~توحید رسالت اور آخرت کا عقلی ثبوت
~عقل کا فیصلہ
بڑے بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں کارخانے بجلی کی قوت سے چل رہے ہیں۔ ریلیں اور ٹرام گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ شام کے وقت دفعتاً ہزاروں قمقمے روشن ہوجاتے ہیں۔ گرمی کے زمانے میں گھر گھر میں پنکھے چلتے ہیں۔ مگر ان واقعات سے نہ تو ہمارے اندر حیرت و استعجاب کی کوئی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور نہ ان چیزوں کے روشن یا متحرک ہونے کی علت میں کسی قسم کا اختلاف ہمارے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ ان قمقموں کا تعلق جن تاروں سے ان کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ ان تاروں کا تعلق جس بجلی گھر سے ہے اس کا حال بھی ہم کو معلوم ہے۔ اس بجلی گھر میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے وجود کا بھی ہم کو علم ہے۔ ان کام کرنے والوں پر جو انجنئر نگرانی کررہا ہے اس کو بھی ہم جانتے ہیں۔ ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ انجنئر بجلی بنانے کے کام سے واقف ہے، اس کے پاس بہت سی کلیں ہیں اور ان کلوں کو حرکت دے کر وہ اس قوت کو پیدا کررہا ہے، جس کے جلوے ہم کو قمقموں کی روشنی، پنکھوں کی گردش، ریلوں اور ٹرام گاڑیوں کی سیر ، چکیوں اور کارخانوں کی حرکت میں نظر آتے ہیں۔ پس بجلی کے آثار کو دیکھ کر اس کے اسباب کے متعلق ہمارے درمیان اختلافِ رائے واقع نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اسباب کا پورا سلسلہ ہمارے محسوسات میں داخل ہے، اور ہم اس کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔
فرض کیجیے کہ یہی قمقمے روشن ہرتے، اسی طرح پنکھے گردش کرتے، یونہی ریلیں اور ٹرام گاڑیاں چلتیں، چکّیاں اور مشینیں حرکت کرتیں، مگر وہ تار جن سے بجلی ان میں پہنچتی ہے ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتے، بجلی گھر بھی ہمارے محسوسات کے دائرے سے خارج ہوتا، بجلی گھرمیں کام کرنے والوں کا بھی ہم کو کچھ علم نہ ہوتا اور یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ اس کارخانے کا کوئی انجینیر ہے جو اپنے علم اور اپنی قدرت سے اس کو چلا رہا ہے۔ کیا اس وقت بھی بجلی کے ان آثار کو دیکھ کر ہمارے دل ایسے ہی مطمئن ہوتے؟ کیا اس وقت بھی ہم اسی طرح ان مظاہر کی حلّتوں میں اختلاف نہ کرتے؟ ظاہر ہے کہ آپ اس کا جواب نفی میں دیں گے کیوں؟ اس لیے کہ جب آثار کے اسباب پوشیددہ ہوں اور مظاہر کی علّتیں غیر معلوم ہوں تو دلوں میں حیرت کے ساتھ بے اطمینانی کا پیدا ہونا، دماغوں کا اس رازِ سربستہ کی جستجو میں لگ جانا اور اس راز کے متعلق قیاسات و آرا کا مختلف ہونا ایک فطری بات ہے۔
اب ذرا اسی مفروضے پر سلسلۂ کلام کو آگے بڑھائیے۔ مان لیجیے کہ یہ جو کچھ فرض کیا گیا ہے درحقیقت عالمِ واقعہ میں موجود ہے۔ ہزاروں لاکھوں قمقمے روشن ہیں، لاکھوں پنکھے چل رہے ہیں، گاڑیاں دوڑ رہی ہیں، کارخانے حرکت کررہے ہیں اور ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان میں کون سی قوت کام کررہی ہے اور وہ کہاں سے آتی ہے۔ لوگ ان مظاہر و آثار کو دیکھ کر حیران و ششدر ہیں۔ ہر شخص ان کے اسباب کی جستجو میں عقل کے گھوڑے دوڑارہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ سب چیزیں آپ سے آپ روشن یا متحرک ہیں، ان کے اپنے وجود سے خارج کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جو انھیں روشنی یا حرکت بخشنے والی ہو۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ چیزیں جن مادوں سے بنی ہوئی ہیں انہی کی ترکیب نے ان کے اندر روشنی اور حرکت کی کیفیتیں پیدا کردی ہیں۔ کوئی کہتا ہے اس عالمِ مادّہ سے ماورا چند دیوتا ہیں، جن میں سے کوئی قمقمے روشن کرتا ہے ، کوئی ٹرام اور ریلیں چلاتا ہے، کوئی پنکھوں کو گردش دیتا ہے اور کوئی کارخانوں اور چکیوں کا محرک ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو سوچتے سوچتے تھک گئے ہیں اور آخر میں عاجز ہوکر کہنے لگے ہیں کہ ہماری عقل اس طلسم کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی، ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور جو کچھ ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی نہ ہم تصدیق کرسکتے ہیں اور نہ تکذیب۔
║یہ سب گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں مگر اپنے خیال کی تائید اور دوسرے خیالات کی تکذیب کے لئے ان میں سے کسی کے پاس بھی قیاس اور ظن و تخمین کے سوا کوئی ذریعۂ علم نہیں ہے۔
اس دوران میں کہ یہ اختلاف برپا ہیں، ایک شخص آتا اور کہتا ہے کہ بھائیو! میرے پاس علم کر ایک ایسا ذریعہ ہے ، جو تمھارے پاس نہیں ہے۔ اس ذریعے سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان سب قمقموں ، پنکھوں، گاڑیوں ، کارخانوں اور چکیوں کا تعلق چند مخفی تاروں سے ہے جن کو تم محسوس نہیں کرتے۔ان تاروں میں ایک بہت بڑے بجلی گھر سے وہ قوت آتی ہے، جس کا ظہور روشنی اور حرکت کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس بجلی گھر میں بڑی بڑی عظیم الشان کلیں ہیں، جنہیں بے شمار اشخاص چلا رہے ہیں۔ یہ سب اشخاص ایک بڑے انجنیر کے تابع ہیں، اور وہی انجنیر ہے، جس کے علم اور قدرت نے اس پورے نظام کو قائم کیا ہے۔ اسی کی ہدایت اور نگرانی میں یہ سب کام ہورہے ہیں۔
یہ شخص پوری قوت سے اپنے اس دعوےکو پیش کرتا ہے۔ لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں، سب گروہ مل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں، اسے دیوانہ قرار دیتے ہیں۔ اس کو مارتے ہیں، تکلیفیں دیتے ہیں، گھر سے نکال دیتے ہیں۔ مگر وہ ان سب روحانی اور جسمانی مصیبتوں کے باوجود اپنے دعوے پر قائم رہتا ہے۔ کسی خوف یا لالچ سے اپنے قوم ذرّہ برابر ترمیم نہیں کرتا۔ کسی مصیبت سے اس کے دعوے میں کمزوری نہیں آتی۔ اس کی ہر ہر بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو اپنے قول کی صداقت پر کامل یقین ہے۔
اس کے بعد ایک دوسرا شخص آتا ہے اور وہ بھی بجنسہ یہی قول اسی دعوے کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ پھر تیسرا، چوتھا، پانچواں آتا ہے اور وہی بات کہتا ہے، جو اس کے پیش روؤں نے کہی تھی۔ اس کے بعد آنے والوں کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے، یہاں تک کہ ان کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں سے متجاوز ہوجاتی ہے، اور یہ سب اسی ایک قول کو اسی ایک دعوے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ زمان و مکان اور حالات کے اختلاف کے باوجود ان کے قول میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا سب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے، جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ سب کو دیوانہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہر طریقے سے ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنے قول بازآجائیں۔مکر سب کے سب اپنی بات پر قائم رہتے ہیں اور دنیا کی کوئی قوت ان کو اپنے مقام سے ایک انچ نہیں ہٹا سکتی۔ اس عزم و استقامت کے ساتھ ان لوگوں کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی جھوٹا، چور، خائن، بدکار، ظالم اور حرام خور نہیں ہے۔ ان کے دشمنوں اور مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ ان سب کے اخلاق پاکیزہ ہیں، سیرتیں انتہا درجے کی نیک ہیں اور حسنِ خلق میں یہ اپنے دوسرے ابنائے نوع سے ممتاز ہیں۔ پھر ان کے اندر جنون کا بھی کوئی اثر نہیں پایا جاتا بلکہ اس کے برعکس وہ تہذیبِ اخلاق، تزکیۂ نفس اور دنیوی معاملات کی اصلاح ک لئے ایسی ایسی تعلیمات پیش کرتے اور ایسے ایسے قوانین بناتے ہیں، جن کے مثل بنانا تو درکنار بڑے بڑے علماء و عقلاء کو ان کی باریکیاں سمجھنے میں پوری پوری عمریں صرف کردینی پڑتی ہیں۔
ایک طرف وہ مختلف الخیال مکذّبین ہیں اور دوسری طرف یہ متحدا لخیال مدعی۔ دونوں کا معاملہ عقلِ سلیم کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ جج کی حیثیت سے عقل کا فرض ہے کہ پہلے اپنی پوزیشن کو خوب سمجھ لے، پھر فریقین کی پوزیشن کو سمجھے اور دونوں کا موازنہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے کہ کس کی بات قابلِ ترجیح ہے۔
جج کی اپنی پوزیشن یہ ہے کہ خود اس کے پاس امر واقعی کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ وہ خود حقیقت کا علم نہیں رکھتا۔ اس کےسامنے صرف فریقین کے بیانات ، ان کے دلائل، ان کے ذاتی حالات اور خارجی آثار و قرائن ہیں۔ انھی پر تحقیق کی نظر ڈال کر اسے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کا برحق ہونا اغلب ہے۔ مگر اغلبیت سے بڑھ کر بھی وہ کوئی حکم نہیں لگا سکتا، کیوں کہ مسئلے پر جو کچھ مواد ہے اس کی بنا پر یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہے کہ امر واقعی کیا ہے۔ وہ فریقین میں سے ایک کو ترجیح دے سکتا ہے، لیکن قطعیت اور یقین کے ساتھ کسی کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرسکتا۔
║مکذّبین کی پوزیشن یہ ہے:
1. حقیقت کے متعلق ان کےنظریے مختلف ہیں اور کسی ایک نکتے میں بھی ان کے درمیان اتفاق نہیں ہے، حتّٰی کہ ایک ہی گروہ کے افراد میں بسا اوقات اختلاف پایا گیا ہے۔
2. وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کے پاس علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے، جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ ان میں سے کوئی گروہ اس سے زیادہ کسی چیز کا مدعی نہیں ہے کہ ہمارے قیاسات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وزنی ہیں۔ مگر اپنے قیاست کا قیاسات ہونا سب کو تسلیم ہے۔
3. اپنے قیاسات پر ان کا اعتقاد ، ایمان و یقین اور غیر متزلزل وثوق کی حد تک نہیں پہنچا ہے۔ ان میں تبدیلی رائے کی مثالیں بہ کثرت ملتی ہیں۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ ان میں کا ایک شخص کل تک جس نظریے کو پورے زور کے ساتھ پیش کررہا تھا، آج خود اسی نے اپنے پچھلے نظریے کی تردید کردی اور ایک دوسرا نظریہ پیش کردیا۔ عمر، عقل، علم اور تجربے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اکثر ان کےنظریات بدلتے رہتے ہیں۔
4. مدعیوں کی تکذیب کے لیے ان کے پاس بجز اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ انھوں نے اپنی صداقت کا کوئی یقینی ثبوت نہیں پیش کیا۔ انھوں نے وہ مخفی تار ہم کو نہیں دکھائے، جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ قمقموں اور پنکھوں وغیرہ کا تعلق انھی سے ہے، نہ انھوں نے بجلی کا وجود کا تجربہ اور مشاہدے سے ثابت کیا، نہ بجلی کھر کی ہمیں سیر کرائی، نہ اس کی کلوں اور مشینوں کا معائنہ کرایا، نہ اس کے کارندوں میں سے کسی سے ہماری ملاقات کرائی، نہ کبھی انجنیر سے ہم کو ملایا۔ پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ سب کچھ حقائق ہیں؟
مدعیوں کی پوزیشن یہ ہے:
• وہ سب آپس میں متفق القول ہیں۔ دعوے کے جتنے بنیادی نکات ہیں ان سب میں ان کےدرمیان کامل اتفاق ہے۔
• ان سب کا متفقہ دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے، جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔
• ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم اپنے قیاس یا گمان کی بنا پر ایسا کہتے ہیں بلکہ سب نے بالاتفاق کہا کہ انجنیر سے ہمارے خاص تعلقات ہیں ، اس کےکارندے ہمارے پاس آتے ہیں،اسنے اپنے کارخانے کی سیر بھی ہم کو کرائی ہے، اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم و یقین کی بنا پر کہتے ہیں۔ ظن و تخمین کی بنا پر نہیں کہتے۔
• ان میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے اپنے بیان میں ذرّہ برابر بھی تغیّر و تبدّل کیا ہو ۔ ایک ہی بات ہے، جو ان میں کا ہر شخص دعوے کے آغاز سے زندگی کے آخری سانس تک کہتا رہا ہے۔
• ان کی سیرتیں انتہا درجے کی پاکیزہ ہیں، جھوٹ ، فریب ، مکاری، دغابازی کا کہیں شائبہ نہیں ہے اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جو لوگ زندگی کے تمام معاملات میں سچے اور کھرے ہوں، وہ خاص اسی معاملے میں بالاتفاق کیوں جھوٹ بولیں۔
• اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ دعویٰ پیش کرنے سے ان کے پیش نظر کوئی ذاتی فائدہ تھا۔ برعکس اس کے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر نے اس دعوے کی خاطر سخت مصائب برداشت کیے ہیں، جسمانی تکلیفیں سہیں، قید کیے گیے، مارے اور پیٹے گئے، جلاوطن کیے گئے، بعض قتل کردیے گئے، حتّٰی کہ بعض کو آرے سے چیر ڈالا گیا اور چند کے سوا کسی کو بھی خوش حالی اور فارغ البالی کی زندگی میسر نہ ہوئی۔ لہٰذا کسی ذاتی غرض کا الزام ان پر نہیں لگایا جاسکتا۔ بلکہ ان کا ایسے حالات میں اپنے دعوے پر قائم رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کو اپنی صداقت پر انتہا درجے کا یقین تھا۔ ایسا یقین کہ اپنی جان بچانے کے لیے بھی ان میں سے کوئی اپنے دعوے سے باز نہ آیا۔
║
• ان کے متعلق مجنون یا فاتر العقل ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔زندگی کے تمام معاملات میں وہ سب کے سب غایت درجے کے دانش مند اور سلیم العقل پائے گئے ہیں ۔ ان کے مخالفین نے بھی اکثر ان کی دانش مندی کا لوہا مانا ہے۔ پھر یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ ان سب کو اسی خص معاملے میں جنون لاحق ہوگیا ہو؟ اور وہ معاملہ بھی کیسا؟ جو ان کے لئے زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہو، جس کے لئے انھوں نے دنیا بھر کا مقابلہ کیا ہو۔ جس کی خاطر وہ سالہا سال دنیا سے لڑتے رہے ہوں۔ جو ان کی ساری عاقلانہ تعلیمات کا (جن کے عاقلانہ ہونے کا بہت سے مکذّبین کو بھی اعتراف ہے) اصل الاصول ہو۔
• انھوں نے خود بھی یہ نہیں کہا کہ ہم انجنیر یا اس کے کارندوں سے تمہاری ملاقات کراسکتے ہیں، یا اس کا مخفی کارخانہ تمہیں دکھا سکتے ہیں یا تجربہ اور مشاہدے سے اپنے دعوے کو ثابت کرسکتے ہیں۔ وہ خود ان تمام امور کر "غیب" سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہم پر اعتماد کرو اور جو کچھ ہم بتاتے ہیں اسے مان لو۔
فریقین کی پوزیشن اور ان کے بیانات پر غور کرنے کے بعد اب عقل کی عدالت اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ چند مظاہر و آثار کو دیکھ کر ان کے باطنی اسباب و علل کی جستجو دونوں فریقوں نے کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ بادی النظر میں سب کے نظریات اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ اوّلاً ان میں سے کسی میں استحالۂ عقلی نہیں ہے، یعنی قوانین عقلی کے لحاظ سے کسی نظریے کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا صحیح ہونا غیر ممکن ہے۔ ثانیاً ان میں سے کسی کی صحت تجربے یا مشاہدے سے ثابت نہیں کی جاسکتی۔ نہ فریقِ اوّل میں سے کوئی گروہ اپنے نظریات کا ایسا سائنٹفک ثبوت دے سکتا ہے، جو ہر شخص کو یقین کرنے پر مجبور کردے اور نہ فریقِ ثانی اس پر قادر یا اس کا مدعی ہے۔ لیکن مزید غور و تحقیق کے بعد چند امور ایسے نظر آتے ہیں، جن کی بنا پر تمام نظریات میں سے فریقِ ثانی کا نظریہ قابلِ ترجیح قرار پاتا ہے۔
اوّلاً کسی دوسرے نظریے کی تائید اتنے کثیر التعداد عاقل، پاک سیرت، صادق القول آدمیوں نے متفق ہوکر اتنی قوت اور اتنے یقین و ایمان کے ساتھ نہیں کی ہے۔
ثانیاً ، ایسے پاکیزہ کیرکٹر اور اتنے کثیرالتعداد لوگوں کا مختلف زمانوں اور مختلف مقامات میں اس دعوے پر متفق ہوجانا کہ ان سب کے پاس ایک غیر معمولی ذریعۂ علم ہے اور ان سب نے اس ذریعے سے خارجی مظاہر کے باطنی اسباب کو معلوم کیا ، ہم کو اس دعوے کی تصدیق پر مائل کردیتا ہےخصوصاً اس وجہ سے کہ اپنی معلومات کے متعلق ان کے بیانات میں کوئی اختلاف نہیں ہے، جو معلومات انھوں نے بیان کی ہیں ان میں کوئی استحالۂ عقلی بھی نہیں ہے اور نہ یہ بات قوانینِ عقلی کی بنا پر محال قرار دی جاسکتی ہے کہ بعض انسانوں میں کچھ ایسی غیر معمولی قوتیں ہوں، جو عام طور پر دوسرے انسانوں میں نہ پائی جاتی ہوں۔
ثالثاً، خارجی مظاہر کی حالت پر غور کرنے سے بھی اغلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کا نظریہ صحیح ہو۔ اس لئے کہ قمقمے، پنکھے، گاڑیاں، کاخانے وغیرہ نہ تو آپ سے آپ روشن اور متحرک ہیں، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو ان کا روشن اور متحرک ہونا ان کے اپنے اختیار میں ہوتا، حالاں کہ ایسا نہیں ہے نہ ان کی روشنی و حکرت ان کے مادّۂ جسمی کی ترکیب کا نتیجہ ہے، کیو ں کہ جب وہ متحرک اور روشن نہیں ہوتے اس وقت بھی یہی ترکیب جسمی موجود رہتی ہے نہ ان کا الگ الگ قوتوں کے زیر اثر ہونا صحیح معلوم ہوتا ہے کیوں کہ بسا اوقات جب قمقموں میں روشنی نہیں ہوتی تو پنکھے بھی بند ہوتے ہیں، ٹرام کاریں بھی موقوف ہوجاتی ہیں اور کارخانے بھی نہیں چلتے۔ لہٰذا خارجی مظاہر کی توجیہ میں فریقِ اوّل کی طرف سے جتنے نظریات پیش کیے گیے ہیں وہ سب بعید از عقل و قیاس ہیں۔ زیادہ صحیح یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ان تمام مظاہر میں کوئی ایک قوت کارفرما ہو اور اس کا سررشتہ کسی ایسے حکیم و دانا کے ہاتھ میں ہو، جو ایک مقرر نظام کے تحت اس قوت کو مختلف مظاہر میں صرف کررہا ہو۔
║باقی رہا مشککین کا یہ قول کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور جو بات ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی تصدیق یا تکذیب ہم نہیں کرسکتے، تو حاکم عقل اس کو بھی درست نہیں سمجھتا کیوں کہ کسی واقعے کا واقع ہونا اس کا محتاج نہیں ہےکہ وہ سننے والوں کی سمجھ میں بھی آجائے۔ اس کے وقوع کو تسلیم کرنے کے لئے معتبر اور متواتر شہادت کافی ہے۔ اگر ہم سے چند معتبر آدمی آکر کہیں کہ ہم نے زمین مغرب میں آدمیوں کو لوہے کی گاڑیوں میں بیٹھ کر ہوا پر اڑتے دیکھا ہے اور ہم اپنے کانوں سے لندن میں بیٹھ کر امریکہ کا گانا سن کر آئے ہیں ، تو ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ یہ لوگ جھوٹے اور مسخرے تو نہیں ہیں؟ ایسا بیان کرنے میں ان کی کوئی ذاتی غرض تو نہیں ہے؟ ان کے دماغ میں کوئی فتور تو نہیں ہے؟ اگر ثابت ہوگیا کہ وہ نہ جھوٹے ہیں نہ مسخرے، نہ دیوانے، نہ ان کا کوئی مفاد اس روایت سے وابستہ ہے، اور اگر ہم نے دیکھا کہ اس کو بلا اختلاف بہت سے سچے اور عقل مند لوگ پوری سنجیدگی کے ساتھ بیان کررہے ہیں تو ہم یقیناً اس کو تسلیم کرلیں گے، خواہ لوہے کی گاڑیوں کا ہوا پر اڑنا اور کسی مادّی واسطے کے بغیر ایک جگہ کا گانا کئی ہزار میل کے فاصلے پر سنائی دینا کسی طرح ہماری سمجھ میں نہ آتا ہو۔
یہ اس معاملے میں عقل کا فیصلہ ہے۔ مگر تصدیق و یقین کی کیفیت جس کا نام "ایمان" ہے اس سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے لئے وجدان کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ضرورت ہے کہ اندر سے ایک آواز آئے، جو تکذیب ، شک اور تذبذب کی تمام کیفیتوں کا خاتمہ کردے اور صاف کہہ دے کہ لوگوں کی قیاس آرائیاں باطل ہیں، سچ وہی ہے ، جو سچے لوگوں نے قیاس سے نہیں بلکہ علم و بصیرت کی رو سے بیان کیا ہے۔