Tafheem ul Quran

Surah 10 Yunus, Ayat 21-30

وَاِذَاۤ اَذَقۡنَا النَّاسَ رَحۡمَةً مِّنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡهُمۡ اِذَا لَهُمۡ مَّكۡرٌ فِىۡۤ اٰيَاتِنَا​ ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسۡرَعُ مَكۡرًا​ ؕ اِنَّ رُسُلَنَا يَكۡتُبُوۡنَ مَا تَمۡكُرُوۡنَ‏ ﴿10:21﴾ هُوَ الَّذِىۡ يُسَيِّرُكُمۡ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ​ؕ حَتّٰۤى اِذَا كُنۡتُمۡ فِى الۡفُلۡكِ ۚ وَ جَرَيۡنَ بِهِمۡ بِرِيۡحٍ طَيِّبَةٍ وَّفَرِحُوۡا بِهَا جَآءَتۡهَا رِيۡحٌ عَاصِفٌ وَّجَآءَهُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ اُحِيۡطَ بِهِمۡ​ ۙ دَعَوُا اللّٰهَ مُخۡلِصِيۡنَ لَـهُ الدِّيۡنَۙ  لَـئِنۡ اَنۡجَيۡتَـنَا مِنۡ هٰذِهٖ لَنَكُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيۡنَ‏ ﴿10:22﴾ فَلَمَّاۤ اَنۡجٰٮهُمۡ اِذَا هُمۡ يَبۡغُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ بِغَيۡرِ الۡحَـقِّ​ ؕ يٰۤـاَ يُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغۡيُكُمۡ عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ​ۙ مَّتَاعَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا​ ثُمَّ اِلَـيۡنَا مَرۡجِعُكُمۡ فَنُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏  ﴿10:23﴾ اِنَّمَا مَثَلُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا كَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ مِمَّا يَاۡكُلُ النَّاسُ وَالۡاَنۡعَامُؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الۡاَرۡضُ زُخۡرُفَهَا وَازَّيَّنَتۡ وَظَنَّ اَهۡلُهَاۤ اَنَّهُمۡ قٰدِرُوۡنَ عَلَيۡهَاۤ ۙ اَتٰٮهَاۤ اَمۡرُنَا لَيۡلًا اَوۡ نَهَارًا فَجَعَلۡنٰهَا حَصِيۡدًا كَاَنۡ لَّمۡ تَغۡنَ بِالۡاَمۡسِ​ ؕ كَذٰلِكَ نُـفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿10:24﴾ وَاللّٰهُ يَدۡعُوۡۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِؕ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏ ﴿10:25﴾ لِلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰى وَزِيَادَةٌ ؕ وَلَا يَرۡهَقُ وُجُوۡهَهُمۡ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّـةٌ ​ ؕ اُولٰٓـئِكَ اَصۡحٰبُ الۡجَـنَّةِ​ ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏  ﴿10:26﴾ وَالَّذِيۡنَ كَسَبُوا السَّيِّاٰتِ جَزَآءُ سَيِّئَةٍ ۢ بِمِثۡلِهَا ۙ وَتَرۡهَقُهُمۡ ذِلَّـةٌ  ؕ مَا لَهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ عَاصِمٍ​​ ۚ كَاَنَّمَاۤ اُغۡشِيَتۡ وُجُوۡهُهُمۡ قِطَعًا مِّنَ الَّيۡلِ مُظۡلِمًا ​ؕ اُولٰٓـئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ​ ؕ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿10:27﴾ وَيَوۡمَ نَحۡشُرُهُمۡ جَمِيۡعًا ثُمَّ نَقُوۡلُ لِلَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا مَكَانَكُمۡ اَنۡتُمۡ وَشُرَكَآؤُكُمۡ​ۚ فَزَيَّلۡنَا بَيۡنَهُمۡ​ وَقَالَ شُرَكَآؤُهُمۡ مَّا كُنۡتُمۡ اِيَّانَا تَعۡبُدُوۡنَ‏ ﴿10:28﴾ فَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيۡدًۢا بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَكُمۡ اِنۡ كُنَّا عَنۡ عِبَادَتِكُمۡ لَغٰفِلِيۡنَ‏ ﴿10:29﴾ هُنَالِكَ تَبۡلُوۡا كُلُّ نَفۡسٍ مَّاۤ اَسۡلَفَتۡ​ وَرُدُّوۡۤا اِلَى اللّٰهِ مَوۡلٰٮهُمُ الۡحَـقِّ​ وَضَلَّ عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿10:30﴾

21 - لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب اُنہیں رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملے میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں۔29 ان سے کہو ”اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اُس کے فرشتے تمہاری سب مکّاریوں کو قلمبند کر رہے ہیں۔“30 22 - وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے۔ چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ گھِر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اُس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ ”اگر تُو نے ہم کو اِس بلا سے نجات دے دی تو ہم شُکر گزار بندے بنیں گے ۔“31 23 - مگر جب وہ اُن کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے مُنحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ۔ لوگو، تمہاری یہ بغاوت اُلٹی تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے۔ دُنیا کے چند روزہ مزے ہیں (لُوٹ لو)، پھر ہمارے طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے ، اُس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ 24 - دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کے مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں ، خُوب گھنی ہوگئی پھر عین اُس وقت جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور اُن کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کُچھ تھا ہی نہیں۔ اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں۔ 25 - (تم اس ناپائیدار زندگی کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہو)اور اللہ تمہیں دارالسلام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔32 (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے) جس کو وہ چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے ۔ 26 - جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا اُن کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل۔33 ان کے چہروں پر رُو سیاہی اور ذلّت نہ چھائے گی ۔ وہ جنّت کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ 27 - اور جن لوگوں نے بُرائیاں کمائیں ان کی برائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے،34 ذلّت ان پر مسلّط ہوگی ، کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہوگا ، ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہو گی35 جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ 28 - جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں)اکٹھا کریں گے، پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھہر جاوٴ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی ، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے36اور ان کے شریک کہیں گے کہ ”تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے 29 - ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو)ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔“ 37 30 - اُس وقت ہر شخص اپنے کیے کا مزا چکھ لے گا، سب اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیر دیے جائیں گے اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے گُم ہو جائیں گے۔ ؏ ۳


Notes

29. یہ پھر اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آیات ۱۱ – ۱۲ میں گزر چکا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم نشانی آخر کس منہ سے مانگتے ہو۔ ابھی جو قحط تم پر گزرا ہے اس میں تم اپنے اُن معبودوں سے مایوس ہو گئے تھے جنہیں تم نے اللہ کے ہاں اپنا سفارشی ٹھیرا رکھا تھا اور جن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ فلاں آستانے کی نیاز تو تیر بہدف ہے۔ اور فلاں درگاہ پر چڑھاوا چڑھانے کی دیر ہے کہ مراد بر آتی ہے ۔ تم نے دیکھ لیا کہ ان نام نہاد خداؤں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سارے اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے ۔ اسی وجہ سے تو آخر کار تم اللہ ہی سے دعائیں مانگنے لگے تھے ۔ کیا یہ کافی نشانی نہ تھی کہ تمہیں اُس تعلیم کے برحق ہونے کا یقین آجاتا جو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم کو دے رہے ہیں؟ مگر اس نشانی کو دیکھ کر تم نے کیاکیا؟ جونہی کہ قحط دور ہوا اور بارانِ رحمت نے تمہاری مصیبت کا خاتمہ کر دیا، تم نے اس بلا کے آنے اور پھر اس کے دُور ہو نے کے متعلق ہزار قسم کی توجیہیں اور تاویلیں (چالبازیاں) کرنی شروع کر دیں تا کہ توحید کے ماننے سے بچ سکو اور اپنے شرک پر جمے رہ سکو۔ اب جن لوگوں نے اپنے ضمیر کو اس درجہ خراب کر لیا ہو انہیں آخر کونسی نشانی دکھائی جائے اور اس کے دکھانے سے حاصل کیا ہے؟

30. اللہ کی چال سے مراد یہ ہے کہ اگر تم حقیقت کو نہیں مانتے اور اس کے مطابق اپنا رویہ درست نہیں کرتے تو وہ تمہیں اسی باغیانہ روش پر چلتے رہنے کی چھوٹ دے دے گا، تم کو جیتے جی اپنے رزق اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے گا جس سے تمہارا نشۂ زندگانی یونہی تمہیں مست کیے رکھے گا ، اور اس مستی کے دوران جو کچھ تم کرو گے وہ سب اللہ کے فرشتے خاموشی کے ساتھ بیٹھے لکھتے رہیں گے ، حتیٰ کہ اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے کرتُوتوں کا حساب دینے کے لیے دھر لیے جاؤگے۔

31. یہ توحید کے برحق ہونے کی نشانی ہر انسان کے نفس میں موجود ہے۔ جب تک اسباب سازگار رہتے ہیں ، انسان خدا کو بھولا اور دنیا کی زندگی پر پھولا رہتا ہے۔ جہاں اسباب نے ساتھ چھوڑ ا اور وہ سب سہارے جن کے بل پر وہ جی رہا تھا ٹوٹ گئے ، پھر کٹّے سے کٹّے مشرک اور سخت سے سخت دہریے کے قلب سے بھی یہ شہادت اُبلنی شروع ہو جاتی ہے کہ اس سارے عالم اسباب پر کوئی خدا کار فرما ہے اور وہ ایک ہی خدائے غالب و توانا ہے۔ (ملاحظہ ہو الانعام، حاشیہ نمبر ۲۹)۔

32. یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اُس طریقے کی طرف جو آخرت کی زندگی میں تم کو دارالسلام کا مستحق بنائے۔ دارالسلام سے مراد ہے جنت اور اس کے معنی ہیں سلامتی کا گھر ، وہ جگہ جہاں کوئی آفت ، کوئی نقصان ، کوئی رنج اور کوئی تکلیف نہ ہو۔

33. یعنی ان کو صرف ان کی نیکی کے مطابق ہی اجر نہیں ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید انعام بھی بخشے گا۔

34. یعنی نیکوکاروں کے برعکس بدکاروں کے ساتھ معاملہ یہ ہو گا کہ جتنی بدی ہے اتنی ہی سزا دے دی جائے گی۔ ایسا نہ ہو گا کہ جرم سے ذرہ برابر بھی زیادہ سزا دی جائے۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النمل، حاشیہ ۱۰۹ الف)۔

35. وہ تاریکی جو مجرموں کے چہرے پر پکڑے جانے اور بچاؤ سے مایوس ہو جانے کے بعد چھا جاتی ہے۔

36. متن میں فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ کے الفاظ ہیں۔ اس کا مفہوم بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ ہم ان کا باہمی ربط و تعلق توڑ دیں گے تا کہ کسی تعلق کی بنا پر وہ ایک دوسرے کا لحاظ نہ کریں۔ لیکن یہ معنی عربی محاورے کے مطابق نہیں ہیں۔ محاورۂ عرب کی رو سے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان تمیز پیدا کردیں گے ، یا ان کو ایک دوسرے سے ممیز کر دیں گے۔ اسی معنی کو ادا کرنے کے لیے ہم نے یہ طرزِ بیان اختیار کیا ہے کہ”ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے“ یعنی مشرکین اور ان کے معبود آمنے سامنے کھڑے ہوں گے اور دونوں گروہوں کی امتیازی حیثیت ایک دوسرے پر واضح ہو گی، مشرکین جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جن کو ہم دنیا میں معبود بنائے ہوئے تھے، اور ان کے معبود جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جنہوں نے ہمیں اپنا معبود بنا رکھا تھا۔

37. یعنی وہ تمام فرشتے جن کو دنیا میں دیوی اور دیوتا قرار دے کر پوجا گیا ، اور وہ تمام جِنّ، ارواح، اسلاف، اجداد، انبیاء، اولیاء، شہداء وغیرہ جن کو خدائی صفات میں شریک ٹھیرا کر وہ حقوق انہیں ادا کیے گئے جو دراصل خدا کے حقو ق تھے ، وہاں اپنے پرستاروں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہماری عبادت بجا لا رہے ہو۔ تمہاری کوئی دعا ، کوئی التجا، کوئی پکار اور فریاد، کوئی نذر و نیاز، کوئی چڑہاوے کی چیڑ، کوئی تعریف و مدح اور ہمارے نام کی جاپ اور کوئی سجدہ ریزی و آستانہ بوسی و درگاہ گردی ہم تک نہیں پہنچی۔