Tafheem ul Quran

Surah 105 Al-Fil, Ayat 1-5

اَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِيۡلِؕ‏ ﴿105:1﴾ اَلَمۡ يَجۡعَلۡ كَيۡدَهُمۡ فِىۡ تَضۡلِيۡلٍۙ‏ ﴿105:2﴾ وَّاَرۡسَلَ عَلَيۡهِمۡ طَيۡرًا اَبَابِيۡلَۙ‏ ﴿105:3﴾ تَرۡمِيۡهِمۡ بِحِجَارَةٍ مِّنۡ سِجِّيۡلٍۙ‏ ﴿105:4﴾ فَجَعَلَهُمۡ كَعَصۡفٍ مَّاۡكُوۡلٍ‏ ﴿105:5﴾

1 - تم نے دیکھا نہیں 1 کہ تمہارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ 2 2 - کیا اُس نے اُن کی تدبیر 3 کو اَکارَت نہیں کر دیا؟ 4 3 - اور اُن پر پرندوں کے جھُنڈ کے جھُنڈ بھیج دیے 5 4 - جو اُن پر پکّی ہوئی مَٹّی کے پتھر پھینک رہے تھے، 6 5 - پھر اُن کا یہ حال کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسا۔ 7 ؏۱


Notes

1. خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر اصل مخاطب نسلِ قریش ، بلکہ عرب کے عام لوگ ہیں جو اس سارے قصے سے خوب واقف تھے۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اَلَمْ تَرَ (کیا تم نے نہیں دیکھا) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بلکہ عام لوگوں کو مخاطب کر نا ہے۔ (مثال کے طور پر آیاتِ ذیل ملاحظہ ہوں: ابراہیم، آیت۱۹۔ الحج۶۵-۱۸۔ النور ۴۳۔ لقمان ۳۱-۲۹۔ فاطر ۲۷۔ الزمر ۲۱)۔ پھر دیکھنے کا لفظ اس مقام پر اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مکّہ اور اطرافِ مکّہ اور عرب کے ایک وسیع علاقے میں مکّہ سے یمن تک ایسے بہت سے لوگ اُس وقت زندہ موجود تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اصحابُ الْفیل کی تباہی کا واقعہ دیکھا تھا ۔ کیونکہ اس واقعہ کو گزرے ہوئے چالیس پینتالیس سال سے زیادہ کا زمانہ نہیں ہوا تھا، اور سارا عرب ہی اس کی ایسی متواتر خبریں دیکھنے والوں سے سُن چکا تھا کہ یہ واقعہ لوگوں کے لیے آنکھوں دیکھے واقعہ کی طرح یقینی تھا۔

2. یہاں اللہ تعالیٰ نے کوئی تفصیل اِس امر کی بیان نہیں کی کہ یہ ہاتھی والے کون تھے، کہاں سے آئے تھے اور کس غرض کے لیے آئے تھے۔ کیونکہ یہ باتیں سب کو معلوم تھیں۔

3. اصل میں لفظ کَید استعمال کیا گیا ہے جو کسی شخص کو نقصان پہنچانے کے لیے خفیہ تدبیر کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہاں خفیہ کیا چیز تھی؟ ساٹھ ہزار کا لشکر کئی ہاتھی لیے ہوئے علانیہ یمن سے مکّہ آیا تھا، اور اُس نے یہ بات چھُپا کر نہیں رکھی تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھانے آیا ہے۔ اس لیے یہ تدبیر تو خفیہ نہ تھی۔ البتہ جو بات خفیہ تھی وہ حبشیوں کی یہ غرض تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھا کر قریش کو کُچل کر ، اور تمام اہلِ عرب کو مرعوب کر کے تجارت کا وہ راستہ عربوں سے چھین لینا چاہتے تھے جو جنوبِ عرب سے شام و مصر کی طرف جاتا ہے۔ اِس غرض کو اُنہوں نے چھُپا رکھا تھا اور ظاہر یہ کیا تھا کہ اُن کے کلیسا کی جو بے حُرمتی عربوں نے کی ہے اس کا بدلہ وہ اُن کا معبد ڈھا کر لینا چاہتے ہیں۔

4. اصل میں الفاظ ہیں فِیْ تَضْلِیْلٍ۔ یعنی ان کی تدبیر کو اُس نے ”گمراہی میں ڈال دیا“۔ لیکن محاورے میں کسی تدبیر کو گمراہ کر نے کا مطلب اُسے ضائع کر دینا اور اسے اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام کردینا ہے، جیسے ہم اردو زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص کا کوئی داؤں نہ چل سکا، یا اس کا کوئی تیر نشانے پر نہ بیٹھا۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے وَمَا کَیْدُ الْکَافِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلَالٍ ” مگر کافروں کی چال اکارت ہی گئی“(المومن۔۲۵)۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہوا وَاَنَّ اللہَ لَا یَھْدِیْ کَیْدَ الْخآئِنِیْنَ ” اور یہ کہ اللہ خائنوں کی چال کو کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا“(یوسف ۵۲) اہلِ عرب امرؤ القیس کو اَلْمَلِکُ الضَّلِیْل ، ”ضائع کرنے والا بادشاہ“ کہتے تھے، کیونکہ اس نے اپنے باپ سے پائی ہوئی بادشاہی کو کھو دیا تھا۔

5. اصل میں طَیْرًااَبَابِیْل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں چونکہ ابابیل ایک خاص قسم کے پرندے کو کہتے ہیں ا س لیے ہمارے ہاں لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ابرھہ کی فوج پر ابابیلیں بھیجی گئی تھیں۔ لیکن عربی زبان میں ابابیل کے معنی ہیں بہت سے متفرق گروہ جو پے درپے مختلف سِمتوں سے آئیں، خواہ وہ آدمیوں کے ہوں یا جانوروں کے۔ عِکرِمہ اور قَتَادہ کہتے ہیں کہ یہ جھُنڈ کے جھُنڈ پرندے بحرِ احمر کی طرف سے آئے تھے ۔ سعید بن جُبَیر اور عِکرِمہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے پرندے نہ پہلے کبھی دیکھے گئے تھے نہ بعد میں دیکھے گئے۔ یہ نہ نجد کے پرندے تھے نہ حجاز کے ، اور نہ تہامَہ یعنی حجاز اور بحر ِ احمر کے درمیان ساحلی علاقے کے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ان کی چونچیں پرندوں جیسی تھیں اور پنجے کُتے جیسے۔ عِکرِمہ کا بیان ہے کہ ان کے سر شکاری پرندوں کے سروں جیسے تھے۔ اور تقریباً سب راویوں کا متفقہ بیان ہے کہ ہر پرندے کی چونچ میں ایک ایک کنکر تھا اور پنجوں میں دو دو کنکر۔ مکّہ کے بعض لوگوں کے پاس یہ کنکر ایک مدّت تک محفوظ رہے۔ چنانچہ ابو نُعَیم نے نَوفَل بن ابی معاویہ کا بیان نقل کیا ہے کہ میں نے وہ کنکر دیکھے ہیں جو اصحاب الفیل پر پھینکے گئے تھے۔ وہ مٹر کے چھوٹے دانے کے برابر سیاہی مائل سُرخ تھے۔ ابن عباس کی روایت ابو نُعَیم نے نقل کی ہے کہ وہ چلغوزے کے برابر تھے اور ابنِ مَرْدُوْیَہ کی روایت میں ہے کہ بکری کی مینگنی کے برابر ۔ ظاہر ہے کہ سارے سنگریزے ایک ہی جیسے نہ ہوں گے۔ اُن میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہو گا۔

6. اصلی الفاظ ہیں بَحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ، یعنی سجّیل کی قسم کے پتھر۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ دراصل فارسی کے الفاظ سنگ اور گِل کا مُعَرَّب ہے اور اس سے مراد وہ پتھر ہے جو مٹی کے گارے سے بنا ہواور پک کر سخت ہو گیا ہو۔ قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ سورۂ ہود ، آیت ۸۲ اور سورۂ حِجْر، آیت ۷۴ میں کہا گیا ہے کہ قومِ لوط پر سِجّیل کی قسم کے پتھر برسائے گئے تھے، اور اُنہی پتھروں کے متعلق سورۂ ذاریات آیت ۳۳ میں فرمایا گیا ہے کہ وہ حِجارۃ مِن طین ، یعنی مٹی کے گارے سے بنے ہوئے پتھر تھے۔

مولانا حمید الدین فَراھی مرحوم و مغفور ، جنہوں نے عہدِ حاضر میں قرآن مجید کے معانی و مطالب کی تحقیق پر بڑا قیمتی کام کیا ہے ، اِس آیت میں تَرْمِیْہِم کا فاعل اہلِ مکّہ اور دوسرے اہلِ عرب کو قرار دیتے ہیں جو اَلَمْ تَرَ کے مُخاطَب ہیں ، اور پرندوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ سنگریزے نہیں پھینک رہے تھے ، بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اصحاب الفیل کی لاشوں کو کھائیں۔ اِس تاویل کے لیے جو دلائل اُنہوں نے دیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالمطّلب کا ابرھہ کے پاس جا کر کعبہ کے بجائے اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنا کسی طرح باور کرنے کے قابل بات نہیں ہے ، اور یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ قریش کے لوگوں اور دوسرے عربوں نے، جو حج کے لیے آئے ہوئے تھے، حملہ آور فوج کا کوئی مقابلہ نہ کیا ہو اور کعبے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وہ پہاڑوں میں جا چُھپے ہوں۔ اس لیے صورت ِ واقعہ دراصل یہ ہے کہ عربوں نے ابرھہ کے لشکر کو پتھر مارے ، اور اللہ تعالیٰ نے پتھراؤ کرنے والی طوفانی ہوا بھیج کر اس لشکر کا بھُرکس نکال دیا، پھر پرندے اُن لوگوں کی لاشیں کھانے کے لیے بھیجے گئے۔ لیکن جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر چکے ہیں، روایت صرف یہی نہیں ہے کہ عبد المطلب اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر نے گئے تھے، بلکہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اونٹوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور ابرھہ کو خانۂ کعبہ پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ تمام معتبر روایات کی رو سے ابرھہ کا لشکر محرّم میں آیا تھا جبکہ حُجّاج واپس جا چکے تھے۔ اور یہ بھی ہم نے بتا دیا ہے کہ ۶۰ ہزار کے لشکر کا مقابلہ کرنا قریش اور آس پاس کے عرب قبائل کے بس کا کام نہ تھا، وہ تو غَزْوَۂ احزاب کے موقع پر بڑی تیاریوں کے بعد مشرکین عرب اور یہودی قبائل کی جو فوج لائے تھے وہ دس بارہ ہزار سے زیادہ نہ تھی، پھر بھلا وہ ۶۰ ہزار فوج کا مقابلہ کرنے کی کیسے ہمت کر سکتے تھے۔ تاہم اِن ساری دلیلوں کو نظر انداز بھی کر دیا جائے اور صرف سُورۂ فیل کی ترتیب ِ کلام کو دیکھا جائے تو یہ تاویل اُس کے خلاف پڑتی ہے۔ اگر بات یہی ہوتی کہ پتھر عربوں نے مارے، اور اصحابِ فیل بھُس بن کر رہ گئے ، اور اس کے بعد پرندے ان کی لاشیں کھانے کو آئے، تو کلام کی ترتیب یوں ہوتی کہ تَرْ مِیْھِمْ بِحِجَا رَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْ کُوْلٍ وَّاَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْراً اَبَابِیْلَ (تم ان کو پکّی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے، پھر اللہ نے اُن کو کھائے ہوئے بھُس جیسا کر دیا، اور اللہ نے اُن پر جھُنڈ کے جُھنڈ پرندے بھیج دیے)۔ لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھُنڈ بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے ، پھر اُس کے مُتَّصلاً بعد ترمیہم بِحِجَارَۃ ٍمِّنْ سِجِّیْل (جو ان کو پکّی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے) فرمایا ہے، اور آخر میں کہا ہے کہ پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھُس جیسا کر دیا۔

7 ؎ اصل الفاظ ہیں كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ عصف کا لفظ سورہ رحمان آیت 12 میں آیا ہے ذُو الْعَصْفِ وَ الرَّيْحَانُۚ "اور غلہ بھوسے اور دانہ والا" اس سے معلوم ہوا کہ عصف کے معنی اس چھلکے ہیں جو غلے کے دانوں پر ہوتا ہے اور جسے کسان دانے نکال کر پھینک دیتے ہیں، پھر جانور اسے کھاتے بھی ہیں، اور کچھ ان کے چبانے کے دوران میں گرتا بھی جاتا ہے،اور کچھ ان کے پاؤں تلے روندا بھی جاتا ہے۔