Tafheem ul Quran

Surah 1 Al-Fatihah, Ayat 1-7

بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ ﴿1:1﴾ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ‏ ﴿1:2﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ‏ ﴿1:3﴾ مٰلِكِ يَوۡمِ الدِّيۡنِؕ‏ ﴿1:4﴾ اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ‏ ﴿1:5﴾ اِهۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ‏ ﴿1:6﴾ صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ ۙ‏ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا الضَّآلِّيۡنَ‏ ﴿1:7﴾

1 - اللہ کےنام سے جو رحمان و رحیم ہے 1 2 - تعریف اللہ ہی کے لیے ہے 2 جو تمام کائنات کا رب 3 ہے ، 3 - رحمان اور رحیم ہے 4 4 - روزِ جزا کا مالک 5 ہے۔ 5 - ہم تیری ہی عبادت6 کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں 7 ۔ 6 - ہمیں سیدھا راستہ دکھا 8 ، 7 - ان لوگوں کاراستہ جن پر تو نے انعام فرمایا 9 ، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں 10


Notes

1 - اسلام جو تہذیب انسان کو سکھاتاہے اس کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر کام کی ابتداء خدا کے نام سے کرے۔اس قاعدے کی پابندی اگر شعور کے ساتھ کی جائے تو اس سے لازماً تین فائدے حاصل ہونگے ۔ایک یہ کہ آدمی بہت سے برے کاموں سے بچ جائے گا، کیونکہ خدا کا نام لینے کی عادت اسے ہر کام شروع کرتے وقت یہ سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ کیا واقعی میں اس کام پر خداکا نام لینے میں حق بجانب ہوں؟ دوسرے یہ کہ جائز اور صحیح اور نیک کاموں کی ابتداکرتے ہوئے خدا کا نام لینے سے آدمی کی ذہنیت بالکل ٹھیک سَمت اختیار کر لے گی اور وہ ہمیشہ صحیح ترین نقطہ سے اپنی حرکت کا آغاز کرے گا ۔تیسر ا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب وہ خدا کے نام سے اپنا کام شروع کرے گا تو خدا کی تائید اور توفیق اس کے شاملِ حال ہوگی، اس کی سعی میں برکت ڈالی جائے گی اور شیطان کی فساد انگیزیوں سے اُس کو بچایا جائے گا ۔خدا کا طریقہ یہ ہے کہ جب بندہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ بھی بندے کی طرف توجہ فرماتا ہے۔

2 - جیسا کہ ہم دیباچہ میں بیان کر چکے ہیں سورہ فاتحہ اصل میں تو ایک دعا ہے ، لیکن دعا کی ابتدا اس ہستی کی تعریف سے کی جارہی ہے جس سے ہم دعا مانگنا چاہتے ہیں ۔یہ گویا اس امر کی تعلیم ہے کہ دعا جب مانگو تو مہذب طریقہ سے مانگو۔یہ کوئی تہذیب نہیں ہے کہ منہ کھولتے ہی جھٹ اپنا مطلب پیش کر دیا ۔ تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے دعا کر رہے ہو ، پہلے اس کی خوبی کا ،اس کے احسانات اور اس کے مرتبے کا اعتراف کرو۔

تعریف ہم جس کی بھی کرتے ہیں ، دو وجوہ سے کیا کرتے ہیں۔ایک یہ کہ وہ بجائے خود حسن و خوبی اور کمال رکھتا ہو ، قطع نظر اس سے کہ ہم پر اس کے ان فضائل کا کیا اثر ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ ہمارا محسن ہو اور ہم اعترافِ نعمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اس کی خوبیاں بیان کریں ۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف ان دونوں حیثیتوں سے ہے۔ یہ ہماری قدر شناسی کا تقاضہ بھی ہے اور احسان شناسی کا بھی کہ ہم اس کے تعریف میں رَطبُ اللّسان ہوں۔

اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ تعریف اللہ کے لیےہے ، بلکہ صحیح یہ ہے کہ‘‘ تعریف اللہ ہی’’ کے لیے ہے۔ یہ بات کہہ کر ایک بڑی حقیقت پر سے پردہ اٹھا یا گیا ہے ، اور وہ حقیقت ایسی ہے جس کی پہلی ہی ضرب سے مخلوق پرستی کی جڑ کٹ جاتی ہے ۔ دنیا میں جہاں ، جس چیز اور جس شکل میں بھی کوئی حسن ، کوئی خوبی ،کوئی کمال ہے، اس کا سر چشمہ اللہ ہی کی ذات ہے ۔ کسی انسان ،کسی فرشتے ،کسی سیارے،غرض کسی مخلوق کا کمال بھی ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ کاعطیّہ ہے۔ پس اگر کوئی اس کا مستحق ہے کہ ہم اس کے گرویدہ اور پرستار،احسان مند اور شکر گذار ، نیاز مند اور خدمت گار بنیں تو وہ خالقِ کمال ہے نہ کہ صاحبِ کمال۔

3 - رب کا لفظ عربی زبان میں تین معنوں میں بولا جاتا ہے ۔(١) مالک اور آقا۔(۲) مربیّ، پرورش کرنے والا، خبر گیری اور نگہبانی کرنے والا۔(۳)فرمانروا، حاکم ، مدّبر اور منتظم ۔ اللہ تعالیٰ ان سب معنوں میں کائنات کا ربّ ہے ۔

4 - انسان کا خاصّہ ہے کہ جب کوئی چیز اس کی نگاہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے تو وہ مبالغہ کے صیغوں میں اس کو بیان کرتاہے، اور اگر ایک مبالغہ کا لفظ بول کروہ محسوس کرتا ہے کہ اُس شے کی فراوانی کا حق ادا نہیں ہوا، تو پھر وہ اسی معنی کا ایک اور لفظ بولتا ہے تاکہ وہ کمی پوری ہوجائےجو اس کے نزدیک مبالغہ میں رہ گئی ہے۔ اللہ کی تعریف میں رحمن کا لفظ استعمال کرنے کے بعد پھر رحیم کا اضافہ کرنے میں بھی یہی نقطہ پوشیدہ ہے ۔ رحمان عربی زبان میں بڑے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ لیکن خدا کی رحمت اور مہر بانی اپنی مخلوق پر اتنی زیادہ ہے ، اس قدر وسیع ہے، ایسی بے حد وحساب ہے کہ اس کے بیان میں بڑے سے بڑا مبالغہ کالفظ بول کر بھی جی نہیں بھرتا۔اس لیے اس کی فراوانی کا حق ادا کرنے کے لیے پھر رحیم کا لفظ مزید استعمال کیاگیا۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم کسی شخص کی فیاضی کے بیان میں ‘‘سخی ’’کا لفظ بول کر جب تشنگی محسوس کرتے ہیں تو اس پر ‘‘داتا ’’ کا اضافہ کرتے ہیں ۔رنگ کی تعریف میں جب ‘‘گورے ’’ کو کافی نہیں پاتے تو اس پر ‘‘چٹےّ ’’ کا لفظ اور بڑھا دیتےہیں ۔درازیِ قد کے ذکر میں جب ‘‘لمبا ’’ کہنے سے تسلّی نہیں ہوتی تو اس کے بعد ‘‘تڑنگا ’’ بھی کہتے ہیں۔

5 - یعنی اُس دن کا مالک جبکہ تمام اگلی پچھلی نسلوں کو جمع کرکے ان کے کارنامہٴ زندگی کا حساب لیا جائیگا اور ہر انسان کواس کے عمل کا پورا صِلہ مل جائےگا۔ اللہ کی تعریف میں رحمان اور رحیم کہنے کے بعد مالک روزِجزاکہنے سے یہ بات نکلتی ہے کہ وہ نِرا مہربان ہی نہیں ہے بلکہ منصف بھی ہے، اور منصف بھی ایسا با اختیار منصف کہ آخری فیصلے کے روز وہی پورے اقتدار کا مالک ہوگا، نہ اس کی سزا میں کوئی مزاحم ہوسکے گا اور نہ جزا میں مانع۔ لہٰذا ہم اس کی ربوبیت اور رحمت کی بناء پر اس سے محبت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے انصاف کی بنا پراس سے ڈرتے بھی ہیں اوریہ احساس بھی رکھتے ہیں کہ ہمارے انجام کی بھلائی اوربُرائی بالکُلّیہ اُسی کے اختیارمیں ہے

6 - عبادت کا لفظ بھی عربی زبان میں تین معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ (١)پوجا اور پرستش (۲)اطاعت اور فرمانبرداری (۳)بندگی اور غلامی۔ اس مقام پر تینوں معنی بیک وقت مراد ہیں۔یعنی ہم تیرے پرستار بھی ہیں ،مطیع فرمان بھی اور بندہ و غلام بھی۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ ہم تیرے ساتھ یہ تعلق رکھتے ہیں ۔بلکہ واقعی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا تعلق صرف تیرے ہی ساتھ ہے ۔ان تینوں معنوں میں سے کسی معنی میں بھی کوئی دوسرا ہمارا معبود نہیں ہے۔

7 - یعنی تیرے ساتھ ہمارا تعلق محض عبادت ہی کا نہیں ہے بلکہ استعانت کا تعلق بھی ہم تیرے ہی ساتھ رکھتے ہیں ۔ہمیں معلوم ہے کہ ساری کائنات کا ربّ تو ہی ہے، اور ساری طاقتیں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ،اور ساری نعمتوں کا تو ہی اکیلا مالک ہے، اس لیے ہم اپنی حاجتوں کی طلب میں تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں ، تیرے ہی آگے ہمارا ہاتھ پھیلتا ہے اور تیری مدد پر ہمارا اعتماد ہے ۔ اسی بناپر ہم اپنی درخواست لے کر تیری خدمت میں حاضر ہورہے ہیں۔

8 - یعنی زندگی کے ہر شعبہ میں خیال اور عمل اور برتاوٴ کا وہ طریقہ ہمیں بتا جو بالکل صحیح ہو، جس میں غلط بینی اور غلط کاری اوربدنامی کا خطرہ نہ ہو، جس پر چل کہ ہم سچی فلاح وسعادت حاصل کر سکیں -------- یہ ہے وہ درخواست جو قرآن شروع کرتے ہوئے بندہ اپنے خدا کے حضور پیش کرتاہے ۔اس کی گزارش یہ ہے کہ آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ہمیں بتائیں کہ قیاسی فلسفوں کی اس بھول بھلیاںمیں حقیقتِ نفس الامری کیا ہے، اخلاق کے ان مختلف نظریات میں صحیح نظامِ اخلاق کونسا ہے، زندگی کی اِن بے شمار پگڈنڈیوں کے درمیان فکر و عمل کی سیدھی اورصاف شاہراہ کونسی ہے۔

9 - یہ اُس سیدھے راستہ کی تعریف ہے جس کا علم ہم اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں۔یعنی وہ راستہ جس پر ہمیشہ سے تیرے منظورِ نظر لوگ چلتے رہے ہیں۔ وہ بے خطا راستہ کہ قدیم ترین زمانہ سے آج تک جو شخص اور جو گروہ بھی اس پر چلا وہ تیرے انعامات کا مستحق ہوٴا اور تیری نعمتوں سے مالامال ہوکر رہا۔

10 - یعنی‘‘انعام’’پانے والوں سے ہماری مراد وہ لوگ نہیں ہیں جو بظاہر عارضی طور پر تیری دُنیوی نعمتوں سے سرفراز تو ہوتے ہیں مگر دراصل وہ تیرے غضب کے مستحق ہوٴا کرتے ہیں اور اپنی فلاح و سعادت کی راہ گم کیے ہوئے ہوتے ہیں۔اس سلبی تشریح سے یہ بات خود کھل جاتی ہے کہ ‘‘انعام’’سے ہماری مراد حقیقی اور پائدار انعامات ہیں جوراست روی اور خدا کی خوشنودی کے نتیجے میں ملا کرتے ہیں، نہ کہ وہ عارضی اور نمائشی انعامات جو پہلے بھی فرعونوں اور نمرودوں اور قارونوں کو ملتے رہے ہیں اور آج بھی ہماری آنکھوں کےسامنے بڑے بڑے ظالموں اوربدکاروں اور گمراہوں کو ملے ہوئے ہیں۔