Tafheem ul Quran

Surah 106 Quraysh, Ayat 1-4

لِاِيۡلٰفِ قُرَيۡشٍۙ‏ ﴿106:1﴾ اٖلٰفِهِمۡ رِحۡلَةَ الشِّتَآءِ وَالصَّيۡفِ​ۚ‏ ﴿106:2﴾ فَلۡيَـعۡبُدُوۡا رَبَّ هٰذَا الۡبَيۡتِۙ‏ ﴿106:3﴾ الَّذِىۡۤ اَطۡعَمَهُمۡ مِّنۡ جُوۡعٍ   ۙ وَّاٰمَنَهُمۡ مِّنۡ خَوۡفٍ‏ ﴿106:4﴾

1 - چونکہ قریش مانوس ہوئے 1 2 - (یعنی) جاڑے اور گرمی کے سفروں سے مانوس، 2 3 - لہٰذا اُن کو چاہیے کہ اِس گھر کے ربّ کی عبادت کریں 3 4 - جس نے اُنہیں بھُوک سے بچا کر کھانے کو دیا 4 اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا۔ 5 ؏۱


Notes

1. اصل الفاظ ہیں لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ۔ اِیْلاف اَلْف سے ہے جس کے معنی خوگر ہونے، مانوس ہو نے، پھٹنے کے بعد مِل جانے اور کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں۔ اردو زبان میں اُلفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں۔ اِیلاف سے پہلے جو لام آیا ہے اس کے متعلق عربی زبان کے بعض ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ عربی محاورے کے مطابق تعجُّب کے معنی میں ہے۔ مثلاً عرب کہتے ہیں کہ لِزَیْدٍ وَّمَا صَنَعْنَا بِہٖ، یعنی ذرا اِس زید کو دیکھو کہ ہم نے اس کے ساتھ کیسا نیک سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ پس لِاِیْلٰفِ قُریْشٍ کا مطلب یہ ہے کہ قریش کا رویہ بڑ ا ہی قابلِ تعجب ہے۔ کہ اللہ ہی کے فضل کی بدولت وہ منتشر ہونے کے بعدجمع ہوئے اور اُن تجارتی سفروں کے خوگر ہو گئے جو اُن کی خوشحالی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، اور وہ اللہ ہی کی بندگی سے رُو گردانی کر رہے ہیں۔ یہ رائے اَخْفَش ، کِسائی اور فرّ اء کی ہے، اور اِس رائے کو ابنِ جریر نے ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب جب اس لام کے بعد کسی بات کا ذکر کرتے ہیں تو وہی بات یہ ظاہر کرنے کےلیے کافی سمجھی جاتی ہے کہ اُس کے ہوتے جو شخص جو رویہ اختیار کر رہاہے وہ قابلِ تعجب ہے۔ بخلاف اِس کے کہ خلیل بن احمد، سِیْبَوَیْہ اور زَمَخْشری کہتےہیں کہ یہ لامِ تعلیل ہے اور اِس کا تعلق آگے کے فقرے فَلْیَعْبُدُ وْ ا رَبَّ ھٰذَ ا الْبَیْتِ سے ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یوں تو قریش پر اللہ کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں ، لیکن اگر کسی اور نعمت کی بنا پر نہیں تو اِسی ایک نعمت کی بنا پر وہ اللہ کی بندگی کریں کہ اُس کے فضل سے وہ اِن تجارتی سفروں کے خوگر ہوئے ، کیونکہ یہ بجائے خود اُن پر اُس کا بہت بڑا احسان ہے۔

2. گرمی اور جاڑے کے سفروں سے مراد یہ ہے کہ گرمی کے زمانے میں قریش کے تجارتی سفر شام و فلسطین کی طرف ہوتے تھے، کیونکہ وہ ٹھنڈے علاقے ہیں، اور جاڑے کے زمانے میں وہ جنوب عرب کی طرف ہوتے تھے، کیونکہ وہ گرم علاقے ہیں۔

3. اِس گھر سےمراد خانہ ٔ کعبہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قریش کو یہ نعمت اِسی گھر کی بدولت حاصل ہوئی ہے، اور وہ خود مانتے ہیں کہ وہ ۳۶۰ بُت اس کے ربّ نہیں ہیں جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں ،بلکہ صرف اللہ ہی اِس کا ربّ ہے۔ اُسی نے ان کو اصحابِ فیل کے حملے سے بچایا۔ اُسی سے انہوں نے ابرھہ کی فوج کے مقابلے میں مدد کی دعا کی تھی۔ اُس کے گھر کی پناہ میں آنے سے پہلے جب وہ عرب میں منتشر تھے تو اُن کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ عرب کے عام قبائل کی طرح وہ بھی ایک نسل کے بکھرے ہوئے گروہ تھے۔ مگر جب وہ مکّہ میں اِس گھر کے گرد جمع ہوئے اور اِس کی خدمت انجام دینے لگے تو سارے عرب میں محترم ہوگئے، اور ہر طرف اُن کے تجارتی قافلے بے خوف و خطر آنے جانے لگے۔ پس انہیں جو کچھ بھی نصیب ہوا ہے اِس گھر کے ربّ کی بدولت نصیب ہوا ہے، اس لیے اُسی کی اِن کو عبادت کرنی چاہیے۔

4. یہ اشارہ ہے اِس طرف کہ مکّے میں آنے سے پہلے جب قریش عرب میں منتشر تھے تو بھوکوں مر رہے تھے، یہاں آنے کے بعد اُن کے لیے رزق کے دروازے کھلتے چلے گئے اور ان کے حق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا حرف بحرف پوری ہوئی کہ اے پروردگار ، میں نے اپنے اولاد کے ایک حصّے کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا ہے تا کہ یہ نماز قائم کریں ، پس تو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے (ابراہیم۔ آیت۳۷)۔

5. یعنی جس خوف سے عرب کی سرزمین میں کوئی محفوظ نہیں ہے اُس سے یہ محفوظ ہیں۔ عرب کا حال اُس دور میں یہ تھا کہ پورے ملک میں کوئی بستی ایسی نہ تھی جس کے لوگ راتوں کو چین سے سوسکتے ہوں، کیونکہ ہر وقت ان کی یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ نہ معلوم کب کوئی غارت گر گروہ اچانک اُس پر چھاپا مار دے۔ کوئی شخص ایسا نہ تھا جو اپنے قبیلے کے حدود سے باہر قدم رکھنے کی ہمت کر سکے، کیونکہ اکّا دُکّا آدمی کا زندہ بچ کر واپس آجانا، یا گرفتار ہوکر غلام بن جانے سے محفوظ رہنا گویا امرِ محال تھا۔ کوئی قافلہ ایسا نہ تھا جو اطمینان سے سفر کر سکے، کیونکہ راستے میں جگہ جگہ اُس پر ڈاکہ پڑنے کا خطرہ تھا، اور راستے بھر کے با اثر قبائلی سرداروں کو رشوتیں دے کر تجارتی قافلے بخیریت گزر سکتے تھے۔ لیکن قریش مکّہ میں بالکل محفوظ تھے، انہیں کسی دشمن کے حملے کا خطرہ نہ تھا۔ اُن کے چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے قافلے ملک کے ہر حصّے میں آتے جاتے تھے، کوئی یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ قافلہ حَرَم کے خادموں کا ہے ، انہیں چھیڑنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ حد یہ ہے کہ اکیلا قریشی بھی اگر کہیں سے گزر رہا ہو اور کوئی ا س سے تعرُّض کرے تو صرف لفظ”حَرَمی“ یا اَنَا مِنْ حَرَمِ اللہِ کہہ دینا کافی ہو جاتا تھا، یہ سُنتے ہی اٹھے ہوئے ہاتھ رُک جاتے تھے۔