29. مناسب ہو کہ اس موقع پر سورۂ اعراف رکوع ۸ کے حواشی پیشِ نظر رکھے جائیں۔
30. یہ وہی بات ہے جو اس سورہ کےآغاز میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہوئی ہے۔
31. وہی جاہلانہ اعتراض جو مکہ کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں پیش کرتے تھے کہ جو شخص ہماری ہی طرح کا ایک معمولی انسان ہے ، کھاتا پیتا ہے، چلتا پھرتا ہے، سوتا اور جاگتا ہے ، بال بچے رکھتا ہے، آخر ہم کیسے مان لیں کہ وہ خدا کی طرف سے پیغمبر مقرر ہو کر آیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورہ یٰس ، حاشیہ نمبر ۱۱)۔
32. یہ بھی وہی بات ہے جو مکہ کے بڑے لوگ اور اُونچے طبقے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے تھے کہ اِن کے ساتھ ہے کون؟ یا تو چند سر پھرے لڑکے ہیں جنہیں دنیا کا کچھ تجربہ نہیں ، یا کچھ غلام اور ادنیٰ طبقہ کے عوام ہیں جو عقل سے کورے اور ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سورۂ انعام، حواشی نمبر ۳۴ تا ۳۷ و سورۂ یونس ، حاشیہ نمبر ۷۸)۔
33. یعنی یہ جو تم کہتے ہو کہ ہم پر خدا کا فضل ہے اور اس کی رحمت ہے اور وہ لوگ خدا کے غضب میں مبتلا ہیں جنہوں نے ہمارا راستہ اختیار نہیں کیا ہے، تو اس کی کوئی علامت ہمیں نظر نہیں آتی ۔ فضل اگر ہے تو ہم پر ہے کہ مال و دولت اور خدم و حشم رکھتے ہیں اور ایک دنیا ہماری سرداری مان رہی ہے۔ تم ٹٹ پونجیے لوگ آخر کس چیز میں ہم سے بڑھے ہوئے ہو کہ تمہیں خدا کا چہیتا سمجھا جائے۔
34. یہ وہی بات ہے جو ابھی پچھلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوائی جا چکی ہے کہ پہلے میں خود آفاق و انفس میں خدا کی نشانیاں دیکھ کر توحید کی حقیقت تک پہنچ چکا تھا، پھر خدا نے اپنی رحمت (یعنی وحی) سے مجھے نوازا اور ان حقیقتوں کا براہِ راست علم مجھے بخش دیا جن پر میرا دل پہلے سے گواہی دے رہا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام پیغمبر نبوت سے قبل اپنے غور و فکر سے ایمان با لغیب حاصل کر چکے ہوتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ ان کو منصب نبوت عطا کرتے وقت ایمان بالشہادۃ عطا کرتا تھا۔
34. یہ وہی بات ہے جو ابھی پچھلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوائی جا چکی ہے کہ پہلے میں خود آفاق و انفس میں خدا کی نشانیاں دیکھ کر توحید کی حقیقت تک پہنچ چکا تھا، پھر خدا نے اپنی رحمت (یعنی وحی) سے مجھے نوازا اور ان حقیقتوں کا براہِ راست علم مجھے بخش دیا جن پر میرا دل پہلے سے گواہی دے رہا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام پیغمبر نبوت سے قبل اپنے غور و فکر سے ایمان با لغیب حاصل کر چکے ہوتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ ان کو منصب نبوت عطا کرتے وقت ایمان بالشہادۃ عطا کرتا تھا۔
35. یعنی میں ایک بے غرض ناصح ہوں۔ اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ تمہارے ہی بھلے کے لیے یہ ساری مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کر رہا ہوں۔ تم کسی ایسے ذاتی مفاد کی نشان دہی نہیں کر سکتے جو اس امر حق کی دعوت دینے میں اور اس کے لیے جان توڑ محنتیں کرنے اور مصیبتیں جھیلنے میں میرے پیشِ نظر ہو۔ (ملاحظہ ہو المومنون ، حاشیہ ۷۰۔ ، یٰس حاشیہ ۱۷ ، الشوریٰ، حاشیہ ۴۱)
36. یعنی ان کی قدر و قیمت جو کچھ بھی ہے وہ ان کے ربّ کو معلوم ہے اور اسی کے حضور جا کر وہ کھلے گی۔ اگر یہ قیمتی جواہر ہیں تو میرے اور تمہارے پھینک دینے سے پتھر نہ ہو جائیں گے ، اور اگر یہ بے قیمت پتھر ہیں تو ان کے مالک کو اختیار ہے کہ انہیں جہاں چاہے پھینکے۔(ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۵۲ ۔ ، الکہف، آیت ۲۸)
37. یہ اس بات کا جواب ہے کہ جو مخالفین نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم بس اپنے ہی جیسے ایک انسان نظر آتے ہو ۔ اس پر حضرت نوح فرمانے ہیں کہ واقعی میں ایک انسان ہی ہوں ، میں نے انسان کے سوا کچھ اور ہونے کا دعویٰ کب کیا تھا کہ تم مجھ پر یہ اعتراض کر تے ہو۔ میرا دعویٰ جو کچھ ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ خدا نے مجھے علم و عمل کا سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ اِس کی آزمائش تم جس طرح چاہو کر لو۔ مگر اس دعوے کی آزمائش کا آخر یہ کونسا طریقہ ہے کہ کبھی تم مجھ سے غیب کی خبریں پوچھتے ہو، اور کبھی ایسے ایسے عجیب مُطالبے کرتے ہو گویا خدا کے خزانوں کی ساری کنجیاں میرے پاس ہیں ، اور کبھی اس بات پر اعتراض کرتے ہو کہ میں انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہوں ، گویا میں نے فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ جس آدمی نے عقائد ، اخلاق اور تمدن میں صحیح رہبری کا دعویٰ کیا ہے اس سے اِن چیزوں کے متعلق جو چاہو پوچھو، مگر تم عجیب لوگ ہو جو اس سے پوچھتے ہو کہ فلاں شخص کی بھینس کٹڑا جنے گی یا پَڑیا۔ گویا انسانی زندگی کے لیے صحیح اصولِ اخلا ق و تمدن بتانے کا کوئی تعلق بھینس کے حمل سے بھی ہے! (ملاحظہ ہو سورہ انعام، حاشیہ نمبر ۳۱، ۳۲)
38. یعنی اگر اللہ نے تمہاری ہٹ دھرمی ، شرپسندی اور خیر سے بے رغبتی دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہیں راست روی کی توفیق نہ دے اور جن راہوں میں تم خود بھٹکنا چاہتے ہو انہی میں تم کو بھٹکا دے تو اب تمہاری بھلائی کے لیے میری کوئی کوشش کار گر نہیں ہو سکتی۔
39. اندازِ کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضرت نوح کا یہ قصہ سنتے ہوئے مخالفین نے اعتراض کیا ہو گا کہ محمد ؐ یہ قصے بنا بنا کر اس لیے پیش کرتا ہے کہ انہیں ہم پر چسپاں کرے۔ جو چوٹیں وہ ہم پر براہِ راست نہیں کرنا چاہتا ان کے لیے ایک قصہ گھڑتا ہے اور اس طرح ”درحدیث دیگراں“ کے انداز میں ہم پر چوٹ کرتا ہے ۔ لہٰذا سلسلۂ کلام توڑ کر ان کے اعتراض کا جواب اِس فقرے میں دیا گیا۔
واقعہ یہ ہے کہ گھٹیا قسم کے لوگوں کا ذہن ہمیشہ بات کے بُرےپہلو کی طرف جایا کرتا ہے اور اچھائی سے اُنہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ بات کے اچھے پہلو پر ان کی نظر جا سکے۔ ایک شخص نے اگر کوئی حکمت کی بات کہی ہے یا وہ تمہیں کوئی مفید سبق دے رہا ہے یا تمہاری کسی غلطی پر تم کو متنبہ کر رہا ہے تو اُس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنی اصلاح کرو۔ مگر گھٹیا آدمی ہمیشہ اس میں برائی کا کوئی ایسا پہلو تلاش کرے گا جس سے حکمت اور نصیحت پر پانی پھیر دے اور نہ صرف خود اپنی برائی پر قائم رہے بلکہ قائل کے ذمّے بھی اُلٹی کچھ برائی لگا دے۔ بہتر سے بہتر نصیحت بھی ضائع کی جا سکتی ہے اگر سننے والا اسے خیر خواہی کے بجائے”چوٹ“ کے معنی میں لے لے اور اس کا ذہن اپنی غلطی کے احساس و ادراک کے بجائے برا ماننے کی طرف چل پڑے ۔ پھر اس قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی فکر کی بنا پر ایک بنیادی بدگمانی پر رکھتے ہیں۔ جس بات کے حقیقت واقعی ہونے اور ایک بناوٹی داستان ہونے کا یکساں امکان ہو، مگر وہ ٹھیک ٹھیک تمہارے حال پر چسپاں ہو رہی ہو اور اس میں تمہاری کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو، تو تم ایک دانش مند آدمی ہوگے اگر اُسے ایک واقعی حقیقت سمجھ کر اُس کے سبق آموز پہلو سے فائدہ اُٹھاؤ گے، اور محض ایک بدگمان و کج نظر آدمی ہو گے اگر کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگا دو گے کہ قائل نے محض ہم پر چسپاں کرنے کے لیے یہ قصہ تصنیف کر لیا ہے ۔ اسی بنا پر یہ فرمایا کہ اگر یہ داستان میں نے گھڑی ہے تو اپنے جرم کا میں ذمہ دار ہوں، لیکن جس جرم کا تم ارتکاب کر رہے ہو وہ تو اپنی جگہ قائم ہے اور اس کی ذمہ داری میں تم ہی پکڑے جاؤ گے نہ کے میں۔