49. یعنی خواہ مخواہ جھگڑے اور کج بحثیاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر میں افترا پردازی کر رہا ہوں تو اپنے عمل کا میں خود ذمہ دار ہوں تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اور اگر تم سچی بات کو جھٹلا رہے ہو تو میرا کچھ نہیں بگاڑتے، اپنا ہی کچھ بگاڑ رہے ہو۔
50. ایک سننا تو اس طرح کا ہوتا ہے جیسے جانور بھی آواز سن لیتے ہیں۔ دوسرا سننا وہ ہوتا ہے جس میں معنی کی طرف توجہ ہو اور یہ آمادگی پائی جاتی ہو کہ بات اگر معقول ہو گی تو اسے مان لیا جائے گا ۔ جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں ، اور جنہوں نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس کی رغبتوں اور دلچسپیوں کے خلاف کوئی بات ، خواہ وہ کیسی ہی معقول ہو، مان کر نہ دیں گے، وہ سب کچھ سن کر بھی نہیں سنتے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سن کر نہیں دیتے جو دنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کر تے ہیں اور چَرنے چُگنے کے سوا کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، یا نفس کی لذتوں اور خواہشوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ایسے لوگ کانوں کے تو بہرے نہیں ہوتے مگر دل کےبہرے ہوتے ہیں۔
51. یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے کہ جو اوپر کے فقرے میں ہے۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں ، ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے۔ اصل چیز دل کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے ۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہوتو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا۔
ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جا رہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے۔ اور اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا ہی نہیں ہے بلکہ طنز کا تیر و نشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے، تا کہ معقول بات اور درد مندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ اُن کو اُن کی اُس گری ہوئی حالت کا احساس دلارہا ہوں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں۔ اور بڑی معقولیت و سنجیدگی کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ان کے طریقِ زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریقِ زندگی کیا ہے۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو نہ اس کی اِن خیر خواہانہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو۔ اس حالت میں عین اُس وقت جبکہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سُنی اَن سُنی کیے جا رہے ہوں ، اس کا کوئی دوست آکر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو ، ان کے تو دل کے کان بند ہیں اور ان کی ھِیے کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں ۔ یہ بات کہنے سے اُس دوست کا منشا یہ نہیں ہو گا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آجائے۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہو گی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آجائے۔
52. یعنی اللہ نے تو انہیں کان بھی دیے ہیں اور آنکھیں بھی اور د ل بھی ۔ اس نے اپنی طرف سے کوئی ایسی چیز ان کو دینے میں بُخل نہیں کیا ہے جو حق و باطل کا فرق دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ضروری تھی۔ مگر لوگوں نے خواہشات کی بندگی اور دنیا کے عشق میں مبتلا ہو کر آپ ہی اپنی آنکھیں پھوڑ لی ہیں، اپنے کان بہرے کر لیے ہیں اور اپنے دلوں کو اتنا مسخ کر لیا ہے کہ ان میں بھلے بُرے کی تمیز ،صحیح و غلط کے فہم اور ضمیر کی زندگی کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔
53. یعنی جب ایک طرف آخرت کی بے پایاں زندگی ان کے سامنے ہو گی اور دوسری طرف یہ پلٹ کر اپنی دنیا کی زندگی پر نگاہ ڈالیں گے تو انہیں مستقبل کے مقابلہ میں اپنا یہ ماضی نہایت حقیر محسوس ہو گا۔ اُس وقت اِن کو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے اپنی سابقہ زندگی میں تھوڑی سی لذتوں اور منفعتوں کی خاطر اپنے اس ابدی مستقبل کو خراب کر کے کتنی بڑی حماقت کا ارتکاب کیا ہے۔
54. یعنی اس بات کو کہ ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
55. ”اُمت“ کا لفظ یہاں محض قوم کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ ایک رسول کی آمد کے بعد اس کی دعوت جن جن لوگوں تک پہنچے وہ سب اس کی اُمت ہیں۔ نیز اس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ رسول ان کے درمیان زندہ موجود ہو ، بلکہ رسول کے بعد بھی جب تک اس کی تعلیم موجود رہے اور ہر شخص کے لیے یہ معلوم کرنا ممکن ہو کہ وہ درحقیقت کس چیز کی تعلیم دیتا تھا، اس وقت تک دنیا کے سب لوگ اس کی امت ہی قرار پائیں گے اور ان پر وہ حکم ثابت ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد تمام دنیا کے انسان آپ کی امت ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک قرآن اپنی خالص صورت میں شائع ہوتا رہے گا۔ اسی وجہ سے آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ”ہر قوم میں ایک رسول ہے ”بلکہ ارشاد ہو اکہ”ہر امت کے لیے ایک رسول ہے“۔
56. اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ ٴ خدا ۔ یہ حضرت یعقوب ؑ کا لقب تھا، جو اُن کو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحٰا ق ؑ کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اِس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکینِ عرب کی طرف بھی کلام کا رُخ پھر گیا مطلب یہ ہے کہ رسول کی دعوت کا کسی گروہ انسانی تک پہنچنا گویا اُس گروہ پر اللہ کی حجت کا پورا ہو جانا ہے۔ اس کے بعد صرف فیصلہ ہی باقی رہ جاتا ہے ، کسی مزید اتمام حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ اور یہ فیصلہ غایت درجہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ رسول کی بات مان لیں اور اپنا رویہ درست کر لیں وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اور جو اس کی بات نہ مانیں و ہ عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں ، خواہ وہ عذاب ِ دنیا اور آخرت دونوں میں دیا جائے یا صرف آخرت میں۔
57. یعنی میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ فیصلہ میں چکاؤں گا اور نہ ماننے والوں کو میں عذاب دوں گا۔ اس لیے مجھ سے کیا پوچھتے ہو کہ فیصلہ چکائے جانے کی دھمکی کب پوری ہو گی۔ دھمکی تو اللہ نے دی ہے، وہی فیصلہ چکائے گا اور اسی کے اختیار میں ہے کہ فیصلہ کب کرے اور کس صورت میں اُس کو تمہارے سامنے لائے۔
58. مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد با ز نہیں ہے ۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت رسول کی دعوت کسی شخص یا گروہ کو پہنچی اُسی وقت جو ایمان لے آیا بس وہ تو رحمت کا مستحق قرار پایا اور جس کسی نے اس کو ماننے سے انکا ر کیا یا ماننے میں تامل کیا اُس پر فورًا عذاب کا فیصلہ نافذ کر دیا گیا۔ اللہ کا قاعدہ یہ ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کے بعد وہ ہر فرد کو اس کی انفرادی حیثیت کے مطابق، اور ہر گروہ اور قوم کو اس کی اجتماعی حیثیت کے مطابق، سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی وقت دیتا ہے ۔ یہ مہلت کا زمانہ بسا اوقات صدیوں تک دراز ہوتا ہے اور اس با ت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی مہلت ملنی چاہیے۔ پھر جب وہ مہلت ، جو سراسر انصاف کے ساتھ اس کے لیے رکھی گئی تھی ، پوری ہو جاتی ہے اور وہ شخص یا گروہ اپنی باغیانہ روش سے باز نہیں آتا، تب اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فیصلہ نافذ کرتا ہے ۔ یہ فیصلے کا وقت اللہ کی مقر ر کی ہوئی مدت سے نہ ایک گھڑی پہلے آسکتا ہے اور نہ وقت آجانے کے بعد ایک لمحہ کے لیے ٹل سکتا ہے۔