Tafheem ul Quran

Surah 10 Yunus, Ayat 93-103

وَلَقَدۡ بَوَّاۡنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ مُبَوَّاَ صِدۡقٍ وَّرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ​ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡا حَتّٰى جَآءَهُمُ الۡعِلۡمُ​ؕ اِنَّ رَبَّكَ يَقۡضِىۡ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ فِيۡمَا كَانُوۡا فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ‏ ﴿10:93﴾ فَاِنۡ كُنۡتَ فِىۡ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ فَسۡـئَلِ الَّذِيۡنَ يَقۡرَءُوۡنَ الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكَ​ۚ لَقَدۡ جَآءَكَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِيۡنَۙ‏ ﴿10:94﴾ وَلَا تَكُوۡنَنَّ مِنَ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَتَكُوۡنَ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏ ﴿10:95﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ حَقَّتۡ عَلَيۡهِمۡ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَۙ‏ ﴿10:96﴾ وَلَوۡ جَآءَتۡهُمۡ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَ لِيۡمَ‏ ﴿10:97﴾ فَلَوۡلَا كَانَتۡ قَرۡيَةٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَهَاۤ اِيۡمَانُهَاۤ اِلَّا قَوۡمَ يُوۡنُسَ ۚؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا كَشَفۡنَا عَنۡهُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡىِ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَمَتَّعۡنٰهُمۡ اِلٰى حِيۡنٍ‏ ﴿10:98﴾ وَلَوۡ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِى الۡاَرۡضِ كُلُّهُمۡ جَمِيۡعًا​ ؕ اَفَاَنۡتَ تُكۡرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿10:99﴾ وَمَا كَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تُؤۡمِنَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰهِ​ؕ وَيَجۡعَلُ الرِّجۡسَ عَلَى الَّذِيۡنَ لَا يَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿10:100﴾ قُلِ انْظُرُوۡا مَاذَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ​ؕ وَمَا تُغۡنِى الۡاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنۡ قَوۡمٍ لَّا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿10:101﴾ فَهَلۡ يَنۡتَظِرُوۡنَ اِلَّا مِثۡلَ اَيَّامِ الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ؕ قُلۡ فَانْتَظِرُوۡۤا اِنِّىۡ مَعَكُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِيۡنَ‏ ﴿10:102﴾ ثُمَّ نُنَجِّىۡ رُسُلَنَا وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا​ كَذٰلِكَ​ۚ حَقًّا عَلَيۡنَا نُـنۡجِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿10:103﴾

93 - ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانہ دیا94 اور نہایت عمدہ وسائل ِ زندگی انہیں عطا کیے۔ پھر اُنہوں نے بہم اختلاف نہیں کیا مگر اُس وقت جب کہ علم اُن کے پاس آچکا تھا۔95 یقیناً تیرا ربّ قیامت کے روز اُن کے درمیان اُس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں وہ اختلاف کر تے رہے ہیں۔ 94 - اب اگر تجھے اُس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے ربّ کی طرف سے لہٰذا تُو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو 95 - اور ان لوگوں میں شامل نہ ہو جنہوں نے اللہ کی آیات کو جُھٹلایا ہے، ورنہ تُو نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہوگا۔96 96 - حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں پر تیرے ربّ کا قول راست آگیا 97ہے اُن کے سامنے خواہ کوئی نشانی آجائے وہ بھی ایمان لا کر نہیں دیتے 97 - جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں۔ 98 - پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اُس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونسؑ کی قوم کے سوا98 (اِس کی کوئی نظیر نہیں)۔ وہ قوم جب ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اُس پر سے دُنیا کی زندگی میں رُسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا99 اور اُس کو ایک مدّت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیاتھا۔100 99 - اگر تیرے ربّ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ 101پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟102 100 - کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لاسکتا،103 اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔ 104 101 - اِن سے کہو ”زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اُسے آنکھیں کھول کر دیکھو۔“ اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے اُن کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مُفید ہو سکتی ہیں۔105 102 - اب یہ لوگ اس کے سوا اور کس چیز کی منتظر ہیں کہ وہی بُرے دن دیکھیں جو اِن سے پہلے گُزرے ہوئے لوگ دیکھ چُکے ہیں؟ اِن سے کہو ”اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔“ 103 - پھر (جب ایسا وقت آتا ہے تو)ہم اپنے رسولوں کو اور اُن لوگوں کو بچا لیا کرتے ہیں جو ایمان لائے ہوں۔ ہمارا یہی طریقہ ہے۔ ہم پر یہ حق ہے کہ مومنوں کو بچا لیں۔ ؏ ١۰


Notes

94. یعنی مصر سے نکلنے کے بعد ارض فلسطین۔

95. مطلب یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنے دین میں جو تفرقے برپا کیے اور نئے نئے مذہب نکالے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو حقیقت کا علم نہیں دیا گیا تھا اور ناواقفیت کی بنا پر انہوں نے مجبورًا ایسا کیا، بلکہ فی الحقیقت یہ سب کچھ ان کے اپنے نفس کی شرارتوں کا نتیجہ تھا۔ خدا کی طرف سے تو انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ دینِ حق یہ ہے ، یہ اس کے اصول ہیں، یہ اس کے تقاضے اور مطالبے ہیں، یہ کفر و اسلام کے امتیازی حدود ہیں، طاعت اِس کو کہتے ہیں، معصیّت اِس کا نام ہے، اِن چیزوں کی باز پرس خدا کے ہاں ہونی ہے ، اور یہ وہ قواعد ہیں جن پر دنیا میں تمہاری زندگی قائم ہونی چاہیے ۔ مگر ان صاف صاف ہدایتوں کے باوجود اُنہوں نےایک دین کے بیسیوں دین بنا ڈالے اور خدا کی دی ہوئی بنیادوں کو چھوڑ کر کچھ دوسری ہی بنیادوں پر اپنے مذہبی فرقوں کی عمارتیں کھڑی کر لیں۔

96. یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر دراصل بات اُن لوگوں کو سنانی مقصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے۔ اور اہلِ کتاب کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ عرب کے عوام تو آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے، ان کے لیے یہ آواز ایک نئی آواز تھی، مگر اہلِ کتاب کے علماء میں جو لوگ متدین اور منصف مزاج تھے و ہ اس امر کی تصدیق کر سکتے تھے کہ جس چیز کی دعوت قرآن دے رہا ہے یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت تمام پچھلے انبیا دیتے رہے ہیں۔

97. یعنی یہ قول کہ جو لوگ خود طالب حق نہیں ہوتے ، اور جو اپنے دلوں پر ضد ، تعصب اور ہٹ دھرمی کے قفل چڑھائےرکھتے ہیں اور جو دنیا کے عشق میں مدہوش اور عاقبت سے بے فکر ہوتے ہیں انہیں ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔

98. یونس علیہ السلام (جن کا نام بائیبل میں یوناہ ہے اور جن کا زمانہ سن ۸۶۰ – ۷۸۴ قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے) اگر چہ اسرائیلی نبی تھے، مگر ان کو اشور(اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا اور اسی بنا پر اشوریوں کو یہاں قوم یونس کہا گیا ہے۔ اس قوم کا مرکز اس زمانہ میں نینویٰ کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج تک دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر موجودہ شہر موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں ”یونس نبی“ کے نام سے ایک مقام بھی موجود ہے ۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت نینوی تقریبًا ۶۰ میل کے دَور (دائرے)میں پھیلا ہوا تھا۔

99. قرآن میں اس قصّہ کی طرف تین جگہ صرف اشارات کیے گئے ہیں، کوئی تفصیل نہیں دی گئی(ملاحظہ ہو سورہ ٔ انبیاء، آیات ۸۷ – ۸۸۔ ، الصافّات، ۱۳۹ – ۱۴۹۔ ، القلم، ۴۸ – ۵۰) اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ قوم کن خاص وجوہ کی بنا پر خدا کے اِس قانون سے مستثنیٰ کی گئی کہ”عذاب کا فیصلہ ہو جانے کے بعد کسی کا ایمان اس کے لیے نافع نہیں ہوتا“۔ بائیبل میں ”یوناۃ“ کے نام سے جو مختصر سا صحیفہ ہے اس میں کچھ تفصیل تو ملتی ہے مگر وہ چنداں قابل اعتماد نہیں ہے ۔ کیونکہ اوّل تو نہ وہ آسمانی صحیفہ ہے، نہ خود یونس علیہ السلام کا اپنا لکھا ہوا ہے ، بلکہ ان کے چار پانچ سو برس بعد کسی نامعلوم شخص نے اسے تاریخ یونس کے طور پر لکھ کر مجموعہ کتب مقدسہ میں شامل کر دیا ہے۔ دوسرے اس میں بعض صریح مہملات بھی پائے جاتے ہیں جو ماننے کے قابل نہیں ہیں۔ تاہم قرآن کے اشارات اور صحیفہ ٔ یونس کی تفصیلات پر غور کرنے سے وہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے جو مفسرین ِ قرآن نے بیان کی ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام چونکہ عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اپنا مستقر چھوڑ کر چلے گئے تھے، ا س لیے جب آثارِ عذاب دیکھ کر آشوریوں نے توبہ و استغفار کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ قرآن مجید میں خدائی دستور کے جو اصول و کلیات بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قومکو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اپنی حجت پوری نہیں کر لیتا ۔ پس جب نبی نے اس قوم کی مہلت کے آخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جا ری نہ رکھا، اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے بطورر خود ہی وہ ہجرت کر گیا، تو اللہ تعالیٰ کے انصاف نے اس کی قوم کو عذاب دینا گوارا نہ کیا کیونکہ اس پر اتمام حجت کی قانونی شرائط پوری نہیں ہوئی تھیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورۂ الصافات، حاشیہ نمبر ۸۵)۔

100. جب یہ قوم ایمان لے آئی تو اس کی مہلت عمر میں اضافہ کر دیا گیا۔ بعد میں اس نے پھر خیال و عمل کی گمراہیاں اختیار کرنی شروع کر دیں ۔ ناحوم نبی (سن ۷۲۰ - سن ۶۹۸ قبل مسیح) نے اسے متنبہ کیا ، مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ پھر صَفنِیاہ نبی (سن ۶۴۰ - ۶۰۹ قبل مسیح) نے اس کو آخری تنبیہ کی۔ وہ بھی کار گر نہ ہوئی۔ آخر کار سن ۶۱۲ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں اللہ تعالیٰ نے میڈیا والوں کو اس پر مسلط کر دیا۔ میڈیا کا بادشاہ بابِل والوں کی مدد سے اشور کے علاقے پر چڑھ آیا۔ اشوری فوج شکست کھا کر نینویٰ میں محصور ہو گئی ۔ کچھ مدت تک اس نے سخت مقابلہ کیا۔ پھر دجلے کی طغیانی نے فصیلِ شہر توڑ دی اور حملہ آور اندر گھس گئے۔ پورا شہر جلا کر خاک سیاہ کر دیا گیا۔ گردو پیش کےعلاقے کا بھی یہی حشر ہوا۔ اشور کا بادشاہ خود اپنے محل میں آگ لگا کر جل مرا اور اس کے ساتھ ہی اشوری سلطنت اور تہذیب بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ زمانہ ٔ حال میں آثارِ قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں آتش زدگی کے نشانات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

101. یعنی اگر اللہ کی خواہش یہ ہوتی کہ اس کی زمین میں صرف اطاعت گزار و فرمانبردار ہی بسیں اور کفر و نافرمانی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو تو اس کے لیے نہ یہ مشکل تھا کہ وہ تمام اہلِ زمین کو مومن و مطیع پیدا کر تا اور نہ یہی مشکل تھا کہ سب کے دل اپنے ایک ہی نکوینی اشارے سے ایمان و اطاعت کی طرف پھیر دیتا۔

102. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو زبردستی مومن بنانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا کرنے سے روک رہا تھا۔ دراصل اس فقرے میں وہی اندازِی بیان اختیار کیا گیا ہے جو قرآن میں بکثرت مقامات پر ہمیں ملتا ہے ، کہ خطاب بظاہر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے مگر اصل میں لوگوں کو وہ بات سنانی مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگو، حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے اور راہِ راست صاف صاف دکھا دینے کا جو حق تھا وہ تو ہمارے نبی نے پورا پورا ادا کر دیا ہے۔ اب اگر تم خود راست رو بننا چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پر آنا صرف اسی پر موقوف ہے کہ کوئی تمہیں زبر دستی راہِ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا جبری ایمان اگر اللہ کو منظور ہوتا تو اس کے لیے اُسے نبی بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی، یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کر سکتا تھا۔

103. یعنی جس طرح تمام نعمتیں تنہا اللہ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہ خود حاصل کر سکتا ہے نہ کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے ، اسی طرح یہ نعمت بھی کہ کوئی شخص صاحبِ ایمان ہو اور راہِ راست کی طرف ہدایت پائے اللہ کے اذن پر منحصر ہے۔کوئی شخص نہ اس نعمت کو اذنِ الہٰی کے بغیر خود پا سکتا ہے ، اور نہ کسی انسان کے اختیار میں یہ ہے کہ جس کو چاہے یہ نعمت عطا کردے۔ پس نبی اگر سچے دل سے یہ چاہے بھی کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بنا سکتا ۔ اس لیے کہ اللہ کا اذن اور اس کی توفیق درکار ہے۔

104. یہاں صاف بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کا اذن اور اس کی توفیق کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیر کسی معقول ضابطے کے یوں ہی جس کو چاہا نعمت ایمان پانے کا موقع دیا اور جسے چاہا اس موقع سے محروم کر دیا۔ بلکہ اس کا ایک نہایت حکیمانہ ضابطہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ جو شخص حقیقت کی تلاش میں بے لاگ طریقے سے اپنی عقل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے حقیقت رسی کےاسباب و ذرائع اس کی سعی و طلب کے تناسب سے مہیا کر دیے جاتے ہیں، اور اسی کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی تو فیق بخشی جاتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور جو اپنی عقل کو تعصبات کے پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں ، یا سرے سے تلاش حقیقت میں اُسے استعمال ہی نہیں کرتے، تو اُن کے لیے اللہ کے خزانۂ قسمت میں جہالت اور گمراہی اور غلط بینی و غلط کاری کی نجاستوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو انہی نجاستوں کا اہل بناتے ہیں اور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں۔

105. “یہ اُن کے اُس مطالبہ کا آخری اور قطعی جواب ہے جو وہ ایمان لانے کے لیےشرط کے طور پر پیش کرتے تھے کہ ہمیں کوئی نشانی دکھائی جائے جس سے ہم کو یقین آجائے کہ تمہاری نبوت سچی ہے ۔ اس کےجواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تمہارے اندر حق کی طلب اور قبولِ حق کی آمادگی ہو تو وہ بے حد و حساب نشانیاں جو زمین و آسمان میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تمہیں پیغام محمدی کی صداقت کا اطمینان دلانے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں۔ صرف آنکھیں کھول کر انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر یہ طلب اور یہ آمادگی ہی تمہارے اندر موجود نہیں ہے تو پھر کوئی نشانی بھی ، خواہ وہ کیسی ہی خارقِ عادت اور عجیب و غریب ہو، تم کو نعمت ایمان سے بہرہ ور نہیں کر سکتی۔ ہر معجزے کو دیکھ کر تم فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی طرح کہو گے یہ تو جادو گری ہے۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہو تے ہیں ان کی آنکھیں صرف اُس وقت کھلا کرتی ہیں جب خدا کا قہر و غضب اپنی ہولناک سخت گیری کے ساتھ اُن پر ٹوٹ پڑتا ہے جس طرح فرعون کی آنکھیں ڈوبتے وقت کھلی تھیں۔ مگر عین گرفتاری کے موقع پر جو توبہ کی جائے اس کی کوئی قیمت نہیں۔