59. جس چیز کو عمر بھر جھٹلاتے رہے ، جسے جھوٹ سمجھ کر ساری زندگی غلط کاموں میں کھپا گئے اور جس کی خبر دینے والےپیغمبروں کو طرح طرح کے الزام دیتے رہے ، وہی چیز جب ان کی توقعات کے بالکل خلاف اچانک سامنے آکھڑی ہوگی تو ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی، ان کا ضمیر انہیں خود بتا دے گا کہ جب حقیقت یہ تھی تو جو کچھ وہ دنیا میں کر کے آئے ہیں اُ س کا انجام اب کیا ہونا ہے۔ خود کردہ را علاجے نیست۔ زبانیں بند ہوں گی اور ندامت و حسرت سے دل اندر ہی اندر بیٹھے جا رہے ہوں گے ۔ جس شخص نے قیاس و گمان کے سودے پر اپنی ساری پونجی لگا دی ہو اور کسی خیر خواہ کی بات مان کر نہ دی ہو ، وہ دیوالہ نکلنے کے بعد خود اپنے سوا اور کس کی شکایت کر سکتا ہے۔
60. اُردو زبان میں رزق کا اطلاق صر ف کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہاں گرفت صرف اُس قانون سازی پر کی گئی ہے جو دستر خوان کی چھوٹی سی دنیامیں مذہبی اوہام یا رسم و رواج کی بنا پر لوگوں نے کر ڈالی ہے۔ اس غلط فہمی میں جہلا اور عوام ہی نہیں علما تک مبتلا ہیں۔ حالانکہ عربی زبان میں رزق محض خوراک کے معنی تک محدود نہیں ہے بلکہ عطاء اور بخشش اور نصیب کے معنی میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دنیا میں انسان کو دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے ، حتیٰ کہ اولاد تک رزق ہے۔ اسماء الرجال کی کتابوں میں بکثرت راویوں کے نام رزق اور رُزَیق اور رزق اللہ ملتے ہیں جس کے معنی تقریبًا وہی ہیں جو اردو میں اللہ دیے کے معنی ہیں۔ مشہور دعا ہے اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ، یعنی ہم پر حق واضح کر اور ہمیں اس کی اتباع کی توفیق دے ۔ محاورے میں بولا جاتا ہے رُزِقَ علمًا فلاں شخص کو علم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حاملہ کے پیٹ میں ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ پیدا ہونے والے کا رز ق اور اس کی مدت عمر اور اس کاکام لکھ دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں رزق سے مراد صرف وہ خوراک ہی نہیں ہے جو اس بچے کو آئندہ ملنے والی ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا میں دیا جائےگا۔ خود قرآن میں ہے وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ، جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس رزق کو محض دستر خوان کی سرحدوں تک محدود سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف اُن پابندیوں اور آزادیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملہ میں لوگوں نے بطور خود اختیار کر لی ہیں، سخت غلطی ہے۔ اور یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے ۔ اس کی بدولت خدا کے دین کی ایک بہت بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ یہ اسی غلطی کا تو نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کا معاملہ تو ایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کر لیا جائے کہ انسان خود اپنے لیے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے ، اور اسی بنا ہر خدا اور اس کی کتاب سے بے نیاز ہو کر قانون سا زی کی جانے لگے ، تو عامی تو درکنار ، علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اور مفسرین ِ قرآن و شیوخِ حدیث تک کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس طرح ماکولات و مشروبات میں شریعت الہٰی سے بے نیاز ہو کر جائز و ناجائز کے حدود بطور خود مقرر کر لینا۔
61. یعنی تمہیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ کتنا سخت باغیانہ جرم ہے جو تم کر رہے ہو۔ رزق اللہ کا ہے اور تم خود اللہ کے ہو، پھر یہ حق آخر تمہیں کہاں سے حاصل ہو گیا کہ اللہ کی املاک میں اپنے تصرف ، استعمال اور انتفاع کے لیے خود حد بندیاں مقرر کرو؟ کوئی نوکر اگر یہ دعویٰ کرے کہ آقا کے مال میں اپنے تصرف اور اختیارات کی حدیں اسے خود مقرر کر لینے کا حق ہے اور اس معاملہ میں آقا کے کچھ بولنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے تو اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ تمہارا اپنا ملازم اگر تمہارے گھر میں اور تمہارے گھر کی سب چیزوں میں اپنے عمل اور استعمال کے لیے اس آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کر ے تو تم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرو گے؟ ۔۔۔۔۔۔ اُس نوکر کا معاملہ تو دوسرا ہی ہے جو سرے سے یہی نہیں مانتا کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور کوئی اس کا آقا بھی ہے اور یہ کسی اور کا مال ہے جو اسکے تصرف میں ہے۔ اُس بد معاش غاصب کی پوزیشن یہاں زیرِ بحث نہیں ہے ۔ یہاں سوال اُس نوکر کی پوزیشن کا ہے جو خود مان رہا ہے کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ مال اُسی کا ہے جس کا وہ نوکر ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس مال میں اپنے تصرف کے حدود مقرر کر لینے کا حق مجھے آپ ہی حاصل ہے اور آقا سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
62. یعنی تمہاری یہ پوزیشن صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتی تھی کہ آقا نے خود تم کو مجاز کر دیا ہوتا کہ میرے مال میں تم جس طرح چاہو تصرف کرو اپنے عمل اور استعمال کے حدود، قوانین ، ضوابط سب کچھ بنا لینے کے جملہ حقوق میں نے تمہیں سونپے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تمہارے پاس واقعی اس کو کوئی سند ہے کہ آقا نے تم کو یہ اختیارات دے دیے ہیں؟ یا تم بغیر کسی سند کے یہ دعویٰ کر رہے ہو کہ وہ تمام حقوق تمہیں سونپ چکا ہے؟ اگر پہلی صورت ہے تو براہِ کرم وہ سند دکھاؤ، ورنہ بصورت دیگر یہ کھلی بات ہے کہ تم بغاوت پر جھوٹ اور افترا پردازی کا مزید جرم کر رہے ہو۔
63. ”یعنی یہ تو آقا کی کمال درجہ مہربانی ہے کہ وہ نوکر کو خود بتاتا ہے کہ میرے گھر میں اور میرے مال میں اور خود اپنے نفس میں تُو کونسا طرزِ عمل اختیار کرے گا تو میری خوشنودی اور انعام اور ترقی سے سرفراز ہو گا، اور کس طریقِ کار سے میرے غضب اور سزا اور تنزل کا مستوجب ہو گا۔ مگر بہت سے بے وقوف نوکر ایسے ہیں جو اس عنایت کا شکریہ ادا نہیں کرتے ۔ گویا ان کے نزدیک ہونا یہ چاہیے تھا کہ آقا اُن کو بس اپنے گھر میں لا کر چھوڑ دیتا اور سب مال اُن کے اختیار میں دے دینے کے بعد چھُپ کر دیکھتا رہتا کہ کون سا نوکر کیا کرتا ہے ، پھر جو بھی اُس کی مرضی کے خلاف ۔۔۔۔۔۔ جس کا کسی نوکر کو علم نہیں ۔۔۔۔۔۔ کوئی کام کرتا تو اُسے وہ سزا دے ڈالتا۔ حالانکہ اگر آقا نے اپنے نوکروں کو اتنے سخت امتحان میں ڈالا ہوتا تو ان میں سے کسی کا بھی سزا سے بچ جانا ممکن نہ تھا۔