Tafheem ul Quran

Surah 10 Yunus, Ayat 61-70

وَمَا تَكُوۡنُ فِىۡ شَاۡنٍ وَّمَا تَتۡلُوۡا مِنۡهُ مِنۡ قُرۡاٰنٍ وَّلَا تَعۡمَلُوۡنَ مِنۡ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيۡكُمۡ شُهُوۡدًا اِذۡ تُفِيۡضُوۡنَ فِيۡهِ​ؕ وَمَا يَعۡزُبُ عَنۡ رَّبِّكَ مِنۡ مِّثۡقَالِ ذَرَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فِى السَّمَآءِ وَلَاۤ اَصۡغَرَ مِنۡ ذٰ لِكَ وَلَاۤ اَكۡبَرَ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿10:61﴾ اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۖ ۚ‏ ﴿10:62﴾ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَكَانُوۡا يَتَّقُوۡنَؕ‏ ﴿10:63﴾ لَهُمُ الۡبُشۡرٰى فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَفِى الۡاٰخِرَةِ​ؕ لَا تَبۡدِيۡلَ لِـكَلِمٰتِ اللّٰهِ​ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُؕ‏ ﴿10:64﴾ وَلَا يَحۡزُنۡكَ قَوۡلُهُمۡ​ۘ اِنَّ الۡعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيۡعًا​ ؕ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿10:65﴾ اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ​ؕ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ شُرَكَآءَ​ ؕ اِنۡ يَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنۡ هُمۡ اِلَّا يَخۡرُصُوۡنَ‏ ﴿10:66﴾ هُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الَّيۡلَ لِتَسۡكُنُوۡا فِيۡهِ وَالنَّهَارَ مُبۡصِرًا​ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوۡمٍ يَّسۡمَعُوۡنَ‏ ﴿10:67﴾ قَالُوۡا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا​ سُبۡحٰنَهٗ​ ؕ هُوَ الۡـغَنِىُّ​ ؕ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ ​ؕ اِنۡ عِنۡدَكُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍۢ بِهٰذَا ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿10:68﴾ قُلۡ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَفۡتَرُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ الۡـكَذِبَ لَا يُفۡلِحُوۡنَؕ‏  ﴿10:69﴾ مَتَاعٌ فِى الدُّنۡيَا ثُمَّ اِلَيۡنَا مَرۡجِعُهُمۡ ثُمَّ نُذِيۡقُهُمُ الۡعَذَابَ الشَّدِيۡدَ بِمَا كَانُوۡا يَكۡفُرُوۡنَ‏ ﴿10:70﴾

61 - اے نبی ؐ ، تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سُناتے ہو، اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو اس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے ربّ کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔64 62 - سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں، 63 - جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوٰی کا رویّہ اختیار کیا ہے۔ 64 - دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ 65 - اے نبی ؐ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں، عزّت ساری کی ساری خدا کے اختیار میں ہے، اور سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ 66 - آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں یا زمین کے، سب کے سب اللہ کے مملوک ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے سوا (اپنے خود ساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ 67 - وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (کُھلے کانوں سے پیغمبر کی دعوت کو) سُنتے ہیں۔65 68 - لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے66، سُبحان اللہ!67وہ تو بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اُس کی مِلک ہے۔68 تمہارے پاس اِس قول کے لیے آخر دلیل کیا ہے؟ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ہیں؟ 69 - اے محمد ؐ ، کہہ دو کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہر گز فلاح نہیں پا سکتے۔ 70 - دُنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کر لیں، پھر ہماری طرف اُن کو پلٹنا ہے، پھر ہم اُس کُفر کے بدلے میں جس کا وہ ارتکاب کرتے رہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ؏ ۷


Notes

64. یہاں اس بات کا ذکر کرنے سے مقصود نبی کو تسکین دینا اور نبی کے مخالفین کو متنبہ کر نا ہے ۔ ایک طرف نبی سے ارشاد ہو رہا ہے کہ پیغامِ حق کی تبلیغ اور خلق اللہ کی اصلاح میں جس تن دہی و جاں فشانی اور جس صبر و تحمل سے تم کام کر رہے ہو وہ ہماری نظر میں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس پُر خطر کام پر مامور کر کے ہم نے تم کو تمہارے حال پر چھوڑ دیا ہو۔ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے اُس سے بھی ہم بے خبر نہیں ہیں۔ دوسری طرف نبی کے مخالفین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ ایک داعی حق اور خیر خواہ خلق کی اصلاحی کوششوں میں روڑے اٹکا کر تم کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ کوئی تمہاری ان حرکتوں کو دیکھنے والا نہیں ہے اور کبھی تمہارے ان کرتُوتوں کی باز پرس نہ ہوگی۔ خبردار رہو، وہ سب کچھ جو تم کر رہے ہو ، خدا کے دفتر میں ثبت ہو رہا ہے۔

65. یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے جسے بہت مختصر لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ فلسفیانہ تجسّس ، جس کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ اس کائنات میں بظاہر جو کچھ ہم دیکھتے اور محسُو س کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئی حقیقت پوشیدہ ہے یا نہیں اور ہے تو وہ کیا ہے، دنیا میں اُن سب لوگوں کے لیے جو وحی و الہام سے براہِ راست حقیقت کا علم نہیں پاتے ، مذہب کے متعلق رائے قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ کوئی شخص بھی خواہ وہ دہریت اختیار کرے یا شرک یا خدا پرستی، بہرحال ایک نہ ایک طرح کا فلسفیانہ تجسّس کیے بغیر مذہب کے بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور پیغمبروں نے جو مذہب پیش کیا ہے اس کی جانچ بھی اگر ہو سکتی ہے تو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آدمی، اپنی بساط بھر، فلسفیانہ غور و فکر کر کے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ پیغمبر ہمیں مظاہرِ کائنات کے پیچھے جس حقیقت کے مستور ہونے کا پتہ دے رہے ہیں وہ دل کو لگتی ہے یا نہیں۔ اس تجسّس کے صحیح یا غلط ہونے کا تمام تر انحصار طریقِ تجسّس پر ہے۔ اس کے غلط ہونے سے غلط رائے اور صحیح ہونے سے صحیح رائے قائم ہوتی ہے۔ اب ذرا جائزہ لے کر دیکھیے کہ دنیا میں مختلف گروہوں نے اس تجسّس کے لیے کون کون سے طریقے اختیا ر کیے ہیں:

مشرکین نے خالص وہم پر اپنی تلاش کی بنیاد رکھی ہے۔

اِشراقیوں اور جوگیوں نے اگرچہ مراقبہ کا ڈھونگ رچایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ہم ظاہر کے پیچھے جھانک کر باطن کا مشاہدہ کر لیتے ہیں، لیکن فی الواقع اُنہوں نے اپنی اس سراغ رسانی کی بنا گمان پر رکھی ہے۔ وہ مراقبہ دراصل اپنے گمان کا کرتے ہیں، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نظر آتا ہے اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ گمان سے جو خیال اُنہوں نے قائم کر لیا ہے اسی پر تخیل کو جما دینے اور پھر اس پر ذہن کا دباؤ ڈالنے سے ان کو وہی خیال چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے۔

اصطلاحی فلسفیوں نے قیاس کو بنائے تحقیق بنایا ہے جو اصل میں تو گمان ہی ہے لیکن اس گمان کے لنگڑے پن کو محسوس کر کے انہوں نے منطقی استدلال اور مصنوعی تعقل کی بیساکھیوں پر اسے چلانے کی کوشش کی ہے اور اس کا نام”قیاس“ رکھ دیا ہے۔

سائنس دانوں نے اگرچہ سائنس کے دائرے میں تحقیقات کے لیے علمی طریقہ اختیار کیا ہے ، مگر مابعد الطبیعیات کے حدود میں قدم رکھتے ہی وہ بھی علمی طریقے کو چھوڑ کر قیا س و گمان اور اندازے اور تخمینے کے پیچھے چل پڑے۔

پھر ان سب گروہوں کے اوہام اور گمانوں کو کسی نہ کسی طرح سے تعصب کی بیماری بھی لگ گئی جس نے انہیں دوسرے کی بات نہ سننے اور اپنی ہی محبوب راہ پر مُڑنے ، اور مُڑ جانے بعد مُڑے رہنے پر مجبور کر دیا ۔

قرآن اِس طریقِ تجسّس کو بنیادی طور پر غلط قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کی گمراہی کا اصل سبب یہی ہے کہ تم تلاشِ حق کی بنا گمان اور قیاس آرائی پر رکھتے ہو اور پھر تعصب کی وجہ سے کسی کی معقول بات سُننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ اسی دُہری غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہارے لیے خود حقیقت کو پالینا تو ناممکن تھا ہی، انبیاء کے پیش کردہ دین کو جانچ کر صحیح رائے پر پہنچنا بھی غیر ممکن ہو گیا۔

اس کے مقابلہ میں قرآن فلسفیانہ تحقیق کے لیے صحیح علمی و عقلی طریقہ یہ بتاتا ہے کہ پہلے تم حقیقت کے متعلق اُن لوگوں کا بیان کھلے کانوں سے، بلاتعصب سُنو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قیاس و گمان یا مراقبہ و استدراج کی بنا پر نہیں بلکہ”علم“ کی بنا تمہیں بتا رہے ہیں کہ حقیقت یہ ہے۔ پھر کائنات میں جو آثار(باصطلاح قرآن ”نشانات“) تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آتے ہیں ان پر غور کرو، ان کی شہادتوں کو مرتب کر کے دیکھو، اور تلاش کرتے چلے جاؤ کہ اس ظاہر کے پیچھے جس حقیقت کی نشاندہی یہ لوگ کر رہے ہیں اُس کی طرف اشارہ کرنے والی علامات تم کو اسی ظاہر میں ملتی ہیں یا نہیں۔ اگر ایسی علامات نظر آئیں اوران کے اشارے بھی واضح ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں تم خواہ مخواہ اُن لوگوں کو جھٹلاؤ جن کا بیان آثار کی شہادتوں کے مطابق پایا جا رہا ہے۔ ۔۔۔۔۔ یہی طریقہ فلسفۂ اسلام کی بنیا د ہے جسے چھوڑ کر افسوس ہے کہ مسلمان فلاسفہ بھی افلاطون اور ارسطو کے نقش ِ قدم پر چل پڑے۔

قرآن میں جگہ جگہ نہ صرف اِس طریق کی تلقین کی گئی ہے ، بلکہ خود آثارِ کائنات کو پیش کر کر کے اس سے نتیجہ نکالنے اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی گویا باقاعدہ تربیت دی گئی ہے تاکہ سوچنے اور تلاش کرنے کا یہ ڈھنگ ذہنوں میں راسخ ہو جائے۔ چنانچہ اس آیت میں بھی مثال کے طور پر صرف دو آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، یعنی رات اور دن۔ یہ انقلابِ لیل و نہار دراصل سورج اور زمین کی نسبتوں میں انتہائی باضابطہ تغیر کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔ یہ ایک عالمگیر ناظم اور ساری کائنات پر غالب اقتدار رکھنے والے حاکم کے وجود کی صریح علامت ہے۔ اِس میں صریح حکمت اور مقصدیت بھی نظر آتی ہے کیونکہ تمام موجودات زمین کی بے شمار مصلحتیں اسی گردشِ لیل و نہار کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس میں صریح ربوبیت اور رحمت اور پروردگار ی کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں کیونکہ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ جس نے زمین پر یہ موجودات پیدا کی ہیں وہ خود ہی ان کے وجود کی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالمگیر ناظم ایک ہے، اور یہ بھی کہ وہ کھلنڈرا نہیں بلکہ حکیم ہے اور با مقصد کام کرتا ہے، اور یہ بھی کہ وہی محسن و مربّی ہونے کے حیثیت سے عبادت کا مستحق ہے، اور یہ بھی کہ گردش ِ لیل و نہار کے تحت جو کوئی بھی ہے وہ رب نہیں مربوب ہے، آقا نہیں غلام ہے ۔ اِن آثاری شہادتوں کے مقابلہ میں مشرکین نے گمان و قیاس سے جو مذہب ایجاد کیے ہیں وہ آخر کس طرح صحیح ہو سکتے ہیں۔

66. اوپر کی آیات میں لوگوں کی اس جاہلیت پر ٹوکا گیا تھا کہ اپنے مذہب کی بنا علم کے بجائے قیاس و گمان پر رکھتے ہیں، اور پھر کسی علمی طریقہ سے یہ تحقیق کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ ہم جس مذہب پر چلے جا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں۔ اب اسی سلسلہ میں عیسائیوں اور بعض دوسرے اہلِ مذاہب کی اس نادانی پر ٹوکا گیا ہے کہ انہوں نے محض گمان سے کسی کو خد اکا بیٹا ٹھیرا لیا۔

67. سبحان اللہ کلمہ تعجب کے طور پر کبھی اظہارِ حیرت کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور کبھی اس کے واقعی معنی ہی مراد ہوتے ہیں، یعنی یہ کہ”اللہ تعالیٰ ہر عیب سے منزّہ ہے“۔ یہاں یہ کلمہ دونوں معنی دے رہا ہے۔ لوگوں کے اِس قول پر اظہارِ حیرت بھی مقصود ہے اور ان کی بات کے جواب میں یہ کہنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تو بے عیب ہے ، ا س کی طرف بیٹے کی نسبت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے۔

68. یہاں ان کے اس قول کی تردید میں تین باتیں کہی گئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ بے عیب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بے نیاز ہے ۔ تیسرے یہ کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات اُس کی ملک ہیں ۔ یہ مختصر جوابات تھوڑی سی تشریح سے بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں:

ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا تو صلبی ہو سکتا ہے یا متبنّٰی۔ اگر یہ لوگ کسی کو خدا کا بیٹا صُلبی معنوں میں قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو اُس حیوان پر قیاس کرتے ہیں جو شخصی حیثیت سے فانی ہوتا ہے اور جس کے وجود کا تسلسل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا کہ اس کی کوئی جنس ہو اور اس جنس سے کوئی اس کا جوڑا ہو اور ان دونوں کے صنفی تعلق سے اس کی اولاد ہو جس کے ذریعہ سے اس کا نوعی وجود اور اس کا کام باقی رہے۔ اور اگر یہ لوگ اس معنی میں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ اس نے کسی کو متبنّٰی بنایا ہے تو یہ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو انہوں نے خدا کو اس انسان پر قیاس کیا ہے جو لاولد ہونے کی وجہ سے اپنی جنس کے کسی فرد کو اس لیے بیٹا بناتا ہے کہ وہ اس کا وارث ہو اور اُس نقصان کی، جو اسے بے اولاد رہ جانے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے، برائے نام ہی سہی، کچھ تو تلافی کر دے۔ یا پھر ان کا گمان یہ ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح جذباتی میلانات رکھتا ہے اور اپنے بے شمار بندوں میں سے کسی ایک کےساتھ اس کو کچھ ایسی محبت ہو گئی ہے کہ اس نے اسے بیٹا بنا لیا ہے۔

ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ، بہر حال اس عقیدے کے بنیادی تصورات میں خدا پرست بہت سے عیوب ، بہت سی کمزوریوں ، بہت سے نقائص اور بہت سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے۔ اسی بنا پر پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب ، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کررہے ہو۔ دوسرے فقرے میں ارشاد ہوا کہ وہ اُن حاجتوں سے بھی بے نیاز ہے جن کی وجہ سے فانی انسانوں کو اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور تیسرے فقرے میں صاف کہہ دیا گیا کہ زمین و آسمان میں سب اللہ کے بندے اور اس کی مملوک ہیں ، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا ایسا کوئی مخصوص ذاتی تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنا بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے لے۔ صفا ت کی بنا پر بے شک اللہ بعض بندوں کو بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے، مگر اس محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی بندے کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی میں شرکت کا مقام دے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس سے پہلے کی ایک آیت میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ”جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ، دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔