Tafheem ul Quran

Surah 11 Hud, Ayat 110-123

وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِيۡهِ​ ؕ وَ لَوۡلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّكَ لَـقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ​ ؕ وَاِنَّهُمۡ لَفِىۡ شَكٍّ مِّنۡهُ مُرِيۡبٍ‏ ﴿11:110﴾ وَاِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمۡ رَبُّكَ اَعۡمَالَهُمۡ​ ؕ اِنَّهٗ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ‏ ﴿11:111﴾ فَاسۡتَقِمۡ كَمَاۤ اُمِرۡتَ وَمَنۡ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطۡغَوۡا​ ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏ ﴿11:112﴾ وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ وَمَا لَـكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ اَوۡلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ‏ ﴿11:113﴾ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَـفًا مِّنَ الَّيۡلِ​ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ ​ؕ ذٰ لِكَ ذِكۡرٰى لِلذّٰكِرِيۡنَ ​ۚ‏ ﴿11:114﴾ وَاصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿11:115﴾ فَلَوۡ لَا كَانَ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ اُولُوۡا بَقِيَّةٍ يَّـنۡهَوۡنَ عَنِ الۡفَسَادِ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا قَلِيۡلًا مِّمَّنۡ اَنۡجَيۡنَا مِنۡهُمۡ​ ۚ وَاتَّبَعَ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا مَاۤ اُتۡرِفُوۡا فِيۡهِ وَكَانُوۡا مُجۡرِمِيۡنَ‏  ﴿11:116﴾ وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهۡلِكَ الۡقُرٰى بِظُلۡمٍ وَّاَهۡلُهَا مُصۡلِحُوۡنَ‏  ﴿11:117﴾ وَلَوۡ شَآءَ رَبُّكَ لَجَـعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً​ وَّلَا يَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِيۡنَۙ‏ ﴿11:118﴾ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّكَ​ ؕ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمۡ​ ؕ وَتَمَّتۡ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمۡلَـئَنَّ جَهَـنَّمَ مِنَ الۡجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجۡمَعِيۡنَ‏ ﴿11:119﴾ وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيۡكَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَ​ ۚ وَجَآءَكَ فِىۡ هٰذِهِ الۡحَـقُّ وَمَوۡعِظَةٌ وَّذِكۡرٰى لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿11:120﴾ وَقُلْ لِّـلَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ اعۡمَلُوۡا عَلٰى مَكَانَتِكُمۡؕ اِنَّا عٰمِلُوۡنَۙ‏ ﴿11:121﴾ وَانْـتَظِرُوۡا​ ۚ اِنَّا مُنۡتَظِرُوۡنَ‏ ﴿11:122﴾ وَلِلّٰهِ غَيۡبُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاِلَيۡهِ يُرۡجَعُ الۡاَمۡرُ كُلُّهٗ فَاعۡبُدۡهُ وَتَوَكَّلۡ عَلَيۡهِ​ؕ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ‏  ﴿11:123﴾

110 - ہم اِس سے پہلے موسیٰ ؑ کو بھی کتاب دے چکے ہیں اور اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا( جس طرح آج اِس کتاب کے بارے میں کیا جا رہا ہے جو تمہیں دی گئی ہے)111۔ اگر تیرے ربّ کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کر دی گئی ہوتی تو اِن اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصلہ چُکا دیا گیا ہوتا۔112 111 - یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اِس کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا ربّ انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا، یقیناً وہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے۔ 112 - پس اے محمد ؐ ، تم، اور تمہارے وہ ساتھی جو (کُفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہِ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو۔ جو کچھ تم کر رہے ہو اس پر تمھارا رب نگاہ رکھتا ہے۔ 113 - ان ظالموں کی طرف زرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاوٴ گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی اور سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہچ سکے گی۔ 114 - اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔113 در حقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لئے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔114 115 - اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔ 116 - پھر کیوں نہ اُن قوموں میں جو تم سے پہلے گُزر چکی ہیں ایسے اہلِ خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا ، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔ 117 - تیرا ربّ ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔115 118 - بے شک تیرا ربّ اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے 119 - اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے ربّ کی رحمت ہے۔ اِسی (آزادیِ انتخاب و اختیار)کے لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا۔116 اور تیرے ربّ کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جِن اور انسانوں سے بھر دوں گا۔ 120 - اور اے محمد ؐ ، یہ پیغمبروں کے قصے جو ہم تمہیں سُناتے ہیں ، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبُوط کرتے ہیں۔ ان کے اندر تم کو حقیقت کا علم مِلا اور ایمان لانے والوں کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوئی۔ 121 - رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے، تو ان سے کہہ دو کہ تم اپنے طریقے پر کام کرتے رہو اور ہم اپنے طریقے پر کیے جاتے ہیں، 122 - انجامِ کار کا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں۔ 123 - آسمانوں اور زمین میں جو کچھ چھُپا ہوا ہے سب اللہ کے قبضہء قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اسی کی طرف رُجوع کیا جاتا ہے۔ پس اے نبی ؐ ، تُو اُسی کی بندگی کر اور اُسی پر بھروسا رکھ، جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو تیرا ربّ اس سے بے خبر نہیں ہے۔117 ؏ ۱۰


Notes

111. یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج اس قرآن کے بارے میں مختلف لوگ مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کر رہے ہیں ، بلکہ اس سے پہلے جب موسیٰ کو کتاب دی گئی تھی تو اس کے بارے میں بھی ایسی ہی مختلف رائے زنیاں کی گئی تھیں ، لہٰذا اے محمدؐ ، تم یہ دیکھ کر بددل اور شکستہ خاطر نہ ہو کہ ایسی سیدھی سیدھی اور صاف باتیں قرآن میں پیش کی جا رہی ہیں اور پھر بھی لوگ ان کو قبول نہیں کرتے۔

112. یہ فقرہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کو مطمئن کرنے اور صبر دلانے کے لیے فرمایا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم اس بات کے لیے بے چین نہ ہو کہ جو لوگ اس قرآن کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ، ان کا فیصلہ جلدی سے چکا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ طے کر چکا ہے کہ فیصلہ وقت مقرر سے پہلے نہ کیا جائے گا ، اور یہ کہ دنیا کے لوگ فیصلہ چاہنے میں جو جلد بازی کرتے ہیں، اللہ فیصلہ کردینے میں وہ جلد بازی نہ کرے گا۔

113. دن کے دونوں سروں پر سے مراد صبح اور مغرب ہے ، اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشا کا وقت ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ ارشاد اس زمانے کا ہے جب نماز کے لیے ابھی پانچ وقت مقرر نہیں کیے گئے تھے۔ معراج کا واقعہ اس کے بعد پیش آیا جس میں پنج وقتہ نماز فرض ہوئی۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو بنی اسرائیل، حاشیہ ۹۵ ۔ طٰہٰ حاشیہ ۱۱۱ ۔ الروم، حاشیہ ۲۴)۔

114. یعنی جو برائیاں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور جو برائیاں تمہارے ساتھ اس دعوت حق کی دشمنی میں کی جارہی ہیں ان سب کو دفع کرنے کا اصلی طریقہ یہ ہے کہ تم خود زیادہ سے زیادہ نیک بنو اور اپنی نیکی سے اِس بدی کو شکست دو، اور تم کو نیک بنانے کا بہترین ذریعہ یہ نماز ہے جو خدا کی یاد کو تازہ کرتی رہے گی اور اس کی اطاعت سے ، تم بدی کے اِس منظم طوفان کا نہ صرف مقابلہ کر سکو گے بلکہ اسے دفع کر کے دنیا میں عملًا خیر و صلاح کا نظام بھی قائم کر سکو گے ۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو العنکبوت حواشی ۷۷ تا ۷۹)۔

115. ان آیات میں نہایت سبق آموز طریقے سے ان قوموں کی تباہی کے اصل سبب پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی تاریخ پچھلے چھ رکوعوں میں بیان ہوئی ہے۔ اس تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ صرف انہی قوموں کو نہیں، بلکہ پچھلی انسانی تاریخ میں جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں ان سب کو جس چیز نے گرایا وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا تو وہ خوشحالی کے نشے میں مست ہو کر زمین میں فساد برپا کرنے لگیں اور ان کا اجتماعی خمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو ان کو برائیوں سے روکتے، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے سےفساد نہ رک سکا۔ یہی چیز ہے جس کی بدولت آخر کار یہ قومیں اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوئیں، ورنہ اللہ کو اپنے بندوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ وہ تو بھلے کام کر رہے ہوں اور اللہ ان کو خوا ہ مخواہ عذاب میں مبتلا کر دے، ا س ارشاد سے یہاں تین باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں:-

ایک یہ کہ ہر اجتماعی نظام میں ایسے نیک لوگوں کا موجود رہنا ضروری ہے جو خیر کی دعوت دینے والے اور شر سے روکنے والےہوں۔ اس لیے کہ خیر ہی وہ چیز ہے جو اصل میں اللہ کو مطلوب ہے ، اور لوگوں کے شرور کو اگر اللہ برداشت کرتا بھی ہے تو اس خیر کی خاطر کرتا ہے جو ان کے اندر موجود ہو، اور اُسی وقت تک کرتا ہے جب تک انکے اندر خیر کا کچھ امکان باقی رہے۔ مگر جب کوئی انسانی گروہ اہلِ خیر سے خالی ہو جائے اور اس میں صرف شریر لوگ ہی باقی رہ جائیں، یا اہلِ خیر موجود ہوں بھی تو کوئی ان کی سن کر نہ دے اور پوری قوم کی قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے، تو پھر خدا کا عذاب اس کے سر پر اس طرح منڈلانے لگتا ہے جیسے پورے دنوں کی حاملہ کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کب اس کا وضع حمل ہو جائے۔

دوسرے یہ کہ جو قوم اپنے درمیان سب کچھ برداشت کرتی ہو مگر صرف اُنہی چند گنے چُنے لوگوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو جو اسے برائیوں سے روکتے اور بھلائیوں کی دعوت دیتے ہوں ، تو سمجھ لو کہ اس کے برے دن قریب آگئے ہیں ، کیونکہ اب وہ خود ہی اپنی جان کی دشمن ہو گئی ہے ۔ اسے وہ سب چیزیں تو محبوب ہیں جو اس کی ہلاکت کی موجب ہیں اور صرف وہی ایک چیز گوارا نہیں ہے جو اس کی زندگی کی ضامن ہے۔

تیسرے یہ کہ ایک قوم کے مبتلائے عذاب ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ جس چیز پر ہوتاہے وہ یہ ہے کہ اس میں دعوت خیر پر لبیک کہنے والے عناصر کس حد تک موجود ہیں۔ اگر اس کے اندر ایسے افراد اتنی تعداد میں نکل آئیں جو فساد کو مٹانے اور نظام صالح کو قائم کرنے کے لیے کافی ہو تو اس پر عذاب عام نہیں بھیجا جاتا بلکہ ان صالح عناصر کو اصلاح حال کو موقع دیا جاتا ہے لیکن اگر پیہم سعی و جہد کے باوجود اس میں سے اتنے آدمی نہیں نکلتے جو اصلاح کے لیے کافی ہو سکیں ، اور وہ قوم اپنی گود سے چند ہیرے پھینک دینے کے بعد اپنے طرزِ عمل سے ثابت کردیتی ہے کہ اب اس کے پاس کوئلے ہی کوئلے باقی رہ گئے ہیں ، تو پھر کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ بھٹی سلگا دی جاتی ہے جو ان کوئلوں کو پھونک کر رکھ دے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الذاریات ، حاشیہ نمبر ۳۴)۔

116. یہ اس شبہ کا جواب ہے جو بالعموم ایسے مواقع پر تقدیر کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ اوپر اقوام گزشتہ کی تباہی کا جو سبب بیان کیا گیا ہے اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا تھا کہ ان میں اہلِ خیر کا موجود نہ رہنا یا بہت کم پایا جانا بھی تو آخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا، پھر اس کا الزام ان قوموں پر کیوں رکھا جائے ؟ کیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہلِ خیر پیدا کر دیے ؟ اس کے جواب میں یہ حقیقت حال صاف صاف بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کے بارے میں یہ ہے ہی نہیں کہ حیوانات اور نباتات اور ایسی ہی دوسری مخلوقات کی طرح اُس کو بھی جِبلِّی طور پر ایک لگے بندھے راستے کا پابند بنا دیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوتی تو پھر دعوتِ ایمان ، بعثتِ ایمان، بعثتِ انبیاء اور تنزیل ِ کتب کی ضرورت ہی کیا تھی، سارے انسان مسلم و مومن ہی پیدا ہوتے اور کفر و عصیان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔ لیکن اللہ نے انسان کے بارے میں جو مشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کو انتخاب و اختیار کی آزادی بخشی جائے ، اسے اپنی پسند کے مطابق مختلف راہوں پر چلنے کی قدرت دی جائے ، اس کے سامنے جنت اور دوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں اور پھر ہر انسان اور ہر انسانی گروہ کو موقع دیا جائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کو بھی اپنے لیے پسند کرے اس پر چل سکے تا کہ ہر ایک جو کچھ بھی پائے اپنی سعی و کسب کے نتیجہ میں پائے۔ پس جب وہ اسکیم جس کے تحت انسان پیدا کیا گیا ہے، آزادیِ انتخاب اور اختیاری کفر و ایمان کے اصول پر مبنی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی قوم خود تو بڑھنا چاہے بدی کی راہ پر اور اللہ زبردستی اس کو خیر کے راستے پر موڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے تو انسان سازی کے وہ کارخانے بنائے جو ایک سے ایک بڑھ کر بدکار اور ظالم اور فاسق آدمی ڈھال ڈھال کر نکالیں ، اور اللہ اپنی براہِ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کر دے جو اس کے بگڑے ہوئے سانچوں کو ٹھیک کر دیں۔ اس قسم کی مداخلت خدا کے دستور میں نہیں ہے ۔ نیک ہوں یا بد، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم کو خود ہی مہیا کر نے ہوں گے۔ جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کو پسند کرے گی، جس میں سے کوئی معتدبہ گروہ ایسا نہ اٹھے گا جو نیکی کا جھنڈا بلند کرے ، اور جس نےاپنے اجتماعی نظام میں اس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہوگی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں، خدا کو کیا پڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے۔ وہ تو اس کو اسی انجام کی طرف دھکیل دے گا جو اس نے خود اپنے لیے انتخاب کیا ہے۔ البتہ خدا کی رحمت کی مستحق اگر کوئی قوم ہو سکتی ہے تو صرف وہ جس میں بہت سے افرا د ایسے نکلیں جو خود دعوت خیر کو لبیک کہنے والے ہوں اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں یہ صلاحیت باقی رہنے دی ہو کہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کر سکیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، حاشیہ ۲۴)۔

117. یعنی کفر و اسلام کی کشمکش کے دونوں فریق جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہے۔ اللہ کی سلطنت کوئی اندھیر نگری چوپٹ راجہ کی مصداق نہیں ہے کہ اس میں خواہ کچھ ہی ہوتا رہے شہِ بے خبر کو اس سے کچھ سروکا ر نہ ہو۔ یہاں حکمت اور بردباری کی بنا پر دیر تو ضرور ہے مگر اندھیر نہیں ہے ۔ جولوگ اصلاح کی کوشش کر رہے ہیں وہ یقین رکھیں کہ ان کی محنتیں ضائع نہ ہونگی۔ اور وہ لوگ جو فساد کرنے اور اسے برپا رکھنے میں لگے ہوئے ہیں ، جو اصلاح کی سعی کرنے والوں پر ظلم و ستم توڑ رہے ہیں ، اور جنہوں نے اپنا سارا زور اس کوشش میں لگا رکھا ہے کہ اصلاح کا یہ کام کسی طرح چل نہ سکے، انہیں بھی خبردار رہنا چاہیے کہ ان کے یہ سارے کرتُوت اللہ کے علم میں ہیں اور ان کی پاداش انہیں ضرور بھگتنی پڑے گی۔