Tafheem ul Quran

Surah 11 Hud, Ayat 1-8

الٓرٰ​ كِتٰبٌ اُحۡكِمَتۡ اٰيٰـتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَكِيۡمٍ خَبِيۡرٍۙ‏ ﴿11:1﴾ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰهَ​ ؕ اِنَّنِىۡ لَـكُمۡ مِّنۡهُ نَذِيۡرٌ وَّبَشِيۡرٌ ۙ‏ ﴿11:2﴾ وَّاَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ يُمَتِّعۡكُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَ يُؤۡتِ كُلَّ ذِىۡ فَضۡلٍ فَضۡلَهٗ ​ؕ وَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ عَذَابَ يَوۡمٍ كَبِيۡرٍ‏ ﴿11:3﴾ اِلَى اللّٰهِ مَرۡجِعُكُمۡ​ۚ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿11:4﴾ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ يَثۡنُوۡنَ صُدُوۡرَهُمۡ لِيَسۡتَخۡفُوۡا مِنۡهُ​ؕ اَلَا حِيۡنَ يَسۡتَغۡشُوۡنَ ثِيَابَهُمۡۙ يَعۡلَمُ مَا يُسِرُّوۡنَ وَمَا يُعۡلِنُوۡنَ​ۚ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ ﴿11:5﴾ وَمَا مِنۡ دَآ بَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزۡقُهَا وَ يَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّهَا وَمُسۡتَوۡدَعَهَا​ؕ كُلٌّ فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿11:6﴾ وَ هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَ يَّامٍ وَّكَانَ عَرۡشُهٗ عَلَى الۡمَآءِ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَلَـئِنۡ قُلۡتَ اِنَّكُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡمَوۡتِ لَيَـقُوۡلَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿11:7﴾ وَلَـئِنۡ اَخَّرۡنَا عَنۡهُمُ الۡعَذَابَ اِلٰٓى اُمَّةٍ مَّعۡدُوۡدَةٍ لَّيَـقُوۡلُنَّ مَا يَحۡبِسُهٗؕ اَلَا يَوۡمَ يَاۡتِيۡهِمۡ لَـيۡسَ مَصۡرُوۡفًا عَنۡهُمۡ وَحَاقَ بِهِمۡ مَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿11:8﴾

1 - ا ل ر۔ فرمان ہے1 ، جس کی آیتیں پُختہ اور مفصّل ارشاد ہوئی ہیں2، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے، 2 - کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی۔ 3 - اور یہ کہ تم اپنے ربّ سے معافی چاہو اور اُس کی طرف پلٹ آوٴ تو وہ ایک مدّت ِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا 3اور ہر صاحبِ فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا۔4 لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ 4 - تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ 5 - دیکھو! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اُس سے چھُپ جائیں۔5 خبردار! جب کہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں ، اللہ ان کے چھُپے کو بھی جانتا ہے اور کُھلے کو بھی ، وہ تو اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں۔ 6 - زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہےاور کہاں وہ سونپا جاتا ہے،6 سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔ 7 - اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ۔۔۔۔ جبکہ اس سے پہلے اُس کا عرش پانی پر تھا7 ۔۔۔۔۔۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔8 اب اگر اے محمد ؐ ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اُٹھائے جاوٴ گے تو منکرین فوراً بول اُٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے۔9 8 - اور اگر ہم ایک خاص مُدّت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اُسے روک رکھا ہے؟ سُنو! جس روز اُس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آگھیرے گی جس کا وہ مذاق اُڑا رہے ہیں۔ ؏۱


Notes

1. ”کتاب“ کا ترجمہ یہاں اندازِ بیان کی مناسبت سے ”فرمان“ کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ کتاب اور نوشتے ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ حکم اور فرمان شاہی کے معنی میں بھی آتا ہے اور خود قرآن میں متعدد مواقع پر یہ لفظ اسی معنی میں مُستعمل ہوا ہے۔

2. یعنی اس فرمان میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ پکی اور اَٹل ہیں ۔ خوب جچی تُلی ہیں۔ نِری لفاظی نہیں ہے ۔ خطابت کی ساحری اور تخیل کی شاعری نہیں ہے۔ ٹھیک ٹھیک حقیقت بیان کی گئی ہے اور اس کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو حقیقت سے کم یا زیادہ ہو۔ پھر یہ آیتیں مفصل بھی ہیں، ان میں ایک ایک بات کھول کھول کر واضح طریقے سے ارشاد ہوئی ہے۔ بیان الجھا ہوا، گنجلک اور مبہم نہیں ہے۔ ہر بات کو الگ الگ ، صاف صاف سمجھا کر بتایا گیا ہے۔

3. یعنی دنیا میں تمہارے ٹھیرنے کے لیے جو وقت مقرر ہے اس وقت تک وہ تم کو بُری طرح نہیں بلکہ اچھی طرح رکھے گا۔ اس کی نعمتیں تم پر برسیں گی۔ اس کی برکتوں سے سرفراز ہوگے۔ خوش حال و فارغ البال رہو گے۔ زندگی میں امن اور چین نصیب ہوگا ۔ ذلت وخواری کے ساتھ نہیں بلکہ عزت و شرف کے ساتھ جیو گے۔ یہی مضمون دوسرے موقع پر اس طرح ارشاد ہوا ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْ مِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰو ۃً طَیِّبَۃً (النحل ۔ آیت ۹۷) ” جو شخص بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل کرے گا ، خواہ مرد ہو یا عورت، ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“۔ اس سے لوگوں کی اُس غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جو شیطان نے ہر نادان دنیا پرست آدمی کے کان میں پھونک رکھی ہے کہ خدا ترسی اور راستبازی اور احساسِ ذمہ داری کا طریقہ اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت بنتی ہو تو بنتی ہو، مگر دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ اور یہ کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں فاقہ مستی و خستہ حالی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ اس راہِ راست کو اختیار کرنے سے تمہاری صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا بھی بنے گی۔ آخرت کی طرح اس دنیا کی حقیقی عزت و کامیابی بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو سچی خدا پرستی کے ساتھ صالح زندگی بسر کریں۔ جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں، جن کے معاملات درست ہوں ، جن پر ہر معاملہ میں بھروسہ کیا جا سکے، جن سے ہر شخص بھلائی کا متوقع ہو، جن سے کسی انسان کو یا کسی قوم کو شر کا اندیشہ نہ ہو۔

اس کے علاوہ ”مَتَاعٌ حَسَنٌ“ کے الفاظ میں ایک اور پہلو ہے جو نگاہ سے اوجھل نہ رہ جانا چاہیے۔ دنیا کا سامانِ زیست قرآن مجید کی رو سے دو قسم کا ہے۔ ایک وہ سروسامان ہے جو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے دیا جاتا ہے اور جس سے دھوکا کھا کر ایسے لوگ اپنے آپ کو دنیا پرستی و خدا فراموشی میں اور زیادہ گم کر دیتے ہیں۔ یہ بظاہر تو نعمت ہے مگر بباطن خدا کی پھٹکار اور اس کے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ قرآن مجید اس کو ”مَتَاعٌ غُرُوْرٌ“ کے الفاظ سے یاد کرتا ہے ۔ دوسرا وہ سروسامان ہے جس سے انسان خوشحال اور قوی بازو ہو کر اپنے خدا کا اور زیادہ شکر گزار بنتا ہے ، خدا اور اس کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق زیادہ اچھی طرح ادا کرتا ہے ، خدا کے دیے ہوئے وسائل سے طاقت پا کر دنیا میں خیر و صلاح کی ترقی اور شروفساد کے استیصال کے لیے زیادہ کار گر کوشش کرنے لگتا ہے۔ یہ قرآن کی زبان میں ”مَتَاعٌ حَسَنٌ“ ہے، یعنی ایسا اچھا سامانِ زندگی جو محض عیش دنیا ہی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ نتیجہ میں عیش آخرت کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔

4. یعنی جو شخص اخلاق و اعمال میں جتنا بھی آگے بڑھے گا اللہ اس کو اتنا ہی بڑا درجہ عطا کرے گا۔ اللہ کے ہاں کسی کی خوبی پر پانی نہیں پھیرا جاتا۔ اس کے ہاں جس طرح برائی کی قدر نہیں ہے اسی طرح بھلائی کی ناقدری بھی نہیں ہے۔ اس کی سلطنت کا دستور یہ نہیں ہے کہ

اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں

طوق زریں ہمہ در گردن خرمی بینم!)بہترین عربی گھوڑا تو پالان کے نیچے زخمی حالت میں کراہ رہا ہے جبکہ مجھے گدھوں کی گردنوں میں سونے کے ہار نظر آرہے ہیں(

وہاں تو جو شخص بھی اپنی سیرت و کردار سے اپنے آپ کو جس فضیلت کا مستحق ثابت کردے گا وہ فضیلت اس کو ضرور دی جائےگی۔

5. مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا چرچا ہوا تو بہت سے لوگ وہاں ایسے تھے جو مخالفت میں تو کچھ بہت زیادہ سرگرم نہ تھے مگر آپؐ کی دعوت سے سخت بیزا ر تھے۔ اُن لوگوں کا رویہ یہ تھا کہ آپؐ سے کتراتے تھے، آپؐ کسی بات کو سُننے کے لیے تیار نہ تھے، کہیں آپؐ کو بیٹھے دیکھتے تو اُلٹے پاؤں پھر جاتے، دُور سے آپ کو آتے دیکھ لیتے تو رُخ بدل دیتے یا کپڑے کی اوٹ میں منہ چھپا لیتے ، تاکہ آمنا سامنا نہ ہو جائے اور آپؐ انہیں مخاطب کر کے کچھ اپنی باتیں نہ کہنے لگیں۔ اسی قسم کے لوگوں کی طرف یہاں اشارہ کیا ہے کہ یہ لوگ حق کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور شطر مرغ کی طرح منہ چھپا کر سمجھتے ہیں کہ وہ حقیقت ہی غائب ہو گئی جس سے اُنہوں نے منہ چھپایا ہے۔ حالانکہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اور وہ یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ یہ بے وقوف اس سے بچنے کے لیے منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔

6. یعنی جس خدا کے علم کا حال یہ ہے کہ ایک ایک چڑیا کا گھونسلہ اور ایک ایک کیڑے کا بِل اس کو معلوم ہے اور وہ اسی کی جگہ پر اس کو سامانِ زیست پہنچا رہا ہے، اور جس کو ہر آن اس کی خبر ہے کہ کونسا جاندار کہاں رہتا ہے اور کہاں اپنی جان جانِ آفریں کے سپر د کر دیتا ہے ، اس کے متعلق اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ اس طرح منہ چھپا چھپا کر یا کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر یا آنکھوں پر پردہ ڈال کر تم اس کی پکڑ سے بچ جاؤ گے تو سخت نادان ہو۔ داعی حق سے تم نے منہ چھپا بھی لیا تو آخر اس کا حاصل کیا ہے؟ کیا خدا سے بھی تم چھپ گئے؟ کیا خدا یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص تمہیں امرِ حق سے آگاہ کرنے میں لگا ہوا ہے اور تم یہ کوشش کر رہے ہو کہ کسی طرح اس کی کوئی بات تمہارے کان میں نہ پڑنے پائے؟

7. جملہ ٔ معترضہ ہے جو غالبًا لوگوں کے اس سوال کےجواب میں فرمایا گیا ہے کہ آسمان و زمین اگر پہلے نہ تھے اور بعد میں پیدا کیے گئے تو پہلے کیا تھا؟ اس سوال کو یہاں نقل کیے بغیر اس کا جواب مختصر سے فقرے میں دے دیا گیا ہے کہ پہلے پانی تھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس پانی سے مراد کیا ہے۔ یہی پانی جسے ہم اس نام سے جانتے ہیں؟ یا یہ لفظ محض استعارے کے طور پر مادّے کی اس مائع (Fluid) حالت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو موجودہ صورت میں ڈھالے جانے سے پہلے تھی؟ رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی۔

8. اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اس لیے پیدا کیا کہ تم کو(یعنی انسان کو ) پیدا کرنا مقصود تھا، اور تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تم پر اخلاقی ذمہ داری کا بار ڈالا جائے ، تم کو خلافت کے اختیارات سپرد کیے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ تم میں سے کون ان اختیارات کو اور اس اخلاقی ذمہ داری کے بوجھ کو کس طرح سنبھالتا ہے۔ اگر اس تخلیق کی تہ میں یہ مقصد نہ ہوتا ، اگر اختیارات کو تفویض کے باوجود کسی امتحان کا ، کسی محاسبہ اور باز پرس کا اور کسی جزا و سزا کا کوئی سوال نہ ہوتا ، اور اگر انسان کو اخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونے کے باوجود یونہی بے نتیجہ مر کر مٹی ہو جانا ہی ہوتا ، تو پھر یہ سارا کار ِتخلیق بالکل ایک مہمل کھیل تھا اور اس تمام ہنگامۂ وجود کی کوئی حیثیت ایک فعل عبث کے سوا نہ تھی۔

9. یعنی ان لوگوں کی نادانی کا یہ حال ہے کہ کائنات کو ایک کھلنڈرے کا گھروند ا اور اپنے آپ کو اس کے جی بہلانے کا کھلونا سمجھے بیٹھے ہیں اور اس احمقانہ تصور میں اتنے مگن ہیں کہ جب تم انہیں اس کارگاہِ حیات کا سنجیدہ مقصد، اور خود ان کے وجود کی معقول غرض و غایت سمجھاتے ہو تو قہقہہ لگاتے ہیں اور تم پر پھبتی کستے ہیں کہ یہ شخص تو جادو کی سی باتیں کرتا ہے۔