~زندگی بعد موت
موت کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے یا نہیں اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دور ہے۔ہمارے پاس وہ وہ آنکھیں نہیں جن سے ہم موت کی سرحد کے اس پار جھانک کر دیکھ سکیں کہ وہاں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہ کان نہیں جن سے ہم ادھر کی کوئی آواز سن سکیں۔ ہم کوئی ایسا آلہ بھی نہیں رکھتے، جس کے ذکیعہے سے تحقیق کے ساتھ معلوم کیا جاسکے کہ ادھر کچھ ہے یا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں تک سائنس کا تعلق ہے، یہ سوال اس کے دائرے سے قطعی خارج ہے۔ جو شخص سائنس کا نام لے کر کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں وہ بالکل ایک غیر سائنٹفک بات کہتا ہے۔ سائنس کی رو سے نہ تو یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کوئی زندگی ہے اور نہ یہ کہ کوئی زندگی نہیں ہے۔جب تک ہم کوئی یقینی ذریعۂ علم نہیں پاتے کم از کم اس وقت تک تو صحیح سائنٹفک رویّہ یہی ہوسکتا ہے کہ ہم موت کے بعد زندگی کا نہ انکار کریں نہ اقرار۔
مگر کیا عملی زندگی میں ہم اس سائنٹفک رویّے کو نباہ سکتے ہیں؟ شاید نہیں، بلکہ یقیناً نہیں۔ عقلی حیثیت سے تو یہ ممکن ہے کہ جب ایک چیز کو جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہ ہوں تو اس کے متعلق ہم نفی اور اثبات دونوں سے پرہیز کریں، لیکن جب اسی چیز کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہو تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یا تو انکار پر اپنا طرزِ عمل قائم کریں یا اقرار پر ۔مثلاً ایک شخص ہے جس سے آپ واقف ہیں ہیں۔ اگر اس کے ساتھ آپ کا کوئی معاملہ درپیش نہ ہو تو آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کے ایمان دار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حکم نہ لگائیں۔ لیکن جب آپ کو اس سے معاملہ کرنا ہوتو آپ مجبور ہیں کہ یا تو اسے ایمان دار سمجھ کر معاملہ کریں یا بے ایمان سمجھ کر۔اپنے ذہن میں آپ ضرور یہ خیال کرسکتے ہیں کہ جب تک اس کا ایمان دار ہونا یا نہ ہونا ثابت نہ ہوجائے ، اس وقت تک ہم شک کے ساتھ معاملہ کریں گے۔ مگر اس کی ایمان داری کو مشکوک سمجھتے ہوئے جو معاملہ آپ کریں گے، عملاً اس کی صورت وہی تو ہوگی جو اس کی ایمان داری کا انکار کرنے کی صورت میں ہوسکتی تھی۔ لہٰذا فی الواقع انکار اور اقرار کے درمیان شک کی حالت صرف ذہن میں ہی ہوسکتی ہے۔ عملی رویّہ کبھی شک پر قائم نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے یا تو اقرار یا انکار بہرحال ناگزیر ہے۔
یہ بات تھوڑے ہی غور و فکر سے آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے بلکہ ہماری عملی زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دراصل ہمارے اخلاقی رویّے کا سارا انحصار ہی اس سوال پر ہے۔اگر میرا یہ خیال ہو کہزندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے اور اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، تو میرا اخلاقی رویہ ایک طرح کا ہوگا۔اور اگر میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے، جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کا حساب دینا ہوگا اور وہاں میرا اچھا یا برا انجام میرے یہاں کے اعمال پر منحصر ہوگا، تو یقیناً میرا اخلاقی طرزِ عمل بالکل ایک دوسری ہی طرح کا ہوگا۔اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک شخص یہ سمجھتے ہوئے سفر کررہا ہے کہ اس بس یہاں سے کراچی تک جانا ہے اور کراچی پہنچ کر نہ صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا، بلکہ وہ وہاں پولس اور عدالیت اور ہر اس طاقت کی دسترس سے باہر ہوگا جو اس سے کسی قسم کی بازپرس کرسکتی ہو۔ اور اس کے برعکس ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے کراچی تک تو اس کے سفر کی صرف ایک ہی منزل ہے۔ اس کے بعد اسے سمندر پار ایک ایسے ملک میں جانا ہوگا جہاں کا فرماں روا وہی جو پاکستان کا فرماں روا ہے، اور اس کے دفتر میں میرے اس پورے کارنامے کا خفیہ ریکارڈ موجود ہے جو میں نے پاکستان کے اس حصے میں انجام دیا ہے، اور وہاں میرے ریکارڈ کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ میں نے اپنے کام کے لحاظ سے کس درجے کا مستحق ہوں۔ آپ بآسانی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان دونوں شخصوں کا طرزِ عمل میں کس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہوگا۔ پہلا شخص یہاں سے کراچی تک کے سفر کی تیاری کرےگا، اور دوسرے کی تیاری بعد کی طویل منزلوں کے لیے بھی ہوگی۔ پہلا شخص یہ سمجھے گا کہ نفع یا نقصان جوکچھ بھی ہے کراچی پہنچنے تک ہے، آگے کچھ نہیں، اور دوسرا یہ خیال کرےگا کہ اصل نفع و نقصان سفر کے پہلے مرحلے میں نہیں ہے، بلکہ آخری مرحلے میں ہے۔پہلا شخص اپنے افعال کے صرف انہی نتائج پر نظر رکھے گا جو کراچی تک کے سفر میں نکل سکتے ہیں۔ لیکن دوسرے شخص کی نگاہ ان نتائج پر ہوگی جو سمندر پار دوسرے ملک میں پہنچ کر نکلیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں شخصوں کے طرزِعمل کا یہ فرق براہِ راست نتیجہ ہے ان کی اس ║رائے کا جو وہ اپنے سفر کی نوعیت کے متعلق رکھتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہماری اخلاقی زندگی میں بھی وہ عقیدہ فیصلہ کن اثر رکھتا ہے جو ہم زندگی کے بعد موت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ عمل کے میدان میں جو قدم بھی ہم اٹھائیں گے، اس کی سمت کا تعین اس بات پر منحصر ہوگا کہ آیا ہم اسی زندگی کو پہلی اور آخری زندگی سمجھ کر کام کررہے ہیں، یا کسی بعد کی زندگی اور اس کے نتائج کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ پہلی صورت میں ہمار ا قدم ایک سمت اٹھے گا اور دوسری صورت میں اس کی سمت بالکل مختلف ہوگی۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی بعدِ موت کا سوال محض ایک عقلی اور فلسفیانہ سوال نہیں ہے، بلکہ عملی زندگی کا سوال ہے۔ اور جب بات یہ ہے تو ہمارے لیے اس معاملے میں شک اور تردّد کے مقام پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں۔ شک کے ساتھ جو رویہّ ہم زندگی میں اختیار کریں گے وہ بھی لامحالہ انکار ہی کے رویّے جیسا ہوگا۔ لہٰذا ہم بہرحال اس امر کا تعیّن کرنے پر مجبور ہیں کہ آیا موت کے بعد کوئی اور زندگی ہے یا نہیں۔ اگر سائنس اس کے تعیّن میں ہماری مدد نہیں کرتا تو ہمیں عقلی استدلال سے مدد لینی چاہیے۔
اچھا تو عقلی استدلال کے لیے ہمارے پاس کیا مواد ہے؟
ہمارے سامنے ایک تو خود انسان ہے اور دوسرے یہ نظامِ کائنات۔ ہم انسان کواس نظامِ کائنات کے اندر رکھ کر دیکھیں گے کہ جو کچھ انسان میں ہے آیا اس کے سارے مقتضیات اس نظام میں پورے ہوجاتے ہیں، یا کوئی چیز بچی رہ جاتی ہے جس کے لیے کسی دوسری نوعیت کے نظام کی ضرورت ہو۔
دیکھیے ، انسان ایک تو جسم رکھتا ہے، جو بہت سے معدنیات ، نمکیات، پانی اور گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے جواب میں کائنات کے اندر مٹی، پتھر، دھاتیں، نمک، گیسیں، دریا اور اسی جنس کی دوسری چیزیں موجود ہیں۔ ان چیزوں کو کام کرنے کے لیے جتنے قوانین کی ضرورت ہے وہ سب کائنات کے اندر کارفرما ہیں اور جس طرح وہ باہر کی فضا میں پہاڑوں ، دریاؤں اور ہواؤں کو اپنے حصے کا کام پورا کرنے کا موقع دے رہے ہیں، اسی طرح انسانی جسم کو بھی ان قوانین کے تحت کام کرنے کا موقع حاصل ہے۔
پھر انسان ایک ایسا وجود ہے جو گردوپیش کی چیزوں سے غذا لے کر بڑھتا اور نشو ونما حاصل کرتا ہے ۔ اسی جنس کے درخت، پودے اور گھانس پھونس کائنات میں بھی موجود ہیں اور وہ قوانین بھی یہاں پائے جاتے ہیں جو نشو ونما پانے والے اجسام کے لیے درکار ہیں۔
پھر انسان ایک زندہ وجود ہے جو اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے، اپنی غذا خود اپنی کوشش سے فراہم کرتاہے، اپنے نفس کی آپ حفاظت کرتا ہے اور اپنی نوع کو باقی رکھنے کا انتظام کرتا ہے۔کائنات میں اس جنس کی بھی دوسری بہت سی قسمیں موجود ہیں۔ خشکی ، تری اور ہوا میں بے شمار حیوانات پائے جاتے ہیں اور وہ قوانین بھی تمام و کمال یہاں کار فرما ہیں جو ان زندہ ہستیوں کے پورے دائرۂ عمل پر حاوی ہونے کےلیے کافی ہیں۔
ان سب سے اوپر انسان ایک اور نوعیت کا وجود بھی رکھتا ہے، جس کو ہم اخلاقی وجود کہتے ہیں۔ اس کے اندر نیکی اور بدی کرنے کا شعور ہے، نیک اور بد کی تمیز ہے، نیکی اور بدی کرنے قوت ہے اور اس کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نیکی کا اچھا اور بدی کا برا نتیجہ ظاہر ہو۔وہ ظلم اور انصاف، سچائی اور جھوٹ، حق اور ناحق، رحم اور بے رحمی، احسان اور احسان فراموشی، فیاضی اور بخل، امانت اور خیانت اور ایسی ہی مختلف اخلاقی صفات کے درمیان فرق کرتا ہے۔ یہ صفات عملاً اس کی زندگی میں پائی جاتی ہیں اور یہ محض خیالی چیزیں نہیں ہیں بلکہ بالفعل ان کے اثرات انسانی تمدن پر مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان، جس فطرت پر پیدا ہوا ہے اس کا شدت کے ساتھ یہ تقاضا ہے کہ جس طرح اس کے افعال کے طبعی نتائج رونما ہوتے ہیں ، اسی طرح اخلاقی نتائج بھی رونما ہوں۔
║مگر نظامِ کائنات پر گہری نگاہ ڈال کر دیکھیے، کیا اس نظام میں انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح رونما ہوسکتے ہیں؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہاں اس کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں کم از کم ہمارے علم کی حد تک کوئی دوسری ایسی مخلوق نہیں پائی جاتی جو اخلاقی وجود رکھتی ہو۔سارا نظامِ کائنات طبعی قوانین کے ماتحت چل رہا ہے۔ اخلاقی قوانین اس میں کسی طرف کارفرما نظر نہیں آتے۔یہاں روپے میں وزن اور قیمت ہے، مگر سچائی میں نہ وزن ہے نہ قیمت۔ یہاں آم کی گھٹلی سے ہمیشہ آم پیدا ہوتا ہے۔ مگر حق پرستی کا بیج بونے والے پر کبھی پھولوں کی بارش ہوتی ہے اور کبھی بلکہ اکثر جوتیوں کی۔ یہاں مادّی عناصر کے لیے مقرر قوانین ہیں جن کے مطابق ہمیشہ مقرر نتائج نکلتے ہیں، مگر اخلاقی عناصر کے لیے کوئی مقرر قانون نہیں ہے کہ ان کی فعلیت سے ہمیشہ مقرر نتیجہ نکل سکے۔طبعی قوانین کی فرماں روائی کے سبب سے اخلاقی نتائج کبھی تو نکل ہی نہیں سکتے، کبھی نکلتے ہیں تو صرف اس حد تک جس کی اجازت طبعی قوانین دے دیں اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخلاق ایک فعل سے ایک خاص نتیجہ نکلنے کا تقاضا کرتا ہے، مگر طبعی قوانین کی مداخلت سے نتیجہ بالکل برعکس نکل آتا ہے۔انسان نے خود اپنے تمدنی و سیاسی نظام کے ذریعے سے تھوڑی سی کوشش اس امر کی کی ہے کہ انسانی اعمال کے اخلاقی نتائج ایک مقرر ضابطے کے مطابق برآمت ہوسکیں۔مگر یہ کوشش بہت محدود پیمانے پر ہے اور بے حد ناقص ہے۔ایک صرف طبعی قوانین اس کو محدود اور ناقص بناتے ہیں اور دوسری طرف انسان کی اپنی بہت سی کمزوریاں اس انتظام کے نقائص میں اور زیادہ اضافہ کردیتی ہیں۔
میں اپنے مدعا کی توضیح چند مثالوں سے کروں گا۔دیکھیے، ایک شخص اگر کسی دوسرے شخص کا دشمن ہو اور اس کے گھر میں آگ لگادے تو اس کا گھر جل جائے گا۔یہ اس کے فعل کا طبعی نتیجہ ہے۔ اس کا اخلاقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس شخص کو اتنی ہی سزا ملے جتنا اس نے ایک خاندان کو نقصان پہنچایا ہے۔مگر اس نتیجے کا ظاہر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آگ لگانے والے کا سراغ ملے، وہ پولیس کے ہاتھ آسکے، اس پر جرم ثابت ہو، عدالت پوری طرح اندازہ کرسکے کہ آگ لگنے سے اس خاندان کو اور اس کی آئندہ نسلوں کو ٹھیک ٹھیک کتنا نقصان پہنچا ہے اور پھر انصاف کے ساتھ اس مجرم کو اتنی ہی سزا دے۔اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہو تو اخلاقی نتیجہ یا تو بالکل ہی ظاہر نہ ہوگا یا اس کا صرف ایک تھوڑا سا حصہ ظاہر ہوکر رہ جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے حریف کو برباد کرکے وہ شخص دنیا میں مزے سے پھلتا پھولتا رہے۔
اس سے بڑے پیمانے پر ایک اور مثال لیجیے۔ چند اشخاص اپنی قوم میں اثر پیدا کرلیتے ہیں اور ساری قوم ان کے کہے پر چلنے لگتی ہے۔ اس پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر وہ لوگوں میں قوم پرستی کا اشتعال اور ملک گیری کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ گرد و پیش کی قوموں سے جنگ چھیڑدیتے ہیں۔ لکھوکھا آدمیوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ ملک کے ملک تباہ کرڈالتے ہیں اور کروڑوں انسانوں کو ذلیل اور پست زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ پر ان کی ان کارروائیوں کا ایسا زبرست اثر پڑتا ہے جس کا سلسلہ آئندہ سیکڑوں برس تک پشت در پشت اور نسل در نسل پھیلتا جائے گا۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ چند اشخاص جس جرمِ عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں اس کی مناسب اور منصفانہ سزا ان کو بھی اس دنیوی زندگی میں مل سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر ان کی بوٹیاں بھی نوچ ڈالی جائیں، اگر ان کو زندہ جلا ڈالا جائے یا کوئی اور ایسی سزا دی جائے جو انسان کے بس میں ہے، تب بھی کسی طرح وہ اس نقصان کے برابر سزا نہیں پاسکتے جو انھوں نے کروڑہا انسانوں کو اور ان کے آئندہ بے شمار نسلوں کو پہنچایا ہے۔ موجودہ نظام کائنات جن طبعی قوانین پر چل رہا ہے۔ ان کے تحت کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے جرم کے برابر سزا پاسکیں۔
اسی طرح ان نیک انسانوں کو لیجیے جنھوں نے نوع انسانی کو حق اور راستی کی تعلیم دی اور ہدایت کی روشنی دکھائی، جن کے فیض سے بے شمار انسانی نسلیں صدیوں سے فائدہ اٹھارہی ہیں اور نہ معلوم آئندہ کتنی صدیوں تک اٹھاتی چلی جائیں گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کی خدمات کا پورا صلہ ان کو اس دنیا میں مل سکے؟ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ موجودہ طبعی قوانین کی حدود کے اندر ایک شخص اپنے اس عمل کا پورا صلہ حاصل کرسکتا ہے، جس کا رد عمل اس کے مرنے کے بعد ہزاروں برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیل گیا ہو؟
║جیسا کہ میں ابھی بیان کرچکا ہوں، اول تو موجودہ نظامِ کائنات جن قوانین پر چل رہا ہے ان کے اندر اتنی گنجائش ہی نہیں ہے کہ انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح مرتب ہوسکیں۔ دوسرے یہاں چند سال کی زندگی میں انسان جو عمل بھی کرتا ہے اس کے ردعمل کا سلسلہ اتنا وسیع ہوتا ہے اور اتنی مدت تک جاری رہتا ہے کہ صرف اسی کے پورے نتائج وصول کرنے کے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں برس کی زندگی درکار ہے، اور موجودہ قوانین قدرت کے ماتحت انسان کو اتنی زندگی ملنی ناممکن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسانی ہستی کے خاکی ، عضوی اور حیوانی عناصر کے لیے تو موجودہ طبعی دنیا physical world اور اس کے طبعی قوانین کافی ہیں، مگر اس کے اخلاقی عنصر کے لیے یہ دنیا بالکل ناکافی ہے۔ اس کے لیے ایک دوسرا نظامِ عالم درکار ہے، جس میں حکمراں قانون governing law اخلاق کا قانون ہو اور طبعی قوانین اس کے ماتحت محض مددگار کی حیثیت سے کام کریں۔ جس میں زندگی محدود نہ ہو بلکہ غیر محدود ہو۔ جس میں وہ تمام اخلاقی نتائج جو یہاں مرتب ہونے سے رہ گئے ہیں ، یا الٹے مرتب ہوئے ہیں، اپنی صحیح صورت میں پوری طرح مرتب ہوسکیں۔ جہاں سونے اور چاندی کے بہ جائے نیکی اور صداقت میں وزن اور قیمت ہو۔ جہاں آگ صرف اس چیز کو جلائے جو اخلاقاً جلنے کی مستحق ہو۔ جہاں عیش اس کو ملے جو نیک ہو اور مصیبت اس کے حصے میں آئے جو بد ہو۔عقل چاہتی ہے، فطرت مطالبہ کرتی ہے کہ ایک ایسا نظام ِ عالم ضرور ہونا چاہیے۔
جہاں تک عقلی استدلال کا تعلق ہے وہ ہم کو صرف "ہونا چاہیے" کی حد تک لے جاکر چھوڑدیتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آيا واقعی کوئی ایسا عالم ہے بھی ، تو ہماری عقل ،اور ہمارا علم ،دونوں اس کا حکم لگانے سے عاجز ہیں۔یہاں قرآن ہماری مدد کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تمہاری عقل اور تمہاری فطرت جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے فی الواقع وہ ہونے والی ہے۔ موجودہ نظامِ عالم جو طبعی قوانین پر بنا ہے ایک وقت میں توڑ ڈالا جائے گا اور اس کے بعد ایک دوسرا نظام بنے گا، جس میں زمین و آسمان اور ساری چیزیں ایک دوسرے ڈھنگ پر ہوں گی۔پھر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے تھے دوبارہ پیدا کردے گا اور بیک وقت ان سب کو اپنے سامنے جمع کرے گا۔ وہاں ایک ایک شخص کا، ایک قوم کا اور پوری انسانیت کا ریکارڈ ہر غلطی اور ہر فروگذاشت کے بغیر محفوظ ہوگا۔ ہر شخص کے ایک ایک عمل کا جتنا ردعمل دنیا میں ہوا ہے اس کی پوری روداد موجود ہوگی۔وہ تمام نسلیں گواہوں کے کٹہرے میں حاضر ہوں گی جو اس ردّعمل سے متاثر ہوئیں۔ ایک ایک ذرّہ جس پر انسان کے اقوال اور افعال کے نقوش ثبت ہوئے تھے اپنی داستان سنائے گا۔ خود انسان کے ہاتھ اور پاؤں اور آنکھ اور زبان اور تمام اعضاء شہادت دیں گے کہ ان سے کس طرح کام لیا۔ پھر اس روداد پر وہ سب سے بڑا حاکم پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے انعام کا مستحق ہے اور کون کتنی سزا کا۔ یہ انعام اور یہ سزا دونوں چیزیں اتنے بڑے پیمانے پر ہوں گی جس کا کوئی اندازہ موجودہ نظامِ عالم کی محدود مقداروں کے لحاظ سے نہیں لیا جاسکتا۔وہاں کے قوانینِ قدرت کسی اور قسم کے ہوں گے۔ انسان کی جن نیکیوں کے اثرات دنیا میں ہزاروں برس چلتے رہے ہیں، وہاں وہ ان کا بھرپور صلہ وصول کرسکے گابغیر اس کے کہ موت اور بیماری اور بڑھاپا اس کے عیش کا سلسلہ توڑسکیں۔ اور اسی طرح انسان کی جن برائیوں پر اثرات دنیا میں ہزارہا برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیلتے رہے ہیں ، وہ ان کی پوری سزا بھگتے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بے ہوشی آکر اسے تکلیف سے بچاسکے۔
ایسی ایک زندگی اور ایسے ایک عالم کو جو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں، مجھے ان کے ذہن کی تنگی پر ترس آتا ہے۔ اگر ہمارے موجودہ نظامِ عالم کا موجودہ قوانینِ قدرت کے ساتھ موجود ہونا ممکن ہے تو آخر ایک دوسرے نظامِ عالم کا دوسرے قوانین کے ساتھ وجود میں آنا کیوں ناممکن ہو؟البتہ یہ بات کہ واقع میں ایسا ضرور ہوگا ، تو اس کا یقین نہ دلیل سے ہوسکتا ہے اور نہ علمی ثبوت سے، اس کےلیے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے۔