Tafheem ul Quran

Surah 104 Al-Humazah, Ayat 1-9

وَيۡلٌ لِّـكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ۙ‏ ﴿104:1﴾ اۨلَّذِىۡ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ ۙ‏ ﴿104:2﴾ يَحۡسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخۡلَدَهٗ​ ۚ‏ ﴿104:3﴾ كَلَّا​ لَيُنۡۢبَذَنَّ فِى الۡحُطَمَةِ  ۖ‏ ﴿104:4﴾ وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا الۡحُطَمَةُ ؕ‏ ﴿104:5﴾ نَارُ اللّٰهِ الۡمُوۡقَدَةُ ۙ‏ ﴿104:6﴾ الَّتِىۡ تَطَّلِعُ عَلَى الۡاَفۡـئِدَةِ ؕ‏ ﴿104:7﴾ اِنَّهَا عَلَيۡهِمۡ مُّؤۡصَدَةٌ ۙ‏ ﴿104:8﴾ فِىۡ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ‏ ﴿104:9﴾

1 - تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو (مُنہ در مُنہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) بُرائیاں کرنے کا خوگر ہے۔ 1 2 - جس نے مال جمع کیا اور اُسے گِن گِن کر رکھا۔ 2 3 - وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال ہمیشہ اُس کے پاس رہے گا۔ 3 4 - ہرگز نہیں، وہ شخص تو چَکنا چُور کر دینے والی 4 جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔ 5 5 - اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چَکنا چُور کر دینے والی جگہ ؟ 6 - اللہ کی آگ، 6 خُوب بھڑکائی ہوئی، 7 - جو دلوں تک پہنچے گی۔ 7 8 - وہ اُن پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی 8 9 - (اِس حالت میں کہ وہ) اُونچے اُونچے ستونوں میں (گھِرے ہوئے ہوں گے)۔ 9 ؏۱


Notes

1. اصل الفاظ ہیں ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ ۔ عربی زبان میں ھَمْز اور لَمْز معنی کے اعتبار سے باہم اِتنے قریب ہیں کہ کبھی دونوں ہم معنی استعمال ہوتے ہی، اور کبھی دونوں میں فرق ہوتا ہے ، مگر ایسا فرق کہ خود اہلِ زبان میں سے کچھ لوگ ھَمْز کا جو مفہوم بیان کرتے ہیں ، کچھ دوسرے لوگ وہی مفہوم لَمْز کا بیان کرتے ہیں، اور اس کے برعکس کچھ لوگ لَمْز کے جو معنی بیان کرتے ہیں، وہ دوسرے لوگوں کے نزدیک ھَمْز کے معنی ہیں۔ یہاں چونکہ دونوں لفظ ایک ساتھ آئے ہیں اور ھُمَزَ ۃٍ لُّمَزَۃٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس لیے دونوں مل کر یہ معنی دیتے ہیں کہ اُس شخص کی عادت ہی یہ بن گئی ہے کہ کہ وہ دوسروں کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے، کسی کو دیکھ کر انگلیاں اٹھاتا اور آنکھوں سے اشارے کرتا ہے ، کسی کے نسب پر طعن کرتا ہے ، کسی کی ذات میں کیڑے نکالتا ہے، کسی پر منہ در منہ چوٹیں کرتا ہے ، کسی کے پیٹھ پیچھے اُس کی برائیاں کرتا ہے ، کہیں چغلیاں کھا کر اور لگائی بجھائی کر کے دوستوں کو لڑواتا اور کہیں بھائیوں میں پھوٹ ڈلواتا ہے ، لوگوں کے بُرے بُرے نام رکھتا ہے ، اُن پر چوٹیں کرتا ہے اور اُن کو عیب لگاتا ہے۔

2. پہلے فقرے کے بعد یہ دوسرا فقرہ خود بخود یہ معنی دیتا ہے کہ لوگوں کی تحقیر و تذلیل وہ اپنی مال داری کے غرور میں کرتا ہے۔ مال جمع کرنے کے لیے جَمَعَ مَالًا کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مال کی کثرت کا مفہوم نکلتا ہے۔ پھر گِن گِن کر رکھنے کے الفاظ سے اُس شخص کے بخل اور زرپرستی کی تصویر نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔

3. دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال اُسے حیاتِ جاوداں بخش دے گا ، یعنی دولت جمع کرنے اور اُسے گِن گِن کر رکھنے میں وہ ایسا منہمِک ہے کہ اُسے اپنی موت یا د نہیں رہی ہے اور اُسے کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ایک وقت اُس کو یہ سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہو جانا پڑے گا۔

4. اصل میں لفظ حُطَمَہ استعمال کیا گیا ہے جو حَطْم سے ہے ۔ حَطْم کے معنی توڑنے، کچل دینے اور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے کے ہیں۔ جہنّم کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جو چیز بھی اُس میں پھینکی جائے گی اُسے وہ اپنی گہرائی اور اپنی آگ کی وجہ سے توڑ کر رکھ دے گی۔

5. اصل میں لَیُنْبَذَنَّ فرمایا گیا ہے ۔ نَبْذ عربی زبان میں کسی چیز کو بے وقعت اور حقیر سمجھ کر پھینک دینے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اِس سے خود بخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اپنی مال داری کی وجہ سے وہ دنیا میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہے، لیکن قیامت کے روز اُسے حقارت کے ساتھ جہنّم میں پھینک دیا جائے گا۔

6. قرآن مجید میں اِس مقام کے سوا اور کہیں جہنّم کی آگ کو اللہ کی آگ نہیں کہا گیا ہے۔ اِس مقام پر اُس کو اللہ تعالیٰ کیطرف منسوب کرنے سے نہ صرف اُس کی ہولناکی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی دولت پا کر غرور و تکبُّر میں مبتلا ہ و جانے والوں کو اللہ کس قدر سخت نفرت اور غضب کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس کی وجہ سے اُس نے اُس آگ کو خاص اپنی آگ کہا ہے جس میں وہ پھینکے جائیں گے۔

7. اصل الفاظ ہیں تَطَّلِعُ عَلَی الْاَ فْئِدَۃِ ۔ تَطَّلِعُ اطَّلاع سے ہے جس کے ایک معنی چڑھنے اور اوپر پہنچ جانے کے ہیں، اور دوسرے معنی باخبر ہونے اور اطلاع پانے کے۔ اَفْئِدَۃ فواد کی جمع ہے جس کے معنی دل کے ہیں، لیکن یہ لفظ اُس عضو کے لیے استعمال نہیں ہوتا جو سینے کے اندر دھڑکتا ہے ، بلکہ اُس مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے جو انسان کے شعور و ادراک، اور جذبات و خواہشات اور عقائد و افکار، اور نیتوں اور ارادوں کا مقام ہے۔ دلوں تک اس آگ کے پہنچنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ آگ اُس جگہ تک پہنچے گی جو انسان کے بُرے خیالات، فاسد عقائد، ناپاک خواہشات و جذبات، خبیث نیتوں اور ارادوں کا مرکز ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وہ آگ دنیا کی آگ کی طرح اندھی نہیں ہو گی کہ مستحق اور غیر مستحق سب کو جلا دے بلکہ وہ ایک ایک مجرم کے دل تک پہنچ کر اس کے جرم کی نوعیت معلوم کرے گی اور ہر ایک کو اس کے استحقاق کے مطابق عذاب دے گی۔

8. یعنی جہنّم میں مجرموں کو ڈال کر اوپر سے اُس کو بند کر دیا جائے گا۔ کوئی دروازہ تو درکنار کوئی جِھری تک کھلی ہوئی نہ ہو گی۔

9. فِیْ عَمَدٍمُّمَدَّدَۃٍ کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جہنّم کے دروازوں کو بند کر کے اُن پر اُونچے اُونچے ستون گاڑ دیے جائیں گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ مجرم اونچے اونچے ستونوں سے بندھے ہوئے ہوں گے۔ تیسرا مطلب ابن عباس ؓ نے یہ بیان کیا ہے کہ اُس آگ کے شعلے لمبے ستونوں کی شکل میں اٹھ رہے ہوں گے۔