75. اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداءً انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فورًا ان کی ضیافت کا انتظا م فرمایا۔
76. بعض مفسرین کے نزدیک یہ خوف اس بنا پر تھا کہ جب ان اجنبی نو واردوں نے کھانے میں تأمل کیا تو حضرت ابراہیم ؑ کو ان کی نیت پر شبہ ہونے لگا اور آپ اس خیال سے اندیشہ ناک ہوئے کہ کہیں یہ کسی دشمنی کے ارادے سے تو نہیں آئے ہیں ، کیونکہ عرب میں جب کوئی شخص کسی کی ضیافت قبول کرنے سے انکار کرتا تو اس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ مہمان کی حیثیت سے نہیں آیا ہے بلکہ قتل و غارت کی نیت سے آیا ہے۔ لیکن بعد کی آیت اس تفسیر کی تائید نہیں کرتی۔
77. اِس اندازِ کلام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کھانے کی طرف ان کے ہاتھ نہ بڑھنے سے ہی حضرت ابراہیمؑ تاڑ گئے تھے کہ یہ فرشتے ہیں۔ اور چونکہ فرشتوں کا علانیہ انسانی شکل میں آنا غیر معمولی حالات ہی میں ہوا کرتا ہے اس لیے حضرت ابراہیم کو خوف جس بات پر ہوا وہ دراصل یہ تھی کہ کہیں آپ کے گھر والوں سے یا آپ کی بستی کے لوگوں سے یا خود آپ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہو گیا ہے جس پر گرفت کے لیے فرشتے اس صورت میں بھیجے گئے ہیں۔ اگر بات وہ ہوتی جو بعض مفسرین نے سمجھی ہے تو فرشتے یوں کہتے کہ ”ڈرو نہیں ہم تمہارے ربّ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں“۔ لیکن جب انہوں نے آپ کا خوف دور کرنے کے لیے کہا کہ”ہم تو قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں“ تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کا فرشتہ ہونا تو حضرت ابراہیمؑ جان گئے تھے ، البتہ پریشانی اس بات کی تھی کہ یہ حضرات اس فتنے اور آزمائش کی شکل میں جو تشریف لائے ہیں تو آخر وہ بدنصیب کون ہے جس کی شامت آنے والی ہے۔
78. اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کے انسانی شکل میں آنے کی خبر سنتے ہی سارا گھر پریشان ہو گیا تھا اور حضرت ابراہیم ؑ کی اہلیہ بھی گھبرائی ہوئی باہر نکل آئی تھیں۔ پھر جب انہوں نے یہ سن لیا کہ ان کے گھر پر یا ان کی بستی پر کوئی آفت آنے والی نہیں ہے تب کہیں ان کی جان میں جان آئی اور وہ خوش ہو گئیں۔
80. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت سارہ فی الواقع اس پر خوش ہونے کے بجائے الٹی اس کو کم بختی سمجھتی تھیں۔ بلکہ دراصل یہ اس قسم کے الفاظ میں سے ہے جو عورتیں بالعموم تعجب کے مواقع پر بولا کرتی ہیں اور جن سے لغوی معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ محض اظہارِ تعجب مقصود ہوتا ہے۔
81. بائیبل سےمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی عمر اس وقت ۱۰۰ برس اور حضرت سارہ کی عمر ۹۰ برس کی تھی۔
82. مطلب یہ ہے کہ اگر چہ عادۃً اس عمر میں انسان کے ہاں اولاد نہیں ہوا کرتی، لیکن اللہ کی قدرت سے ایسا ہونا کچھ بعد بھی نہیں ہے۔ اور جب کہ یہ خوشخبری تم کو اللہ کی طرف سے دی جارہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تم جیسی ایک مومنہ اس پر تعجب کرے۔
83. ”جھگڑے“ کا لفظ اس موقع پر اُس انتہائی محبت اور ناز کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو حضرت ابراہیمؑ اپنے خدا کے ساتھ رکھتے تھے۔ اس لفظ سے یہ تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان بڑی دیر تک ردوکد جاری رہتی ہے۔ بندہ اصرار کررہا ہے کہ کسی طرح قومِ لوطؑ پر سے عذاب ٹال دیا جائے۔ خدا جواب میں کہہ رہا ہے کہ یہ قوم اب خیر سے بالکل خالی ہو چکی ہے اور اس کے جرائم اس حد تک گزر چکے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت کی جاسکے۔ مگر بندہ ہے کہ پھر یہی کہے جاتا ہے کہ ”پروردگار، اگر کچھ تھوڑی سی بھلائی بھی اس میں باقی ہو تو اسے اور ذرا مہلت دے دے، شاید کہ وہ بھلائی پھل لے آئے“، بائیبل میں اس جھگڑے کی کچھ تشریح بھی بیان ہوئی ہے ، لیکن قرآن کا مجمل بیان اپنے اندر اس سے زیادہ معنوی وسعت رکھتا ہے ۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب پیدائش، باب ۱۸، آیت ۲۳ – ۳۲)
84. اس سلسلہ بیان میں حضرت ابراہیم ؑ کا یہ واقعہ ، خصوصًا قومِ لوطؑ کے قصّے کی تمہید کے طور پر ، بظاہر کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے ۔ مگر حقیقت میں یہ اُس مقصد کے لحاظ سے نہایت بر محل ہے جس کے لیے پچھلی تاریخ کے یہ واقعات یہاں بیان کیے جا رہے ہیں۔ اس کی مناسبت سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل دو باتوں کو پیشِ نظر رکھیے:
(۱) مخاطب قریش کے لوگ ہیں جو حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد ہونے کی وجہ ہی سے تمام عرب کے پیرزادے، کعبۃ اللہ کے مجاور اور مذہبی و اخلاقی او ر سیاسی و تمدنی پیشوائی کے مالک بنے ہوئے ہیں اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ ہم پر خدا کا غضب کیسے نازل ہو سکتا ہے کہ جبکہ ہم خدا کے اُس پیارے بندے کی اولاد ہیں اور وہ خدا کےدربار میں ہماری سفارش کرنے کو موجود ہے۔ اس پندارِ غلط کو توڑنے کے لیے پہلے تو انہیں یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ حضرت نوح ؑ جیسا عظیم الشان پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشے کو ڈوبتے دیکھ رہا ہے اور تڑپ کر خدا سے دعا کرتا ہے کہ اس کے بیٹے کو بچا لیا جائے مگر صرف یہی نہیں کہ اُس کی سفارش بیٹے کے کچھ کام نہیں آتی ، بلکہ اس سفارش پر باپ کو اُلٹی ڈانٹ سننی پڑتی ہے ۔ اس کے بعد اب یہ دوسرا منظر خود حضرت ابراہیم ؑ کا دکھایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ان پر بے پایاں عنایات ہیں اور نہایت پیا ر کے انداز میں ان کا ذکر ہو رہا ہے ، مگر دوسری طرف جب وہی ابراہیم ؑ خلیل انصاف کے معاملہ میں دخل دیتے ہیں تو ان کے اصرار و الحاح کے باوجود اللہ تعالیٰ مجرم قوم کے معاملے میں ان کی سفارش کو رد کر دیتا ہے۔
(۲) اس تقریر میں یہ بات بھی قریش کے ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ قانون ِ مکافات جس سے لوگ بالکل بے خوف اور مطمئن بیٹھے ہوئے تھے، کس طرح تاریخ کے دوران میں تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے اور خود ان کے گردوپیش اس کے کیسے کھلے کھلے آثار موجود ہیں۔ ایک طرف حضرت ابراہیمؑ ہیں جو حق و صداقت کی خاطر گھر سے بے گھر ہو کر ایک اجنبی ملک میں مقیم ہیں اور بظاہر کوئی طاقت ان کے پاس نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کے حسن ِ عمل کا یہ پھل ان کو دیتا ہے کہ بانجھ بیوی کے پیٹ سے بُڑھاپے میں اسحاق ؑ پیدا ہوتے ہیں، پھر ان کے ہاں یعقوب ؑ کی پیدائش ہوتی ہے، اور ان سے بنی اسرائیل کی وہ عظیم الشان نسل چلتی ہے جس کی عظمت کے ڈنکے صدیوں تک اُسی فلسطین و شام میں بجتے رہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ ایک بے خانماں مہاجر کی حیثیت سے آکر آباد ہوئے تھے۔ دوسری طرف قوم لوطؑ ہے جو اسی سرزمین کے ایک حصہ میں اپنی خوشحالی پر مگن اور اپنی بدکاریوں میں مست ہے۔ دور دور تک کہیں بھی اس کو اپنی شامتِ اعمال کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ اور لوطؑ کی نصیحتوں کو وہ چٹکیوں میں اڑا رہے ہیں ۔ مگر جس تاریخ کو ابراہیم ؑ کی نسل سے ایک بڑی اقبال مند قوم کے اُٹھائے جانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، ٹھیک وہی تاریخ ہے جب اِس بدکار قوم کو دنیا سے نیست و نابود کرنے کا فرمان نافذ ہوتا ہے اور وہ ایسے عبرتناک طریقہ سے فنا کی جاتی ہے کہ آج اس کی بستیوں کا نشان کہیں ڈھونڈے نہیں ملتا۔
85. سورۂ اعراف رکوع ۱۰ کے حواشی پیشِ نظر رہیں۔
86. اس قصے کی جو تفصیلات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں ان کے فحوائے کلام سے یہ بات صاف مترشح ہوتی ہے کہ یہ فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوطؑ کے ہاں پہنچے تھے اور حضرت لوطؑ اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ فرشتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ ان مہمانوں کی آمد سے آپ کو سخت پریشانی و دل تنگی لاحق ہوئی۔ اپنی قوم کو جانتے تھے کہ وہ کیسی بد کردار اور کتنی بے حیا ہو چکی ہے۔
87. ہو سکتا ہے کہ حضرت لوطؑ کا اشارہ قوم کی لڑکیوں کی طرف ہو۔ کیونکہ نبی اپنی قوم کے لیے بمنزلہ باپ ہوتا ہے اور قوم کی لڑکیاں اس کی نگاہ میں اپنی بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا اشارہ خود اپنی صاحبزادیوں کی طرف ہو۔ بہر حال دونوں صورتوں میں یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ حضرت لوطؑ نے ان سے زنا کرنے کے لیے کہا ہو گا۔ ”یہ تمہارے پاکیزہ تر ہیں“ کا فقرہ ایسا غلط مفہوم لینے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا ۔ حضرت لوطؑ کا منشا صاف طور پر یہ تھا کہ اپنی شہوتِ نفس کو اُس فطری اور جائز طریقے سے پورا کرو جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور اس کے لیے عورتوں کی کمی نہیں ہے۔
88. یہ فقرہ ان لوگوں کے نفس کی پوری تصویر کھینچ دیتا ہے کہ وہ خباثت میں کس قدر ڈوب گئے تھے۔ بات صرف اس حد تک ہی نہیں رہی تھی کہ وہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ سے ہٹ کر ایک گندی خلاف فطرت راہ پر چل پڑے تھے، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی ساری رغبت اور تمام دلچسپی اب اسی گندی راہ ہی میں تھی۔ ان کے نفس میں اب طلب اُس گندگی ہی کہ رہ گئی تھی اور فطرت اور پاکیزگی کی راہ کے متعلق یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے تھے کہ یہ راستہ تو ہمارے لیے بنا ہی نہیں ہے ۔ یہ اخلاق کے زوال اور نفس کے بگاڑ کا انتہائی مرتبہ ہے جس سے فرو تر کسی مرتبے کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اس شخص کا معاملہ تو بہت ہلکا ہے جو محض نفس کی کمزوری کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہو جاتا ہو مگر حلال کو چاہنے کے قابل اور حرام کو بچنے کے قابل چیز سمجھتا ہو۔ ایسا شخص کبھی سدھر بھی سکتا ہے ، اور نہ سدھرے، تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بگڑا ہوا انسان ہے۔ مگر جب کسی شخص کی ساری رغبت صرف حرام ہی میں ہو اور وہ سمجھے کہ حلال ا س کے لیے ہے ہی نہیں تو اس کا شمار انسانوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ وہ دراصل ایک گندا کیڑا ہے جو غلاظت ہی میں پرورش پاتا ہے طَیّبات سے اس کے مزاج کو کوئی مناسبت نہیں ہوتی ۔ ایسے کیڑے اگر کسی صفائی پسند انسان کے گھر میں پیدا ہوجائیں تو وہ پہلی فرصت میں فینائل ڈال کر ان کے وجود سے اپنے گھر کو پاک کر دیتا ہے۔ پھر بھلا خدا اپنی زمین پر ان گندے کیڑوں کے اجتماع کو کب تک گوارا کر سکتا ہے۔
89. مطلب یہ ہے کہ اب تم لوگوں کو بس یہ فکر ہونی چاہیے کہ کسی طرح جلدی سے جلدی اس علاقے سے نکل جاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیچھے شور اوردھماکوں کی آوازیں سُن کر راستے میں ٹھیر جاؤا ور جورقبہ عذاب کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے اس میں عذا ب کا وقت آجانے کے بعد بھی تم میں سے کوئی رُکا رہ جائے۔
90. یہ تیسرا عبرت ناک واقعہ ہے جو اس سورہ میں لوگوں کو یہ سبق دینے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ تم کو کسی بزرگ کی رشتہ داری اور کسی بزرگ کی سفارش اپنے گناہوں کی پاداش سے نہیں بچا سکتی۔
91. غالبًا یہ عذاب ایک سخت زلزلے اور آتش فشانی انفجار کی شکل میں آیا تھا۔ زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کیا اور آتش فشاں مادے کے پھٹنے سے ان کے اوپر زور کا پتھراؤہوا۔ پکی ہوئی مٹی کے پتھروں سے مراد شاید وہ متحجر مٹی ہے جو آتش فشاں علاقے میں زیرِ زمین حرارت اور لاوے کے اثر سے پتھر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ آج تک بحرِ لوط کے جنوب او رمشرق کے علاقے میں اس انفجار کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔
92. یعنی ہر ہر پتھر خدا کی طرف سے نامزد کیا ہوا تھا کہ اسے تباہ کاری کا کیا کام کرنا ہے اور کس پتھر کو کس مجرم پر پڑنا ہے ۔
93. یعنی آج جو لوگ ظلم کی اس روش پر چل رہے ہیں وہ بھی اس عذاب کو اپنے سے دور نہ سمجھیں۔ عذاب اگر قومِ لوط ؑ پر آسکتا تھا تو ان پر بھی آسکتا ہے۔ خدا کو نہ لوط ؑ کی قوم عاجز کر سکی تھی ، نہ یہ کر سکتے ہیں۔