40. اس سے معلوم ہوا کہ جب نبی کا پیغام کسی قوم کو پہنچ جائے تو اسے صرف اس وقت تک مہلت ملتی ہے جب تک اس میں کچھ بھلے آدمیوں کے نکل آنے کا امکان باقی ہو۔ مگر جب اس کے صالح اجزاء سب نکل چکتے ہیں اور وہ صرف فاسد عناصر ہی کا مجموعہ رہ جاتی ہے تو اللہ اس قوم کو پھر کوئی مہلت نہیں دیتا اور اس کی رحمت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ سڑے ہوئے پھلوں کے اس ٹوکرے کو دور پھینک دیا جائے تاکہ وہ اچھے پھلوں کو بھی خراب نہ کر دے۔ پھر اس پر رحم کھانا ساری دنیا کے ساتھ اور آنے والی نسلوں کے ساتھ بے رحمی ہے۔
41. یہ ایک عجیب معاملہ ہے جس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا کے ظاہر سے کس قدر دھوکا کھاتا ہے ۔ جب نوح ؑ دریا سے بہت دور خشکی پر اپنا جہاز بنا رہے ہوں گے تو فی الواقع لوگوں کو یہ ایک نہایت مضحکہ خیز فعل محسوس ہوتا ہو گا اور وہ ہنس ہنس کر کہتے ہوں گے کہ بڑے میاں کی دیوانگی آخر کو یہاں تک پہنچی کہ اب آپ خشکی میں جہاز چلائیں گے۔ اس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی بات نہ آسکتی ہو گی کہ چند روز بعد واقعی یہاں جہاز چلے گا ۔ وہ اس فعل کو حضرت نوج کی خرابی دماغ کا ایک صریح ثبوت قرار دیتے ہوں گے اور ایک ایک سے کہتے ہوں گے کہ اگر پہلے تمہیں اس شخص کے پاگل پن میں کچھ شبہہ تھا تو اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو کہ یہ کیا حرکت کر رہا ہے ۔ لیکن جو شخص حقیقت کا علم رکھتا تھا اور جسے معلوم تھا کہ کل یہاں جہاز کی کیا ضرورت پیش آنے والی ہے اسے ان لوگوں کی جہالت و بے خبری پر اور پھر ان کے احمقانہ اطمینان پر اُلٹی ہنسی آتی ہو گی اور وہ کہتا ہو گا کہ کس قدر نادان ہیں یہ لوگ کہ شامت ان کے سر پر تُلی کھڑی ہے ، میں اِنہیں خبرد ار کر چکا ہوں کہ وہ بس آیا چاہتی ہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے اس سے بچنے کی تیاری بھی کر رہا ہوں ، مگر یہ مطمٔن بیٹھے ہیں اور اُلٹا مجھے دیوانہ سمجھ رہے ہیں ۔ اس معاملہ کو اگر پھیلا کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا کے ظاہر و محسوس پہلو کے لحاظ سے عقلمندی و بے وقوفی کا جو معیار قائم کیا جاتا ہے وہ اُس معیار سے کس قدر مختلف ہوتا ہے جو علمِ حقیقت کے لحاظ سے قرار پاتا ہے۔ ظاہر بیں آدمی جس چیز کو انتہائی دانش مندی سمجھتا ہے وہ حقیقت شناس آدمی کی نگاہ میں انتہائی بے وقوفی ہوتی ہے، اور ظاہر بیں کے نزدیک جو چیز بالکل لغو، سراسر دیوانگی اور نرا مضحکہ ہوتی ہے ، حقیقت شناس کے لیے وہی کما دانش ، انتہائی سنجیدگی اور عین مقتضائے عقل ہوتی ہے۔
42. اس کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ۔ مگر ہمارے نزدیک صحیح وہی ہے جو قرآن کے صریح الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے کہ طوفان کی ابتدا ایک خاص تنور سے ہوئِ جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ، پھر ایک طر ف آسمان سے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور دوسری طرف زمین میں جگہ جگہ سے چشمے پھوٹنے لگے۔ یہاں صرف تنور کے اُبل پڑنے کا ذکر ہے اور آگے چل کر بارش کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ مگر سورۂ قمر میں اس کی تفصیل دی گئی ہے کہ فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآ ءٍ مُّنْھَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۔ ”ہم نے آسمان کے دروازے کھول دے جن سے لگا تار بارش برسنے لگی اور زمین کو پھاڑ دیا کہ ہر طرف چشمے پھوٹ نکلے اور یہ دونوں طرح کے پانی اُس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گئے جو مقدر کر دیا گیا تھا“۔(آیات ۱۱، ۱۲) نیز لفظ تنور پر الف لام داخل کرنےسے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تنور کو اس کام کی ابتدا کے لیے نام زد فرمایا تھا جو اشارہ پاتے ہی ٹھیک اپنے وقت پر ابل پڑا اور بعد میں طوفان والے تنور کی حیثیت سے معروف ہو گیا ، سورۂ مومنون آیت ۲۷ میں تصریح ہے کہ اس تنور کو پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا۔
43. یعنی تمہارے گھر کے جن افراد کے متعلق پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ کافر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں انہیں کشتی میں نہ بٹھاؤ۔ غالبًا یہ دو ہی شخص تھے۔ ایک حضرت نوح ؑ کا بیٹا جس کے غرق ہونے کا ابھی ذکر آتا ہے۔ دوسری حضرت نوح ؑ کی بیوی جس کا ذکر سورۂ تحریم (آیت ۱۰)میں آیا ہے۔ ممکن ہے کہ دوسرے افراد خاندان بھی ہوں مگر قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہے۔
44. اس سے اُن مؤرخین اور علماء انساب کے نظریہ کی تردید ہوتی ہے جو تمام انسانی نسلوں کا شجرۂ نسب حضرت نوح کے تین بیٹوں تک پہنچاتے ہیں۔ دراصل اسرائیلی روایات نے یہ غلط فہمی پھیلا دی ہے کہ اس طوفان سے حضرت نوحؑ اور ان کے تین بیٹوں اور ان کی بیویوں کے سوا کوئی نہ بچا تھا (ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب پیدائش ۶ : ۱۸ و ۷ : ۷ و ۹ : ۱ و ۹ : ۱۹)۔ لیکن قرآن متعدد مقامات پر اس کی تصریح کرتا ہے کہ حضرت نوح کے خاندان کے سوااُن کی قوم کی ایک معتدبہ تعداد کو بھی اگرچہ وہ تھوڑی تھی، اللہ نے طوفان سے بچا لیا تھا۔ نیز قرآن بعد کی نسلوں کو صرف نوحؑ کی اولاد نہیں بلکہ ان سب لوگوں کو اولاد قرار دیتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کشتی میں بٹھایا تھا، ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (بنی اسرائیل آیت ۳) اور مِنْ ذُرِّ یَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (مریم، آیت ۵۸)۔
45. یہ ہے مومن کی اصلی شان ۔ وہ عالمِ اسباب میں ساری تدابیر قانون فطرت کے مطابق اسی طرح اختیار کرتا ہے جس طرح اہلِ دنیا کرتے ہیں، مگر اس کا بھروسہ ان تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ پر ہوتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ اس کی کوئی تدبیر نہ تو ٹھیک شروع ہو سکتی ہے ، نہ ٹھیک چل سکتی ہے اور نہ آخری مطلوب تک پہنچ سکتی ہے جب تک اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم شامل حال نہ ہو۔
46. جو دی پہاڑ کُردستان کے علاقہ میں جزیرۂ ابن عمر کے شمالی مشرقی جانب واقع ہے۔ بائیبل میں اس کشتی کے ٹھیرنے کی جگہ اراراط بتائی گئی ہے جو ارمینیا کے ایک پہاڑ کا نام بھی ہے اور ایک سلسلۂ کوہستان کا نام بھی۔ سلسلۂ کوہستان کی معنی میں جس کو اراراط کہتے ہیں وہ آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلے کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے ۔ قدیم تاریخوں میں کشتی کے ٹھیرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے ۔ چنانچہ مسیح سے ڈھائی سو برس پہلے بابِل کے ایک مذہبی پیشوا بیراسُس (Berasus ) نے پرانی کلدانی روایات کی بنا پر اپنے ملک کی جو تاریخ لکھی ہے اس میں وہ کشتی نوح کے ٹھیرنے کا مقام جودی ہی بتاتا ہے ۔ ارسطو کا شاگرد ابیڈینوس (Abydenus ) بھی اپنی تاریخ میں اس کیتصدیق کرتا ہے ۔ نیز وہ اپنے زمانہ کا حال بیان کرتا ہے کہ عراق میں بہت سے لوگوں کے پاس اس کشتی کے ٹکڑے محفوظ ہیں جنہیں وہ گھول گھول کر بیماروں کو پلاتے ہیں۔
یہ طوفان ، جس کا ذکر کیا گیا ہے ، عالمگیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح کی قوم آباد تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا (پیدائش ۷ : ۱۸ : ۲۴) ۔ مگر قرآن میں یہ بات کہیں نہیں کہی گئی ہے ۔ قرآن کے اشارات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد سے ہیں جو طوفان نوح سے بچالیے گئے تھے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو، کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہو سکتی ہے کہ اس وقت تک بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود رہی ہو جہاں طوفان آیا تھا، اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں۔ اس نظریہ کی تائید دو چیزوں سے ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ دجلہ و فرات کی سرزمین میں ایک زبردست طوفان کا ثبوت تاریخی روایات سے ، آثارِ قدیمہ سے اور طبقات الارض سے ملتا ہے ، لیکن روئے زمین کے تمام خطوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جا سکے۔ دوسرے یہ کہ روئے زمین کی اکثر و بیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں، حتٰی کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیوگنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آباؤ اجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا۔ اور پھر جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ گئیں۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف ، حاشیہ نمبر ۴۷)۔
47. یعنی تو نے وعدہ کیا تھا کہ میرے گھر والوں کو اس تباہی سے بچا لے گا ، تو میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں ہی میں سے ہے ، لہٰذا اسے بھی بچالے۔
48. یعنی تیرا فیصلہ آخری فیصلہ ہے جس کا کوئی اپیل نہیں۔ اور تو جو فیصلہ بھی کرتا ہے خالص علم اور کام انصاف کے ساتھ کرتا ہے۔
49. یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کے جسم کا کوئی عضو سڑ گیا ہو اور ڈاکٹر نے اس کو کاٹ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اب وہ مریض ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ یہ تو میرے جسم کا ایک حصہ ہے اسے کیوں کاٹتے ہو۔ اور ڈاکٹر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ تمہارے جسم کا حصہ نہیں ہے کیوں کہ یہ سڑ چکا ہے ۔ اس جواب کا مطلب یہ نہ ہوگا کہ فی الواقع وہ سڑا ہوا عضو جسم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہارے جسم کے لیے جو اعضا مطلوب ہیں وہ تندرست اور کارآمد اعضاء ہیں نہ کہ سڑ ے ہوئے اعضا جو خود بھی کسی کام کے نہ نہوں اور باقی جسم کو بھی خراب کر دینے والے ہوں۔ لہٰذا جو عضو بگڑ چکا ہے وہ اب اُس مقصد کے لحاظ سے تمہارے جسم کا ایک حصہ نہیں رہا جس کے لیے اعضاء سے جسم کا تعلق مطلوب ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک صالح باپ سے یہ کہنا کہ یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیونکہ اخلا ق وعمل کے لحاظ سے بگڑ چکا ہے ، یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کے بیٹا ہونے کی نفی کی جا رہی ہے ، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا انسان تمہارے صالح خاندان کا فرد نیہں ہے۔ وہ تمہارے نسبی خاندان کای ایک رکن ہو تو ہوا کر ے مگر تمہارے اخلاقی خاندان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں۔ اور آج جو فیصلہ کیا جا رہا ہے وہ نسلی یا قومی نزاع کا نہیں ہے کہ ایک نسل والے بچائے جائیں اور دوسری نل والے غارت کر دیے جائیں ، بلکہ یہ فرو ایمان کی نزاع کا فیصلہ ہے جس میں صرف صالح بچائے جائیں گے اور فاسد مٹا دیے جائیں گے۔
بیٹے کو بگڑا ہوا کام کہہ کر ایک اور اہم حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ ظاہر بین آدمی اولاد کو صرف اس لیے پرورش کرتا ہے اور اسے محبوب رکھتا ہے کہ وہ اس کی صُلب سے یا اس کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے ، قطع نظر اس سے کہ وہ صالح ہو یا غیر صالح، لیکن مومن کی نگاہ میں تو حقیقت پر ہونی چاہیے۔ اُسے تو اولاد کو اِس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ یہ چند انسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فطری طریقہ سے میرے سپرد کیا ہے تاکہ ان کو پال پوس کر اور تربیت دے کر اُس مقصد کے لیے تیار کروں جس کے لیے اللہ نے دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے ۔ اب اگر اس کی تمام کوششوں اور محنتوں کے باوجود کوئِ شخص جو اس کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس مقصد کے لیے تیار نہ ہو سکا اور اپنے اس رب ہی کا اوفادار خادم نہ بنا جس نے اس کو مومن باپ کے حوالے کیا تھا، تو اس باپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی ساری محنت و کوشش ضائع ہو گئی، پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایسی اولاد کے ساتھ اسے کوئی دل بستگی ہو۔
پھر جب یہ معاملہ اولاد جیسی عزیز ترین چیز کے ساتھ ہے تو دوسرے رشتہ دارں کے متعلق مومن کا نقطۂ نظر جو کچھ ہو سکتا ہے ہو ظاہر ہے ۔ ایمان ایک فکری و اخلاقی صفت ہے۔ مومن اسی صفت کے لحاظ سے مومن کہلاتا ہے۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی رشتہ بجز اخلاقی و ایمانی رشتہ کے نہیں ہے۔ گوشت پوست کے رشتہ دار اگر اس صفت میں اس کے ساتھ شریک ہیں تو یقینًا وہ اس کے رشتہ دار ہیں، لیکن اگر وہ اس صفت سے خالی ہیں تو مومن محض گوشت پوست کی حد تک ان سے تعلق رکھے گا، اس کا قلبی و روحی تعلق ان سے نہیں ہو سکتا ۔ اور اگر ایمان و کفر کی نزاع میں وہ مومن کے مدِ مقابل آئیں تع اس کے لیے وہ اور اجنبی کافر یکساں ہوں گے۔
50. اس ارشاد کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ حضرت نوح کے اندر روح ایمان کی کم تھی، یا ان کے ایمان میں جاہلیت کا کوئی شائبہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور کوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ہر وقت اُس بلند ترین معیار کمال پر قائم رہے جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو جاتا ہے ۔ لیکن جونہی کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب سے نیچے جا رہا ہے ، و ہ فورًا توبہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اس ایک لمحہ کے لیے بھی تَامُل نہیں ہوتا۔ حضرت نوح کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ابھی جان جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آرہا ہے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ اُنہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض ا س لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محص ایک جاہلیت کا جذبہ ہے، تو وہ فورًا اپنے دل کے زخم سے بے پروا ہو کر اُس طرزِ فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔
51. پسر نوح کا یہ قصہ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت موثر پیرایہ میں یہ بتایا ہے کہ اُس کا انصاف کس قدر بے لاگ اور اس کا فیصلہ کیسا دو ٹوک ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کیسے ہی کام کریں، مگر ہم پر خدا کا غضب نازل نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم حضرت ابراہیم کی اولاد اور فلاں فلاں دیویوں اور دیوتاؤں کے متوسل ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی ایسے ہی کچھ گمان تھے اور ہیں۔ اور بہت سے غلط کا ر مسلمان بھی اس قسم کے جھوٹے بھروسوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی اولاد اور فلاں حضرت کے دامن گرفتہ ہیں ، ان کی سفارش ہم کو خدا کے انصاف سے بچا لے گی۔ لیکن یہاں یہ منظر دکھا یا گیا ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لختِ جگر کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے اور تڑپ کر بیٹے کی معافی کے لیے درخواست کرتا ہے ، لیکن دربار خداوندی سے اُلٹی اس پر ڈانٹ پڑ جاتی ہے ارو باپ کی پیغمبری بھی ایک بد عمل بیٹے کو عذاب سے نہیں بچا سکتی۔
52. یعنی اُس پہاڑ سے جس پر کشتی ٹھیری تھی۔
53. یعنی جس طرح نوح اور ان کے ساتھیوں ہی کا آخر کار بول بالا ہوا، اسی طرح تمہارا ااور تمہارے ساتھیوں کا بھی ہو گا۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ ابتداءِ کار میں دشمنانِ حق خواہ کتنے ہی کامیاب ہوں مگر آخری کامیابی صرف ان لوگوں کا حصہ ہوتی ہے جو خدا سے ڈر کر فکر و عمل کی غلط راہوں سے بچتے ہوئے مقصدِ حق کے لیے کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس وقت جو مصائب و شدائد تم پر گزر رہے ہیں جن مشکلات سے تم دوچار ہو رہے ہو اور تمہاری دعوت کو دبانے میں تمہارے مخالفوں کو بظاہر جو کامیابی ہوتی نظر آرہی ہے اس پر بد دل نہ ہو بلکہ ہمت اور صبر کے ساتھ اپنا کام کیے چلے جاؤ۔