1. اس تمہیدی فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مضمر ہے، نادان لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ پیغمبر قرآن کے نام سے جو کلام ان کو سنا رہا ہے وہ محض زبان کی جادوگری ہے، شاعرانہ پروازِ تخیل ہے اور کچھ کاہنوں کی طرح عالم بالا کی گفتگو ہے۔ اس پر انہیں متنبہ کیا جا رہاہے کہ جو کچھ تم گمان کر رہے ہو یہ وہ چیزنہیں ہے۔ یہ تو کتابِ حکیم کی آیات ہیں۔ اِن کی طرف توجہ نہ کرو گے تو حکمت سے محروم ہو جاؤ گے۔
2. یعنی آخر اس میں تعجب کی بات کیا ہے؟ انسانو ں کو ہوشیار کر نے کے لیے انسان نہ مقرر کیا جاتا تو کیا فرشتہ یا جن یا حیوان مقرر کیا جاتا؟ اور اگر انسان حقیقت سے غافل ہو کر غلط طریقے سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کا خالق و پروردگار انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے یا یہ کہ وہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کوئی انتظام کرے؟ اور اگر خدا کی طرف سے کوئی ہدایت آئے تو عزت و سرفرازی اُن کے لیے ہونی چاہیے جو اسے مان لیں یا ان کے لیے جو اسے رد کر دیں؟ پس تعجب کرنے والوں کو سوچنا تو چاہیے کہ آخر وہ بات کیا ہے جس پر وہ تعجب کر رہے ہیں۔
3. یعنی جادوگر کی پھبتی تو انہوں نے اس پر کس دی مگر یہ نہ سوچا کہ وہ چسپاں بھی ہوتی ہے یا نہیں ۔ صرف یہ بات کہ کوئی شخص اعلیٰ درجہ کی خطابت سے کام لے کر دلوں اور دماغوں کو مسخر کر رہا ہے ، اُس پر یہ الزام عائد کر دینے کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی کہ وہ جادوگری کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس خطابت میں وہ بات کیا کہتا ہے، کس غرض کے لیے قوت تقریر کو استعمال کر رہا ہے، اور جو اثرات اس کی تقریر سے ایمان لانے والوں کی زندگی پر مترتب ہو رہے ہیں وہ کس نوعیت کے ہیں جو خطیب کسی ناجائز غرض کے لیے جادو بیانی کی طاقت استعمال کرتا ہے وہ تو ایک منہ پھٹ بے لگام، غیر ذمہ دار مقرر ہوتا ہے ۔ حق اور صداقت اور انصاف سے آزاد ہو کر ہر وہ بات کہہ ڈالتا ہے جو بس سننے والوں کو متاثر کر دے ، خوا ہ بجائے خود کتنی ہی جھوٹی، مبالغہ آمیز اورغیر منصفانہ ہو۔ اس کی باتوں میں حکمت کے بجائے عوام فریبی ہوتی ہے کسی منظم فکر کے بجائے تناقض اور ناہمواری ہوتی ہے ۔ اعتدال کے بجائے بے اعتدالی ہو ا کرتی ہے وہ تو محض اپنا سکہ جمانے کے لیے زبان درازی کرتا ہے یا پھر لوگوں کو لڑانے اور ایک گروہ کو دوسرے کے مقابلہ میں ابھارنے کے لیے خطابت کی شراب پلاتا ہے۔ اس کے اثر سے لوگوں میں نہ کوئِی اخلاقی بلندی پیدا ہوتی ہے، نہ ان کی زندگیوں میں کوئِی مفید تغیر رونما ہوتا ہے اور نہ کوئی صالح فکر یا صالح عملی حالت وجود میں آتی ہے ، بلکہ لوگ پہلے سے بدتر صفات کے مظاہرے کر نے لگتے ہیں۔ مگر یہاں تم دیکھ رہے ہو کہ پیغمبر جو کلام پیش کر رہا ہے اس میں حکمت ہے ، ایک متناسب نظام ِ فکر ہے، غایت درجے کا اعتدال اور حق و صداقت کا سخت التزام ہے، لفظ لفظ جچا تُلا اور بات بات کانٹے کی تول پوری ہے۔ اس کی خطابت میں تم خلق خدا کی اصلاح کے سوا کسی دوسری غرض کی نشاندہی نہیں کر سکتے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے اس میں اس کی اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی یا کسی قسم کی دنیوی غرض کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ جس غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اس کے بُرے نتائج سے ان کو خبر دار کرے اور انہیں اُس طریقے کی طرف بلائے جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ پھر اس کی تقریر سے جو اثرات مترتب ہوئے ہیں وہ بھی جادوگروں کے اثرات سے بالکل مختلف ہیں۔ یہاں جس نے بھی اس کا اثر قبول کیا ہے اس کی زندگی سنور گئی ہے ، وہ پہلے سے زیادہ بہتر اخلاق کا انسان بن گیا ہے اور اس کے سارے طرزِ عمل میں خیر و صلاح کی شان نمایاں ہو گئی ہے۔ اب تم خود ہی سوچ لو، کیا جادوگر ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اور ان کا جادو ایسے ہی نتائج دکھایا کرتا ہے؟
4. یعنی پیدا کرکے وہ معطل نہیں ہو گیا بلکہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کے تخت سلطنت پر وہ خود جلوہ فرما ہوا اور اب سارے جہان کا انتظام عملًا اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں خدا نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ دیا ہے کہ خود جس طرح چاہے چلتی رہے ، یا دوسروں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس میں جیسا چاہیں تصرف کریں۔ قرآن اس کے برعکس یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کی اس پوری کا ر گاہ پر آپ ہی حکمرانی کر رہا ہے ، تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں، ساری زمامِ اقتدار پر وہ خود قابض ہے، کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہِ راست اس کے حکم یا اذن سے ہو رہا ہے، اِس جہانِ ہستی کے ساتھ اس کا تعلق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی اسے وجود میں لایا تھا، بلکہ ہمہ وقت وہی اس کا مدبر و منتظم ہے ، اسی کے قائم رکھنے سے یہ قائم ہے اور اسی کے چلانے سے یہ چل رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف ، حاشیہ نمبر ۴۰، ۴۱)۔
5. یعنی دنیا کی تدبیر و انتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ خدا سے سفارش کر کے اس کا کوئی فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ خدا سے دعا کرے، مگر اس کی دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ خدا کی خدائی میں اتنا زوردار کوئی نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے۔
6. اوپر کےتین فقروں میں حقیقتِ نفس الامری کا بیان تھا کہ فی الواقع خد ا ہی تمہارا رب ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اِس امر واقعی کی موجودگی میں تمہارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ ربوبیت بالکلیہ خدا کی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اُسی کی عبادت کرو ۔ پھر جس طرح ربوبیت کا لفظ تین مفہومات پر مشتمل ہے ، یعنی پروردگاری، مالکی و آقائی، اور فرماں روائی ، اسی طرح اس کے بالمقابل عبادت کا لفظ بھی تین مفہومات پر مشتمل ہے۔ یعنی پرستش ، غلامی اور اطاعت۔
خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے محبت و عقیدت سے سر جھکائے۔ یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔
خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کا بندہ و غلام بن کر رہے اور اُس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویّہ نہ اختیار کرے اور اس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے۔ یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے۔
خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کے حکم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپناحکمران بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔
7. یعنی جب یہ حقیقت تمہارے سامنے کھول دی گئی ہے اور تم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اس حقیقت کی موجودگی میں تمہارے لیے صحیح طرزِ عمل کیا ہے تو کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں گی اور اُنہی غلط فہمیوں میں پڑے رہو گے جن کی بنا پر تمہاری زندگی کا پورا رویہ اب تک حقیقت کے خلاف رہا ہے؟
8. یہ نبی کی تعلیم کا دوسرا بنیادی اصول ہے ۔ اصلِ اوّل یہ کہ تمہارا رب صرف اللہ ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو ۔ اور اصلِ دوم یہ کہ تمہیں اس دنیا سے واپس جا کر اپنے رب کو حساب دینا ہے۔
9. یہ فقرہ دعوے اور دلیل دونوں کا مجموعہ ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ خدا دوبارہ انسان کو پیدا کرے گا اور اس پر دلیل یہ دی گئی ہے کہ اسی نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا کیا ۔ جو شخص یہ تسلیم کرتا ہو کہ خدا نے خلق کی ابتدا کی ہے ( اور اس سے بجز اُن دہریوں کے جو محض پادریوں کے مذہب سے بھاگنے کے لیے خلقِ بے خالق جیسے احمقانہ نظریے کو اوڑھنے پر آمادہ ہو گئے اور کون انکار کر سکتا ہے) وہ اس بات کو ناممکن یا بعد از فہم قرار نہیں دے سکتا کہ وہی خدا اس خلق کا پھر اعادہ کرے گا۔
10. یہ وہ ضرورت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا ۔ اوپر جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ خلق کا اعادہ ممکن ہے اور اسے مُستبعَد سمجھنا درست نہیں ہے ۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اعادۂ خلق ، عقل و انصاف کی روسے ضروری ہے اور یہ ضرورت تخلیقِ ثانیہ کے سوا کسی دوسرے طریقے سے پوری نہیں ہو سکتی۔ خدا کو اپنا واحد رب مان کر جو لوگ صحیح بندگی کا رویہ اختیار کریں وہ اس کے مستحق ہیں کہ انہیں اپنے اس بجا طرزِ عمل کی پوری پوری جزا ملے۔ اور جولو گ حقیقت سے انکار کر کے اس کے خلاف زندگی بسر کریں وہ بھی اس کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے اس بے جا طرزِ عمل کا برا نتیجہ دیکھیں ۔ یہ ضرورت اگر موجود ہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں ہو رہی ہے (اور ہر شخص جوہٹ دھرم نہیں ہے جانتا ہے کہ نہیں ہو رہی ہے) تو اسے پورا کرنے کے لیے یقینًا دوبارہ زندگی ناگزیر ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف ، حاشیہ نمبر ۳۰ و سورۂ ہود ، حاشیہ نمبر ۱۰۵)۔
11. یہ عقیدہ ٔ آخرت کی تیسری دلیل ہے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے جو کام ہر طر ف نظر آرہے ہیں ، جن کے بڑے بڑے نشانات سورج اور چاند، اور لیل و نہار کی گردش کی صورت میں ہر شخص کے سامنے موجود ہیں، ان سے اس بات کا نہایت واضح ثبوت ملتا ہے کہ اس عظیم الشان کار گاہِ ہستی کا خالق کوئی بچہ نہیں ہے جس نے محض کھیلنے کے لیے یہ سب کچھ بنایا ہو اور پھر دل بھر لینے کے بعد یونہی اس گھروندے کو توڑ پھوڑ ڈالے ۔ صریح طور پر نظر آرہا ہے کہ اس کے ہر کام میں نظم ہے ، حکمت ہے ، مصلحتیں ہیں ، اور ذرے ذرے کی پیدائش میں ایک گہری مقصدیت پائی جاتی ہے۔ پس جب وہ حکیم ہے اور اس کی حکمت کے آثار و علائم تمہارے سامنے علانیہ موجود ہیں ، تو اس سے تم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہو کہ وہ انسان کو عقل اور اخلاقی حس اور آزادانہ ذمہ داری اور تصرف کے اختیارات بخشنے کے بعداس کے کارنامۂ زندگی کا حساب کبھی نہ لے گا۔اور عقلی اور اخلاقی ذمہ داری کی بنا پر جزا و سزا کا جو استحقاق لازمًا پیدا ہوتا ہے اسے یونہی مہمل چھوڑ دے گا۔
اس طرح اِن آیات میں عقیدۂ آخرت پیش کرنے کے ساتھ اس کی تین دلیلیں ٹھیک ٹھیک منطقی ترتیب کے ساتھ دی گئی ہیں:
اوّل یہ کہ دوسری زندگی ممکن ہے کیونکہ پہلی زندگی کا امکان واقعہ کی صورت میں موجود ہے۔
دوم یہ کہ دوسری زندگی کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ زندگی میں انسان اپنی اخلاقی ذمہ داری کو صحیح یا غلط طور پر جس طرح ادا کرتا ہے اور اس سے سزا اور جزا کا جو استحقاق پیدا ہوتا ہے اس کی بنا پر عقل اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایک اور زندگی ہو جس میں ہر شخص اپنے اخلاقی رویہ کا وہ نتیجہ دیکھے جس کا وہ مستحق ہے۔
سوم یہ ہے جب عقل و انصاف کی رو سے دوسری زندگی کی ضرورت ہے تو یہ ضرورت یقینًا پوری کی جائےگی ، کیونکہ انسان اور کائنات کا خالق حکیم ہے اور حکیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ حکمت و انصاف جس چیز کے متقاضی ہوں اسے وہ وجود میں لانے سے باز رہ جائے۔
غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی بعد موت کو استدلال سے ثابت کر نے کے لیے یہی تین دلیلیں ممکن ہیں اور یہی کافی بھی ہیں ۔ ان دلیلوں کے بعد اگر کسی چیز کی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان کو آنکھوں سے دکھا دیا جائے کہ جو چیز ممکن ہے جس کے وجود میں آنے کی ضرورت بھی ہے ، اور جس کو وجود میں لانا خدا کی حکمت کا تقاضا بھی ہے ، وہ دیکھ یہ تیرے سامنے موجود ہے ۔ لیکن یہ کسر بہر حال موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں کی جائے گی، کیونکہ دیکھ کر ایمان لانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ انسان کا جو امتحان لینا چاہتا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ وہ حِس اور مشاہدے سے بالاتر حقیقتوں کو خالص نظر و فکر اور استدلال صحیح کے ذریعہ سے مانتا ہے یا نہیں۔
اس سلسلہ میں ایک اور اہم مضمون بھی بیان فرما دیا گیا ہے جو گہری توجہ کا مستحق ہے ۔ فرمایا کہ ”اللہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں“ اور”اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غلط بینی و غلط روی سے بچنا چاہتے ہیں“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقے سے زندگی کے مظاہر میں ہر طرف وہ آثار پھیلا رکھے ہیں جو ان مظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی صاف صاف نشان دہی کر رہے ہیں۔ لیکن ان نشانات سے حقیقت تک صرف وہ لوگ رسائی حاصل کر سکتے ہیں جن کے اندر یہ دو صفات موجود ہیں:
ایک یہ کہ وہ جاہلانہ تعصبات سے پاک ہو کر علم حاصل کر نے کے اُن ذرائع سے کام لیں جو اللہ نے انسان کو دیے ہیں۔
دوسرے یہ کہ اُن کے اندر خود یہ خواہش موجود ہو کہ غلطی سے بچیں اور صحیح راستہ اختیار کریں۔
12. یہاں سے پھر دعوے کے ساتھ ساتھ اس کی دلیل بھی اشارۃً بیان کر دی گئی ہے ۔ دعویٰ یہ ہے کہ عقیدۂ آخرت کے انکار کا لازمی اورقطعی نتیجہ جہنم ہے، اور دلیل ہے کہ اس عقیدے سے منکر یا خالی الذہن ہو کر انسان اُن برائیوں کا اکتساب کرتا ہے جن کی سزا جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے اور ہزارہا سال کے انسانی رویّے کا تجربہ اس پر شاہد ہے ۔ جو لوگ خدا کے سامنے اپنےآپ کو ذمہ دار اور جواب دہ نہیں سمجھتے ، جو اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے کہ انہیں آخر کار خدا کو اپنے پورے کارنامۂ حیات کا حساب دینا ہے ، جو اس مفروضے پر کام کرتے ہیں کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے ، جن کے نزدیک کامیابی و ناکامی کا معیار صرف یہ ہے کہ اس دنیا میںّ آدمی نے کس قدر خوشحالی ، آسائش ، شہرت اور طاقت حاصل کی، اور جو اپنے انہی مادّہ پرستانہ تخیلات کی بنا پر آیات الہٰی کو ناقابل توجہ سمجھتے ہیں ، ان کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ دنیا میں شتر بے مہار بن کر رہتے ہیں ، نہات برے اخلاق و اوصاف کا اکتساب کرنے میں ، خدا کی زمین کو ظلم و فساد اور فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں، اور اس بنا پر جہنم کے مستحق بن جاتے ہیں۔
یہ عقیدہ ٔ آخرت پر ایک اور نوعیت کی دلیل ہے ۔ پہلی تین دلیلیں عقلی استدلال کے قبیل سے تھیں، اور یہ تجربی استدلال کے قبیل سے ہے۔ یہاں اسے صرف اشارۃ بیان کیا گیا ہے، مگر قرآن میں مختلف مواقع پر ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا انفرادی رویّہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویّہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی برائی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اگر عقیدۂ آخرت حقیقتِ نفس الامری کے مطابق نہ ہوا اور اُ س کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار و انکار کے نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجائے خود صحیح ہے۔
اس کے جواب میں بسا اوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین ِ آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفہ ٔ اخلاق اور دستورِ عمل سراسر دہریت و مادّہ پرستی پر مبنی ہے پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلق خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہو جاتی ہے۔ تمام مادّہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات فکر کی جانچ پڑتال کر کے دیکھ لیا جائے۔ کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراج تحسین اِن”نیکوکار“ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی ، امانت، دیانت ، وفائے عہد ، عدل ، رحم، فیاضی ، ایثار، ہمدردی ، ضبط نفس، عفت ، حق شناسی، اور ادائے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں ۔ خدا اور آخرت کو نظر انداز کر دینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابل عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت(Utilitarianism ) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے ۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے ، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف ، یا اُس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے ، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی امید اور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ ، امانت اور خیانت، ایمانداری اور بے ایمانی ، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسبِ موقع ارتکاب کرا سکتی ہے۔ اِن اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانہ کی انگریز قوم ہے جس کواکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے بہترین تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سےزیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسنداور معاملات میں قابل اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپائیداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راستبازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجائے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمائندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم ، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا ؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویّے اختیار کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں؟
تاہم اگر کوئی منکر خدا و آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیز گاری اس کے مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اُن مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیر شعور ی طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایۂ مذہب سے چُرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادّہ پرستی کے خزانے میں اِس سرمائے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کر سکتا۔
13. اس جملے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے۔ اس کے مضمون کی ترتیب گہری توجہ کی مستحق ہے:
ان لوگوں کو آخرت کی زندگی میں جنت کیوں ملے گی؟ ۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ دنیا کی زندگی میں سیدھی راہ چلے۔ ہر کام میں ، ہر شعبہ زندگی میں ، ہر انفرادی و اجتماعی معاملے میں انہوں نے برحق طریقہ اختیار کیا اور باطل طریقوں کو چھوڑ دیا۔
یہ ہر ہر قدم پر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دوراہے پر ، اُن کو صحیح اور غلط ، حق اور باطل ، راست اور ناراست کی تمیز کیسے حاصل ہوئی؟ اور پھر اس تمیز کے مطابق راست روی پر ثبات اور کج روی سے پرہیز کی طاقت انہیں کہاں سے ملی؟ ۔۔۔۔۔۔ ان کے رب کی طرف سے، کیونکہ وہی علمی رہنمائی اور عملی توفیق کا منبع ہے۔
ان کا رب انہیں یہ ہدایت اور یہ توفیق کیوں دیتا رہا؟ ۔۔۔۔۔۔ ان کے ایمان کی وجہ سے۔
یہ نتائج جو اوپر بیان ہوئے ہیں کس ایمان کےنتائج ہیں؟ ۔۔۔۔۔ اُس پر ایمان کے نہیں جو محض مان لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اُس ایمان کے جو سیرت و کردار کی روح بن جائے اور جس کی طاقت سے اخلاق و اعمال میں صلاح کا ظہور ہونے لگے۔ اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات ، تندرستی، قوتِ کار، اور لذتِ زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے۔ لیکن یہ نتائج اُس تغذیہ کہ نہیں ہوتے جو محض کھا لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اُس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہو کر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سےوہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی ، راست بینی، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقو ف ہے، مگر یہ نتائج اُن عقائد کے نہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بے کار پڑے ہوئے ہوں، بلکہ ان عقائد کے ہیں جو نفس کے اندر جذب و پیوست ہو کر اندازِ فکر اور مذاقِ طبع اور افتادِ مزاج بن جائیں، اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی میں نمایاں ہوں۔ خدا کے قانونِ طبیعی میں وہ شخص جو کھا کر نہ کھانے والے کی طرح رہے ، اُن انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اُس کے قانونِ اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے اُن انعامات کا مستحق ہو سکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟