Tafheem ul Quran

Surah 10 Yunus, Ayat 31-40

قُلۡ مَنۡ يَّرۡزُقُكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ اَمَّنۡ يَّمۡلِكُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ يُّخۡرِجُ الۡحَـىَّ مِنَ الۡمَيِّتِ وَيُخۡرِجُ الۡمَيِّتَ مِنَ الۡحَـىِّ وَمَنۡ يُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ​ؕ فَسَيَـقُوۡلُوۡنَ اللّٰهُ​ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ‏ ﴿10:31﴾ فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الۡحَـقُّ ​ ۚ فَمَاذَا بَعۡدَ الۡحَـقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ​​ ۚ فَاَنّٰى تُصۡرَفُوۡنَ‏ ﴿10:32﴾ كَذٰلِكَ حَقَّتۡ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِيۡنَ فَسَقُوۡۤا اَنَّهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿10:33﴾ قُلۡ هَلۡ مِنۡ شُرَكَآئِكُمۡ مَّنۡ يَّبۡدَؤُا الۡخَـلۡقَ ثُمَّ يُعِيۡدُهٗ​ ؕ قُلِ اللّٰهُ يَـبۡدَؤُا الۡخَـلۡقَ ثُمَّ يُعِيۡدُهٗ​ؕ فَاَنّٰى تُؤۡفَكُوۡنَ‏ ﴿10:34﴾ قُلۡ هَلۡ مِنۡ شُرَكَآئِكُمۡ مَّنۡ يَّهۡدِىۡۤ اِلَى الۡحَـقِّ​ؕ قُلِ اللّٰهُ يَهۡدِىۡ لِلۡحَقِّ​ؕ اَفَمَنۡ يَّهۡدِىۡۤ اِلَى الۡحَقِّ اَحَقُّ اَنۡ يُّتَّبَعَ اَمَّنۡ لَّا يَهِدِّىۡۤ اِلَّاۤ اَنۡ يُّهۡدٰى​ۚ فَمَا لَكُمۡ كَيۡفَ تَحۡكُمُوۡنَ‏  ﴿10:35﴾ وَمَا يَتَّبِعُ اَكۡثَرُهُمۡ اِلَّا ظَنًّا ؕاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغۡنِىۡ مِنَ الۡحَـقِّ شَيۡـئًا​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَفۡعَلُوۡنَ‏ ﴿10:36﴾ وَمَا كَانَ هٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ يُّفۡتَـرٰى مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلٰـكِنۡ تَصۡدِيۡقَ الَّذِىۡ بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَتَفۡصِيۡلَ الۡكِتٰبِ لَا رَيۡبَ فِيۡهِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿10:37﴾ اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰٮهُ​ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿10:38﴾ بَلۡ كَذَّبُوۡا بِمَا لَمۡ يُحِيۡطُوۡا بِعِلۡمِهٖ وَلَمَّا يَاۡتِهِمۡ تَاۡوِيۡلُهٗ ​ؕ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ فَانْظُرۡ كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿10:39﴾ وَ مِنۡهُمۡ مَّنۡ يُّؤۡمِنُ بِهٖ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ لَّا يُؤۡمِنُ بِهٖ​ؕ وَرَبُّكَ اَعۡلَمُ بِالۡمُفۡسِدِيۡنَ‏ ﴿10:40﴾

31 - اِن سے پوچھو ، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اِس نظمِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ۔ کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے؟ 32 - تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی ربّ ہے۔38 پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جار ہے ہو؟39 33 - (اے نبی ؐ ، دیکھو)اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پر تمہارے ربّ کی بات صادق آگئی کہ وہ مان کر نہ دیں گے۔40 34 - اِن سے پوچھو، تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو تخلیق کی ابتداء بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے؟ ۔۔۔۔ کہو وہ صرف اللہ ہے جو تخلیق کی ابتداء بھی کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی،41 پھر تم یہ کس اُلٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو ؟42 35 - اِن سے پوچھو تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہو؟43۔۔۔۔ کہو وہ صرف اللہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ پھر بھلا بتاوٴ جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اِس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود راہ نہیں پاتا اِلّا یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے؟ آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے، کیسے اُلٹے فیصلے کرتے ہو؟ 36 - حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جارہے ہیں 44، حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پُورا نہیں کرتا۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے۔ 37 - اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے۔ بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آچکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے۔45 اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے۔ 38 - کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر ؐ نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟ کہو، ”اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سُورة اس جیسی تصنیف کر لاوٴ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بُلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو۔“46 39 - اصل بات یہ ہے کہ جو چیز اِن کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا اُس کو اِنہوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پِچّو)جھُٹلا دیا۔47 اِسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھُٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو اُن ظالموں کا کیا انجام ہُوا۔ 40 - اِن میں سے کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ نہیں لائیں گے اور تیرا ربّ اُن مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔48 ؏ ۴


Notes

38. یعنی اگر یہ سارے کام اللہ کے ہیں، جیسا کہ تم خود مانتے ہو ، تب تو تمہارا حقیقی پروردگار ، مالک، آقا، اور تمہاری بندگی و عبادت کا حق دار اللہ ہی ہوا۔ دوسرے جن کا اِن کاموں میں کوئی حصہ نہیں آخر ربوبیت میں کہاں سے شریک ہو گئے؟

39. خیال رہے کہ خطاب عام لوگوں سے ہے اور ان سے سوال یہ نہیں کیا جا رہا کہ ”تم کدھر پھرے جاتے ہو“بلکہ یہ ہے کہ ”تم کدھر پھرائے جارہے ہو“۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی ایسا گمراہ کن شخص یا گروہ موجود ہے جو لوگوں کو صحیح رُخ سے ہٹا کر غلط رُخ پر پھیر رہا ہے ۔ اسی بنا پر لوگوں سے اپیل یہ کی جارہی ہے کہ تم اندھے بن کر غلط رہنمائی کرنے والوں کے پیچھے کیوں چلے جا رہے ہو، اپنی گِرہ کی عقل سے کام لے کر سوچتے کیوں نہیں کہ جب حقیقت یہ ہے، تو آخر یہ تم کو کدھر چلایا جا رہا ہے۔ یہ طرزِ سوال جگہ جگہ ایسے مواقع پر قرآن میں اختیار کیا گیا ہے ، اور ہر جگہ گمراہ کرنے والوں کا نام لینے کے بجائے ان کو صیغۂ مجہول کے پردے میں چھپا دیا گیا ہے ، تاکہ ان کے معتقدین ٹھنڈے دل سے اپنے معاملے پر غور کر سکیں، اور کسی کو یہ کہہ کر انہیں اشتعال دلانے اور ان کا دماغی توازن بگاڑ دینے کا موقع نہ ملے کہ دیکھو یہ تمہارے بزرگوں اور پیشواؤں پر چوٹیں کی جارہی ہیں۔ اس میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے جس سے غافل نہ رہنا چاہیے۔

40. یعنی ایسی کھلی کھلی اور عام فہم دلیلوں سے بات سمجھائی جاتی ہے ، لیکن جنہوں نے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہو وہ اپنی ضد کی بنا پر کسی طرح مان کر نہیں دیتے۔

41. تخلیق کی ابتدا کے متعلق تو مشرکین مانتے ہی تھے کہ یہ صرف اللہ کا کام ہے ، ان کے شریکوں میں سے کسی کا اِس کام میں کوئی حصہ نہیں ۔ رہا تخلیق کا اعادہ تو ظاہر ہے کہ جو ابتداءً پیدا کرنے والا ہے وہی اس عملِ پیدائش کا اعادہ بھی کر سکتا ہے ، مگر جو ابتداءً ہی پیدا کرنے پر قادر نہ ہو وہ کسطرح اعادۂ پیدائش پر قادر ہو سکتا ہے۔ یہ بات اگرچہ صریحًا ایک معقول بات ہے ، اور خود مشرکین کے دل بھی اندر سے اس کی گواہی دیتے تھے کہ بات بالکل ٹھکانے کی ہے ، لیکن انہیں اس کا اقرار کرنے میں اس بنا پر تامل تھا کہ اسے مان لینے کے بعد انکار آخرت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر کے سوالات پر تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ خود کہیں گے کہ یہ کام اللہ کے ہیں، مگر یہاں اس کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد ہوتا ہے کہ تم ڈنکے کی چوٹ پر کہو کہ یہ ابتدائے خلق اور اعادۂ خلق کا کام بھی اللہ ہی کا ہے۔

42. یعنی جب تمہاری ابتدا کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور انتہا کا سرا بھی اسی کے ہاتھ میں ، تو خود اپنے خیر خواہ بن کر ذرا سوچو کہ آخر تمہیں یہ کیا باور کرایا جا رہا ہے کہ ان دونوں سروں کے بیچ میں اللہ کے سوا کسی اور کو تمہاری بندگیوں اور نیاز مندیوں کا حق پہنچ گیا ہے۔

43. یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ جس کو ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے ۔ دنیا میں انسان کی ضرورتوں کا دائرہ صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے کہ اس کو کھانے پینے پہننے اور زندگی بسر کرنے کا سامان بہم پہنچے اور آفات ، مصائب اور نقصانات سے وہ محفوظ رہے۔ بلکہ اُس کی ایک ضرورت ( اور درحقیقت سب سے بڑی ضرورت) یہ بھی ہے کہ اسے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو اور وہ جانے کہ اپنی ذات کے ساتھ، اپنی قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ، اُس سرو سامان کے ساتھ جو روئے زمین پر اُس کے تصرف میں ہے، اُن بے شمار انسانوں کے ساتھ جن سے مختلف ، حیثیتوں میں اس کو سابقہ پیش آتا ہے، اور مجموعی طور پر اس نظام ِ کائنات کے ساتھ جس کے ماتحت رہ کر ہی بہر حال اس کو کام کرنا ہے، وہ کیا اور کس طرح معاملہ کرے جس سے اس کی زندگی بحیثیت مجموعی کامیاب ہو اور اس کی کوششیں اور محنتیں غلط راہوں میں صرف ہو کر تباہی و بربادی پر منتج نہ ہوں۔ اسی صحیح طریقہ کا نام ”حق “ ہے اور جو رہنمائی اس طریقہ کی طرف انسان کو لے جائے وہی ”ہدایت ِ حق“ ہے۔ اب قرآن تمام مشرکین سے اور اُن سب لوگوں سے جو پیغمبر کی تعلیم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ، یہ پوچھتا ہے کہ تم خدا کے سوا جن جن کی بندگی کرتے ہو ان میں کوئی ہے جو تمہارے لیے”ہدایتِ حق“حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہو یا بن سکتا ہو؟ ۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس لیے کہ انسان خدا کے سوا جن کی بندگی کرتا ہے وہ دو بڑی اقسام پر منقسم ہیں:

ایک وہ دیویاں ، دیوتا اور زندہ یا مردہ انسان جن کی پرستش کی جاتی ہے۔ سو اُن کی طرف تو انسان کا رجوع صرف اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ فوق الفطری طریقے سے وہ اس کی حاجتیں پوری کریں اور اس کو آفات سے بچائیں۔ رہی ہدایت ِ حق ، تو وہ نہ کبھی ان کی طرف سے آئی ، نہ کبھی کسی مشرک نے اس کے لیے اُن کی طرف رجوع کیا، اور نہ کوئی مشرک یہ کہتا ہے کہ اس کے یہ معبود اسے اخلاق، معاشرت، تمدن، معیشت، سیاست، قانون، عدالت وغیرہ کے اصول سکھاتے ہیں۔

دوسرے وہ انسان جن کے بنائے ہوئے اصولوں اور قوانین کی پیروی و اطاعت کی جاتی ہے۔ سو وہ رہنما تو ضرور ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع وہ”رہنمائے حق“ بھی ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ کیا اُن میں سےکسی کا علم بھی اُن تمام حقائق پر حاوی ہے جن کو جاننا انسانی زندگی کے صحیح اصول وضع کرنے کے لیے ضروری ہے؟ کیا ان میں سے کسی کی نظر بھی پورے دائرے پر پھیلتی ہے جس میں انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل پھیلے ہوئے ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی بھی اُن کمزوریوں سے ، ان تعصبات سے ، اُن شخصی یا گروہی دلچسپیوں سے، اُن اغراض و خواہشات سے ، اُن رحجانات و میلانات سے بالاتر ہے جو انسانی معاشرے کے لیے منصفانہ قوانین بنانے میں مانع ہو تے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے ، اور ظاہر ہے کہ کوئی صحیح الدماغ آدمی ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا، تو آخر یہ لوگ ”ہدایتِ حق“ کا سرچشمہ کیسے ہو سکتے ہیں؟

اسی بنا پر قرآن یہ سوال کرتا ہے کہ لوگو، تمہارے اِن مذہبی معبودوں اور تمدنی خداؤں میں کوئی ایسا بھی ہے جو راہِ راست کی طرف تمہاری رہنمائی کرنے والا ہو؟ اوپر کے سوالات کے ساتھ مل کر یہ آخری سوال دین و مذہب کے پورے مسئلے کا فیصلہ کر دیتا ہے ۔ انسان کی ساری ضرورتیں دو ہی نوعیت کی ہیں۔ ایک نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی اس کا پروردگار ہو ، کوئی ملجا و مادیٰ ہو، کوئی دعاؤں کا سننے والا اور حاجتوں کا پورا کرنے والا ہو جس کا مستقل سہارا اِس عالمِ اسباب کے بے ثبات سہاروں کے درمیان رہتے ہوئے وہ تھام سکے ۔ سو اوپر کے سوالات نے فیصلہ کر دیا کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ہے۔ دوسری نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی ایسا رہنما ہو جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے اور جس کے دیے ہوئے قوانینِ حیات کی پیروی پورے اعتماد و اطمینان کے ساتھ کی جا سکے۔ سو اس آخری سوال نے اُس کا فیصلہ بھی کر دیا کہ وہ بھی صرف خدا ہی ہے۔ ا س کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی (Secular) اصولِ تمدن و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے۔

44. یعنی جنہوں نے مذاہب بنائے، جنہوں نے فلسفے تصنیف کیے، اور جنہوں نے قوانینِ حیات تجویز کیے انہوں نے بھی یہ سب کچھ علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان و قیاس کی بنا پر کیا۔ اورجنہوں نے ان مذہبی اور دنیوی رہنماؤں کی پیروی کی انہوں نے بھی جان کر اور سمجھ کر نہیں بلکہ محض اس گمان کی بنا پر اُن کا اتباع اختیار کر لیا کہ ایسے بڑے بڑے لوگ جب یہ کہتے ہیں اور باپ دادا ان کو مانتے چلے آرہے ہیں اور ایک دنیا ان کی پیروی کر رہی ہے تو ضرور ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔

45. جو کچھ پہلے آچکا تھا اس کی تصدیق ہے“، یعنی ابتدا سے جو اصولی تعلیمات انبیاء علیہم السلام کی معرفت انسان کو بھیجی جاتی رہی ہیں یہ قرآن اُن سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں پیش کر رہا ہے بلکہ انہی کی تصدیق و توثیق کر رہا ہے۔ اگر یہ کسی نئے مذہب کے بانی کی ذہنی اُپج کا نتیجہ ہوتا تو اس میں ضرور یہ کوشش پائی جاتی کہ پرانی صداقتوں کے ساتھ کچھ اپنا نرالا رنگ بھی ملا کر اپنی شان امتیاز نمایاں کی جائے۔

”الکتاب کی تفصیل ہے“، یعنی اُن اصولی تعلیمات کو جو تمام کتب آسمانی کا لُبِّ لُباب (الکتاب) ہیں، اس میں پھیلا کر دلائل و شواہد کے ساتھ ، تلقین و تفہیم کے ساتھ، تشریح و توضیح کے ساتھ، اور عملی حالات پر انطباق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

46. عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چیلنج محض قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کی ادبی خوبیوں کے لحاظ سے تھا۔ اعجاز قرآن پر جس انداز سے بحثیں کی گئی ہیں اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہونی کچھ بعید بھی نہیں ہے ۔ لیکن قرآن کا مقام اس سے بلند تر ہے کہ وہ اپنی یکتائی و بے نظیری کے دعوے کی بنیاد محض اپنے لفظی محاسن پر رکھے۔ بلاشبہ قرآن اپنی زبان کے لحاظ سے بھی لاجواب ہے ، مگر وہ اصل چیز جس کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسانی دماغ ایسی کتاب تصنیف نہیں کر سکتا، اس کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہیں۔ اس میں اعجاز کے جو جو پہلو ہیں اور جن وجوہ سے ان کا من جانب اللہ ہونا یقینی اور انسان کی ایسی تصنیف پر قادر ہونا غیر ممکن ہے ان کو خود قرآن میں مختلف مواقع پر بیان کر دیا گیا ہے اور ہم ایسے تمام مقامات کی تشریح پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ اس لیے یہاں بخوف طوالت اس بحث سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ (تشریح کے یلے ملاحظہ ہو الطور، حاشیہ نمبر ۲۶ ، ۲۷)

47. تکذیب یا تو اس بنیاد پر کی جا سکتی تھی کہ ان لوگوں کو اس کتاب کا ایک جعلی کتاب ہونا تحقیقی طور پر معلوم ہو تا۔ یا پھر اس بنا پر وہ معقول ہو سکتی تھی کہ جو حقیقتیں اس میں بیان کی گئی ہیں اور جو خبریں اس میں دی گئی ہیں وہ غلط ثابت ہو جاتیں۔ لیکن ان دونوں وجوہِ تکذیب میں سے کوئی وجہ بھی یہاں موجود نہیں ہے۔ نہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ کہ وہ ازروئے علم جانتا ہے کہ یہ کتاب گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ نہ کسی نے پردۂ غیب کے پیچھے جھانک کر یہ دیکھ لیا ہے کہ واقعی بہت سے خدا موجود ہیں اور یہ کتاب خواہ مخواہ ایک خدا کی خبر سنا رہی ہے ، یا فی الواقع خدا اور فرشتوں اور وحی وغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کتاب میں خواہ مخواہ یہ افسانہ بنا لیا گیا ہے ۔ نہ کسی نے مر کر یہ دیکھ لیا ہے کہ دوسری زندگی اور اس کے حساب کتاب اور جزا و سزا کی ساری خبریں جو اس کتاب میں دی گئی ہیں غلط ہیں۔ لیکن اس کے با وجود نرے شک اور گمان کی بنیا د پر اس شان سے اس کی تکذیب کی جا رہی ہے کہ گویا علمی طور پر اس کے جعلی اور غلط ہونے کی تحقیق کر لی گئی ہے۔

48. ایمان نہ لانے والوں کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ ”خدا ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے“۔ یعنی وہ دنیا کا منہ تو یہ باتیں بنا کر بند کر سکتے ہیں کہ صاحب ہماری سمجھ میں بات نہیں آتی اس لیے نیک نیتی کے ساتھ ہم اسے نہیں مانتے، لیکن خدا جو قلب و ضمیر کے چھپے ہوئے رازوں سے واقف ہے وہ ان میں سے ایک ایک شخص کے متعلق جانتا ہے کہ کس کس طرح اس نے اپنے دل و دماغ پر قفل چڑھائے، اپنے آپ کو غفلتوں میں گم کیا، اپنے ضمیر کی آواز کو دبایا ، اپنے قلب میں حق کی شہادت کو اُبھرنے سے روکا، اپنے ذہن سے قبولِ حق کی صلاحیت کو مٹایا، سن کر نہ سنا، سمجھتے ہوئے نہ سمجھنے کی کوشش کی اور حق کے مقابلہ میں اپنے تعصبات کو ، اپنے دنیوی مفاد کو ، اپنی باطل سے اُلجھی ہوئی اغراض کو اور اپنے نفس کی خواہشوں اور رغبتوں کو ترجیح دی۔ اسی بنا پر وہ ”معصوم گمراہ“ نہیں ہیں بلکہ درحقیت مفسد ہیں۔