود محض وسائل کی کمی کے باعث دبے رہتے ہیں۔ لیکن جہاں اخلاقی طاقت میں اسلامی اور بنیادی دونوں قسم کے اخلاقیات کا پورا زور شامل ہو وہاں مادی40/149 وسائل کی انتہائی کمی کے باوجود اخلاق کو آخر کار ان تمام طاقتوں پر غلبہ حاصل ہوکر رہتا ہے جو مجرد بنیادی اخلاقیات اور مادی سروسامان کے بل بوتے پر اٹھی ہوں۔ اس نسبت کو یوںسمجھیے کہ بنیادی اخلاقیات کے ساتھ اگر سو درجےمادی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اسلامی اور بنیادی اخلاقیات کی مجموعی قوت کے ساتھ صرف 25 درجے مادی طاقت کافی ہوجاتی ہے، باقی 75 فیصدی قوت کی کمی کو محض اسلامی اخلاق کا زور پورا کردیتا ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ اسلامی اخلاق اگر اس پیمانے کا ہو جو حضور اور آپ کے صحابہ کا تھا تو صرف پانچ فیصدی مادی طاقت سے بھی کام چل جاتا ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف آیت ۭاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ href="#_ftn4" name="_ftnref4" title="">[4] میں اشارہ کیا گيا ہے۔
یہ آخری بات جو میں نے عرض کی ہے اسے محض خوش عقیدگی پر محمول نہ کیجیے، اور
نہ یہ گمان کیجیے کہ میں کسی معجزے و کرامت کا آپ سے ذکر کررہا ہوں۔ نہیں یہ
بالکل فطری حقیقت ہے جو اسی عالمِ اسباب میں قانونِ علت و معلول کے تحت پیش
آتی ہے اور ہر وقت رونما ہو سکتی ہے اگر اسکی علت موجود ہو۔ میں مناسب سمجھتا
ہوں کہ آگے بڑھنے سے پہلے چند الفاظ میں اس کی تشریح کردوں کہ اسلامی اخلاقیات
سے جن میں بنیادی اخلاقیات خود بخود شامل ہیں، مادی اسباب کی 75 فی صدی بلکہ
95 فی صدی تک کمی پوری ہو جاتی ہے۔
اس چیز کو سمجھنے کے لیےآپ ذرا خود اپنے زمانے ہی کی بین الاقوامی صورت حال پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھیے۔ ابھی آپ کے سامنے وہ فسادِ عظیم جو آاج سے ساڑھے پانچ سال پہلے شروع ہوا تھا href="#_ftn5" name="_ftnref5" title="">[5] جرمنی کی شکست پر ختم ہوا ہے اور جاپان کی شکست بھی قریب نظر آرہی ہے۔ جہاں تک بنیادی اخلاقیات کا تعلق ہے ان کے اعتبار سے اس فساد کے دونوں فریق تقریباً مساوی ہیں، بلکہ بعض پہلوؤں سے جرمنی اور جاپان نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ زبردست اخلاقی طاقت کا ثبوت دیا ہے۔ جہاں تک علومِ طبیعی اور ان کے عملی استعمال کا تعلق ہے اس میں بھی دونوں فریق برابر ہیں، بلکہ اس معاملے میں کم از کم جرمنی کی فوقیت تو کسی سے مخفی نہیں ہے، مگر صرف ایک چیز ہے جس میں ایک فریق دوسرے فریق سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے اور وہ ہے مادی اسباب کی موافقت۔ ا س کے پاس آدمی اپنے دونوں حریفوں (جرمنی و جاپان) سے کئی گنے زیادہ ہیں۔ اس کو مادی وسائل ان کی نسبت بدرجہا زیادہ حاصل ہیں، اس کی جغرافی پوزیشن ان سے بہتر ہے۔ اور اس کو تاریخی اسباب نے ان کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر حالات فراہم کردئے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کو فتح نصیب ہوئی ہے اور اسی وجہ سے آج کسی ایسی قوم کے لیے بھی جس کی تعداد کم ہو اور جس کی دسترس میں مادی وسائل کم ہوں، اس امر کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ وہ کثیر التعداد اور کثیر الوسائل قوموں کے مقابلے میں سر اٹھاسکے، خواہ وہ بنیادی اخلاقیات41/149 میں اور طبیعی علوم کے استعمال میں ان سے کچھ بڑھ ہی کیوں نہ جائے۔اس لیے کہ بنیادی اخلاقیات اور طبیعی علوم کے بل پر اٹھنے والی قوم کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یا تو وہ خود اپنی قومیت کی پرستار ہوگی اور دنیا کو اپنے لیے مسخر کرنا چاہے گی، یا پھر وہ کچھ عالمگیر اصولوں کی حامی بن کر اٹھے گی اور دوسری قوموں کو ان کی طرف دعوت د ے گی۔ پہلی صورت میں تو اس کے لیے کامیابی کی کوئی شکل بجز اس کے ہے ہی نہیں کہ وہ مادی طاقت اور وسائل میں دوسروں سے فائق تر ہو۔ کیونکہ وہ تمام قومیں جن پر اس کی اس حرصِ اقتدار کی زد پڑ رہی ہوگی، انتہائی غصہ و نفرت ساتھ اس کی مزاحمت کریں گی اور اس کا راستہ روکنے میں اپنی حد تک کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گی۔ رہی دوسری صورت تو اس میں بلاشبہ اس کا امکان تو ضرور ہے کہ قوموں کے دل و دماغ خودبخود اس کی اصولی دعوت سے مسخر ہوتے چلے جائیں اور اسے مزاحمتوں کو راستے سے ہٹانے میں بہت تھوڑی قوت استعمال کرنی پڑے، لیکن یہ یاد رہنا چاہیے کہ دل صرف چند خوش آئند اصولوں ہی سے مسخر نہیں ہوجایا کرتے بلکہ انہیں مسخر کرنے کے لیے وہ حقیقی خیر خواہی، نیک نیتی، راست بازی، بے غرضی، فراخدلی، فیاضی، ہمدردی اور شرافت و عدالت درکار ہے جو جنگ اور صلح ، فتح اور شکست، دوستی اور دشمنی، تمام حالات کی کڑی آزمائشوں میں کھری اور بے لوث ثابت ہو۔ اور یہ چیز اخلاق فاضلہ کی اس بلند منزل سے تعلق رکھتی ہے جس کا مقام بنیادی اخلاقیات سے بہت برتر ہے۔ یہی وجہ ہے مجرد بنیادی اخلاقیات اور مادی طاقت کے بل پر اٹھنے والے خواہ کھلے قوم پرست ہوں یا پوشیدہ قوم پرستی کے ساتھ کچھ عالمگیر اصولوں کی دعوت وحمایت کا ڈھونگ رچائیں، آخرکا ر ان کی ساری جدوجہد اور کشمکش خالص شخصی یا طبقاتی یا قومی خود غرضی ہی پر آٹھیرتی ہے، جیسا کہ آج آپ امریکہ، برطانیہ اور روس کی سیاستِ خارجیہ میں نمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایسی کشمکش میں یہ ایک بالکل فطری امر ہے کہ ہر قوم دوسری قوم کے مقابلے میں ایک مضبوط چٹان بن کر کھڑی ہوجائے، اپنی پوری اخلاقی و مادی طاقت اس کی مزاحمت میں صرف کردے اور اپنے حدود میں اس کو ہرگز راہ دینے کے لیے تیار نہ ہو جب تک کہ مخالف کی برتر مادی قوت اس کو پیس کر نہ رکھ دے۔
اچھا، اب ذرا تصور کیجیے کہ اسی ماحول میں ایک ایسا گروہ (خواہ وہ ابتداءً ایک قوم میں سے اٹھا ہو مگر "قوم" کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک "جماعت" کی حیثیت سے اٹھا ہو) پایا جاتا ہو جو شخصی، طبقاتی اور قومی خودغرضیوں سے بالکل پاک ہے۔اس کی سعی و جہد کی کوئی غرض اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ نوع انسانی کی فلاح چند اصولوں کی پیروی میں دیکھتا ہے اور انسانی زندگی کا نظام ان پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ان اصولوں پر جو سوسائٹی وہ بناتا ہے اس میں قومی و وطنی اور طبقاتی و نسلی امتیازات بالکل مفقود ہیں ۔تمام انسان اس میں یکساں حقوق اور مساوی حیثیت سے شامل ہوسکتے ہیں ۔ اس میں رہنمائی و قیادت کا منصب ہر اس شخص یا مجموغۂ اشخاص کو حاصل ہوسکتا ہے جو ان اصولوں کی پیروی میں سب پر فوقیت لے جائے42/149 قطع نظر اس سے کہ اس کی نسلی و وطنی قومیت کچھ ہی ہو۔ حتیّٰ کہ اس میں اس امر کا بھی امکان ہے کہ اگر مفتوح ایمان لاکراپنے آپ کو صالح تر ثابت کردے تو فاتح اپنی سرفروشیوں اور جانفشانیوں کے سارے ثمرات اس کے قدموں میں لاکر رکھ دے اور اس کو امام مان کر خود مقتدی بننا قبول کرے۔یہ گروہ جب اپنی دعوت لے کر اٹھتا ہے تو وہ لوگ جو اس کے اصولوں کو چلنے دینا نہیں چاہتے،اس کی مزاحمت کرتے ہیں اور اس طرح فریقین میں کشمکش شروع ہوجاتی ہے، مگر اس کشمکش میں جتنی شدّت بڑھتی جاتی ہے ، یہ گروہ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں اتنے ہی زیادہ افضل و اشرف اخلاق کا ثبوت دیتا چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے طرز عمل سے ثابت کردیتا ہے کہ واقعی وہ خلق اللہ کی بھلائی کے سوا کوئی دوسری غرض پیش نظر نہیں رکھتا۔ اس کی دشمنی اپنے مخالفوں کی ذات یا قومیت سے نہیں بلکہ صرف ان کی ضلالت و گمراہی سے ہے جسے وہ چھوڑدیں تو وہ اپنے خون کے پیاسے دشمن کو بھی سینے سے لگا سکتا ہے۔ اسے لالچ ان کے مال و دولت یا ان کی تجارت و صنعت کا نہیں بلکہ خود انہی کی اخلاقی اور روحانی فلاح کا ہے جو حاصل ہوجائے تو ان کی دولت انہیں کو مبارک رہے۔ وہ سخت سے سخت آزمائش کے موقعوں پر بھی جھوٹ، دغا اور مکر و فریب سے کام نہیں لیتا۔ ٹیڑھی چالوں کا جواب بھی سیدھی تدبیروں سے دیتا ہے۔انتقام کے جوش میں بھی ظلم و زیادتی پر آمادہ نہیں ہوتا۔ جنگ کے سخت لمحوں میں بھی اپنے ان اصولوں کی پیروی نہیں چھوڑتا جن کی دعوت دینے کے لیے وہ اٹھا ہے۔ سچائی، وفائے عہد اور حسنِ معاملت پر ہرحال میں قائم رہتا ہے۔ بے لاگ انصاف کرتا ہے اور امانت و دیانت کے اس معیار پر پورا اترتا ہے جسے ابتداءً اس نے دنیا کے سامنے معیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔مخالفین کی زانی،شرابی، جواری اور سنگ دل و بے رحم فوجوں سے جب اس گروہ کے خداترس، پاکباز، عبادت گزار، نیک اور رحیم و کریم مجاہدوں کا مقابلہ پیش آتا ہے تو فرداً فرداً اِن کی انسانیت اُن کی درندگی و حیوانیت پر فائق نظر آتی ہے۔ وہ ان کے پاس زخمی یا قیدی ہوکر آتے ہیں تو یہاں ہر طرف نیکی شرافت اور پاکیزگئ اخلاق کا ماحول دیکھ کر ان کی آلودۂ نجاست، روحیں بھی پاک ہونے لگتی ہیں۔ اور یہ وہاں گرفتار ہوکر جاتے ہیں تو ان کا جوہر انسانیت اس تاریک ماحول میں اور زیادہ چمک اٹھتا ہے ۔ اور ان کو کسی علاقے پر غلبہ حاصل ہوتا ہے تو مفتوح آبادی کو انتقام کی جگہ عفو، ظلم و جور کی جگہ رحم و انصاف، شقاوت کی جگہ ہمدردی، تکبر و نخوت کی جگہ حلم و تواضع، گالیوں کی جگہ دعوتِ خیر، جھوٹے پروپیگنڈوں کی جگہ اصولِ حق کی تبلیغ کا تجربہ ہوتا ہے اور وہ یہ دیکھ کر عش عش کرنے لگتے ہیں کہ فاتح سپاہی نہ ان سے عورتیں مانگتے ہیں، نہ دبے چھپے مال ٹٹولتے پھرتے ہیں، نہ ان کے صنعتی رازوں کا سراغ لگاتے ہیں، نہ ان کی معاشی طاقت کچلنے کی فکر کرتے ہیں، نہ ان کی قومی عزت کو ٹھوکر مارتے ہیں، بلکہ انہیں اگر کچھ فکر ہے تو یہ کہ جو ملک اب ان کے چارج میں ہے اس کے باشندوں میں سے کسی کی عصمت خراب نہ ہو، کسی کے مال کو نقصان نہ پہنچے، کوئی اپنے جائز حقوق سے محروم نہ ہو، کوئی بداخلاقی ان کے درمیان پرورش نہ پا سکے اور اجتماعی ظلم و جور کسی شکل میں بھی وہاں باقی نہ رہے۔ بخلاف اس کے جب فریق مخالف کسی علاقے میں گھس43/149 آتا ہے تو ساری آبادی اس کی زیادتیوں اور بے رحمیوں سے چیخ اٹھتی ہے۔اب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ ایسی لڑائی میں قوم پرستانہ لڑائیوں کی بنسبت کتنا بڑا فرق واقع ہو جائے گا۔ظاہر ہے کہ ایسے مقابلے میں بالاتر انسانیت کم تر مادی ساز و سامان کے باوجود اپنے مخالفوں کی آہن پوش حیوانیت کو آخر کا شکست دے کر رہے گی۔ اخلاق فاضلہ کے ہتھیار توپ و تفنگ سے زیادہ دور مار ثابت ہوں گے۔ عین حالت جنگ میں دشمن دوستوں میں تبدیل ہوں گے۔ جسموں سے پہلے دل مسخر ہوں گے۔ آبادیوں کی آبادیاں لڑے بھڑے بغیرمفتوح ہو جائیں گی۔ اور یہ صالح گروہ جب ایک مرتبہ مٹھی بھر جمعیت اور تھوڑے سے سروسامان کے ساتھ اپنا کام شروع کردے گا تو رفتہ رفتہ خود مخالف کیمپ ہی سے اس کوجنرل، سپاہی، ماہرینِ فنون ، اسلحہ ، رسد، سامانِ جنگ سب کچھ حاصل ہوتے چلے جائيں گے۔ یہ جو کچھ میں عرض کر رہا ہوں یہ نرا قیاس اور اندازہ نہیں ہے بلکہ اگر آپ کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے دور مبارک کی تاریخی مثال موجود ہو تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ فی الواقع اس سے پہلے یہی کچھ ہو چکا ہے اور آج بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے، بشرطیکہ کسی میں یہ تجربہ کرنے کی ہمت ہو۔
حضرات :مجھے تو قع ہے کہ اس تقریر سے یہ حقیقت آپ کے ذہن نشین ہو گئی ہوگی کہ طاقت کہ اصل منبع اخلاقی طاقت ہے۔ اگر دنیا میں کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو بنیادی اخلاقیات کے ساتھ اسلامی اخلاقیات کا زور بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور بنیادی وسائل سے بھی کام لے تو یہ بات عقلاً محال اور فطرتاً غیر ممکن ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی دوسرا گروہ دنیا کی امامت و قیادت پر قابض رہ سکے۔اس کے ساتھ مجھے امید ہے کہ آپ نے یہ بھی اچھی طرح سمجھ لیا ہوگا کہ مسلمانوں کی موجودہ پست حالی کا اصل سبب کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ نہ مادّی وسائل سے کام لیں، نہ بنیادی اخلاقیات سے آراستہ ہوں، اور نہ اجتماعی طور پر ان کے اندر اسلامی اخلاقیات ہی پائے جائیں، وہ کسی طرح بھی امامت کے منصب پر فائز نہیں رہ سکتے۔ خدا کی اٹل بے لاگ سنت کا تقاضا یہی ہے کہ ان پر ایسے کافروں کو ترجیح دی جائے ، جو اسلامی اخلاقیات سے عاری سہی مگر کم از کم بنیادی اخلاقیات اور مادّی وسائل میں تو ان سے بڑھے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو ان کی بنسبت انتظام دنیا کے لیے اہل تر ثابت کررہے ہیں۔ اس معاملے میں اگر آپ کو کوئی شکایت ہو تو سنت اللہ سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہونی چاہیے اور اس شکایت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اب آپ اپنی اس خامی کو دور کرنے کی فکر کریں جس نے آپ کو امام سے مقتدی اور پیش رو سے پس رو بنا کر چھوڑا ہے۔ 44/149
اس کے بعد ضرورت ہے کہ میں صاف اور واضح طریقے سے آپ کے سامنے اسلامی اخلاقیات کی بنیادوں کو بھی پیش کردوں کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ اس معاملے میں عام طور پر مسلمانوں کے تصورات بری طرح الجھے ہوئے ہیں ۔ اس الجھن کی وجہ سے بہت ہی کم آدمی جانتے ہیں کہ اسلامی اخلاقیات فی الواقع کس چیز کا نام ہے اور اس پہلو سے انسان کی45/149 تربیت و تکمیل کے لیے کیا چیزیں کس ترتیب و تدریج کے ساتھ اس کے اندر پرورش کی جانی چاہئیں۔
اسلامی اخلاقیات کے چار مراتب
جس چیز کو ہم اسلامی اخلاقیات سے تعبیر کرتے ہیں وہ قرآن و حدیث کی رو سے
دراصل چار مراتب پر مشتمل ہے:- ایمان، اسلام، تقویٰ اور احسان۔ یہ چاروں مراتب
یکے بعد دیگرے اس فطری ترتیب پر واقع ہیں کہ ہر بعد کا مرتبہ پہلے مرتبہ سے
پیدا اور لازماً اسی پر قائم ہوتا ہے اور جب تک نیچے والی منزل پختہ و محکم نہ
ہوجائے دوسری منزل کی تعمیر کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ اس پوری عمارت میں
ایمان کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہے اس بنیاد پر اسلام کی منزل تعمیر ہوتی ہے۔
پھر اس کے اوپر تقویٰ اور سب سے اوپر احسان کی منزل اٹھتی ہے۔ایمان نہ ہو تو
اسلام ، تقویٰ یا احسان کا سرے کوئی تصور ہی نہیں۔ ایمان کمزور ہو تو اس پر
کسی بالائی منزل کا بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ یا ایسی کوئی منزل تعمیر کردی جائے
تو وہ بودی اور متزلزل ہوگی۔ ایمان محدود ہو تو جتنے میں محدود ہوگا، اسلام ،
تقویٰ، اور احسان بھی بس انہی حدود تک محدود رہیں گے۔ پس جب تک ایمان پوری طرح
صحیح، پختہ اور وسیع نہ ہو، کوئی مرد عاقل جو دین کا فہم رکھتا ہو اسلام،
تقویٰ، یا احسان کی تعمیر کا خیال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح تقویٰ سے پہلے اسلام
اور احسان سے پہلے تقویٰ کی تصحیح ،پختگی اور توسیع ضروری ہے۔ لیکن اکثر ہم
دیکھتے ہیں کہ لوگ اس فطری و اصولی ترتیب کو نظر انداز کرکے ایمان و اسلام کی
تکمیل کے بغیر تقویٰ و احسان کی باتیں شروع کردیتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ
افسوسناک یہ ہے کہ بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں ایمان و اسلام کا ایک نہایت
محدود تصوّر جاگزیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ محض وضع قطع ، لباس، نشست
و برخاست ، اکل و شرب اور ایسی ہی چند ظاہری چیزوں کو ایک مقرر نقشے پر ڈھال
لینے سے تقویٰ کی تکمیل ہوجاتی ہے، اور پھر عبادات میں نوافل و اذکار، اور
اوراد و وظائف اور ایسے ہی بعض اعمال اختیار کرلینے سے احسان کا بلند مقام
حاصل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ بسا اوقات اسی "تقویٰ" اور "احسان" کے ساتھ ساتھ
لوگوں کی زندگیوں میں ایسی صریح علامات بھی نظر آتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ
ابھی ان کا ایمان ہی سرے سے درست اور پختہ نہیں ہوا ہے۔یہ غلطیاں جب تک موجود
ہیں کسی طرح یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ ہم اسلامی اخلاقیات کا نصاب پورا کرنے
میں کبھی کامیاب ہوسکیں گے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ہمیں ایمان، اسلام، تقویٰ اور
احسان کے ان چاروں مراتب کا پورا پورا تصور بھی حاصل ہو اور اس کے ساتھ ہم ان
کی فطری ترتیب کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں۔
ایمان
اس سلسلے میں سب سے پہلے ایمان کو لیجیے جو اسلامی زندگی کی بنیاد ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ توحید و رسالت کے اقرار کا نام ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص اس کا اقرار کرلے تو اس سے وہ قانونی شرط پوری ہوجاتی ہے جو دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے لیے رکھی گئی ہے اور وہ اس کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اسکے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے۔ مگر کیا یہی سادہ اقرار جو ایک قانونی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہے ، اس غرض کے لیے بھی کافی ہوسکتا ہے کہ اسلامی زندگی کی ساری سہ منزلہ عمارت صرف اسی بنیاد پر قائم ہوسکے؟ لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اسی لیے جہاں یہ اقرار موجود ہوتا ہے وہاں عملی اسلام اور تقویٰ اور احسان کی تعمیر شروع کردی جاتی ہے، جو اکثر ہوائی قلعہ سے زیادہ پائدار ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن فی الواقع ایک مکمل اسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ایمان اپنی تفصیلات میں پوری طرح وسیع اور اپنی گہرائی میں اچھی طرح مستحکم ہو۔ ایمان کی تفصیلات میں سے جو شعبہ بھی چھوٹ جائے گا ، اسلامی زندگی کا وہی شعبہ تعمیر ہونے سے رہ جائے گا اور اس کی گہرائی میں جہاں بھی کسر رہ جائے گی اسلامی زندگی کی عمارت اسی مقام پر بودی ثابت ہوگی۔مثال کے طور پر ایمان باللہ کو دیکھیے جو دین کی اوّلین بنیاد ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ خدا کا اقرار اپنی سادہ صورت سے گزر کر جب تفصیلات میں پہنچتا ہے تو لوگوں کے ذہن میں اس کی بے شمار صورتیں بن جاتی ہیں۔ کہیں وہ صرف اس حد پر ختم ہوجاتا ہے کہ بے شک خدا موجود ہے اور دنیا کا خالق ہے اور اپنی ذات میں اکیلا ہے۔ کہیں اس کی انتہائی وسعت بس اتنی ہوتی ہے کہ خدا ہمارا معبود ہے اور ہمیں اس کی پرستش کرنی چاہیے۔ کہیں خدا کی صفات اور اس کے حقوق و اختیارات کا تصور کچھ زیادہ وسیع ہوکر بھی اس سے آگے نہیں بڑھتا کہ عالم الغیب ، سمیع و بصیر، سمیع الدعوات و قاضی الحاجات اور "پرستش" کی تمام جزوی شکلوں کا مستحق ہونے میں خدا کا کوئی شریک نہیں ہے، اور یہ کہ "مذہبی معاملات" میں آخری سند خدا ہی کی کتاب ہے۔ ظاہر ہے کہ ان مختلف تصورات سے ایک ہی طرزِ زندگی نہیں بن سکتی، بلکہ جو تصوّر جتنا محدود ہے عملی زندگی اور اخلاق میں بھی لازماً اسلامی رنگ اتنا ہی محدود ہوگا، حتّٰی کہ جہاں عام مذہبی تصوّرات کے مطابق ایمان باللہ اپنی انتہائی وسعت پر پہنچ جائے گا وہاں بھی اسلامی زندگی اس سے آگے نہ بڑھ سکے گی کہ خدا کے باغیوں کی وفاداری اور خدا کی وفاداری ایک ساتھ نباہ لی جائے،یا نظامِ کفر اور نظامِ اسلام کو سمو کر ایک مرکب بنالیا جائے۔ 46/149
اسی طرح ایمان باللہ کی گہرائی کا پیمانہ بھی مختلف ہے۔کوئی خدا کا اقرار کرنے کے باوجود اپنی کسی معمولی سے معمولی چیز کو بھی خدا پر قربان کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ کوئی بعض چیزوں سے خدا کو عزیز تر رکھتا ہے مگر بعض چیزیں اسے خدا سے عزیز تر ہوتی ہیں۔ کوئی جان مال تک خدا پر قربان کردیتا ہے مگر اپنے رحجاناتِ نفس اور اپنے نظریات و افکار کی قربانی یا اپنی شہرت کی قربانی اسے گوارا نہیں ہوتی۔ ٹھیک ٹھیک اسی تناسب سے اسلامی زندگی کی پائداری و ناپائداری بھی47/149 متعین ہوتی ہے اور انسان کا اسلامی اخلاق ٹھیک اسی مقام پر دغا دے جاتا ہے جہاں اس کے نیچے ایمان کی بنیاد کمزور رہ جاتی ہے۔
ایک مکمل اسلامی زندگی کی عمارت اگر اٹھ سکتی ہے تو صرف اسی اقرار توحید پر
اٹھ سکتی ہے جو انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی پر وسیع ہو۔ جس کے
مطابق انسان اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو خدا کی ملک سمجھے۔ اس کو اپنا اور
تمام دنیا کا ایک ہی جائز مالک، معبود، مطاع اور صاحب امر و نہی تسلیم کرے۔
اسی کو ہدایت کا سرچشمہ مانے اور پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت پر مطمئن ہوجائے
کہ خدا کی اطاعت سے انحراف ، یا اس کی ہدایت سے بے نیازی، یا اس کی ذات و صفات
اور حقوق و اختیارات میں غیر کی شرکت جس پہلو اور رنگ میں بھی ہے سراسر ضلالت
ہے۔ پھر اس عمارت میں اگر استحکام پیدا ہوسکتا ہے تو صرف اسی وقت جبکہ آدمی
پورے ارادے کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ وہ اور اس کا سب کچھ اللہ کا ہے اور اللہ
ہی کے لیے ہے۔اپنے معیار پسند و ناپسند کوختم کرکے اللہ کی پسند و ناپسند کے
تابع کردے۔ اپنی خود سری کو مٹاکر اپنے نظریات و خیالات ، خواہشات، جذبات اور
اندازِفکر کو اس علم کے مطابق ڈھال لے جو خدا نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ اپنی
تمام ان وفاداریوں کو دریا برد کردے جو خدا کی وفاداری کے تابع نہ ہوں بلکہ اس
کے مدّمقابل بنی ہوئی ہوں یا بن سکتی ہوں۔ اپنے دل میں سب سے بلند مقام پر خدا
کی محبت کو بٹھائے، اور ہر اس بت کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے نہانخانۂ دل سے نکال
پھینکے جو خدا کے مقابلے میں عزیز تر ہونے کا مطالبہ کرتاہو۔ اپنی محبت اور
نفرت، اپنی دوستی اور دشمنی، اپنی رغبت او ر کراہیت، اپنی صلح اور جنگ، ہر چیز
کو خدا کی مرضی میں اس طرح گم کردے کہ اس کا نفس وہی چاہنے لگے جو خدا چاہتا
ہے اور اسی سے بھاگنے لگے جو خدا کو ناپسند ہے۔ یہ ہے ایمان باللہ کا حقیقی
مرتبہ اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں ایمان ان حیثیات سے اپنی وسعت و ہمہ
گیری اور اپنی پختگی و مضبوطی میں ناقص ہو وہاں تقویٰ یا احسان کا کیا امکان
ہوسکتا ہے۔ کیا اس نقص کی کسر ڈاڑھیوں کے طول اور لباس کی تراش خراش یا سبحہ
گردانی و تہجّد خوانی سے پوری کی جاسکتی ہے۔
اسی پر دوسرے ایمانیات کو بھی قیاس کرلیجیے۔ نبوت پر ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک انسان کا نفس زندگی کے سارے معاملات میں نبی کو اپنا رہنما نہ مان لے اور اس کی رہنمائی کے خلاف یا اس سے آزاد جتنی رہنمائیاں ہو ں ان کو رد نہ کردے۔ کتاب پر ایمان اس تک ناقص ہی رہتا ہے، جب تک نفس میں کتاب اللہ کے بتائے ہوئے اصول زندگی کے سوا کسی دوسری چیز کے تسلط پر رضامندی کا شائبہ بھی باقی نہ ہو یا اتباعِ ماانزل اللہ کو اپنی اور ساری دنیا کی زندگی کا قانون دیکھنے کے لیے قلب و روح کی بے چینی میں کچھ کسر ہو۔ اسی طرح آخرت پر بھی ایمان مکمل نہیں کہا جاسکتا جب تک نفس پوری طرح آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے اور اخروی قدروں کے مقابلے میں دنیوی قدروں کو ٹھکرادینے پر48/149 آمادہ نہ ہوجائے اور آخرت کی جوابدہی کا خیال اسے زندگی کی ہر راہ پر چلتے ہوئے قدم قدم پر کھٹکنے نہ لگے۔ یہ بنیادیں ہی جہاں پوری نہ ہوں آخر وہاں اسلامی زندگی کی عالیشان عمارت کس شے پر تعمیر ہوگی؟ جب لوگوں نے ان بنیادوں کی توسیع و تکمیل اور پختگی کے بغیر تعمیرِ اخلاق اسلامی کو ممکن سمجھا ، تب ہی تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتاب اللہ کے خلاف فیصلہ کرنے والے جج، غیر شرعی قوانین کی بنیاد پر مقدمے لڑنے والے وکیل، نظامِ کفر کے مطابق معاملاتِ زندگی کا انتظام کرنے والے کارکن، کافرانہ اصولِ تمدن و ریاست پر زندگی کی تشکیل و تاسیس کے لیے لڑنے والے لیڈر اور پیرو، غرض سب کے لیے تقویٰ و احسان کے مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھل گیا، بشرطیکہ وہ اپنی زندگی کے ظاہری انداز و اطوار کو ایک خاص نقشہ پر ڈھال لیں اور کچھ نوافل و اذکار کی عادت ڈال لیں۔
اسلام
ایمان کی یہ بنیادیں جن کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے، جب مکمل اور گہری
ہوجاتی ہیں ، تب ان پر اسلام کی منزل شروع ہوتی ہے۔ اسلام دراصل ایمان کے عملی
ظہور کا نام ہے۔ ایمان اور اسلام کا باہمی تعلق ویسا ہی ہے جیسا بیج اور درخت
کا تعلق ہوتا ہے۔بیج میں جو کچھ اور جیسا کچھ موجود ہوتا ہے وہی درخت کی شکل
میں ظاہر ہوجاتا ہے، حتّٰی کہ درخت کا امتحان کرکے بآسانی یہ معلوم کیا جاسکتا
ہے کہ بیج میں کیا تھا اور کیا نہ تھا۔ آپ نہ یہ تصوّر کرسکتے ہیں کہ بیج نہ
ہو اور درخت موجود ہو۔ اور نہ یہی ممکن ہے کہ زمین بنجر بھی نہ ہو اور بیج اس
میں موجود ہو، پھر بھی درخت پیدا نہ ہو۔ ایسا ہی معاملہ ایمان اور اسلام کا
ہے۔ جہاں ایمان موجود ہوگا، لازماً اس کا ظہور آدمی کی عملی زندگی میں، اخلاق
میں برتاؤ میں، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے میں، دوڑ دھوپ کے رخ میں، مذاق و مزاج
کی افتاد میں، سعی و جہد کے راستوں میں، اوقات اور قوتوں اور قابلیتوں کے مصرف
میں، غرض مظاہر زندگی کے ہر ہر جزو میں ہوکر رہے گا۔ ان میں سے جس پہلو میں
بھی اسلام کے بجائے غیر اسلام ظاہر ہو، یقین کرلیجیے کہ اس پہلو میں ایمان
موجود نہیں ہے یا ہے تو بالکل بودا اور بے جان ہے۔ اور اگر عملی زندگی ساری کی
ساری ہی غیر مسلمانہ شان سے بسر ہورہی ہو ، تو جان لیجیے کہ دل ایمان سے خالی
ہے یا زمین اتنی بنجر ہے کہ ایمان کا بیج برگ و بار نہیں لارہا ہے۔بہرحال میں
نے جہاں تک قرآن و حدیث کو سمجھا ہے، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ دل میں ایمان
ہو اور عمل میں اسلام نہ ہو۔
(اس موقع پر ایک صاحب نے اٹھ کر پوچھا کہ ایمان اور عمل کو آپ ایک ہی
چیزسمجھتے ہیں یا ان دونوں میں کچھ فرق ہے؟ اس کے جواب میں کہا:-)
آپ تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن سے ان بحثوں کو نکال دیں جو فقہا اور متکلمین نے اس مسئلے میں کی ہیں اور قرآن سے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعتقادی ایمان اور عملی اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ جگہ جگہ ایمان اور عملِ صالح کا ساتھ ساتھ ذکر کرتا ہے اور تمام اچھے وعدے جو اس نے اپنے بندوں سے کیے ہیں انہی لوگوں سے متعلق ہیں جو اعتقاداً مومن اور عملاً مسلم ہوں۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالٰی نے جہاں جہاں منافقین کو پکڑا ہے وہاں ان کے عمل ہی کی خرابیوں سے ان کے ایمان کے نقص پر دلیل قائم کی ہے اور عملی اسلام ہی کو حقیقی ایمان کی علامت ٹھیرایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانونی لحاظ سے کسی شخص کو کافر ٹھیرانے اور امت سے اس کا رشتہ کاٹ دینے کا معاملہ دوسرا ہے اور اس میں انتہائی احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے۔ مگر میں یہاں اس ایمان و اسلام کا ذکر نہیں کررہا ہوں، جس پر دنیا میں فقہی احکام مترتّب ہوتے ہیں، بلکہ یہاں ذکر اس ایمان و اسلام کا ہے جو خدا کے ہاں معتبر ہے اور جس پر اخروی نتائج مترتّب ہونے والے ہیں۔ قانونی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر حقیقتِ نفس الامری کے لحاظ سے اگر آپ دیکھیں گے تو یقیناً یہی پائیں گے کہ جہاں عملاً خدا کے آگے سپراندازی اور سپردگی و حوالگی میں کمی ہے، جہاں نفس کی پسند خدا کی پسند سے مختلف ہے، جہاں خدا کی وفاداری کے ساتھ غیر کی وفاداری نبھ رہی ہے، جہاں خدا کا دین قائم کرنے کی سعی کے بجائے دوسرے مشاغل میں انہماک ہے، جہاں کوششیں اور محنتیں راہِ خدا کے بجائے دوسری راہوں میں صرف ہورہی ہیں۔ وہاں ضرور ایمان میں نقص ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ناقص ایمان اور احسان کی تعمیر نہیں ہوسکتی، خواہ ظاہر کے اعتبار سے متقیوں کی سی وضع بنانے اور محسنین کے سے بعض اعمال کی نقل اتارنے کی کتنی ہی کوشش کی جائے۔ ظاہر فریب شکلیں اگر حقیقت کی روح سے خالی ہوں تو ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے، جیسی ایک نہایت خوبصورت آدمی کی لاش بہترین وضع و ہئیت میں موجود ہو مگر اس میں جان نہ ہو۔ اس خوبصورت لاش کی ظاہری شان سے دھوکا کھاکر آپ اگر کچھ توقعات اس سے وابستہ کرلیں گے تو واقعات کی دنیا اپنے پہلے ہی امتحان میں اس کا ناکارہ ہونا ثابت کردے گی اور تجربے سے آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ ایک بدصورت مگر زندہ انسان ایک خوب صورت مگر بے روح لاش سے بہرحال زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ ظاہر فریبیوں سے اّپ اپنے نفس کو تو ضرور دھوکا دے سکتے ہیں، لیکن عالمِ واقعہ پر کچھ بھی اثر نہیں ڈال سکتے اور نہ خدا کی میزان ہی میں کوئی وزن حاصل کرسکتے ہیں۔ پس اگر آپ کو ظاہری نہیں بلکہ وہ حقیقی تقویٰ اور احسان مطلوب ہو جو دنیا میں دین کا بول بالا کرنے اور آخرت میں خير کا پلڑا جھکانے کے لیے درکار ہے تو میری اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اوپر کی یہ دونوں منزلیں کبھی نہیں اٹھ سکتیں جب تک ایمان کی بنیاد مضبوط نہ ہوجائے اور اس کی مضبوطی کا ثبوت عملی اسلام یعنی بالفعل اطاعت و فرمانبرداری سے نہ مل جائے۔ 49/149
تقویٰ 50/149
تقویٰ کی بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ تقویٰ ہے کیا چیز۔
تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ
دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا
ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان
کے دل میں خدا کا خوف ہو۔ عبدیت کا شعور ہو۔خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری و جواب
دہی کا احساس ہو۔ اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ
ہے جہاں خدا نے ایک مہلت عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا
فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دئیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان
گاہ میں اپنی قوتوں و قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں۔ اس سروسامان میں
کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیتِ الہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے اور ان انسانوں کے
ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضائے الہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی
متعلق کردی ہے۔ یہ احساس و شعور جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے اس کا ضمیر بیدار
ہوجاتا ہے۔ اس کی دینی حس تیز ہوجاتی ہے۔ اس کو ہر وہ چیز کھٹکنے لگتی ہے جو
خدا کی پسند سے مختلف ہو۔ وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر
کس قسم کے رحجانات و میلانات پرورش پارہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ
کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کررہا ہوں۔ وہ
صریح ممنوعات تو درکنار مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے
لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کردیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری
فرمانبرداری کے ساتھ بجا لائے۔ اس کی خدا ترسی ہر اس موقع پر اس کے قدم میں
لرزش پیدا کردیتی ہے جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور
حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وطیرہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی
اس کا ضمیر کانپ اٹھتا ہو کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہوجائے۔
یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرہ میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے
پورے طرزِ فکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کے
اثر سے ایک ایسی ہموار و یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک
ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے۔ بخلاف اس کے جہاں تقویٰ بس اس چیز کا نام
رکھ لیا گیا ہے کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اور مخصوص طریقوں کی پیروی
اختیار کرے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی
پیمائش کی جاسکتی ہو، وہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ چند اشکالِ تقویٰ جو سکھادی گئی
ہیں، ان کی پابندی تو انتہائی اہتمام کے ساتھ ہورہی ہو، مگر اس کے ساتھ زندگی
کے دوسرے پہلوؤں میں وہ اخلاق ، وہ طرزِ عمل بھی ظاہر ہورہے ہیں جو مقامِ
تقویٰ تو درکنار، ایمان کے ابتدائی مقتضیات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے۔ یعنی
حضرت مسیح کی تمثیلی زبان میں مچھر چھانے جارہے ہیں اور اونٹ بے تکلفی کے ساتھ
نگلے جارہے ہیں۔
51/149 حقیقی تقویٰ اور مصنوعی تقویٰ کے اس فرق کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص تو وہ ہے جس کے اندر طہارت و نظافت کی حس مضبوط ہے او ر پاکیزگی کا ذوق پایا جاتا ہے۔ ایسا شخص گندگی سے فی نفسہ نفرت کرے گا خواہ وہ جس شکل میں بھی ہو اور طہارت کو بجائے خود اختیار کرلے گا خواہ اس کے مظاہر کا احاطہ نہ ہوسکتا ہو۔ بخلاف اس کے ایک دوسرا شخص ہے جس کےاندر طہارت کی حِس موجود نہیں ہے مگر وہ گندگیوں اور طہارتوں کی ایک فہرست لیے پھرتا ہے جو کہیں سے اس نے نقل کرلی ہیں۔ یہ شخص ان گندگیوں سے تو سخت اجتناب کرے گا جو اس نے فہرست میں لکھی ہوئی پائی ہیں، مگر بے شمار ایسی گھناؤنی چیزوں میں آلودہ پایا جائے گا جو ان گندگیوں سے بدرجہا زیادہ ناپاک ہوں گی جن سے وہ بچ رہا ہے، صرف اس وجہ سے کہ وہ اس فہرست میں درج ہونے سے رہ گئیں۔ یہ فرق جو میں آپ سے عرض کررہا ہوں، یہ محض ایک نظری فرق نہیں ہے بلکہ آپ اس کو اپنی آنکھوں سے ان حضرات کی زندگیوں میں دیکھ سکتے ہیں جن کے تقویٰ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ ایک طرف ان کے ہاں جزئیاتِ شرع کا یہ اہتمام ہے کہ ڈاڑھی ایک خاص مقدار سے کچھ بھی کم ہو تو فسق کا فیصلہ نافذ کردیا جاتا ہے۔ پائنچہ ٹخنے سے ذرا نیچے ہوجائے تو جہنم کی وعید سنادی جاتی ہے۔ اپنے مسلکِ فقہی کے فروعی احکام سے ہٹنا ان کے نزدیک گویا دین سے نکل جانا ہے لیکن دوسری طرف دین کے اصول و کلّیات سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچی ہوئي ہے کہ مسلمانوں کی پوری زندگی کا مدار انہوں نے رخصتوں اور سیاسی مصلحتوں پر رکھ دیا ہے۔ اقامتِ دین کی سعی سے گریز کی بے شمار راہیں انہوں نے نکال رکھی ہیں۔ غلبۂ کفر کے تحت "اسلامی زندگی" کے نقشے بنانے ہی میں ان کی ساری محنتیں اور کوششیں صرف ہورہی ہیں اور انہی کی غلط رہنمائی نے مسلمانوں کو اس چیز پر مطمئن کیا ہے کہ ایک غیر اسلامی نظام کے اندر رہتے ہوئے، بلکہ اس کی خدمت کرتے ہوئے بھی ایک محدود دائرے میں مذہبی زندگی بسرکرکے وہ دین کے سارے تقاضے پورے کرسکتے ہیں۔ اس سے آگے کچھ مطلوب نہیں ہے جس کےلیے وہ سعی کریں۔ پھر اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی ان کے سامنے دین کے اصل مطالبے پیش کرے اور سعئ اقامتِ دین کی طرف توجہ دلائے تو صرف یہی نہیں کہ وہ اس کی بات سنی ان سنی کردیتے ہیں، بلکہ کوئی حیلہ،کوئی بہانہ اور کوئی چال ایسی نہیں چھوڑتے جو اس کام سے خود بچنے اور مسلمانوں کو بچانے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس پر بھی ان کے تقویٰ پر کوئی آنچ نہیں آتی اور نہ مذہبی ذہنیت رکھنے والوں میں سے کسی کو یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے تقویٰ میں کوئی کسر ہے۔ اسی طرح حقیقی اور مصنوعی تقویٰ کا فرق بے شمار شکلوں میں ظاہر ہوتا رہتا ہے مگر آپ اسے تب ہی محسوس کرسکتے ہیں کہ تقویٰ کا اصلی تصوّر آپ کے ذہن میں واضح طور پر موجود ہو۔
میری ان باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وضع قطع، لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق جو آداب و احکام حدیث سے ثابت ہیں میں ان کا استخفاف کرنا چاہتا ہوں یا انہیں غیر ضروری قرار دیتا ہوں۔ خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو۔ دراصل جو کچھ میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شے حقیقت ِ52/149 تقویٰ ہے نہ کہ یہ مظاہر۔ حقیقت ِ تقویٰ جس کے اندر پیدا ہوگی اس کی پوری زندگی ہمواری و یک رنگی کے ساتھ اسلامی زندگی بنے گی۔ اسلام اپنی پوری ہمہ گیری کے ساتھ اس کے خیالات میں، اس کےجذبات و رحجانات میں، اس کے مذاق طبیعت میں ، اس کے اوقات کی تقسیم اور اس کی قوتوں کے مصارف میں، اس کی سعی کی راہوں میں، اس کے طرزِزندگی اور معاشرت میں، اس کی کمائی اور خرچ میں، غرض اس کی حیاتِ دنیوی کے سارے ہی پہلوؤں میں رفتہ رفتہ نمایاں ہوتا چلا جائے گا۔ بخلاف اس کے اگر مظاہر کو حقیقت پر مقدم رکھا جائے گا اور ان پر بے جا زور دیا جائے گا اور حقیقی تقویٰ کی تخم ریزی اور آبیاری بغیر مصنوعی طور پر چند ظاہری احکام کی تعمیل کرادی جائے گی تو نتائج وہی کچھ ہوں گے جن کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیاہے۔پہلی چیز دیر طلب اور صبر آزما ہے، بتدریج نشو و نما پاتی اور ایک مدّت کے بعد برگ و بار لاتی ہے، جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگا کرتی ہے۔ اسی لیے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اُپرا تے ہیں۔ بخلاف اس کے دوسری چیز جلدی اور آسانی سے پیدا کرلی جاتی ہے۔ جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنادی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کی پیداوار کا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے، لیکن ظاہر ہے کہ جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے تو کبھی پوری نہیں ہوسکتیں۔
احسان
اب احسان کو لیجیے جو اسلام کی بلند ترین منزل ہے۔ احسان دراصل اللہ اور اس کے دین کے ساتھ اس قلبی لگاؤ، اس گہری محبت، اس سچی وفاداری اور فدویت و جاں نثاری کا نام ہے جو مسلمان کو فنا فی الاسلام کردے۔تقویٰ کا اساسی تصوّر خدا کا خوف ہے جو انسان کو اس کی ناراضی سے بچنے پر آمادہ کرے اور احسان کا اساسی تصوّر خدا کی محبت ہے جو آدمی کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ابھارے۔ ان دونوں چیزوں کے فرق کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ حکومت کے ملازموں میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں جو نہایت فرض شناسی و تن دہی سے وہ تمام خدمات ٹھیک ٹھیک بجا لاتے ہیں جو ان کے سپرد کی گئی ہوں۔ تمام ضابطوں اور قاعدوں کی پوری پوری پابندی کرتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو حکومت کے لیے قابلِ اعتراض ہو۔ دوسرا طبقہ ان مخلص وفاداروں اور جاں نثاروں کا ہوتا ہے جو دل و جان سے حکومت کے ہوا خواہ ہوتے ہیں۔ صرف وہی خدمات انجام نہیں دیتے جو ان کے سپرد کی گئی ہوں، بلکہ ان کے دل کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ سلطنت کے مفاد کو زیادہ سے زیادہ کس طرح ترقی دی جائے۔ اس دھن میں وہ فرض اور مطالبہ سے زائد کام کرتے ہیں۔ سلطنت پر کوئی آنچ آئے تو وہ جان و مال اور اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔53/149 قانون کی کہیں خلاف ورزی ہو تو ان کے دل کو چوٹ لگتی ہے۔ کہیں بغاوت کے آثار پائے جائیں تو وہ بے چین ہوجاتے ہیں اور اسے فرو کرنے میں جان لڑا دیتے ہیں ۔ جان بوجھ کر خود سلطنت کو نقصان پہنچانا تو درکنار اس کے مفاد کو کسی طرح نقصان پہنچتے دیکھنا بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے اور اس خرابی کے رفع کرنے میں وہ اپنی حد تک کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں بس ان کی سلطنت ہی کا بول بالا ہو اور زمین کا کوئی چپہ ایسا باقی نہ رہے جہاں اس کا پھریرا نہ اڑے۔ ان دونوں میں سے پہلی قسم کے لوگ اس حکومت کے متقی ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ اس کے محسن۔ اگرچہ ترقیاں متقین کو بھی ملتی ہیں اور بہرحال ان کے نام اچھے ملازموں کی فہرست میں لکھے جاتے ہیں۔ مگر جو سرفرازیاں محسنین کے لیے ہیں ان میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں ہوتا۔ بس اسی مثال پر اسلام کے متقیوں اور محسنوں کو بھی قیاس کرلیجیے۔ اگرچہ متقین بھی قابل قدر اور قابل اعتماد لوگ ہیں۔ مگر اسلام کی اصلی طاقت محسنین کا گروہ ہے۔ اصلی کام جو اسلام چاہتا ہو کہ دنیا میں ہو، وہ اسی گروہ سے بن آسکتا ہے۔
احسان کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد آپ خود اندازہ کرلیں کہ جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں، جن کے سامنے حدود اللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کردی جائیں، خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کردیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہورہاہو۔ نظام کفر کے تسلط سے نہ صرف انسانی سوسائٹی میں اخلاقی و تمدّنی فساد برپا ہو بلکہ خود امت ِ مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہورہی ہو، اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی پیدا ہو ، نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے، بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبے پر اصولاً و عملاً مطمئن کردیں، ان کا شمار آخر محسنین میں کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس جرم عظیم کے ساتھ محض یہ بات انہیں احسان کے مقامِ عالی پر کیسے سرفراز کرسکتی ہے کہ وہ چاشت اور اشراق اور تہجّد کے نوافل پڑھتے رہے، ذکر و شغل اور مراقبے کرتے رہے۔ حدیث و قرآن کے درس دیتے رہے۔ جزئیاتِ فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام فرماتے رہے اور تزکیۂ نفس کی خانقاہوں میں دینداری کا وہ فن سکھاتے رہے جس میں حدیث و فقہ اور تصوّ ف کی ساری باریکیاں تو ساری موجود تھیں، مگر ایک نہ تھی تو وہ حقیقی دینداری جو "سرداد نہ داد دست در دستِ یزید " کی کیفیت پیدا کرے اور "بازی اگرچہ پانہ سکا تو سر تو کھوسکا" کے مقام وفاداری پر پہنچادے۔ آپ دنیاوی ریاستوں اور قوموں میں بھی وفادار اور غیر وفادار کی اتنی تمیز ضرور نمایاں پائیں گے کہ اگر ملک میں بغاوت ہوجائے یا ملک کے کسی حصہ پر دشمن کا قبضہ ہوجائے تو باغیوں اور دشمنوں کے تسلط کو جو لوگ جائز تسلیم کرلے یا ان کے تسلط پر راضی ہوجائے اور ان کے ساتھ مغلوبانہ مصالحت کرلیں، یا ان کی سرپرستی میں کوئی ایسا نظام بنائیں جس میں اصل اقتدار کی باگیں انہی کے ہاتھوں54/149 میں رہے اور کچھ ضمنی حقوق اور اختیارات انہیں بھی مل جائیں، تو ایسے لوگوں کو کوئی ریاست اور کوئی قوم اپنا وفادار ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی، خواہ وہ قومی فیشن کے کیسے ہی سخت پابند اور جزئی معاملات میں قومی قانون کے کتنے ہی شدید پیرو ہوں۔ آج آپ کے سامنے زندہ مثالیں موجود ہیں کہ جو ملک جرمنی کے تسلط سے نکلے ہیں وہاں ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے جنہوں نے جرمن قبضے کے زمانے میں تعاون و مصالحت کی راہیں اختیار کی تھیں۔ ان سب ریاستوں اور قوموں کے پاس وفاداری کو جانچنے کا ایک ہی معیار ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص نے دشمن کے تسلط کی مزاحمت کس حد تک کی، اس کو مٹانے کے لیے کیا کام کیا اور اس اقتدار کو واپس لانے کی کیا کوشش کی جس کی وفاداری کا وہ مدعی تھا۔ پھر کیا معاذ اللہ خدا کے متعلق آپ کا یہ گمان ہے کہ وہ اپنے وفاداروں کو پہچاننے کی اتنی تمیز بھی نہیں رکھتا جتنی دنیا کے ان کم عقل انسانوں میں پائی جاتی ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بس ڈاڑھیوں کا طول، ٹخنوں اور پائنچوں کافاصلہ، تسبیحوں کی گردش اور اوراد و وظائف اور نوافل اور مراقبےکے مشاغل اور ایسی ہی چند اور چیزیں دیکھ کر ہی دھوکا کھاجائے گا کہ آپ اس کے سچے وفادار اور جاں نثار ہیں؟
عملی خاکہ
o ہمارا طریقِ کار اور اس کی حکمتیں اور فائدے
o ہمارا طریقِ تربیت
o لائحۂ عمل
ہمارا طریقِ کار اور اس کی حکمتیں اور فائدے [6]
پہلا فائدہ
میں آپ کے سامنے مختصر طور پر اس طریق کار کو پیش کروں گا جو ہم نے اپنی اس دعوت کے لیے اختیار کیا ہے۔ ہماری55/149 دعوت کی طرح ہمارا یہ طریقِ کار بھی دراصل قرآن اور انبیاء علیہم السلام کے طریقے سے ماخوذ ہے۔ جو لوگ ہماری دعوت قبول کرتے ہیں ۔ ان سے ہمارا اولین مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو عملاً اور بالکلیہ بندگئی رب میں دے دو اور ان تمام چیزوں سے اپنی زندگی کو پاک کرنے کی کوشش کرو جو تمہارے ایمان کی ضد ہیں۔ یہیں سے ان کے اخلاق و سیرت کی تعمیر اور ان کی آزمائش کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں نے بڑی بڑی امنگوں (Ambitions) کے ساتھ اعلی تعلیم حاصل کی تھی انہیں اپنے اونچے اونچے خوابوں کی عمارتیں اپنے ہاتھ سے ڈھادینی پڑتی ہیں اور اس زندگی میں قدم رکھنا پڑتا ہے جس میں جاہ و منصب اور معاشی خوشحالیوں کے امکانات انہیں اپنی زندگی میں تو درکنار اپنی دوسری تیسری پشت میں بھی دور دور نظر نہیں آتے۔ جن لوگوں کی معاشی خوشحالی کسی مرہونہ زمین یا کسی مغضوبہ جائداد یا کسی ایسی میراث پر قائم تھی جس میں حقداروں کے حقوق مارے گئے تھے۔ انہیں بسا اوقات دامن جھاڑ کر اس خوشحالی سے کنارہ کش ہوجانا پڑتا ہے۔ صرف اس لیے کہ جس خدا کو انہوں نے اپنا آقا تسلیم کیا ہے۔اس کے منشاء کے خلاف کسی کا مال کھانا ان کےایمان کے منافی ہے۔جن لوگوں کے وسائلِ زندگی غیر شرعی تھے یا نظامِ باطل سے وابستہ تھے۔ ان کو ترقیوں کے خواب دیکھنا تو درکنار موجودہ وسائل سے حاصل کی ہوئی روٹی کا بھی ایک ایک ٹکڑا حلق سے اتارنا ناگوار ہونے لگتا ہے اور وہ ان وسائل کو پاک تر وسائل سے خواو وہ حقیر ترین ہی کیوں نہ ہوں، بدلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے۔ پھرجیسا کہ ابھی میں آپ کے سامنے بیان کرچکا ہوں۔ اس مسلک کو عملاً اختیار کرتے ہی آدمی کا قریب ترین ماحول اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ اس کے اپنے والدین، اس کے بھائی بند ، بیوی اور بچے اور اس کے جگری دوست سب سے پہلے اس کے ایمان کے ساتھ قوت آزمائی شروع کردیتے ہیں اور بسا اوقات اس مسلک کا پہلا اثر ظاہر ہوتے ہی آدمی کا اپنا گہوارہ جس میں وہ نازوں سے پالا گیا تھا۔ اس کے لیے زنبور خانہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ابتدائی تربیت گاہ جو صالح و مخلص اور قابل اعتماد و سیرت کے کارکن فراہم کرنے کے لیے قدرت الہی نے ہمارے لیے خود بخود پیدا کردی ہے۔ ان ابتدائی آزمائشوں میں جو لوگ ناکام ہو جاتے ہیں وہ آپ سے آپ چھٹ کر الگ ہوجاتے ہیں اور ہمیں ان کو چھانٹ پھینکنے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑتی اور جو لوگ ان میں پورے اترتے ہیں وہ ثابت کردیتے ہیں کہ ان کے اندر کم از کم اتنا اخلاص، اتنی یکسوئی ، اتنا صبر اور عزم، اتنی مضبوطئ سیرت ضرور موجود ہے جو خدا کی راہ میں قدم رکھنے اور پہلے مرحلۂ امتحان سے کامیاب گزرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مرحلے کے کامیاب لوگوں کو ہم نسبتاً زیادہ بھروسے اور اطمینان کے ساتھ لے کر دوسرے مرحلے کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں جو آگے آنے والا ہے اور جس میں اس سے زیادہ آزمائشیں پیش آنے والی ہیں۔ وہ آزمائش پھر ایک دوسری بھٹی تیار کریں گی جو اسی طرح کھوٹے سکوں کو چھانٹ کر پھینک دے گی اور زرِ خالص کو اپنی گود میں رکھ لے گی۔ جہاں تک ہماراعلم ساتھ دیتا ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی معادن سے کارآمد عناصر کو چھانٹنے اور ان کو زیادہ کارآمد بنانے کے لیے یہی طریقہ56/149 اختیار کیا جاتا رہا ہے، اور جو تقویٰ ان بھٹیوں میں تیار ہوتا ہے، چاہے وہ فقہی ناپ تول میں پورا نہ اترے اور خانقاہی معیاروں پر بھی ناقص نکلے مگر صرف اسی طرز سے تیار کیے ہوئے تقویٰ میں یہ طاقت ہوسکتی ہے کہ انتظامِ دنیا کی بھاری ذمہ داریوں کے بوجھ سنبھال سکے اور ان عظیم الشان امانتوں کا بار اٹھا سکے جن کے ایک قلیل جزو کا وزن بھی خانقاہی تقویٰ کی برداشت سے باہر ہے۔
دوسرا فائدہ 57/149
اس کے ساتھ دوسری چیز جو ہم اپنے ارکان پر لازم کرتے ہیں یہ ہے کہ جس حق کی
روشنی انہوں نے پائی ہے اس سے وہ اپنے قریبی ماحول کو اور ان سب لوگوں کو جن
سے ان کا قرابت یا دوستی یا ہمسائیگی یا لین دین کا تعلق ہے روشناس کرانے کی
کوشش کریں اور انہیں اس کی طرف آنے کی دعوت دیں۔ یہاں پھر آزمائشوں ایک سلسلہ
شروع ہوجاتا ہے ۔ سب سے پہلے تو اس تبلیغ کی وجہ سے مُبلّغ کی اپنی زندگی درست
ہوتی ہے کیوں کہ یہ کام شروع کرتے ہی بے شمار خوردبین اور دیدبان
(Searchlight) اس کی ذات کی صرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور مبلغ کی زندگی میں اگر
کوئی چھوٹی چیزبھی اُس کے ایمان اور اُس کی دعوت کے منافی موجود ہو تو یہ مفت
کے محتسِب اسے نمایاں کرکے مُبلّغ کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور تازیانے لگا لگا
کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ اپنی زندگی کو اس سے پاک کرے۔اگر مُبلّغ فی الواقع
اس دعوت پر سچے دل سے ایمان لایا ہو تو وہ ان تنقیدوں پر جھنجھلانے اور
تاویلوں سے اپنے عمل کی غلطی کو چھپانے کی کوشش نہ کرے گا بلکہ ان لوگوں کی
خدمات سے فائدہ اٹھائے گا جو مخالفت کی نیت سے ہی سہی مگر بہرحال اس کی اصلاح
میں بغیر کسی معاوضے کی سعی و محنت کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس برتن کو
بیسیوں ہاتھ مانجھنے میں لگ جائیں اور مانجھتے ہی چلے جائیں وہ چاہے کتنا ہی
کثیف ہو آخر کار مُجلاّ و مُصفّا ہو کر رہے گا۔
تیسرا فائدہ
پھر اس تبلیغ سےہمارے کارکنوں میں بہت سے اوصاف کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے جنہیں آگے چل کر دوسرے میدانوں میں کسی اور شکل سے ہم کو استعمال کرنا ہے۔ جب مُبلّغ کو طرح طرح کےدل شکن حالات سے گزرنا پڑتا ہے کہیں اس کی ہنسی اڑائی جاتی ہے کہیں اس پر طعنے اور آوازے کسے جاتے ہیں، کہیں گالیوں اور دوسری جہالتوں سے اس کی تواضع کی جاتی ہے، کہیں اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، کہیں اس کو فتنوں میں الجھانے کی نت نئی تدبیریں کی جاتی ہیں، کہیں اسے گھر سے نکال دیا جاتا ہے، میراث سے محروم کیا جاتا ہے، دوستیاں اور رشتہ داریاں اس سے منقطع کرلی58/149 جاتی ہیں اور اس کے لیے اپنے ماحول میں سانس تک لینا دشوار کردیا جاتا ہے تو ان حالات میں جو کارکن نہ ہمّت ہارے، نہ حق سےپھرے، نہ باطل پرستوں کے آگے سپر ڈالے، نہ مشتعل ہوکر اپنے دماغ کا توازن کھوئے۔ بلکہ اس کے برعکس حکمت اور تدبر اور ثابت قدمی اور راستبازی اور پرہیزگاری اور ایک سچے حق پرست کی سی ہمدردی و خیر خواہی کے ساتھ اپنے مسلک پر قائم اور اپنے ماحول کی اصلاح میں پیہم کوشاں رہے۔ اس کے اندر ان اوصاف عالیہ کا پیدا ہونا اور نشو نما پانا یقینی ہے جو آگے چل کر ہماری اس جدوجہد کے دوسرے مرحلوں میں اس سے بہت زیادہ پیمانے پر درکار ہوں گے۔
طریقِ دعوت
اس تبلیغ کے سلسلے میں ہم نے وہی طریقِ کار اپنے کارکنوں کو سکھانے کی کوشش کی ہے جو قرآن مجید میں تعلیم فرمایا گیا ہے، یعنی یہ کہ حکمت اور موعظ حسنہ کے ساتھ خدا کے راستے کی طرف دعوت دیں، تدریج اور فطری ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے لوگوں کےسامنےدین کے اوّلین بنیادی اصولوں کو اور پھر رفتہ رفتہ ان کے مقتضیات اور لوازم کو پیش کریں، کسی کو اس کی قوّتِ ہضم سے بڑھ کر خوراک دینے کی کوشش نہ کریں،فروع کو اصول پر اور جزئیات کو کُلِّیات پر مقدم نہ کریں، بنیادی خرابیوں کو رفع کیے بغیر ظاہری برائیوں اور بیرونی شاخوں کو چھانٹنے اور کاٹنے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں، غفلت اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے ساتھ نفرت و کراہیت کا برتاؤ کرنے کے بجائے ایک طبیب کی سی ہمدردی و خير خواہی کے ساتھ ان کے علاج کی فکر کریں۔ گالیوں اور پتھروں کے جواب میں دعائے خیر کرناسیکھیں، ظلم اور ایذا رسانی پرصبر کریں، جاہلوں سے بحثو ں اور مناظروں اور نفسانی مجادلوں میں نہ الجھیں، لغو اور بیہودہ باتوں سے عالی ظرف اور شریف لوگوں کی طرح درگذر کریں، جو لوگ حق سے مستغنی بنے ہوئے ہوں۔ ان کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان لوگوں کی طرف توجہ کریں، جن کے اندر کچھ طلب حق پائی جاتی ہو خواہ وہ دنیوی اعتبار سے کتنے ہی ناقابل توجہ سمجھے جاتے ہوں اور اپنی اس تمام سعی و جہد میں ریا اور نمود و نمائش سے بچیں،اپنے کارناموں کو گنانے اور فخر کے ساتھ ان کا مظاہرہ کرنے اور لوگوں کی توجہات اپنی طرف کھینچنے کی ذرّہ برابر کوشش نہ کریں، بلکہ جو کچھ کریں، اس نیت اور اس یقین کے ساتھ کریں کہ ان کا سارا عمل خدا کے لیے ہے اور خدا بہرحال ان کی خدمات سے بھی واقف ہے اور ان کی خدمات کی قدر بھی اسی کے ہاں ہونی ہے۔ خواہ خلق اس سے واقف ہو یا نہ ہو اور خلق کی طرف سے سزا ملے یا جزا ۔ یہ طریقِ کار غیر معمولی صبر اور حلم اور لگاتار محنت چاہتا ہے۔ اس میں ایک مدتِ دراز تک مسلسل کام کرنے کے بعد بھی شاندار نتائج کی وہ ہری بھری فصل لہلہاتی نظر نہیں آتی جو سطحی اور نمائشی کام شروع کرتے ہی دوسرے دن سے تماشائیوں اور مداریوں کا دل لبھانا شروع کردیتی ہے۔ اس میں ایک طرف خود کارکن کے اندر وہ گہری بصیرت ، وہ سنجیدگی ، وہ پختہ کاری اور وہ معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے جو اس تحریک کے زیادہ صبر آزما اور زیادہ59/149 محنت و حکمت چاہنے والے مراحل میں درکار ہونے والی ہے اور دوسری طرف اس سے تحریک اگرچہ آہستہ رفتار سے چلتی ہے مگر اس کا ایک ایک قدم مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے۔صرف ایسے ہی طریق تبلیغ سے سوسائٹی کا مکھن نکال کر تحریک میں جذب کیا جاسکتا ہے۔ اوچھے اور سطحی لوگوں کی بھیڑ جمع کرنے کے بجائے اس طریقِ تبلیغ سے سوسائٹی کے صالح ترین عناصر تحریک کی طرف کھنچتے ہیں اور وہ سنجیدہ (serious) کارکن تحریک کو میسر آتے ہیں جن میں سے ایک ایک آدمی کی شرکت ہزار بوالفضولوں کے انبوہ سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔
طریقِ کار کا ایک اہم جز اور اس کے مضمرات
ہمارے طریقِ کار کا ایک بڑا اہم جُز یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو نظامِ باطل کی
قانونی اور عدالتی حفاظت سے خود بخود محروم کرلیا ہے اور علی الاعلان دنیا کو
بتا دیا ہے کہ ہم اپنے انسانی حقوق ، اپنے مال و جان اور عزت و آبرو کسی چیز
کی عصمت بھی قائم رکھنے کے لیے اس نظام کی مدد حاصل کرنا نہیں چاہتے جس کو ہم
باطل سمجھتے ہیں، لیکن اس چیز کو ہم نے تمام ارکان پر لازم نہیں کیا ہے بلکہ
ان کے سامنے ایک بلند معیار رکھ دینے کے بعد ان کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہیں
تو اس معیار کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جائیں ورنہ حالات کی مجبوریوں سے شکست
کھا کھا کر جس قدر پستی میں گرنا چاہیں گرتے چلے جائیں، البتہ پستی کی ایک حد
ہم نے مقرر کردی ہے کہ اس سے گزر جانے والے کو ہم اپنی جماعت میں نہ رکھیں گے،
یعنی ایسا شخص جو جھوٹا مقدمہ بنانے یا جھوٹی شہادت دینے یا ایسی مقدمہ بازی
میں الجھنے جس کے لیے کسی مجبوری کا عذر نہ پیش کیا جاسکے، بلکہ وہ سراسر
منفعت طلبی یا نفسانیت کی تسکین یا دوستی اور رشتہ داری کی عصبیت ہی پر مبنی
ہو، ہماری جماعت میں جگہ نہیں پاسکتا۔
بظاہر لوگ ہمارے اس طریقِ کار کی حکمتوں کو جو ہم نے قانون و عدالت کے معاملے میں اختیار کیا ہے پوری طرح نہیں سمجھتے۔ اس لیے وہ طرح طرح کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں۔ مگر فی الحقیقت اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ اس کا اولین فائدہ یہ ہے کہ ہم نے اپنا ایک بااصول جماعت ہونا اپنے عمل سے اور ایسے عمل سے ثابت کردیتے ہیں جو محض تفریحی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ صریح طور پر نہایت تلخ اور انتہائی کڑی آزمائشیں اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی کو انسانی زندگی کے لیے قانون بنانے کا حق نہیں ہے اور جب ہمارا یہ دعوےٰ ہے کہ حاکمیت (Sovereignty) صرف خدا کا حق ہے اور خدا کی اطاعت اور اس کے قانون کی پابندی کے بغیر کوئی زمین میں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے اور جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو قانون الہی کی سند کے بغیر معاملات انسانی کا فیصلہ کرے وہ کافر اور فاسق اور ظالم ہے تو اس عقیدے اور ہمارے اس دعوے سے خود بخود یہ بات60/149 لازم آجاتی ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بنیاد کسی غیر الہی قانون پر نہ رکھیں اور حق اور غیر حق کا فیصلہ کسی ایسے حاکم کی حکومت پر نہ چھوڑیں جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں۔ اپنے عقیدے کے اس تقاضے کو اگر ہم سخت سے سخت نقصانات اور انتہائی خطرات کے مقابلے میں بھی پورا کرکے دکھادیں تو یہ ہماری راستی اور ہماری مضبوطئ سیرت اور ہمارے عقیدے اور عمل کی مطابقت کا ایسا بیّن ثبوت ہوگا جس سے بڑھ کر کسی دوسرے ثبوت کی حاجت نہیں رہتی اور اگر کسی نفع کی امید یا کسی نقصان کا خطرہ یا کسی ظلم و ستم کی چوٹ ہم کو مجبور کردے کہ ہم اپنے عقیدے کے خلاف کام کر گزریں تو یہ ہماری کمزوری کا اور ہماری سیرت کے بودے پن کا ایک نمایاں ترین ثبوت ہوگا جس کے بعد کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہ رہے گی۔
اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اپنے ارکان کی پختگی اور ان کے قابلِ اعتماد یا
ناقابلِ اعتماد ہونے کا اندازہ کرنے کے لیے ہمارے پاس یہ ایک کسوٹی ہوگی جس سے
ہم بآسانی یہ معلوم کرتے رہیں گے کہ ہم میں سے کون لوگ کتنے پختہ ہیں اور کس
سے کس قسم کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے ۔
اس کا تیسرا اور عظیم الشان فائدہ یہ ہے کہ ہمارے ارکان یہ مسلک اختیار کرنے کے بعد آپ سے آپ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ سوسائٹی کے ساتھ اپنے تعلقات کو قانون کی بنیادوں پر قائم کرنے کے بجائے اخلاق کی بنیادوں پر قائم کریں۔ ان کو اپنا اخلاقی معیار اتنا بلند کرنا پڑے گا ، اپنے آپ کو اپنے ماحول میں اس قدر راست باز متدیّن، اتنا خدا ترس اور اس قدر خیر مجسم بنانا پڑے گا کہ لوگ خود بخود ان کے حقوق ، ان کی عزت اور ان کے جان و مال کا احترام کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ کیونکہ اس اخلاقی تحفظ کے سوا ان کے لیے دنیا میں اور کوئی تحفظ نہ ہوگا اور قانونی تحفظ سے محروم ہونے اور پھر اخلاقی تحفظ حاصل کرنے کی صورت میں انکی حیثیت دنیا میں بالکل ایسی ہوکر رہ جائے گی جیسے جنگل میں ایک بکری بھیڑیوں کے درمیان رہتی ہو۔ اس کا چوتھا فائدہ یہ ہے اور یہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ ہم اس طرح اپنے آپ کو اور اپنے مفادات و حقوق کو خطرے میں ڈال کر موجودہ سوسائٹی کی اخلاقی حالت کو برہنہ کرکے دنیا کے سامنے رکھ دیں گے۔ جب لوگ یہ ماننے کے بعد کہ ہم پولیس اور عدالت سے اپنی حفاظت کے لیے کوئی مدد لینے والے نہیں ہیں۔ ہمارے حقوق پر علی الاعلان ڈاکے ماریں گے تو یہ اس بات کا نمایاں ترین ثبوت ہوگا کہ ہمارے ملک کی اور ہماری سوسائٹی کی اخلاقی حالت کس قدر کھوکھلی ہے، کتنے آدمی ہیں جو صرف اس وجہ سے شریف بنے ہوئے ہیں کہ قانون نے ان کو شریف بنا رہنے پر محبور کررکھا ہے، کتنے آدمی ہیں جو ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ان کو اطمینان ہوجائے کہ دنیا میں ان پر کوئی گرفت کرنے والا نہیں ہے، کتنے آدمی ہیں جنہوں نے مذہب اور61/149 اخلاق اور انسانیت کے جھوٹے لبادے اوڑھ رکھے ہیں حالانکہ اگر موقع میسر آجائے اور کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو تو ان سے بدترین اخلاقی اور لامذہبیت اور حیوانیت کا صدور نہایت آسانی سے ہوسکتا ہے۔ یہ اخلاقی ناسور جو چھپا ہوا ہے اور اندر ہی اندر ہماری قومی سیرت کو گلا اور سڑا رہا ہے۔ہم اس کو علی رؤوس الاشہاد بے پردہ کرکے رکھ دیں گے تاکہ ہمارے ملک کا اجتماعی ضمیر چونک پڑے اور اسے ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو کہ جس مرض سے وہ اب تک غفلت برت رہا ہے وہ کتنی دور پہنچ چکا ہے۔
استدراک
مارچ 1949ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی ۔ اس
کے بعد پاکستان اصول و عقیدہ کے لحاظ سے اسلامی ریاست کی حیثیت اختیار کرگیا۔
اس آئینی تغیر کے بعد جماعت اسلامی کے نقطۂ نظر میں بھی تبدیلی واقع ہونا
لازمی تھا۔ چنانچہ اس کے بعد جماعت نے جو نیا لائحۂ عمل وضع کیا وہ چار بڑے
بڑے مقاصد پر مشتمل ہے:
اول یہ کہ اس مملکت کو ان تمام فکری اور عملی رحجانات سے بچا یا جائے جو اسے
اسلام کے راستہ سے منحرف کرنے والے ہیں۔ دوم یہ کہ عوام الناس کی ذہنی اور
اخلاقی اصلاح کی جائے یہاں تک کہ ہمارا معاشرہ جاہلیت کی بنیادوں سے ہٹ کر
اسلام کی صالح بنیادوں پرقائم ہو اور اس قابل بن جائے کہ اس میں برائیاں دبیں
اور بھلائیاں نشو نما پائیں۔
سوم یہ کہ ہماری اس نئی مملکت کی تعمیر لازماً انہی بنیادوں پر قائم ہو جو
قرار دادِ مقاصد میں متعین کردی گئی ہیں اور کسی ایسی تدبیر کو نہ چلنے دیا
جائے جو قرار دادِ مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر یہاں ایک غیر اسلامی طرز کا
نظام حکومت قائم کرنے کے لیے اختیار کیا جائے۔
چہارم یہ کہ آئینی ذرائع سے مملکت کی موجودہ قیادت کو ایک صالح قیادت سے تبدیل
کیا جائے اور اسے بروئے کا ر لاکر قوانین، نظم و نسق، تعلیم ، مالیات، معاشی
نظام، فلاح عمومی، دفاع اور خارجی سیاست میں ایسی اصلاحات کی جائیں جن سے
پاکستان دنیا میں اسلام کی صحیح نمائندہ ریاست بن جائے۔
(ملاحظہ ہو کتاب :- "جماعت اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحۂ عمل"۔ اس کتاب کا
پہلا ایڈیشن یکم نومبر 1951ء کو شائع ہوا۔ مرتب)
ہمارا طریقِ تربیت href="#_ftn7" name="_ftnref7" title="">[7] 62/149
ہمارے نصب العین،مقصد اور مسلک سے جو لوگ متفق ہوجاتے ہیں ان کی تربیت کے لیے
ہمیں کوئی خانقاہ یا تربیت گاہ قائم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔اول روز سے
ہمارا اعتماد تربیت کے اس فطری طریقے پر رہا ہے جس سےمکے کے ابتدائی مسلمان
تیار کیے گئے تھے۔ ان مسلمانوں کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان کی اپنی بستی کے
کوچہ و بازار ہی تربیت گاہ تھے۔ زندگی کی آزمائشیں ہی ان کوبنانے اور نکھارنے
کے لیے کافی تھیں۔ دعوتِ حق کو قبول کرکے جب انہوں نے ایک اصول کی پابندی کا
فیصلہ کرلیا تو انہیں تربیت دینے کے لیے کسی جنگل یا کھوہ میں لے جانے کی
ضرورت پیش نہ آئی، نہ ان کی سیرتوں کی تیاری کے لیے کوئی الگ ادارہ قائم کرنا
پڑا۔ وہی معاشرہ جس کے اندر وہ رہتے تھے ان کی زبان سے اصول حق کی پابندی کا
اعلان سنتے ہی اور ان کی زندگی میں اس اعلان کا اثر محسوس کرتے ہی ان کو رگڑنے
مانجھنے اور تپا تپا کر پختہ کرنے میں لگ گیا اور اسی تربیت گاہ سے وہ لوگ
تیار ہوکر نکلے جو اگرچہ مٹھی بھر تھے مگر انہوں نے چند سال کے اندر عرب کا
نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ ٹھیک یہی طریقہ تھا جس کی ہم نے تقلید کی۔ اسی فطری طریق
تربیت کی جماعت نے اقتدا کی ۔ چنانچہ جو شخص بھی جماعت اسلامی میں داخل ہوا اس
سے بس یہ عہد لے کر چھوڑ دیا گیا کہ اب وہ اللہ رب العالمین کا مطیع فرمان اور
محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا پیرو بن کر رہے گا اور محمد عربی ﷺ
کی ہدایت کا پیرو بن کر رہے گا اور اس مقصد کے لیے کام کرے گا کہ اللہ اور
رسول کا دین دنیا میں غالب ہوکر رہے ۔ اس کے بعد جو جس ماحول میں تھا وہیں اس
کے لیے ایک ہمہ گیر اور ہمہ وقت تربیت گاہ کھل گئی۔ یہ روش اختیار کرتے ہی ہر
شخص کو ہر جگہ ایک کشمکش سے سابقہ پیش آیا۔ جس کی ابتداء اس کے اپنے نفس سے
ہوئی اور پھر اس کا دائرہ ان تمام گوشوں تک پھیلتا چلا گیا جہاں اس کی اس نئی
روش کا اس بگڑی ہوئی سوسائٹی کے طور طریقوں سے تصادم ہوتا تھا جو لوگ اپنی
سیرت کے جس گوشے میں بھی خامی رکھتے تھے وہ اسی گوشے میں شکست کھاگئے اور اس
کشمکش نے ان کو آپ ہی آپ چھانٹ کر الگ پھینک دیا،مگر جو 'ربنا اللہ' کہہ کر
اپنے اس قول پر مضبوطی کے ساتھ جم گئے ان کے لیے یہی کشمکش ایک بہترین مربی
اور مزکی ثابت ہوئی۔اس نے ان کو صبر کی، تحمل کی ، ایثار و قربانی کی مشق
کرائی۔ اس نے ان کو دُھن کا پکا اور ارادے میں پختہ بنایا۔اس نے ان میں اپنے
نصب العین سے عشق اور اس کے لیے جدوجہد کا ولولہ پیدا کیا۔ اس نے ان کو جذبات
اور خواہشات پر قابو پانا سکھایا۔ اس نے ان کو اس قابل بنایا کہ جس چیز کو حق
سمجھیں اس کے لیے کسی خاجی دباؤ یا لالچ کے بغیر اپنے ایمان کے تقاضے سے اپنا
وقت اپنی محنتیں اور اپنے اوقات صرف کریں اور اسی نے ان میں یہ طاقت پیدا کی
کہ اپنے مقصد کی راہ میں نقصانات اٹھائیں، خطرات سہیں، مشکلات کا مقابلہ کریں
اور بعد کے مراحل کی شدید تر آزمائشوں کا سامنا کرسکیں۔
63/149 تربیت کے اس فطری کورس کی مدد پر تین چیزیں اور تھیں جو ان کی کسر پوری کرنے والی تھیں۔ ایک دعوت و تبلیغ، دوسرے نظام جماعت اور تیسرے روح تنقید۔
دعوت و تبلیغ
دعوت و تبلیغ کاصرف یہی ایک فائدہ نہیں ہے کہ آدمی دوسروں کی اصلاح کا فریضہ
انجام دیتا ہے جو اس کی عاقبت کے لیے مفید ہے بلکہ اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ
آدمی کی اپنی اصلاح بھی ساتھ ساتھ ہوتی جاتی ہے۔ جو شخص کسی چیز کوحق مان کر
اپنی جگہ بیٹھا رہ جاتا ہے اور صرف اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے پر قانع
ہوجاتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک سرمایہ لے کر گھر بیٹھ جائے اور
اسی پر گزر بسر کرتا رہے۔ ایسے شخص کا سرمایہ صرف یہی نہیں کہ بڑھتا نہیں ہے
بلکہ کام میں نہ لگنے کی وجہ سے الٹا گھٹتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت
ایسا بھی آجاتا ہے جب اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ بخلاف اس کے جو شخص
حق بات کو پاکر اسے پھیلانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے اس کی مثال اس تاجر کی سی
ہے جو اپنے سرمائے کو کاروبار میں لگادے۔ اسی طرح وہ دوسرے بہت سے لوگوں کی
رزق رسانی کا موجب بھی بنتا ہے اور اس کا اپناسرمایہ بھی یوماً فیوماً بڑھتا
چلا جاتا ہے ۔ تبلیغ حق کی یہ خاصیت ہے کہ جو شخص اس میں مشغول ہو وہ سرگرم
ہوتا ہے۔ اس کا چرچاکرنے، اس کی اشاعت کی راہیں تلاش کرنے، اس کی تائید میں
دلائل ڈھونڈنے اور اس کی راہ کی رکاوٹیں دور کرنے کی فکر جتنی زیادہ اس کو
لاحق ہوتی ہے اسی قدر زیادہ وہ اس میں مستغرق ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی خاطر جب
وہ طرح طرح کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرتا ہے، گالیاں سنتا ہے، طعنے سہتا ہے،
الزامات اور اعتراضات برداشت کرتا ہے اور بسا اوقات چوٹیں کھاتا ہے اور ستایا
جاتا ہے تو یہ ساری تکلیفیں حق کے ساتھ اس کے عشق کو اور زیادہ بڑھاتی چلی
جاتی ہیں۔ پھر یہ تبلیغ اس کی تکمیل میں ایک اور طرح سے بھی مددگار ہوتی ہے جب
وہ کہتا ہے کہ اپنی پوری زندگی خدا کی بندگی میں دے دو۔ اپنی زندگی سے تضاد
اور منافقت کو دور کرو اور جاہلیت کے ایک ایک اثر کو اپنے اندر سے نکالو تو اس
کے گردوپیش کی دنیا میں سے سینکڑوں نگاہیں خوردبین لگا لگا کر اس کی اپنی
زندگی کا جائزہ لینا شروع کردیتی ہیں اور اس کی کوئی خامی ایسی نہیں رہ جاتی
جس کی نشان دہی کرنے سے زبانیں چوک جائیں۔ اس طرح ایک آدمی کو مانجھنے اور صاف
کرنے میں بہت سے بندگانِ خدا ، دانستہ یا نادانستہ لگ جاتے ہیں جو اپنے ناقدین
کی اس خدمتِ بے مزد سے فائدہ اٹھاتا ہے اس کی تکمیل آپ سے آپ ہوتی چلی جاتی ہے
اور جو اس تنقیدِ عام سے شکست کھا کر بھاگ نکلتا ہے وہ خود ہی ثابت کردیتا ہے
کہ وہ دعوتِ حق کے کام کا آدمی نہیں ہے۔
نظم جماعت
نظمِ جماعت کے لیے ہم نے اول روز سے جو بات لوگوں کے ذہن نشین کی وہ یہ تھی کہ اس جماعت میں وہی شخص داخل ہو جو اس کو جانچ کر پرکھ کر پہلے اچھی طرح اس بات کا اطمینان کرلے کہ یہ جماعت فی الواقع اقامتِ دین کے لیے قائم ہوئی ہے اور اس کی دعوت، طریقِ کار اور اصولِ تنظیم وہی ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق اقامتِ دین کی سعی کرنے والی ایک جماعت کے ہونے چاہئیں۔ پھر جب اس معاملے میں پوری طرح مطمئن ہوجانے کے بعد وہ جماعت میں آئے تو اسے ٹھیک اسی سمع و طاعت فی المعروف کا التزام کرنا چاہیے جس کا حکم قرآن اور حدیث میں دیا گيا ہے۔ اس کے بعد جماعت کے ڈسپلن کو توڑنا محض یہی معنی نہیں رکھتا کہ آدمی نے ایک پارٹی کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے خود اپنے عقیدے میں جس کا م کو خدا کا کام سمجھا تھا اس کو جان بوجھ کر خراب کیا اور قصداً خدا اور رسول کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ 64/149
جماعتِ اسلامی نے اس قاعدے کی پابندی سے پہلا فائدہ تو یہ اٹھایا کہ اس میں
ایسے لوگ بہت کم داخل ہوسکے جو اس کے برحق ہونے پر مطمئن نہ ہوں اور محض کسی
دماغی لہر کی وجہ سے یا عارضی کشش کے باعث جماعت کی طرف مائل ہوگئے ہوں اور
دوسرا فائدہ یہ اٹھایا کہ جو لوگ بھی جماعت میں آئے وہ ڈسپلن کی پابندی کے لیے
کسی خارجی دباؤ کے محتاج نہ تھے۔ انہوں نے زیادہ تر خود اپنے ایمان کے تقاضے
سے ڈسپلن کو قبول کیا اور انہیں باقاعدگی، نظم اور ضبط کے ساتھ کام کرنےکا
عادی بنانے میں کچھ زیادہ زحمت پیش نہیں آئی۔اب اگر ہمارا ڈسپلن ایک اسلامی
جماعت کے معیارِ مطلوب سے کم ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ایمان اس درجہ کا
نہیں ہے جیسا صحابہ کرام کا ایمان تھا لیکن اس لحاظ سے اپنی ساری خامیوں کے
باوجود ہم بلاشائبہ مبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی اپنے نظم و ضبط
اور اپنے کارکنوں کی باقاعدگی کے اعتبار سے اس ملک کی دوسری تمام جماعتوں کے
مقابلے میں نمایاں امتیاز رکھتی ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس کو جماعت کے مخالفین
بھی تسلیم کرتے ہیں۔
روحِ تنقید
جماعت کی اندرونی خرابیوں کی اصلاح اور اس کے کارکنوں کی تربیت اور تکمیل کے لیے تیسری اہم چیز جس سے ہم نے مدد لی تھی وہ یہ تھی کہ اول روز سے ہم نے جماعت کے اندر روح تنقید کو بیدار رکھنے کی کوشش کی۔ تنقید ہی وہ چیز ہے جو ہر خرابی کی بروقت نشان دہی کرتی اور اس کی اصلاح کا احساس پیدا کرتی ہے۔ احتماعی زندگی کے لیے اخلاقی حیثیت سے صفائی کی اہمیت ہے۔ جس طرح نجاست و طہارت کی حس مٹ جانے اور صفائی کی کوشش بند ہوجانے سے ایک بستی کا سارا ماحول گندا ہوجاتا ہے اور اس کی فضا ہر طرح کے امراض کے لیے سازگار ہوجاتی ہے، ٹھیک اسی طرح65/149 تنقیدی نگاہ سے خرابیوں کو دیکھنے والی آنکھیں، بیان کرنے والی زبانیں اور سننے والے کان اگر بند ہوجائیں تو جس قوم، سوسائٹی یا جماعت میں یہ حالت پیدا ہوگی وہ خرابیوں کی آماجگاہ بن کر رہے گی اور پھر اس کی اصلاح کسی طرح نہ ہو سکے گی۔ اس حقیقت سے ہم کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ہم نے عام انسانیت کی، اپنے ملک کی اور اپنی ملت کی خرابیوں پر تنقید کرنے میں جو آزادی برتی اسی آزادئ تنقید کو اپنی جماعت میں بھی برقرار رکھا تاکہ جماعت کے اندر جہاں جو خرابی بھی موجود ہو، اس کی بروقت نشان دہی ہوجائے اور اسےدور کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ جماعت کے ہر شخص کو محض تنقید کا حق ہی حاصل نہیں ہے بلکہ یہ اس کا فرض ہےکہ کسی خرابی کو محسوس کرکے خاموش نہ رہ جائے۔ یہ بات ہر رکن جماعت کے اجتماعی فرائض میں داخل ہے کہ اپنے ساتھی ارکان کی ذات میں یا ان کے جماعتی کردار میں، یا اپنی جماعت کے نظم میں، یا جماعت کے لیڈروں میں اگر وہ کوئی نقص پائے تو اسے بلا تکلف بیان کرے اور اصلاح کی دعوت دے۔ اسی طرح جن لوگوں پر تنقید کی جائے ان کو بھی اس بات کا عادی بنایا گیا ہے کہ وہ نہ صرف تنقید کو برداشت کریں بلکہ ٹھنڈے دل سے اس پر غور کریں اور جس نقص کی نشان دہی کی گئی ہے وہ اگر واقعی موجود ہو تو اسے روکنے کی طرف توجہ کریں۔ ورنہ تنقید کرنے والے کی غلط فہمی رفع کریں۔ اس معاملے میں تنقید کے جائز حدود اور معقول طریقے نہ معلوم ہونے کی وجہ سے بسا اوقات غلطیاں بھی ہوئی ہیں اور ان کا کچھ نہ کچھ نقصان بھی ہمیں اٹھانا پڑا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے کبھی جماعت میں روحِ تنقید کو خوابیدہ نہ ہونے دیا اور اسی کا یہ فائدہ ہےکہ جماعت کا ہر فرد پوری جماعت کی تربیت اور تکمیل میں مدد دے رہا ہے اور اپنی تکمیل و تربیت میں اس سے مدد پارہاہے۔
لائحۂ عمل[8]
ہمارے مقصد و مسلک کو سمجھ لینے کے بعد کسی کو ہمارے لائحۂ عمل کے سمجھنے میں
کوئی دشواری پیش نہیں آسکتی ۔ اس کے چار بڑے بڑے اجزاء ہیں جنہیں میں الگ الگ
بیان کروں گا :-
1. تطہیر افکار و تعمیر افکار
اس کا پہلا جز تطہیرِ افکار و تعمیرِ افکار ہے۔ ہم کئی سال سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ہماری کوشش کا سلسلہ برابر جاری ہے کہ ایک طرف غیر اسلامی قدامت کے جنگل کوصاف کیا جائے، دوسر ی طرف مغربی علوم و فنون اور نظامِ تہذیب و تمدّن پر تنقید کرکے بتلایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابل ِ اخذ اور تیسری طرف وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانۂ حال کے مسائل و معاملات پر منطبق66/149 کرکے ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہوسکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبہ کیا ہوگا۔اس طریقہ سے ہم خیالات کو بدلنے اور ان کی تبدیلی سے زندگيوں کا رخ پھیرنے اور ذہنوں کو تعمیر نو کے لیے فکری غذا بہم پہنچانے کوشش کررہے ہیں۔ اس کوشش کے نتائج ہمارے لٹریچر اور ہماری شائع شدہ تقریروں کی شکل میں آپ کے سامنے موجود ہیں۔ ہر شخص انہیں دیکھ کر معلوم کر سکتا ہے کہ ہم کس رخ پر جارہے ہیں اور کدھر اپنی قوم کو لے جانا چاہتے ہیں۔
2. صالح افراد کی تنظیم و تربیت
اس کا دوسر جز صالح افرا د کی تلاش ، تنظیم اور تربیت ہے۔ ہم اپنی آبادیوں میں
ان مردوں اور عورتوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو پرانی اور نئی خرابیوں سے پاک ہوں یا
اب پاک ہونے کے لیے تیار ہوں، جن کے اندر اصلاح کا جذبہ موجود ہو، جو حق کو حق
مان کر اس کے لئے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں،
خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں
سے، خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط۔ ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہیں، ہم انہیں
گوشۂ عافیت سے نکال کر میدانِ سعی و عمل میں لانا چاہتے ہیں۔ اگر ہمارے مقصد،
طریقِ کار اور نظامِ جماعت کو قبول کرلی تو انہیں اپنی جماعت کا کارکن
بنالیتے ہیں، اور اگر وہ رکنیت کی شرائط پوری کئے بغیر صرف تائید اور اتفاق پر
اکتفا کریں تو ان کو اپنے حلقۂ متفقین میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس سے
ہمارا مقصد یہ ہےکہ ہمارے معاشرے میں جو ایک صالح عنصر بچا کھچا موجود ہے، مگر
منتشر ہونے کی وجہ سے، یا جزو ی اصلاح کی پراگندہ کوشش کرنےکی وجہ سے کوئی
مفید نتیجہ پیدا نہیں کررہا ہے، اسے چھانٹ چھانٹ کر ایک مرکز پر جمع کیا جائے
اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح و تعمیر کے مطابق اس کو اصلاح و
تعمیر کی منظم سعی میں لگایا جائے۔
ہم صرف اس تنظیم ہی پر قناعت نہیں کررہے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ان منظم ہونے
والوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا بھی انتظام کررہے ہیں تاکہ ان کی فکر زیادہ
سے زیادہ پاکیزہ، مضبوط اور قابلِ اعتماد ہو۔ ہمارے پیش نظر ابتداء سے یہ
حقیقت ہے کہ اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعؤوں کے بل پر قائم نہیں
ہوسکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر
تعمیری صلاحیتیں اور صالح انفرادی سیرتیں موجود ہیں یا نہیں۔ کاغذی نقشوں کی
خامی تو اللہ کی توفیق سے علم اور تجربہ ہر وقت رفع کرسکتا ہے، لیکن صلاحیت
اور صالحیت کا فقدان سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو
سہار نہیں سکتا۔
3. اصلاح ِ معاشرہ
اس کا تیسرا جز ہے اجتماعی اصلاح کی سعی ۔ اس میں سوسائٹی کے ہر طبقے کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہوسکتا ہے جتنے ہمارے ذرائع وسیع ہوں۔ ہم اپنے ارکان اور متفقین کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہرایک کے سپرد وہ کام کرتے ہیں جس کے لئے وہ اہل تر ہو۔ ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کررہا ہے اور کوئی دیہاتی عوام میں۔ کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہے اور کوئی مزدوروں کی طرف۔ کوئی متوسط طبقے کو خطاب کررہا ہے اور کوئی تجارت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لئے۔ کسی کی توجہ پرانی درسگاہوں کی طرف ہے اور کسی کی نئے کالجوں کی طرف۔ کوئی جمود کے قافلوں کو توڑنے میں لگا ہوا ہے اور کوئی الحاد و فسق کے سیلاب کو روکنے میں۔ کوئی شعر و ادب کے میدان میں کام کررہا ہے اور کوئی علم و تحقیق کے میدان میں۔ یہ سب اگرچہ اپنے الگ حلقہ ہائے کار رکھتے ہیں، مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی اسکیم ہے جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کامتعین نصب العین یہ ہے کہ اس ذہنی، اخلاقی اور عملی انارکی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رحجانات کی وجہ سے ساری قوم میں پھیلی ہوئی ہے اور عوام سے لے کرخواص تک، سب میں صحیح اسلامی فکر، سیرت اور سچے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا کی جائے۔ 67/149
یہ کام صرف وعظ و تلقین اور نشر و اشاعت اور شخصی ربط و مکالمہ ہی سے نہیں کیا
جارہا ہے، بلکہ مختلف سمتوں میں باقاعدہ تعمیری پروگرام بنا کر پیش قدمی کی
جارہی ہے۔ مثلاً ہمارے کارکن جہاں کہیں اپنی تبلیغ سے چند آدمیوں کو متفق
بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہاں و ہ انہیں ملا کر ایک حلقہ متفقین منظم کرتے
ہیں اور پھر ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کردیتے
ہیں، جس کے چند اجزا یہ ہیں: بستی کی مسجدو ں کی اصلاح عام۔ عام باشندوں کو
اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرانا۔ تعلیم بالغان کا انتظام۔ کم از کم
ایک دارالمطالعہ کا قیام۔ لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانے کے لئے اجتماعی جدوجہد
۔ باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفضانِ صحت کی کوشش ۔ بستی کے یتیموں ،بیواؤں
، معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں تیار کرنا اور اگر ذرائع فراہم
ہوجائيں تو کوئی پرائمری اسکول، یا ہائی اسکول، یا مذہبی تعلیم کا ایسا مدرسہ
قائم کرنا جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی انتظام ہو۔
اسی طرح ہم مزدوروں کو اشتراکیت کے زہر سے بچانے کے لیے صرف تبلیغ ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ عملاً ان کے مسائل کو حل کرنےکی بھی سعی کرتے ہیں چنانچہ ہم نے مزدوروں اور کارکن طبقوں کی نئی تنظیمات کا سلسلہ شروع کردیا ہے جن کی بنیاد اسلامی فکر پر رکھی گئی ہے۔ ان تنظیمات کا مقصد انصاف کا قیام ہے نہ کہ ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنانا۔ ان کا مسلک جائز اور معقول حقوق کے حصول کی جدوجہد ہے نہ کہ طبقاتی کشمش۔ ان کا طریقِ کار اخلاقی اور68/149 آئینی ہے نہ کہ توڑ پھوڑ اور تخریب۔ ان کے پیش نظر صرف اپنے حقوق ہی نہیں ہیں بلکہ فرائض بھی ہیں اور جو مزدور یا کارکن بھی ان میں شامل ہوتے ہیں ان پر یہ شرط عائد کی جاتی ہے کہ وہ ایمان داری کے ساتھ اپنے حصے کا فرض ضرور ادا کریں گے۔ پھر ان کا دائرہ عمل صرف اپنے طبقے کے مفاد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ تنظیمات جس طبقے سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی حالت کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس عمومی اصلاح کے پورے لائحۂ عمل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس حلقے اور
طبقے میں بھی کام کرے مسلسل اور منظم طریقے سے کرے اور اپنی سعی کو ایک نتیجے
تک پہنچائے بغیر نہ چھوڑے۔ ہم اس کے قائل نہیں ہیں کہ ہوا کے پرندوں اور آندھی
کے جھکڑوں کی طرح بیج پھینکتے چلے جائیں۔ اس کے برعکس ہم کسان کی طرح کام کرنا
چاہتے ہیں جو ایک متعین رقبے کو لیتا ہے، پھر زمین کی تیاری سے لے کر فصل کی
کٹائی تک مسلسل کام کرکے اپنی محنتوں کو ایک نتیجہ تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔
پہلے طریقے سےجنگل پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے طریقے سے باقاعدہ کھیتیاں تیار ہوا
کرتی ہیں۔
4. نظام حکومت کی اصلاح
اس لائحۂ عمل کا چوتھا جز نظامِ حکومت کی اصلاح ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی
کے موجودہ بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی تدبیر بھی کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ
اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ نظام حکومت کو درست کرنے کی کوشش بھی نہ
کی جائے۔ اس لئے کہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق اور تقسیم ِرزق کی طاقتوں
کے بل پر جو بگاڑ اپنے اثرات پھیلا رہا ہو، اس کے مقابلے میں بناؤ اور سنوار
کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین کے ذرائع پر منحصر ہوں کبھی کارگر نہیں
ہوسکتیں۔ لہٰذا اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظام زندگی کو فسق و ضلالت کی
راہ سے ہٹا کر دین حق کی صراط مستقیم پر چلانا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ناگزیر
ہے کہ بگاڑ کو مسند اقتدار سے ہٹانے اور بناؤ کو اس کی جگہ متعین کرنے کی براہ
ِ راست کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اگر اہلِ خیر و اصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو
تعلیم اور قانون اور نظم و نسق کی پالیسی کو تبدیل کرکے چند سال کے اندر وہ
کچھ کرڈالیں گے جو غیر سیاسی تدبیروں سے ایک صدی میں بھی نہیں ہوسکتا۔
یہ تبدیلی کس طرح ہوسکتی ہے؟ ایک جمہوری نظام میں اس کا راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے انتخابی جدوجہد۔ رائے عام کی تربیت کی جائے۔ عوام الناس کے معیار ِ انتخاب کو بدلا جائے۔ انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ایسے صالح لوگوں کو اقتدار کے مقام پر پہنچایا جائے جو ملک کے نظام کو خالص اسلام کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی۔ خوش قسمتی سے قراردادِ مقاصد نے ہمارے راستے سے وہ دوسری رکوٹیں دور کردی ہیں جو69/149 ہمارے لئے اب تک اس طریقے کو اختیار کرنے میں سدِّ راہ بنی ہوئی تھیں۔ ان رکاوٹوں کے دور ہوتے ہی اب ہم نے انتخابات میں حصہ لینا شروع کردیا ہے اور اس کام میں وہی مقصد ہمارے پیش نظر ہے جو میں نے ابھی آپ سے بیان کیا ہے۔
تحریک اسلامی کے علمبرداروں کی لازمی خصوصیات [9]
o صالح گروہ کے لیے کم از کم ضروری صفات
o تحریک سے وابستگی کا معیار
o کارکنوں کا اصل سرمایہ
o راہِ حق کے لئے ضروری توشہ
آپ حضرات یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ آپ دراصل امّت وسط بننے کے
امیدوار ہیں، آپ کا مقصود یہ ہے کہ اس مقام بلند کو حاصل کرلیں۔ اتنے بڑے منصب
کی امیدواری کے لیے اٹھ کھڑے ہونا پھر اس کی عظمت کو محسوس نہ کرنا ، نہ اس کے
لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ایک عظیم الشان بے خبری ہے۔اور اس سے بڑھ کر بے خبری
یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ ان کم سے کم صفات سے بھی ابھی تک متّصف نہ ہوئے ہوں جو
اس کار عظیم کے لئے ضروری ہیں، اور دوسری طرف آپ تقاضا کریں کہ فوراً ہی کوئی
بڑا قدم اٹھادیا جائے۔ کیا آّ پ اتنا نہیں سمجھتے اور اس سے ڈرتے نہیں کہ اگر
آپ نے کوئی ایسا قدم اٹھایا جس کے لئے ضروری استعداد آپ نے اپنے اندر پیدا
نہیں کی ہے، تو آپ منہ کی کھاکر پسپا ہوں گے اور اس راہ میں پیچھے ہٹنا فرار
من الزحف ہے جو خدا کی شریعت میں بہت بڑا گناہ ہے۔
اب میں مختصر طور پر آپ کو بتاؤں گا کہ وہ کم سے کم صفات کیا ہیں جو اس دعوت کے لئے کام کرنےوالوں میں ہونی چاہیئں۔ دوسری جو ایک صالح جماعت بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ اور تیسری وہ جو مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لئے ناگزیر70/149 ہیں۔
شخصی اوصاف
مجاہدۂ نفس
شخصی اوصاف میں پہلا اور بنیادی وصف یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ہر شخص اپنے نفس سے
لڑ کر پہلے اسے مسلمان اور خدا کا مطیعِ فرمان بنائے یہ وہی بات ہے جسے حدیث
میں یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ: المجاھد من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللہ : حقیقی
مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے کشمکش کرے
یعنی قبل اس کے کہ آپ باہر کی دنیا میں خدا کے باغیوں سے مقابلہ کے لئے نکلیں۔
اس باغی کو مطیع بنائیے جو خود آپ کے اندر موجود ہے،اور خدا کے قانون اور اس
کی رضا کےخلاف چلنے کے لئے ہر قت تقاضا کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ باغی آپ کے اندر
پل رہا ہے، اور آپ پر اتنا قابو یافتہ ہے کہ آپ سے رضائے الہی کے خلاف اپنے
مطالبے منواسکتا ہے تو یہ ایک بالکل بے معنی بات ہے کہ آپ بیرونی باغیوں کے
خلاف اعلان جنگ کریں۔ یہ تو بالکل وہی بات ہوئی کہ گھر میں شراب کی بوتل پڑی
ہے اور باہر شرابیوں سے لڑائی ہورہی ہے۔ یہ تضاد ہماری تحریک کے لئے تباہ کن
ہے پہلے خود خدا کے آگے سرجھکائیے پھر دوسروں سے اطاعت کا مطالبہ کیجئے۔
ہجرت وسیع معنی کے لحاظ سے
جہاد کے بعد دوسرا درجہ ہجرت کا ہے۔ ہجرت کا اصل مدعا گھر بار چھوڑنا نہیں ہے
بلکہ خدا کی نافرمانی سے بھاگ کر خدا کی رضا جوئی کی طرف بڑھنا ہے اصلی مہاجر
ترکِ وطن اگر کرتا ہے تو اس لئے کہ اس کے وطن میں قانون الہی کے مطابق زندگی
بسر کرنے کے مواقع نہیں ہیں۔ لیکن اگر کسی شخص نے گھر بار چھوڑا اور اللہ کی
فرماں برداری اختیار نہ کی تو اس نے حماقت کی۔ یہ حقیقت بھی احادیث میں اچھی
طرح واضح کردی گئی ہے۔ بطور مثال ایک حدیث کو لیجئے آنحضور ﷺ سے عرض کیا گیا
کہ: ماالہجرۃ افضل یا رسول اللہ : یا رسول اللہ ﷺ کون سی ہجرت بہتر ہے ؟ جواب
ملا : ان تہجر ما کرہ ربک : یہ کہ تو ان چیزوں کو چھوڑدے جو اللہ کو ناپسند
ہیں۔
اندر کا باغی اگر مطیع نہ ہو تو آدمی کا ترک وطن کردینا خدا کی بارگاہ میں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ71/149 آپ حضرات باہر کی قوتوں سے پہلے اپنے اندر کی سرکش قوتوں سے لڑئیے اور اصطلاحی کفار کو مسلمان بنانے سے پہلے اپنے نفس کو مسلمان بنائیے۔ اس معنی کو جامع تر الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ حدیث نبوی کے مطابق اپنے آپ کو اس گھوڑے کی طرح بنائیے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہے۔ اور وہ کتنا ہی گھومے پھرے ہر حال میں اس حد سے آگے نہیں جاسکتا جہاں تک رسّی اسے جانے دیتی ہے۔ مثل الایمان کمثل الفرس فی آخیتہ یجول ثم یرجع الی آخیتہ : ایسے گھوڑے کی حالت آزاد گھوڑے سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو ہر میدان میں گھومتا ہے۔ ہر کھیت میں گھس جاتا ہے، اور جہاں ہری گھاس دیکھتا ہے وہیں پوری بے صبری کے ساتھ ٹوٹ پڑتا ہے۔ پس آپ آزاد گھوڑے کی سی کیفیت اپنے اندر سے نکالیں، اور کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کی سی کیفیت اپنے اندر پیدا کریں۔
اس کیفیت کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرا قدم یہ اٹھائیے کہ اپنے قریبی ماحول
سے جسے میں "ہوم فرنٹ" کہوں گا، لڑنا شروع کردیجئے۔ گھر کے لوگ اعزّہ، دوست
اور سوسائٹی جس میں آپ کا گہرا ربط ہے ان سب سے ایک عملی کشمکش شروع ہوجانی
چاہیئے۔ کش مکش اس معنی میں نہیں کے آپ اپنے متعلقین سے کشتی لڑیں یا ان سے
تُو تُو میَں میَں اور مناظرہ شروع کردیں۔ بلکہ کش مکش اس معنی میں ہونی
چاہیئے کہ آپ بحیثیت فرداور بحیثیت جماعت اپنے نصب العین کے اتنے دلدادہ اور
اپنے اصول و ضوابط کے اتنے پابند ہوجائیں کہ آپ کے گرد و پیش جو لوگ کسی نصب
العین کے بغیر، بے اصول زندگیاں بسر کررہے ہیں وہ آپ کی پابندِ اصول زندگی کو
گوارا نہ کرسکیں۔ آپ کی بیویاں، آپ کی اولادیں، آپ کے والدین، آپ کے رشتہ دار
اور دوست آپ کے رویہ کے خلاف مزاحمت کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
آپ اپنے شہر میں اجنبی ہوکر رہ جائیں۔ جہاں آپ کسب معاش کے لئے رہتے ہوں وہاں
آپ کا وجود نمایاں طور پر کھٹکنے لگے۔ دفتر کی آرام کرسی جس پر بیٹھ کر جاہ و
ترقی کے خواب دیکھے جاتے ہیں آپ کے لئے انگاروں کی انگیٹھی بن کر رہ جائے۔ غرض
جو جتنا زیادہ قریبی ہو اس سے اتنا ہی پہلے تصادم شروع ہوجانا چاہیئے۔ پہلا
معرکہ تو گھر ہی سے شروع ہونا چاہیئے۔ اب تک جہاں جہاں سے اس کش مکش کی
اطلاعات آرہی ہیں وہاں کے لوگوں سے مطمئن ہورہا ہوں اور جہاں سے ایسی کوئی
اطلاعات نہیں آرہی ہیں وہاں کے لئے بے تابی سے منتظر ہوں کہ ایسی کوئی اطلاع
ملے۔
فنا فی الاسلام ہوجانا
مگر میں بر وقت یہ واضح کردوں کہ یہ ہماری کشمکش اس ذہنیت کے ساتھ ہونا چاہئیےجس کے ساتھ ایک ڈاکٹر بیماروں سے کشمش کرتا ہے۔ دراصل وہ بیمار سے نہیں لڑتا بلکہ بیماری سے لڑتا ہے۔ اور اس کی تمام تر جدوجہد ہمدردی کی روح72/149 سے لبریز ہوتی ہے وہ اگر بیمار کو کڑوی دوائيں پلاتا ہے، یا اس کے کسی عضو پر نشتر چلاتا ہے تو یہ تمام تر بربنائے اخلاص ہوتا ہے، دشمنی نہیں ہوتی۔ اس کی نفرت، اور اس کا غصہ بالکلیہ مرض کیخلاف ہوتا ہے۔ نہ کہ مریض کے خلاف۔ بالکل اسی طرح اپنے ایک گمراہ بھائی کو ہدایت کی طرف لائیے وہ کبھی کسی بات سے یہ محسوس نہ کرے کہ اسے تحقیر سے دیکھا جارہا ہے یا براہ راست اس کی فراست سے دشمنی کی جارہی ہے۔ بلکہ وہ آپ کے اندر انسانی ہمدردی محبت اور اخوت سے کام کرتا ہوا پائے۔ میں نے اجتماع دربھنگہ کے موقع پر بھی مختصراً یہ کہا تھا کہ اصلی تبلیغ تقریری اور تحریری مناظروں سے نہیں ہوا کرتی۔ یہ کام کرنے کے بہت ہی ادنٰی طریقے ہیں۔ اصل تبلیغ یہ ہےکہ آپ اپنی دعوت کا مجسم ظہور اور نمونہ ہوں۔ جہاں کہیں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے یہ نمونہ گزر جائے وہ آپ کے طرز عمل سے پہچان لیں کہ یہ ہیں خدا کی راہ کے راہی۔ جس طرح کوئی فنا فی الکانگریس آدمی سامنے آجاتا ہے تو کانگریسیت کی پوری تصویر آنکھوں کے سامنے پھرجاتی ہے۔
اسی طرح آپ ایسے فنا فی الاسلام بن جائیے کہ جہاں آپ سامنے آئیں اسلامی تحریک
کا پورا نقشہ واضح ہوجائے۔ یہی وہ چیز جسے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اذا رآ ما
ذکر اللہ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا فوراً ہوجانا چاہیے، یہ مقام تو تدریجاً ہی حاصل
ہوگا۔ خدا کی راہ میں جب اپنے ماحول سے پیہم آپ کا تصادم ہوتا رہے گا ، اور آپ
ہر آن ہر لمحہ اپنے مقصد کے لئے کوشش کرتے ہوئے قربانیاں دیتے رہیں گے۔ تو ایک
مدت میں جاکر فنائیت کی کیفیت آپ پر طاری ہوگی ۔ اور آپ اپنی دعوت کا مجسّم
ظہور بن سکیں گے۔ اس مقصد کے لئے قرآن و حدیث کو بامعانِ نظر بار بار مطالعہ
کیجئے۔ اور دیکھئے کہ اسلام کس قسم کا انسان چاہتا ہے اور آنحضور ﷺ کس طرز کے
آدمی تیار کیا کرتے تھے۔ وہ کیا صفات تھیں جواس تحریک کے کارکنوں میں پہلے
پیدا کی گئیں، اور اس کے بعد جہاد کا علم بلند کیا گیا۔ آپ میں سے ہر شخص
جانتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مُزکّی ﷺ نے جو انسان تیار کئے تھے انہیں پندرہ
برس کی تیاری کے بعد میدان میں لایا گیا۔ اس تیاری کی تفصیلات معلوم کیجئے اور
دیکھئے کہ یہ کس تدریج کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس میں کن صفات کی پرورش مقدّم تھی،
اور کن کی موخّر۔ کون سی صفات کس درجہ میں مطلوب تھیں، اور انہیں کس حد تک
ترقی دی گئی تھی اور کس مقام پر پہنچ کر اس جماعت سے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ
اب تم دنیا کا بہترین گروہ بن گئے ہو۔ اور اس قابل ہوگئے ہو کہ نوعِ انسانی کی
اصلاح کے لئے نکلو۔ یہی نمونہ خود اپنی تیاری کے لئے بھی آپ کے سامنے ہونا
چاہئیے۔
5. یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔ میں صرف دو حدیثیں آپ کی رہنمائی کے لئے پیش کروں گا۔ جن سے آپ کو معلوم73/149 ہوگا کہ اس کام کے لئے کن صفات کے آدمی درکار ہیں نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ من احبّ للہ وابغض للہ واعطا للہ و منع للہ فقد الستکمل الایمان : یعنی آدمی پورا مومن اس وقت بنتا ہے جب اس کی کیفیت یہ ہوجائے کہ اس کی دوستی اور دشمنی، اور اس کا دینا اور روکنا جو ہو خالص اللہ کے لیے ہو۔ نفسانی اور دنیوی محرکات اس کے لئے ختم ہوجائیں، دوسری حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : " أمرني ربي بتسع : خشية الله في السر والعلانية ، وكلمة العدل في الغضب والرضى ، والقصد في الفقر والغنى ، وأن أصل من قطعني ، وأعطي من حرمني ، وأعفو عمن ظلمني ، وأن يكون صمتي فكرا ، ونطقي ذكرا ، ونظري عبرة ، وآمر بالعرف "
· میرے رب نےمجھے نو چیزوں کا حکم دیاہے۔
· کھلے اور چھپے ہر حال میں خدا سے ڈرتا رہوں
· کسی پر مہربان ہوں یا کسی کے خلاف غصہ میں دونوں حالتوں میں انصاف ہی کی بات
کہوں۔
· خواہ فقیری کی حالت میں ہوں یا امیری کی حالت میں بہرحال راستی و اعتدال پر
قائم رہوں۔
· اور یہ کہ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں۔
· اور جو مجھ سے زیادتی کرے میں اسے معاف کروں
· اور جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں
· اور یہ کہ میری خاموشی تفکر کی خاموشی ہو۔
· اور میری گفتگو ذکر الہی کی گفتگو ہو۔
· اور میری نگاہ عبرت کی نگاہ ہو۔
ان اوصاف مطلوبہ کا ذکر کرنے کے بعد نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ وان امرو بالمعروف وانھی عن المنکر یعنی مجھے حکم دیا گیا کہ میں نیکی کا حکم دوں اور بدی سے روکوں۔ معلوم ہوا کہ نیکی کو پھیلانے اور بدی کو ختم کرنے کے لئے جو امت ِ وسط74/149 اٹھے اس کے فرد فرد میں یہ اوصاف ہونے چاہیئں۔ انہی اوصاف کے ساتھ یہ فریضہ ادا ہوسکتا ہے۔ یہ نہ ہوں تو ہم کبھی اپنے منصب کے مقتضیات کو پورا نہیں کرسکتے۔
جماعتی اوصاف
باہمی ہمدردی و محبت
یہ تو شخصی اصلاح کا پروگرام ہوا۔ اس سے آگے جماعتی حیثیت سے کچھ دوسرے اخلاقی
اوصاف کی ضرورت ہے ۔ جماعتی نظم کو مستحکم اور کارگر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ
ارکانِ جماعت کے درمیان محبت و ہمدردی ہو، آپس میں حسن ظن ہو، بے اعتمادی کی
جگہ اعتماد ہو،آپس میں مل کر کام کرنے کی صلاحیت ہو ،ایک دوسرے کو حق کی نصیحت
کرنے کی عادت ہو، خود آگے بڑھیں اور دوسروں کو اپنے ساتھ آگے بڑھائیں۔ یہ
اوصاف ہر جماعتی نظم کے لئے ناگزیر ہیں۔ لیکن منظم و مربوط نہ ہوں، آپس میں
متعاوِن نہ ہوں۔ شانہ سے شانہ ملا کر چل نہ سکیں۔ تو ہم دنیا میں علمبردارانِ
باطل کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شخصی حیثیت سے
بہترین انسان ہم میں ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ اور آج بھی موجود ہیں اور اگر آج
دنیا بھر میں چیلنج دے کر کہیں کہ ایسے لوگ کسی کے پاس نہ ہوں گے تو شاید اس
چیلنج کا جواب کسی قوم سے نہ دیا جاسکے۔ مگر یہ معاملہ صرف انفرادی اصلاح کی
حد تک ہے جن لوگوں نے اپنی انفرادی اصلاح میں کمال حاصل کیا ہے انہوں نے زیادہ
سے زیادہ یہ کیا کہ چند سو یا چند ہزار افراد پر اپنا اثر پھیلا دیا، اور تقدس
کی چند یادگاریں چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔ یہ طریقہ بڑے کام کرنے کا نہیں ہے۔ بڑے
سے بڑا پہلوان جو بھاری بوجھ اٹھانے اور کئی کئی آدمیوں کو کشتی میں پچھاڑنے
کی طاقت رکھتا ہو، ایک مربوط رجمنٹ کے مقابلہ میں بالکل بے کار ہے۔ اسی طرح
اگر ہم میں سے کچھ لوگ انفرادی تزکیہ کی تمام منازل طے کیے ہوئے ہوں۔ لیکن ان
میں اجتماعی رابطہ اور تعاون نہ ہو تو ان کی حیثیت اسی پہلوان کی سی ہے جو کسی
رجمنٹ کا عضو بن کر کام نہیں کرتا بلکہ منفرداً ایک رجمنٹ کودعوتِ مبارزت دیتا
ہے۔ انفرادی تزکیہ کے لحاظ سے ہماری اپنی جماعت میں بھی ایسے رفقاء کی کمی
نہیں ہے جن کی حالت پر خود مجھے رشک آتا ہے۔ مگر جہاں تک جماعتی تزکیہ کا تعلق
ہے، حالات افسوسناک ہیں۔قرآن میں اس مسئلہ پر اصولی حد تک مفصل روشنی ڈالی گئی
ہے۔ اور حدیث میں اصول کی مکمل تشریحات موجود ہیں۔ پھر سیرت نبوی اور سیر
صحابہ کے مطالعہ سے مطلوبہ اجتماعی اخلاق کے عملی نمونے بھی ملاحظہ کئے جاسکتے
ہیں۔ ان چیزوں کی ورق گردانی کیجئے اور ناپ تول کر دیکھئے کہ کس پہلو سے ہمارے
اجتماعی نظم میں کیا اور کتنی کمی ہے۔ اور اس کمی کو پورا کرنے کی فکر کیجئے۔
صاف بات ہے کہ اجتماعی نظم میں ایک فرد کو دوسرے افراد سے لامحالہ سابقہ پیش آتاہے۔ اگر حسن ظن، ہمدردی ، ایثار اور رواداری نہ ہو تو مزاجوں کا اختلاف تعاون کو چار دن بھی جاری نہیں رہنے دے گا۔ جماعتی نظم چلتا ہی اس اصول پر ہے کہ دوسروں کے لئے آپ اپنا کچھ چھوڑیں اور دوسرے آپ کے لئے کچھ چھوڑیں۔ اس ایثار کی ہمت نہ ہو تو کسی انقلاب کا نام بھی زبان پر نہ لاناچاہیئے۔ 75/149
مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لوازم
تیسری قسم کی صفات وہ ہیں جو مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لوازم میں شمار ہوتی ہیں۔
ان کا بھی قرآن و حدیث میں مفصل تذکرہ موجود ہے۔ صرف تذکرہ ہی نہیں ایک ایک
مطلوبہ صفت کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ کہ وہ کس نوعیت اور کس درجہ کی ہونی
چاہیئے۔ اس سلسلہ میں احکام و ہدایات کو جمع کیجئے ، اورسمجھئے کہ مجاہدہ فی
سبیل اللہ کے لئے کیا کیا تیاریاں کرنی ہیں۔ میں مختصراً ان کی طرف بھی اشارہ
کردینا چاہتا ہوں۔
صبر
سب سے پہلی صفت جس پر زور دیا گیا ہے صبر ہے۔ صبر کے بغیر خدا کی راہ میں کیا، کسی راہ میں بھی مجاہدہ نہیں ہوسکتا فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کی راہ میں اور قسم کا صبر مطلوب ہے۔ اور دنیا کے لئے مجاہدہ کرتے ہوئے اور قسم کا صبر مطلوب ہے۔ مگر بہرحال صبرہے ناگزیر ۔ صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ایک پہلو یہ ہے کہ جلد بازی سے شدید اجتناب کیا جائے۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے دشواریوں اور مخالفتوں او ر مزاحمتوں کے مقابلہ میں استقامت دکھائی جائے اور قدم پیچھے نہ ہٹایا جائے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ کوششوں کا کوئی نتیجہ اگر جلد ی حاصل نہ ہو تب بھی ہمت نہ ہاری جائے، اور پیہم سعی جاری رکھی جائے ایک اور پہلو یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرات، نقصانات اور خوف اور طمع کے مواقع بھی اگر پیش آجائیں تو قدم کو لغزش نہ ہونے پائے اور یہ بھی صبر ہی کا ایک شعبہ ہے کہ اشتعال جذبات کے سخت سے سخت مواقع پر بھی آدمی اپنے ذہن کا توازن نہ کھوئے۔ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی قدم نہ اٹھائے۔ ہمیشہ سکون عقل ، اور ٹھنڈی قوت فیصلہ کے ساتھ کام کرے۔ پھر حکم صرف صبر ہی کا نہیں مصابرت کا بھی ہے یعنی مخالف طاقتیں اپنے باطل مقاصد کے لئے جس صبر کے ساتھ ڈٹ کر سعی کررہی ہیں ۔ اسی صبر کےساتھ آپ بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں۔ اسی لئے "اصبروا" کے ساتھ "صابروا" کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے مقابلہ میں آپ حق کی علمبرداری کے لئے اٹھنے کا داعیہ رکھتے ہیں ان کے صبر کا اپنے صبر سے موازنہ کیجئے، اور سوچئے کہ آپ کے صبر کا کیا تناسب ہے۔ شاید ہم ان کے مقابلے میں دس فیصدی کا دعویٰ کرنے کے76/149 قابل بھی نہیں ہیں۔ باطل کے غلبہ کے لئے جو صبر وہ دکھا رہے ہیں اس کا اندازہ کرنے کے لئے موجودہ جنگ کے حالات پر نظر ڈالئے۔ کس طرح وقت آپڑنے پر ان لوگوں نے اپنے ان کارخانوں ، شہروں اور ریلوےا سٹیشنوں کو اپنے ہاتھوں سے پھونک ڈالا جن کی تعمیر اور تیاری میں سالوں کی محنتیں اور بے شمار روپیہ صرف کیا گیا تھا۔ یہ ان ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کا کھڑے ہوجاتے ہیں جو فوجوں کو اپنے آہنی پہیّوں تلے کچل ڈالتے ہیں۔ یہ دشمن کے ان بمباروں کے سائے میں استقامت سے کھڑے رہتے ہیں جو موت کے پر لگا کر اڑتے ہیں۔ جب تک ان کے مقابلے میں ہمارا صبر ۱۰۵٪ کے تناسب پر نہ پہنچ جائے ان سےکوئی ٹکر لینے کی جراءت نہیں کی جاسکتی۔ جب سروسامان کے لحاظ سے ہم ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو پھر سروسامان کی کمی کو صبر ہی سے پورا کیا جاسکتا ہے۔
ایثار
دوسری چیز جو مجاہدہ کا لازمہ ہے ایثار کی صفت ہے۔ وقت کا ایثار، محنتوں کا
ایثار اور مال کا ایثار۔ ایثار کے اعتبار سے بھی باطل کا جھنڈا اٹھانے والی
طاقتوں کے مقابلہ میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ حالانکہ بے سروسامانی کی تلافی کے لئے
ہمیں ایثار میں بھی ان سے میلوں آگے ہونا چاہیئے۔ مگر یہاں صورت واقعہ یہ ہے
کہ ایک شخص بیس، پچاس سو اور ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے عوض اپنی پوری
صلاحیتیں خود اپنے دشمن کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اور اس طرح ہماری قوم کا کارآمد
جوہر بیکار ہوجاتا ہے،۔ یہ دماغی صلاحیتیں رکھنے والا طبقہ اتنی ہمت نہیں
رکھتا کہ ایک بڑی آمدنی کو چھوڑ کر یہاں محض بقدر ضرورت قلیل معاوضہ پر اپنی
خدمات پیش کردے۔ پھر فرمائیے کہ اگر یہ لوگ اتنا ایثار بھی نہ کریں گے، اوراس
راہ میں پتّہ مار کر کام نہ کریں گے تو پھر اسلامی تحریک کیسے پھل پھول سکتی
ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی تحریک محض والینٹروں کے بل پر نہیں چل سکتی جماعتی
نظم میں والنٹیروں کو اسی درجہ اہمیت حاصل ہے جیسی ایک آدمی کے نظام جسمانی
میں ہاتھ پاؤں کو ہے۔یہ ہاتھ اور پاؤں اور دوسرے اعضاء کس کام کے ہوسکتے ہیں
اگر ان سے کام لینے کے لئے دھڑکنے والے دل اور سوچنے والے دماغ موجود نہ ہوں
دوسرے لفظوں میں ہمیں والینٹروں سے کام لینے کے لئے اعلی درجہ کے جنرل چاہیئں،
مگر مصیبت یہ ہے کہ جن کے پاس دل اور دماغ کی قوتیں ہیں وہ دنیوی ترقیوں کے
دلدادہ ہیں اور مارکیٹ میں اسی کی طرف جاتے ہیں جو زیادہ قیمت پیش کرے۔ نصب
العین سے ہماری قوم کے بہترین افراد کی وابستگی ابھی اس درجہ کو نہیں پہنچی ہے
کہ وہ اس کی خاطر اپنے منافع کو بلکہ منافع کے امکانات تک کو قربان کرسکیں۔ اس
ایثار کو لے کر اگر آپ یہ توقع کریں کہ وہ مفسدین عالم جو روزانہ کروڑوں روپیہ
لاکھوں جانوں کا ایثار کررہے ہیں ہم سے کبھی شکست کھاسکتے ہیں، تو یہ چھوٹا
منہ بڑی بات ہے۔
دل کی لگن 77/149
مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لئے تیسری صفت دل کی لگن ہے۔ محض دماغی طور پر ہی کسی
شخص کا اس تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہوجانا، یہ اس راہ
میں اقدام کے لئے صرف ایک ابتدائی قدم ہے۔ لیکن اتنے تاثر سے کام نہیں چل
سکتا۔ یہاں تو اس کی ضرورت ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اٹھے۔ زیادہ نہیں تو کم
از کم اتنی آگ تو شعلہ زن ہونی چاہئیے جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر ہوجاتی
ہے۔ اور آپ کو کھینچ کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے۔ یا اتنی جتنی گھر میں غلہ نہ
پا کر بھڑکتی ہے۔ اور آدمی کو تگ و دو پر مجبور کردیتی ہے اور چین سے نہیں
بیٹھنے دیتی۔ سینوں میں وہ جذبہ ہونا چاہیئےجو ہر وقت آپ کو اپنے نصب العین کی
دُھن میں لگائے رکھے۔ دل و دماغ کو یکسو کردے اور توجّہات کو اس کام پر ایسا
مرکوز کردے کہ اگر ذاتی یا خانگی یا دوسرے غیر متعلق معاملات کبھی آپ کی توجہ
کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت ناگواری کے ساتھ ان کی طرف کھنچیں۔ کوشش
کیجئے کہ اپنی ذات کے لئے آپ قوت اور وقت کا کم سے کم حصّہ صرف کریں۔ اور آپ
کی زیادہ سے زیادہ جدوجہد اپنے مقصد ِ حیات کے لئے ہو۔ جب تک یہ دل کی لگن نہ
ہوگی ، اور آپ ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں جھونک نہ دیں گے۔ محض زبانی جمع
خرچ سے کچھ نہ بنے گا۔بیشتر لوگ دماغی طور پر ہمارا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجاتے
ہیں ۔ لیکن کم ہی لوگ ایسے ملتے ہیں جو دل کی لگن کے ساتھ تن من دھن سے اس کام
میں شریک ہوں۔ میرے ایک قریبی رفیق نے جن سے میرے ذاتی اور جماعتی تعلقات بہت
گہرے ہیں حال ہی میں دو برس کی رفاقت کے بعد مجھ سے اعتراف کیا کہ اب تک میں
محض دماغی اطمینان کی بنا پر شریکِ جماعت تھا مگر اب یہ چیز دل میں اتر گئی ہے
اور اس نے نہان خانۂ روح پر قبضہ جمالیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اسی طرح
اپنے اوپر خود تنقید کرکے دیکھے کہ کیا ابھی تک وہ اس جماعت کا محض ایک دماغی
رکن ہے یا اس کے دل میں مقصد کے عشق کی آگ مشتعل ہوچکی ہے۔ پھر اگر دل کی لگن
اپنے اندر نہ محسوس ہو تو اسے پیدا کرنے کی فکر کی جائے۔ جہاں دل کی لگن ہوتی
ہے وہاں کسی ٹھیلنے اور اکسانے والے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے
یہ صورت ِ حال کبھی پیدا نہیں ہوسکتی کہ اگر کہیں جماعت کا ایک رکن پیچھے ہٹ
گیا، یا نقل مقام پر مجبور ہوگیا تو وہاں کا سارا کام ہی چوپٹ ہوگیا۔ بخلاف اس
کے ہر شخص اس طرح کام کرے گا جس طرح وہ اپنے بچے کو بیمار پاکر کیا کرتا ہے۔
خدانخواستہ اگر آپ کا بچہ بیمار ہو تو آپ اسکی زندگی و موت کے سوال کو بالکلیہ کسی دوسرے پر ہرگز نہیں چھوڑسکتے۔ ممکن نہیں کہ آپ یہ عذر کرکے اسے اس کے حال پر چھوڑیں کہ کوئی تیماردار نہیں،کوئی دوا لانے والا نہیں، کوئی ڈاکٹر کے پاس جانے والا نہیں۔ اگر کوئی نہ ہو تو آپ سب کچھ خود بنیں گے۔ کیونکہ بچہ کسی دوسرے کا نہیں آپ کا اپنا ہے۔78/149 سوتیلا باپ تو بچے کو مرنے کےلئے چھوڑ سکتا ہے۔مگر حقیقی باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کیسے چھوڑدے گا۔ اس کے تو دل میں آگ لگی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کام سے بھی اگر آپ کا قلبی تعلق ہو تو آپ دوسروں پر نہیں چھوڑسکتے اور نہ یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے کی نااہلی یا غلط روی یا بےتوجہی کو بہانہ بنا کر آپ اسے مرجانے دیں گے۔ اور اپنے دوسرے مشاغل میں منہمک ہوجائیں گے۔یہ سب باتیں اس بات پتہ دیتی ہیں کہ خدا کے دین اور اس کی اقامت و سربلندی کے مقصد سے آپ کا رشتہ محض ایک سوتیلا رشتہ ہے۔ حقیقی رشتہ ہو تو آپ میں سے ہر شخص اس راہ میں اپنی جان لڑا کر کام کرے۔ میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اگر آپ اس راہ میں کم ازکم اتنے قلبی لگاؤ کے بغیر قدم بڑھائیں گے جتنا آپ اپنے بیوی بچوں سے رکھتے ہیں، تو انجام پسپائی کے سوا کچھ نہ ہوگا اور یہ ایسی بری پسپائی ہوگی کہ مدتوں تک ہماری نسلیں اس تحریک کا نام لینے کی جراءت بھی نہ کرسکیں گی۔ بڑے بڑے اقدامات کا نام لینے سے پہلے اپنی قوتِ قلب کا اپنی اخلاقی طاقت کا جائزہ لیجئے اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لئے جس دل گردے کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کیجئے۔
سعی پیہم
چوتھی ضروری صفت اس راہ میں یہ ہے کہ ہمیں مسلسل اور پیہم سعی اور منضبط
(Systematic) طریقہ سے کام کرنےکی عادت ہو۔ ایک مدت دراز سے ہماری قوم اس طریق
ِ کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام ہو کم سے کم وقت میں ہوجائے۔ جو قدم اٹھایا
جائے ہنگامہ آرائی اس میں ضرور ہو۔ چاہے مہینہ دو مہینہ میں سب کیا کرایا غارت
ہوکر رہ جائے۔ اس عادت کو ہمیں بدلنا چاہیئے۔ اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگامہ
کام کرنے کی مشق ہونی چاہیئے۔ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی جو بجائے خود ضروری ہو،
اگر آپ کے سپرد کردیا جائے،تو بغیر کسی نمایاں اور معجّل نتیجہ کے اور بغیر
کسی داد کے آپ اپنی پوری عمر صبر کے ساتھ اسی کام میں کھپادیں۔ مجاہدہ فی سبیل
اللہ میں ہر وقت میدان گرم ہی نہیں رہا کرتا ہے اور نہ ہر شخص اگلی صفوں میں
لڑسکتا ہے۔ ایک وقت کی میدان آرائی کے لئے بسا اوقات پچیس پچیس سال تک لگاتار
خاموش تیاری کرنی پڑتی ہے۔ اور اگلی صفوں میں اگر ہزاروں آدمی لڑتے ہیں تو ان
کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے لئے ان چھوٹے چھوٹے کاموںمیں لگے رہتے
ہیں جو ظاہر بین نظر میں بہت حقیر ہوتے ہیں۔
تحریکِ اسلامی سے وابستگی کا معیار [10]
تحریک سے وابستگی کامعیار
میں اس وقت جماعت اسلامی کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کروں گا۔ لیکن ان خصوصیات کے بیان کرنے سے79/149 مقصود یہ نہیں ہے کہ یہ بالفعل جماعت کے اندر موجود ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ آپ کے اندر ہونی چاہئیں۔ اور آپ کا فرض ہے کہ آپ برابر اپنا جائزہ لے کر دیکھتے رہیں کہ یہ آپ کے اندر موجود ہیں یا نہیں اور اگر موجود ہیں تو کس حد تک؟ اور انہی کو جماعت کے ساتھ وابستگی کے لئے معیار بنائیے۔ اگر یہ خصوصیات پورے طور پر موجود ہیں تو سمجھئے کہ جمات کے ساتھ آپ کا تعلق ادھورا ہے۔ اور اگر یہ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ جماعت کے ساتھ آپ کی وابستگی محض رسمی و ظاہری ہے۔ حقیقت سے اس کو کچھ تعلق نہیں۔
(1) ان خصوصیات میں سب سے مقدم خصوصیت یہ ہے کہ موجودہ ماحول کے اندر آپ غربت کا احساس کریں۔ غربت سے میرا مقصد مال و اسباب کی کمی نہیں ہے۔ اس چیز کا احساس تو ایک مسلمان اگر وہ سچا مسلمان ہے ، کبھی کرتا ہی نہیں۔ غربت سے میرا مقصد یہ ہے کہ موجودہ فضا میں آپ کو اپنے ہمدرد آشنا اور ہم خیال و ہم مشرب بہت کم نظر آئيں ۔ آپ کو ہر مجلس میں احساس ہو کہ آپ جو کچھ چاہتے ہیں دوسروں کی چاہت سے مختلف ہو، آپ جو کچھ سوچتے ہیں دوسروں کی فکر اس سے بالکل الگ ہے۔ آپ کا مذاق، آپ کا رحجان ، آپ کا خیال اور آپ کا ارادہ ہر چیز دوسروں کے مذاق، رحجان اور خیال و ارادہ سے تبائن بلکہ متصادم نظر آئے۔ آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ خشکی کی مخلوق ہیں اور آپ کو سمندر میں ڈال دیا گیا ہے۔ یا آپ سمندر کے جانور ہیں اور آپ کو خشکی پر پھینک دیا گیا ہے۔دوسروں کو اپنی کامیابی کی راہیں بہت فراخ نظر آرہی ہوں، مگر آپ کو اپنی کامیابی کی راہ رندھی ہوئی ملے۔ دوسرے جس راہ پر چل رہے ہوں وہ قافلوں سے بھری ہوئی ہو مگر آپ کو ہر راہ میں قلّت اعوان و انصار سے سابقہ پڑے۔ دوسروں کے لئے وسائل ِزندگی کے انبار لگے ہوں مگر آپ کو سدّ رمق کی خاطر چند خشک نوالے حاصل کرنے کے لئے بھی چوٹی کا پسینہ ایڑی تک پہنچانا پڑے ۔ جب آپ موجودہ دنیا میں اس طرح اپنے آپ کو مشکلات کے شکنجوں میں کسا ہوا پائیں اور آپ کے قریبی سے قریبی اعزّہ بھی ان مشکلات کے حل کرنے میں آپ کی کوئی مدد نہ کریں بلکہ الٹے ان میں اور زیادہ اضافہ کرنے کی کوشش کریں تب آپ سمجھئے کہ جماعت اسلامی کے مقاصد کا سچا شعور آپ کے اندر پیدا ہوگیا ہے اور اس کی علامتیں آپ کے ظاہر و باطن دونوں میں اچھی طرح ابھر رہی ہیں اور اگر یہ باتیں نہ پائی جائیں بلکہ جماعت اسلامی میں داخل ہونے کے بعد بھی اس ماحول کے ساتھ آپ کی سازگاری اور موافقت اسی طرح باقی ہے جیسی جماعت میں داخل ہونے سے پہلے تھی اور آپ کے پھیلے ہوئے تعلقات کے کسی گوشے میں کوئی رخنہ اور خلل نہیں پیدا ہوا ہے، آپ کے احباب بدستور آپ سے خوش، اور آپ کے اقرباء حسبِ سابق آپ سے راضی ہیں، آپ کے معاش اور معیشت کی ساری راہیں پہلے کی طرح اب بھی کھلی ہیں، اور کسی جہت سے آپ اجنبیت اور بیگانگی کا احساس نہیں کررہے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے جماعت اسلامی کا صرف لیبل اپنے اوپر لگا لیا ہے۔ اس کی حقیقت آپ کے دل کے اندر نہیں اتری80/149 ہے۔
اس چیز کو آپ جماعت کے ساتھ اپنی وابستگی کو جانچنے کے لئے کسوٹی قرار دیجئے۔
اور آپ میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ خود اپنا اندازہ کرکے فیصلہ کرے کہ جماعت
کے ساتھ اس کا تعلق حقیقی ہے یا محض ظاہر دارانہ۔ ہم جن لوگوں کی تلاش میں ہیں
وہ پہلی قسم کے لوگ ہیں۔ نہ کہ دوسری قسم کے لوگ۔ وہی لوگ ہیں جن کے لئے حدیث
میں مبارک باد دی گئی ہے ۔ اور جن کی نسبت حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "وہی
ہیں جو میرے بعد کے بگاڑ کی اصلاح کریں گے"۔
(2) دوسری خصوصیت جو مطلوب ہے اور درحقیقت پہلی خصوصیت ہی کا لازمی نتیجہ ہے
یہ ہےکہ آپ اپنی ساری وابستگی اور دلچسپی ان لوگوں کے ساتھ بڑھائیں جو اصول و
مقاصد میں آپ کے ساتھ ہوں۔ اگر ان کی تعداد کم ہو تو اس کی آپ پروا نہ کیجئے۔
انہی کی رفاقت اور نصرت کی قدر کیجئے اگرچہ وہ آپ کے عزیز نہ ہوں لیکن آپ ان
کو عزیزوں سے بڑھ کر عزیز رکھیئے اگرچہ وہ آپ کی قوم سے باہر کے ہوں۔ لیکن آپ
کی عصبیت و حمیت ان کے لئے اپنی قوم سے بھی زیادہ ہو۔ اگرچہ وہ ہمیشہ سے آپ کے
اور آپ کی قوم کے دشمن رہے ہوں۔ لیکن آج اگر انہوں نے اس حق کو قبول کرلیا ہے
جس حق کو آپ نے قبول کیا ہے ، تو آپ کی طرف سے ان کے لئے صرف سچی دوستی ہونی
چاہیئے۔ آپ ہر طرف سے کٹ کر اپنی ساری دلچسپیاں ان کےاندر ڈھونڈھیے۔ یہی آپ
کےعزیز ہوں۔ یہی آپ کے دوست ہوں۔ یہی آپ کے غم خوار ہوں۔ ان کے سوا دوسروں کے
ساتھ آپ کا تعلق دوستی اور محبت کا نہ ہو، بلکہ صرف خیر خواہی اور خیرسگالی کا
ہو۔ یعنی آپ ان کو بھی اس حق سے آشنا کیجئے جو اللہ تعالٰی نے آپ پر کھولا ہے۔
آپ کا گھرانہ اہل حق اور اہل ایمان کا گھرانہ ہو۔ جن کا رشتہ حق کے ساتھ جتنا ہی ضعیف ہو آپ کا رشتہ ان کے ساتھ اتنا ہی ضعیف ہونا چاہیئے، اور جن کا رشتہ ایمان کے ساتھ جتنا مضبوط ہو آپ کا رشتہ ان کے ساتھ اتنا ہی مضبوط ہونا چاہيئے۔ اس اصول کو سامنے رکھ کراپنی دوستیوں اور دشمنیوں کا پورا جائزہ لیجئے۔ اور اگر کہیں آپ کو نظر آئے کہ آپ دوستی کے مستحق کے ساتھ دشمنی اور دشمنی کے حقدار کے ساتھ دوستی کا معاملہ کر رہے ہیں تو اللہ کے ڈر سے اس کی اصلاح کیجئے۔ اگر آپ ایک اصول کے ساتھ دوستی رکھتے ہیں تو اس کے دشمنوں کے ساتھ آپ کی دوستی نہیں ہوسکتی۔ اس طرح جو لوگ اس اصول سے دوستی رکھتے ہیں ان کے ساتھ آپ کی دشمنی بھی خلاف فطرت ہے آپ نسل و نسب کے بت کے پجاری نہیں ہیں اور نہ آپ کو رنگ و خون کے امتیازات ہی سے کوئی دلچسپی ہے، آپ کی نفرت و محبت تو تمام تر اللہ اور رسول کے تعلق کے تابع ہے۔ جو لوگ اللہ و رسول کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیں آپ ان کے بن گئے وہ آپ کے بن گئے۔ آپ کا اور ان کا رشتہ مادی رشتہ نہیں ہے بلکہ اخلاقی اور روحانی رشتہ ہے۔ یہی معنی ہیں رحماء بینھم کے۔ اس کی81/149 اصلاح کی کوشش کیجئے۔ اور جلد سے جلد اس کو حق کے تابع کیجئے۔ نہیں معلوم کب آپ کے سامنے آزمائش کی گھڑی آجائے اور وہ آپ سے مطالبہ کرے کہ حق کے لئے چچا بھتیجے کی گردن پر تلوار چلائے اور بھانجہ ماموں کے سینہ پر نیزہ مارے۔
باطل اور باطل کے تمام رشتوں سے قلبی انقطاع اصلی روحانی ہجرت ہے۔ جس کا آغاز
اس دن سے ہوتا ہے جس دن ایک بندہ حق کو قبول کرتا ہے۔ اور اس راہ میں جو
دشواریاں پیش آتی ہیں اس پر قابو پانے کی مشق بہم پہنچائیے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے
ہیں کہ اس کے لئے پہلے سے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہے۔ جب وقت آئے گا وہ حق
کے لئے بڑی سے بڑی قربانی بھی پیش کریں گے، اور عزیز سے عزیز رشتوں پر مقراض
بھی چلا دیں گے۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے، آزمائش کی گھڑیوں میں قلب و دماغ
کی صرف وہی قوت کام دیتی ہے جو بالفعل موجود ہو، اور جس کا ذخیرہ پہلے سے
فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔جو لوگ اپنی فوج کو اس وقت ٹریننگ دیتے ہیں جب
دشمن نے حملہ کردیا ہو، ان کے حصّہ میں ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔
(3) تیسری صفت جو آپ کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہیئے وہ اس کی مقابل صفت ہے۔یعنی یہ کہ جو لوگ اصول اور مقصد میں آپ سے مختلف ہوں وہ آپ کو نرم چارہ نہ پائیں۔وہ جب آپ کو ٹٹولیں تو انہیں محسوس ہو کہ ان کے لئے آپ کے اندر انگلی دھنسانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے آپ کو آلۂ کار نہ بناسکیں۔ پہلی جماعت کے لئے آپ جتنے سادہ لوح، کریم النفس اور بھولے بھالے ہوں دوسری جماعت کے لئے آپ کو اسی قدر ہوشیار ، بیدار مغز اور اصول پرست ہونا چاہيئے۔ ان کو آپ ہرگز اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ آپ پر اپنا رنگ چڑھادیں، اور آپ کو اپنے سانچہ میں ڈھال لیں۔ جب تک آپ میں یہ صفت نہ پیدا ہو اس وقت تک نہ آپ کے اندر جماعت کے مقاصد کا صحیح شعور پیدا ہوا ہے، اور نہ آپ میں وہ سیرت پیدا ہوئی ہے، جو جماعت اسلامی کے پیشِ نظر مقاصد کی تکمیل کے لئے مطلوب ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کی جو تعریف کی گئی ہے کہ وہ " أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ" کفار پر سخت ہیں۔ اس کے معنی ہیں کہ جو لوگ اللہ کی فوج میں بھرتی ہوچکے ہیں ان کے لئے یہ بات جائز نہیں ہوسکتی کہ وہ دشمن بے بگل پر بھی لیفٹ رائٹ شروع کردیں۔ اور عارضی فوائد کے لئے اس کا کلمہ بلند کردینے اور اس کی لڑائی لڑدینے میں بھی کوئی ہرج نہ خیال کریں جو لوگ حق اور باطل دونوں کے ساتھ رشتہ رکھنا چاہتے ہیں ان کا رشتہ صرف باطل کے ساتھ رہتا ہے۔ حق اس قسم کی شرکت اور آلودگی کوگوارا نہیں کرتا۔ آپ کی سیرت کی وہ ساری کمزوریاں جو آپ کے اندر باطل کو گھسنے کی راہ دیتی ہیں۔ آپ کے ضعفِ ایمان کی دلیل ہیں۔ اور اب جس زندگی کا آپ نے آغاز کیا ہے اس کا اولین تقاضا ہے کہ آپ ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کیجئے۔ 82/149
یہ تین باتیں میں نے آپ کے سامنے کسوٹی کی حیثیت سے پیش کی ہیں۔ آپ ان کے اوپر
اپنے آپ کو جانچ کر معلوم کرسکتے ہیں کہ جماعت کے ساتھ آپ کا تعلق کس نوعیت کا
ہے؟ محض زبان سے آپ اس کے ساتھ ہوگئے ہیں اور دل آپ کا انہی کوچوں میں ابھی
آوارہ گردی کررہا ہے جن میں پہلے آوارہ گردی کررہا تھا یا آپ دل اور زبان
دونوں سے اس کےساتھ ہیں۔
کارکنوں کا اصل سرمایہ[11]
میں نے الٰہ آباد کے اجتماع میں سب سے پہلے جس چیز کی طرف توجہ دلائی تھی وہ
اللہ تعالٰی کی یاد ہے آج بھی میں آپ کو سب سے پہلے اسی چیز کی تاکید کرتا
ہوں۔ سال بھر پہلے جو بات میں نے عرض کی تھی اب مزید غور و فکر اور مطالعہ
کتاب و سنت سے اس بات کا یقین اور پختہ ہو گیا اور اب ذرا بھی شبہ نہیں رہا ہے
کہ انسان کے علم، انسان کی عقل، انسان کے دل و دماغ اور اس کے فکر و نظر کو جو
روشنی بھی نصیب ہوتی ہے وہ صرف اللہ تعالٰی کی یاد ہی سےہوتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو
تو انسان کا تمام باطن بالکل تاریک رہتا ہے اور اس کا ہر کام گو بظاہرہے کتنا
ہی اچھا نظر آتا ہو بالکل غلط معلوم ہوتا ہے۔ اس کا دل اس کو غلط مشورے دیتا
ہے، اور اس کا دماغ غلط رہنمائی کرتا ہے، اور اس کے ہاتھ پاؤں جس راہ میں اور
جس مقصد کے لئے بھی اٹھتے ہیں غلط ہی اٹھتے ہیں، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص دین
کا نام لے کر اٹھے اور دین ہی کا کام کرنا چاہے لیکن خدا کی یاد سے اس کا دل
خالی ہوجائے تو اس کی وہ دینداری بھی دنیاداری بن جاتی ہے۔آپ اگرچہ دین کے کام
کے لئے اٹھے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کو اس خطرے سے بے پروا نہیں رہنا چاہیئے
کہ خدا سے غفلت آپ کے اس سارے کام کو خراب کردے اور آگے کی کسی منزل میں بھی
شیطان آپ کو گمراہ کرسکتا ہے۔ اگر اس خطرے سے آپ محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو اس
کے لئے اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں ہے کہ آپ اپنے دلوں کو اللہ کی یاد سے
نورانی رکھیں تاکہ آپ کے دل و دماغ اور آپ کے اعضاء و جوارح سب صحیح طریقہ پر
صحیح راہ میں کام کریں۔
"میں نے اس بات کی طرف الٰہ آباد کے اجتماع میں تفصیل کے ساتھ آپ کوتوجہ دلائی
تھی ۔ اور میری وہ پوری تقریر اب چھپ کر شائع ہوچکی ہے۔ آپ اس کو پھر پڑھ کر
اس کی یاد تازہ کریں"۔
دوسری چیز جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ جماعتی سیرت کی تعمیر ہے آپ کواس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ مسلمانوں میں صالح افراد نہ پہلے ناپید تھے اور نہ اب مفقود ہیں۔ ان کی ایک اچھی خاصی تعداد پہلے بھی موجود تھی اور اب بھی خدا کے فضل سے موجود ہے۔ لیکن صالحین کی اس جماعت کی موجودگی کے باوجود یہ قوم گرتے گرتے پستی83/149 کے اس درجے تک پہنچ گئی جو آج آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ بجز اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ صالحین صلاح و تقویٰ کی خوبیاں رکھنے کے باوجود نہ جماعتی زندگی کی اہمیت سے آشنا تھے اور نہ جماعتی سیرت ہی کے اعتبار سے کوئی وزن رکھتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نہ اپنی قوم ہی کو گرنے سے بچا سکے، اور نہ اپنے آپ ہی کو موجودہ فتنوں سے دور رکھ سکے۔ آپ کو اس غلطی کی اصلاح اور اس کی تلافی کرنی ہے۔ آپ کو صالح بننے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر وہ جماعتی سیرت بھی پیدا کرنی ہے جو صالحین کے لئے ضروری ہے۔ اس کے بغیر "جماعت اسلامی" کےقیام کا منشا پورا نہیں ہو سکتا ۔ ہم صرف انفرادی نیکی کے داعی نہیں ہیں،بلکہ آپ کو اجتماعی نیکی کی جدوجہد کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے آپ کو اجتماعی سیرت اور اجتماعی اخلاق کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ اور برتر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آپ ایک جماعتی نظم اور ایک جماعتی ڈسپلن کے تحت ہوکر یہ دکھادیں کہ آپ باہم دگر جڑ کر اور مل کر کس خوبی کے ساتھ ایک مقصد اور ایک نصب العین کے لئے مارچ کرسکتے ہیں۔ آپ کو قیادت اور اطاعت دونوں چیزوں کا گر معلوم کرنا ہے۔ اور دونوں کے حقوق پورے پورے ادا کرنے ہیں۔ آپ میں سےہر فرد کو اپنی روز مرہ زندگی میں یہ ثابت کرنا ہے کہ آپ جماعتی مقصد کے لئے بڑی سے بڑی قربانی کرسکتے ہیں۔ بڑی سے بڑی بازی کھیل سکتے ہیں اپنے جان و مال اور آل و اولاد کے لئے بڑے سے بڑا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ اور ایثار نفسی،تواضع، خاکساری ، محبت،ہمدردی اور خیرخواہی کی بہترین مثال پیش کرسکتے ہیں۔ اس میں ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ دنیا کی دوسری قومیں ہم سے جس میدان میں بازی لے گئی ہیں وہ یہی میدان ہے۔ ہم شخصی اور انفرادی نیکیوں میں بھی ان سے کم نہیں تھے۔ بلکہ شاید ان سے بڑھ چڑھ کر ہی تھے لیکن اجتماعی کیرکٹر (character) اور اجتماعی سیرت میں ان سے بہت پیچھے تھے جس کی سزا ہم کو یہ ملی کہ ہم ہر چیز میں ان سے پیچھے ہوگئے اور برابر پیچھے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اور مصیبت پر مصیبت یہ اب تک ہمارے بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی ہماری بیماری کی تہہ کو نہیں پہنچے ۔ وہ خود بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں (اور دوسروں کو بھی اس غلط فہمی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں) کہ ہماری اس پستی میں سولہ آنے دخل دوسروں کا ہے نہ کہ ہمارا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مذہب صرف انفرادی نیکیوں کا مطالبہ کرتا اور وہ اس کو پورا کررہے ہیں۔ اجتماعی نیکیوں کے لئے ان کے نزدیک نہ مذہب نے کوئی ضابطہ بنایا ہے اور نہ اس کے لئے اس کا کوئی مطالبہ ہے۔ وہ صرف روزہ، نماز، حج اور زکواۃ کے احکام دیتا ہے اور اسی حد پر اس کا مطالبہ ختم ہوجاتا ہے۔ یہ خیال بے شمار خرابیوں کی جڑ ہے اس چیز نے مسلمانوں کے سارے تصور دینی کو غلط کردیا ہے۔ اور ان کو اس درجہ تک لاگرایا ہے جس کو آپ دیکھ رہے ہیں۔ اسلام نے آپ کو انفرادی زندگی کے لئے جس طرح احکام و قوانین دیئے ہیں اور جس طرح آپ کی اجتماعی زندگی کے لئے بھی ایک نظامِ اخلاق مقرر کیا ہے۔ اور ہر مسلمان سے اس کی پابندی کا مطالبہ کیا ہے اور اس کی عدم پابندی کی صورت میں ہم میں سے ہر شخص اسی طرح گنہگار ہوتا ہے جس طرح سے انفرادی زندگی کے احکام و قوانین یا نظام ِ اخلاق کو توڑنے84/149 سے ہوتا ہے بلکہ اگر میں یہ عرض کروں تو شاید غلطی نہیں کروں گا کہ اجتماعی احکام و قوانین اور اجتماعی نظامِ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والا اللہ اور اس کے رسول کی نظروں میں اس سے زیادہ مبغوض ہے جتنا کہ انفرادی زندگی کے احکام و قوانین اور اس کے نظامِ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ جو شخص اپنی اجتماعی زندگی کے دائرے میں کوئی کوتاہی یا کوئی غلطی یا نافرمانی کرتا ہے تو اس کا ضرر اس سے کہیں زیادہ وسیع اور دور رس ہوتا ہے جتنا کہ انفرادی زندگی کے کسی دائرے میں غلطی کرنے والے شخص کا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتی نظم میں خرابیاں پیدا کرنے والوں کے لئے اسلام نے جو سزائیں رکھی ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہیں، جو انفرادی زندگی کے آداب و قوانین میں خرابیاں پیدا کرنے والوں نے رکھی ہیں۔ لیکن ایک عرصہ تک اجتماعی زندگی سے ناآشنا رہنے کی وجہ سے آج ہندوستان کے مسلمان جماعتی اخلاق و کردار کی اہمیت سے اس قدر بے پروا ہوگئے ہیں کہ سرے سے ان کی نظر میں اس کی کوئی مذہبی حیثیت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے اور اگر اس قسم کی ذمہ داری ان پر ڈالی جاتی ہے تو وہ اس کو ایک بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب تک ہمارا یہ حال رہے گا، اس وقت تک ہماری حیثیت فرد فرد کی ہے نہ کہ جماعت کی، اور اس صورت میں ہم کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی ان نعمتوں اور برکتوں کے متوقع ہوں جن کا وعدہ اس جماعت سے کیا گیا ہے جس کے افراد اپنے اندر بہترین جماعتی سیرت ، اور بہترین جماعتی اخلاق رکھتے ہوں۔ آّپ اگر مسلمانوں کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلانا چاہتے ہیں اور ان کو تشتّت اور انفرادیت کی اس ذلّت سے نکال کر وحدت و اجتماعیت کی بلندیوں پر لے جانا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ کار یہی ہے کہ ہر جگہ، ہر وقت اور ہر آن آپ کی جماعتی حیثیت نمایاں ہو۔ آپ کے افراد سے انانیّت، خودغرضی، خودرائی، خودپرستی اور اس طرح کی ساری بیماریاں نکل جائیں ۔ اور ان کی جگہ ایثار، اخلاص، خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبات لے لیں۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر آپ دنیا اور آخرت میں عزت حاصل کرسکتے ہیں۔ اور صرف یہی ایک چیز ہے جس کے بل بوتے پر آپ دنیا کی باطل طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں۔
میں اس سلسلے میں یہ امر بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جماعتی سیرت اور جماعتی اخلاق کے جو الفاظ میں بار بار بول رہا ہوں اس سے میری مراد محض قومی کردار (national character) نہیں ہے بلاشبہ اس چیز کی بھی ایک خاص اہمیت ہے اور کوئی قوم اس کے بغیر اپنی اجتماعی ہستی برقرار نہیں رکھ سکتی لیکن ہم اس سے کہیں زیادہ اعلیٰ و ارفع چیز کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ ہم اس اجتماعی کیرکٹر کا آپ سے مطالبہ کر رہے ہیں جو اسلام نے اس شرعی جماعت کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ جس کو اسلامی اصطلاح میں "الجماعت" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ چیزنیشنل کیرکٹر سے بہت اونچی ہے۔ نیشنل کیرکٹر سے اگر ایک محدود دائرے کے اندر کچھ بھلائیاں اور خوبیاں وجود میں آتی ہیں تو ایک وسیع دائرے85/149 کے اندر اسی سے بہت سی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن ہم جس اجتماعی سیرت کو پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس سے تمام عالم انسانی کے لئے صرف بھلائی پیدا ہوسکتی ہے۔
دنیا میں بعض چیزیں گز سے ناپی جاتی ہیں، اور بعض چیزیں پیمانے سے ناپی جاتی ہیں۔ لیکن افراد اور جماعتوں کے ناپنے کی کسوٹی وہ عقیدہ ہوتا ہو جس کا وہ اعلان کرتی ہیں۔آپ نے بھی ایک واضح عقیدے کا دنیا کے سامنے اعلان کیا ہے۔ اور دنیا آپ کو اسی عقیدے سے جانچے اور پرکھے گی۔ اب یہ دیکھا جائے گا کہ آپ نے اس عقیدے کے لئے کتنی قربانی کی ہے، مشکلات میں اس پر کتنی استقامت دکھائی ہے، اس کے لئے کتنے خطرات کا مقابلہ کیا ہے۔ اور اس کے عشق میں کیا کیا بازیاں کھیلی ہیں۔ اگر اس اعتبار سے آپ کا کوئی وزن ہوتو دنیامیں بھی آپ کا ایک مقام ہے اور آخرت میں بھی آپ کا ایک درجہ ہے۔ لیکن اگر اس لحاظ سے آپ بودے اور ناکارہ ثابت ہوئے تو نہ دنیا میں آپ کے لئے کوئی جگہ ہے اور نہ آخرت میں آپ کے لئے کوئی درجہ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے آپ کو خود فریبی میں پڑ کر کوئی بڑی چیز سمجھ بیٹھیں، اور کچھ نہ کرنے کے باوجود سمجھنے لگیں کہ آپ نے بہت کچھ کرلیا ہے۔ لیکن تمام دنیا کو آپ دھوکا نہیں دے سکتے ہیں۔ تو خدا کو ہر حال میں دھوکا نہیں دے سکتے۔ خلق اور خدا کی طرف سے آپ کو وہی صلہ ملے گا جس کے فی الواقع آپ حق دار ہوں گے نہ کہ جس کا آپ دعویٰ کریں گے۔ مجھے اس موقع پر امام احمد بن حنبل اور مشہور ڈاکو ابوالہیثم کا واقعہ یاد آگیا جو تاریخوں میں مذکور ہے اورجس کو آپ نے بھی شاید پڑھا ہو۔ امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر محدّث نے چورکی عزیمت سے سبق حاصل کیا، اور اس سبق کے لئے اس کے زندگی بھر ممنون رہے، کیونکہ درحقیقت آدمی کا اصلی جوہر وہ عزیمت و استقامت ہے جو وہ اپنے پیشِ نظر مقصد کے لئے مزاحمتوں کے مقابلے میں دکھاتا ہے۔ اگر ایک شخص ایک باطل مقصد کے لئے سچا عزم و حوصلہ رکھتا ہے تو وہ بھی اس شخص کے مقابلے میں قابل ِ قدر ہے جو دعویٰ تو ایک سچے مقصد کا کرتا ہے لیکن اس کے لئے قربانی کا کوئی جذبہ نہیں رکھتا 86/149
وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
اب میں اس افتتاحی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ ان امور
کو سامنے رکھ کر اس اجتماع کی کارروائی شروع کیجئے۔ اللہ تعالٰی مدد فرمائے
اور ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت دے۔
راہ حق کے لئے ضروری توشہ href="#_ftn12" name="_ftnref12" title="">[12] 87/149
خطبۂ مسنونہ کے بعد:
رفقائے عزیز! چار دن کے اجتماع کے بعد اب ہم لوگ ایک دوسرے سے الگ ہورہے ہیں۔
جتنا کام اس اجتماع میں کرنا تھا ہم کرچکے ہیں اور ایک حد تک ہم اس کا جائزہ
بھی اپنے اجتماع خاص میں لے چکے ہیں۔ اب رخصت ہونے سے پہلے میں چاہتا ہو کہ
اپنے رفقاء سے خطاب کرکے انہیں وہ ضروری ہدایات دے دوں جو آئندہ اس کا م کو
صحیح طریقے پر چلانے کے لئے مطلوب ہیں۔
تعلق باللہ
اوّلین چیزجس کی ہدایت ہمیشہ سے انبیاء اور خلفائے راشدین اور صلحائے امت ہر
موقع پر اپنے ساتھیوں کودیتے رہے ہیں، وہ اللہ سے ڈرنے اور اس کی محبّت دل میں
بٹھانے اور اس کے ساتھ تعلق بڑھانے کی ہدایت ہے ۔ میں نے بھی اسی کے اتباع میں
اپنے رفقاء کو سب سے پہلے یہی نصیحت کی ہے۔ اور آئندہ بھی جب کبھی موقع ملے گا
اسی کی نصیحت کرتا رہوں گا کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کو ہر دوسری چیز پر مقدم ہی
ہونا چاہیئے۔ عقیدے میں اللہ پر ایمان مقدم ہے۔ عباد ت میں اللہ سے دل کا لگاؤ
مقدم ہے۔ اخلاق میں اللہ کی خشیت مقدم ہے۔ معاملات میں اللہ کی رضا کی طلب
مقدم ہے اور فی الجملہ ہماری ساری زندگی ہی کی درستگی کا انحصار اس پر ہے کہ
ہماری دوڑ دھوپ اور سعی و جہد میں رضائے الٰہی کی مقصودیت ہر دوسری غرض پر
مقدم ہو۔ پھر خصوصیت کے ساتھ یہ کام جس کے لئے ہم ایک جماعت کی صورت میں اٹھے
ہیں، یہ تو سراسر تعلق باللہ ہی کے بل پر چل سکتا ہے۔ یہ اتنا ہی مضبوط ہوگا،
جتنا اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہوگا، اور یہ اتنا ہی کمزور ہوگا جتنا
خدانخواستہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہوگا۔
ظاہر بات ہے کہ آدمی جو کام بھی کرنے اٹھتا ہے، خواہ وہ دنیا کا کام ہو یا دین کا، اس کی اصل محرک وہ غرض ہوتی ہے جس کی خاطر وہ کام کرنے اٹھا ہے اور اس میں سرگرمی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ اس غرض کے ساتھ آدمی کی دلچسپی میں گہرائی اور گرم جوشی ہو۔ نفس کے لئے کام کرنے والا خود غرضی کے بغیر نفس پرستی نہیں کرسکتا اور نفس کی محبت میں جتنی شدت ہوتی ہے اتنی ہی سرگرمی کے ساتھ وہ اس کی خدمت بجالاتا ہے۔ اولاد کے لئے کام کرنے والا اولاد کی محبت میں دیوانہ ہوتا ہے۔ اور اپنی دنیا ہی نہیں، اپنی عاقبت تک اس غرض کے لئے خطرے میں ڈال دیتا ہے کہ اس کے بچے زیادہ سے زیادہ خوشحال ہوں۔ قوم یا وطن کے لئے کام کرنے والا قوم و ملک کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے۔ تب ہی88/149 وہ قوم و ملک کی آزادی، حفاظت اور برتری کی فکر میں مالی نقصانات اٹھاتا ہے قید و بند کی سختیاں جھیلتا ہے، شب و روز کی محنتیں صرف کرتا ہے، اور جان تک قربان کردیتا ہے اب اگر ہم یہ کام نہ اپنے نفس کے لئے کررہے ہیں نہ کوئی خاندانی غرض اس کی محرک ہے، نہ کوئی ملکی و قومی مفاد اس میں ہمارے پیشِ نظر ہے،بلکہ صرف ایک اللہ کو راضی کرنا ہمیں مطلوب ہے اور اسی کا کام سمجھ کر ہم نے اسے اختیار کیا ہے تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جب تک اللہ ہی سے ہمارا تعلق گہرا اور مضبوط نہ ہو، یہ کام کبھی نہیں چل سکتا، اور اس میں سرگرمی آسکتی ہے تو اسی وقت جب کہ ہماری ساری رغبتیں اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں مرکوز ہوجائیں۔ اس کام میں جو لوگ شریک ہوں ان کے لئے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ ان کا تعلق اللہ سے بھی ہو، بلکہ ان کا تعلق اللہ سے ہی ہونا چاہئیے۔ اسے تعلقات میں سے ایک تعلق نہیں بلکہ ایک ہی اصلی اور حقیقی تعلق ہونا چاہئیے۔ اور انہیں ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہنی چاہیئے کہ اللہ سے ان کا تعلق گھٹے نہیں بلکہ روز بروز زیادہ بڑھتا اور گہرا ہوتا چلا جائے۔
اس معاملے میں ہمارے درمیان دو رائیں نہیں ہیں کہ تعلق باللہ ہی ہمارے اس کام
کی جان ہے۔جماعت کا کوئی رفیق الحمدللہ اس کی اہمیت کے احساس سے غافل نہیں ہے۔
البتہ جو سوالات اکثر لوگوں کو پریشان رکھتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تعلق باللہ سے
ٹھیک مراد کیا ہے؟ اس کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے؟ اور آخر ہم کس
طرح یہ معلوم کریں کہ ہمارا تعلق واقعی اللہ سے ہے یا نہیں اور ہے تو کتنا ہے؟
ان سوالات کا کوئی واضح جواب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اکثر یہ محسوس
کیا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو ایک بے نشان صحرا میں پا رہے ہیں۔ جہاں کچھ پتہ نہیں
چلتا کہ ان کی منزل مقصود ٹھیک سمت میں ہے ، اور کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ
انہوں نے کتنا راستہ طے کیا اور اب کس مرحلے میں ہیں اور آگے کتنے مراحل باقی
ہیں۔ اسی وجہ سے بسا اوقات ہمارا کوئی رفیق مبہم تصوّرات میں گم ہونے لگتا ہے،
کوئی ایسے طریقوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے جو موصل الی المقصود نہیں ہیں ۔کسی کے
لئے مقصود سے قریب کا تعلق اور دور کا تعلق رکھنے والی چیزوں میں امتیاز کرنا
مشکل ہو رہا ہے۔ اور کسی پر حیرت کا عالم طاری ہے۔ اس لئے آج میں صرف تعلق
باللہ کی نصیحت ہی پر اکتفا نہ کروں گا اپنے علم کی حد تک ان سوالات کا بھی
ایک واضح جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
تعلق باللہ کے معنی
تعلق باللہ سے مراد، جیسا کہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے یہ ہے کہ آدمی کا
جینا اور مرنا اور اس کی عبادتیں اور قربانیاں سب کی سب اللہ کے لئے ہوں۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 89/149
اور وہ پوری طرح یکسو ہوکر، اپنے دل کو بالکل اللہ کے لئے خالص کرکے اس کی
بندگی کرے۔
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ
حُنَفَاۗءَ
نبی ﷺ نے مختلف مواقع پر اپنے ارشادات میں اس تعلق کی ایسی تشریح فرمادی ہے کہ
اس کے مفہوم و مدعا میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے۔ حضور ﷺ کے بیانات کا
تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللہ کے معنی ہیں "خَشْیَۃِ اللہِ فیِ
السِرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ" "کھلے اور چھپے ہر کام میں اللہ کا خوف محسوس
کرنا"۔ اور یہ کہ "اَنْ تَکُوْنَ بِمَا فِیْ یَدَیِ اللّٰہِ اَوْثَقَ بِمَا
فِیْ یَدَیْکَ" "اپنے ذرائع و وسائل کی بہ نسبت تیرا بھروسہ اللہ کی قدرت پر
زیادہ ہو، اور یہ کہ "مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ" "آدمی
اللہ کو راضی کرنے کے لئے لوگوں کی ناراض کرلے"۔ اور اس کے بالکل برعکس بات یہ
ہے کہ آدمی لوگوں کو راضی کرنے کے لئے اللہ کی ناراضی مول لے۔ من التمس رضی
الناس بسخط اللہ۔ پھر جب یہ تعلق بڑھتے بڑھتے اس حد کو پہنچ جائے کہ آدمی کی
محبت اور دشمنی اور اس کا دینا اور روکنا جو کچھ بھی ہو اللہ کے لئے اور اللہ
ہی کی خاطر ہو۔ اور نفسانی رغبت و نفرت کی لاگ اس کے ساتھ نہ لگی رہے تو اس کے
معنی یہ ہیں کہ اس نے تعلق باللہ کی تکمیل کرلی ہے۔
مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَ اَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَ مَنَعَ
لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانِ
پھر یہ جو آپ ہر روز رات کو اپنی دعائے قنوت میں پڑھتے ہیں۔ اس کا لفظ لفظ اس
تعلق کی نشان دہی کرتا ہے جو آپ کا اللہ کے ساتھ ہونا چاہيئے اس کے الفاظ پر
غور کیجئے اور دیکھتے جائیے کہ آپ ہر رات اپنے اللہ کے ساتھ کس قسم کا تعلق
رکھنے کا اقرار کیا کرتے ہیں:-
اَللّٰھُمَّ انَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیَکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ
وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ کُلَّہ
،نَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکُ ط
اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ، وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنْسْجُدُ وَاِلْیکَ
نَسْعٰی وَ نَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخَشْیٰ عَذَابَک اِنَّ
عَذَابَکَ الْجِدَّ بِالْکُفَّارِ مُلْحِق
خدایا، ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے رہنمائی طلب کرتے ہیں، تجھ سے معافی چاہتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تیرے ہی اوپر بھروسا رکھتے ہیں، اور ساری تعریفیں تیرے ہی لیے مخصوص کرتے ہیں۔ ہم تیرے شکر گزار ہیں ‘90/149 کفرانِ نعمت کر نے والے نہیں ہیں۔ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے جو تیری نافرمانی کرے۔ خدایا ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، تیرے ہی لیے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اور ہماری ساری دوڑ دھوپ تیری طرف ہی ہے۔ ہم تیری رحمت کے اُمید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، یقیناًتیرا سخت عذاب ان لوگوں کو پہنچنے والا ہے جو کافر ہیں۔
پھر اسی تعلق باللہ کی تصویر اس دُعا میں پائی جاتی ہے جو نبیﷺ رات کو تہجد کے
لیے اٹھتے وقت پڑھا کرتے تھے۔ اس میں آپﷺ اللہ کو خطاب کرکے عرض کرتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ
اِلَیْکَ اَنْبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَ اِلَیْکَ حَاکَمْتُ، خدایا! میں تیرا
ہی مطیع فرمان ہوا اور تجھی پر ایمان لایا اور تیرے ہی اوپر میں نے بھروسا کیا
اور تیری ہی طرف میں نے رجوع کیا، اور تیری ہی وجہ سے میں لڑا اورتیرے ہی حضور
اپنا مقدمہ لایا۔
تعلق باللّٰہ بڑھانے کا طریقہ
یہ ہے ٹھیک نوعیت اس تعلق کی جو ایک مومن کو اللہ سے ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا
چاہیے کہ اس تعلق کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔
اس کو پیدا کرنے کی صورت صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی سچے دل سے اللہ وحدہ
لاشریک کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک، معبود اور حاکم تسلیم کرے۔ الوہیت کی
تمام صفات اور حقوق اور اختیارات کو اللہ کے لیے مخصوص مان لے، اور اپنے قلب
کو شرک کے ہر شائبے سے پاک کردے۔ یہ کام جب آدمی کر لیتا ہے تو اللہ سے اس کا
تعلق قائم ہوجاتا ہے۔
رہا اس تعلق کا نشوو نما، تو وہ دو طریقوں پر منحصر ہے۔ ایک فکر و فہم کا
طریقہ اور دوسرا عمل کا طریقہ۔
۞ فکری طریقہ: فکر و فہم کے طریقے سے اللہ کے ساتھ تعلق بڑھانے کی صورت یہ ہے کہ آپ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی مدد سے ان نسبتوں کو تفصیل کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھیں جو آپ کے اور خدا کے درمیان فطرتاً ہیں اور بالفعل ہونی چاہییں۔ ان نسبتوں کا ٹھیک ٹھیک احساس و ادراک اور ذہن میں ان کا استحضار صرف اسی طریقے سے ممکن ہے کہ آپ قرآن اور حدیث کو سمجھ کر پڑھیں، اور بار بار اس مطالعے کی تکرار کرتے رہیں، اور ان کی روشنی میں جو جو نسبتیں آپ کے اور خدا کے درمیان معلوم ہوں ان پر غور و فکر کرکے اور اپنی حالت کا جائزہ لے کر دیکھتے رہیں کہ ان میں سے کس کس نسبت کو آپ نے بالفعل قائم کر رکھا ہے، کہاں تک اس کے تقاضے91/149 آپ پورے کر رہے ہیں، اور کس کس پہلو میں کیا کمی آپ محسوس کرتے ہیں۔ یہ احساس اور یہ استحضارجتنا جتنا بڑھے گا، ان شاء اللہ اسی تناسب کے ساتھ اللہ سے آپ کا تعلق بھی بڑھے گا۔
مثال کے طور پر ایک نسبت آپ کے اور اللہ کے درمیان یہ ہے کہ آپ عبد ہیں اور وہ
آپ کا معبود ہے۔ دوسری نسبت یہ ہے کہ آپ زمین پر اس کے خلیفہ ہیں اور اس نے
اپنی بے شمار امانتیں آپ کے سپرد کر رکھی ہیں۔ تیسری نسبت یہ ہے کہ آپ ایمان
لاکر اس کے ساتھ ایک بیع کا معاہدہ طے کر چکے ہیں جس کے مطابق آپ نے اپنی جان
و مال اس کے ہاتھ بیچی ہے، اور اس نے جنت کے وعدے پر خریدی ہے۔ چوتھی نسبت آپ
کے اور اس کے درمیان یہ ہے کہ آپ اس کے سامنے جواب دہ ہیں اور وہ آپ کا حساب
صرف آپ کے ظاہر ہی کے لحاظ سے لینے والا نہیں ہے بلکہ آپ کی جملہ حرکات و
سکنات، بلکہ آپ کی نیتوں اور ارادوں تک کا ریکارڈ اس کے پاس محفوظ ہورہا ہے۔
غرض یہ اور دوسری بہت سی نسبتیں ایسی ہیں جو آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان
موجود ہیں۔ بس انھی نسبتوں کو سمجھنے محسوس کرنے، یاد رکھنے اور ان کے تقاضے
پورے کرنے پر اللہ کے ساتھ آپ کے تعلق کا بڑھنا اور قریب ترہونا موقوف ہے۔ آپ
جس قدر ان سے غافل ہوں گے اللہ سے آپ کا تعلق اتنا ہی کمزور ہوگا اور جس قدر
زیادہ ان سے خبردار اور ان کی طرف متوجہ رہیں گے اسی قدر آپ کاتعلق گہرا
اورمضبوط ہوگا۔
۞ عملی طریقہ: لیکن یہ فکری طریقہ اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا، بلکہ زیادہ دیر تک نبھایا بھی نہیں جاسکتا جب تک کہ عملی طریقے سے اس کو مدد اور قوت نہ پہنچائی جائے۔ اور وہ عملی طریقہ ہے احکام الٰہی کی مخلصانہ اطاعت، اور ہر اس کام میں جان لڑا کر دوڑ دھوپ کرنا جس کے متعلق آدمی کو معلوم ہوجائے کہ اس میں اللہ کی رضا ہے۔ احکامِ الٰہی کی مخلصانہ اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ جن کاموں کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کو بادل نخواستہ نہیں بلکہ اپنے دل کی رغبت اورشوق کے ساتھ خفیہ اور علانیہ انجام دیں اور اس میں کسی دنیوی غرض کو نہیں بلکہ صرف اللہ کی خوشنودی کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ اور جن کاموں سے اللہ نے روکا ہے ان سے قلبی نفرت و کراہت کے ساتھ خفیہ اور علانیہ پرہیز کریں، اوراس پرہیز کا محرک کوئی دنیوی نقصان کا خوف نہیں بلکہ اللہ کے غضب کا خوف ہو۔ یہ طرز عمل آپ کو تقویٰ کے مقام پر پہنچا دے گا۔ اور اس کے بعد دوسرا طرزِ عمل آپ کو احسان کی منزل پر پہنچائے گا، یعنی یہ کہ آپ دنیا میں ہر اس بھلائی کو فروغ دینے کی کوشش کریں جسے اللہ پسند فرماتا ہے، اور ہر اس برائی کو دبانے کی کوشش کریں جسے اللہ ناپسند فرماتاہے، اور اس کوشش میں جان، مال، وقت، محنت اور دل و دماغ کی قابلیت، غرض کسی چیز کے قربان کرنے میں بھی بخل سے کام نہ لیں۔ پھر اس راہ میں جو قربانی بھی آپ کریں اس پر کوئی فخر آپ کے دل میں پیدا نہ ہو، نہ یہ خیال کبھی آپ کے دل میں آئے کہ آپ نے کسی پر احسان کیا ہے، بلکہ بڑی سے بڑی قربانی کرکے بھی آپ یہی سمجھتے رہیں کہ آپ92/149 کے خالق کا جو حق آپ پر تھا وہ پھر بھی ادا نہیں ہوسکا ہے۔
تعلق باللہ کی افزائش کے وسائل
اس طرز عمل کو اختیار کرنا درحقیقت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ ایک نہایت دشوار
گزار گھاٹی ہے جس پر چڑھنے کے لیے بڑی طاقت درکار ہے اور یہ طاقت جن تدبیروں
سے آدمی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے وہ یہ ہیں:
۱۔ نماز: نہ صرف فرض اور سنت، بلکہ حسب استطاعت نوافل بھی۔ دیگر یاد رکھیے کہ
نوافل زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ پڑھنے چاہییں تاکہ اللہ سے آپ کا ذاتی تعلق
نشوونما پائے اور اخلاص کی صفت آپ میں پیدا ہو۔۔۔ نفل خوانی کا اور خصوصاً
تہجد خوانی کا اظہار بسا اوقات ایک خطرناک قسم کار یا اور کبر انسان میں پیدا
کر دیتا ہے جونفس مومن کے لیے سخت مہلک ہے۔ اور یہی نقصانات دوسرے نوافل اور
صدقات اور اذکار کے اظہار و اعلان میں بھی پائے جاتے ہیں۔
۲۔ ذکر الٰہی: جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے۔ اس کے وہ طریقے
صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیا کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا
دوسروں سے لیے، بلکہ بہترین اور صحیح ترین طریقہ وہ ہے جو نبیﷺ نے اختیار
فرمایا اور صحابہ کرام کو سکھایا۔ آپ حضورﷺ کے تعلیم کردہ اذکار اور دُعاؤں
میں سے جس قدر بھی یاد کر سکیں یاد کر لیں۔ مگر الفاظ کے ساتھ ان کے معانی بھی
ذہن نشین کیجیے، اورمعافی کے استحضار کے ساتھ ان کو وقتاً فوقتاً پڑھتے رہا
کیجیے۔ یہ اللہ کی یاد تازہ رکھنے اور اللہ کی طرف دل کی توجہ مرکوز رکھنے کا
ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔
۳۔ روزہ: نہ صرف فرض، بلکہ نفل بھی۔ نفل روزوں کی بہترین اور معتدل ترین صورت
یہ ہے کہ ہر مہینے تین دن کے روزوں کا التزام کر لیا جائے، اور ان ایام میں
خاص طور پر تقویٰ کی اس کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جسے قرآن مجید
روزے کی اصل حقیقت بتاتا ہے۔
۴۔ انفاق فی سبیل اللّٰہ: نہ صرف فرض، بلکہ نفل بھی، جہاں تک آدمی کی استطاعت ہو۔ اس معاملے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل چیز مال کی وہ مقدار نہیں ہے جو آپ خدا کی راہ میں صرف کرتے ہیں، بلکہ اصل چیز وہ قربانی ہے جو اللہ کی خاطر آپ نے کی ہو۔ ایک غریب آدمی اگر اپنا پیٹ کاٹ کر خدا کی راہ میں ایک پیسہ صرف کرے تو وہ اللہ کے ہاں اس ایک ہزار روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے جو کسی دولت مند نے اپنی آسایشوں کا دسواں یا بیسواں حصہ قربان کرکے دیا ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صدقہ ان اہم ترین ذرائع میں سے ہے جو تزکیہ نفس کے لیے اللہ93/149 اور اس کے رسول ﷺ نے بتائے ہیں۔ آپ اس کے اثرات کا تجربہ کرکے اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ ایک دفعہ اگر آپ سے کوئی لغزش سرزد ہو جائے تو آپ صرف نادم ہونے اور توبہ کر لینے پر اکتفا کریں۔ اور دوسری مرتبہ اگر کسی لغزش کا صدور ہو توآپ توبہ کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ صدقہ بھی کریں۔ دونوں حالتوں کا موازنہ کرکے آپ خود اندازہ کر لیں گے کہ توبہ کے ساتھ صدقہ آدمی کے نفس کو زیادہ پاک اوربرے میلانات کے مقابلے کے لیے زیادہ مستعد کرتا ہے۔
یہ وہ سیدھا سادہ سلوک ہے جو قرآن اور سنت نے ہمیں بتایا ہے۔ اس پر اگر آپ عمل
کریں تو ریاضتوں اور مجاہدوں اور مراقبوں کے بغیر ہی آپ اپنے گھروں میں اپنے
بال بچوں کے درمیان رہتے ہوئے اور اپنے سارے دنیوی کاروبار انجام دیتے ہوئے
اپنے خدا سے تعلق بڑھا سکتے ہیں۔
تعلق باللہ کو ناپنے کا پیمانہ
اس کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کیوں کر یہ معلوم کریں کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کتنا ہے، اور ہمیں کیسے پتا چلے کہ وہ بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اسے معلوم کرنے کے لیے آپ کو خواب کی بشارتوں اور کشف و کرامت کے ظہور، اور اندھیری کوٹھڑی میں انوار کے مشاہدے کا انتظار کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس تعلق کو ناپنے کا پیمانہ تو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے قلب ہی میں رکھ دیا ہے۔ آپ بیداری کی حالت میں اور دن کی روشنی میں ہر وقت اس کو ناپ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کا، اپنے اوقات، اپنی مساعی کا اور اپنے جذبات کا جائزہ لیجیے۔ اپنا حساب آپ لے کر دیکھیے کہ ایمان لا کر اللہ سے بیع کا جو معاہدہ آپ کر چکے ہیں اسے آپ کہاں تک نباہ رہے ہیں؟ آپ کے اوقات اور محنتوں اور قابلیتوں اور اموال کا کتنا حصہ خدا کے کام میں جا رہا ہے اور کتنا دوسرے کاموں میں؟ آپ کے اپنے مفاد اورجذبات پر چوٹ پڑے تو آپ کے غصے اور بے کلی کا کیا حال ہوتا ہے اور جب اﷲ کے مقابلے میں بغاوت ہو رہی ہو تو اسے دیکھ کر آپ کے دل کی کڑھن اور آپ کے غضب اور بے چینی کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ یہ اور دوسرے بہت سے سوالات ہیں جوآپ خود اپنے نفس سے کر سکتے ہیں۔ اور اس کا جواب لے کر ہر روز معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ سے آپ کا تعلق ہے یا نہیں، اور ہے تو کتنا ہے، اور اس میں کمی ہور ہی ہے یا اضافہ ہو رہا ہے۔ رہیں بشارتیں اور کشوف و کرامات اور انوار و تجلیات، تو آپ ان کے اکتساب کی فکرمیں نہ پڑیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مادی دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر میں توحید کی حقیقت کو پالینے سے بڑا کوئی کشف نہیں ہے۔ شیطان اور اس کی ذریت کے دلائے ہوئے ڈراووں اور لالچوں کے مقابلے میں راہ راست پر قائم رہنے سے بڑی کوئی کرامت نہیں ہے۔ کفر و فسق اور ضلالت کے94/149 اندھیروں میں حق کی روشنی دیکھنے اور اتباع کرنے سے بڑا کوئی مشاہدۂ انوار نہیں ہے۔ اور مومن کو اگر کوئی سب سے بڑی بشارت مل سکتی ہے تو وہ اللہ کو رب مان کر اس پر جم جانے اور ثابت قدمی کے ساتھ اس پر چلنے سے ملتی ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا
تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا
وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo (حٰم السجدۃ
۴۱:۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے،
یقیناًان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو،
اور خوش ہو جاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (روداد جماعت
اسلامی، ششم)
ترجیح آخرت
تعلق باللہ کے بعد دوسری چیز جس کی میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ
ہرحال میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیجئےاور اپنے ہر کام میں آخرت ہی کی فوز و
فلاح کو مقصود بنایئے۔
قرآن مجید ہم کو بتاتا ہے کہ دائمی اور ابدی زندگی کا مقام آخرت ہے اور دنیا کے اس عارضی قیام میں ہم صرف اس امتحان کے لئے بھیجے گئے ہیں کہ خدا کے دئے ہوئےتھوڑے سے سروسامان، تھوڑے سے اختیارات اور گنے چنے اوقات و مواقع میں کام کرکے ہم میں سے کون اپنے آپ کو خدا کی جنت کا مستقل آبادکار بننے کے لئے موزوں ثابت کرتا ہے۔ یہاں جس چیز کا امتحان ہم سے لیا جارہاہے وہ یہ نہیں کہ ہم صنعتیں اور تجارتیں اور کھیتیاں اور سلطنتیں چلانے میں کیا کمالات دکھاتے ہیں۔ اور عمارتیں اور سڑکیں کیسی اچھی بناتے ہیں۔ بلکہ سارا امتحان صرف اس امر کا ہے کہ ہم خدا کی دی ہوئی امانتوں میں خدا کی خلافت کا حق ادا کرنے کی کتنی قابلیت رکھتے ہیں۔ باغی اور خود مختار بن کر رہتے ہیں، یا مطیع و فرمان بردار بن کر؟ خدا کی زمین پر خدا کی مرضی پوری کرتے ہیں یا اپنے نفس اور اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ کی مرضی؟ خدا کی دنیا کو خدائی معیار کے مطابق سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں یا بگاڑنے کی؟ اور خدا کی خاطر شیطانی قوتوں سے کش مکش اور مقابلہ کرتے ہیں یا ان کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں؟ جنت میں آدم و حوّا علیہما السلام کا جو پہلا امتحان ہواتھا وہ دراصل اسی امر میں تھا ۔ اور آخرت میں جنت کی مستقل آبادی کے لئے نوعِ انسانی کے افراد کا جو انتخاب ہوگا وہ بھی اسی فیصلہ کن سوال پر ہوگا پس کامیابی و ناکامی کا اصل معیار یہ نہیں ہے کہ امتحان دینے کے دوران میں کس نے تخت ِ شاہی پر بیٹھ کر امتحان دیا اور کس نے تختۂ دار پر اور کس کی آزمائش ایک سلطنتِ عظیم دے کر کی گئی اور کسے ایک جھونپڑے میں آزمایا گیا۔ امتحان گاہ کے یہ وقتی اور عارضی حالات اگر اچھے ہوں تو یہ فوز و فلاح کی دلیل نہیں اور برے ہوں تو یہ خائب و95/149 خاسر رہ جانے کے ہم معنی نہیں۔ اصل کامیابی جس پر ہماری نگاہیں جمی رہنی چاہئیں، یہ ہے کہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں جس جگہ بھی ہم بٹھائے گئے ہوں اور جو کچھ دے کر بھی ہمیں آزمایا گیا ہو اس میں ہم اپنے آپ کو خدا کا وفادار بندہ اور اس کی مرضات کا متبع ثابت کریں تاکہ آخرت میں ہم کو وہ پوزیشن ملے جو خدا نے اپنے وفاداروں کے لئے رکھی ہے۔
حضرات! یہ ہے اصل حقیقت ۔ مگر یہ ایسی حقیقت ہے جسے محض ایک دفعہ سمجھ لینا
اور مان جانا کافی نہیں ہے بلکہ اسے ہر وقت ذہن میں تازہ رکھنے کے لئے سخت
کوشش کرنی پڑتی ہے ورنہ ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ ہم آخرت کے منکر نہ
ہونے کے باوجود دنیا میں اس طریقے پر کام کرنے لگیں جو آخرت کو بھول کر اور
دنیا کو مقصود بناکر کام کرنے والوں کا طریقہ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت ایک
غیر محسوس چیز ہے جو مرنے کے بعد سامنے آنے والی ہے۔ اس دنیا میں ہم اس کا اور
اس کے اچھے برے نتائج کا ادراک صرف ذہنی توجہ ہی سے کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس
دنیا ایک محسوس چیز ہے جو اپنی تلخیاں اور شیرینیاں ہر وقت ہمیں چکھاتی رہتی
ہے۔ اور جس کے اچھے اور برے نتائج ہر آن ہمارے سامنے آکر ہمیں یہ دھوکا دیتے
رہتے ہیں کہ اصل نتائج بس یہی ہیں۔ آخرت بگڑے تو اس کی تھوڑی بہت تلخی صرف ایک
دل کے چھپے ہوئے ضمیر میں محسوس ہوتی ہے بشرطیکہ وہ زندہ ہو۔ مگر دنیا بگڑے تو
اس کی چبھن ہمارا رونگٹا رونگٹا محسوس کرتا ہے اور ہمارے بال بچے عزیز و
اقارب، دوست آشنا اور سوسائٹی کے لوگ، سب مل جل کر اسے محسوس کرتے اور کراتے
ہیں۔ اسی طرح آخرت سنورے تو اس کی کوئی ٹھنڈک ہمیں ایک گوشۂ دل کےسوا کہیں
محسوس نہیں ہوتی اور وہاں بھی صرف اس صورت میں محسوس ہوتی ہے جب کہ غفلت نے دل
کے اس گوشے کو سن نہ کردیا ہو۔ مگر اپنی دنیا کا سنوار ہمارے پورے وجود کے لئے
لذت بن جاتا ہے ۔ ہمارے تمام حواس اس کو محسوس کرتے ہیں اور ہمارا سارا ماحول
اس کے احساس میں شریک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کو بطور ایک عقیدے کے مان
لینا چاہے بہت مشکل نہ ہو، مگر اسے اندازِ فکر اور اخلاق و اعمال کے پورے نظام
کی بنیاد بنا کر زندگی بھر کام کرنا سخت مشکل ہے اور دنیا کو زبان سے ہیچ کہہ
دینا چاہے کتنا ہی آسان ہو مگر دل سے اس کی محبوبیت اور خیال سے اس کی مطلوبیت
کو نکال پھینکنا کوئی آسان کام نہیں ہے یہ کیفیت بڑی کوشش سے حاصل ہوتی ہے
اورپیہم کوشش کرتے رہنے سے قائم رہ سکتی ہے۔
فکر آخرت کی تربیت کے ذرائع
آپ پوچھیں گے کہ یہ کوشش ہم کیسے کریں اور کن چیزوں سے اس میں مدد لیں؟ میں
عرض کروں گا کہ اس کے بھی دو طریقے ہیں ایک فکری طریقہ اور دوسرا عملی طریقہ۔
فکری طریقہ یہ ہے کہ آپ صرف آمنت بالیوم الآخر کہہ دینے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ قرآ ن کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ جس سے رفتہ رفتہ آپ کو آخرت کا عالم، دنیا کے اس پردے کے پیچھے یقین کی آنکھوں سے نظر آنے لگے گا۔ قرآن کا شاید کوئی صفحہ بھی ایسا نہیں جس میں کسی نہ کسی ڈھنگ سے آخرت کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔ جگہ جگہ آپ کو اس میں عالمِ آخرت کا نقشہ ایسی تفصیل کے ساتھ ملے گا کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کررہا ہو۔ بلکہ بہت سے مقاقات پر تو یہ نقشہ کشی ایسے عجیب طریقے سے کی گئی ہے کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو وہاں پہنچا ہوا محسوس کرتا ہے اور اتنی کسر رہ جاتی ہے کہ اس مادی دنیا کا دھندلا سا پردہ ذرا سامنے سے ہٹ جائے تو آدمی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لے جو الفاظ میں بیان کیا جارہا ہے۔ پس قرآن کریم کو بالالتزام سمجھ کر پڑھتے رہنے سے بتدریج آدمی کو یہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے کہ اس کے ذہن پر آخرت کا خیال مسلط ہوجائے اور وہ ہر وقت یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کی مستقل قیام گاہ موت کے بعد کا عالم ہے۔ جس کی اسے دنیا کی اس عارضی زندگی میں تیاری کرنی ہے۔ 96/149
اس ذہنی کیفیت کو مزید تقویت حدیث کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے ۔ جس میں بار بار
زندگی بعد الموت کے حالات بالکل ایک چشم دید مشاہدے کی شان سے آدمی کے سامنے
آتے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کس طرح ہر
وقت آخرت کے یقین سے معمور رہتے تھے۔ پھر اس کیفیت کو راسخ کرنے میں مزید مدد
زیارت قبور سے ملتی ہے۔ جس کی واحد غرض نبی ﷺ نے یہ بتائی ہے کہ آدمی کو اپنی
موت یاد رہے اور وہ دنیا کی اس متاعِ غرور کے ساتھ مشغول رہتے ہوئے اس بات کو
نہ بھول جائے کہ آخر کار اسے جانا وہیں ہے جہاں سب گئے ہیں اور روز چلے جارہے
ہیں البتہ یہ خیال رہے کہ اس غرض کے لئے وہ مزارات سب سے کم مفید ہیں جنہیں آج
بگڑے ہوئے لوگوں نے حاجت روائی و مشکل کشائی کے مراکز بنا کر رکھا ہے۔ ان کے
بجائے آپ گورِ غریباں کی زیارت کرکے زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں یا پھر بادشاہوں
کے ان عالی شان مقبروں کو دیکھ کر جن کے آس پاس کہیں کوئی حاجب و دربان ادب کے
قاعدے سکھانے والا نہیں ہے۔
اس کے بعد عملی طریقے کو لیجئے۔ آپ کو دنیا میں رہتے ہوئےاپنی گھریلو زندگی میں ، اپنے محلے اور اپنی برادری کی زندگی میں اپنے حلقۂ احباب اور حلقۂ تعارف میں، اپنے شہراور اپنے ملک کےمعاملات میں ، اپنے لین دین اور اپنی معاش کے کاموں میں۔ غرض ہر آن قدم قدم پر ایسے دو راہے ملتے ہیں ، جس میں سے ایک راستے کی طرف جانا ایمان بالآخرۃ کا تقاضا ہوتا ہے اور دوسرے کو اختیار کرنا دنیا پرستی کا تقاضا، ایسے ہر موقع پر پوری کوشش کیجئے کہ آپ کا قدم پہلے راستے ہی کی طرف بڑھے، اور اگر نفس کی کمزوری سے یاغفلت کی وجہ سے کبھی دوسرے راستے پر آپ چل نکلے ہوں تو ہوش آتے ہی پلٹنے کی کوشش کیجئے، خواہ کتنے ہی دور پہنچ چکے ہوں۔ پھر وقتاً فوقتاً اپنا حساب لے کر دیکھتے رہیئے کہ کتنے مواقع پر97/149 دنیا آپ کو کھینچنے میں کامیاب ہوئی۔ اور کتنی بار آپ اپنے کو آخرت کی طرف کھینچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ جائزہ آپ کو خود ہی ناپ تول کر بتاتا رہے گا کہ آپ کے اندر فکرِ آخرت نے کتنا نشو و نما پایا، اور ابھی کتنی کچھ کمی آپ کو پوری کرنی ہے جس قدر کمی آپ خود محسوس کریں اسے خود ہی پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بیرونی مدد آپ کو زیادہ سے زیادہ بہم پہنچ سکتی ہے تو اس طرح پہنچ سکتی ہے کہ دنیا پرست لوگوں کی صحبت سے بچیں، اور ایسے صالح لوگوں سے ربط ضبط بڑھائیں جو آپ کے علم میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں مگر یہ یاد رکھئیے کہ آج تک کوئی ذریعہ ایسا دریافت نہیں ہوسکا ہے جو آپ کے اندر خود آپ کی اپنی کوشش کے بغیر کسی صفت کو گھٹا سکے یا ایسی کوئی نئی صفت آپ میں پیدا کرسکے جس کا مادہ آپ کی طبیعت میں موجود نہ ہو۔
بے جا پندار سے احتراز
تیسری بات جس کی میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ گزشتہ پیہم کوشش سے جو
کچھ بھی اصلاح آپ کی انفرادی سیرت اور آپ کی اجتماعی اخلاق میں رونما ہوئی ہے
اس پر فخر کا جذبہ آپ کے دل میں ہر گز پیدا نہ ہو۔ آپ نہ فرداً فرداً ، نہ من
حیث الجماعت، کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں کہ ہم اب کامل ہوگئے ہیں، جو کچھ
بننا تھا بن چکے ہیں، کوئی مزید کمالِ مطلوب ایسے نہیں رہا ہے جو ہمیں حاصل
کرنا ہو۔
مجھے اور جماعت کے دوسرے ذمہ دار لوگوں کو بسا اوقات ایک فتنے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایک زمانے سے بکثرت لوگ جماعت کی، اور دراصل اس تحریک کی جس کے لئے یہ جماعت کام کرنے اٹھی ہے، قدر گھٹانے کے لئے یہ مشہور کررہے ہیں کہ یہ جماعت تو محض ایک سیاسی جماعت ہے۔ عام سیاسی پارٹیوں کی طرح کام کررہی ہے اس میں تزکیۂ نفس اور روحانیت کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے، اس میں تعلق باللہ اور فکر آخرت کا فقدان ہے، اس کے چلانے والے خود بے پیرے ہیں نہ انہوں نے کسی سلسلۂ خانقاہی سے تقویٰ اور احسان کی تربیت پائی ہے، نہ ان کے رفقاء کو اس طرح کی تربیت ملنے کا امکان ہے ۔ یہ باتیں اس لئے کی جاتی ہیں کہ تحریکِ اسلامی کے کارکنوں میں اور اس سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں میں بددلی پھیلے اور پھر وہ پلٹ کر انہی آستانوں سے وابستہ ہوجائیں جہاں آج تک اسلام زیرِ سایۂ کفر کی کسی نہ کسی جزوی خدمت ہی کو بڑی سے بڑی چیز سمجھا جاتا رہا ہے۔ جہاں پورے دین کو بحیثیت ایک نظام زندگی کے قائم اور غالب کرنے کا تخیل سرے سے موجود ہی نہیں رہا ہے۔ بلکہ جہاں یہ تخیل اگر پیش کیا بھی گیا ہے تو ہر طرح کی سخن سازیوں سے اس کو ایک غیر دینی تخیل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور اسے یوں مطعون کیا گیا ہے کہ گویا کفر و فسق کے مقابلے میں اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی فکر سراسر ایک دنیا پرستانہ فکر ہے ۔ اس حالت میں ہم کو مجبوراً خانقاہی98/149 تزکیۂ نفس اور اسلامی تزکیۂ نفس کا فرق واضح کرنا پڑتا ہے اور وہ تقویٰ اور احسان کیا ہے جو اسلام میں مطلوب ہے اور وہ اس ٹکسالی تقویٰ اور احسان سے کس قدر مختلف ہے ، جس کی تربیت ہمارے ہاں فنِ دینداری کے ماہرین دیا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں تحریکِ اسلامی کے طریقِ اصلاح و تربیت اور نتائج بھی کھول کر بیان کرنے پڑتے ہیں تاکہ ایک صحیح دینی حسّ رکھنے والا آدمی خود یہ محسوس کرلے کہ اس تحریک کا اثر قبول کرنے کے بعد ابتدائی مرحلے ہی میں انسان کے اندر تقویٰ اور احسان کی جو حقیقی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے وہ عمر بھر تزکیۂ نفس کی تربیت پانے بلکہ تربیت دینے والوں میں بھی نظر نہیں آتی ۔
یہ باتیں ہمیں مجبوراً اپنے معترضین کی بے انصافیوں کی وجہ سے کہنی پڑتی ہیں۔
اپنی مدافعت کے لئے نہیں بلکہ تحریکِ اسلامی کو بچانے کے لئے کہنی پڑتی ہیں۔
لیکن انہیں کہتے وقت ہم خدا کی پناہ مانگتےہیں کہ کہیں یہ باتیں ہمارے اندر
اور ہمارے رفیقوں کے اندر عجب اور غرور اور اپنی کاملیت کی غلط فہمی نہ پیدا
کردیں اس لئے کہ اگر خدانخواستہ یہ جھوٹا پندار ہمارے اندر پیدا ہوگیا تو ہم
نے آج تک جو کچھ حاصل کیا ہے وہ کھو بیٹھیں گے۔
اس خطرے سے بچنے کے لئے میں چاہتا ہوں کہ تین حقیقتیں آپ اچھی طرح سمجھ لیں
اور انہیں کبھی فراموش نہ کریں۔
پہلی بات یہ ہے کہ کمال ایک لامتناہی چیزہے جس کی آخری حد ہماری نگاہوں سے
اوجھل ہے آدمی کاکام یہ ہے کہ پیہم اس کی بلندیوں پر چڑھنے کی کوشش کرتا رہے
اور اس مقام پر بھی پہنچ کر یہ گمان نہ کرے کہ وہ کامل ہو گیا ہے جس آن کسی
شخص کو یہ غلط فہمی لاحق ہوتی ہے اس کی ترقی فوراً رک جاتی ہے اور صرف رک ہی
نہیں جاتی اُلٹا تنزّل شروع ہوجاتا ہے یاد رکھئے کہ بلندی پر چڑھنے ہی کے لئے
نہیں، ایک بلند مقام پر ٹھیرنے کے لئے بھی جدوجہد درکار ہوتی ہے اور اس کا
سلسلہ بند ہوتے ہی پستی کی کشش آدمی کو نیچے کھینچنا شروع کردیتی ہے۔ ایک
دانشمند آدمی کو کبھی نیچے جھانک نہیں دیکھنا چاہیئے کہ وہ کتنا اوپر چڑھ چکا
ہے اسے اوپر دیکھنا چاہیئے کہ جو بلندیاں ابھی چڑھنے کے لئے باقی ہیں وہ اس سے
کس قدر دور ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے ہمارے سامنے انسانیت کا اتنا بلند معیار رکھا ہے جس کی ابتدائی منزلیں بھی غیر اسلامی مذاہب و ادیان کے معیار ِ کمال سے اونچی ہیں۔ اور یہ کوئی خیالی معیار نہیں ہے، بلکہ عمل کی دنیا میں انبیاء کرام علیہم السلام اور اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اور صلحائے امت کی پاکیزہ زندگیاں اس کی بلندیوں کی نشاندہی کررہی ہیں۔اس99/149 معیار کو آپ ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔ یہ آپ کو کاملیت کی غلط فہمی سے بچائے گا،اپنی پستی کا احساس دلائے گا اور ترقی کی کوششوں کے لئے ہر وقت اتنی بلندیاں آپ کے سامنے پیش کرتا رہے گا کہ عمر بھر کی جدوجہد کے بعد بھی آپ یہی محسوس کریں گے کہ ابھی بہت سی منزلیں چڑھنے کے لئے باقی ہیں۔ اپنے گرد وپیش کے دم توڑتے ہوئے مریضوں کو دیکھ کر اپنی ذرا سی تندرستی پر ناز نہ کیجئے۔ اخلاق و روحانیت کے ان پہلوانوں پر نگاہ رکھیئے جن کی جگہ آج آپ شیطان سے نبرد آزما ہونے کے لئے اکھاڑے میں اترے ہیں ۔ مومن کا کام یہ ہے کہ دولتِ دین کے معاملے میں وہ ہمیشہ اپنے سے اونچے لوگوں کی طرف دیکھے تاکہ یہ دولت کمانے کی حرص کبھی اس کے اندر بجھنے نہ پائے اور دولتِ دنیا کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے کمتر لوگوں کی طرف دیکھے، تاکہ جتنا کچھ بھی اس کے رب نے اسے دیا ہے اس پر وہ خدا کا شکر بجا لائے اور زر و مال کی پیاس تھوڑے ہی سے بجھ جائے۔ href="#_ftn13" name="_ftnref13" title="">[13]
تیسری بات یہ ہے کہ فی الواقع ہم نے اب تک اپنے اندر جو خوبیاں پیدا کی ہیں وہ
بس اس لئے خوب ہیں کہ ہمارے گرد و پیش کا بگاڑ حد سے زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ اس
گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ذرا سا دیا بھی ، جسے روشن کرنے کی توفیق لوگوں کو نصیب
ہوگئی، نمایاں نظر آنے لگا۔ ورنہ سچی بات یہ ہے کہ اسلام کے کم سے کم معیار ِ
مطلوب کو بھی سامنے رکھ کر جب اپنا جائزہ لیں تو ہر پہلو سے اپنی ذات میں
خامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں۔ پس اگر ہم اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں تو یہ
محض ایک انکسار کے طور پر نہ ہو بلکہ ایک حقیقی اعتراف ہونا چاہیئے۔ اور اس کا
نتیجہ یہ ہونا چاہیئے کہ اپنی ایک ایک کوتاہی کو سمجھیں اور اسے دور کرنے کی
کوشش کریں۔
تربیت گاہوں سے فائدہ اٹھایئے
اسی چیز میں آپ کی مدد کرنے کے لئے ہم نے تربیت کے نئے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت جو تربیت گاہیں قائم کی گئی ہیں ان میں بلا تخصیص سب آسکتے ہیں۔ تربیت کی مدت قصداً کم رکھی گئی ہے تاکہ کاروباری لوگ اور ملازمین اور زراعت پیشہ حضرات ، سب کے سب اس سے بآسانی فائدہ اٹھاسکیں۔ تربیت کے دو اجزا رکھے گئے ہیں، ایک علمی اور دوسرا عملی۔ عملی جز میں کوشش کی جاتی ہے کہ تھوڑے وقت ہی میں قرآن و حدیث کی تعلیمات احکامِ فقہ اور لٹریچر کا ایک ضروری خلاصہ آدمی کے ذہن نشین ہوجائے جس سے وہ دین کو ، اس کے پورے نظام کو، اس کے تقاضوں کو ، اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کے طریقوں کو، اور اس کی اقامت کے لائحۂ عمل کو اچھی طرح سمجھ لے ۔ اور یہ جان لے کہ اقامتِ دین کی اس سعی کے لئے کس قسم کی انفرادی سیرت اور کس طرح کا جماعتی کردار مطلوب ہے۔100/149 عملی جز میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ چند روز تک ہمارے کارکن بیک وقت ایک جگہ رہ کر ایک ستھری اور پاکیزہ اسلامی زندگی بسر کرنے کی مشق کریں۔ ضبطِ اوقات کا، نظمِ عمل کا، حسنِ رفاقت کا، اور اخوت و محبت کا سبق سیکھیں۔ ایک دوسرے کی خوبیاں اپنے اندر جذب کریں۔ اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے میں دوسروں سے مدد لیں، اور چند روز ہر طرح کی دنیوی مشغولیتوں سے منقطع ہوکر خالص اللہ کےلئے اپنی فکر اور توجہ اور مصروفیت کو مرتکز رکھیں۔
ہماری دلی خواہش تھی کہ ایسی تربیت گاہیں کم ازکم ہر ضلع میں قائم کی جائیں
اور ہمہ وقت کام کرتی رہیں۔ لیکن ابھی ہمارے پاس ایسے آدمیوں کی کمی ہے جو اس
کام کو چلانے کے اہل ہوں۔ اور دوسرے ضروری وسائل بھی کافی نہیں ہیں۔ اس لئے
سردست صرف لاہور ، راولپنڈی، ملتان اور کراچی میں تھوڑی تھوڑی مدت کے لئے اس
کا انتظام کیا گیا ہے تاہم مجھے توقع ہو کہ اس تھوڑے سے انتظام کا بھی آپ کو
بہت کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ انشاءاللہ اس کورس سے گزر کو آپ خود محسوس کریں
گے کہ یہ ایک بڑا مفید پروگرام ہے جو جماعت نے شروع کیا ہے ۔ میں تمام رفقاء
سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
اپنے طرف توجہ کیجئے گھروں کی
اس کے بعد میں آپ سب حضرات کو یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اپنی اولاد کی
اوراپنے گھر والوں کی اصلاح پر خاص توجہ دیں:
قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا۔جس اولاد کے لئے اور جن بیویوں کے
لئے آپ کو کھانے پینے اور پہننے کی فکر ہوتی ہے ان کے لئے سب سے بڑھ کر فکر اس
بات کی ہونی چاہیئے کہ وہ جہنم کر ایندھن نہ بننے پائیں۔ آپ کو اپنی حد تک ان
کی عاقبت سنوارنے اور جنت کے راستے پر ڈالنے ہی کو کوشش کرنی چاہیئے پھر اگر
خدانخواستہ ان میں سے کوئی خود بگڑے تو آپ بری الذمہ ہیں۔ بہر حال اس کی عاقبت
خراب ہونے میں آپ کا کوئی حصہ نہ ہو۔ بسا اوقات میرے پاس اس قسم کی شکایتیں
آتی رہتی ہیں کہ رفقاء جماعت اصلاحِ خلق کی جتنی فکر کرتے ہیں، اصلاحِ اہل و
عیال اور اصلاحِ خاندان کی نہیں کرتے۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے معاملہ میں یہ
شکایات درست ہوں، اور بعض کے معاملے میں مبنی بر مبالغہ ۔ فرداً فرداً ایک ایک
شخص کے حال کی تحقیق میرے لئے مشکل ہے اس لئے میں یہاں اس بارے میں ایک عام
نصیحت پر اکتفا کرتا ہوں۔ ہم سب کی یہ تمنا ہونی چاہيئے اور تمنا کے ساتھ کوشش
بھی کہ دنیا میں جو ہمیں پیارے ہیں انہیں سلامتی کی راہ پر دیکھ کر ہماری
آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا
قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۔
اس معاملے میں رفقاء کو چاہيئے کہ وہ ایک دوسرے کی زندگی میں دلچسپی لیں اور نہ صرف اپنی اولاد کو بلکہ اپنے رفقاء کی اولاد کو بھی سنوارنے میں حصّہ لیں۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک بچہ اپنے باپ کا اثرقبول نہیں کرتا مگر اپنے باپ کے دوستوں کا اثر قبول کرلیتا ہے۔ 101/149
آپس کی اصلاح اور اس کا طریقہ
میں آپ کو یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ آپ اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کے
ساتھ آپس میں بھی ایک دوسرے کی اصلاح کریں۔ جو لوگ خدا کی خاطر کلمۂ حق کی
سربلندی کے لئے ایک جماعت بنیں انہیں ایکدوسرے کا ہمدرد و مددگار اور غمخوار
ہونا چاہیئے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ اپنے مقصدِ عظیم میں کامیاب نہیں
ہوسکتے جب تک کہ بحیثیت مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہوں اور اس
احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیئے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں
او ر ان میں سے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی
کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تزکئے کا طریقہ یہی ہے کہ میں گرتا نظر آؤں تو آپ
دوڑ کر مجھے سنبھالیں، اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام
لوں۔ میرے دامن پر کوئی دھبہ نظر آئے تو آپ اسے صاف کریں اور آپ کا دامن آلودہ
ہورہا ہو تو میں اسے پاک کروں۔جس چیزمیں میری فلاح و بہتری آپ کو محسوس ہواسے
آپ مجھ تک پہنچائیں اور جس چیز میں آپ کی درستی مجھے محسوس ہو اسے میں آپ تک
پہنچاؤں۔ مادی دنیا میں جب لوگ ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں تو مجموعی طور
پر سب کی خوشحالی میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح اخلاق و روحانیت کی دنیا میں بھی
جب یہ امداد باہمی اور داد و سدّ کا طریقہ چل پڑتا ہے تو پوری قوم کا سرمایہ
بڑھتا چلا جاتا ہے۔
باہمی اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس شخص کی کوئی بات آپ کو کھٹکے ، یا جس
سے کوئی شکایت آپ کو ہو، اس کے معاملے میں آپ جلدی نہ کریں، بلکہ پہلے اسے
اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اولین فرصت میں خود اس شخص سے مل کر تخلیہ
میں اس سے بات کریں۔ اس پوری مدت میں اس معاملہ کا ذکر غیر متعلق لوگوں سے
کرنا اور شخصِ متعلق کی غیر موجودگی میں اس کا چرچا کرنا صریحاً غیبت ہے جس سے
قطعی اجتناب کرنا چاہیئے۔
اجتماعی تنقید کا صحیح طریقہ
آپس میں ایک دوسرے کی غلطیوں اور کمزوریوں پر تنقید بھی اجتماعی اصلاح کا ایک مفید طریقہ ہے، مگر تنقید کے صحیح حدود اور آداب ملحوظ نہ رکھنے سے یہ سخت نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لئے میں وضاحت کے ساتھ بتادینا چاہتا ہوں102/149 کہ اس کے حدود اور آداب کیا ہیں:-
1۔ تنقید ہر وقت ہر صحبت میں نہ ہو۔
2۔ تنقید کرنے والا اللہ کو شاہد سمجھ کر پہلے خود اپنے دل کا جائزہ لے لے کہ
وہ اخلاص اور خیرخواہی کے جذبے سے تنقید کررہا ہے یا اس کا محرک کوئی نفسانی
جذبہ ہے۔ اگر پہلی صورت ہو تو بے شک تنقید کی جائے ورنہ زبان بند کرکے خود
اپنے نفس کو اس ناپاکی سے بچانے کی فکر کرنی چاہیئے۔
3۔ تنقید کا لہجہ اور زبان دونوں ایسے ہونے چاہیئیں جن سے ہر سننے والے کو
محسوس ہو کہ آپ فی الواقع اصلاح چاہتے ہیں۔
4۔ تنقید کے لئے زبان کھولنے سے پہلے یہ اطمینان کرلیجئے کہ آپ کے اعتراض کی
کوئی بنیاد واقعہ میں موجود ہے۔ بلاتحقیق کسی کے خلاف کچھ کہنا ایک گناہ ہے جس
سے فساد رونما ہوتا ہے۔
5۔ جس شخص پر تنقید کی جائے اسے تحمل کے ساتھ بات سننی چاہیئے۔ انصاف کے ساتھ
غور کرنا چاہیئے۔ جو بات حق ہو اسے سیدھی طرح مان لینا چاہیئے۔ اور جو بات غلط
ہو اس کی بدلائل تردید کردینی چاہیئے۔ تنقید سن کر طیش میں آجانا کبر اور غرور
نفس کی علامت ہے۔
6۔ تنقید اور جواب تنقید اور جواب الجواب کا سلسلہ نہایت نہیں چلنا چاہيئے۔ کہ
وہ ایک مستقل ردّ و کد بن کر رہ جائے۔ بات صرف اس وقت تک ہونی چاہیئے جب تک
دونوں طرف کے محتلف پہلو وضاحت کے ساتھ سامنے آجائیں۔ اس کے بعد اگر معاملہ
صاف نہ ہو تو گفتگو ملتوی کردیجئے، تاکہ فریقین ٹھنڈے دل سے اپنی اپنی جگہ غور
کرسکیں۔
ان حدود کو ملحوظ رکھ کر جو تنقید کی جائے وہ نہ صرف یہ کہ مفید ہے بلکہ اجتماعی زندگی کو درست رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے ۔ اس کے بغیر کوئی تنظیم زیادہ دیر تک صحیح راستے پر گامزن نہیں رہ سکتی۔ اس تنقید سے کسی کو بھی بالاتر نہ ہونا چاہیئے میں اس کو جماعت کی صحت برقرار رکھنے کے لئے ناگزیر سمجھتا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ جس روز خدانخواستہ ہمارے یہاں اس کا دروازہ بند ہوا، اسی روز ہمارے بگاڑ کا دروازہ کھل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں ابتدا سے ایک اجتماع ِخاص اس غرض کے لئے منعقد کرتا رہا ہوں کہ اس میں سارے کام اور نظام کا پورا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔103/149 ایسے اجتماعات میں سب سے پہلے میں خود اپنے آپ کو تنقید کے لئے پیش کرتا ہوں۔ تاکہ جس کو مجھ پر یا میرے کام پر کوئی اعتراض ہو وہ اسے سب کے سامنے بے تکلف پیش کرے اور اس کی تنقید سے یا تو میری اصلاح ہوجائے، یا میرے جواب سے اس کی اور اس کی طرح سوچنے والے دوسرے لوگوں کی غلط فہمی رفع ہوجائے۔
سمع و طاعت اور نظم جماعت کی پابندی
ایک اور چیز جس کا احساس آپ کو دلانے کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ
ابھی آپ کے اندر سمع و طاعت اور نظم کی بہت کمی ہے۔ اگرچہ اپنے ماحول کو
دیکھتےہوئے ہمیں اپنے اندر بڑا ڈسپلن نظر آتا ہے۔ لیکن ایک طرف جب ہم اسلام کے
معیارِ مطلوب کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف اس کٹھن کام کو دیکھتے ہیں، جو ہمیں
کرنا ہے، تو سچی بات یہ ہے کہ ہمارا موجودہ ڈسپلن بہت ہی حقیر محسوس ہوتا ہے۔
آپ چند مٹھی بھر آدمی ہیں جو تھوڑے سے وسائل لے کر میدان میں آئے ہیں اور کام
آپ کے سامنے یہ ہے کہ فسق اور جاہلیت کی ہزاروں گنی زیادہ طاقت اور لاکھوں گنے
زیادہ وسائل کے مقابلے میں نہ صرف ظاہری نظامِ زندگی کو بلکہ اس کی باطنی روح
تک کو بدل ڈالیں۔ آپ خواہ تعداد کے لحاظ سے دیکھ لیں یا وسائل کے لحاظ سے، آپ
کے اور ان کے درمیان کوئی نسبت نہیں ہے۔ اب آخر اخلاق اور نظم کی طاقت کے سوا
اور کون سی طاقت آپ کے پاس ایسی ہوسکتی ہے۔ جس سے آپ ان کے مقابلے میں اپنی
جیت کی امید کرسکیں؟ آپ کی امانت و دیانت کاسکّہ اپنے ماحول پربیٹھا ہواہو،
اور آپ کا نظم اتنا زبردست ہوکہ آپ کے ذمہ دار لوگ جس وقت جس نقطے پر جتنی
طاقت جمع کرنا چاہیں، ایک اشارے پر جمع کرسکیں، تب ہی آپ اپنے مقصد عظیم میں
کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے اقامتِ دین کی سعی کرنے والی ایک جماعت میں جماعت کے اولی الامر کی اطاعت فی المعروف دراصل اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ایک جز ہے۔جو شخص اللہ کا کام سمجھ کر یہ کام کررہا ہے اور اللہ کے کام کی خاطر جس نے کسی کو اپنا امیر مانا ہے، وہ اس کے جائز احکام کی اطاعت کرکے دراصل اس کی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ جس قدر اللہ سے اور اس کے دین سے آدمی کا تعلق زیادہ ہوگا، اتنا ہی وہ سمع و طاعت میں بڑھا ہوا ہوگا، اور جتنی اس تعلق میں کمی ہوگی اتنی ہی سمع و طاعت میں بھی کمی ہوگی۔ اس سے بڑی قابلِ قدر قربانی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس شخص کا آپ پر کوئی زور نہیں ہے اور جسے محض خدا کے کام کے لئے آپ نے امیر مانا ہے، اس کا حکم آپ ایک وفادار ماتحت کی طرح مانیں اور اپنی خواہش اور پسند اور مفاد کے خلاف اس کے ناگوار احکام تک کی بسر و104/149 چشم تعمیل کرتے جائیں۔ یہ قربانی چونکہ اللہ کے لئے ہے اس لئے اس کا اجر بھی اللہ کے ہاں بہت بڑا ہے اس کے برعکس جو شخص اس کام میں شریک ہونے کے بعد بھی کسی حال میں چھوٹا بننے پر راضی نہ ہو، اور اطاعت کو اپنے مرتبے سے گری ہو ئی چیز سمجھے یا حکم کی چوٹ اپنے نفس کی گہرائیوں میں محسوس کرے اور تلخی کے ساتھ اس پر تلملائے یا اپنی خواہش اور مفاد کے خلاف احکام کو ماننے میں ہچکچائے، وہ دراصل اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ ابھی اس کے نفس نے اللہ کے آگے پوری طرح سر اطاعت خم نہیں کیا ہے اور ابھی اس کی انانیت اپنے دعوؤں سے دست بردار نہیں ہوئی ہے۔
اصحابِ امر کو نصیحت
رفقاء کو اطاعت حکم کی نصیحت کرنے کے ساتھ میں اصحاب امر کو بھی یہ نصیحت کرنا
ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ حکم چلانے کا صحیح طریقہ سیکھیں۔ جس شخص کو بھی نظم
جماعت کے اندر کسی ذمہ داری کا منصب سونپا جائے اور کچھ لوگ اس کے ساتھ امر
دئے جائیں ۔ اس کے لئے یہ ہرگزحلال نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز
سمجھنے لگے اور اپنے تابع رفقاء پر بے جا تحکم جتانے لگے۔اسے حکم چلانے میں
کبریائی کی لذت نہ لینی چاہئیے اسے اپنے رفقاء سے نرمی اور ملاطفت کے ساتھ کام
لینا چاہیئے اسے اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ کہیں کسی کارکن میں عدم اطاعت اور
خودسری کا جذبہ ابھار دینے کی ذمہ داری خود اس کے اپنے کسی غلط طریقِ کار پر
نہ عائد ہوجائے۔ اسے جوان اور بوڑھے کمزور اور طاقت ور، خوشحال اور خستہ حال
سب کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکنا چاہیئے، بلکہ جماعت کے مختلف افراد کی مخصوص
انفرادی حالتوں پر نگاہ رکھنی چاہيئے اور جو جس لحاظ سے بھی بجا طور پر رعایت
کا مستحق ہو اس کو ویسی ہی رعایت دینی چاہیئے۔ اسے جماعت کو ایسے طریقے پر
تربیت دینی چاہیئے کہ امیر جو کچھ مشورے اور اپیل کے انداز میں کہے رفقاء اس
کو حکم کے انداز میں لیں اور اس کی تعمیل کریں یہ دراصل جماعتی شعور کی کمی کا
نتیجہ ہے کہ امیر کی "اپیل" اثر انداز نہ ہوکر "حکم" دینے کی ضرورت محسوس کرے۔
"حکم" تو تنخواہ دار فوج کے سپاہیوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ رضاکار سپاہی جو اپنے
دل کے جذبے سے اپنے خدا کی خاطر اکٹھے ہوئے ہوں، خدا کے کام میں خود اپنے
بنائے ہوئے امیر کی اطاعت کے لئے حکم کے محتاج نہیں ہوا کرتے۔ ان کو تو صرف یہ
اشارہ مل جانا کافی ہے کہ فلاں جگہ تم کو اپنے رب کی فلاں خدمت بجالانے کا
موقع مل رہا ہے۔ یہ کیفیت جس روزاصحاب امر اور ان کے رفقاء میں پیدا ہوجائے گی
آپ دیکھیں گے کہ آپس کی وہ بہت سی بدمزگیاں آپ سے آپ ختم ہوجائیں گی۔ جو وقتاً
فوقتاً پیدا ہوتی رہتی ہیں۔
آخری نصیحت
میری آخری نصیحت یہ ہر کہ وہ سب لوگ جو اس تحریک کے ساتھ ہیں، انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ اپنے اندر ابھاریں خدا کے کام کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیں اور اس کام میں دل کی وہ لگن پیدا کریں جو انہیں چین سے نہ بیٹھنے دے۔ 105/149
آپ خود ہی مسلمان نہ بنیں بلکہ اپنی جیب کو بھی مسلمان بنائیں۔ یہ بات نہ
بھولیے کہ خدا کے حقوق آپ کے جسم و جان اور وقت ہی پر نہیں ہیں۔ آپ کے مال پر
بھی ہیں۔ اس حق کے لئے خدا اور رسول نے کم سے کم کی حد تو مقرر کردی ہے، مگر
زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ یہ حد تجویز کرنا آپ کا اپنا کام
ہے ۔ اپنے ضمیر سے پوچھئے کہ کتنا کچھ خدا کی راہ میں صرف کرکے آپ یہ خیال
کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جو کچھ آپ کے مال پر خدا کا حق تھا وہ آپ نے ادا
کردیاہے۔ اس باب میں میں کوئی شخص کسی دوسرے کا جج نہیں بن سکتا۔ بہترین جج ہر
شخص کا اپنا ضمیر و ایمان ہی ہے۔ البتہ میں اتنا ضرور کہوں گا کہ ان لوگوں کے
طرزِ عمل سے سبق حاصل کیجئے جو نہ خدا کے قائل ہیں، نہ آخرت کے، اور پھر بھی
وہ اپنے باطل نظریات کو فروغ دینے کے لئے ایسی ایسی قربانیاں کرتے ہیں جنہیں
دیکھ کر ہم خدا اور آخرت کے ماننے والوں کو شرم آنی چاہیئے۔
اقامت دین کے کام میں رفقاء کو جیسا انہماک ہونا چاہیئے اس میں بھی ابھی مجھے
بہت کمی محسوس ہوتی ہو۔ بعض رفیق تو بلاشبہ پوری سرگرمی سے کام کررہے ہیں جسے
دیکھ کر جی خوش ہوجاتا ہے اور دل سے ان کے حق میں دعا نکلتی ہے۔ مگر بیشتر
حضرات میں ابھی دل کی لگن نظر نہیں آتی۔ فسق و فجور کی گرم بازاری اور خدا کے
دین کی بے بسی دیکھ کر ایک مومن کے قلب میں جو آگ لگنی چاہیئے اس کی تپش کم ہی
لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔ آپ کو اس پر کم سے کم اتنی بے چینی تو لاحق ہو جتنی
اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر، یا اپنے گھر میں آگ لگنے کا خطرہ محسوس کرکے کرتی
ہے۔ یہ معاملہ بھی ایسے نہیں ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لئے سرگرمی
اور انہماک کی حد تجویز کرسکتا ہو۔ اس کا فیصلہ تو ہر شخص کو اپنے ضمیر کا
جائزہ لے کر خود ہی کرنا چاہیئے کہ کتنا کچھ کام کرکے وہ یہ سمجھنے میں حق
بجانب ہوسکتا ہے کہ حق پرستی کے تقاضے ان نے پورے کردئیے ہیں۔ البتہ آپ کی
عبرت کے لئے ان باطل پرستوں کی سرگرمیوں پر ایک نگاہ ڈال لینی کافی ہے جو دنیا
میں کسی نہ کسی دینِ باطل کو فروغ دینے کے درپے ہیں۔ اور اس کے لئے سر دھڑ کی
بازیاں لگا رہے ہیں۔
خواتین کے لئے ہدایات
اب تک جو کچھ میں نےکہا ہے اس کا بیشتر حصّہ مردوں اور عورتوں کے لئے مشترک تھا۔ اب میں خاص طور پر کچھ باتیں106/149 ان خواتین سے عرض کروں گا جو ہمارے ساتھ وابستہ ہیں یا اس سے دلچسپی رکھتی ہیں۔
اوّلین ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے دین سے زیادہ سے زیادہ واقفیت حاصل
کریں۔ نہ صرف قرآن سمجھ کر پڑھیں بلکہ کچھ نہ کچھ حدیث اور فقہ کا مطالعہ بھی
کریں۔ نہ صرف دین کی بنیادی باتوں اور ایمان کے تقاضوں کو جانیں بلکہ یہ بھی
معلوم کریں کہ آپ کی ذاتی زندگی، گھر کی زندگی، خاندان کی زندگی اور عام
معاشرتی زندگی کے بارے میں دین کے احکام کیا ہیں۔ احکامِ دینی سے عورتوں کی
عام ناواقفیت ان اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے جن کی بدولت مسلمان گھروں میں
غیر شرعی طریقے رائج ہوئے ہیں، بلکہ جاہلیت کی رسموں تک نے راہ پالی ہے۔ آپ کو
سب سے پہلے خود اپنی اس خامی کو رفع کرنے کی توجہ کرنی چاہیئے۔
دوسرا کام یہ کہ آپ کو دین کا جو علم حاصل ہو اس کے مطابق آپ اپنی عملی زندگی
کو، اپنے اخلاق اور سیرت کو، اور اپنے گھر کی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔
ایک مسلمان عورت میں کیریکٹر کی یہ مضبوطی ہونی چاہیئے کہ وہ جس چیز کو حق
سمجھے اس پر سارے گھر اور سارے خاندان کی مخالفت و مزاحمت کے باوجود ڈٹ جائے
اور جس چیز کو باطل سمجھے اسے کسی کے زور دینے پر بھی قبول نہ کرے۔ ماں، باپ،
شوہر اور خاندان کے دوسرے بزرگ یقیناً اس کے مستحق ہیں کہ ان کی فرمانبرداری
کی جائے، ان کا ادب و لحاظ کیا جائے، ان کے مقابلے میں نشوز اور خودسری نہ
اختیار کی جائے۔ مگر سب کے حقوق اللہ اور اس کے رسول کے حقوق سے نیچے ہیں نہ
کہ ان کے اوپر۔ خدا اور رسول کی نافرمانی سے صاف انکار کردیں، خواہ وہ باپ ہو
یا شوہر۔ اس معاملے میں آپ ہرگز کسی سے نہ دبیں۔ بلکہ اس کا جو بدتر سے بدتر
نتیجہ آپ کی دنیوی زندگی کو برباد کرتا نظر آئے اس کو بھی توکلاً علی اللہ
گوارا کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ دین کے اتباع میں آپ جتنی مضبوطی دکھائیں گی
انشاءللہ اتنا ہی آپ کے ماحول پر اچھا اثر پڑیگا اور بگڑے ہوئے گھروں کو درست
کرنے کا آپ کو موقع ملے گا۔ اس کے برعکس بے جا اور غیر شرعی مطالبات کے آگے آپ
جس قدر جھکیں گی، آپ کی اپنی زندگی بھی برکات سے محروم رہے گی اور آپ اپنے گرد
و پیش کی سوسائٹی کو بھی ایمان و اخلاق کی کمزوری کا ایک برا نمونہ دیں گی۔
تیسرا کام آپ کے ذمہ یہ ہے کہ تبلیغ و اصلاح کے معاملے میں اپنے گھر کے لوگوں ، اپنے بھائی بہنوں، اور اپنے قریبی رشتہ داروں کی طرف سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ کریں۔جن بہنوں کو اللہ نے اولاد دی ہے ان کے ہاتھ میں تو گویا اللہ نے امتحان کے وہ پرچے دے دیئے ہیں جن پر اگر وہ کامیابی کے نمبر نہ لے سکیں تو پھر دوسرا کوئی پرچہ بھی ان کے اس نقصان کی تلافی نہ کرسکے گا۔ان کی توجہ کی مستحق سب سے بڑھ کر ان کی اولاد ہے جسے دین اور دینی اخلاق کی تربیت دینا ان کی ذمہ داری ہے۔ شادی شدہ خواتین کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو راہ راست دکھائیں، اور اگر107/149 وہ راہ راست پر ہوں تو اس پر چلنے میں ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں۔ ایک لڑکی ادب و احترام کے پورے حدود ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے باپ اور اپنی ماں تک بھی کلمۂ حق پہنچاسکتی ہے اور کم از کم اچھی کتابیں تو ان کے مطالعہ کے لئے پیش کرہی سکتی ہے۔
چوتھا کام، جسے آپ کو فرض سمجھتے ہوئے انجام دینا چاہیئے یہ ہے کہ جس قدر وقت
بھی آپ اپنے خانگی فرائض سے بچاسکتی ہوں، وہ دوسری عورتوں تک دین کا علم
پہنچانے میں صرف کریں۔ چھوٹی لڑکیوں کو تعلیم دیجئے۔ بڑی عمر کی ان پڑھ عورتوں
کو پڑھائیے۔ پڑھی لکھی عورتوں تک اسلامی کتابیں پہنچائیے۔ عورتوں کے باقاعدہ
اجتماعات کرکرکے ان کو دین سمجھائیے، یا تقریر نہیں کرسکتی ہوں تو مفید چیزیں
سنائیے۔ غرض آپ جس جس طرح بھی کام کرسکتی ہوں کریں۔ اور امکانی حد تک پوری
کوشش کریں کہ آپ کے حلقۂ تعارف میں عورتوں سے جہالت اور جاہلیت دور ہو۔
تعلیم یافتہ خواتین پر اس وقت ایک اور فرض بھی عائد ہوتا ہے جو ایک لحاظ سے
اپنی اہمیت میں دوسرے تمام کاموں سے بڑھکر ہے وہ یہ کہ اس وقت مغرب زدہ طبقے
کی خواتین پاکستان کی عورتوں کو جس گمراہی، بے حیائی اور ذہنی و اخلاقی آوارگی
کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ اور جس طرح حکومت کے ذرائع و وسائل سے کام لے کر عورتوں
کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہیں، ان کا پوری طاقت سے مقابلہ کیاجائے،
یہ کام مردوں کے کئے نہیں ہوسکتا۔ مرد جب اس گمراہی کی مخالفت کرتے ہیں تو
عورتوں کو یہ کہہ کہہ کر بہکایا جاتا ہے کہ یہ مرد تم کو غلام رکھنے پر تلے
ہوئے ہیں،ان کی تو ہمیشہ سے یہی مرضی رہی ہے کہ عورتیں چاردیواریوں میں گھٹ
گھٹ کر مرتی رہیں، اور انہیں آزادی کی ہوا نہ لگنے پائے۔اس لئے اس فتنے کا سدّ
باب کرنے میں عورتو ں کی مدد کی سخت ضرورت ہے خدا کے فضل سے ہمارے ملک میں
ایسی شریف اور خداپرست خواتین کی کمی نہیں ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان
اپوائی بیگمات سے علم اور ذہانت اور زبان و قلم کی طاقت میں کسی طرح کم نہیں
ہیں۔ اب یہ ان کا کام ہے کہ آگے بڑھ کر ان کو منہ توڑ جواب دیں۔ وہ انہیں
بتائیں کہ مسلمان عورت حدود اللہ سے باہر قدم نکالنے کے لئے ہر گز تیار نہیں
ہے۔ وہ ڈنکے چوٹ کہیں کہ مسلمان عورت اس ترقی پر لعنت بھیجتی ہے جسے حاصل کرنے
کے لئے خدا اور رسول کی مقرر کی ہوئی حدیں توڑنی پڑیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان
کا یہ کام بھی ہے کہ منظم ہوکر اس حقیقی ضرورت کو جس کی خاطر حدود شکنی کو
ناگزیر کہا جاتا ہے، اسلامی حدود کے اندر پورا کرکے دکھائیں۔ تاکہ ہر گمراہ
کرنے والے اور کرنے والی کا ہمیشہ کے لئے منہ بند ہوجائے۔
\ 108/149
اسلامی انقلاب کے لئے کن اوصاف سے
آراستہ اور کن اوصاف سے مبرّا ہونا چاہیئے
o انفرادی اوصاف
o اجتماعی اوصاف
o تکمیلی اوصاف
o وہ عیوب جو ہر بھلائی کی بیخ کنی کردیتے ہیں
o وہ نقائص جن کی تاثیر کام کو بگاڑدیتی ہے
اسلامی انقلاب کے لئے کن اوصاف سے آراستہ اور کن عیوب سے مبرّا ہونا لازمی ہے [14]
آئندہ صفحات میں ہم اس مضمون کو حسب ذیل ترتیب کے ساتھ بیان کریں گے۔
1 ۔ وہ اوصاف جو ان کے اندر من حیث الجماعت ہونے چاہیئں۔
جو اوصاف جو احیائے اسلام کے لئے کام کرنے والے ہر فرد میں بذاتِ خود ہونے
چاہیئں۔
وہ بڑی بڑی برائیاں جن سے ان کو فرداً فرداً بھی اور من حیث الجماعت بھی پاک
ہونا چاہیئے۔
دنیا میں عملاً اسلامی نظام ِ زندگی قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد کے بعد دوسری اہم ترین چیز جس پر کامیابی کا انحصار ہے وہ اس کا م کی سعی کرنے والوں کے اپنے اوصاف ہیں ۔ چند اوصاف ایسے ہیں جو فرداً فرداً ان میں سے ہر ایک کی ذات109/149 میں ہونے چاہیئں۔ چند دوسرے اوصاف ان کے اندر اجتماعی طور پر پائے جانے چاہیئں۔ چند اور اوصاف اصلاح و تعمیر کی خدمت انجام دینے کے لئے ضروری ہیں۔ اور چند برائیاں ایسی ہیں جن سے اگر وہ اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھیں تو ان کے سارے کیے دھرے پر پانی پھر سکتا ہے۔ ان امور کو سب سے پہلے ذہن نشین ہونا چاہیئے۔ تاکہ وہ تمام لوگ جو اس خدمت کا سچا جذبہ رکھتے ہیں، مطلوب اوصاف اپنے اندر پرورش کرنے اور نامطلوب سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی طرف خاص طور سے متوجہ ہوں۔ تعمیر معاشرہ کے لئے یہ تعمیر ذات شرط اول ہے کیونکہ جو خود نہ سنورے وہ دوسروں کو سنوارنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔
انفرادی اوصاف
اسلام کا صحیح فہم
انفرادی اوصاف میں سب سے پہلی چیز اسلام کا صحیح فہم ہے۔ جو آدمی اسلامی نظام زندگی کو برپا کرنا چاہتا ہو، اسے پہلے خود اس چیز کو اچھی طرح جاننا اور سمجھنا چاہیئے جسے وہ برپا کرنے چاہتا ہے۔ اس غرض کے لئے اسلام کا محض اجمالی علم کافی نہیں ہے، بلکہ کم و بیش تفصیلی علم درکار ہے، اور اس کی کمی و بیشی آدمی کی استعداد پر موقوف ہے۔ یہ ضروری نہیں ہےکہ اس راہ کا ہر رہرو اور اس تحریک کا ہر کارکن مفتی یا مجتہد ہو۔ لیکن یہ بہرحال ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک اسلامی عقائد کو جاہلی افکار و اوہام سے، اور اسلامی طرز عمل کو جاہلیت کے طور طریقوں سے ممیز کرکے جان لے، اور اس بات سے واقف ہوجائے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام نے انسان کو کیا رہنمائی دی ہے۔ اس علم و واقفیت کے بغیر نہ آدمی خود صحیح راہ پر چل سکتا ہے، نہ دوسروں کو راستہ دکھا سکتا ہے۔ اور نہ تعمیر معاشرہ کے لئے کوئی کام صحیح خطوط پر کرسکتا ہے۔ عام کارکنوں کو یہ واقفیت اس حد تک ہونی چاہیئے کہ وہ دیہاتی اور شہری عوام کو سیدھے سادھے طریقے سے دین سمجھا سکیں، لیکن عمدہ ذہنی صالحیتیں رکھنے والے لوگوں کو اس میں اتنا درک بہم پہنچانا چاہیئے کہ وہ ذہین طبقوں کو متاثر کوسکیں، تعلیم یافتہ لوگوں کےشکوک اور الجھنیں رفع کرسکیں، مخالفین کے اعتراضات کا مدلل اور اطمینان بخش جواب دے سکیں۔زندگی کے مختلف النوع مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرسکیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے علوم و فنون کی تدوین ِ جدید کرسکیں۔ اور اسلام کی ازلی و ابدی بنیادوں پر ایک نئی تہذیب اور نئے تمدن کی عمارت اٹھاسکیں۔ ان میں اتنی تنقیدی صلاحیت ہونی چاہیئے کہ موجودہ زمانے کے نظام فکر و عمل میں سے سقیم اجزاء کو سلیم اجزاء سے الگ کرسکیں، اور ساتھ ساتھ اتنی تعمیری صلاحیت بھی ہونی چاہیئے کہ جو کچھ توڑنے کے لائق ہے ، اسے توڑ کر ایک بہترچیز اس کی جگہ بناسکیں اور جو کچھ رکھنے کے لائق ہے اسے باقی رکھ کر ایک بہتر نظام میں اس کو استعمال110/149 کرسکیں۔
اسلام پر پختہ یقین
علم و معرفت کے بعد دوسرا ضروری وصف جو اس مقصد کے لئے کام کرنے والوں میں
ہونا چاہیئے وہ یہ ہے کہ جس دین پر وہ نظام زندگی تعمیر کرنا چاہتے ہیں وہ خود
اس پر پختہ ایمان رکھتے ہوں، ان کا اپنا دل اس کے صحیح و برحق ہونے پر مطمئن
ہو اور ان کا اپنا ذہن اس معاملے میں پوری طرح یکسو ہوجائے۔شک اور تذبذب اور
تردد لئے ہوئے کوئی شخص اس کام کو نہیں کرسکتا۔ دماغی الجھنیں اور نظر و فکر
کی پراگندگیاں لےکر یہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی ایسا آدمی اس کام کے لئے
موزوں نہیں ہوسکتا جس کا دل ڈانواڈول ہو۔ جس کا ذہن یکسو نہ ہو اور جسے خیال و
عمل کی مختلف راہیں اپنی طرف کھینچ رہی ہوں یا کھینچ سکتی ہوں ۔ یہ کام تو جسے
بھی کرنا ہو اسے قطعی طور پر اس بات کا یقین ہونا چاہیئے کہ خدا ہے اور انہی
صفات سے متصف انہی اختیارات کا مالک اور انہی حقوق کا مستحق ہے جو قرآن میں
بیان ہوئے ہیں۔ آخرت ہے اور ٹھیک ٹھیک ویسی ہے جیسی قرآن میں بتائی گئی ہے۔
راہ راست صرف ایک ہے اور وہ وہی ہے جو محمد ﷺ نے دکھائی ہے۔ ہر وہ چیز باطل ہے
جو اس کے خلاف ہو یا اس سے موافقت نہ رکھتی ہو۔ جو خیال بھی کسی دوسرے نے پیش
کیا ہے او ر جو طریقہ بھی دوسرے نے نکالا ہے اس کو جانچنے کی کسوٹی صرف ایک ہے
اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت اس کسوٹی پر جو کھرا اترے وہ
کھرا ہے، اور جو کھوٹا اترے وہ کھوٹا ہے۔ اسلامی نظام زندگی کی تعمیر کے لئے
ان حقیقتوں پر پختہ یقین درکار ہے۔ دل کا پورا اطمینان درکار ہے۔ دماغ کی کامل
یکسوئی درکار ہے ۔ جو لوگ اس معاملے میں ادنٰی تذبذب بھی رکھتے ہوں، یا جن کی
دلچسپیاں ابھی دوسری راہوں سے وابستہ ہوں انہیں اس عمارت کے معمار بن کر آنے
سے پہلے اپنی اس کمزوری کا علاج کرنا چاہیئے۔
قول و عمل میں مطابقت
تیسرا لازمی وصف یہ ہے کہ آدمی کا عمل اس کے قول کے مطابق ہو۔ جس چیز کو وہ حق مانتا ہے اس کا اتباع کرے۔ جس کو باطل قرار دیتا ہے اس سے اجتناب کرے جسے اپنا دین کہتا ہے اسے اپنی سیرت و کردار کا دین بنائے اور جس چیز کی طرف وہ دنیا کو دعوت دیتا ہے سب سے پہلے خود اس کی پیروی اختیار کرے۔ اسے اوامر کے اتباع اور نواہی سے اجتناب کے لئے کسی خارجی دباؤ یا اثر کا محتاج نہ ہونا چاہیئے۔ صرف یہ چیز کہ ایک کام اللہ کی خوشنودی کا موجب ہے۔ اس بات کے لئے کافی ہونی چاہیئے کہ وہ اس سے رک جائے ۔ اس کی یہ کیفیت صرف معمولی حالات ہی میں نہ ہونی چاہیئے، بلکہ111/149 اس کی سیرت میں اتنی طاقت ہونی چاہیئے کہ وہ غیر معمولی بگاڑ کے ماحول میں ہر خوف اور ہر لالچ کا مقابلہ کرکے اور ہر مزاحمت سے نبرد آزما ہوکر بھی راہ راست پر ثابت قدم رہ سکے۔ جو لوگ اس وصف سے خالی ہوں، وہ اصلاح و تعمیر میں مددگار تو ہوسکتے ہیں، مگر اس کے اصل کارکن نہیں ہوسکتے۔ اس کام میں مددگار تو ہر وہ شخص ہوسکتا ہے جو اسلام کے لئے کوئی عقیدت اپنے اندر رکھتا ہے۔ بلکہ جو منکر اور مخالف یا مزاحم نہیں ہے وہ بھی ایک حد تک مددگار ہے۔ لیکن ایسے مددگار کروڑوں کی تعداد میں بھی موجود ہوں تو عملاً اسلامی نظام برپا نہیں ہوسکتا اور جاہلیت کے فروغ کی رفتار رک نہیں سکتی۔ عملاً یہ کام صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ اسے کرنے کے لئے ایسے لوگ اٹھیں جو علم و یقین کی نعمت کے ساتھ سیرت و کردار کی طاقت بھی رکھتے ہوں اور جن کے ایمان وضمیر میں اتنی زندگی موجود ہو وہ کسی خارجی محرک کے بغیر خود اپنی اندرونی تحریک سے دین کے تقاضے پورے کرنے لگیں۔ اس طرح کے کارکن برسرکار آجائیں تو ان بہت سے ہمدردوں اور مددگاروں کی موجودگی بھی اپنا فائدہ دے سکتی ہے جو مسلم معاشرے ہی میں نہیں، غیر مسلم معاشرے تک میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
دین بحیثیت مقصد
ان تین صفات کے ساتھ ایک چوتھی صفت بھی اصلاح و تعمیر کے کارکنوں میں پائی
جانی چاہیئے، اور وہ یہ ہے کہ اعلائے کلمۃ اللہ اور اقامت دین ان کے لئے محض
ایک خواہش اور تمنا کا درجہ نہ رکھتی ہو بلکہ وہ اسے اپنی زندگی کا مقصد
بنائیں۔ ایک قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں، جو دین سے واقف ہوتے ہیں۔ اور اس کے
مطابق عمل بھی کرتے ہیں مگر اس کو قائم کرنے کی سعی و جہد ان کا وظیفۂ زندگی
نہیں ہوتا بلکہ وہ نیکی اور نیک عمل کے ساتھ اپنی دنیا کے معاملات میں لگے
رہتے ہیں۔ یہ بلاشبہ صالح لوگ ہیں۔ اور اگر اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم
ہوچکا ہو تو یہ اس کے اچھے شہری ہوسکتے ہیں، لیکن جہاں نظام جاہلیت پوری طرح
چھایا ہو اور کام یہ درپیش ہو کہ اسے ہٹا کر نظام اسلام اس کی جگہ قائم کرنا
ہے۔ وہاں صرف اس درجے کے نیک لوگوں کی موجودگی سے کچھ نہیں بن سکتا۔ وہاں
ضرورت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے لئے یہ کام عین ان کا مقصد زندگی ہو، وہ دنیا
کے دوسرے کام تو جینے کے لئے کریں، مگر ان کا جینا صرف اس ایک مقصد کے لئے ہو۔
اس مقصد میں وہ مخلص ہوں، اس کی لگن ان کے دل کو لگی ہوئی ہو۔ اس کے حصول کی
کوششوں کا وہ پختہ عزم رکھتے ہوں۔ اس کام میں اپنا وقت، اپنا مال، اپنے جسم و
جان کی قوتیں اور اپنے دل و دماغ کی صلاحیتیں کھپا دینے کے لئے وہ تیار ہوں،
حتیٰ کہ اگر سردھڑ کی بازی لگادینے کی ضرورت پیش آجائے تو وہ اس سے بھی منہ نہ
موڑیں جاہلیت کے جنگل کو کاٹ کر اسلام کی راہ ہموار کرنا ایسے ہی لوگوں کا کام
ہے۔
یہ اوصاف دین کا صحیح فہم ، اس پر پختہ ایمان، اس کے مطابق سیرت و کردار اور اس کی اقامت کو مقصد ِ زندگی بنانا۔ وہ بنیادی اوصاف ہیں جو فرداً فرداً ان تمام لوگوں میں موجود ہونا چاہیئں، جو اسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہوں۔ ان کی اہمیت یہ ہے کہ اگر ان اوصاف کے حامل افراد بہم نہ پہنچیں تو اس کام کا سرے سے تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ 112/149
اب یہ کہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ اس طرح کے افراد کا اگر وہ فی الواقع کچھ
کرنا چاہتے ہوں، مل کر ایک جماعت کی صورت میں کام کرنا بہرحال ضروری ہے قطع
نظر اس کے کہ وہ کس جماعت میں ملیں اور کس نام سے کام کریں۔ہر صاحب عقل آدمی
اس بات کو خود جانتا ہے کہ اجتماعی نظام میں کوئی تغیّر محض انفرادی کوششوں سے
نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے بکھری ہوئی مساعی نہیں بلکہ سمٹی ہوئی مساعی درکار
ہوتی ہے لہذا اسے ایک مسلم حقیقت فرض کرتے ہوئے اب ہم ان اوصاف کو لیتے ہیں جو
اس طرح کی جماعت میں من حیث الجماعت پائے جانے چاہیئں۔
اجتماعی اوصاف
اخوت و محبت
ایسی جماعت کا اولین وصف یہ ہونا چاہیئے کہ اس کے شرکاء آپس میں محبت کرنے
والے ہوں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ایثار کا معاملہ کریں، جس طرح ایک عمارت اسی وقت
مستحکم ہوتی ہے جب کہ اس کی اینٹیں باہم مضبوطی کے ساتھ پیوستہ ہوں اور اینٹوں
کو جوڑنے والی چیز سیمنٹ ہے۔ اسی طرح ایک جماعت بھی اسی وقت بنیان مرصوص بنتی
ہے جب کہ اس کے ارکان کے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں اور دلوں کو جوڑنے والی
چیز مخلصانہ محبت ہے۔ آپس کی خیر خواہی اور ہمدردی ہے۔اور ایک دوسرے کے ساتھ
ایثار کا معاملہ ہے نفرت کرنے والے دل کبھی نہیں مل سکتے۔ منافقانہ میل جول
کوئی حقیقی اتحاد پیدا نہیں کرسکتا۔ خودغرضانہ اتحاد نفاق کا پیش خیمہ ہوتا
ہے۔ اور محض ایک روکھا سوکھا کاروباری تعلق کسی رفاقت کی بنیاد نہیں بن سکتا،
کوئی دنیاوی غرض ایسے بے جوڑ عناصر کو جمع بھی کردے تو وہ صرف بکھرنے کے لئے
جمع ہوتے ہیں اور پھر کچھ بنانے کے بجائے آپس ہی میں کٹ مرتے ہیں ۔ایک مضبوط
جماعت صرف اسی وقت وجود میں آتی ہے جب کہ اپنے خیالات میں مخلص اور اپنے مقصد
سے محبت رکھنے والے لوگ باہم مجتمع ہوں اور پھر خیالات کا یہی اخلاص اور مقصد
سے یہی محبت آپس میں بھی اخلاص و محبت پیدا کردے۔ اس طرح کی جماعت حقیقت میں
ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوتی ہے۔ جس کے اندرپھوٹ ڈالنے کے لئے شیطان کوئی
شگاف نہیں پاتا اور باہر سے مخالفتوں کے سیلاب اٹھا اٹھا کر لاتا بھی ہے تو
اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا۔
باہمی مشاورت 113/149
دوسرا ضروری وصف یہ ہے کہ اس جماعت کو باہمی مشورے سے کام کرنا چاہیئے۔ اور
آداب مشاورت کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیئے۔ خود سر لوگوں کی جماعت جس میں ہر
شخص اپنی من مانی کرے، حقیقت میں کوئی جماعت نہیں ہوتی، بلکہ ایک منڈلی ہوتی
ہے۔ جس سے کوئی کام نہیں بن آسکتا۔ اور وہ جماعت بھی زیادہ دیر تک نہیں چل
سکتی جس میں کوئی ایک شخص یا چند بااثر اشخاص کا ایک ٹولہ مختار کل بن جائے،
باقی سب لوگوں کا کام اس کے اشاروں پر چلنا ہو۔ صحیح کام صرف مشاورت ہی سے
ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس طرح نہ صرف یہ کہ بہت سے دماغ بحث و تمحیص سے ہر معاملے
کے اچھے اور برے پہلوؤں کا جائزہ لے کر ایک بہتر نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ بلکہ
اس سے دو فائدے اور بھی ہوتے ہیں ایک یہ کہ جس کام میں پوری جماعت کا مشورہ
بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہواسے پوری جماعت اطمینان قلب کے ساتھ انجام دینے
کی کوشش کرتی ہے اور کسی کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ ہم پر ایک چیز اوپر سے ٹھونس
دی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس طریقے سے پوری جماعت کو معاملہ فہمی کی تربیت ملتی
ہے۔ ہر فرد جماعت او ر اس کے معاملات سے دلچسپی لیتا ہے اور اس کے فیصلوں میں
اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مشاورت کےساتھ آدابِ مشاورت
کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ آدابِ مشاورت یہ ہیں کہ ہر شخص ایمان داری کے ساتھ
اپنی رائے پیش کرے، اور کوئی بات دل میں چھپا کر نہ رکھے۔ بحث میں ضد ، ہٹ
دھرمی اور کسی قسم کے تعصب کا دخل نہ ہو اور جب کثرت رائے سے ایک فیصلہ ہوجائے
تو اختلاف رکھنے والے چاہے اپنی رائے نہ بدلیں، مگر جماعتی فیصلہ کو پوری خوش
دلی کے ساتھ عمل میں لانے کی کوشش کریں۔ یہ تین باتیں اگر نہ ہوں تو مشاورت کے
تمام فوائد ضائع ہوجاتے ہیں۔ بلکہ یہی چیز آخر کار جماعت میں پھوٹ ڈال دیتی
ہے۔
نظم و ضبط
تیسرا اہم وصف ہے نظم و ضبط، باضابطگی اور باقاعدگی، باہمی تعاون اور ٹیم کی طرح کام کرنا۔ ایک جماعت اپنی تمام خوبیوں کے باوجود صرف اس وجہ سے ناکام ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے فیصلوں اور منصوبوں کو عمل میں نہیں لاسکتی۔ اور یہ نتیجہ ہوتا ہے ضبط و نظم کی کمی اور تعاون کے فقدان کا۔ تخریبی کام محض ہلّڑ سے بھی انجام پاسکتے ہیں، مگر کوئی پائدار تعمیری کام منظم سعی کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ منظم سعی نام ہی اس چیز کا ہےکہ جو ضابطہ تجویز کیا گيا ہو ، پوری جماعت اس کی پابندی کرے۔ جماعت میں جس کو جس درجہ میں بھی صاحب امر بنایا گیا ہو، اس کے احکام کی اطاعت کی جائے۔114/149 جماعت کا ہر شخص فرض شناس ہو اور اپنے ذمہ کا کام ٹھیک وقت پر مستعدی کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کرے۔ جن کارکنوں کو جو کام مل کر کرنا ہو، وہ ایک دوسرے کے ساتھ پورا تعاون کریں۔ اور جماعت کی مشین اس قدر چست ہو کہ ایک فیصلہ ہوتے ہی اس کو عمل میں لانے کے لئے تمام پرزے حرکت میں آجائیں۔ دنیا میں اگر کوئی کام بناسکتی ہیں تو ایسی ہی جماعتیں بناسکتی ہیں۔ ورنہ ان جماعتوں کا عدم اور وجود برابر ہوتا ہے جنہوں نے پرزے توفراہم کرلئے ہوں مگر ان کے جوڑنے اور کس کر مشین کی طرح باقاعدہ چلانے کا کوئی انتظام نہ کیا ہو۔
تنقید بغرض اصلاح
آخری اور انتہائی اہم وصف یہ ہے جماعت میں تنقید بغرض اصلاح کی روح بھی موجود
ہو اور اس کا سلیقہ بھی پایا جاتا ہو۔ اندھے مقلدوں اور سادہ لوح معتقدوں کا
گروہ خواہ کیسے ہی صحیح مقام سے کام کا آغاز کرے، اور کیسےہی صحیح مقصد کو
سامنے رکھ کر چلے، بہرحال آخر کار بگڑتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ انسانی کام میں
کمزوریوں کا رونما ہونا فطرتاً ناگزیر ہے اور جہاں کمزوریوں پر نگاہ رکھنے
والا کوئی نہ ہو ، یا ان کی نشان دہی کرنا معیوب ہو، وہاں غفلت کی وجہ سے یا
مجبورانہ سکوت کے باعث ہر کمزوری سکون و اطمینان کا آشیانہ پاتی چلی جاتی ہے
اور انڈے بچے دینے لگتی ہے۔ جماعت کی صحت اور تندرستی کےلئے روحِ تنقید کے
فقدان سے بڑھ کر کوئی چیز نقصان دہ نہیں ، اور تنقیدی فکر کو دبانے سے بڑھ کر
جماعت کے ساتھ کوئی اور بدخواہی نہیں ہوسکتی، یہی تو وہ چیز ہے جس کے دبانے سے
بڑھ کر جماعت کے ساتھ کوئی اور بدخواہی نہیں ہوسکتی، یہی تو وہ چیز ہے جس کے
ذریعے سے خرابیاں بروقت سامنے آجاتی ہیں اور ان کی اصلاح کی سعی کی جاسکتی ہے۔
لیکن تنقید کے لئے لازم یہ ہے کہ وہ عیب چینی کی نیت سے نہ ہو بلکہ اخلاص کے
ساتھ اصلاح کی نیت سے ہو۔ اور اس کے ساتھ دوسری اتنی ہی ضروری شرط یہ ہے کہ
تنقید کرنے والوں کو تنقید کا سلیقہ آتا ہو۔ ایک نیک نیت ناقد بھی بے ڈھنگی ،
بے موقع اور بھونڈی تنقید سے جماعت کو وہی نقصان پہنچاسکتا ہے جو ایک عیب چیں
اور بدنیت مفسد کے ہاتھوں پہنچنا ممکن ہے۔
تکمیلی اوصاف
اب تک بتایا جا چکا ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور اسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر کا
جو کام اب درپیش ہے اس کے لئے کن صفات کے حامل افراد درکار ہیں اور ان افراد
کی اجتماعی تنظیم میں کن اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔
اس سلسلے میں اب تک جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان کی حیثیت دراصل محض ابتدائی اور بنیادی اوصاف کی ہے۔ جس115/149 طرح ایک کاروبار کی ابتداء کرنے کے لئے ایک کم سے کم سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ جس کے بغیر اسے شروع ہی نہیں کیا جاسکتا۔اسی طرح اس کام کے لئے یہ کم سے کم اخلاقی سرمایہ ہے جو آغاز کار ہی میں موجود ہونا چاہیئے۔ ورنہ اس کا حوصلہ کرنا ہی فضول ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے افراد کے ہاتھوں کسی اسلامی نظام کے قیام کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جو اسلام کو جانتے ہی نہ ہوں یا اس کے بارے میں خود اپنے اندر ہی قلبی اطمینان اور ذہنی یک سوئی نہ رکھتے ہوں یا اس کو خود اپنے اخلاق و کردار اور اپنی عملی زندگی کا دین بنانے سے قاصر ہوں۔ یا اس کے قیام کی سعی کو انہوں نے اپنا مقصود ہی نہ ٹھیرایا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر مطلوبہ اوصاف کے افراد جمع تو ہوجائیں، مگر ان کے دل باہم جڑے ہوئے نہ ہوں، ان میں تعاون اور نظم و ضبط نہ ہو، ان کو مل کر کام کرنے کا ڈھنگ نہ آتا ہو اور وہ باہمی مشورہ و تنقید کے صحیح طریقوں سے نابلد ہوں، تو محض ان کا جمع ہوجانا کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں کرسکتا۔ لہذا یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ وہ چار انفرادی اور چار اجتماعی اوصاف جن کا ذکر ہم نے اب تک کیا ہے۔ درحقیقت اس کام کا سرمایۂ آغاز ہیں اور ان کی جو کچھ بھی اہمیت ہے اسی لحاظ سے ہے لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اس کام کے فروغ اور اس کی کامیابی کے لئے بس یہی اخلاقی اور روحانی سرمایہ کافی ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ مزید اوصاف کون سے ہیں جو اصلاح و تعمیر کے مقصد
میں کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہیں۔
تعلق باللہ اور خلوص
ان میں اولین وصف تعلق باللہ اور اخلاص للہ ہے۔ دنیا کے دوسرے کام تو نفس یا خاندان یا قبیلے یا قوم و وطن کی خاصر کئے جاسکتے ہیں، ذاتی اغراض اور مادّی مقاصد کی ساری آلائشوں ساتھ کئے جاسکتے ہیں، خدا پرستی ہی نہیں، انکارِ خدا تک کے ساتھ کئے جاسکتے ہیں۔ اور ان میں ہر طرح کی دنیاوی کامیابیاں ممکن ہیں۔ لیکن اسلامی نظامِ زندگی کا برپا کرنا ایک ایسا کام ہے جس میں کوئی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک آدمی کا تعلق اللہ کے ساتھ صحیح اور مضبوط اور گہرا نہ ہو، اور اس کی نیت خالصتاً اللہ ہی کے کام کرنے کی نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جس چیز کو آدمی قائم کرنا چاہتا ہے وہ اللہ کا دین ہے اور اسے قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی سب کچھ اس خدا کے لئے کرے جس کا یہ دین ہے ۔ اسی کی رضا اس کام میں مطلوب ہونی چاہیئے۔ اسی کی محبت اس کےلئے واحد محرک ہونی چاہیئے۔ اسی کی تائید و نصرت پر کلیّ اعتماد ہونا چاہیئے۔ اسی سے اجر کی ساری امیدیں وابستہ ہونی چاہیئں۔ اسی کی ہدایت اور اسی کے امر و نہی کا اتباع ہونا چاہیئے اور اسی کی پکڑ کا خوف دل پر چھایا رہنا چاہیئے۔ اس کے سوا جس خوف، جس لالچ اور جس محبت اور جس116/149 اتباع و اطاعت کی آمیزش ہوگی اور جو دوسری غرض بھی اس کام میں شامل ہوجائے بہرحال اللہ کا دین قائم نہ ہو سکے گا۔
فکر ِ آخرت
اسی سے قریب تر تعلق رکھنے والا دوسرا وصف فکر آخرت ہے ۔ مومن کے کام کرنے کی
جگہ اگرچہ دنیا ہے اور جو کچھ اسے کرنا ہے یہیں کرنا ہے، مگر وہ کام اس دنیا
کے لئے نہیں کرتا بلکہ آخرت کے لئے کرتا ہے اور اس کا مطمح ِ نظر دنیاوی نتائج
نہیں بلکہ اخروی نتائج ہوتے ہیں اسے ہر لحاظ سے کام کرنا چاہیئے جو آخرت میں
نافع ہے اور ہر اس مشغلہ سے دست کش ہوجانا چاہیئے جس کا وہاں کوئی حاصل نہیں
نکلنا ہے۔ اسے ہر اس فائدے کو ٹھکرادینا چاہیئے جو آخرت میں نقصان کا مُوجب ہو
اور ہر اس نقصان کو انگیز کرلینا چاہیئے جو آخرت میں نفع بخش ہو ، اسے فکر صرف
آخرت کے عذاب و ثواب کی ہونی چاہیئے۔ اس کی کوششیں اس دنیا میں بارآور ہوں یا
نہ ہوں ، یہاں اس کو کامیابی ہوتی نظر آئے یا ناکامی۔ یہاں اس کی تعریف ہو یا
ندامت، یہاں وہ انعام پائے یا آزمائشوں میں ڈالا جائے۔ ہر حال میں اس کواس
یقین کے ساتھ کام کرنا چاہیئے کہ جس خدا کے لئے وہ یہ ساری محنتیں کررہا ہے ،
اس کی نگاہ سے کچھ پوشیدہ نہیں ہے، اور اس کے ہاں دارِ آخرت کی ابدی جزا سے وہ
ہرگز محروم نہ رہے گا۔ اور وہیں کی کامیابی اصل کامیابی ہے۔اس ذہنیت کے بغیر
آدمی کے لئے چند قدم بھی اس راہ میں صحیح رخ پر چلنا ممکن نہیں ہے۔ دنیا کی
مقصودیت کا لگاؤ کسی ادنٰی درجے میں بھی اس کے ساتھ لگا رہ جائے تو وہ قدم میں
لغزش پیدا کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ راہ خدا میں ایک چوٹ تو نہیں دوچار چوٹیں
آخر کار اس شخص کی ہمتیں توڑدیتی ہیں جو دنیاوی کامیابیوں کو مقصود بنا کر
چلتا ہے اور اس کی کوئی کامیابی کسی نہ کسی مرحلے پر اس آدمی کے رویّے میں
بگاڑ پیدا کردیتی ہے جس کے دل کو دنیاوی مقاصد کی کوئی چاٹ نہ لگی ہو۔
حسنِ سیرت
ان دو اوصاف کی تاثیر کو جو چیز عملاً ایک زبردست قوتِ تسخیر میں تبدیل کردیتی ہے وہ حسنِ سیرت ہے۔ خدا کی راہ میں کام کرنے والے لوگوں کو عالی ظرف اور فراخ حوصلہ ہونا چاہیئے۔ ہمدرد خلائق اور خیر خواہ ِ انسانیت ہونا چاہیئے اور کریم النفس اور شریف الطبع ہونا چاہیئے۔خود دار اور خوگر ِ قناعت ہونا چاہیئے۔ متواضع اور منکسر المزاج ہونا چاہیئے۔ شیریں کلام اور نرم خُو ہونا چاہیئے۔ وہ ایسے لوگ ہونے چاہیئں جن سے کسی کو شر کا اندیشہ نہ ہو اور ہر ایک ان سےخیر خواہی کا متوقع ہو، جو اپنے حق سے کم پر راضی ہوں اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے پر تیار ہوں، جو برائی کا جواب117/149 بھلائی سے دیں یا کم از کم برائی سے نہ دیں۔ جو اپنے عیوب پر معترف اور دوسروں کی بھلائی کےقدرداں ہوں، جو اتنا بڑا دل رکھتے ہوں کہ لوگوں کی کمزوریوں سے چشم پوشی کر سکیں، قصوروں کو معاف کرسکیں، زیادتیوں سے درگزر کرسکیں۔ اور اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہ لیں۔ جو خدمت لے کر نہیں، خدمت کرکے خوش ہوتے ہوں، اپنی غرض کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لئےکام کریں، ہر تعریف سے بے نیاز اور ہر مذمّت سے بے پروا ہوکر وہ اپنا فرض انجام دیں، اور خدا کے سوا کسی کے اجر پر نگاہ نہ رکھیں جو طاقت سے دبائے نہ جاسکیں، دولت سے خریدے نہ جاسکیں، مگر حق اور راستی کے آگے بے تامل سر جھکادیں، جن کے دشمن بھی ان پر بھروسہ رکھتے ہوں کہ کسی حال میں ان سے شرافت اور انصاف کے خلاف کوئی حرکت سرزد نہیں ہوسکتی۔ یہ دلوں کو موہ لینے والے اخلاق ہیں ، ان کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے بڑھ کر ، اور ان کا سرمایہ سیم و زر کی دولت سے گراں تر ہے۔ کسی فرد کو یہ اخلاق میسّر ہوں تو وہ اپنے گرد و پیش کی آبادی کو مسخّر کرلیتا ہے۔لیکن اگر کوئی جماعت کی جماعت ان اوصاف سے متصف ہو ، اور پھر وہ کسی مقصد ِ عظیم کے لئے منظم سعی بھی کررہی ہو تو ملک کے ملک اس کے آگے مسخّر ہوتے چلے جاتے ہیں، حتی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
صبر و استقامت
اس کے ساتھ ایک اور صفت بھی ہے جسے کامیابی کی کلید کہنا چاہیئے، اور وہ ہے
صبر، یہ ایک وسیع لفظ ہے جن کی بہت سی مفہومات ہیں اور راہ خدا میں کام کرنے
والوں کو ان میں سے ہر مفہوم کے لحاظ سے صابر ہونا چاہیئے۔
صبر کا ایک مفہوم یہ ہے کہ آدمی جلد باز نہ ہو، اپنی کوششوں کے نتائج فوراً
اور جلدی دیکھنے کے لئے بے تاب نہ ہو اور دیر لگتے دیکھ کر ہمت نہ ہار
جائے۔صابر آدمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ تمام عمر ایک مقصد کے پیچھے مسلسل محنت
کئے چلا جاتا ہے اور پیہم ناکامیوں کے باوجود اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ اصلاح
خلق اور تعمیر حیات کا کام ایسے صبر آزما ہے کہ اس صفت کے بغیر کوئی شخص اس سے
عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ یہ بہرحال ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہیں ہے۔
صبر کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ آدمی تلوّن مزاجی اور ضعفِ رائے اور قلتّ عزم کی
بیماری میں مبتلا نہ ہو۔ اس میں یہ صفت موجود ہو کہ جس راہ کو اس نے سوچ سمجھ
کر اختیار کرلیا ہے اس پر ثابت قدم رہے او ر دل کے پورے عزم و ارادے کی پوری
قوت کے ساتھ اس پر بڑھتا چلا جائے۔
صبر ہی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ آدمی مشکلات اور مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرے اور اپنے مقصد کی راہ میں جو118/149 تکلیف بھی پیش آئے اسے ٹھنڈے دل کے ساتھ برداشت کرلے۔ صابرآدمی کسی طوفان اور کسی سیلاب کے تھپیڑوں سے شکست خوردہ ہوکر منہ نہیں موڑتا۔
صبر کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آدمی زود رنج اور مشتعل مزاج نہ ہو۔
بلکہ تحمل اور بردبار ہو، جس شخص کو اصلاح و تعمیر کا کام کرنا ہو اور جسے
تعمیر کے لئے کچھ نہ کچھ ناگزیر تخریب بھی کرنی پڑے۔ خصوصیت کے ساتھ جب یہ
خدمت اسے مدتوں کی بگڑی ہوئی سوسائٹی میں انجام دینی ہو اسے لامحالہ بڑی گندی
اور گھناؤنی اور کمینہ قسم کی مخالفتوں سے سابقہ پیش آکر رہتا ہے۔ اگر وہ اتنی
طاقت نہیں رکھتا کہ گالیاں کھا کر ہنس دے، طعنے سن کر ٹال دے، الزام اور بہتان
اور جھوٹے پروپیگنڈے کو یکسر نظر انداز کرکے پورے سکون اور جمعیت خاطر کے ساتھ
اپنا کام کرتا رہے تو بہتر یہی ہے کہ وہ اس راہ میں قدم ہی نہ رکھے۔اس لئے کہ
یہ کانٹوں بھری راہ ہے، اس کا ہر کانٹا یہ عزم کئے بیٹھا ہے کہ آدمی اور جس
طرف بھی چلا جائے، مگر اس سمت میں اس کوایک انچ بھی نہ بڑھنے دیا جائے گا ۔اس
حالت میں جو شخص ہر کانٹے سے الجھنے لگے، وہ کیا پیش قدمی کرے گا۔ یہاں تو
ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کے دامن سے اگر کوئی کانٹا الجھ جائے تو وہ دامن کا
وہ حصّہ پھاڑ کر اس کے حوالے کردیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی راہ کھوٹی نہ
کریں۔ یہ صبر صرف مخالفوں ہی کے مقابلے میں درکار نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اس
راہ کے راہرو کو، خود اپنے ساتھیوں سے تلخ اور ناگوار باتوں سے سابقہ پیش
آجاتا ہے اور ان کے معاملے میں اگر وہ حلم و تحمل سے کام نہ لے تو پورے قافلے
کی راہ مار سکتا ہے۔صبر اس چیز کا نام بھی ہے کہ آدمی ہر خوف اور ہر لالچ کے
مقابلے میں راہ راست پر جما رہے ، شیطان کی ساری ترغیبات اور نفس کی تمام
خواہشات کے علی الرغم اپنا فرض بجالائے۔ حرام سے پرہیز کرے اور حدود اللہ پر
قائم رہے۔ گناہ کی ساری لذتوں اور منفعتوں کو ٹھکرادے اور نیکی اور راستی کے
ہر نقصان اور اس کی بدولت حاصل ہونے والی ہر محرومی کو انگیز کرجائے۔اپنی
آنکھوں سے دنیا پرستو ں کی رونقِ حیات دیکھے اور اس پرریجھنا تو درکنار دل میں
ادنٰی سی حسرت کو بھی راہ نہ دے اپنے سامنے دنیا طلبی کی راہیں کشادہ اور
کامرانیوں کے مواقع پائے اور دل کی پوری طمانیت کے ساتھ اس متاعِ حیات پر راضی
رہے جو اپنے مقصد کی خدمت کرتے ہوئے وہ اپنے رب کے فضل سے حاصل کررہا ہو۔
صبر ان تمام معنوں میں کلیدِ کامیابی ہے جس پہلو سے بھی ہمارے کام میں بے صبری
کا دخل ہوگا، اس کا برا نتیجہ ظاہرہوکر رہے گا۔
حکمت
ان سب اوصاف کے ساتھ ایک نہایت اہم وصف حکمت ہے جس پر بہت بڑی حد تک کامیابی کا انحصار ہے۔ دنیا میں جو نظامِ زندگی بھی قائم ہیں۔ ان کو اعلٰی درجے کے ذہین اور ہوشیار لوگ چلا رہے ہیں اور ان کی پشت پر مادی وسائل کے ساتھ عقلی و فکری طاقتیں اور علمی و فنّی قوتیں کام کررہی ہیں ۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرے نظام کو قائم کردینا اور کامیابی کے ساتھ چلالینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے یہ بسم اللہ کے گنبد میں رہنے والوں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ سادہ لوح لوگ خواہ کتنے ہی نیک اور نیک نیت ہوں، اس سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ اس کے لئے گہری بصیرت اور تدبر کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے دانشمندی اور معاملہ فہمی درکار ہے۔ اس کام کو وہی لوگ کرسکتے ہیں جو موقع شناس اور باتدبیر ہوں اور ان کی زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ حکمت ان سب اوصاف کے لئے ایک جامع لفظ ہے اور اس کا اطلاق دانائی و زیرکی کے متعدد مظاہر پر ہوتا ہے۔ 119/149
یہ حکمت ہے کہ آدمی انسانی نفسیات کی سمجھ رکھتا ہو اور انسانوں سے معاملہ
کرنا جانتا ہو۔ لوگوں کے اذہان کو اپنی دعوت سے متاثر کرنے اور ان کو اپنے
مقصد کے لئے استعمال کرنے کے طریقوں سے واقف ہو۔ ہر شخص کو ایک ہی لگی بندھی
دوا نہ دیتا چلا جائے بلکہ ہر ایک کے مزاج اور مرض کی تشخیص کرکے علاج کرے۔ سب
کو ایک لکڑی سے نہ ہانکے بلکہ جن جن اشخاص اور طبقوں اور گروہوں سے اس کو
سابقہ پیش آئے ان کے مخصوص حالات کو سمجھ کر ان کے ساتھ معاملہ کرے۔
یہ بھی حکمت ہے کہ آدمی اپنے کام کو اس کے کرنے کے طریقوں کو جانتا ہو اور اس
کے راستے میں پیش آنے والی دشواریوں ، مخالفتوں اورمزاحمتوں سے نمٹنا بھی اس
کو آتا ہو۔ اسے ٹھیک ٹھیک معلوم ہونا چاہیئے کہ جس مقصد کے لئے وہ سعی کرنے
اٹھا ہے اس کے لئے اسے کیا کچھ کرنا ہے، کس کس طرح دور کرنا ہے اور کس کس قسم
کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ یہ بھی حکمت ہی ہے کہ آدمی اس وقت کے حالات پر نظر
رکھتا ہو،مواقع کو سمجھتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ کس موقع پرکیا تدبیر کی جانی
چاہیئے ۔ حالات کو سمجھے بغیر اندھا دھند قدم اٹھادینا ، بے موقع کام کرنا اور
موقع پر چوک جانا مغفل لوگوں کا کام ہے اور ایسے لوگ خواہ کتنے ہی پاکیزہ مقصد
کے لئے کتنی ہی نیکی اور نیک نیتی کے ساتھ کام کررہے ہوں، کبھی کامیاب نہیں
ہوسکتے۔
اور ان سب حکمتوں سے بڑھ کر راس الحکمت یہ ہے کہ آدمی دین میں تفقہ اور معاملات دنیا میں بصیرت رکھتا ہو۔ محض احکام اور مسائل شریعت سے واقف ہونا اور انھیں پیش آمدہ حوادث پر چسپاں کردینا منصب افتاء کے لئے تو کافی ہوسکتا ہے ۔ مگر بگڑے ہوئے معاشرے کو درست کرنے اور نظام زندگی کو جاہلیت کی بنیادوں سے اکھاڑ کر ازسرنو قائم کرنے120/149 کے لئے کافی نہیں ہوسکتا۔ اس مقصد کے لئے تو ضروری ہے کہ آدمی جزیات احکام کے ساتھ کلیات احکام، بلکہ پورے نظام دین پر نظر رکھتا ہو، پھر احکام کے ساتھ ان کی حکمت کا بھی اسے علم ہو،اور وقت کے ان حالات و مسائل کو بھی وہ سمجھتا ہو جن میں احکام کو رائج کرنا مطلوب ہو۔
مطلوبہ اوصاف کے اس مرقع کو دیکھ کر بادی النظر میں ایک آدمی ہول کھا جاتا ہے
اور یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ یہ کام تو پھر کاملین کے کرنے کا ہے۔ عام انسان
کہاں سے اتنے اوصاف لے کر آسکتے ہیں۔ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے یہ سمجھ
لینا ضروری ہے کہ ہر صفت کا ہر شخص میں بدرجہ کمال پایا جانا لازم نہیں ہے۔اور
نہ یہی لاز م ہے کہ کسی میں وہ پہلے ہی قدم پر اپنی پوری تربیت یافتہ شکل میں
موجود ہو۔ ہمارا مقصود ان باتوں کے بیان کرنے سے صرف یہ بات ذہن نشین کرنا ہے
کہ جو لوگ اس کام کو کرنے کے لئے اٹھیں وہ محض" خدمت قوم کا ایک کام " سمجھ کر
یونہی کھڑے نہ ہوجائیں بلکہ اپنے نفس کا جائزہ لے کر یہ معلوم کرنے کی کوشش
کریں کہ اس کام کے لئے جو اوصاف مطلوب ہیں ان کا مادہ ان اندر موجود ہے یا
نہیں۔ بس مادہ اگر موجود ہے تو آغاز کار کے لئے کافی ہے۔ اس کو پرورش کرنا اور
اپنی استعداد کے مطابق زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک ترقی دینا بعد کے مراحل سے
تعلق رکھتا ہے۔جس طرح ایک ذرا سا بیج زمین میں جڑ پکڑنے کے بعد ، آہستہ آہستہ
غذا پاکر تناور درخت بن جاتا ہے۔ لیکن بیج ہی موجود نہ ہو تو مناسب سعی و
کوشش سے وہ بتدریج کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ مگر سرے سے مادہ موجود ہی نہ ہو تو
کسی سعی اور تربیت سے اس کا پیدا ہوجانا ممکن نہیں ہے۔
جو کچھ اب تک کہا جاچکا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اصلاح و تعمیر کے لئے ایک
صحیح لائحۂ عمل جتنا ضروری ہے ، اس سے بہت زیادہ ضروری ایسے کارکنوں کا وجود
ہے جو اس کام کے لئے موزوں اخلاقی اوصاف رکھتے ہوں۔ کیوں کہ آخر کار جس چیز کو
معاشرے سے نبرد آزما اور اقامت دین کی آزمائشوں سے دوچار ہونا ہے وہ کسی لائحۂ
عمل کی دفعات نہیں بلکہ ان لوگوں کی اجتماعی و انفرادی سیرت ہے جو میدان عمل
میں کام کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ اس لئے ہمیں کسی لائحۂ عمل اور پروگرام کو طے
کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس کام کے لئے کیسے کارکن درکار ہیں۔ ان کو
کن اوصاف سے متصف اور کن برائیوں سے پاک ہونا چاہیئے اور ایسے کارکنوں کی
تیاری کے ذرائع کیا ہیں۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے بعد ہم نے اوصاف مطلوبہ کو
تین حصوں میں بیان کیا ہے۔
اولاً وہ اوصاف جو بنیاد کار کی حیثیت سے اس کام میں حصہ لینے والے ہرفرد کے اندر موجود ہونی چاہییں اور وہ یہ (1) دین کا صحیح فہم (2) اس پر پختہ ایمان (3) اس کے مطابق سیرت و کردار (4) اس کی اقامت کو مقصدِ زندگی بنانا۔ ثانیاً وہ121/149 اوصاف ہیں جو اس خدمت کے لئے اٹھنے والی جماعت میں پائے جانے چاہیئں اور وہ یہ ہیں (1) باہمی محبت حسنِ ظن، اخلاص، ہمدردی و خیر خواہی ایک دوسرے کے لئے ایثار (2)آپس کے مشورے سے کام کرنا اور مشاورت کے اسلامی آداب کو ملحوظ رکھنا (3) نظم و ضبط و باقاعدگی، تعاون اور ٹیم اسپرٹ۔ تنقید بغرض اصلاح، جو سلیقے اور معقول طریقے سے ہو ، جس سے جماعت کے اندر رونما ہونے والی خامیوں کا ہر وقت تدارک ہوسکے، نہ کہ خرابیوں میں الٹا اضافہ ہو۔
ثالثاً وہ اوصاف جو اقامت دین کی جدوجہد کو صحیح خطوط پر چلانے اور کامیابی کی
منزل تک پہنچانے کے لئے ناگزیر ہیں یعنی(1) اللہ کے ساتھ گہرا تعلق اور اسی کی
رضا کے لئے کام کرنا۔(2) آخرت کی بازپرس کو یاد رکھنا اور اجر آخرت کے سوا کسی
دوسری چیز پر نگاہ نہ رکھنا (3) حسنِ اخلاق (4) صبر(5)حکمت
اب ہمیں یہ دکھانا ہے کہ وہ بڑی بڑی برائیاں کیا ہیں جن سے اس مقصدِ عظیم کے
خادموں کو پاک ہونا چاہیئے۔
وہ عیوب جو ہر بھلائی کی بیخ کنی کردیتے ہیں
کبر و غرور
اولین اور بدترین عیب، جو ہر بھلائی کی جڑ کاٹ دیتا ہے کبر و فخر، غرور ، خود
پسندی اور تعلّی ہے۔ یہ ایک سراسر شیطانی جذبہ ہے جو شیطانی کاموں کے لئے ہی
موزوں ہوسکتا ہے۔ خیر کا کوئی کام اس کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے بڑائی
صرف اللہ تعالی کے لئے ہے۔ بندوں میں بڑائی کا گھمنڈ ایک جھوٹ کے سوا کچھ
نہیں۔ جو شخص یا گروہ اس جھوٹے پندار میں مبتلا ہو وہ اللہ تعالی کی ہر تائید
سے محروم ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اللہ کو سب سے بڑھ کر یہی چیز اپنی مخلوق میں
ناپسند ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس مرض کے مریض کو کبھی راہ راست کی طرف
ہدایت نہیں ملتی ۔ وہ بے درپے جہالتوں اور حماقتوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہاں تک
کہ آخر کار ناکامی کا منھ دیکھتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خلق خدا
کے ساتھ برتاؤ میں اس سے تکبر کا جتنا جتنا اظہار ہوتا جاتا ہے۔ اتنی ہی اس کے
خلاف نفرت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ حتّٰی کہ مبغوضِ خلائق ہوکر وہ اس قابل ہی
نہیں رہتا کہ اس کا کوئی اخلاقی اثر لوگوں میں قائم ہوسکے۔
خیر کے لئے کام کرنے والوں میں یہ بیماری کئی راہوں سے آتی ہے۔ کم ظرف لوگوں میں یہ اس راہ سے آتی ہے کہ جب ان کی دینی و اخلاقی حالت گردو پیش کےمعاشرے کی بہ نسبت کسی حد تک بہتر ہوجاتی ہے اور کچھ قابل قدر خدمات بھی وہ بجالاتے ہیں جن کا اعتراف دوسروں کی زبانوں سے ہونے لگتا ہے تو شیطان ان کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالنا شروع122/149 کردیتا ہے کہ اب تم واقعی بڑی چیز ہوگئے ہو اور شیطان ہی کی اکساہٹ سے وہ اپنی زبان اور اپنے طرز عمل سے جتانے پر اتر آتے ہیں۔ اس طرح وہ کام جس کا آغاز نیکی کے جذبے سے ہوا تھا۔ رفتہ رفتہ ایک نہایت ہی غلط راہ پر چل پڑتا ہے۔دوسرا راستہ اس کے آنے کا یہ ہے کہ جو لوگ نیک نیتی کے ساتھ ایک طرف اپنی اور دوسری طرف خلقِ خدا کی اصلاح کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔ ان کے اندر لامحالہ کچھ بھلائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور یہ کسی نہ کسی حد تک وہ اپنے معاشرے کی عام حالت سے ممتاز ہوتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ان کی خدمات قابل قدر ہوتی ہیں۔ اور یہ ایسے امور ہیں جو بہرحال محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہ امر واقعہ کا احساس بجائے خود فطری اور ناگزیر ہے۔ مگر نفس کی ایک ذرا سے اکساہٹ اسے تکبر اور خود پسندی میں تبدیل کردیتی ہے۔ پھر بسا اوقات ایسی صورتیں پیش آتی ہیں کہ جب ان کے مخالفین ان کےکام اور کام سے گزر کر ان کی ذات میں کیڑے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنی مدافعت میں چند باتیں کہنی پڑتی ہیں جو چاہے بیان واقعی ہوں۔ مگر اپنے محاسن کے اظہار سے خالی نہیں ہوتیں۔ اس چیز کو ایک ذرا سی بے اعتدالی جائز حد سے بڑھا کر تفاخر کے حدود میں پہنچادیتی ہے۔ یہ ایک خطرناک چیز ہے۔
احساس بندگی
جس سے ہر فرد اور جماعت کو خبردار رہنا چاہیئے جو خلوص کے ساتھ اصلاح کا مقصد
لے کر اٹھے۔ بلکہ ایسے ہرشخص میں فرداً فرداً اور ایسی ہر جماعت میں مجتمعاً
عبدیت کا احساس نہ صرف موجود بلکہ زندہ اور تازہ رہنا چاہیئے کہ کبریائی صرف
خدا کی ذات کے لئے مخصوص ہے۔ بندے کا مقام عجزو نیاز کے سوا اور کچھ نہیں۔ کسی
بندے میں اگر فی الواقع کوئی بھلائی پیدا ہو تو یہ اللہ کا فضل ہے۔ فخر کا
نہیں، شکر کا مقام ہے اس پر اللہ کے حضور اور زیادہ عاجزی پیش کرنی چاہیئے اور
اس تھوڑی سی پونجی کو خیر کی خدمت میں لگا دینا چاہیئے تاکہ اللہ مزید فضل سے
نوازے اور یہ پونجی ترقی کرے۔ بھلائی پاکر غرور نفس میں مبتلا ہونا تو دراصل
برائی سے بدل لینا ہے، اور یہ ترقی کا نہیں بلکہ تنزّل کا راستہ ہے۔
بندگی و عاجزی کے احساس کے بعد دوسری چیز جو انسان کو تکبر کے رحجانات سے
بچاسکتی ہے وہ محاسبۂ نفس ہے۔ جو شخص اپنا ٹھیک ٹھیک حساب لگائے اور اپنی
خوبیوں کو محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھے کہ وہ کن کمزوریوں اور خامیوں
اور کوتاہیوں میں مبتلا ہے، وہ کبھی خود پسندی و خود پرستی کے مرض کا شکار
نہیں ہوسکتا۔ اپنے گناہوں اور قصوروں پر کسی کی نگاہ ہو تو استغفار سے اس کو
اتنی فرصت ہی نہ ملے کہ استکبار کی ہوا اس کے سر میں سما سکے۔
اس غلط رحجان کو روکنے والی ایک اور چیز یہ ہے کہ آدمی صرف ان پستیوں کی طرف نہ دیکھے، جن سے وہ اپنے آپ کو بلند123/149 پاتا ہے، بلکہ دین و اخلاق کی ان بلندیوں کو بھی دیکھے جن کے مقابلے میں وہ ابھی بہت پست ہے۔ اخلاق و روحانیت کی پستیاں بھی لامتناہی ہیں اور بلندیاں بھی لامتناہی۔ برے سے برا آدمی بھی نیچے کی طرف دیکھے تو کسی اور کو اپنے سے بدتر پاکر اپنی برتری پر فخر کرسکتا ہے مگر اس فخر کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی موجودہ حالت پر مطمئن ہوکر بہتر بننے کی کوشش چھوڑدیتا ہے بلکہ اس سے گزرکر نفس کی شیطنیت اسے یہ اطمینان بھی دلاتی ہے ہے کہ کچھ اور زیادہ نیچے اترجانے کی بھی ابھی گنجائش ہے۔ یہ نقطۂ نظر صرف وہی لوگ اختیار کرسکتے ہیں جو اپنی ترقی کے دشمن ہوں۔ ترقی کی سچی طلب رکھنے والے ہمیشہ نیچے دیکھنے کےبجائے اوپر دیکھتے ہیں ۔ ہر بلندی پر پہنچ کر مزید بلندیاں ان کے سامنے آتی ہیں جنھیں دیکھ کر فخر کے بجائے اپنی پستی کا احساس ان کے دل میں خلش پیدا کرتا ہے اور یہی خلش انھیں اور زیادہ اوپر چڑھنے پر آمادہ کرتی ہے۔
ان سب چیزوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت ہر وقت اس معاملے میں چوکنّی
رہے ۔ اور اپنے دائرے میں کبر و تعلّی اور فخر و غرور کے ہر ظہور کا نوٹس لے
کر بروقت اس کا تدارک کرے۔ مکر تدارک کی یہ کوشش کبھی ایسے طریقوں سے نہ ہونی
چاہیئے کہ لوگوں میں بناوٹی انکسار اور نمائشی تواضع کی بیماری پیدا ہوجائے ۔
کبر کی اس سےبدتر کوئی قسم نہیں جس پر تصنع کے ساتھ عجز و انکسار کا پردہ ڈالا
گیا ہو۔
نمو و نمائش
دوسرا بڑا عیب جو خیر کی جڑوں کو کھاجانے میں کبر سے کسی طرح کم نہیں۔ یہ ہےکہ
کوئی شخص اگر بھلائی کا کام نمود و نمائش کے لئے کرے اور اس کام میں اسے خلق
کی تحسین حاصل کرنے کی فکر یا اس کی پروا ہو، یہ چیز صرف خلوص ہی کی نہیں
حقیقت میں ایمان کی بھی ضد ہے۔ اور اسی بناء پر اسے چھپا ہوا شرک قرار دیا گیا
ہے۔ خدا اور آخرت پر ایمان کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ انسان صرف خدا کے لئےکام
کرے۔ اسی سے اجر کی آس لگائے اور دنیا کے بجائے آخرت کے نتائج پر نگاہ رکھے
لیکن ریا کار انسان خلق کی رضا کومقصود بناتا ہے ۔ خلق ہی کے اجر کا طالب ہوتا
ہے۔ اور دنیا ہی میں اپنا اجر نام و نمود، شہرت، ہردلعزیزی، نفوذ و اثر اور
حشمت و جاہ کی شکل میں پالینا چاہتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے خلق خدا
کو شریک بنایا، یا اس کو مدّ مقابل بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں آدمی خدا
کے دین کی خواہ کتنی اور کیسی ہی خدمت کرے۔ بہرحال وہ نہ خدا کے لئے ہوگی، نہ
اس کےدین کی خاطر ہوگی اور نہ اس کا شمار خدا کے ہاں نیکوں میں ہوگا۔
صرف یہی نہیں کہ یہ ناپاک جذبہ نتیجہ کے اعتبار سے عمل کو ضائع کردیتا ہے، بلکہ درحقیقت اس کے ساتھ کوئی صحیح124/149 عمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس جذبے کی فطری خاصیت یہ ہے کہ آدمی کو اس کام سے زیادہ کام کے اشتہار کی فکر ہوتی ہے اور اسی کو وہ کام سمجھتا ہے جس کا ڈھنڈورا دنیا میں پٹے اور تحسین و آفرین کا خراج وصول کرکے لائے۔ خاموش کام جس کا خدا کے سوا کسی کو پتہ نہ ہو،اس کے نزدیک کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس طرح آدمی کے عمل کا دائرہ صرف قابل اشتہار اعمال تک محدود ہوجاتا ہے اور اشتہار کا مقصود حاصل ہوجانے کے بعدخود ان اعمال کے ساتھ بھی اسے کوئی دلچسپی باقی نہیں رہتی ۔ آغاز کار میں خواہ کتنے ہی خلوص کے ساتھ عملی زندگی کی ابتدا کی گئی ہو۔ یہ بیماری لگتے ہی خلوص اس طرح غائب ہونا شروع ہوجاتا ہے جیسے دق کی بیماری آدمی کی قوت حیات کو کھاتی چلی جاتی ہے۔ پھر اس کے لئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ منظر عام سے ہٹ کر بھی نیک رہے۔ اور اپنا فرض سمجھ کر بھی کوئی فرض بجا لائے۔ وہ ہر چیز کو اس کی نمائشی قدر اور تحسین خلق کی قیمت کے لحاظ سے جانچتا ہے۔ ہر معاملے میں صرف یہ دیکھتا ہے کہ دنیا کس روش کو پسند کرتی ہے اور کسی ایسے کام کا تصور کرنا بھی اس کے لئے ناممکن ہوتا ہے جو دنیا میں اسے غیر مقبول بنادے۔ خواہ ایمان داری کے ساتھ اس کے ضمیر کی آواز یہی ہو کہ وہ ہے کرنے کا کام۔ گوشوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کے لئے اس فتنے سے بچنا نسبتاً آسان ہے ۔ مگر جو لوگ پبلک میں آکر اصلاح اور خدمت اور تعمیر کے کام کریں، وہ ہر وقت اس خطرے میں مبتلا رہتے ہیں کہ نہ معلوم کب اس اخلاقی دق کے جراثیم ان کے اندر نفوذ کرجائیں۔ انھیں بہرحال بہت سے وہ کام کرنے ہوتے ہیں جو منظر عام پر آتے ہیں، انھیں عوام الناس کو اپنا ہم نوا بنانے اور ان کے اندر نفوذ حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ ان کے کام کی بہت سی ضروریات اس بات پر بھی مجبور کرتی ہیں کہ وہ اپنے کاموں کی رودادیں شائع کریں ان کی کچھ نہ کچھ خدمات ایسی بھی ہوتی ہیں جو ان کی طرف خلق کا رجوع بڑھاتی اور زبانوں سے ان کے لئے تحسین کے کلمات نکلواتی ہیں۔ انھیں مخالفتوں سے بھی سابقہ پیش آتا ہے۔ اور اپنی مخالفت میں بادل نخواستہ ہی سہی، انھیں مجبوراً اپنے اچھے پہلوؤں کو نمایاں کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ شہرت ہو مگر شہرت کی چاٹ نہ لگے۔ نمودو نمائش کی خاطر کام کرنے کی بیماری نہ لگے۔ مقبولیت ہو مگر مقصود نہ بننے پائے، تحسین خلق ہو مگر اس کے حصول کی فکر یا اس کی پروا نہ ہو، ریا کی پیدائش کے اسباب چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوں مگر ریا سے دامن بچا رہے۔ اس کے لئے بڑی کاوش بڑی توجہ اور بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ ایک ذرا سا تساہل بھی اس معاملے میں ریاکاری کے جراثیم کو گھس آنے کا راستہ دے سکتا ہے۔
اس سے بچنے کے لئے انفرادی کوشش بھی ہونی چاہیئے اور اجتماعی کوشش بھی۔ انفرادی کوشش کا طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ ایسے نیک اعمال کا التزام کرے جو زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ ہوں اور ہمیشہ اپنے نفس کا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ اسے زیادہ دلچسپی ان مخفی نیکیوں میں محسوس ہوتی ہے، یا ان نیکیوں میں جو منظر عام پر آنے والی ہوں۔ اگر125/149 دوسری بات ہو تو آدمی کو فوراً خبردار ہوجانا چاہیئے کہ ریا اس کے اندر نفوذ کررہا ہے اور اللہ سے پناہ مانگتے ہوئے پوری قوت ارادی کے ساتھ نفس کی اس کیفیت کو فوری بدلنے کی سعی کرنی چاہیئے۔
اجتماعی کوشش کی صورت یہ ہے کہ جماعت اپنے میں ریاکارانہ رحجانات کو کبھی نہ
پنپنے دے۔ اپنے کاموں میں اظہار و اعلان کو بس حقیقی ضرورت تک محدود رکھے۔ شوق
نمائش کا ادنٰی سا اثر بھی جہاں محسوس ہو فوراً اس کا سدّباب کرے، جماعتی
مشوروں میں یہ بات کبھی اشارتاً یا کنایتاً بھی برداشت نہ کی جائے کہ فلاں کام
اس لئے کرنا چاہیئے کہ وہ مقبولیت کا ذریعہ ہے، اور فلاں کام اس لئے نہ کرنا
چاہیئے کہ لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔ جماعت کا داخلی ماحول ایسا ہونا چاہیئے کہ
وہ لوگوں کی تعریف اور مذمت ہر دو سے بے نیاز ہوکر کام کرنے کی ذہنیت پیدا
کرے۔ اور اس ذہنیت کی پرورش نہ کرے جو مذمت سے دل شکستہ ہو اور تعریف سے غذا
پائے۔اس کے باوجود اگر کچھ افراد جماعت میں ایسے پائے جائیں جن میں ریا کی بُو
محسوس ہو تو ان کی ہمت افزائی کرنے کے بجائے ان کے علاج کی فکر کرنی چاہیئے۔
نیت کا کھوٹ
تیسرا بنیادی عیب نیت کا کھوٹ ہے جس پر کسی خیر کی عمارت قائم نہیں ہوسکتی۔ خیر کاکام صرف اس خالص نیت ہی سے ہوسکتا ہے کہ دنیا میں بھلائی پھیلے اور ہم اس کے لئے سعی کرکے اللہ کے ہاں سرخ رو ہوں۔ اس نیت کے ساتھ اپنی کوئی ذاتی یا گروہی غرض شامل نہ ہونی چاہیئے۔ اپنا کوئی دنیوی مفاد پیش نظر نہ ہونا چاہیئے۔ حتّٰی کہ کسی تاویل کے ساتھ بھی اس مقصد خیر کے ساتھ اپنے کسی منفعت کی طلب یا امید کی لاگ لگی نہ رہنی چاہیئے۔ ایسا ہر لوث نہ صرف یہ کہ اللہ کے ہاں آدمی کے اجر کو ضائع کردے گا۔ بلکہ دنیا میں بھی اس آلودگی کو لئے ہوئے کوئی صحیح کام نہ ہوسکے گا۔ نیت کی خرابی لامحالہ کردار پر اثر انداز ہوگی۔اور کردار کی خرابی کے ساتھ اس جدوجہد میں کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔ جس کا اصل مقصود برائی کو مٹاکر بھلائی کو قائم کرنا ہے۔ یہاں پھر وہی مشکل پیش آتی ہے جس کی طرف ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں۔ جزوی بھلائیوں کے لئے کام کرنے کی صورت میں نیت کو اس کھوٹ سے پاک رکھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں ہے۔ تھوڑا سا تعلق باللہ اور جذبۂ صادق بھی اس کے لئے کافی ہوسکتا ہے مگر جن لوگوں کے پیش نظر یہ ہو کہ ایک پورے ملک کے نظام زندگی کی اصلاح کی جائے اور اسے بحیثیت مجموعی ان بنیادوں پر استوار کی جائے جو اسلام نے ہمیں دی ہیں وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے صرف تعمیر افکار یا صرف تبلیغ و تلقین یا صرف اصلاح اخلاق کی کوششوں پر اکتفا نہیں کرسکتے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھیں لامحالہ ملک کے سیاسی نظام کا رخ بھی اپنے مقصد کی طرف موڑنے کے لئے بالواسطہ یا بلاواسطہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے تاکہ اقتدار یا تو براہِ راست اس کے ہاتھ میں آئے یا کسی ایسے گروہ کی طرف126/149 منتقل ہو جسے ان کی تائید اور پشت پناہی حاصل ہو۔ دونوں صورتوں میں سے خواہ کوئی بھی صورت ہو ۔ اقتدار کا تصور سیاسی نظام کی تبدیلی سے منفک نہیں ہوسکتا۔ اب تو قعر دریا میں رہ کر دامن تر نہ ہونے دینے کا معاملہ ہے کہ ایک جماعت یہ کام کرے اور پورے انہماک کے ساتھ کرے اور پھر بھی اس کے افراد کی انفرادی نیتوں اور پوری جماعت کی مجموعی نیت کو اپنے لئے اقتدار کی طلب کا لوث نہ لگنے پائے۔ یہ چیز بڑا مجاہدہ نفس اور بڑا تزکیہ قلب و روح چاہتی ہے ۔
اس معاملے میں صحیح نقطۂ نظر پیدا کرنے کے لئے دو بظاہر متماثل چیزوں کا جوہری
فرق اچھی طرح ذہن نشین ہونا چاہیئے۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ مجموعی نظام زندگی
کی تبدیلی چاہنے والا دوسری تبدیلیوں کے ساتھ سیاسی نظام کی تبدیلی آپ سے آپ
اس امر کی مقتضی ہے کہ اقتدار ان لوگوں کی طرف یا ان کی پسند کے لوگوں کی طرف
منتقل ہو جو اس تبدیلی کے خواہش مند ہوں۔ مگر فرق اور بہت بڑا فرق ہے 'اپنے
لئے ' اقتدار چاہنے اور اپنے اصول اور نصب العین کے لئے اقتدار چاہنے میں۔
اصول کا اقتدار چاہے عملاً اصول کے علمبرداروں ہی کا اقتدار ہو۔ پھر بھی 'اصول
کا اقتدار' چاہنا اور اس کے علمبرداروں کا 'اپنے لئے اقتدار' چاہنا حقیقتاً دو
الگ الگ چیزیں ہیں جن میں روح اور جوہر کا بہت بڑا فرق ہے۔ نیت کا کھوٹ، دوسری
چیز میں ہے، نہ کہ پہلی چیز میں اور مجاہدۂ نفس جس چیز پر مرکوز ہونا چاہیئے،
وہ یہ ہے کہ پہلی چیز کے لئے سردھڑ کی بازی لگادینے پر بھی دوسری چیز کا ذہن
میں شائبہ تک نہ آنے پائے۔ نبی ﷺ اور صحابہ کرام کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔
انھوں نے مجموعی نظام زندگی کو بدل کر اسلام کے اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد
کی۔ یہ چیز سیاسی غلبہ و اقتدار کی متقاضی تھی کیونکہ دین کو پوری طرح غالب
کردینا اس کےبغیر ممکن نہ تھا اور عملاً اس جدوجہد کے نتیجے میں اقتدار ان کے
ہاتھ میں آیا بھی لیکن اس کے باوجود کوئی ایمان دار آدمی یہ شبہ تک نہیں
کرسکتا کہ ان کی جد و جہد کامقصود 'اپنا اقتدار ' تھا۔ دوسری طرف اپنے اقتدار
کے طالبوں سے تاریخ بھری پڑی ہے اور تاریخ میں ان کو ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے،
ہمارے آنکھوں کے سامنے وہ دنیا میں موجود ہیں۔ عملاً اقتدار پانے کو اگر ایک
واقعہ کی حیثیت سے لیا جائے تو دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں لیکن نیت کے
لحاظ سے دونوں میں عظیم الشان فرق ہے۔اس فرق پر دونوں کا کردار ، جدوجہد کے
دور کا کردار بھی اور کامیابی کے دور کا کردار بھی ناقابل انکار شہادت دے رہا
ہے جو لوگ صدق دل سے اصول اسلام کے مطابق نظام زندگی کا ہمہ گیر اقتدار چاہتے
ہوں انھیں فرداً فرداً بھی اس فرق کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی نیت درست رکھنی
چاہیئے اور ان کی جماعت کو مجموعی طور پر اس امر کی کوشش کرنی چاہیئے کہ 'اپنا
اقتدار ' چاہنے کی نیت کسی شکل میں بھی اس کے دائرے میں جگہ نہ پاسکے۔
وہ نقائص جن کی تاثیر کام کو بگاڑ دیتی ہے
اس کے بعد دوسرا درجہ ان برائیوں کا ہے جو اساس و بنیاد کو تو نہیں ڈھاتیں مگر اپنی تاثیر کے لحاظ سے کام بگاڑنے والی ہیں اور اگر تساہل و تغافل برت کر ان کو پرورش پانے کا موقع دیا جائے تو تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ شیطان انہی ہتھیاروں سے خیر کی راہ مارنے اور انسانی کوششوں بھلائی سے برائی کی طرف موڑنے اور معاشرے میں فساد ڈلوانے کا کام لیتا ہے۔ اگرچہ معاشرے کی صحت کے لئے ہر حال میں ان عیوب کا سدّ باب ضروری ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ ان افراد اور جماعتوں کو تو ان سے بالکل پاک رہنا چاہیئے جن کے پیش نظر اصلاح معاشرہ اور اقامت دین حق کا مقصد عظیم ہے۔ 127/149
اس نوعیت کے عیوب کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا
منبع دراصل انسان کی بعض مخصوص کمزوریاں ہیں جن میں سے ہر ایک عیوب کے ایک
پورے خاندا ن کو جنم دیتی ہے۔ سہولت ِ فہم کے لئے مناسب طریقہ یہ ہوگا کہ ہم
ایک کمزوری کو لے کر پہلے اس کی حقیقت کو سمجھیں۔ پھر یہ دیکھیں کہ وہ کس طرح
کس تدریج سے عیب آفریں بنتی ہے اور نشو نما پاکر کیا خرابیاں پیدا کرتی ہے اس
طرح ہر برائی کا سرا ہم کو مل جائے گا اور ہم جان سکیں گے کہ اس کی اصلاح کے
لئے کس جگہ مرہم ِ تدبیر استعمال کرنا چاہيئے۔
نفسانیت
انسان کی کمزوریوں میں سب سے بڑی اور سخت فساد انگیز کمزوری "نفسانیت" ہے۔ اس
کی اصل تو حبِّ نفس کا وہ فطری جذبہ ہے جو بجائے خود کوئی بری چیز نہیں بلکہ
اپنی حد کے اندر ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ انسان کی
فطرت میں اس کی بھلائی کے لئے ودیعت فرمایا ہے تاکہ وہ اپنی حفاظت اور اپنی
فلاح و ترقی کے لئے کوشش کرے لیکن جب یہی جذبہ شیطان کی اکساہٹ سے عشق نفس اور
پرستش نفس اور خود مرکزیت میں تبدیل ہوجاتا ہے تو مصدرِ خیر ہونے کے بجائے
منبع شر بن جاتا ہے اور پھر ہر درجۂ ارتقاء میں اس سے عیوب کا ایک نیا سلسلہ
وجود میں آتا چلا جاتا ہے۔
برائی کی طرف اس جذبے کی پیش قدمی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جگہ
اپنے آپ کو بے عیب اور مجموعۂ محاسن سمجھ بیٹھتا ہے۔اپنی خامیوں اور کمزوریوں
کا احساس کرنے سے اغماض برتتا ہے اور اپنے ہر نقص یا قصور کی تاویل کرکے اپنے
دل کو مطمئن کرلیتا ہے کہ میں ہر لحاظ سے بہت اچھا ہوں۔ یہ خود پسندی پہلے ہی
قدم پر اس کی اصلاح و ترقی کا دروازہ اس کے اپنے ہاتھوں بند کردیتی ہے۔
پھر جب یہ "من چہ خُوب" کا احساس لئے ہوئے آدمی اجتماعی زندگی میں آتا ہے تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ128/149 اس نے اپنے آپ کو فرض کررکھا ہے وہی کچھ دوسرے بھی اسے سمجھیں۔ وہ صرف تعریف و تحسین سننا چاہتا ہے۔ تنقید اسے گوارا نہیں ہوتی تو خیر خواہانہ نصیحت تک سے اس کی خودی کو ٹھیس لگتی ہے۔ اس طرح یہ شخص اپنے لئے داخلی وسائل ِ اصلاح کا بھی سدّباب کرلیتا ہے۔
مگر کوئی شخص بھی دنیا میں ایسا نہیں ہوسکتا جس کو اجتماعی زندگی میں ہر لحاظ
سے اپنی خواہش اور اپنی پسند ہی کے مطابق حالات مل جائیں۔ خصوصیت کے ساتھ خود
پسند اور خود پرست آدمی کو تو یہاں ہر طرف سے چرکے لگتے ہیں کیونکہ اس کی خودی
اپنے اندر و ہ اسباب لئے ہوئے آتی ہے جو معاشرے کی بے شمار خوبیوں کے ساتھ اس
کا تصادم ناگزیر کرادیتے ہیں اور معاشرے کے مجموعی حالات بھی اس کی توقعات اور
خواہشات سے خواہ مخواہ ٹکراتے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس شخص کو صرف اس حد پر نہیں
رہنے دیتی کہ وہ بس اپنی اصلاح کے داخلی و خارجی وسائل سے محروم ہوکر رہ جائے
بلکہ دوسروں کےتصادم سے چرکے اور توقعات کی شکست کے صدمے اس کی مجروح خودی کو
پیہم ایک سے ایک شدید تر برائی میں مبتلا کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ بہت سے لوگوں
کو زندگی میں اپنے سے بہتر پاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے متعلق وہ محسوس کرتا ہے
کہ معاشرہ ان کو اس سے زیادہ وقعت دے رہا ہے ۔ بہت سے لوگ اس کو وہ وقعت نہیں
دیتے جس کا وہ طالب ہوتا ہے ۔ بہت سے لوگ اس کے مراتب تک پہنچنے میں مانع ہوتے
ہیں جن کا وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے۔ بہت سے لوگ اس پرتنقید کرتے ہیں
بلکہ اس کی تنقیص تک کرڈالتے ہیں۔ یہ مختلف حالات اس کے دل میں کسی کے خلاف
بغض اور کینے کی آگ بھڑکادیتے ہیں۔ وہ دوسروں کے حالات کا تجسّس کرتا ہے۔
دوسروں کے عیب ڈھونڈتا ہے اور غیبتیں سن کر لذّت لیتا ہے۔ چغلیاں کھاتا ہے۔
نجویٰ اور سرگوشیاں اور سازشیں کرتا پھرتا ہے۔ اگر اس کے اخلاق کی بندشیں
ڈھیلی ہوں یا ان مشاغل میں پیہم مشغول رہنے سے ڈھیلی ہوجائیں تو پھر ان گناہوں
سے بڑھ کر جھوٹ ،افترا، بہتان اور دوسرے قبیح تر جرائم کا ارتکاب کرنے لگتا
ہے۔ چغلیاں کھانے لگتا ہے۔ ان برائیوں کے چکّر میں پھنس کر وہ اخلاق کی
انتہائی پستیوں تک پہنچنے سے نہیں بچ سکتا۔ الاّ یہ کہ کسی مرحلہ پر پہنچ کر
اسے خود ہی اپنی اس ابتدائی غلطی کا احساس ہوجائے جس نے اسے اس راستے پر ڈالا
تھا۔
یہ کیفیت اگر کسی ایک شخص کی ہو تو اس سے کوئی اجتماعی فساد رونما نہیں ہوتا اس کا اثر زیادہ سے زیادہ چند اشخاص تک پہنچ کر رہ جاتا ہے لیکن اگر اسی نفسانیت کے بہت سے مریض موجود ہوں تو ان کے شر سے پوری اجتماعی زندگی میں فساد پھیل جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جہاں آپس کی بدظنی، تجسّس ، عیب جوئی، غیبت اور چغل خوری کا ایک سلسلہ ہو، وہاں بہت سے لوگ دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف برائی پال رہے ہوں اور بغض و حسد کی بناء پر ایک دوسرے کو نیچا129/149 دکھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوں۔ اور جہاں بہت سی مجروح خودیاں انتقام کے جذبات سے لبریز ہوں، وہاں پھوٹ پڑے بغیر نہیں رہ سکتی۔ وہاں کوئی چیز دھڑے بندیوں کو روک نہیں سکتی۔ وہاں کسی تعمیری تعاون کا تو درکنار تعلقات کی خوشگواری تک کا امکان باقی نہیں رہتا۔ ایسے ماحول میں کشیدگی اور کشمکش ناگزیر ہے اور وہ صرف نفسانیت کے مریضوں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ رفتہ رفتہ اچھے خاصے نیک نفس لوگ اس میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ایک نیک نفس آدمی تو منہ پر تو بجا تنقید ہی نہیں، بے جا تنقید کو بھی گوارا کرسکتا ہے۔ مگرغیبت اس کے دل میں غبار پیدا کئے بغیر نہیں رہتی، اور اس کا کم از کم اتنا اثر تو ہوتا ہی ہے کہ غیبت کرنے والوں پر اعتماد کرنا اس کے لئے ممکن نہیں رہتا۔ اسی طرح ایک نیک نفس آدمی ان سب زیادتیوں کر معاف کرسکتا ہے جو بغض یا حسد کی بناء پر اس کے ساتھ کی جائیں، وہ بدگوئی، الزام تراشی، جھوٹے پروپیگنڈے اور ان سے بھی زیادہ اذیت بخش چیزوں کو بھی نظر انداز کرسکتا ہے،لیکن اس کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ جن لوگوں سے ان صفات کا ذاتی تجربہ ہوچکا ہو، ان سے وہ اطمینان کے ساتھ کوئی معاملہ کرسکے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس اجتماعی ماحول میں یہ عیوب بروئے کار آجاتے ہیں، وہ کس طرح شیطان کی من بھاتی چراگاہ بن کر رہتا ہے۔ حتّٰی کہ اس میں بہتر سے بہتر آدمی بھی چاہے کشمکش سے بچ جائیں، کشیدگی سے نہیں بچ سکتے۔
اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ جو لوگ اصلاح و تعمیر کے لئے
اجتماعی جدوجہد کرنا چاہتے ہوں، ان کی جماعت کا ان افراد سے پاک ہونا کس قدر
ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نفسانیت کے جراثیم ایسی جماعت کے لئے طاعون اور ہیضے
کے جراثیم سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ان کی موجودگی میں کسی تعمیر ِصالح کا تصوّر
نہیں کیا جاسکتا۔
شریعت ِ الٰہی اس مرض کے آغاز سے اس کا علاج شروع کرتی ہے ۔ اور پھر ہر مرحلے
پر اس کے سدّباب کے لئے ہدایات دیتی ہے۔ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اہلِ ایمان
کو توبہ و استغفار کی جو تلقین کی گئی ہے اس کا منشاء یہی ہے کہ مومن کسی وقت
بھی اعجابِ نفس اور خود پسندی میں مبتلا نہ ہو۔ کبھی اپنے آپ کو بڑی چیز نہ
سمجھے۔ ہر وقت اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا احساس اور اپنی خطاؤں اور لغزشوں
کا اعتراف ہی کرتا رہے اور بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دینے کے بعد بھی اس پر
پھولنے کے بجائے عاجزی کے ساتھ اپنے خدا کے حضور یہی درخواست پیش کرے کہ خدمت
میں کوتاہیاں رہ گئی ہیں۔ ان سے درگزر فرمایا جائے۔ نبی ﷺ سے بڑھ کر مجموعۂ
کمالات اور کون ہوسکتا ہے ۔ اور آپ سے بڑا کارنامہ دنیا میں کس انسان نے انجام
دیا ہے ، مگر تاریخ کے اس عظیم ترین کارنامے کو انتہا تک پہنچا کر جب آپ فارغ
ہوئے تو دربار ِ الٰہی سے جو تلقین آپ کو فرمائی گئی وہ یہ تھی کہ :
اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ جب اللہ کی مدد آ جائے اور فتح نصیب
ہو جائے
وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا اور (اے نبی ﷺ) تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں 130/149
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ڼ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا تو
اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو ، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو ، بے
شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔
یعنی جو کارِ عظیم تو نے انجام دیا اس کے متعلق تم یہ سمجھو کہ اس کی تعریف
تمہیں نہیں تمہار ے رب کو پہنچتی ہے جس کے فضل و کرم سے تم اتنا بڑا کام کر
دکھانے میں کامیاب ہوئے۔ اور اپنے متعلق تمہارا احساس یہی ہونا چاہیئے کہ جو
حقِ خدمت تھا وہ پھر بھی ادا نہ ہوا۔ اس لئے انعام مانگنے کے بجائے اپنے رب سے
یہ دعا کرو کہ خدمت میں جو کچھ کسر رہ گئی ہے اس سے درگزر فرمائیے۔ چنانچہ
بُخاری میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ: "کان رسول اللہ ﷺ
یکثر ان یقول قبل موتہ سبحان اللہ و بحمدہ استغفراللہ و اتوب الیہ"۔
رسول اللہﷺ اپنی وفات سے پہلے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں اللہ کی حمد کے
ساتھ اس کی تسبیح کرتا ہوں اور اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں اس کے حضور توبہ کرتا
ہوں،اور ویسے بھی توبہ و استغفار ہمیشہ ہی انحضور ﷺ کا معمول تھا۔
بخاری میں حضرت ابو ھریرۃ کی روایت ہے کہ انھوں نے حضور ﷺ کو فرماتے سنا کہ:"
خدا کی قسم میں ہر روز ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔
اس تعلیم کی روح اگر کوئی شخص اپنے اندر جذب کرے تو اس کے ذہن میں نفسانیت کا
وہ بیج کبھی جڑ ہی نہیں پکڑ سکتا جو برگ و بار لاکر فتنہ و فساد کے بِس بھرے
پھل دیتا ہے۔
اس پر بھی اگر نفس میں یہ خرابی پیدا ہو ہی جائے تو شریعت ِ الٰہی اخلاق اور
عملی رویّے میں اس کے ظہور اور نشو نما کو ہر قدم پر روکتی ہے، اور اس کے بارے
میں سخت احکام دیتی ہے۔ مثلاًاس کا پہلا ظہور اس شکل میں ہوتا ہے کہ آدمی اپنے
آپ کو تنقید سے بالاتر سمجھتا اور منوانے کی کوشش کرتا ہے اور اس بات کو
برداشت نہیں کرتا کہ کوئی شخص اسے غلطی پر ٹوکے۔ شریعتِ الٰہی اس کے برعکس امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کو تمام اہلِ ایمان پر لازم کرتی ہے۔ اور خاص طور
پر ذی اقتدار ظالموں کے مقابلے میں کلمۂ حق کہنے کو تو اقضل الجہاد قرار دیتی
ہے تاکہ مسلم معاشرے میں برائی پر ٹوکنے اور بھلائی کرنے کی تلقین کرنے کا
ایسا ماحول پیدا ہوجائے جس میں نفسانیت پنپ نہ سکے۔
اس کا دوسرا ظہور بغض و حسد کی شکل میں ہوتا ہے۔ جسے آدمی ہر اس شخص کے خلاف دل میں پالنا شروع کردیتا ہے۔ جس سے اس کی نفسانیت پر چوٹ لگی ہو۔ اور پھراس سے تعلقات کی خرابی کا آغاز ہوتا ہے۔ شریعتِ الٰہی اس چیز کو گناہ قرار دیتی ہے اور اس پر سخت وعید سناتی ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے : "خبردار حسد نہ کرو، کیونکہ حسد آدمی کی نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو چٹ کرجاتی ہے"۔ احادیث میں متعدد الفاظ کے ساتھ حضور ﷺ کے یہ تاکیدی ارشادات وارد ہوئے ہیں کہ : ایک دوسرے سے قطع کلام نہ کرو۔ کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے تعلقات توڑے رکھے۔ 131/149
اس کا تیسرا قدم بدگمانی کی طرف اٹھتا ہے اور پھر تجسس کرکے آدمی دوسروں کے
عیوب ٹٹولنے لگتا ہے۔ بدگمانی کی حقیقت یہ کہ آدمی اپنے سواہر ایک کے متعلق یہ
ابتدائی مفروضہ قائم کرتا ہے کہ وہ ضرور برا ہے اور بظاہر اس جو چیز قابل
اعتراض نظر آتی ہے اس کی کوئی اچھی توجیہ کرنے کی بجائے ہمیشہ بری توجیہ کرتا
ہے اور تحقیق کی بھی ضرورت نہیں سمجھتا۔ تجسس اسی بدگمانی کا شاخسانہ ہے۔ آدمی
دوسروں کے متعلق پہلے ایک بری رائے قائم کرتا ہے۔ پھر اس کا ثبوت فراہم کرنے
کے لئے ان کے حالات کی ٹوہ لگانی شروع کرتا ہے۔ قرآن ان دونوں چیزوں کو گناہ
قرار دیتا ہے ۔ سورہ حجرات میں اللہ تعالی فرماتا ہے :" اجْتَنِبُوْا
كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا
تَجَسَّسُوْا"۔ بہت گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس
نہ کرو۔ حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :" خبردار بدگمانی نہ کرو۔ کیونکہ
بدگمانی بدترین جھوٹ ہے"۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ہم کو ٹوہ
لگانے اور عیوب ٹٹولنے سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ اگر ہمارے سامنے کوئی بات کھل
جائے تو ہم ا س کو پکڑیں گے۔حضرت معاویہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"اگر تم مسلمانوں کے پوشیدہ احوال کی کھوج کرید کروگے تو ان کو بگاڑدوگے"۔
ان مراحل کے بعد غیبت کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد خواہ بدگمانی پر ہو، یا حقیقت پر، دونوں صورتوں میں کسی شخص کو ذلیل کرنے اور اس کی تذلیل سے لذّت یا فائدہ اٹھانے کی خاطر اس کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا غیبت ہے۔حدیث میں اس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ :"تیرا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر اس طرح کرنا کہ اسے معلوم ہو تو ناگوار ہو۔ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ اگر ہمارے بھائی میں وہ برائی موجود ہو جس کا ذکر کیا گیا ہے تو کیا پھر بھی غیبت ہوگی؟فرمایا " اگر اس میں وہ برائی ہے اور تونے بیان کی تو غیبت کی،اور اگر اس میں وہ نہیں ہے تو غیبت سے بڑھ کر بہتان لگایا"۔ قرآن اس فعل کو حرام قرار دیتا ہے۔ سورۂ حجرات میں ارشاد ہے : "وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ"۔" اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔ کیا تم میں سے یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ، اس سے تم ضرور نفرت کروگے"۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : " ہر مسلمان کی جان و132/149 مال اور عزّت دوسرے مسلمان پر حرام ہے"۔ اس سے مستثنٰی صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی کی برائی کرنے کی جائز ضرورت ہے اور اس میں بدخواہی کی نیت نہ ہو۔ مثلاًکسی مظلوم کی شکایت اس لئے کرنا کہ کوئی اس کی فریاد رسی کرے۔ اس کی اجازت خود قرآن میں دی گئی ہے۔"لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ"۔ اللہ برائی پر زبان کھولنا پسند نہیں کرتا۔ الّا یہ کہ کسی شخص پر ظلم ہوا ہو یا مثلاً ایک شخص دوسرے شخص سے بیٹی بیاہ رہا ہو یا اس سے کوئی کاروباری معاملہ طے کررہا ہو، اور فریقین میں سے کوئی اس معاملے میں کسی جاننے والے سے مشورہ لے۔ اس صورت میں جو برائی واقعی آدمی کے علم میں ہو اسے خیر خواہی کی بناء پر بیان کردینا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ خود نبی ﷺ نے ایسے موقع پر برائی بیان کی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ دو صاحبوں نے فاطمہ بنتِ قیس کو نکاح کا پیغام دیا۔ انہوں نے حضور ﷺ سے مشورہ طلب کیا۔ آپ ﷺ نے انہیں خبردار کیا کہ ان میں سے ایک صاحب کنگال ہیں، اور دوسرے صاحب بیویوں کو پیٹنے کے عادی ہیں۔ اسی طرح شریعت کو غیر معتبر راویوں کی روایت سے محفوظ کرنے کے لئے ان کے عیوب بیان کرنا تمام علماء امّت نے بالاتفاق جائز رکھا اور ائمۂ حدیث نے عملاً اس خدمت کو انجام دیا۔ کیونکہ دین کے لئے اس کی ضرورت تھی۔خلق خدا پر علانیہ ظلم کرنے والوں اور فسق و فجور پھیلانے والوں اور کھلے کھلے بدکردارلوگوں کی غیبت کرنا بھی جائز ہے۔ اور نبی ﷺ کے اپنے عمل سے اس بات کا جواز ثابت ہوتا ہے۔اس طرح مستثنٰی صورتوں کے ماسوا غیبت ہر حال میں حرام ہے اور اس کا سننا بھی گناہ ہے۔ سننے والوں پر لازم ہے کہ یا تو غیبت کرنے والوں کو روکیں یا اس شخص کی مدافعت کریں جس کی غیبت کی جارہی ہو، یا بدرجۂ آخر اس محفل سے اٹھ جائیں، جہاں ان کے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھایا جارہا ہو۔غیبت سے جو آگ لگتی ہے اسے پھیلانے کی خدمت چغل خوری انجام دیتی ہے اور اس میں بھی اصل محرک وہی نفسانیت کا جذبہ ہوتا ہے۔ چغل خور کسی کا خیر خواہ بھی نہیں ہوتا۔نہ اس کا جس کی برائی کی گئی ہو۔ نہ اس کا جس سے برائی کی ہو۔وہ دوست دونوں کا بنتا ہے ۔ مگر دراصل دونوں کا بدخواہ ہوتا ہے۔ اسی لئے ایک ایک کی بات کان لگا کر سنتا ہے۔ اور اس کی تردید نہیں کرتا۔ پھر دوست کو اس کی خبر پہنچاتا ہے تاکہ جو آگ اب تک ایک جگہ لگی ہوئی تھی وہ دوسری جگہ بھی لگ جائے۔شریعتِ الٰہی میں اس چیز کو حرام کیا گیا ۔ کیونکہ یہ فساد انگیزی میں غیبت سےبھی بڑھ کر ہے۔ قرآن مجید میں جن اوصاف کو آدمی کی بدترین صفات میں شمار کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک چغل خوری کرتے پھرنا بھی ہے حدیث میں نبیﷺ کا ارشاد ہے کر: لا ید خل الجنۃ نمام، کوئی چغل خور جنّت میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ، " تم بدترین انسان اس شخص کو پاؤگے جس کے دو منہ ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس ایک منہ لے کر آتا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں کے پاس دوسرا منہ لے کر جاتا ہے۔ صحیح اسلامی رویّہ یہ ہے کہ آدمی جہاں کسی کی غیبت سنے یا تو اس کی تردید کرے یا پھر فریقین کی موجودگی میں اس معاملہ کو چھیڑ کر اس کی صفائی ایسے طریقے سے کرائے جس سے ایک فریق کو یہ شبہ نہ ہو کہ دوسرے133/149 فریق نے اس کی موجودگی میں اس کی برائی کی تھی اور غیبت کرنے والے کو اس کے گناہ پر متنبہ کرے اور ددسری طرف اس شخص کو بھی اپنی اصلاح کے لئے توجّہ دلائے جس کی برائی بیان کی گئی تھی۔
اس سلسلۂ فساد کی انتہائی کڑی نجویٰ ہے یعنی کھُسر پُھسر سرگوشیاں اور خفیہ مشورے جن سے بالآخر سازشوں اور جتھہ بندیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف کش مکش کرنے والے دھڑے وجود میں آتے ہیں۔شریعتِ الٰہی اس کو بھی سختی کے ساتھ منع کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کو ایک شیطانی حرکت قرار دیا گیا ہے۔ "اِنَّمَا النَّجْوٰى مِنَ الشَّيْطٰنِ" اور اس کے بارے میں یہ اصولی ہدایت دی گئی ہے کہ (اِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَـنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰى) یعنی دو یا چند آدمیوں کی علیٰحدگی میں گفتگو کرنا اگر نیک مقاصد کے اور تقویٰ کے حدود میں ہو تو اس نجویٰ کی تعریف میں نہیں آتا جو ممنوع ہے۔ البتہ وہ گفتگو ضرور نجویٰ اور ممنوع نجویٰ ہے جو جماعت سے آنکھ بچا کر اخفا کے اہتمام کے ساتھ اس غرض کے لئے کی جائے کہ کسی بڑے کام کی اسکیم بنانی ہے۔ یا کسی دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنی ہے۔ یا رسول اللہ ﷺ کے احکام و فرامین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنا ہے۔ ایماندارانہ اور مخلصانہ اختلافات کبھی نجویٰ کے محرّک نہیں ہوسکتے۔ان کی بات چیت کھلم کھلا ہوتی ہے۔ برسرِ عام جماعت کے سامنے ہوتی ہے۔ دلیل کے ساتھ قائل کرنے یا قائل ہونے کے لئے ہوتی ہے اور اس بات چیت سے اگر اختلافات باقی رہ جاتے ہیں تو وہ کبھی موجبِ فساد نہیں ہوتے۔ جماعت سے الگ ہٹ کر اخفاء کے اہتمام کے ساتھ سرگوشیاں کرنے کی ضرورت صرف انہی اختلافات میں پیش آتی ہے جو اگر بالکل نفسانیت پر مبنی نہ بھی ہوں تو کم از کم ان میں نفسانیت کی آمیزش ضرور ہوتی ہے۔ ایسی سرگوشیاں کبھی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں۔ ان کی ابتدا چاہے کتنی ہی معصوم ہو۔ رفتہ رفتہ پوری جماعت کو آپس کی بدگمانیوں، تفرقوں اور دھڑے بندیوں کی چھوت لگا دیتی ہیں۔ باہم پخت و پز کرکے جب چند آدمی ایک جتھے کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں تو پھر دوسرے لوگوں میں بھی ایسی ہی پُخت و پز کرنے اور جتھے بنانے کا رحجان پیدا ہوجاتا ہے اور یہیں سے اس بگاڑ کی ابتداء ہوتی ہے جو بہترین اہلِ خیر جماعتوں کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے باہم دست و گریبان کردیتاہے ۔ آخری مرحلہ وہ ہے کہ یہ بگاڑ عملاً رونما ہوجائے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے نبی ﷺ نے مسلمانوں کو بار بار متنبہ کیا ہے۔ شدّت کے ساتھ ڈرایا ہے اور سختی کے ساتھ بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا کہ شیطان اب اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ عرب میں جو لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں، وہ پھر اس کی عبادت کرنے لگیں گے۔ اب اس کی ساری امیدیں صرف اس کے اندر بگاڑ پیدا کرنے اور ان کو باہم لڑانے ہی سے وابستہ رہ گئی ہیں۔ حتّٰی کہ آپ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ اس طرح کی حالت پیدا ہوجانے کی صورت میں اہلِ ایمان کو جو طریقہ سکھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اوّل تو آدمی خود فتنہ134/149 میں حصہ لینے سے بچے۔ خوش قسمت ہے وہ جو فتنوں سے بچ گیا اور جو جتنا بھی اس سے دور رہے، اتنا ہی زیادہ بہتر ہے۔دوسرے اگر وہ حصہ لے تو لڑنے والوں میں سے ایک فریق بن کر نہیں بلکہ صدقِ دل سے اصلاح کی کوشش کرنے والا بن کر لے، جس کے متعلق صاف صاف ہدایات سورۂ حجرات کے پہلے رکوع میں دی گئی ہیں۔
نفسانیت کی اس حقیقت اور اس کے نشو نما اور ظہور کے ان مراتب اور ہر مرتبے کے متعلق شریعت ِ الٰہی کے ان احکام کو ذہن نشین کرلینا ان تمام لوگوں کے لئے ضروری ہے جو خیر و صلاح کی خدمت کرنے کے لئے مجتمع ہوں ان میں سے ہر ایک شخص کو پوری کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو خود پسندی کے مرض سے بچائے اور ان اخلاقی و روحانی نقصانات کو سمجھے جو اس مرض میں مبتلا ہونے سے پہنچتے ہیں۔ ان کی جماعت کو بھی بحیثیت ِ مجموعی اس معاملے میں چوکنّا رہنا چاہیئے کہ کہیں اس کے اندر نفسانیت کے جراثیم کوانڈے بچے دینے کا موقع نا مل جائے۔ انھیں اپنے دائرےمیں کسی ایسے شخص کی ہمت افزائی نہ کرنی چاہیئے جو اپنے اندر تنقید سن کر بپھر جائے، اپنی غلطی کا اعتراف کرنے سے استکبار برتے۔ انھیں ہر اس شخص کو دبانا چاہیئے جس کی باتوں سے بغض و عداوت کی بُو آئے یا جس کا طرزِ عمل یہ بتارہا ہو کہ وہ کسی شخص سے ذاتی کدورت رکھتا ہے، انھیں ایسے لوگوں کی بھی خبر لینی چاہیئے جو دوسروں کے معاملے میں بدگمانی سے کام لیں یا دوسروں کے حالات کی ٹوہ لگا کر ان کے عیوب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ انھیں اپنی سوسائٹی میں غیبت اور نّمامی کا بھی سدّباب کرنا چاہیے۔ اور جہاں کہیں یہ بلا اپنا سر نکالے، وہاں فوراً وہ سیدھا سیدھا اسلامی رویہ اختیار کرنا چاہیئے جس کی تشریح اوپر کی جاچکی ہے۔ انھیں خصوصیت کے ساتھ نجویٰ کے خطرات سے ہوشیار رہنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ جماعت میں تفرقے کی تمہید ہے۔ کسی مخلص آدمی کو اس بات کے لئے ہرگز راضی نہ ہونا چاہیئے کہ کوئی شخص سرگوشی کرکے کسی اختلافی مسئلے میں اسے اپنا بنائے اور جس وقت بھی اس امر کی ابتدائی علامات ظاہر ہوں کہ کچھ لوگ جماعت میں یہ طریقہ اختیار کررہے ہیں، اسی وقت جماعت کو اُن کی اصلاح یا پھر اُن کی سرکوبی کے لئے تیار ہوجانا چاہیئے۔ ان ساری کوششوں کے باوجود اگر جماعت کے اندر کسی جتھہ بندی کا فتنہ رونما ہوہی جائے تو پھر مخلصین کا کام یہ نہیں ہے کہ خود بھی کونوں اور گوشوں میں خفیہ سرگوشیاں کرکے کوئی دوسرا جتھا بنانے کے لئے سازباز شروع کردیں، بلکہ انھیں اس فتنہ سے اپنا دامن بچا کر اس کو روکنے کے لئے انفرادی تدبیریں کرنی چاہیئں۔ اور ان میں ناکام ہونے کے بعد جماعت کے سامنے کھلم کھلا اس معاملے کو لے آنا چاہیئے۔ جس جماعت میں مخلص افراد کی کثرت ہوگی، وہ اس طرح کے فتنوں سے خبردار ہوکر فوراً ہی ان کا استیصال کردے گی اور جس میں فتنہ پسند یا بے فکرافراد زیادہ ہوں گے وہ انہی فتنوں کا شکار ہوکر رہ جائے گی۔ 135/149
مزاج کی بے اعتدالی
دوسرا درجہ ان خرابیوں کا ہے جس کے لئے موزوں ترین نام "مزاج کی بے اعتدالی" ہے۔ نفسانیت کے مقابلے میں یہ ایک معصوم نوعیت کی کمزوری ہے کیونکہ اس میں کسی بدنیتی ، کسی برے جذبے، کسی ناپاک خواہش کا دخل نہیں ہوتا ہے لیکن خرابی پیدا کرنے کی قابلیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ نفسانیت کے بعد دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ بسا اوقات اس کے اثرات و نتائج اتنے ہی خراب ہوتے ہیں جتنے نفسانیت کے اثرات و نتائج۔ 136/149
مزاج کی بے اعتدالی کا فطری نتیجہ نظر و فکر کی بے اعتدالی اور عمل و سعی کی
بے اعتدالی ہے اور یہ چیز زندگی کے حقائق سے براہِ راست متصادم ہوتی ہے۔
انسانی زندگی بے شمار متضاد عناصر کی مصالحت اور بہت سے مختلف عوامل کے مجموعی
عمل کا نتیجہ ہے جس دنیا میں انسان رہتا ہے اس کا بھی یہی حال ہے۔انسانی افراد
میں سے ہر ایک فرداً فرداً بھی ایسا ہی بنایا گیا ہے ۔ اور انسانوں کے ملنے سے
جو اجتماعی ہیئت بنتی ہے اس کی کیفیت بھی یہی ہے۔ اس ساری زندگی میں کام کرنے
کے لئے فکر و نظر کا ایسا توازن اور سعی و عمل کا ایسا اعتدال درکار ہے جو
مزاجِ کائنات کے توازن و اعتدال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔ حالات کے
ہر پہلو پر نگاہ رکھی جائے ۔ معاملات کے ہر رخ کو دیکھا جائے۔ ضروریات کے ہر
گوشے کو اس کا حق دیا جائے۔ فطرت کے ہر تقاضے کو ملحوظ رکھا جائے۔ کمال درجے
کا معیاری اعتدال چاہے نصیب نہ ہو مگر یہاں کامیابی کے لئے بہرحال اعتدال
ناگزیر ہے۔ جتنا بھی وہ معیار سے قریب ہوگا، اتنا ہی مفید ہوگا اور جس قدر وہ
ا س سے دور ہوگا اسی قدر زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہوکر نقصان کا موجب بنے
گا۔ دنیا میں آج تک جتنا بھی فساد رونما ہوا ہے اور آج رونما ہے۔ اسی وجہ سے
ہے کہ غیر متوازن دماغوں نے انسانی مسائل یک رخے پن سے دیکھنے اور سمجھنے کی
کوشش کی۔ ان کو حل کرنے کے لئے غیر متوازن اسکیمیں بنائیں۔ اور ان کو نافذ
کرنے کے لئے غیر معتدل طریقے اختیار کئے۔ یہی بگاڑ کا اصل سبب ہے اور بناؤ کا
جو کچھ بھی کام ہو سکتا ہے فکر و نظر کے توازن اور طریقِ عمل کے اعتدال ہی سے
ہوسکتا ہے۔
یہ وصف خاص طور پر تعمیر و اصلاح کی اس اسکیم کو نافذ کرنے کے لئے اور بھی زیادہ ضروری ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے۔ کیونکہ وہ بجائے خود توازن و اعتدال کے انتہائی کمال کا نمونہ ہے۔ اس کو کتابوں کے صفحات سے واقعات کی دنیا میں منتقل کرنے کے لئے تو خصوصیت کے ساتھ وہی کارفرما اور کارکن موزوں ہو سکتے ہیں جن کی نظر اسلام کے نقشۂ تعمیر کی طرح متوازن اور جن کا مزاج اسلام کے مزاجِ اصلاح کی طرح معتدل ہو۔ افراط و تفریط میں مبتلا ہونے والے انتہا پسند لوگ اس کام کو بگاڑ تو سکتے ہیں، بنا نہیں سکتے۔نتائج کے اعتبار سے بے اعتدالی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بالعموم ناکامی کی موجب ہوتی ہے۔ نظامِ زندگی میں اصلاح و تغیر کی کوئی اسکیم بھی لے کر آپ اٹھیں، آپ کی کامیابی137/149 کے لئے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ خود اس کے برحق ہونے پر مطمئن ہوں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے معاشرے کے عام انسانوں کو اس کے صحیح ، مفید اور قابل عمل ہونے پر مطمئن کردیں اور اپنی تحریک کو اس شکل میں لائیں اور ایسے طریقے سے چلائیں جس سے لوگوں کی امیدیں اور رغبتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوتی چلی جائیں۔ یہ بات صرف اسی تحریک کو نصیب ہوسکتی ہے جو فکر و نظر میں متوازن ہو اور طریقِ عمل میں بھی متوازن ایک انتہا پسندانہ اسکیم جو انتہا پسندانہ طریقوں سے چلائی جائے۔ عام انسانوں میں اپنے لئے رغبت اور امید پیدا کرنے کے بجائے معترض اور غیر مطمئن بناتی ہے اور اس کی یہ صفت خود ہی اس کی قوتِ تبلیغ اور قوتِ نفوذ کو ضائع کردیتی ہے۔ اس کو بنانے اور چلانے کے لئے کچھ انتہا پسند لوگ اکٹھے ہو بھی جائیں تو سارے معاشرے کو اپنے جیسا انتہا پسند بنالینا اور دنیا بھر کی آنکھیں حقائق سے بند کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
خود اس جماعت کے لئے بھی یہ چیز زہر کا حکم رکھتی ہےجو اجتماعی اصلاح و تعمیر
کا کوئی پروگرام لے کر اٹھی ہو۔
مزاج کی بے اعتدالی کا اولین مظہر انسان کے ذہن کا ایک رخا پن ہے۔ اس کیفیت
میں مبتلا ہوکر آدمی بالعموم ہر چیز کا ایک رخ دیکھتا ہے۔ دوسرا رخ نہیں
دیکھتا۔ ہر معاملے میں ایک پہلو کا لحاظ کرتا ہے دوسرے کسی پہلو کا لحاظ نہیں
کرتا۔ ایک سمت جس میں اس کا ذہن ایک دفعہ چل پڑتا ہے اسی کی طرف وہ بڑھتا چلا
جاتا ہے۔دوسری سمتوں کی جانب توجّہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اس سے معاملات
کو سمجھنے میں مسلسل ایک خاص طرح کا عدمِ توازن کا ظہور ہوتا ہے۔ رائے قائم
کرنے میں بھی وہ ایک ہی طرف جھکتا چلا جاتا ہے۔ جس چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے،
بس اسی کو پکڑ بیٹھتا ہے۔ دوسری ویسی ہی اہم چیزیں بلکہ اس سے بھی اہم چیزیں
اس کے نزدیک غیر وقیع ہوجاتی ہیں۔ جس چیز کو برا سمجھ لیتا ہے، اسی کے پیچھے
پڑجاتا ہے، دوسری ویسی ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑی برائیاں اس کے نزدیک قابلِ
توجّہ نہیں ہوتیں۔ اصولیت اختیار کرتا ہے تو جمود کی حد تک اصول پرستی میں
شدّت دکھانے لگتا ہے۔ کام کے عملی تقاضوں کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ عملیت کی
طرف جھکتا ہے تو بے اصولی کی حد تک عملی بن جاتا ہے اور کامیابی کو مقصود
بالذات بناکر اس کے لئے ہر قسم کے ذرائع و وسائل استعمال کرڈالنا چاہتا ہے۔
یہ کیفیت اگر اس حد پر نہ رک جائے تو آگے بڑھ کر یہ سخت انتہا پسندی کی شکل
اختیار کرلیتی ہے، پھر آدمی اپنی رائے پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنے لگتا ہے۔
اختلاف رائے میں شدّت برتنے لگتا ہے۔ دوسروں کے نقظۂ نظر کو انصاف کے ساتھ نہ
دیکھتا ہے اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بلکہ ہر مخالف رائے کو بدتر سے بدتر
معانی پہنا کر ٹھکرانا اور ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ چیز روز بروز اسے دوسروں کے
لئے اور دوسروں کو اس کے لئے ناقابلِ برداشت بناتی چلی جاتی ہے۔
اس مقام پر بھی بے اعتدالی رک جائے تو خیریت ہے۔ لیکن اگر اسے خوبی سمجھ کر مزید پرورش کیا جائے تو پھر معاملہ بدمزاجی اور چڑچڑے پن اور تیز زبانی اور دوسروں کی نیتوں پر شک اور حملوں تک پہنچ جاتا ہے جو کسی اجتماعی زندگی میں نبھنے والی چیز نہیں ہے۔ 138/149
ایک آدمی یہ روش اختیار کرے تو زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوگا کہ وہ اکیلا جماعت
سے کٹ جائے گا اور اس مقصد کی خدمت سے محروم ہوجائے گا جس کی خاطر وہ جماعت سے
وابستہ ہوا تھا اس سے کوئی اجتماعی نقصان نہ ہوگا ۔ مگر جب کسی اجتماعی ہیئت
میں بہت سے غیر متوازن ذہن اور غیر معتدل مزاج جمع ہوجائیں تو پھر ایک ایک قسم
کا عدم توازن ایک ایک ٹولی کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ایک انتہا کے جواب میں
دوسری انتہا پیدا ہوتی ہے۔ اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے ہیں۔ پھوٹ پڑتی
ہے، دھڑے بندی ہوتی ہے۔ اور کش مکش میں وہ کام خراب ہوکر رہتا ہے۔ جسے بنانے
کے لئے بڑی نیک نیتی کے ساتھ کچھ لوگ جمع ہوئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کام انفرادی کوششوں سے کرنے کے نہیں ہوتے بلکہ جن کی نوعیت
ہی اجتماعی ہوتی ہے۔ انھیں انجام دینے کے لئے بہرحال بہت سے لوگوں کو ساتھ مل
کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہر ایک کو اپنی بات سمجھانی اور دوسروں کی بات سمجھنی
ہوتی ہے ۔ طبیعتوں کا اختلاف ، قابلیتوں کا اختلاف، ذاتی خصوصیات کا اختلاف
اپنی جگہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود سب کو آپس میں موافقت کا ایک تعلق پیدا کرنا
ہوتا ہے جس کے بغیر کوئی تعاون ممکن نہیں ہوتا۔ اس موافقت کے لئے کسر و انکسار
ناگزیر ہے اور یہ کسر و انکسار صرف معتدل مزاج کے لوگوں ہی میں ہوسکتا ہے۔ جن
کے خیالات بھی متوازن ہوں اور طبیعتیں بھی۔ متوازن غیر متوازن لوگ جمع بھی
ہوجائیں تو زیادہ دیر تک جمع نہیں رہ سکتے۔ان کی جمعیت پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے
ہوجائے گی۔ اور جن ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر ایک ایک قسم کے عدم توازن کے مریض
جمع ہوں گے ان میں پھر تفرقہ رونما ہوگا۔ یہاں تک کہ آخر کار ایک ایک امام
مقتدیوں کے بغیر ہی کھڑا نظر آئے گا۔
جن لوگوں کو اسلام کے لئے کام کرنا اور جنھیں جمع کرنے والی چیز اسلامی اصول پر نظامِ زندگی کی اصلاح و تعمیر کرنے کا جذبہ ہو، ولولہ ہو، انھیں اپنا محاسبہ کرکے اس بے اعتدالی کی ہر شکل سے خود بھی بچنا چاہیئے اور ان کی جماعت کو بھی یہ فکر ہونی چاہیئے کہ اس کے دائرے میں یہ مرض نشونما نہ پائے۔ اس باب میں کتاب اللہ اور سُنّتِ رسول اللہ کی وہ ہدایات ان کے پیش نظر رہنی چاہیئں جو انتہا پسندی اور شدّت سے منع کرتی ہیں۔ قرآن جس چیز کو اہلِ کتاب کی بنیادی غلطی قرار دیتا ہے وہ غلو فی الدین ہے۔يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ اے اہل کتاب ،اپنے دین میں غلو نہ کرو) اور اس سے139/149 بچنے کی تاکید نبی ﷺ اپنے متبعین کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں: ایاکم والغلوّ فانما ھلک من کان قبلکم بالغلوّ فی الدّین خبردار انتہا پسندی میں نہ پڑنا کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں انتہا پسندی اختیار کرکے ہی تباہ ہوئے ہیں۔
ابن مسعود کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ایک تقریر میں تین بار فرمایا : ھلک
المتنطّعون۔ برباد ہوگئے شدّت اختیار کرنے والے مبالغے اور تعمق سے کام لینے
والے۔دعوتِ محمدی کا امتیازی وصف اس کے لانے والے نے یہ بتایا ہے کہ :بعثت
بالحنیفیۃ السمیحۃ یعنی آپ پچھلی امتوں کے افرط و تفریط کے درمیان وہ حنیفیت
لےکر آئے ہیں جس میں وسعت اور معاملاتِ زندگی ہر پہلو کی رعایت ہے۔ اس دعوت کے
علمبرداروں کو جس طریقے پر کام کرنا چاہیئے وہ اس کے داعئ اول نے یہ سکھایا
ہے: يسِّروا ولا تعسِّروا، وبشِّروا ولا تنفِّروا سہولت دو، تنگ نہ کرو، بشارت دو، نفرت نہ دلاؤ۔
إنما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرين تم سہولت دینے کے لئے بھیجے گئے ہو ۔ تنگ
کرنے کے لئے نہیں بھیجے گئے۔
ما خير
رسول
الله
صلى
الله
عليه وسلم بين
أمرين
إلا أخذ
أيسرهما
ما لم يكن
إثما
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہﷺ نے دو معاملوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا
موقع دیا گیا ہو اور آپ ﷺ نے ان میں سے آسان ترین کو اختیار نہ کیا ہو، الا یہ
کہ وہ گناہ ہو۔
’
ان اللہ رفیق یحب الرفق فی الامر کلہ
(بخاری مسلم)
اللہ نرم خو ہے ۔ ہر معاملے میں نرم رویے کو پسند کرتا ہے
من یحرم الرفق یحرم الخیر کلہ (مسلم) جو نرم خوئی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے
بالکل محروم ہوگیا۔
ان اللہ رفیق یحب الرفق و یعطی عل الرفق مالا یعطی علی العنف وما لا یعطی علی
ماسواہ (مسلم) اللہ نرم خو ہے اور نرم خو آدمی کو پسند کرتا ہے، وہ نرمی پر وہ
کچھ عطا کرتا ہے جو شدت پر اور کسی دوسرے رویّے پر عطا نہیں کرتا۔
ان جامع ہدایات کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ اسلامی نظامِ زندگی کے لئے کام کرنے
والے لوگ اگر قرآن و سنت سے اپنے مطلب کی چیزیں چھانٹنے کے بجائے اپنے مزاج
اور نقطۂ نظر کو ان کے مطابق ڈھالنے کی عادت ڈالیں تو ان کے اندر آپ سے آپ وہ
توازن اور توسط و اعتدال پیدا ہوتا چلا جائے گا جو دنیا کے حالات و معاملات کو
قرآن و سنت کے دئے ہوئے نقشے پر درست کرنے کے لئے درکار ہے۔
تنگ دلی
بے اعتدالی مزاج سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری بھی انسان میں ہوتی ہے جسے تنگ دلی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جسے قرآن میں "شح نفس" سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ فلاح اس شخص کے لئے ہے جو بچ گیا۔ (وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ) اور جسے قرآن تقویٰ اور احسان کے برعکس ایک غلط میلان قرار دیتا ہے۔ۭوَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ۭوَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ١٢٨ النسآء 128 140/149
نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں ، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ
اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے اس طرزِ عمل سے بے خبر نہ
ہوگا
اس مرض میں جو مبتلا ہو، وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لئےکم ہی
گنجائش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر
آتی ہے اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لئے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ
بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لئے وہ ہر رعایت چاہتا ہے مگر دوسروں کے ساتھ کوئی
رعایت نہیں کرسکتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں اور دوسروں کی
خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابل ِ معافی ہوتے ہیں،
مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کرسکتا، اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات
سمجھتا ہے۔ مگر دوسروں کی مشکلات اس کی رائے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی
کمزوریوں کے لئے جو الاؤنس وہ خود چاہتا ہے دوسروں کو وہ الاؤنس دینے کے لئے
تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پروا کئے بغیر وہ ان سے انتہائی
مطالبات کرتا ہے ، جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے ۔ اپنی
پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر دوسروں کی پسند
اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ چیز ترقی کرتی ہے تو آگے چل
کر خوردہ گیری و عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں
پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے اور پھر جوابی عیب چینی پر بلبلا اٹھتا ہے۔
اسی تنگ دلی کی ایک شکل ذود رنجی، نک چڑھا پن اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا
ہے، جو اجتماعی زندگی میں اس شخص کے لئے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو اور
ان لوگوں کے لئے بھی مصیبت ہے جنھیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔
کسی جماعت کے اندر اس بیماری کا گھس آنا حقیقت میں ایک خطرے کی علامت ہے، اجتماعی جدوجہد بہرحال آپس کی الفت اور باہمی تعاون چاہتی ہے جس کے بغیر چار آدمی بھی مل کر کام نہیں کرسکتے۔ مگر یہ تنگ دلی اس کے امکانات کو141/149 کم ہی نہیں بسا اوقات ختم کردیتی ہے۔اس کا لازمی نتیجہ تعلقات کی تلخی اور باہمی منافرت ہے۔ یہ دلوں کو پھاڑ دینے والی اور ساتھیوں کو آپس میں الجھادینے والی چیز ہے۔اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوں وہ عام معاشرتی زندگی کے لئے بھی موزوں نہیں ہوسکتے، کجا کہ کسی مقصدِ عظیم کی خدمت کے لئے موزوں قرار پاسکیں۔ خصوصیت کے ساتھ یہ صفت ان صفات کے بالکل ہی برعکس ہے جو اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لئے مطلوب ہیں۔ وہ تنگ دلی کے بجائے فراخ دلی، بخل کے بجائے فیاضی، گرفت کے بجائے عفو و درگزر اور سخت گیری کے بجائے مراعات چاہتا ہے۔ اس کے لئے حلیم اور متحمل لوگ درکار ہیں۔ اس کا بیڑا وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو بڑا ظرف رکھتے ہوں، جن کی سختی اپنے لئے اور نرمی دوسروں کے لئے ہو، جو خود کم سے کم الاؤنس چاہیں اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ الاؤنس دیں۔ جو اپنے عیوب اور دوسروں کی خوبیوں پر نگاہ رکھیں۔ جو تکلیف دینے کے بجائے تکلیف سہنے کے خوگر ہوں اور چلتوں کو گرانے کے بجائے گرتوں کو تھامنے کا بل بوتا رکھتے ہوں۔ جو جماعت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگی، وہ نہ صرف خود آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑی رہے گی بلکہ اپنے گردوپیش معاشرے میں بھی بکھرے ہوئے اجزا کو سمیٹتی اور اپنےساتھ جوڑتی چلی جائے گی۔اس کے برعکس تنگ دل اور کم ظرف لوگوں کا مجمع خود بھی بکھرے گا اور باہر بھی جس سے اس کو سابقہ پیش آئے گا، اسے نفرت دلا کر اپنے سے دور بھگادیگا۔
ضعفِ ارادہ
انسانوں میں ایک کمزوری بکثرت پائی جاتی ہے جسے ہم ضعف ارادہ کا نام دے سکتے
ہیں ۔
اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک تحریک کی دعوت سن کر اسے صدق دل سے لبیک کہتا
ہے اور اوّل اوّل خاصا جوش بھی دکھاتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی دلچسپی
کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے نہ اس مقصد سے کوئی حقیقی لگاؤ باقی رہتا
ہے، جس کی خدمت کے لئے وہ آگے بڑھا تھا اور نہ اس جماعت کے ساتھ کوئی عملی
وابستگی باقی رہتی ہے جس میں وہ دلی رغبت کے ساتھ شامل ہوا تھا۔ اس کا دماغ
بدستور ان دلائل پر مطمئن رہتا ہے جن کی بناء پر اس تحریک کو اس نے برحق مانا
تھا۔ اس کی زبان بدستور اس کے برحق ہونے کا اقرار کرتی رہتی ہے۔ اس کے دل کی
شہادت بھی یہی رہتی ہے کہ یہ کام کرنے کا ہے اور ضرور ہونا چاہیئے۔ لیکن اس کے
جذبات سرد پڑجاتے ہیں اور قوّائے عمل کی حرکت سست ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اس میں
کسی بدنیتی کا ذرہ برابر دخل نہیں ہوتا، مقصد سےانحراف بھی نہیں ہوتا۔ نظریے
کی تبدیلی بھی قطعاً واقع نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے آدمی جماعت کو چھوڑنے کا خیال
نہیں کرتا، مگر بس وہ ارادے کی کمزوری ہوتی ہے جو ابتدائی جوش ٹھنڈا ہوجانے کے
بعد مختلف شکلوں میں اپنے کرشمے دکھانے شروع کردیتی ہے۔
ضعف ارادہ کا ابتدائی ظہور کام چوری کی صورت میں ہوتا ہے۔ آدمی ذمہ داریاں قبول کرنے سے جی چرانے لگتا ہے۔ مقصد کی راہ میں وقت، محنت اور خرچ کرنے سے گریز کرنے لگتا ہے۔ دنیا کے ہر دوسرے کام کو اس کام پر ترجیح دینے لگتا ہےجسے وہ زندگی کا نصب العین قرار دے کر آیا تھا۔ اس کے اوقات میں اس کی محنتوں میں، اس کے مال میں، اس کے نام نہاد مقصدِ حیات کا حصّہ کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے اور جس جماعت کو وہ برحق جماعت مان کر اس سے وابستہ ہوا تھا۔ اس کے ساتھ بھی وہ صرف نظم اور ضابطے کا تعلق باقی رکھتا ہے ۔ اس کے بھلے اور برے سے کوئی غرض نہیں رکھتا، نہ اس کے معاملات میں کسی قسم کی دلچسپی لیتا ہے۔ 142/149
یہ حالت کچھ اس طرح بتدریج طاری ہوتی ہے ۔ جیسے جوانی یا پڑھاپا آتا ہے مگر
آدمی اپنی اس کیفیت پر نہ خود متنبہ ہو اور نہ کوئی اسے متنبہ کرے ، تو کسی
وقت بھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ جس چیز کو میں اپنا مقصدِ زندگی
قرار دے کر جان و مال کی بازی لگانے کے لئے اٹھا تھا۔ اس کےساتھ اب یہ معاملہ
کرنے لگا ہوں۔ یوں محض غفلت اور بے خبری کے عالم میں آدمی کی دلچسپی ووابستگی
بے جان ہوتی چلی جاتی ہے۔ جس سے کہ کسی روز بے خبری ہی میں اس کی طبعی موت
واقع ہوجاتی ہے۔
جماعتی زندگی میں اگر پہلے آدمی کے اندر اس کیفیت کے ظہور کا نوٹس نہ لیا جائے
اور اس کے نشو نما کو روکنے کی فکر نہ کی جائے تو ایک ضعیف الارادہ شخص کی
چھوت دوسرے تمام ان لوگوں کو لگنی شروع ہوجاتی ہے جن کے اندر ضعف ارادہ پیدا
ہو رہا ہو۔ اونگھتے کو ٹھیلتے کابہانہ مل جاتا ہے۔اچھے خاصے آدمی دوسروں کو
کام نہ کرتے دیکھ کر خود بھی کام چھوڑبیٹھتے ہیں، اور کوئی اللہ کا بندہ یہ
نہیں سوچتا کہ میں کسی اور کے نہیں ، خود اپنے مقصدِ حیات کی خدمت کے لئے آیا
تھا۔ اگر دوسرے اپنا مقصد حیات چھوڑ چکے ہیں تومیں اپنے مقصد سے کیوں دستبردار
ہوجاؤں۔ ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہوتی ہے جو صرف اس لئے جنت کے راستے پر
چلنا چھوڑدے کہ دوسرے ساتھیوں نے چھوڑدیا ہے۔ گویا جنت اس کی اپنی منزلِ مقصود
نہ تھی یا وہ اس شرط کے ساتھ جانا چاہتا تھا کہ دوسرے بھی وہاں جائیں اور شاید
دوسروں کے ساتھ وہ جہنّم جانے کا ارادہ بھی کرے، اگر انھیں اس طرف جاتے دیکھے،
کیونکہ اس کا اپنا مقصد کوئی نہیں ہے۔ جو کچھ دوسروں کا مقصد ہے وہی اس کا بھی
ہے۔ اس ذہنی کیفیت میں مبتلا ہوجانے والے لوگ ہمیشہ کام نہ کرنے والوں کومثال
بناتے ہیں، کام کرنے والوں میں انھیں کوئی قابلِ تقلید مثال نہیں ملتی۔
تاہم بسا غنیمت ہے کہ کوئی شخص بس سیدھے سادھے طریقے پر ضعفِ ارادہ کی بناء پر سست پڑجائے اور سست ہی پڑ کر رہ143/149 جائے لیکن انسانی فطرت جب ایک دفعہ کمزوری میں مبتلا ہوجاتی ہے تو دوسری کمزوریاں بھی ابھرنے لگتی ہیں اور کم ہی لوگ اس پر قادر ہوتے ہیں کہ اپنی ایک کمزوری کی مدد پر دوسری کمزوریوں کو نہ آنے دیں۔ بالعموم آدمی کو اس میں شرم محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک کمزور انسان کی حیثت سے ظاہر کرے یا اسے برداشت کرلے جائے کہ لوگ اسےکمزور سمجھیں، وہ سیدھی طرح اس کا اعتراف نہیں کرتا کہ ضعفِ ارادہ نے اس کوسست کردیا ہے۔ اس کے بجائے وہ اس پر پردہ ڈالنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے جن میں سے ہر طریقہ دوسرے سے بدتر ہوتا ہے۔
مثلاً وہ کام نہ کرنے کے لئے طرح طرح کے بہانے کرتا ہے اور آئے دن کوئی نہ
کوئی عذر لنگ پیش کرکے ساتھیوں کو یہ فریب دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے کام
نہ کرنے کا اصل سبب مقصد سے لگاؤ اور دلچسپی میں کمی نہیں ہے بلکہ واقعی
رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہیں۔ یہ گویا سستی کی مدد پر جھوٹ کو بلانا ہے اور
یہاں سے آدمی کا اخلاقی تنزل شروع ہوتا ہے جس نے اوّل اوّل صرف ترقی کی
بلندیوں پر چڑھنا چھوڑدیا تھا۔
یہ حیلہ جب پرانا ہو کر بیکار ثابت ہونے لگتا ہے اور آدمی کو خطرہ ہوتا ہے کہ
اب اصل کمزوری کا راز فاش ہوا چاہتا ہے تو وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ
وہ دراصل کمزوری کی وجہ سے سست نہیں ہوا ہے بلکہ جماعت کی کچھ خرابیوں نے اسے
بددل کردیا ہے۔ گویا آپ خود تو بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر کیا کریں، ساتھیوں
کے بگاڑنے دل توڑکررکھ دیا۔ اس طرح یہ گرتا ہوا انسان جب ایک قدم نہیں جماسکتا
تو اور زیادہ نیچے اترجاتا ہے۔ اور اپنی کمزوری کو چھپانے کی خواہش اسے یہ
مظلمہ اپنی گردن پر لینے کے لئے آمادہ کردیتی ہے کہ جس کام کو بنانے کے قابل
وہ نہ رہا تھا اسے اب بگاڑنے کی کوشش شروع کردے۔
ابتدائی مرحلے میں یہ بددلی کا معاملہ مجمل رہتا ہے ، کچھ پتہ نہیں چلتا کہ حضرت کیوں بددل ہیں، خرابیوں کی مبہم شکایتیں دبی زبان سے ظاہر ہوتی ہیں، مگر ان کی کوئی تفصیل معلوم نہیں ہوتی۔ ساتھی اگر حکمت سے کام لیں اور اصل مرض کو سمجھ کراس کا مداوا کرنے کی فکر کریں تو یہ گرتا ہوا شخص مزید گرنے سے رک بھی سکتا ہے۔ اور اوپر بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ لیکن اکثر نادان دوست کچھ بے جا جوش کی وجہ سے اور کچھ اپنے جذبۂ استعجاب کی خاطر کھوج کرید شروع کردیتے ہیں اور اسے اجمال کی تفصیل بیان کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی بددلی کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے ہر طرف نظر دوڑاتا ہے، مختلف افراد کی انفرادی کمزوریاں چُن چُن کر جمع کرتا ہے۔ جماعت کے نظام اور اس کے کام میں نقائص ڈھونڈتا ہے۔ اور ایک فہرست بناکر سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہیں وہ خرابیاں جنھیں دیکھ دیکھ کر آخر کار یہ خاکسار بددل ہوگیا ہے۔ یعنی اس کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ مجھ جیسا مردِ کامل جو سب کمزوریوں سے پاک تھا، ان144/149 کمزور ساتھیوں اور ان نقائص سے لبریز جماعت کے ساتھ کس طرح آگے چل سکتا ہے اور یہ طرزِ اتدلال اختیار کرتے وقت شیطان اسے یہ بات بھلا دیتا ہے کہ اگر واقعی معاملہ یہ تھا تو سست پڑنے کے بجائے یہ اور زیادہ سرگرم ہونے کا متقاضی تھا۔جس کام کوآپ اپنی زندگی کا نصب العین ٹھہرا کر انجام دینے کے لئے اٹھے تھے، اسے اگر دوسرے اپنی خامیوں سے بگاڑرہے تھے، تو آپ اور زیادہ جوش وخروش کے ساتھ اسے بنانے میں لگ جاتے اور اپنی خوبیوں سے دوسروں کی ان خامیوں کا تدارک فرماتے۔ آپ کے گھر میں آگ لگی ہو اور گھر کے دوسرے افراد اسے بجھانے میں کوتاہی برتیں تو آپ بددل ہوکر بیٹھ جائیں گے یا جلتے ہوئے گھر کو بچانے کے لئے ان کوتاہ دستوں سے بڑھ کر چابک دستی دکھائیں گے۔ اس معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے اور اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش میں خود اپنے نامۂ اعمال کا سارا حساب دوسروں کے نامۂ اعمال میں درج کرڈالتاہے۔ اور بھول جاتا ہے کہ نامہ ہائے اعمال کا ریکارڈ ایسا بھی ہے جس میں کسی کی مکاّری سے ایک شوشہ بھی نہیں بدل سکتا۔ وہ دوسروں کے نامۂ اعمال میں بہت سی کمزوریاں گنواتا ہے جن میں وہ خود مبتلا ہوتا ہے۔ وہ جماعت کے کردار میں بہت سی ان خرابیوں کی نشان دہی کرتا ہے جن کے پیدا کرنے میں اس کا اپنا حصّہ دوسروں سے کم نہیں، کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ وہ ان کاموں پر سراپا شکایت بنا ہوا نظر آتا ہے جو اس کے اپنے کئے ہوئے ہوتے ہیں، اور جب وہ کہتا ہے کہ یہ کچھ دیکھ کر اس کا دل ٹوٹ گیا ہے تو اس کے معنی صاف یہ ہوتے ہیں کہ ان سب چیزوں سے وہ خود بری الذّمہ ہے۔
کوئی انسانی جماعت کمزوریوں سے خالی نہیں ہوتی، نہ کوئی انسانی کام نقائص سے
پاک ہوتا ہے۔ دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہوسکتا ہے کہ انسانی
معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لئے فرشتے فراہم ہوں اور سارا کام معیار ِ کمال کے
مطابق کریں ۔ کمزوریاں ڈھونڈئے تو کہاں نہ مل جائیں گی ، نقائص تلاش کیجئے تو
کس جگہ وہ نہ پائے جائیں گے۔ انسانی کام کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ ہی ہوا
کرتے ہیں اور معیارِ کمال تک پہنچنے کی ساری کوششوں کے باوجود کسی ایسی حالت
پر پہنچنے کی کم از کم اس دنیا میں امید نہیں کی جاسکتی جہاں انسان اور اس کا
کام سبوح و قدوس ہوجائے۔
اس حالت میں اگر کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی اگر اس غرض کے لئےہو کہ انھیں رفع کرنے اور معیار کمال کی طرف بڑھنے کے لئے مزید جدوجہد کی جائے تو اس سے زیادہ مبارک کام کوئی نہیں، انسانی کاموں میں جو اصلاح و و ترقی بھی ممکن ہے ، اسی طریقے سے ممکن ہے اور اس سے غفلت تباہ کن ہے، لیکن اگر انفرادی کمزوریاں اور اجتماعی خامیاں اس لئے تلاش کی جائیں کہ انھیں کام نہ کرنے اور بددل ہوکر بیٹھ جانےکے لئے بہانہ بنانا ہو تو یہ خالص شیطانی وسوسہ اور نفسِ امّارہ کا مکر ہے۔ یہ بہانہ بہتر سے بہتر ممکن حالات میں بھی ہر حیلہ جو انسان کو مل سکتا ہے اور اس بہانے کا سدّباب اس وقت تک نہیں ہوسکتا،جب تک فرشتوں کی کوئی ٹولی انسانی جماعتوں کی جگہ لینے کے لئے نہ آجائے اور اس145/149 بہانے کو پیش کرنا کسی ایسے شخص کو زیب نہیں دیتا جو خود کمزوریوں اور خامیوں سے اپنی ذاتِ اقدس کے پاک ہونے کا ثبوت مہیا نہ کردے۔ اس طرح کی باتوں کا حاصل کبھی یہ نہیں ہوتا کہ کوئی کمزوری دور ہو یا کوئی خامی رفع ہوجائے، بلکہ یہ کمزوریوں اور خامیوں کو بڑھانے کا مجرب نسخہ ہے۔ اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص اختیار کرکے اپنے گرد و پیش کے دوسرے تمام ضعیف الارادہ لوگوں کے لئے ایک غلط مثال بن جاتا ہے، وہ ان سب کو یہ راہ دکھادیتا ہے کہ اپنے ضعف کا اعتراف کرکے نکو بننے سےبچیں، اور خود اپنے نفس کو بھی فریب دے کر مطمئن کریں اس کی پیروی میں ہر بے عمل آدمی بددلی کا ڈھونگ رچانے لگتا ہے اور اس بددلی کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے ساتھیوں کی کمزوریاں اور جماعت کی خامیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک فہرست تیار کرنی شروع کردیتا ہے، پھر اس سے بدی کا ایک چکر چل نکلتا ہے، ایک طرف جماعت میں عیب چینی و خوردہ گیری اور الزام و جواب ِ الزام کی ایک وباء پھوٹ پڑتی ہے جو اس کے اخلاقی مزاج کا ستیاناس کردیتی ہے۔ دوسری طرف اچھے خاصے سرگرمِ عمل اور مخلص آدمی جو کسی ضعفِ ارادہ میں مبتلا نہ تھے۔ کمزوریوں اور خامیوں کے اس چرچے سے متاثر ہوکر بددلی کا شکار ہوجاتے ہیں اور جب اس مرض کی روک تھام کے لئے کچھ کیا جاتا ہے تو بددلوں کا ایک بلاک بننے لگتا ہے۔ بددلی ایک مسلک اور تحریک کی شکل اختیار کرتی ہے۔ بددل ہونا، بددل کرنا اور بددلی کے حق میں دلائل فراہم کرنا بجائے خود ایک کام بن جاتا ہے۔اور جو لوگ اصل مقصد کے لئے کام کرنے میں سست ہوچکے تھے، وہ اس کام میں خوب چستی دکھانے لگتے ہیں۔ یوں ان کی مری ہوئی دلچسپی زندہ ہوتی ہے ۔ مگر اس شان کے ساتھ کہ اس کا زندہ ہونا اس کی موت سے زیادہ افسوسناک ہوتا ہے۔
یہ ایک خطرہ ہے جس سے ہر اس جماعت کو خبردار رہنا چاہیئے جو اصلاح و تعمیر کی
سعی کے لئے اٹھے اور اس کے کارکنوں کو ضعفِ ارادہ کے نقصانات اور اس کی بسیط و
مرکب صورتوں کے فرق اور ان میں سے ہر ایک کے اثرات و نتائج سے اچھی طرح واقف
ہونا چاہیئے اور اس کے ابتدائی آثار نمودار ہوتے ہی اصلاح کی فکر کرنی چاہیئے۔
ضعیف ارادہ بسیط یہ ہے کہ جماعت میں کوئی شخص اس کام کو برحق اور اس کا بیڑہ
اٹھانے والی جماعت کو صحیح مانتے ہوئے عملاً سستی اور دلچسپی میں کمی دکھانی
شروع کردے۔ اس صورت کے رونما ہوتے ہی چندتدبیریں اختیار کرنی چاہیئں۔
ایک یہ کہ ایسے شخص کے حالات کی تحقیق کرکے یہ معلوم کیا جائے کہ اس کی سستی کی وجہ آیا ضعفِ ارادہ ہی ہے یا کچھ حقیقی مشکلات ہیں جو اسے سست کررہی ہیں، اگر حقیقی مشکلات پائی جائیں تو جماعت کو ان سے باخبر ہوناچاہیئے تاکہ انھیں رفع کرنے میں ایک رفیق کی مدد بھی کی جائے اور اس کی سستی دوسروں کی نگاہ میں کوئی معنی بھی نہ پہن سکے، نہ کسی کے لئے غلط نظیر بن سکے اور اگر اصل سبب ضعف ارادہ ہی متحقق ہو تو بھونڈے طریقوں سے اجتناب کرتے ہوئے146/149 حکمت کے ساتھ ایسے شخص کے معاملے کو جماعت کے سامنے ان لوگوں کے معاملے سے ممیز ہونا چاہیئے، جو حقیقی مشکلات کی وجہ سے کام میں سرگرم نہ ہوں۔
دوسرے یہ کہ ضعیف الارادہ آدمی کی حالت جس وقت بھی نوٹس میں آئے اس کے ضعف کو
تذکیر و تلقین اور نصیحت کے ذریعے سے دور کرنے کی کوشش کردینی چاہیئے۔ خصوصیت
کے ساتھ جمات کے بہتر آدمیوں کو اس کی طرف توجّہ کرنی چاہیئے کہ اس کے مرتے
ہوئے جذبے کو اکسائیں اور عملاً اسے اپنے ساتھ لگا کر حرکت میں لانے کی سعی
کریں۔
تیسرے یہ کہ ایسے شخص کو ٹوکتے رہنا چاہیئے تاکہ جماعت میں اس طرح کی سستی اور
بے عملی ایک معمولی چیز نہ بن جائے اور دوسرے لوگ ایک دوسرے کا سہارا لے کر
بیٹھتے نہ چلے جائیں اور جماعت کے اندر وقتاً فوقتاً اس امر کا محاسبہ ہوتا
رہے کہ کون وقت اور محنت اور مال کا کتنا ایثار کرسکتا ہے اور کتنا کررہا ہے
اور کس کی کارگزاری اس کی واقعی استعداد سے کیا نسبت رکھتی ہے ۔ تو پھر یہ اس
شخص کے لئے کسی نہ کسی حد تک نجات کا موجب ہوگا جو محاسبہ کی میزان میں ہلکا
اتررہا ہو اور یہ خجالت لوگوں کو سست پڑنے سے روکتی رہے گی لیکن یہ محاسبہ اس
انداز سے نہ ہونا چاہیئے کہ بسیط ضعفِ ارادہ کا مریض مرکبّ ضعفِ ارادہ میں
مبتلا ہوجائے۔ حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ ایک شخص میں جو کمزوری پیدا ہورہی ہے
اسے اگر رفع نہ کیا جاسکے تو کم از کم بڑھنے نہ دیا جائے، نادانی کے ساتھ
ضرورت سے زیادہ جوش دکھانے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ برائی میں پڑا ہوا آدمی اس
سے شدید تر برائی کی طرف زبردستی دھکیل دیا جاتا ہے۔
ضعف ارادہ کا مرکب یہ ہے کہ آدمی اپنی کمزوری پر جھوٹ اور مکر کے پردے ڈالنے
کی کوشش کرے، اور بڑھتے بڑھتے یہ ثابت کرنے کی کوشش پر اتر آئے کہ خرابی اس
میں نہیں ہے بلکہ جماعت میں ہے۔ یہ محض ایک کمزوری نہیں ہے بلکہ ایک بداخلاقی
ہے جسے کسی ایسے جماعت میں پھلنے پھولنے نہ دینا چاہیئے جو اخلاقی بنیادوں ہی
پر دنیا کی اصلاح کرنا چاہتی ہو۔
اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ آدمی کام نہ کرنے کے لئے جھوٹے عذرات اور بے بنیاد بہانے پیش کرے، اس چیز سے چشم پوشی کرنا خود ان شخص سے بھی بے وفائی ہے ، جس میں یہ اخلاقی عیب ابھرتا آرہا ہو اور اس جماعت سے بھی بے وفائی ہے جس کے ساتھ بہت سے لوگوں نے ایک مقصدِ عظیم کی خاطر جان و مال کی بازی لگائی ہو۔ ایسی جماعت میں شریک ہونے والے ہر شخص کے اندر کم از کم اتنی اخلاقی جراءت اور ضمیر کی زندگی ہونا چاہیئے کہ اگر اپنے جذبے کی کمزوری کے147/149 باعث وہ کام نہ کرے تو صاف صاف اپنی کمزوری کا اعتراف کرلے۔ اعترافِ قصور کے ساتھ ایک شخص کا عمر بھر اس کمزوری میں مبتلا رہنا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ وہ ایک مرتبہ بھی اس کو چھپانے کے لئے جھوٹے بہانوں سے مدد لے۔ یہ عیب جب بھی ظاہر ہو اس پر سرزنش کرنے پر وہ اس طریقے سے باز نہ آئے تو علانیہ جماعت میں اسے ملامت کی جائے اور ان عذرا ت کی حقیقت کھول دی جائے۔ جنھیں وہ اپنے لئے حجّت بنارہا ہو، اس میں تساہل برتنے کے معنی یہ ہیں کہ جماعت کے اندر ان خرابیوں کا دروازہ کھول دیا جائے جن کی تفصیل ہم ابھی اوپر بیان کر آئے ہیں۔اس کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ ایک کوتاہ عمل اور سست کار آدمی اپنی اس حالت کے لئے جماعت کے افراد کی کمزوریوں اور جماعت کے کام اور نظام کی خامیوں کو ذمہ دار ٹھرائے اور انھیں اپنی بددلی کا سبب قرار دے۔ یہ درحقیقت خطرے کی سرخ جھنڈی ہے جو اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ اب یہ تیسرے فتنہ پردازی کی طرف مائل ہورہا ہے۔ اس موقع پر اس سے بددلی کے اسباب کی تفصیل پوچھنا غلط ہے۔ یہ سوال اس سے کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اسے اس فتنہ کے راستے پر چلا دیا جائے جس کے سرے پر ابھی وہ پہنچا ہے۔ یہاں اسے عیب چینی اذن کا عام دینے کے بجائے اس کے دوستوں کو اسے خدا سے ڈرانا چاہیئے اور اس کو شرم دلانا چاہیئے کہ خود ایک ناقص کارنامہ اور خام کردار لے کر وہ کس منہ سے دوسروںپر تنقید کی جسارت کررہا ہے۔ محنت کرنے والے ، خدمت میں سرگرمی دکھانے والے وقت اور مال کا ایثار دکھانے والے اگر تیری طرح کوتاہی عمل کو اپنے لئے بددلی کا موجب ٹھہرائیں تو حق بجانب ہوں گے۔ مگر تو کہاں بددلی کا روپ دھارنے چلا ہے، جبکہ بددل کرنے والی خرابیوں کو پیدا کرنے میں تیرا اپنا حصہ دوسروں سے بڑھ کر ہی ہے اور کام خراب کرنے میں تیرا اپنا عمل دوسروں کے لئے نظیر بن رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اپنی تمام کمزوریاں اور خامیاں جماعت کے علم میں ضرور آنی چاہیئں اور جماعت کو بھی کبھی ان کے جاننے سے کترانا اور ان کی اصلاح کی سعی سے منہ نہ موڑنا چاہیئے۔ لیکن انھیں بیان کرنا جماعت کے ان سرگرم خادموں کا کام ہے جو سب سے بڑھ کر خدمت میں جان لڑانےوالے ہوں ۔ وہی اس کا حق رکھتے ہیں اور وہی ایمان داری کے ساتھ تنقید بھی کرسکتے ہیں۔ کسی اخلاقی تحریک میں اس بے حیائی کی ہمت افزائی نہ کی جانی چاہیئے کہ کام چور لوگ جو خدمت میں سست اور کردار میں خام ہوں، وہ لمبی زبان لے کر جماعت کی خامیاں اور کمزوریاں بیان کرنے لگیں۔ ایسی تحریک میں ان کا صحیح مقام شرمندگی و ندامت اور اعتراف قصور کا ہے۔ ناقد اور مصلح کا نہیں ہے۔ اس مقام پر اگر وہ خود آکر کھڑے ہوں تو یہ سخت اخلاقی بیماری کی علامت ہے اور اگر جماعت میں ان کے لئے یہ مقا م تسلیم کیا جائے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ جماعت پر اخلاقی دیوالیہ پن مسلط ہورہا ہے۔
اس سلسلے میں یہ اصولی بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ یہ ایک محرک اور متحرک جماعت کے لئے اس کے تندرست اعضاء کے احساسات کچھ اور معنی رکھتے ہیں اور بیمار احساسات کچھ اور معنی۔ اس کے تندرست اعضاء وہ ہیں جو اپنے کام148/149 کی دھن میں لگے ہوئے ہوں، اپنا تن من دھن سب کچھ انھوں نے اس کام میں لگا دیا ہو اور جن کا نامۂ اعمال یہ بتا رہا ہو کہ وہ اپنی حدِ استطاعت تک خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کررہے ہیں۔ بیمار اعضاء وہ ہیں جنھوں نے کبھی اپنی حدِ وسع کے مطابق خدمت کا حق ادا نہ کیا ہو یا جو کچھ عرصہ تک سرگرم رہنے کے بعد ٹھنڈےپڑچکے ہوں۔اور جن کا نامہ اعمال ان کی کوتاہیوں کا صریح ثبوت دے رہا ہو۔ ان دونوں کے احساسات میں وہی فرق ہے جو تندرست آنکھ اور بیمار آنکھ کی بینائی میں ہوتا ہے۔جماعت اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا اگر صحیح اندازہ کرسکتی ہے تو صرف اپنے تندرست اعضاء کے احساسات کے واسطے سے کرسکتی ہے۔ وہ اعضاء جو کام نہ کررہے ہوں اور کام چھوڑنے کےلئے اپنی بد دلی کا خود اظہار کررہے ہوں ،کبھی اس کا قابلِ اعتماد واسطہ نہیں بن سکتے۔ ان کے احساسات اگر سو فیصد نہیں تو اسّی نوّے فیصد گمراہ کن ہوں گے۔ اور جو جماعت خود کشی نہ کرنا چاہتی ہو، وہ ہر گز ان کے دئے ہوئے احساسات پر اپنے نتائج کی بناء نہیں رکھ سکتی۔ یہ خیال کرنا کہ خامیاں اور کمزوریاں جو بھی سامنے لاکر رکھ دے ، بس گڑ گڑا کر ہمیں ان کے آگے توبہ و استغفار شروع کردینی چاہیئے پھر انہی پر اپنے اندازوں کی بناء رکھ کر یہ فیصلہ بھی کرڈالنا چاہیئے کہ ہم کیا کچھ کرنے کے قابل ہیں اور کیا کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔نیکی ہو تو ہو مگر عقلمندوں کی نہیں ، سادہ لوح اور مغفل لوگوں کی نیکی ہے اور دنیا میں اس طرح کے نیک لوگوں نے نہ پہلے کچھ بنایا ہے اور نہ اب کچھ بنا سکتے ہیں۔ اپنے کمال کے زعم میں مبتلا ہوجانا جتنی بڑی نادانی ہے، اس سے کچھ کم نادانی یہ نہیں کہ اپنے نقائص اور اپنی قوت کار کا اندازہ ہر کس و ناکس کے بیان پر کرڈالا جائے اور یہ نہ دیکھا جائے کہ بیان کرنے والا کس حد تک صحیح صورت حال سمجھنے اور بیان کرنے کا اہل ہے۔
ایک اور بات جو اس مقام پر خوب سمجھ لینے کی ہے ، وہ یہ ہےکہ ایک مقصد کے لئے
کام کرنے والی جماعت کو اپنے سامنے اخلاق اور صلاحیت کار کے دو معیار رکھنے
ہوتے ہیں۔ ایک معیارِ مطلوب، یعنی وہ انتہائی بلند معیار جس تک پہنچنے کی
مسلسل جدوجہد جاری رہنی چاہیئے۔ دوسرا کم سے کم قابلِ عمل ہونے کا معیار جس کو
لے کر کام چلایا جاسکتا ہو اور جس کے نیچے گرجانا قابل برداشت نہ ہو، ان دونوں
قسموں کے معیاروں کے معاملے میں مختلف ذہنوں کے لوگ مختلف طرزِ عمل اختیار
کرتے ہیں۔
ایک ذہن اصل مقصد کے لئے کام کرنے کو چنداں اہمیت نہیں دیتا۔ کام بنے یا بگڑے یا بالکل ختم ہوجائے۔ یہ اس کے لئے کوئی زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہوتا ۔وہ اس کام کو چھوڑ کر بھی مزے سے جی سکتا ہے اور کام میں شریک رہ کر بھی اس طرح شرکت کرسکتا ہے کہ اس کےوقت ، مال اور قوتوں کو جونک نہ لگنے پائے۔ یہ ذہن بسا اوقات فکر و نظر کی عیاشی کے طور پر اور کبھی اپنے فرار کے لئے پر فریب معذرت کے طور پر اخلاق کے آسمانوں پر اڑتا ہے اور معیار مطلوب سے کم پر کسی طرح مطمئن نہیں ہوتا۔ اس سے کم جو کچھ بھی نظر آتا ہے اس پر وہ بڑی بے چینی اور بددلی کا اظہار کرتا ہے149/149 مگر یہ بے چینی کام کے لئے نہیں کام سے فرار کے لئے ہوتی ہے، خواہ یہ فراری ذہنیت شعوری ہو یا غیر شعوری۔
دوسرا ذہن اگرچہ مقصد اور اس کے لئے کام کرنے کو بڑی اہمیت بلکہ پوری اہمیت
دیتا ہے۔ مگر تخیل پرستی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے معیار مطلوب اور کم از کم
قابل عمل ہونے کے معیار کا فرق ٹھیک ٹھیک ملحوظ نہیں رکھتا۔ یہ خود بھی بار
بار الجھن میں پڑتا ہے اور پہلے قسم کے ذہن کی چھوت بڑی آسانی سے اس کو لگ
جاتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو بھی پریشان کرتا ہے۔ اور کام کرنے والوں کے لئے
بھی اچھی خاصی پریشانیوں کا موجب بن جاتا ہے۔
تیسرا ذہن وہ ہوتا ہے جسے مقصد کے لئے کام کرنا اور کام چلانا ہوتا ہے۔ اور
جسے اس کام کے بناؤ اور بگاڑ کی پوری ذمہ داری اپنے اوپر ہونے کااحساس ہوتا
ہے۔ اسے اس کا مقام خود ہی اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہر وقت دونوں قسموں کے
معیاروں کا ٹھیک ٹھیک فرق ملحوظ رکھتے ہوئے کام کرے اور یہ دیکھتا رہے کہ مقصد
کی طرف پیش قدمی کی رفتار کسی معقول اور وزنی سبب کے بغیر متاثر نہ ہو۔ وہ
معیار مطلوب کو کبھی فراموش نہیں کرتا ۔ اس تک پہنچنے کی فکر سے کبھی غافل
نہیں ہوتا۔اس سے گری ہوئی ہر چیز پر سخت تشویش محسوس کرتا ہے۔ مگر کم سے کم
قابل عمل معیار سے کام چلاتا رہتا ہے اور اس معیار سے گرجانے والے لوگوں کی
وجہ سے اپنی اسکیم بدلنے کے بجائے انھیں ہٹاکر پھینک دینا زیادہ پسند کرتا ہے۔
اس کے لئے اپنی طاقت کا صحیح اندازہ لگانا اور اس کے مطابق کام کے پھیلاؤ اور
اس کی رفتار میں کمی بیشی کرنا تو بے شک ضروری ہے۔ اس میں وہ غلطی کرجائے تو
اپنے مقصد کو نقصان پہنچادے، لیکن سخت نادان ہوگا وہ شخص جو اس چیز کا اندازہ
لگانے میں پہلی اور دوسری قسم کے ذہنوں سے رہنمائی حاصل کرے، اس کے لئے اگر
مددگار ہو سکتے ہیں تو تیسری قسم کے ذہن ہی ہوسکتے ہیں اور ان کی معرفت اسے
حاصل ہونا چاہیئے۔
[1]
یہ مولانا محتر م کی اس تقریر کا ایک حصّہ ہے جو انہوں نے 21 اپریل
1945ء کو جماعت اسلامی کے کل ہند اجتماع منعقدہ دارالاسلام نزد
پٹھانکوٹ (مشرقی پنجاب) میں کی۔ اور پھر "تحریک اسلامی کی اخلاقی
بنیادیں" کے عنوان سے پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی۔
[2]
خدایا ہماری ساری کوششیں اور ساری دوڑ دھوپ تیری ہی خوشنودی کے لیے
ہے۔
[3]
خدایا ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تیری ہی لیے نماز اور سجدے کرتے
ہیں۔
[4]
اگر تم میں سے بیس صابر آدمی ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے الانفال
آیت 65
[5]
اشارہ ہے جنگ عظیم دوم کی طرف جو اس تقریر کے وطت جاری تھی۔
[6]
یہ مضمون مولان محتر کی اس تقریر کا دوسرا حصہ ہے جس کا عنوان ہے
"دعوت اسلامی اور اس طریقِ کار"۔ اس کا پہلا حصہ ہم کتاب کے پہلے باب
میں نقل کر آئے ہیں۔ اس حصہ کو بھی پڑھتے وقت برّ عظیم ہند کی تقسیم
سے پہلے کے حالات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ (مرتّب)
[7]
ماخوذ از کتاب: "جماعت اسلام کا مقصد، تاریخ اور لائحۂ عمل" طبع اول
یکم نومبر 1951ء۔
[8]
ماخوذ از "مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل کے لیے لائحۂ عمل" یہ وہ
تقریر ہے جو مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے 11 نومبر 1951ء کو جماعت
اسلامی کے اجتماع عام منعقدہ کراچی میں کی تھی (مرتب)
[9]
یہ مولانا مودودی کی اس تقریر کا ایک حصہ ہے جو انہوں نے جماعت اسلامی
کے اجتماع دارالاسلام (متصل پٹھانکوٹ) میں 26 مارچ 1944ء کو فرمائی
تھی۔ اس اجتماع میں پنجاب، سندھ، سرحد، کشمیر و بلوچستان کے ارکانِ
جماعت شریک ہوئے تھے۔ تقریر کے آغاز میں مولانا محترم نے جماعت کی بعض
کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی اور پھر آخر میں وہ کم از کم لازمی صفات
بیان کیں جن کا صالح گروہ کے ہر ہر فرد میں پایا جاناضروری ہے۔ (مرتب)
[10]
یہ حصّہ روداد چہارم سے لیا گیا ہے۔ یہ اس تقریر کے اقتباسات ہیں جو
جماعت کے دوسرے کل ہند اجتماع کے اختتام پر مولانا امین احسن اصلاحی
نے کی تھی یہ اجتماع ہروارہ (الہ آباد) کے مقام پر 5تا 7 اپریل 1946ء
کو منعقد ہوا تھا۔ (مرتب)
[11]
یہ اقتباس مولانا امین احسن اصلاحی کے اس افتتاحی خطاب سے ماخوذ ہو جو
موصوف نے 25 اپریل 1947ء کوجماعت اسلامی کے حلقہ وار اجتماع میں حلقہ
مشرقی ہند کے ایک مقام پٹنہ میں کیا۔ (مرتّب)
[12]
مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے یہ تقریر "ھدایات" کے عنوان سے 13/
نومبر 1951ء کو جماعت کے اجتماعِ عام منعقدہ کراچی کے آخری اجلاس میں
فرمائی (مرتب)
[13]
ٹھیک یہی مضمون ہے ایک حدیث کا جس میں نبی ﷺ فرماتے ہیں:-
من نظر فی دینہ الی من ھو فوقہ فاقتنری بہ ونظر فی دنیاہ الی من ہو
دونہ فحمد اللہ علی ما فضلہ اللہ علیہ ، کتبہ اللہ شاکراً صابراً ومن
نظر فی دینہ الی من ھو دونہ ونظر فی دنیاہ الی من ھو فوقہ تاسف علی
مافاتہ منہ یکتبہ اللہ شاکرا ولا صابرا
ترجمہ:- جس نے اپنے دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھا اور
اس کی پیروی میں آگے بڑھا، اور اپنی دنیا کے معاملے میں اپنے سے کمتر
کو دیکھا اور اللہ کے دیے ہوئے فضل پر اس کا شکر ادا کیا۔ وہ اللہ کے
ہاں شاکر اور صابر لکھا گیا۔ بخلاف اس کے جس نے اپنے دین کے معاملے
میں اپنے کمتر کو اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے اونچے کو دیکھا اور
دنیا پانے میں جو کمی رہ گئی اس پر حسرت و اندوہ میں مبتلا ہوا وہ
اللہ کے ہاں شاکر لکھا گیا نہ صابر۔
[14]
مضامین کا وہ بیش قیمت سلسلہ مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے قلم سے
ترجمان القرآن کے اشارات میں کئی قسطوں میں چھپ چکا ہے۔ یہ مضامین
اسلامی تحریک کے کارکنوں کے لئے ایک سچی اور صحیح تصویر پیش کرتے ہیں
جن میں ہر شخص اپنا چہرہ بآسانی دیکھ سکتا ہے (مرتب)