29. یہ پھر اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آیات ۱۱ – ۱۲ میں گزر چکا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم نشانی آخر کس منہ سے مانگتے ہو۔ ابھی جو قحط تم پر گزرا ہے اس میں تم اپنے اُن معبودوں سے مایوس ہو گئے تھے جنہیں تم نے اللہ کے ہاں اپنا سفارشی ٹھیرا رکھا تھا اور جن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ فلاں آستانے کی نیاز تو تیر بہدف ہے۔ اور فلاں درگاہ پر چڑھاوا چڑھانے کی دیر ہے کہ مراد بر آتی ہے ۔ تم نے دیکھ لیا کہ ان نام نہاد خداؤں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سارے اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے ۔ اسی وجہ سے تو آخر کار تم اللہ ہی سے دعائیں مانگنے لگے تھے ۔ کیا یہ کافی نشانی نہ تھی کہ تمہیں اُس تعلیم کے برحق ہونے کا یقین آجاتا جو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم کو دے رہے ہیں؟ مگر اس نشانی کو دیکھ کر تم نے کیاکیا؟ جونہی کہ قحط دور ہوا اور بارانِ رحمت نے تمہاری مصیبت کا خاتمہ کر دیا، تم نے اس بلا کے آنے اور پھر اس کے دُور ہو نے کے متعلق ہزار قسم کی توجیہیں اور تاویلیں (چالبازیاں) کرنی شروع کر دیں تا کہ توحید کے ماننے سے بچ سکو اور اپنے شرک پر جمے رہ سکو۔ اب جن لوگوں نے اپنے ضمیر کو اس درجہ خراب کر لیا ہو انہیں آخر کونسی نشانی دکھائی جائے اور اس کے دکھانے سے حاصل کیا ہے؟
30. اللہ کی چال سے مراد یہ ہے کہ اگر تم حقیقت کو نہیں مانتے اور اس کے مطابق اپنا رویہ درست نہیں کرتے تو وہ تمہیں اسی باغیانہ روش پر چلتے رہنے کی چھوٹ دے دے گا، تم کو جیتے جی اپنے رزق اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے گا جس سے تمہارا نشۂ زندگانی یونہی تمہیں مست کیے رکھے گا ، اور اس مستی کے دوران جو کچھ تم کرو گے وہ سب اللہ کے فرشتے خاموشی کے ساتھ بیٹھے لکھتے رہیں گے ، حتیٰ کہ اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے کرتُوتوں کا حساب دینے کے لیے دھر لیے جاؤگے۔
31. یہ توحید کے برحق ہونے کی نشانی ہر انسان کے نفس میں موجود ہے۔ جب تک اسباب سازگار رہتے ہیں ، انسان خدا کو بھولا اور دنیا کی زندگی پر پھولا رہتا ہے۔ جہاں اسباب نے ساتھ چھوڑ ا اور وہ سب سہارے جن کے بل پر وہ جی رہا تھا ٹوٹ گئے ، پھر کٹّے سے کٹّے مشرک اور سخت سے سخت دہریے کے قلب سے بھی یہ شہادت اُبلنی شروع ہو جاتی ہے کہ اس سارے عالم اسباب پر کوئی خدا کار فرما ہے اور وہ ایک ہی خدائے غالب و توانا ہے۔ (ملاحظہ ہو الانعام، حاشیہ نمبر ۲۹)۔
32. یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اُس طریقے کی طرف جو آخرت کی زندگی میں تم کو دارالسلام کا مستحق بنائے۔ دارالسلام سے مراد ہے جنت اور اس کے معنی ہیں سلامتی کا گھر ، وہ جگہ جہاں کوئی آفت ، کوئی نقصان ، کوئی رنج اور کوئی تکلیف نہ ہو۔
33. یعنی ان کو صرف ان کی نیکی کے مطابق ہی اجر نہیں ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید انعام بھی بخشے گا۔
34. یعنی نیکوکاروں کے برعکس بدکاروں کے ساتھ معاملہ یہ ہو گا کہ جتنی بدی ہے اتنی ہی سزا دے دی جائے گی۔ ایسا نہ ہو گا کہ جرم سے ذرہ برابر بھی زیادہ سزا دی جائے۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النمل، حاشیہ ۱۰۹ الف)۔
35. وہ تاریکی جو مجرموں کے چہرے پر پکڑے جانے اور بچاؤ سے مایوس ہو جانے کے بعد چھا جاتی ہے۔
36. متن میں فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ کے الفاظ ہیں۔ اس کا مفہوم بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ ہم ان کا باہمی ربط و تعلق توڑ دیں گے تا کہ کسی تعلق کی بنا پر وہ ایک دوسرے کا لحاظ نہ کریں۔ لیکن یہ معنی عربی محاورے کے مطابق نہیں ہیں۔ محاورۂ عرب کی رو سے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان تمیز پیدا کردیں گے ، یا ان کو ایک دوسرے سے ممیز کر دیں گے۔ اسی معنی کو ادا کرنے کے لیے ہم نے یہ طرزِ بیان اختیار کیا ہے کہ”ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے“ یعنی مشرکین اور ان کے معبود آمنے سامنے کھڑے ہوں گے اور دونوں گروہوں کی امتیازی حیثیت ایک دوسرے پر واضح ہو گی، مشرکین جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جن کو ہم دنیا میں معبود بنائے ہوئے تھے، اور ان کے معبود جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جنہوں نے ہمیں اپنا معبود بنا رکھا تھا۔
37. یعنی وہ تمام فرشتے جن کو دنیا میں دیوی اور دیوتا قرار دے کر پوجا گیا ، اور وہ تمام جِنّ، ارواح، اسلاف، اجداد، انبیاء، اولیاء، شہداء وغیرہ جن کو خدائی صفات میں شریک ٹھیرا کر وہ حقوق انہیں ادا کیے گئے جو دراصل خدا کے حقو ق تھے ، وہاں اپنے پرستاروں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہماری عبادت بجا لا رہے ہو۔ تمہاری کوئی دعا ، کوئی التجا، کوئی پکار اور فریاد، کوئی نذر و نیاز، کوئی چڑہاوے کی چیڑ، کوئی تعریف و مدح اور ہمارے نام کی جاپ اور کوئی سجدہ ریزی و آستانہ بوسی و درگاہ گردی ہم تک نہیں پہنچی۔