106. جس مضمون سے تقریر کی ابتدا کی گئی تھی اسی پر اب تقریر کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ تقابل کے لیے پہلے رکوع کے مضمون پر پھر ایک نظر ڈال لی جائے۔
107. متن میں لفظ یَتَوَفّٰکُمْ ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ”جو تمہیں موت دیتا ہے“۔ لیکن اس لفظی ترجمہ سے اصل روح ظاہر نہیں ہوتی ۔ اس ارشاد کی روح یہ ہے کہ ”وہ جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے، جو تم پر ایسا مکمل حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اسی وقت تک تم جی سکتے ہو اور جس وقت اس کا اشارہ ہو جائے اسی آن تمہیں اپنی جان اُس جان آفرین کے حوالے کردینی پڑتی ہے، میں صرف اُسی کی پرستش اور اسی کی بندگی و غلامی اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کا قائل ہوں “۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ مشرکینِ مکہ یہ مانتے تھے اور آج بھی ہر قسم کے مشرک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موت صرف اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے ، اس پر کسی دوسرے کا قابو نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جن بزرگوں کو یہ مشرکین خدائی صفات و اختیارات میں شریک ٹھیراتے ہیں ان کے متعلق بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے کوئی خود اپنی موت کا وقت نہیں ٹال سکا ہے۔ پس بیان مدعا کے لیے اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات میں سے کسی دوسری صفت کا ذکر کرنے کے بجائے یہ خاص صفت کہ”وہ جو تمہیں موت دیتا ہے “ یہاں اس لیے انتخاب کی گئی ہے کہ اپنا مسلک بیان کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح ہونے کی دلیل بھی دے دی جائے۔ یعنی سب کو چھوڑ کر میں اُس کی بندگی اس لیے کرتا ہوں کہ زندگی و موت پر تنہا اسی کا اقتدار ہے۔ اور اس کے سوا دوسروں کی بندگی آخر کیوں کروں جب کہ وہ خود اپنی زندگی وموت پر بھی اختیار نہیں رکھتے کجا کہ کسی اور کی زندگی و موت کے مختار ہوں۔ پھر کمال بلاغت یہ ہے کہ ”وہ مجھے موت دینے والا ہے“ کہنے کے بجائے”وہ جو تمہیں موت دیتا ہے“ فرمایا۔ اس طرح ایک ہی لفظ میں بیانِ مدعا، دلیل مدعا، اور دعوت الی المدعیٰ، تینوں فائدے جمع کر دیے گئے ہیں۔ اگر یہ فرمایا جا تا کہ”میں اس کی بندگی کرتا ہوں جومجھے موت دینے والا ہے“ تو اس سے صرف یہی معنی نکلتے کہ”مجھے اس کی بندگی کرنی ہی چاہیے“۔ اب جو یہ فرمایاکہ”میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو تمہیں موت دینے والا ہے“، تو اس سے یہ معنی نکلے کہ مجھے ہی نہیں ، تم کو بھی اُسی کی بندگی کرنی ہی چاہیے اورتم یہ غلطی کر رہے ہو کہ اس کے سوا د دوسروں کی بندگی کیے جاتے ہو۔
108. اس مطالبے کی شدت قابل غور ہے۔ بات اِن الفاظ میں بھی ادا ہو سکتی تھی کہ تو”اِس دین کو اختیار کر لے“ یا ”اس دین پر چل“یا” اس دین کا پیرو بن جا“۔ مگر اللہ تعالیٰ کو بیان کے یہ سب پیرایے ڈھیلے ڈھالے نظر آئے۔ اس دین کی جیسی سخت اور ٹھکی اور کسی ہوئی پیروی مطلوب ہے اس کا اظہار ان کمزور الفاظ سے نہ ہو سکتا تھا۔ لہٰذا اپنا مطالبہ ان الفاظ میں پیش فرمایا کہ ”اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا “۔ اقم وجھک کے لفظی معنی ہیں”اپنا چہرہ جما دے“ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تیرا رُخ ایک ہی طرف قائم ہو۔ ڈگمگاتا اور ہِلتا ڈُلتا نہ ہو۔ کبھی پیچھے اور کبھی آگے اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں نہ مڑتا رہے۔ بالکل ناک کی سیدھ اُسی راستے پر نظر جمائے ہوئے چل جو تجھے دکھا دیا گیا ہے۔ یہ بندش بجائے خود بہت چُست تھی، مگر اس پر بھی اکتفا نہ کیا گیا۔ اس پر ایک اور قید حنیفا کی بڑھا ئی گئی۔حنیف اس کو کہتے ہیں جو سب طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہو رہا ہو۔ پس مطالبہ یہ ہے کہ اس دین کو ، اِس بندگی خدا کے طریقے کو، اس طرزِ زندگی کو کہ پرستش، بندگی ، غلامی، اطاعت، فرمانبرداری سب کچھ صرف اللہ رب العالمین ہی کی کی جائے، ایسی یکسوئی کے ساتھ اختیار کر کہ کِسی دوسرے طریقے کی طرف ذرہ برابر میلان و رحجان بھی نہ ہو۔، اس راہ پر آکر اُن غلط راہوں سے کچھ بھی لگاؤ باقی نہ رہے جنہیں تُو چھوڑ کر آیا ہے اور اُن ٹیڑھے راستوں پر ایک غلط انداز نگاہ بھی نہ پڑے جن پر دنیا چلی جا رہی ہے۔
109. یعنی ان لوگوں میں ہرگز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں ، اس کی صفات میں ، اس کے حقوق میں اور اس کے اختیارات میں کسی طور پر غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں۔ خواہ وہ غیر اللہ ان کا اپنا نفس ہو، یا کوئی دوسرا انسان ہو، یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو، یا کوئی روح ہو، جن ہو، فرشتہ ہو، یا کوئی مادّی یا خیالی یا وہمی وجود ہو۔ پس مطالبہ صرف اِس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ توحیدِ خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر۔ بلکہ اِس سلبی صورت میں بھی ہے کہ اُن لوگوں سے الگ ہو جا جو کسی شکل اور ڈھنگ کا شرک کرتے ہوں ۔ عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی، انفرادی طرزِ زندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظامِ حیات میں بھی، معبدوں اور پرستش گاہوں ہی میں نہیں درس گاہوں میں بھی، عدالت خانوں میں بھی، قانون سازی کی مجلسوں میں بھی، سیاست کےایوانوں میں بھی ، معیشت کے بازاروں میں بھی، غرض ہرجگہ اُن لوگوں کے طریقے سے اپنا طریقہ الگ کر لے جنہوں نے اپنے افکار و اعمال کا پورا نظام خدا پرستی اور ناخدا پرستی کی آمیزش پر قائم کر رکھا ہے۔ توحید کا پیرو زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا، کجا کہ آگے وہ ہوں اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں!
پھر مطالبہ شرک جلی ہی سے پرہیز کا نہیں ہے بلکہ شرک خفی سے بھی کامل اور سخت اجتناب کا ہے۔ بلکہ شرک خفی زیادہ خوفناک ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔ بعض نادان لوگ ”شرک خفی“ کو ”شرک خفیف“ سمجھتے ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ اس کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا شرک جلی کا ہے۔ حالاں کہ خفی کے معنی خفیف کے نہیں ہیں، پوشیدہ و مستور کے ہیں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو دشمن منہ کھول کر دن دہاڑے سامنے آجائے وہ زیادہ خطرناک ہے یا وہ جو آستین میں چھُپا ہوا ہو یا دوست کے لباس میں معانقہ کر رہا ہو؟ بیماری وہ زیادہ مہلک ہے جس کی علامات بالکل نمایاں ہوں یا وہ جو مدتوں تک تندرستی کے دھوکے میں رکھ کر اندر ہی اندر صحت کی جڑ کھوکھلی کر تی رہے؟ جس شرک کو ہر شخص بیک نظر دیکھ کر کہہ دے کہ یہ شرک ہے ، اُس سے تو دینِ توحید کا تصادم بالکل کھلا ہوا ہے۔ مگر جس شرک کو سمجھنے کے لیے گہری نگاہ اور مقتضیات ِ توحید کا عمیق فہم درکار ہے وہ اپنی غیر مرئی جڑیں دین کے نظام میں اس طرح پھیلاتا ہے کہ عام اہلِ توحید کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ ایسے غیر محسوس طریقے سے دین کے مغز کو کھا جاتا ہے کہ کہیں خطرے کا الارم بجنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔