69. یہاں تک تو ان لوگوں کو معقول دلائل اور دل کو لگنے والے نصائح کے ساتھ سمجھایا گیا تھا کہ ان کے عقائد اور خیالات اور طریقوں میں غلطی کیا ہے اور وہ کیوں غلط ہے، اور اس کے مقابلے میں صحیح راہ کیا ہے اور وہ کیوں صحیح ہے۔ اب ان کے اُس طرزِ عمل کی طرف توجہ منعطف ہوتی ہے جو وہ اِس سیدھی سیدھ اور صاف صاف تفہیم و تلقین کے جواب میں اختیار کر رہے تھے۔ دس گیارہ سال سے ان کی روش یہ تھی کہ وہ بجائے اس کے اس معقول تنقید اور صحیح رہنمائی پر غور کر کے اپنی گمراہیوں پر نظر ثانی کرتے ، اُلٹے اُ س شخص کی جان کے دشمن ہو گئے تھے جو ان باتوں کو اپنی کسی ذانی غرض کے لیے نہیں بلکہ انہی کے بھلے کے لیے پیش کر رہا تھا۔ وہ دلیلوں کا جواب پتھروں سےاور نصیحتوں کا جواب گالیوں سے دے رہے تھے۔ اپنی بستی میں ایسے شخص کا وجود ان کے لیے سخت ناگوار ، بلکہ ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا جو غلط کو غلط کہنے والا ہو اور صحیح بات بتانے کی کوشش کرتا ہو۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم اندھوں کے درمیان جو آنکھوں والا پایا جاتا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے بجائے اپنی آنکھیں بھی بند کر لے، ورنہ ہم زبردستی اُس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے تا کہ بینائی جیسی چیز ہماری سرزمین میں نہ پائی جائے۔ یہ طرزِ عمل جو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا، اس پر کچھ اور فرمانے کے بجائے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ انہیں نُوحؑ کا قصہ سُنا دو، اسی قصے میں وہ اپنے اور تمہارے معاملے کا جواب بھی پالیں گے۔
70. یہ چیلنج تھا کہ میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو، میرا بھروسہ اللہ پر ہے۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو ، ہود، آیت ۵۵)۔
71. حد سے گزر جانے والے لوگ وہ ہیں جو ایک مرتب غلطی کر جانے کے بعد پھر اپنی بات کی پچ اور ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی اُسی غلطی پر اڑے رہتے ہیں۔ اور جس بات کو ماننے سے ایک دفعہ انکار کر چکے ہیں اسے پھر کسی فہمائش، کسی تلقین اور کسی معقول سے معقول دلیل سے بھی مان کر نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں پر آخر کار ایسی پِھٹکار پڑتی ہے کہ انہیں پھر کبھی راہِ راست پر آنے کی توفیق نہیں ملتی۔
72. اس موقع پر اُن حواشی کو پیشِ نظر رکھا جائے جو ہم نے سورۂ اعراف(رکوع ۱۳ تا ۲۱) میں قصۂ موسیٰؑ و فرعون پر لکھے ہیں۔ جن امور کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے ان کا اعادہ یہاں نہ کیا جائے گا۔
73. یعنی انہوں نے اپنی دولت و حکومت اور شوکت و حشمت کے نشے میں مدہوش ہو کر اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھ لیا اور اطاعت میں سر جھکا دینے کے بجائے اکڑ دکھائی۔
74. یعنی حضرت موسیٰ ؑ کا پیغام سُن کر وہی کچھ کہا جو کفارِ مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سُن کر کہاتھا کہ”یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے“۔(ملاحظہ ہو اسی سورۂ یونس کی دوسری آیت)۔
یہاں سلسلہ ٔ کلام کو نگا ہ میں رکھنے سے یہ بات صریح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام بھی دراصل اُسی خدمت پر مامور ہوئے تھے جس پر حضرت نوح اور ان کے بعد کے تمام انبیاء ، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ، مامور ہوتے رہے ہیں۔ اس سورہ میں ابتدا سے ایک ہی مضمون چلا آرہا ہے اور وہ یہ کہ صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رب اور الٰہ مانو اور یہ تسلیم کرو کہ تم کو اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے عمل کا حساب دینا ہے ۔ پھر جو لوگ پیغمبر کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ نہ صرف تمہاری فلاح کا بلکہ ہمیشہ سے تمام انسانوں کی فلاح کا انحصار اسی ایک بات پر رہا ہے کہ اس عقیدہ ٔ توحید و آخرت کی دعوت کو ، جسے ہر زمانے میں خدا کے پیغمبروں نے پیش کیا ہے، قبو ل کیا جائے اور اپنا پورا نظامِ زندگی اسی بنیاد پر قائم کر لیا جائے۔ فلاح صرف انہوں نے پائی جنہوں نے یہ کام کیا، اور جس قوم نے بھی اس سے انکار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہی۔ یہی اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے، اوراس سیاق میں جب تاریخی نظائر کے طور پر دوسرے انبیاء کا ذکر آیا ہے تو لازمًا اس کے یہی معنی ہیں کہ جو دعوت اس سورہ میں دی گئی ہے وہی ان تمام انبیاء کی دعوت تھی، اور اسی کو لے کر حضرت موسیٰ و ہارون بھی فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس گئے تھے۔ اگر واقعہ وہ ہوتا جو بعض لوگوں نے گمان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا مشن ایک خاص قوم کو دوسری قوم کی غلامی سے رہا کرانا تھا، تو اِس سیاق و سباق میں اس واقعہ کو تاریخی نظیر کے طور پر پیش کرنا بالکل بے جوڑ ہوتا ۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے مشن کا ایک جزء یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل (ایک مسلمان قوم) کو ایک کافر قوم کے تسلط سے (اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے) نجات دلائیں۔ لیکن یہ ایک ضمنی مقصد تھا نہ کہ اصل مقصد بعثت۔ اصل مقصد تو وہی تھا جو قرآن کی رو سے تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد رہا ہے اور سورۂ نازعات میں جس کو صاف طور پر بیان بھی کر دیا گیا ہے کہ اِذَھَبْ اِلیٰ فِرْعَوْ نَ اِنَّہُ طَغٰی o فَقُلْ ھَلْ لَّکَ اِلیٰٓ اَنْ تَزَکّٰیo وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشٰی۔ (آیات ۱۷ تا ۱۹)” فرعون کےپا س جا کیونکہ وہ حدّ بندگی سے گزر گیا ہے اور اس سے کہہ کیا تُو اس کے لیے تیار ہے کہ سدھر جائے، اور میں تجھے تیرے ربّ کی طرف رہنمائی کروں تو تُو اس سے ڈرے“؟ مگر چونکہ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اورآخرکار حضرت موسیٰ کو یہی کرنا پڑا کہ اپنی مسلمان قوم کو اس کے تسلّط سے نکال لے جائیں ، اس لیے اس کے مشن کا یہی جزء تاریخ میں نمایاں ہو گیا اور قرآن میں بھی اس کو ویسا ہی نمایا ں کر کے پیش کیا گیا جیسا کہ وہ تاریخ میں فی الواقع ہے۔ جو شخص قرآن کی تفصیلات کو اس کے کلیات سے جدا کر کے دیکھنے کی غلطی نہ کرتا ہو ، بلکہ انہیں کلیات کے تابع کر کے ہی دیکھتا اور سمجھتا ہو، وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ ایک قوم کی رہائی کسی نبی کی بعثت کا اصل مقصد، اور دین حق کی دعوت محض اُس کا ایک ضمنی مقصد ہو سکتی ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو طٰہٰ ، آیات ۴۴ تا ۸۲۔ ، الزخرف، ۴۶ تا ۵۶۔ ، المزمل ۱۵ – ۱۶)۔
75. ”مطلب یہ ہے کہ ظاہر نظر میں جادو اور معجزے کے درمیان جو مشابہت ہوتی ہے اس کی بنا پر تم لوگوں نے بے تکلف اِسے جادو قرار دے دیا ، مگر نادانو! تم نے یہ نہ دیکھا کہ جادوگر کس سیرت و اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے جادوگری کیا کرتے ہیں۔ کیا کسی جادوگر کا یہی کام ہوتا ہے کہ بے غرض اور بےدھڑک ایک جبار فرمانروا کے دربار میں آئے اور اس کی گمراہی پر سرزنش کرے اور خدا پرستی اور طہارتِ نفس اختیار کرنے کی دعوت دے؟ تمہارے ہاں کوئی جادوگر آیا ہوتا تو پہلے درباریوں کے پاس خوشامدیں کرتا پھرتا کہ ذرا سرکار میں مجھے اپنے کمالات دکھانے کا موقع دلوا دو، پھر جب اُسے دربار میں رسائی نصیب ہوتی تو عام خوشامدیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ذلت کے ساتھ سلامیاں بجا لاتا،چیخ چیخ کر درازی عمر و اقبال کی دعائیں دیتا ، بڑی منت سماجت کے ساتھ درخواست کرتا کہ سرکار کچھ فدوی کی کمالات بھی ملاحظہ فرمائیں ، اور جب تم اس کے تماشے دیکھ لیتے تو ہاتھ پھیلا دیتا کہ حضور کچھ انعام مِل جائے۔
اس پورے مضمون کو صرف ایک فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ جادو گر فلاح یافتہ نہیں ہوا کرتے۔
76. ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا اصل مطالبہ رہائی بنی اسرائیل ہوتا تو فرعون اور ا س کےدرباریوں کو یہ اندیشہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کی دعوت پھیلنے سے سرزمینِ مصر کا دین بدل جائے گا اور ملک میں ہمارے بجائے ان کی بڑائی قائم ہو جائے گی ۔ ان کے اس اندیشے کی وجہ تو یہی تھی کہ حضرت موسیٰؑ اہلِ مصر کو بندگی حق کی طرف دعوت دے رہے تھے اور اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرےمیں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی اور اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، حاشیہ نمبر ۶۶۔ ، المومن ، حاشیہ نمبر ۴۳)۔
77. یعنی جادو وہ نہ تھا جو میں نے دکھا یا تھا ، جادو یہ ہے جو تم دکھا رہے ہو۔