Tafheem ul Quran

Surah 10 Yunus, Ayat 11-20

وَلَوۡ يُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسۡتِعۡجَالَهُمۡ بِالۡخَيۡرِ لَـقُضِىَ اِلَيۡهِمۡ اَجَلُهُمۡ​ؕ فَنَذَرُ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ‏ ﴿10:11﴾ وَاِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِهٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ قَآئِمًا ۚ فَلَمَّا كَشَفۡنَا عَنۡهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنۡ لَّمۡ يَدۡعُنَاۤ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ​ؕ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلۡمُسۡرِفِيۡنَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿10:12﴾ وَلَقَدۡ اَهۡلَـكۡنَا الۡـقُرُوۡنَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا ​ ۙ وَجَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ وَمَا كَانُوۡا لِيُـؤۡمِنُوۡا ​ ؕ كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡقَوۡمَ الۡمُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿10:13﴾ ثُمَّ جَعَلۡنٰكُمۡ خَلٰٓـئِفَ فِى الۡاَرۡضِ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ لِنَـنۡظُرَ كَيۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿10:14﴾ وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ​ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَيۡرِ هٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡهُ​ ؕ قُلۡ مَا يَكُوۡنُ لِىۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَهٗ مِنۡ تِلۡقَآئِ نَـفۡسِىۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوۡحٰۤى اِلَىَّ​ ۚ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَيۡتُ رَبِّىۡ عَذَابَ يَوۡمٍ عَظِيۡمٍ‏ ﴿10:15﴾ قُلْ لَّوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوۡتُهٗ عَلَيۡكُمۡ وَلَاۤ اَدۡرٰٮكُمۡ بِهٖ ​ۖ  فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِيۡكُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِهٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿10:16﴾ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوۡ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ ؕ اِنَّهٗ لَا يُفۡلِحُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿10:17﴾ وَيَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُمۡ وَلَا يَنۡفَعُهُمۡ وَيَقُوۡلُوۡنَ هٰٓؤُلَاۤءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰهِ​ؕ قُلۡ اَتُـنَـبِّـُٔوۡنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعۡلَمُ فِى السَّمٰوٰتِ وَلَا فِى الۡاَرۡضِ​ؕ سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿10:18﴾ وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخۡتَلَفُوۡا​ ؕ وَلَوۡلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّكَ لَـقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ فِيۡمَا فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ‏  ﴿10:19﴾ ​وَيَقُوۡلُوۡنَ لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡهِ اٰيَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ​ ۚ فَقُلۡ اِنَّمَا الۡغَيۡبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوۡا​ ۚ اِنِّىۡ مَعَكُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِيۡنَ‏  ﴿10:20﴾

11 - اگر کہیں 15اللہ لوگوں کے ساتھ بُرا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دُنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کے مہلت ِعمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے) اِس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُوٹ دے دیتے ہیں ۔ 12 - انسان کا یہ حال ہے کہ جب اُس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پُکارتا ہے، مگر جب ہم اُس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اُس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پُکارا ہی نہ تھا۔ اِس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتُوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔ 13 - لوگو، تم سے پہلے کی قوموں کو 16(جو اپنے اپنے زمانہ میں برسرِ عرُوج تھیں)ہم نے ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کی روِش17 اختیار کی اور اُن کے رسول اُن کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے اور انہوں نے ایمان لاکر ہی نہ دیا۔ اِس طرح ہم مجرموں کو اُن کے جرائم کا بدلہ دیا کرتے ہیں۔ 14 - اب اُن کے بعد ہم نے تم کو زمین میں ان کی جگہ دی ہے ، تاکہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔18 15 - جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سُنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ ”اِس کے بجائے کوئی اور قرآن لاوٴ یا اس میں کچھ ترمیم کرو“۔19 اے محمد ؐ ، ان سے کہو ”میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اِس میں کوئی تغیّر و تبدّل کر لوں، میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔“20 16 - اور کہو ”اگر اللہ کی مشیّت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سُناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا ۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گُزار چُکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ 21 17 - پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔22 یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔“23 18 - یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ اے محمد ؐ ، ان سے کہو ”کیا تم اللہ کو اُس بات کی خبر دیتے ہو جسے نہ وہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں؟“24 پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ 19 - ابتداً سارے انسان ایک ہی اُمّت تھے ، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے25، اور اگر تیرے ربّ کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر لی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کر دیا جاتا۔26 20 - اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اِس نبی ؐ پر اِ س کے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتاری گئی،27 تو اِن سے کہو ” غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے، اچھا، انتظار کرو ، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔“28 ؏ ۲


Notes

15. اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب نصیحت اور تفہیم کی تقریر شروع ہوتی ہے۔ اس تقریر کو پڑھنے سے پہلے اس کے پس منظر سے متعلق دو باتیں پیشِ نظر رکھنی چاہییں:

ایک یہ کہ اِس تقریر سے تھوڑی مدّت پہلے وہ مسلسل اور سخت بلا انگیز ، قحط ختم ہوا تھا جس کی مصیبت سے اہلِ مکہ چیخ اُٹھے تھے۔ اس قحط کے زمانے میں قریش کے متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں بہت جھک گئی تھیں۔ دعائیں اور زاریاں کرتے تھے ، بت پرستی میں کمی آگئی تھی، خدائے واحد کی طرف رجوع بڑھ گیا تھا اور نوبت یہ آگئی تھی کہ آخر کار ابو سفیان نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپؐ خدا سے اس بلا کو ٹالنے کے لیے دعا کریں۔ مگر جب قحط دُور ہو گیا، بارشیں ہونے لگیں اور خوشحالی کا دَور آیا تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں اور بد اعمالیاں ، اور دینِ حق کے خلا ف وہی سرگرمیاں پھر شروع ہو گئیں اور جو دل خدا کی طرف رجوع کر نے لگے تھے وہ پھر اپنی سابق غفلتوں میں ڈوب گئے ۔ (ملاحظہ ہو النحل، آیت ۱۱۳۔ المومنون، آیات ۷۵ تا ۷۷۔ ، الدخان، آیات ۱۰ تا ۱۶)۔

دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ان لوگوں کو انکار ِ حق کی پاداش سے ڈراتے تھے تو یہ لوگ جواب میں کہتے تھے کہ تم جس عذابِ الہٰی کی دھمکیاں دیتے ہو وہ آخر آکیوں نہیں جاتا۔ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے۔

اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا لوگوں پر رحم و کرم فرمانے میں جتنی جلدی کرتا ہے ان کو سزا دینے اور ان کے گناہوں پر پکڑ لینے میں اتنی جلدی نہیں کرتا۔ تم چاہتے ہو کہ جس طرح اس نے تمہاری دعائیں سُن کر بلائے قحط جلدی سے دُور کر دی ۔ اُسی طرح وہ تمہارےچیلنج سُن کر اور تمہاری سرکشیاں دیکھ کر عذاب بھی فورًا بھیج دے۔ لیکن خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے۔ لوگ خواہ کتنی ہی سرکشیاں کیے جائیں وہ ان کو پکڑنے سے پہلے سنبھلنے کا کافی موقع دیتا ہے۔ پیہم تنبیہات بھیجتا ہے اور رسی ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب رعایت کی حد ہو جاتی ہے تب پاداش عمل کا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ یہ تو ہے خدا کا طریقہ۔ اور اس کے برعکس کم ظرف انسانوں کا طریقہ وہ ہے جو تم نے اختیار کیا کہ جب مصیبت آئی تو خدا یاد آنے لگا، بلبلانا اور گڑگڑانا شروع کر دیا، اور جہاں راحت کا دَور آیا کہ سب کچھ بھول گئے ۔ یہی وہ لچھن ہیں جن سے قومیں اپنے آپ کو عذاب ِ الہٰی کا مستحق بناتی ہیں۔

16. اصل میں لفظ ”قَرن“ استعمال ہوا ہے جس سے مراد عام طور پر تو عربی زبان میں ایک ”عہد کے لوگ“ ہوتے ہیں، لیکن قرآن مجید میں جس انداز سے مختلف مواقع پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ”قرن“ سے مراد وہ قوم ہے جو اپنے دور میں برسر عروج اور کلّی یا جزئی طور پر امامت ِ عالم پر سرفراز رہی ہو۔ ایسی قوم کی ہلاکت لازمًا یہی معنی نہیں رکھتی کہ اس کی نسل کو بالکل غارت ہی کر دیا جائے۔ بلکہ اس کا مقام عروج و امامت سے گرا دیا جانا، اس کی تہذیب و تمدن کا تباہ ہو جانا ، اس کے تشخص کا مٹ جانا اور اس کے اجزاء کا پارہ پارہ ہو کر دوسری قوموں میں گم ہو جانا ، یہ بھی ہلاکت ہی کی ایک صورت ہے۔

17. یہ لفظِ ظلم اُن محدود معنوں میں نہیں ہے جو عام طور پر اس سے مراد لیے جاتے ہیں، بلکہ یہ ان تمام گناہوں پر حاوی ہے جو انسان بندگی کی حد سے گزر کر کرتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۴۹)۔

18. خیال رہے کہ خطاب اہلِ عرب سے ہو رہا ہے ۔ اور ان سے کہا یہ جا رہا ہے کہ پچھلی قوموں کو اپنے اپنے زمانے میں کام کرنے کا موقع دیا گیا تھا ، مگر انہوں نے آخر کار ظلم و بغاوت کی روش اختیار کی اور جو انبیاء ان کو راہِ راست دکھانے کے لیے بھیجے گئے تھے ان کی بات انہوں نے نہ مانی۔ اس لیے وہ ہمارے امتحان میں ناکام ہوئیں اور میدان سے ہٹا دی گئیں۔ اب اے اہلِ عرب تمہاری باری آئی ہے ۔ تمہیں ان کی جگہ کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ تم اس امتحان گاہ میں کھڑے ہو جس سے تمہارے پیش رو ناکام ہو کر نکالے جا چکے ہیں۔ اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارا انجام بھی وہی ہو جو ان کاہوا تو اس موقع سے ، جو تمہیں دیا جا رہا ہے ، صحیح فائدہ اُٹھاؤ، پچھلی قوموں کی تاریخ سے سبق لو اور اُن غلطیوں کا اعادہ نہ کرو جو ان کی تباہی کی موجب ہوئیں۔

19. اُن کا یہ قول اوّل تو اس مفروضے پر مبنی تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ پیش کر رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے دماغ کی تصنیف ہے، اور اس کو خدا کی طرف منسوب کر کے انہوں نے صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ ان کی بات کا وزن بڑھ جائے ۔ دوسرے ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ تم نے توحید اور آخرت اور اخلاقی پابندیوں کی بحث کیا چھیڑ دی، اگر رہنمائی کے لیے اُٹھے ہو تو کوئی ایسی چیز پیش کرو جس سے قوم کا بھلا ہو اور اس کی دنیا بنتی نظر آئے۔ تا ہم اگر تم اپنی اس دعوت کو بالکل نہیں بدلنا چاہتے تو کم از کم اس میں اتنی لچک ہی پیدا کر و کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کم و بیش پر مصالحت ہو سکے ۔ کچھ ہم تمہاری مانیں، کچھ تم ہماری مان لو۔ تمہاری توحید میں کچھ ہمارے شرک کے لیے، تمہاری خدا پرستی میں کچھ ہماری نفس پرستی اور دنیا پرستی کے لیے اور تمہار ے عقیدۂ آخرت میں کچھ ہماری اِن امیدوں کے یے بھی گنجائش نکلنی چاہیے کہ دنیا میں ہم جو چاہیں کرتے رہیں، آخرت میں ہماری کسی نہ کسی طرح نجات ضرور ہو جائے ۔ پھر تمہارے یہ قطعی اور حتمی اخلاقی اصول بھی ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں۔ ان میں کچھ ہمارے تعصبات کے لیے ، کچھ ہمارے رسم و رواج کے لیے ، کچھ ہماری شخصی اور قومی اغراض کے لیے ، اور کچھ ہماری خواہشات نفس کے لیے بھی جگہ نکلنی چاہیے، کیوں نہ ایسا ہو کہ دین کے مطالبات کا ایک مناسب دائرہ ہماری اور تمہاری رضامندی سے طے ہو جائے اور اس میں ہم خدا کا حق ادا کر دیں ۔ اس کے بعد ہمیں آزاد چھوڑ دیا جائے کہ جس جس طرح اپنی دنیا کے کام چلانا چاہتے ہیں چلائیں۔ مگر تم یہ غضب کر رہے ہو کہ پوری زندگی کو اور سارے معاملات کو توحید و آخرت کے عقیدے اور شریعت کے ضابطہ سے کس دینا چاہتے ہو۔

20. یہ اوپر کی دونوں باتوں کا جواب ہے۔ اس میں یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ وحی کے ذریعہ سے میرے پاس آئی ہے جس میں کسی ردوبدل کا مجھے اختیار نہیں ۔ اور یہ بھی کہ اس معاملہ میں مصالحت کا قطعًا کوئی امکان نہیں ہے ، قبول کرنا ہو تواس پورے دین کو جوں کا توں قبول کر و ورنہ پورے کو رد کر دو۔

21. یہ ایک زبردست دلیل ہے اُن کے اِس خیال کی تردید میں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو خود اپنے دل سے گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوے کی تائید میں کہ وہ خود اس کے مصنف نہیں ہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے بذریعہ وحی ان پر نازل ہو رہا ہے۔ دوسرے تمام دلائل تو پھر نسبتًا دور کی چیز تھے، مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو اُن لوگوں کے سامنے کی چیز تھی۔ آپؐ نے نبوت سے پہلے پورے چالیس سال ان کے درمیان گزارے تھے ۔ ان کے شہر میں پیدا ہوئے ، ان کی آنکھوں کے سامنے بچپن گزرا، جوان ہوئے، ادھیڑ عمر کو پہنچے۔ رہنا سہنا، ملنا چلنا، لین دین، شادی بیاہ، غرض ہر قسم کا معاشرتی تعلق انہی کے ساتھ تھا اور آپؐ کی زندگی کا کوئی پہلو اُن سے چھپا ہوا نہ تھا۔ ایسی جانی بوجھی اور دیکھی بھالی چیز سے زیادہ کھلی شہادت اور کیا ہو سکتی تھی۔

آپؐ کی اس زندگی میں دو باتیں بالکل عیاں تھیں جنہیں مکہ کے لوگوں میں سے ایک ایک شخص جانتا تھا:

ایک یہ کہ نبوت سے پہلے کی پوری چالیس سالہ زندگی میں آپؐ نے کوئی ایسی تعلیم ، تربیت اور صحبت نہیں پائی جس سے آپؐ کو وہ معلومات حاصل ہوتیں جن کے چشمے یکایک دعوائے نبوت کے ساتھ ہی آپؐ کی زبان سے پھوٹنے شروع ہو گئے۔ اس سے پہلے کبھی آپؐ اُن مسائل سے دلچسپی لیتے ہوئے، ان مباحث پر گفتگو کرتے ہوئے، اور ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے جو اب قرآن کی اِن پے درپے سورتوں میں زیر بحث آرہے تھے۔ حد یہ ہے کہ اس پورے چالیس سال کے دوران میں کبھی آپؐ کے کسی گہرے دوست اور کسی قریب ترین رشتہ دار نے بھی آپؐ کی باتوں اور آپؐ کی حرکات و سکنات میں کوئی ایسی چیز محسوس نہیں کی جسے اُس عظیم الشان دعوت کی تمہید کہا جا سکتا ہو جو آپؐ نے اچانک چالیسویں سال کو پہنچ کر دینی شروع کر دی۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت تھا کہ قرآن آپ کے اپنے دماغ کی پیداوار نہیں ہے ، بلکہ خارج سے آپ کے اندر آئی ہوئی چیز ہے۔ اس لیے کہ انسانی دماغ اپنی عمر کے کسی مرحلے میں بھی ایسی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتا جس کے نشونما اور ارتقاء کے واضح نشانات اُس سے پہلے کے مرحلوں میں نہ پائے جاتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ کے بعض چالاک لوگوں نے جب خود محسوس کیا کر لیا کہ قرآن کو آپ کے دماغ کی پیداوار قرار دینا صریح طور پر ایک لغو الزام ہے تو آخر کو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کوئی اور شخص ہے جو محمدؐ کو یہ باتیں سکھا دیتا ہے۔ لیکن یہ دوسری بات پہلی بات سے بھی زیادہ لغو تھی۔ کیونکہ مکہ تودرکنار ، پورے عرب میں کوئی اس قابلیت کا آدمی نہ تھا جس پر انگلی رکھ کر کہہ دیا جا تا کہ یہ اس کلام کا مصنف ہے یا ہو سکتاہے۔ ایسی قابلیت کا آدمی کسی سوسائٹی میں چھپا کیسے رہ سکتا ہے؟

دوسری بات جو آپؐ کی سابق زندگی میں بالکل نمایاں تھی ، وہ یہ تھی کہ جھوٹ ، فریب ، جعل ، مکاری، عیاری اور اس قبیل کے دوسرے اوصاف میں سے کسی کا ادنیٰ شائبہ تک آپ کی سیرت میں نہ پایا جاتا تھا۔ پوری سوسائٹی میں کوئی ایسا نہ تھا جو یہ کہہ سکتا ہو کہ اس چالیس سال کی یکجائی معاشرت میں آپؐ سے کسی ایسی صفت کا تجربہ اسے ہو ا ہے۔ بر عکس اس کے جن جن لوگوں کو بھی آپؐ سےسابقہ پیش آیا تھا وہ آپؐ کو اک نہایت سچے، بے داغ، اور قابل اعتماد (امین) انسان کی حیثیت ہی سے جانتے تھے۔ نبوت سے پانچ ہی سال پہلے تعمیر کعبہ کے سلسلہ میں وہ مشہور واقعہ پیش آچکا تھا جس میں حجر اسود کو نصب کرنے کے معاملہ پر قریش کے مختلف خاندان جھگڑ پڑے تھے اور آپس میں طے ہوا تھا کہ کل صبح پہلا شخص جو حرم میں داخل ہو گا اسی کو پنچ مان لیا جائے گا۔ دوسرے روز وہ شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو وہاں داخل ہوئے۔ آپ کو دیکھتے ہی سب لوگ پکار اُٹھے ھذا الامین ، رضینا، ھٰذا محمدؐ۔ ”یہ بالکل راستباز آدمی ہے، ہم اس پر راضی ہیں۔ یہ تو محمدؐ ہے“۔ اس طرح آپؐ کو نبی مقرر کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ پورے قبیلہ ٔ قریش سے بھرے مجمع میں آپؐ کے ”امین“ ہونے کی شہادت لے چکا تھا۔ اب یہ گمان کرنے کی کیا گنجائش تھی کہ جس شخص نے تمام عمر کبھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں بھی جھوٹ ، جعل اور فریب سے کام نہ لیا تھا وہ یکایک اتنا بڑا جھوٹ اور ایسا عظیم الشان جعل و فریب لے کر اُٹھ کھڑا ہوا کہ اپنے ذہن سے کچھ باتیں تصنیف کیں اور ان کو پورے زور اور تحدِّی کے ساتھ خدا کی طرف منسوب کرنے لگا۔

اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان کے اس بیہودہ الزام کے جواب میں ان سے کہو کہ اللہ کے بندو، کچھ عقل سے تو کام لو، میں کوئی باہر سے آیا ہوا اجنبی آدمی نہیں ہوں، تمہارے درمیان اس سے پہلے ایک عمر گزار چکا ہوں ، میری سابق زندگی کو دیکھتے ہوئے تم کیسے یہ توقع مجھ سے کرسکتے ہو کہ میں خدا کی تعلیم اور اس کے حکم کے بغیر یہ قرآن تمہارے سامنے پیش کر سکتا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ قَصَص، حاشیہ نمبر ۱۰۹)۔

22. یعنی اگر یہ آیات خدا کی نہیں ہیں اور میں انہیں خود تصنیف کر کے آیات الہٰی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ اور اگر یہ واقعی اللہ آیات ہیں اور تم ان کو جھٹلا رہے ہو تو پھر تم سے بڑا بھی کوئی ظالم نہیں۔

23. بعض نادان لوگ”فلاح“ کو طویل عمر ، یا دنیوی خوشحالی ، یا دنیوی فروغ کے معنی میں لے لیتے ہیں، اور پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کر کے جیتا رہے، یا دنیا میں پھلے پھولے، یا اس کی دعوت کو فروغ نصیب ہو، اُسے نبی برحق مان لینا چاہیے کیونکہ اس نے فلاح پائی۔ اگر وہ نبی برحق نہ ہوتا تو جھوٹا دعویٰ کرتے ہی مار ڈالا جاتا، یا بھوکوں مار دیا جاتا اور دنیا میں اس کی بات چلنے ہی نہ پاتی۔ لیکن یہ احمقانہ استدلال صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو نہ تو قرآنی اصطلاحِ ”فلاح“ کا مفہوم جانتا ہو، نہ اُس قانونِ اِمہال سے واقف ہو جو قرآن کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مجرموں کے لیے مقرر فرمایا ہے، اور نہ یہی سمجھتا ہو کہ اس سلسلہ ٔ بیان میں یہ فقرہ کس معنی میں آیا ہے۔

اوّل تو یہ بات کہ”مجرم فلاح نہیں پا سکتے“ اس سیاق میں اس حیثیت سے فرمائی ہی نہیں گئی ہے کہ یہ کسی کے دعوائے نبوت کو پرکھنے کا معیار ہے جس سے عام لوگ جانچ کر خود فیصلہ کر لیں کہ جو مدعی نبوت ”فلاح“ پار ہا ہو اس کے دعوے کو مانیں اور جو فلاح نہ پا رہا ہو اس کا انکار کر دیں۔ بلکہ یہاں تو یہ بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ”میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ مجرموں کو فلاح نصیب نہیں ہو سکتی، اس لیے میں خود تو یہ جرم نہیں کر سکتا کہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کروں، البتہ تمہارے متعلق مجھے یقین ہے کہ تم سچّے نبی کو جھٹلانے کا جرم کر رہے ہو اس لیے تمہیں فلاح نصیب نہیں ہو گی“۔

پھر فلاح کا لفظ بھی قرآن میں دنیوی فلاح کے محدود معنی میں نہیں آیا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ پائیدار کامیابی ہے جو کسی خسران پر منتج ہونے والی نہ ہو، قطع نظر اس سے کہ دنیوی زندگی کے اِس ابتدائی مرحلہ میں اس کے اندر کامیابی کا کوئی پہلو ہو یا نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک داعی ضلالت دنیا میں مزے سے جیے، خوب پھلے پھولے اور اس کی گمراہی کو بڑا فروغ نصیب ہو، مگر یہ قرآن کی اصطلاح میں فلاح نہیں، عین خسران ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک داعیِ حق دنیا میں سخت مصیبتوں سے دوچار ہو، شدّتِ آلام سے نڈھال ہو کر یا ظالموں کی دست درازیوں کا شکار ہوکر دنیا سے جلدی رخصت ہو جائے، اور کوئی اسے مان کر نہ دے، مگر یہ قرآن کی زبان میں خسران نہیں، عین فلاح ہے۔

علاوہ بریں قرآن میں جگہ جگہ یہ بات پوری تشریح کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو پکڑنے میں جلدی نہیں کیا کرتا بلکہ انہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے، اور اگر وہ اس مہلت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اور زیادہ بگڑتے ہیں تواللہ کی طرف سے ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور بسا اوقات ان کو نعمتوں سے نوازا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کی چھپی ہوئی تمام شرارتوں کو پوری طرح ظہور میں لے آئیں اور اپنے عمل کی بنا پر اُس سزا کے مستحق ہو جائیں جس کے وہ اپنی بری صفات کی وجہ سے فی الحقیقت مستحق ہیں۔ پس اگر کسی جھوٹے مدعی کی رسی دراز ہو رہی ہو اور اس پر دنیوی ”فلاح“ کی برسات برس رہی ہو تو سخت غلطی ہو گی اگر اس کی اس حالت کو اس کے برسر ہدایت ہونے کی دلیل سمجھا جائے۔ خدا کا قانون ِ اِمہال و استدراج جس طرح تمام مجرموں کے لیے عام ہے اسی طرح جھوٹے مدعیان نبوت کے لیے بھی ہے اور ان کے اس مستثنیٰ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر شیطان کو قیامت تک کے لیے جو مہلت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس میں بھی یہ استثنا کہیں مذکور نہیں ہے کہ تیرے اور تو سارے فریب چلنے دیے جائیں گے لیکن اگر تُو اپنی طرف سے کوئی نبی کھڑا کرے گا تو یہ فریب نہ چلنے دیا جائے گا۔

ممکن ہے کوئی شخص ہماری اس بات کے جواب میں وہ آیت پیش کرے جو سورہ الحاقہ آیات ۴۴ – ۴۷ میں ارشاد ہوئی ہے کہ وَلَوْ تَقَوَّ لَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ o لَاَ خَذْنَا مِنْہُ بِا لْیَمِیْنِ o ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ ۔”یعنی اگر محمد ؐ نے خود گھڑ کر کوئی بات ہمارے نام سے کہی ہوتی تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگِ دل کاٹ ڈالتے“۔ لیکن اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ تو یہ ہے کہ جو شخص فی الواقع خدا کی طرف سے نبی مقرر کیا گیا ہو وہ اگر جھوٹی بات گھڑ کر وحی کی حیثیت سے پیش کرے تو فورًا پکڑا جائے ۔ اِس سے یہ استدلال کرنا کہ جو مدعی نبوت پکڑ انہیں جا رہا ہے وہ ضرور سچا ہے۔ ایک منطقی مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خدا کے قانونِ اِمہال و استدراج میں جو استثناء اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے وہ صرف سچے نبی کے لیے ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے وہ بھی اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سرکاری ملازموں کے لیے حکومت نے جو قانون بنایا ہو اس کا اطلاق صرف انہی لوگوں پر ہو گا جو واقعی سرکاری ملازم ہوں ۔ رہے وہ لوگ جو جعلی طور پر اپنے آپ کو ایک سرکاری عہدہ دار کی حیثیت سے پیش کریں ، تو ان پر ضابطۂ ملازمت کا نفاذ نہ ہوگا بلکہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ضابطہ ٔ فوجداری کے تحت عام بدمعاشوں اور مجرموں کے ساتھ کیا جا تا ہے۔ علاوہ بریں سورۂ الحاقہ کی اس آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ بھی اِس غرض کے لیے نہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نبی کے پرکھنے کا یہ معیار بتایا جائے کہ اگر پردۂ غیب سے کوئی ہاتھ نمودار ہو کر اس کی رگِ دل اچانک کاٹ لے تو سمجھیں جھوٹا ہے ورنہ مان لیں کہ سچا ہے۔ نبی کے صادق یا کاذب ہونے کی جانچ اگر اس کی سیرت، اس کے کام ، اور اُس چیز سے جو وہ پیش کررہا ہو، ممکن نہ ہو تی تو ایسے غیر معقول معیار تجویز کرنے کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔

24. کسی چیز کا اللہ کے علم میں نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں ، اس لیے کہ سب کچھ جو موجود ہے اللہ کے علم میں ہے۔ پس سفارشیوں کے معدوم ہونے کے لیے یہ ایک نہایت لطیف انداز بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا نہیں کہ زمین یا آسمان میں کوئی اس کے حضور تمہاری سفارش کرنے والا ہے ، پھر یہ تم کن سفارشیوں کی اس کو خبر دے رہے ہو؟

25. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۳۰، الانعام، حاشیہ نمبر ۲۴۔

26. یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کر لیا ہوتا کہ حقیقت کو انسانوں کے حواس سے پوشیدہ رکھ کر ان کی عقل و فہم اور ضمیر و وجدان کو آزمائش میں ڈالا جائے گا،اور جو اس آزمائش میں ناکام ہو کر غلط راہ پر جانا چاہیں گے انہیں ا س راہ پر جانے اور چلنے کا موقع دیا جائے گا ، تو حقیقت کو آج ہی بے نقاب کر کے سارے اختلافات کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔

یہاں یہ بات ایک بڑی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے۔ عام طور پر آج بھی لوگ اس اُلجھن میں ہیں اور نزول ِ قرآن کے وقت بھی تھے کہ دنیا میں بہت سے مذہب پائے جاتے ہیں اور ہر مذہب والا اپنے ہی مذہب کو حق سمجھتا ہے۔ ایسی حالت میں آخر اس فیصلے کی صورت کیا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ یہ اختلاف ِ مذاہب دراصل بعد کی پیداوار ہے ۔ ابتداء میں تمام نوعِ انسانی کا مذہب ایک تھا اور وہی مذہب حق تھا۔ پھر اس حق میں اختلاف کر کے لوگ مختلف عقیدے اور مذہب بناتے چلے گئے۔ اب اگر اس ہنگامۂ مذاہب کا فیصلہ تمہارے نزدیک عقل و شعور کے صحیح استعمال کے بجائے صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ خدا خود حق کو بے نقاب کر کے سامنے لے آئے تو یہ موجودہ دنیوی زندگی میں نہیں ہو گا۔ دنیا کی یہ زندگی تو ہے ہی امتحان کے لیے ، اور یہاں سارا امتحان اِسی بات کا ہے کہ تم حق کو دیکھے بغیر عقل و شعور سے پہچانتے ہو یا نہیں۔

27. یعنی اس بات کی نشانی کہ یہ واقعی نبی بر حق ہے اور جو کچھ پیش کر رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نشانی کے لیے ان کا یہ مطالبہ کچھ اس بنا پر نہیں تھا کہ وہ سچے دل سے دعوتِ حق کو قبول کرنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے اخلاق کو ، عادت کو، نظامِ معاشرت و تمدن کو ، غرض اپنی پوری زندگی کو ڈھال لینے کے لیے تیار تھے اور بس اس وجہ سے ٹھیرے ہوئے تھے کہ نبی کی تائید میں کوئی نشانی ابھی انہوں نے ایسی نہیں دیکھی تھی جس سے انہیں اس کی نبوت کا یقین آجائے ۔ اصل بات یہ تھی کہ نشانی کا یہ مطالبہ محض ایمان نہ لانے کے لیے ایک بہانے کے طور پیش جاتا تھا۔ جو کچھ بھی ان کو دکھایا جاتا اس کے بعد وہ یہی کہتے کہ کوئی نشانی تو ہم کو دکھائی ہی نہیں گئی۔ اس لیے کہ وہ ایمان لاناچاہتے نہ تھے۔ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو کو اختیار کرنے میں یہ جو آزادی ان کو حاصل تھی کہ نفس کی خواہشات و رغبات کے مطابق جس طرح چاہیں کام کریں اور جس چیز میں لذت یا فائدہ محسوس کریں اس کے پیچھے لگ جائیں، اِس کو چھوڑ کر وہ ایسی غیبی حقیقتوں (توحید و آخرت) کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے جنہیں مان لینے کے بعد ان کو اپنا سارا نظامِ حیات مستقل اخلاقی اصولوں کی بندش میں باندھنا پڑ جاتا۔

28. یعنی جو کچھ اللہ نے اُتارا ہے وہ تو میں نے پیش کر دیا، اور جو اس نے نہیں اتارا وہ میرے اور تمہارے لیے”غیب“ ہے جس پر سوائے خدا کے کسی کا اختیار نہیں ، وہ چاہے توا تارے اور نہ چاہے تو نہ اُتارے۔ اب اگر تمہارا ایمان لانا اِسی پر موقوف ہے کہ جو کچھ خدا نے نہیں اُتارا ہے وہ اُترے تو اس کے انتظار میں بیٹھے رہو، میں بھی دیکھوں گا کہ تمہاری یہ ضد پوری کی جاتی ہے یا نہیں۔