Tafheem ul Quran

Surah 11 Hud, Ayat 61-68

​وَاِلٰى ثَمُوۡدَ اَخَاهُمۡ صٰلِحًا​ۘ قَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ​ ؕ هُوَ اَنۡشَاَكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَاسۡتَعۡمَرَكُمۡ فِيۡهَا فَاسۡتَغۡفِرُوۡهُ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ​ ؕ اِنَّ رَبِّىۡ قَرِيۡبٌ مُّجِيۡبٌ‏  ﴿11:61﴾ قَالُوۡا يٰصٰلِحُ قَدۡ كُنۡتَ فِيۡنَا مَرۡجُوًّا قَبۡلَ هٰذَآ​ اَتَـنۡهٰٮنَاۤ اَنۡ نَّـعۡبُدَ مَا يَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِىۡ شَكٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَيۡهِ مُرِيۡبٍ‏ ﴿11:62﴾ قَالَ يٰقَوۡمِ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ كُنۡتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّىۡ وَاٰتٰٮنِىۡ مِنۡهُ رَحۡمَةً فَمَنۡ يَّـنۡصُرُنِىۡ مِنَ اللّٰهِ اِنۡ عَصَيۡتُهٗ​ فَمَا تَزِيۡدُوۡنَنِىۡ غَيۡرَ تَخۡسِيۡرٍ‏ ﴿11:63﴾ وَيٰقَوۡمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَـكُمۡ اٰيَةً فَذَرُوۡهَا تَاۡكُلۡ فِىۡۤ اَرۡضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوۡهَا بِسُوۡٓءٍ فَيَاۡخُذَكُمۡ عَذَابٌ قَرِيۡبٌ‏ ﴿11:64﴾ فَعَقَرُوۡهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوۡا فِىۡ دَارِكُمۡ ثَلٰثَةَ اَ يَّامٍ ​ؕذٰ لِكَ وَعۡدٌ غَيۡرُ مَكۡذُوۡبٍ‏ ﴿11:65﴾ فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا نَجَّيۡنَا صٰلِحًـا وَّالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ بِرَحۡمَةٍ مِّنَّا وَمِنۡ خِزۡىِ يَوۡمِـئِذٍ​ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الۡقَوِىُّ الۡعَزِيۡزُ‏  ﴿11:66﴾ وَاَخَذَ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوا الصَّيۡحَةُ فَاَصۡبَحُوۡا فِىۡ دِيَارِهِمۡ جٰثِمِيۡنَۙ‏  ﴿11:67﴾ كَاَنۡ لَّمۡ يَغۡنَوۡا فِيۡهَا​ ؕ اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوۡدَا۟ كَفَرُوۡا رَبَّهُمۡ​ؕ اَلَا بُعۡدًا لِّـثَمُوۡدَ‏ ﴿11:68﴾

61 - اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالحؑ کو بھیجا۔66 اُس نے کہا ”اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خُدا نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور یہاں تم کو بسایا ہے۔67 لہٰذا تم اُس سے معافی چاہو68 اور اُس کی طرف پلٹ آوٴ، یقیناً میرا ربّ قریب ہے اور وہ دُعاوٴں کا جواب دینے والا ہے۔“69 62 - اُنہوں نے کہا ”اے صالح ؑ ، اس سے پہلے تُو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔70 کیا تُو ہمیں اُن معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟71 تُو جس طریقے کی طرف ہمیں بُلا رہا ہے اُس کے بارے میں ہم کو سخت شُبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے۔“72 63 - صالح ؑ نے کہا ”اے برادرانِ قوم، تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اِس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا اگر میں اُس کی نافرمانی کروں؟ تم میرے کس کام آسکتے ہو سوائے اس کے کہ مجھے اَور زیادہ خسارے میں ڈال دو۔73 64 - اور اے میری قوم کے لوگو، دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔ اِسے خدا کی زمین میں چَرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو۔ اِس سے ذرا تعّرض نہ کرنا ورنہ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ تم پر خدا کا عذاب آجائے گا۔“ 65 - مگر انہوں نے اُونٹنی کو مار ڈالا۔ اس پر صالح ؑ نے اُن کو خبردار کر دیا کہ ”بس اب تین دن اپنے گھروں میں اور رہ بس لو۔ یہ ایسی معیاد ہے جو جھُوٹی نہ ثابت ہوگی۔“ 66 - آخرِ کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالح ؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بچا لیا اور اُس دن کی رُسوائی سے ان کو محفوظ رکھا74۔ بے شک تیرا ربّ ہی دراصل طاقتور اور بالادست ہے۔ 67 - رہے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا تھا تو ایک سخت دھماکے نے ان کو دھر لیا اور وہ اپنی بستیوں میں اس طرح بے حِسّ و حرکت پڑے رہ گئے 68 - کہ گویا وہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ سُنو! ثمود نے اپنے ربّ سے کُفر کیا ۔ سُنو! دُور پھینک دیے گئے ثمود! ؏ ۶


Notes

66. سورۂ اعراف رکوع ۱۰ کے حواشی پیشِ نظر رہیں۔

67.

یہ دلیل ہے اس دعوے کی جو پہلے فقرے میں کیا گیا تھا کہ اللہ کےسوا تمہارا کوئی خدا اور کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ مشرکین خود بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اللہ ہی ہے۔ اسی مسلمہ حقیقت پر بنائے استدلال قائم کر کے حضرت صالح ان کو سمجھاتے ہیں کہ جب وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کے بے جان مادّوں کی ترکیب سے تم کو یہ انسانی وجود بخشا، اور وہ بھی اللہ ہی ہے جس نے زمین میں تم کو آباد کیا، تو پھر اللہ کے سوا خدائی اور کس کی ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی و پرستش کرو۔

68. یعنی اب تک جو تم دوسروں کی بندگی و پرستش کرتے رہے ہو اس جرم کی اپنے رب سے معافی مانگو۔

69. یہ مشرکین کی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا رد ہے جو بالعموم ان سب میں پائی جاتی ہے اور اُن اہم اسباب میں سے ایک ہے جنہوں نے ہر زمانہ میں انسان کو شرک میں مبتلا کیا ہے۔ یہ لوگ اللہ کو اپنے راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں پر قیاس کرتے ہیں جو رعیت سے دور اپنے محلوں میں داد عیش دیا کرتے ہیں ، جن کے دربار تک عام رعایا میں سے کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی، جن کے حضور میں کوئی درخواست پہنچانی ہو تو مقربین بارگاہ میں سے کسی کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور پھر اگر خوش قسمتی سے کسی کی درخواست ان کے آستانہ ٔ بلند پر پہنچ بھی جاتی ہے تو ان کا پندارِ خدائی یہ گوارا نہیں کرتا کہ خود اس کو جواب دیں، بلکہ جواب دینے کا کام مقربین ہی میں سے کسی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اس غلط گمان کی وجہ سے یہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور ہوشیار لوگوں نے ان کو ایسا سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے کہ خداوند عالم کا آستانۂ قدس عام انسانوں کی دست رس سے بہت ہی دور ہے۔ اس کے دربار تک بھلا کسی عامی کی پہنچ کیسے ہو سکتی ہے۔ وہاں تک دعاؤں کا پہنچنا اور پھر ان کا جواب ملنا تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ پاک روحوں کا وسیلہ نہ ڈھونڈا جائے اور اُن مذہبی منصب داروں کی خدمات نہ حاصل کی جائیں جو اوپر تک نذریں، نیازیں اور عرضیاں پہنچانے کے ڈھب جانتے ہیں۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس نے بندے اور خدا کے درمیان بہت سے چھوٹے بڑے معبودوں اور سفارشیوں کا ایک جم غفیر کھڑا کر دیا ہے اور اس کے ساتھ مہنت گری(Priesthood ) کا وہ نظام پید کیا ہے جس کے توسط کے بغیر جاہلی مذاہب کے پیرو پیدائش سے لے کر موت تک اپنی کوئی مذہبی رسم بھی انجام نہیں دے سکتے تھے۔

حضرت صالح ؑ جاہلیت کے اس پورے طلسم کو صرف دو لفظوں سے توڑ پھینکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ قریب ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ وہ مجیب ہے ۔ یعنی تمہارا یہ خیال بھی غلط ہے کہ وہ تم سے دور ہے ، اور یہ بھی غلط ہے ہے کہ تم براہِ راست اس کو پکار کر اپنی دعاؤں کا جواب حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ اگرچہ بہت بالا و برتر ہے مگر اسکے باوجود وہ تم سے بہت قریب ہے ۔ تم میں سے ایک ایک شخص اپنے پاس ہی ا س کو پا سکتا ہے ، ا س سے سرگوشی کر سکتا ہے، خلوت اور جلوت دونوں میں علانیہ بھی اور بصیغۂ راز بھی اپنی عرضیاں خود اس کے حضور پیش کرسکتا ہے۔ اور پھر وہ براہِ راست اپنے ہر بندے کی دعاؤں کا جواب خود دیتا ہے۔ پس جب سلطان ِ کائنات کا دربارِ عام ہر وقت ہر شخص کے لیے کھلا ہے اور ہر شخص کے قریب ہی موجود ہے تو یہ تم کس حماقت میں پڑے ہو کہ اس کے لیے واسطے اور وسیلے ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ (نیز ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ کا حاشیہ نمبر ۱۸۸)۔

70. یعنی تمہاری ہوشمندی ، ذکاوت، فراست، سنجیدگی و متانت اور پروقار شخصیت کو دیکھ کر ہم یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بڑے آدمی بنو گے۔ اپنی دنیا بھی خوب بناؤگے اور ہمیں بھی دوسری قوموں اور قبیلوں کے مقابلے میں تمہارے تدبر سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے گا ۔ مگر تم نے یہ توحید اور آخرت کا نیا راگ چھیڑ کر تو ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ یاد رہے کہ ایسے ہی کچھ خیالات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آپ کے ہم قوموں میں پائے جاتے تھے ۔ وہ بھی نبوت سے پہلے آپؐ کی بہترین قابلیتوں کے معترف تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ کہ یہ شخص ایک بہت بڑا تاجر بنے گا اور اس کی بیدار مغزی سے ہم کو بھی بہت کچھ فائدہ پہنچے گا۔ مگر جب ان کی توقعات کے خلا ف آپؐ نے توحید وآخرت اورمکارم اخلاق کی دعوت دینی شروع کی تو وہ آپؐ سے نہ صرف مایوس ، بلکہ بیزار ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا خاصا کام کا آدمی تھا، خدا جانے اسے کیا جنون لاحق ہو گیا کہ اپنی زندگی بھی برباد کی اور ہماری امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا۔

71. یہ گویا دلیل ہے اس امر کی کہ یہ معبود کیوں عبادت کے مستحق ہیں اور ان کی پوجا کس لیے ہوتی رہنی چاہیے ۔ یہاں جاہلیت اور اسلام کے طرزِ استدلال کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے ۔ حضرت صالح نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے، اور اس پر دلیل یہ دی تھی کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا ہے۔ اس کے جواب میں ان کی مشرک قوم کہتی ہے کہ ہمارے یہ معبود بھی مستحق عباد ت ہیں اور ان کی عبادت ترک نہیں کی جا سکتی کیونکہ باپ داد ا کے وقتوں سے ان کی عبادت ہوتی چلی آرہی ہے۔ یعنی مکھی پر مکھی صرف اس لیے ماری جاتی رہنی چاہیے کہ ابتدا میں کسی بے وقوف نے اس جگہ مکھی مار دی تھی اور اب اس مقام پر مکھی مارتے رہنے کے لیے اس کے سوا کسی معقول وجہ کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہاں مدتوں سے مکھی ماری جارہی ہے۔

72. یہ شبہ اور یہ خلجان کس امر میں تھا؟ اس کی کوئی تصریح یہاں نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلجان میں تو سب پڑگئےتھے، مگر ہر ایک خلجان کا الگ نوعیت کا تھا۔ یہ دعوتِ حق کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو لوگوں کا اطمینانِ قلب رخصت ہو جاتا ہے اور ایک عام بے کلی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اگر چہ ہر ایک کے احساسات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر اس بے کلی میں سے سب کو کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل کر رہتا ہے۔ اس سے پہلے جس اطمینان کے ساتھ لوگ اپنی ضلالتوں میں منہمک رہتے تھے اور کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس ہی نہ کرتے تھے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، وہ اطمینان اس دعوت کے اٹھنے کے بعد باقی نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا۔ نظام جاہلیت کی کمزوریوں پر داعی حق کی بے رحم تنقید ، اثبات حق کے لیے اس کے پرزور اور دل لگتے دلائل ، پھر اس کے بلند اخلاق، اس کا عزم ، اس کا حلم ، اس کی شرافت نفس، اس کا نہایت کھَرا اور راستبازانہ رویہ اور اس کی و ہ زبردست حکیمانہ شان جس کا سکہ بڑے سے بڑے ہٹ دھرم مخالف کے دل پر بھی بیٹھ جاتا ہے ، پھر وقت کی سوسائٹی میں سے بہترین عناصر کا اس سے متاثر ہوتے چلے جانا اور ان کی زندگیوں میں دعوت حق کی تاثیر سے غیر معمولی انقلاب رونما ہونا، یہ ساری چیزیں مل جل کر ان سب لوگوں کے دلوں کو بے چین کر ڈالتی ہیں جو حق آجانے کے بعد بھی پرانی جاہلیت کا بول بالا رکھنا چاہتے ہیں۔

73. یعنی اگر میں اپنی بصیرت کے خلاف اور اُس علم کے خلا ف جو اللہ نے مجھے دیا ہے ، محض تم کو خوش کرنے کے لیے گمراہی کا طریقہ اختیار کر لوں تو یہی نہیں کہ خدا کی پکڑ سے تم مجھ کو بچا نہ سکو گے ، بلکہ تمہاری وجہ سے میرا جرم اور زیادہ بڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس بات کی مزید سزا دے گا کہ میں نے تم کو سیدھا راستہ بتانے کے بجائے تمہیں جان بوجھ کر اُلٹا اور گمراہ کیا۔

74. جزیرہ نمائے سینا میں جو روایات مشہور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ثمود پر عذاب آیا تو حضرت صالحؑ ہجرت کر کے وہاں سے چلے گئے تھے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ والے پہاڑ کے قریب ہی ایک پہاڑی کا نام نبی صالح ہے اور کہاجاتا ہے کہ یہی جگہ آنجناب کی جائے قیام تھی۔