78. متن میں لفظ ذُرِّ یَّۃٌ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ ”نوجوان“ کیا ہے۔ مگر دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اُس پر خطر زمانے میں حق کا ساتھ دینے اور علمبردارِ حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر ماؤں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کا راستہ اُن کو خطرات سے پُر نظر آرہا تھا، بلکہ وہ اُلٹے نوجوانوں ہی کو روکتے رہے کہ موسیٰ کے قریب نہ جاؤ، ورنہ تم خود بھی فرعون کے غضب میں مبتلا ہو گے اور ہم پر بھی آفت لاؤگے۔
یہ بات خاص طور پر قرآن نے نمایاں کر کے اس لیے پیش کی ہے کہ مکہ کی آبادی میں سےبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھے تھے وہ قوم کے بڑے بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ نہ تھے بلکہ چند با ہمت نوجوان ہی تھے۔ وہ ابتدائی مسلمان جو اِن آیات کے نزول کی وقت ساری قوم کی شدید مخالفت کے مقابلے میں صداقتِ اسلامی کی حمایت کر رہے تھے اور ظلم و ستم کے اس طوفان میں جن کے سینے اسلام کے لیے سپر بنے ہوئے تھے، ان میں مصلحت کوش بوڑھا کوئی نہ تھا۔ سب کے سب جوان لوگ ہی تھے۔ علی ابن ابی طالبؓ، جعفر ؓ طیّار، زبیرؓ، سعد بن ؓ ابی وقاص، مُصعَبؓ بن عُمَیر، عبداللہؓ بن مسعود جیسے لوگ قبول ِ اسلام کے وقت ۲۰ سال سے کم عمر کے تھے۔ عبد الرحمٰن ؓ بن عوف، بلالؓ، صُہَیب ؓ کی عمریں ۲۰ سے ۳۰ سال کی درمیان تھیں۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ، زید بن حارثہؓ، عثمان بن عفانؓ اور عمر فاروقؓ ۳۰ سے ۳۵ سال کے درمیان عمر کے تھے۔ ان سے زیادہ سن رسیدہ ابوبکر صدیقؓ تھے اور ان کی عمر بھی ایمان لانے کے وقت ۳۸ سال سے زیادہ نہ تھی۔ ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی کا نام ہمیں ملتا ہے جن کی عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھی، یعنی حضرت عبیدہ بن حارثؓ مُطَّلبی ۔ اور غالبًا پورے گروہ میں ا یک ہی صحابی حضور کے ہم عمر تھے، یعنی عَمّار بن یاسرؓ۔
79. متن میں فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسیٰ کے الفاظ ہیں۔ اس سے بعض لوگوں کو شبہ ہوا کہ شاید بنی اسرائیل سب کے سب کافر تھے اور ابتداءً ان میں سے صرف چند آدمی ایمان لائے۔ لیکن ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو وہ بالعموم اطاعت و انقیاد کے معنی دیتا ہے ، یعنی کسی کی بات ماننا اور اس کے کہے پر چلنا۔ پس دراصل ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ چند نوجوانوں کو چھوڑ کر بنی اسرائیل کی پوری قوم میں سے کوئی بھی اس بات پر آمادہ نہ ہوا کہ حضرت موسیٰ کو اپنا رہبر و پیشوا مان کر ان کی پیروی اختیار کر لیتا اور اس دعوتِ اسلامی کے کام میں ان کا ساتھ دیتا۔ پھر بعد کے فقرے نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ان کے اس طرزِ عمل کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حضرت موسیٰ کے صادق اور ان کی دعوت کے حق ہونے میں کوئی شک تھا ، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اور خصوصًا ان کے اکابر و اشراف، حضرت موسیٰ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو فرعون کی سخت گیری کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اگرچہ یہ لوگ نسل اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے ابراہیم، اسحاق ، یعقوب اور یوسف علیہم السلام کے اُمتی تھے اور اس بنا پر ظاہر ہے کہ سب مسلمان تھے، لیکن ایک مدّتِ دراز کے اخلاقی انحطاط نے اور اُس پست ہمتی نے جو زیردستی سے پیدا ہوئی تھی ، ان میں اتنا بل بوتا باقی نہ چھوڑا تھا کہ کفر و ضلالت کی فرمانروائی کے مقابلہ میں ایمان و ہدایت کا عَلَم لے کر خود اُٹھتے، یا جو اُٹھا تھا اُس کاساتھ دیتے۔
حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی اس کشمکش میں عام اسرائیلیوں کا طرزِ عمل کیا تھا، اس کا اندازہ بائیبل کی اس عبارت سے ہو سکتا ہے:
” جب وہ فرعون کے پاس سے نکلے آرہے تھے تو اُن کو موسیٰ اور ہارون ملاقات کے لیے راستہ پر کھڑے ملے۔ تب انہوں نے ان سے کہا کہ خداوند ہی دیکھے اور تمہارا انصاف کرے، تم نے تو ہم کو فرعون اور اس کے خادموں کی نگاہ میں ایسا گھِنَونا کیا ہے کہ ہمارے قتل کے لیے اُن کے ہاتھ میں تلوار دے دی ہے“۔ (خروج ۶ : ۲۰ – ۲۱)
تَلمُود میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے کہتے تھے:
”ہماری مثال تو ایسی ہے جیسے ایک بھیڑیے نے بکری کو پکڑا اور چرواہے نے آکر اس کو بچانے کی کوشش کی اور دونوں کی کشمکش میں بکری کے ٹکڑے ہو گئے۔ بس اسی طرح تمہاری اور فرعون کی کھینچ تان میں ہمارا کام تمام ہو کر رہے گا“۔
انہی باتوں کی طرف سورۂ اعراف میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ اُوْ ذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْ تِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِئْتَنَا (آیت ۱۲۹)۔
80. متن میں لفظ مُسْرِ فِیْنَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا۔ مگر اس لفظی ترجمے سے اس کی اصل روح نمایاں نہیں ہوتی ۔ مسرفین سے مراد دراصل وہ لوگ ہیں جو اپنے مطلب کے لیے کسی بُرے سے بُرے طریقے کو بھی اختیار کرنے میں تامل نہیں کرتے ۔ کسی ظلم اور کسی بداخلاقی اور کسی وحشت و بربریت کے ارتکاب سے نہیں چوکتے۔ اپنی خواہشات کے پیچھے ہر انتہا تک جا سکتے ہیں ۔ ان کے لیے کوئی حد نہیں جس پر جا کر وہ رُک جائیں۔
81. ظاہر ہے کہ یہ الفاظ کسی کافر قوم کو خطاب کر کے نہیں کہے جا سکتے تھے۔ حضرت موسیٰ کا یہ ارشاد صاف بتا رہا ہے کہ بنی اسرائیل کی پوری قوم اس وقت مسلمان تھی، اور حضرت موسیٰ ان کو یہ تلقین فرما رہے تھے کہ اگر تم واقعی مسلمان ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے ، تو فرعون کی طاقت سے خوف نہ کھاؤ بلکہ اللہ کی طاقت پر بھروسہ کرو۔
82. یہ جواب ان نوجوانوں کا تھا جو موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو ئے تھے۔ یہاں قالوا کی ضمیر قوم کی طرف نہیں بلکہ ذریۃ کی طرف پھر رہی ہے جیسا کہ سیاق ِ کلام سے خود ظاہر ہے۔
83. ”ان صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ ”ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا“ ، بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبہ و تسلّط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیام حق کے لیے اُٹھتے ہیں، تو اُنہیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک طرف باطل کے اصلی علمبردار ہوتے ہیں جو پوری طاقت سے اِن داعیان ِ حق کو کچل دینا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے، مقابلہ میں اقامت حق کی سعی کو غیر واجب، لاحاصل ، یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کو شش یہ ہوتی ہے کہ اپنی اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح درست ثابت کر دے اور ان لوگوں کو اُلٹا بر سر باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اُ س خلش کو مٹا ئے جو اُن کی دعوت ِ اقامت ِ دینِ حق سے اس کےدل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخر کار اُسی طاقت کے حق میں پڑ ا کرتا ہے جس کا پلہ بھاری رہے ، خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل۔ اس صورت حال میں ان داعیان حق کی ہر ناکامی ، ہر مصیبت ، ہر غلطی ، ہر کمزوری اور ہر خامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو پہلا گروہ کہتا ہے کہ حق ہمارے ساتھ تھا نہ کہ ان بے وقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہو گئے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ دیکھ لیا! ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہوگا، اور آخر کار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلّف ہی کب کیا تھا، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو اُن عقائد و اعمال سے پورے ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت فراعنۂ وقت نے دے رکھی تھی۔ تیسرا گروہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ حق وہی ہے جو غالب رہا۔ اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کر جائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے ، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہو جائے ، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدتہائے دراز تک کسی دوسری دعوت حق کے اُٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ پس یہ بڑی معنی خیز دعا تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ خدایا ہم پر ایسا فضل فرما کہ ہم ظالموں کے لیے فتنہ بن کر نہ رہ جائیں۔ یعنی ہم کو غلطیوں سے ، خامیوں سے ، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا میں بار آور کر دے، تا کہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب خیر بنے نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔
84. اس آیت کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ اس کے الفاظ پر اور اس ماحول پر جس میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے گئے تھے، غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں کہ غالبًا مصر میں حکومت کے تشدد سے اور خود بنی اسرائیل کے اپنے ضعف ایمانی کی وجہ سے اسرائیلی اور مصری مسلمانوں کے ہاں نماز با جماعت کا نظام ختم ہو چکا تھا، اور یہ ان کے شیرازے کے بکھرنے اور ان کی دینی روح پر موت طاری ہوجانے کا ایک بہت بڑا سبب تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو حکم دیا گیا کہ اس نظام کو ازسر نو قائم کریں اور مصر میں چند مکان اس غرض کے لیے تعمیر یا تجویز کر لیں کہ وہاں اجتماعی نماز ادا کی جایا کرے۔ کیونکہ ایک بگڑی ہوئی اور بکھری ہوئی مسلمان قوم میں دینی روح کو پھر سے زندہ کرنے اور اس کی منتشر طاقت کو از سر نو مجتمع کر نے کے لیے اسلامی طرز پر جو کوشش بھی کی جائے گی اس کا پہلا قدم لازمًا یہی ہو گا کہ اس میں نماز با جماعت کا نظام قائم کیا جائے۔ ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرانے کا مفہوم میرے نزدیک یہ ہے کہ ان مکانوں کو ساری قوم کے لیے مرکز اور مرجع ٹھیرایا جائے ، اور اس کے بعد ہی ”نماز قائم کرو“کہنے کا مطلب یہ ہے کہ متفرق طور پر اپنی اپنی جگہ نماز پڑھ لینے کے بجائے لوگ ان مقرر مقامات پر جمع ہو کر نماز پڑھا کریں، کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں” اقامتِ صلوٰۃ“ جس چیز کا نام ہے اس کے مفہوم میں لازمًا نماز با جماعت بھی شامل ہے۔
85. یعنی اہلِ ایمان پر مایوسی، مرعوبیت اور پژ مردگی کی جو کیفیت اس وقت چھائی ہوئی ہے اسے دور کرو۔ انہیں پر اُمید بناؤ۔ ان کی ہمت بندھاؤ اور ان کا حوصلہ بڑھاؤ۔”بشارت دینے“ کے لفظ میں یہ سب معنی شامل ہیں۔
86. اُوپر کی آیات حضرت موسیٰ کی دعوت کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور یہ دعا زمانہ ٔ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے کی ہے۔ بیچ میں کئی برس کا طویل فاصلہ ہے جس کی تفصیلات کو یہاں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں اس بیچ کے دور کا بھی مفصّل حال بیا ن ہواہے۔
87. یعنی ٹھاٹھ ، شان و شوکت ور تمدّن و تہذیب کی وہ خوش نمائی جس کی وجہ سے دنیا اُن پر اور ان کے طور طریقوں پر ریجھتی ہے اور ہر شخص کا دل چاہتا ہے کہ ویسا ہی بن جائے جیسے وہ ہیں۔
88. یعنی ذرائع اور وسائل جن کی فراوانی کی وجہ سے وہ اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں رکھتے ہیں اور جن کے فقدان کی وجہ سے اہلِ حق اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے سے عاجز رہ جاتے ہیں۔
89. جیسا کہ ابھی ہم بتا چکے ہیں، یہ دعا حضرت موسیٰ نے زمانۂ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے میں کی تھی اور ا س وقت کی تھی جب پے دَر پے نشانات دیکھ لینے اور دین کی حجت پوری ہو جانے کے بعد بھی فرعون اور اس کے اعیان سلطنت حق کی دشمنی پر انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہے ۔ ایسے موقع پر پیغمبر جو بد دعا کرتا ہے وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہوتی ہے جو کفر پر اصرار کر نے والوں کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے، یعنی یہ کہ پھر انہیں ایمان کی توفیق نہ بخشی جائے۔
90. جو لوگ حقیقت کو نہیں جانتے اور اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے وہ باطل کے مقابلہ میں حق کی کمزوری ، اور اقامت حق کے لیے سعی کرنے والوں کی مسلسل ناکامیاں ، اور ائمہ باطل کے ٹھاٹھ اور ان کی دنیوی سرفرازیاں دیکھ کر یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ اس کے باغی دنیا پر چھائے رہیں، اور شاید حضرت حق خود ہی باطل کے مقابلہ میں حق کی تائید کر نا نہیں چاہتے، پھر وہ نادان لوگ آخر کار اپنی بدگمانیوں کی بنا پر یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اقامتِ حق کی سعی لاحاصل ہے اور اب مناسب یہی ہے کہ اُس ذرا سی دینداری پر راضی ہو کر بیٹھ رہا جائے جس کی اجازت کفر و فسق کی سلطانی میں مل رہی ہو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اور ان کے پیرووں کو اسی غلطی سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ انہی ناموافق حالات میں کام کیے جاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو تمہیں بھی وہی غلط فہمی ہو جائے جو ایسے حالات میں جاہلوں اور نادانوں کو عمومًا لاحق ہو جایا کرتی ہے۔
91. بائیبل میں اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ہے ،مگر تلمود میں تصریح ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون نے کہا”میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں“۔
92. آج تک وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہان فرعون کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی پائی گئی تھی۔ اس کو موجودہ زمانے میں جبل فرعون کہتے ہیں اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے۔ اس کی جائے وقوع ابوزَنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے ، اور علاقے کے باشندے اسی جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش یہاں پڑی ہوئی ملی تھی۔
اگر یہ ڈوبنے والا وہی فرعون منفتہ ہے جس کو زمانۂ حال کی تحقیق نے فرعونِ موسیٰ قرار دیا ہے تو اس کی لاش آج تک قاہرہ کے عجائب خانے میں موجود ہے۔ سن ۱۹۰۷ ء میں سرگرافٹن الیٹ سمتھ نے اس کی مَمی پر سے جب پٹیاں کھولی تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی۔
93. یعنی ہم تو سبق آموز اور عبرت انگیز نشانات دکھائے ہی جائیں گے اگرچہ اکثر انسانوں کا حال یہ ہے کہ کسی بڑی سے بڑی عبرتناک نشانی کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔