Tafheem ul Quran

Surah 11 Hud, Ayat 50-60

وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُمۡ هُوۡدًا​ ؕ قَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ​ ؕ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا مُفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿11:50﴾ يٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡـئَلُكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا​ ؕ اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلَى الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿11:51﴾ وَيٰقَوۡمِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ يُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَيۡكُمۡ مِّدۡرَارًا وَّيَزِدۡكُمۡ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمۡ وَلَا تَتَوَلَّوۡا مُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿11:52﴾ قَالُوۡا يٰهُوۡدُ مَا جِئۡتَـنَا بِبَيِّنَةٍ وَّمَا نَحۡنُ بِتٰـرِكِىۡۤ اٰلِهَـتِنَا عَنۡ قَوۡلِكَ وَمَا نَحۡنُ لَـكَ بِمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿11:53﴾ اِنۡ نَّقُوۡلُ اِلَّا اعۡتَـرٰٮكَ بَعۡضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوۡٓءٍ​ ؕ قَالَ اِنِّىۡۤ اُشۡهِدُ اللّٰهَ وَاشۡهَدُوۡۤا اَنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِكُوۡنَ ۙ‏ ﴿11:54﴾ مِنۡ دُوۡنِهٖ​ فَكِيۡدُوۡنِىۡ جَمِيۡعًا ثُمَّ لَا تُنۡظِرُوۡنِ‏ ﴿11:55﴾ اِنِّىۡ تَوَكَّلۡتُ عَلَى اللّٰهِ رَبِّىۡ وَرَبِّكُمۡ ​ؕ مَا مِنۡ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌ ۢ بِنَاصِيَتِهَا ؕ اِنَّ رَبِّىۡ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏  ﴿11:56﴾ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقَدۡ اَبۡلَغۡتُكُمۡ مَّاۤ اُرۡسِلۡتُ بِهٖۤ اِلَيۡكُمۡ​ ؕ وَيَسۡتَخۡلِفُ رَبِّىۡ قَوۡمًا غَيۡرَكُمۡۚ وَلَا تَضُرُّوۡنَهٗ شَيۡـئًا​ ؕ اِنَّ رَبِّىۡ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ حَفِيۡظٌ‏ ﴿11:57﴾ وَ لَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا نَجَّيۡنَا هُوۡدًا وَّالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ بِرَحۡمَةٍ مِّنَّا ۚ وَ نَجَّيۡنٰهُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِيۡظٍ‏ ﴿11:58﴾ وَتِلۡكَ عَادٌ​ جَحَدُوۡا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ وَعَصَوۡا رُسُلَهٗ وَاتَّبَعُوۡۤا اَمۡرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيۡدٍ‏ ﴿11:59﴾ وَاُتۡبِعُوۡا فِىۡ هٰذِهِ الدُّنۡيَا لَعۡنَةً وَّيَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ​ؕ اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوۡا رَبَّهُمۡ​ؕ اَلَا بُعۡدًا لِّعَادٍ قَوۡمِ هُوۡدٍ‏ ﴿11:60﴾

50 - اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہُودؑ کو بھیجا۔54 اُس نے کہا ”اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو ، تمہارا کوئی خدا اُس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھُوٹ گھڑ رکھے ہیں۔55 51 - اے برادرانِ قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے؟56 52 - اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے ربّ سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔57 مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔“ 53 - انہوں نے جواب دیا ”اے ہُودؑ ، تُو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا ہے،58 اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے، اور تُجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ 54 - ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اُوپر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑگئی ہے۔“59ہُود ؑ نے کہا ”میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں۔60 اور تم گواہ رہو کہ یہ جو دُوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا ہے اس سے میں بیزار ہوں61 55 - اللہ کے سوا۔ تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اُٹھا رکھو اور مجھے مہلت نہ دو62، 56 - میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔63 57 - اگر تم منہ پھیرتے ہو تو پھیر لو۔ جو پیغام دے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں۔ اب میرا ربّ تمہاری جگہ دُوسری قوم کو اُٹھائے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔64 یقیناً میرا ربّ ہر چیز پر نگراں ہے۔“ 58 - پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہُود ؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے انہیں بچا لیا۔ 59 - >یہ ہیں عاد، اپنے ربّ کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسُولوں کی بات نہ مانی،65 اور ہر جبّار دُشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے۔ 60 - آخرِ کار اس دُنیا میں بھی ان پر پھِٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔ سُنو! عاد نے اپنے ربّ سے کُفر کیا، سُنو! دُور پھینک دیے گئے عاد، ہُود ؑ کی قوم کے لوگ۔ ؏ ۵


Notes

54. سورۂ اعراف رکوع ۵ کے حواشی پیشِ نظر رہیں۔

55. یعنی وہ تمام دوسرے معبود جن کی تم بندگی و پرستش کر رہے ہو حقیقت میں کسی قسم کی بھی خدائی صفات اور طاقتیں نہیں رکھتے۔ بندگی و پرستش کا کوئی استحقاق اُن کو حاصل نہیں ہے ۔ تم نے خواہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے اور بلاوجہ اُن سے حاجت روائی کی آس لگائے بیٹھے ہو۔

56. یہ نہایت بلیغ فقرہ ہے کہ جس میں ایک بڑا استدلال سمیٹ دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری بات کو جس طرح سرسری طور پر تم نظر انداز کر رہے ہو اور اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ ورنہ اگر تم عقل سے کام لینےوالے ہوتے تو ضرور سوچتے کہ جو شخص اپنی کسی ذاتی غرض کے بغیر دعوت و تبلیغ اور تذکیر و نصیحت کی یہ سب مشقیں جھیل رہا ہے ، جس کی اس تگ و دو میں تم کسی شخصی یا خاندانی مفاد کا شائبہ تک نہیں پا سکتے، وہ ضرو ر اپنے پاس یقین و اذعان کی کوئی ایسی بنیاد اور ضمیر کے اطمینان کی کوئی ایسی وجہ رکھتا ہے جس کی بنا پر اس نے اپنا عیش و آرام چھوڑ کر ، اپنی دنیا بنانے کی فکر سے بے پروا ہو کر ، اپنے آپ کو اس جو کھم میں ڈالا ہے کہ صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے عقائد، رسوم اور طرزِ زندگی کے خلاف آواز اُٹھائے اور اس کی بدولت دنیا بھر کی دشمنی مول لے لے۔ ایسے شخص کی بات کم ازکم اتنی بے وزن تو نہیں ہو سکتی کہ بغیر سوچے سمجھے اسے یونہین ٹال دیا جائے اور اس پر سنجیدہ غور و فکر کی ذرا سی تکلیف بھی ذہن کو نہ دی جائے۔

57. یہ وہی بات ہے جو پہلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوائی گئی تھی کہ”اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو ہوہ تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا“۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی قوموں کی قسمتوں کا اتار چڑھاؤ اخلاقی بنیادوں پر ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عالم پر جو فرمانروائی کر رہا ہے وہ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ اُن طبعی اصولوں پر جو اخلاقی خیر و شر کے امتیاز خالی ہوں۔ یہ بات کئی مقامات پر قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ جب ایک قوم کے پاس نبی کے ذریعہ سے خدا کا پیغام پہنچتا ہے تو اس کی قسمت اُس پیغام کے ساتھ معلق ہو جاتی ہے۔ اگر وہ اسے قبول کر لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر رد کر دیتی ہے تو اسے تباہ کر ڈالا جاتا ہے ۔ یہ گویا ایک دفعہ ہے اُس اخلاقی قانون کی جس پر اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے۔ اِسی طرح اس قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ جو قوم دنیا کی خوشحالی سے فریب کھا کر ظلم و معصیت کی راہوں پر چل نکلتی ہے اس کا انجام بربادی ہے۔ لیکن عین اس وقت جبکہ وہ اپنے اس بُرے انجام کی طرف بگ ٹُٹ چلی جا رہی ہو، اگر وہ اپنی غلطی کو محسوس کر لے اور نافرمانی چھوڑ کر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے ، اس کی مہلت عمل میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور مستقل میں اس کے لیے عذاب کے بجائے انعام، ترقی اور سرفرازی کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے۔

58. یعنی ایسی کوئی کھلی علامت یا ایسی کوئی واضح دلیل جس سے ہم غیر مشتبہ طور پر معلوم کر لیں کہ اللہ نے تجھے بھیجا ہے اور جو بات تو پیش کر رہا ہے وہ حق ہے۔

59. یعنی تُو نے کسی دیوی یا دیوتا یا کسی حضرت کے آستانے پر کچھ گستاخی کی ہوگی، اسی کا خمیازہ ہے جو تُو بھگت رہا ہے کہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے اور وہی بستیاں جن میں کل تُو عزت کے ساتھ رہتا تھا آج وہاں گالیوں اور پتھروں سے تیری تواضع ہو رہی ہے۔

60. یعنی تم کہتے ہو کہ میں کوئی شہادت لے کہ نہیں آیا، حالانکہ چھوٹی چھوٹی شہادتیں پیش کرنے کے بجائے میں تو سب سے بڑی شہادت اس خدائی کی پیش کر رہا ہوں جو اپنی ساری خدائی کے ساتھ کائنات ہستی کے ہر گوشے اور ہر جلوے میں اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ جو حقیقتیں میں نے تم سے بیان کی ہیں وہ سراسر حق ہیں ، ان میں جھوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں اور جو تصورات تم نے قائم کر رکھے ہیں وہ بالکل افترا ہیں، سچائی ان میں ذرہ برابر بھی نہیں۔

61. یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ فرمایا میرا بھی یہ فیصلہ سُن رکھو کہ تمہارے اِن معبودوں سے میں قطعی بیزار ہوں۔

62. یہ ان کے اس فقرے کا جواب ہے کہ ہمارے معبودوں کی تجھ پر مار پڑی ہے (تقابل کے لیے ملاحظہ وہ یونس ، آیت ۷۱)۔

63. یعنی وہ جو کچھ کرتا ہے صحیح کرتا ہے ۔ اس کا ہر کام سیدھا ہے۔ اس کے ہاں اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ وہ سراسر حق اور عدل کے ساتھ خدائی کر رہا ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تم گمراہ و بدکار ہو اور پھر فلاح پاؤ ، اور میں راستباز و نیکو کار ہوں اور پھر ٹوٹے میں رہوں۔

64. یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

65. اگرچہ ان کے پاس ایک ہی رسول آیا تھا، مگر جس چیز کی طرف اس نے دعوت دی تھی وہ وہی ایک دعوت تھی جو ہمیشہ ہر زمانے اور ہر قوم میں خدا کے رسول پیش کرتے رہے ہیں ، اسی لیے ایک رسول کی بات نہ ماننے کو سارے رسولوں کی نافرمانی قرار دیا گیا۔