Tafheem ul Quran

Surah 11 Hud, Ayat 9-24

وَلَـئِنۡ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَةً ثُمَّ نَزَعۡنٰهَا مِنۡهُ​ۚ اِنَّهٗ لَيَـُٔوۡسٌ كَفُوۡرٌ‏ ﴿11:9﴾ وَلَـئِنۡ اَذَقۡنٰهُ نَـعۡمَآءَ بَعۡدَ ضَرَّآءَ مَسَّتۡهُ لَيَـقُوۡلَنَّ ذَهَبَ السَّيِّاٰتُ عَنِّىۡ​ ؕ اِنَّهٗ لَـفَرِحٌ فَخُوۡرٌۙ‏ ﴿11:10﴾ اِلَّا الَّذِيۡنَ صَبَرُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِؕ اُولٰٓـئِكَ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ كَبِيۡرٌ‏ ﴿11:11﴾ فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعۡضَ مَا يُوۡحٰٓى اِلَيۡكَ وَضَآئِقٌ ۢ بِهٖ صَدۡرُكَ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡهِ كَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ​ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ نَذِيۡرٌ​ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ وَّكِيۡلٌ ؕ‏ ﴿11:12﴾ اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰٮهُ​ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِعَشۡرِ سُوَرٍ مِّثۡلِهٖ مُفۡتَرَيٰتٍ وَّ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿11:13﴾ فَاِلَّمۡ يَسۡتَجِيۡبُوۡا لَـكُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اُنۡزِلَ بِعِلۡمِ اللّٰهِ وَاَنۡ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ​ۚ فَهَلۡ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿11:14﴾ مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَ زِيۡنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيۡهِمۡ اَعۡمَالَهُمۡ فِيۡهَا وَهُمۡ فِيۡهَا لَا يُبۡخَسُوۡنَ‏ ﴿11:15﴾ اُولٰٓـئِكَ الَّذِيۡنَ لَـيۡسَ لَهُمۡ فِىۡ الۡاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ​ ​ۖ  وَحَبِطَ مَا صَنَعُوۡا فِيۡهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿11:16﴾ اَفَمَنۡ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّهٖ وَيَتۡلُوۡهُ شَاهِدٌ مِّنۡهُ وَمِنۡ قَبۡلِهٖ كِتٰبُ مُوۡسٰٓى اِمَامًا وَّرَحۡمَةً​  ؕ اُولٰٓـئِكَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِهٖ​ ؕ وَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِهٖ مِنَ الۡاَحۡزَابِ فَالنَّارُ مَوۡعِدُهٗ​ ۚ فَلَا تَكُ فِىۡ مِرۡيَةٍ مِّنۡهُ​ اِنَّهُ الۡحَـقُّ مِنۡ رَّبِّكَ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿11:17﴾ وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا​ ؕ اُولٰٓـئِكَ يُعۡرَضُوۡنَ عَلٰى رَبِّهِمۡ وَ يَقُوۡلُ الۡاَشۡهَادُ هٰٓؤُلَاۤءِ الَّذِيۡنَ كَذَبُوۡا عَلٰى رَبِّهِمۡ​ ۚ اَلَا لَـعۡنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِيۡنَۙ‏ ﴿11:18﴾ الَّذِيۡنَ يَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَيَبۡغُوۡنَهَا عِوَجًا ؕ وَهُمۡ بِالۡاٰخِرَةِ هُمۡ كٰفِرُوۡنَ‏ ﴿11:19﴾ اُولٰٓـئِكَ لَمۡ يَكُوۡنُوۡا مُعۡجِزِيۡنَ فِى الۡاَرۡضِ وَمَا كَانَ لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ اَوۡلِيَآءَ​ ۘ يُضٰعَفُ لَهُمُ الۡعَذَابُ​ ؕ مَا كَانُوۡا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ السَّمۡعَ وَمَا كَانُوۡا يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿11:20﴾ اُولٰٓـئِكَ الَّذِيۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ وَضَلَّ عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿11:21﴾ لَا جَرَمَ اَ نَّهُمۡ فِى الۡاٰخِرَةِ هُمُ الۡاَخۡسَرُوۡنَ‏ ﴿11:22﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَخۡبَـتُوۡۤا اِلٰى رَبِّهِمۡۙ اُولٰٓـئِكَ اَصۡحٰبُ الۡجَـنَّةِ​ؕ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿11:23﴾ مَثَلُ الۡفَرِيۡقَيۡنِ كَالۡاَعۡمٰى وَالۡاَصَمِّ وَالۡبَـصِيۡرِ وَالسَّمِيۡعِ​ ؕ هَلۡ يَسۡتَوِيٰنِ مَثَلًا​ ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿11:24﴾

9 - اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ 10 - اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اُسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دِلَدّر پار ہو گئے، پھر وہ پھُولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔10 11 - اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے11 اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ 12 12 - تو اے پیغمبر ؐ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اُن چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کرنے سے)چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں۔ اور اس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے ”اسِ شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اُتارا گیا“ یا یہ کہ ” اِس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا۔“ تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے۔ 13 13 - کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو ”اچھا یہ بات ہے تو اِس جیسی گھڑی ہوئی دس سُورتیں تم بنا لاوٴ اور اللہ کے سوا اور جو جو ( تمہارے معبود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بُلا سکتے ہو تو بُلا لو اگر تم (اُنہیں معبود سمجھنے میں)سچے ہو۔ 14 - اب اگر وہ(تمہارے معبود)تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ پھر کیا تم ( اِس امرِ حق کے آگے )سرِ تسلیم خم کرتے ہو؟ “14 15 - جو لوگ بس اِسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں15 اُن کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں اُن کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ 16 - مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔16 ( وہاں معلوم ہو جائے گا کہ)جو کچھ اِنہوں نے دُنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کِیا دھرا محض باطل ہے۔ 17 - پھر بھلا وہ شخص جو اپنے ربّ کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا،17 اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے ( اِس شہادت کی تائید میں)آگیا، 18اور پہلے موسیٰ ؑ کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دُنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کرسکتا ہے؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے۔ 19 اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اِس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبر ؐ ، تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے ربّ کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔ 18 - اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے۔20 ایسے لوگ اپنے ربّ کے حضُور پیش ہونگے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے ربّ پر جھوٹ گھڑا تھا۔ سُنو! خُدا کی لعنت ہے ظالموں پر21 19 - ۔۔۔۔ اُن ظالموں پر22 جو خُدا کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں، اُس کے راستے کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں23 اور آخرت کا انکار کرتے ہیں ۔۔۔۔24 20 - وہ زمین میں اللہ کو بے بس کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلے میں کوئی اُن کا حامی تھا۔ اُنہیں اب دوہرا عذاب دیا جائے گا۔ 25وہ نہ کسی کی سُن ہی سکتے تھے اور نہ خود ہی اُنہیں کچھ سُوجھتا تھا ۔ 21 - یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خود گھاٹے میں ڈالا اور وہ سب کچھ اُن سے کھویا گیا جو اُنہوں نے گھڑ رکھا تھا۔26 22 - ناگزیر ہے کہ وہی آخرت میں سب سے بڑھ کر گھاٹے میں رہیں۔ 23 - رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے ربّ ہی کے ہو کر رہے، تو یقیناً وہ جنتّی لوگ ہیں اور جنّت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔27 24 - اِن دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سُننے والا، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟28 کیا تم ( اِس مثال سے) کوئی سبق نہیں لیتے؟ ؏۲


Notes

10. یہ انسان کے چھچورے پن ، سطح بینی، اور قلت تدبر کا حال ہے جس کا مشاہدہ ہر وقت زندگی میں ہوتا رہتا ہے اور جس کو عام طور پر لوگ اپنے نفس کا حساب لے کر خود اپنے اندر بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ آج خوشحال اور زور آور ہیں تو اکڑ رہے ہیں اور فخر کر رہے ہیں ۔ ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہر اہی نظر آرہا ہے اور خیال تک نہیں آتا کہ کبھی اس بہار پر خزاں بھی آسکتی ہے۔ کل کسی مصِیبت کے پھیر میں آگئے تو بلبلا اُٹھے، حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے، اور بہت تَلمَلا ئے تو خد ا کو گالیاں دے کر ا ور اس کی خدائی پر طعن کر کے غم غلط کر نے لگے۔ پھر جب بُرا وقت گزر گیا اور بھلے دن آئے تو وہی اکڑ ، وہی ڈینگیں اور نعمت کے نشے میں وہی سرمستیاں پھر شروع ہو گئیں۔

انسان کی اس ذلیل صفت کا یہاں کیوں ذکر ہو رہا ہے؟ اس کی غرض ایک نہایت لطیف انداز میں لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ آج اطمینان کے ماحول میں جب ہمارا پیغبر خبردار کرتا ہے کہ خدا کی نافرمانیاں کرتے رہو گے تو تم پر عذاب آئے گا ، اور تم اس کی یہ بات سُن کر ایک زور کا ٹھٹھا مار تے ہو، اور کہتے ہو کہ”دیوانے دیکھتا نہیں کہ ہم پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہے ، ہر طرف ہماری بڑائی کے پھریرے اُڑ رہے ہیں، اس وقت تجھے دن دہاڑے یہ ڈراؤنا خواب کیسے نظر آگیا کہ کوئی عذاب ہم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے “، تو دراصل پیغمبر کی نصیحت کے جواب میں تمہارا یہ ٹھٹھا اِسی ذلیل صفت کا ایک ذلیل تر مظاہرہ ہے۔ خدا تو تمہاری گمراہیوں اور بدکاریوں کے باوجود محض اپنے رحم و کرم سے تمہاری سزا میں تاخیر کر رہا ہے تا کہ تم کِسی طرح سنبھل جاؤ، مگر تم اس مہلت کے زمانے میں یہ سوچ رہے ہو کہ ہماری خوش حالی کیسی پائیدار بنیادوں پر قائم ہے اور ہمارا یہ چمن کیسا سدا بہار ہے کہ اس پر خزاں آنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں۔

11. یہاں صبر کے ایک اور مفہوم پر روشنی پڑتی ہے ۔ صبر کی صفت اُ س چھچور پن کی ضد ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ۔ صابر وہ شخص ہے جو زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات میں اپنے ذہن کے توازن کو برقرار رکھے ۔ وقت کی ہر گردش سے اثر لے کر اپنے مزاج کا رنگ بدلتا نہ چلا جائے بلکہ ایک معقول اور صحیح رویہ پر ہر حال میں قائم رہے۔ اگر کبھی حالات سازگار ہوں اور وہ دولت مندی، اقتدار اور ناموری کے آسمانوں پر چڑھا چلا جا رہا ہو تو بڑا ئی کے نشے میں مست ہو کر بہکنے نہ لگے۔ اور اگر کسی دوسرے وقت مصائب و مشکلات کی چکی اسے پیسے ڈال رہی ہوتو اپنے جوہر انسانیت کو اس میں ضائع نہ کر دے۔ خدا کی طرف سے آزمائش خواہ نعمت کی صورت میں آئے یا مصیبت کی صورت میں ، دونوں صورتوں میں اس کی بردباری اپنے حال پر قائم رہے اور اس کا ظرف کسی چیز کی بھی چھوٹی یا بڑی مقدار سے چھلک نہ پڑے۔

12. یعنی اللہ ایسے لوگوں کے قصور معاف بھی کرتا ہے اور ان کی بھلائیوں پر اجر بھی دیتا ہے۔

13. اس ارشاد کا مطلب سمجھنے کے لیے اُن حالات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے جن میں یہ فرمایا گیا ہے ۔ مکہ ایک ایسے قبیلے کا صدر مقام ہے جو تمام عرب پر اپنے مذہبی اقتدار ، اپنی دولت و تجارت اور اپنے سیاسی دبدبے کی وجہ سے چھایا ہوا ہے۔ عین اس حالت میں جب کہ یہ لوگ اپنے انتہائی عروج پر ہیں اس بستی کا ایک آدمی اُٹھتا ہے اور علی الاعلان کہتا کہ جس مذہب کے تم پیشوا ہو وہ سراسر گمراہی ہے، جس نظام تمدن کے تم سردار ہو وہ اپنی جڑ تک گلا اور سڑا ہوا نظام ہے، خدا کا عذاب تم پرٹوٹ پڑنے کے لیے تُلا کھڑا ہے اور تمہارے لیے اس سے بچنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اُس مذہب ِ حق اور اس نظام صالح کو قبو ل کر لو جو میں خدا کی طرف سے تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں۔ اس شخص کے ساتھ اس کی پاک سیرت اور اس کی معقول باتوں کے سوا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں ہے جس سے عام لوگ اسے مامور من اللہ سمجھیں۔ اور گردوپیش کے حالات میں بھی مذہب و اخلاق اور تمدن کی گہری بنیادی خرابیوں کے سوا کوئی ایسی ظاہر علامت نہیں ہے جو نزول عذاب کی نشان دہی کر تی ہو۔ بلکہ اس کے برعکس تمام نمایاں علامتیں یہی ظاہر کر رہی ہیں کہ ان لوگوں پر خدا کا (اور ان کے عقیدے کے مطابق) دیوتاؤں کا بڑا فضل ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں ٹھیک ہی کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں یہ بات کہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ، اور اس کے سوا کچھ ہو بھی نہیں سکتا ، کہ چند نہایت صحیح الدماغ اور حقیقت رس لوگوں کے سوا بستی کے سب لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ کوئی ظلم و ستم سے اس کو دبانا چاہتا ہے۔ کوئی جھوٹے الزامات اور اوچھے اعتراضات سے اس کی ہوا اُکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی متعصبانہ بے رخی سے اس کی ہمت شکنی کرتا ہے اور کوئی مذاق اُڑا کر، آوازے اور پھبتیاں کس کر، اور ٹھٹھے لگا کر اس کی باتوں کو ہوا میں اڑا دینا چاہتا ہے۔ یہ استقبال جو کئی سال تک اس شخص کی دعوت کا ہوتا رہتا ہے ، جیسا کچھ دل شکن اور مایوس کن ہو سکتا ہے، ظاہر ہے ۔ بس یہی صورتِ حال ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی ہمت بندھانے کے لیے تلقین فرماتا ہے کہ اچھے حالات میں پھول جانا اور بُرے حالات میں مایوس ہو جانا چھچورے لوگوں کا کام ہے۔ ہماری نگاہ میں قیمتی انسان وہ ہے جو نیک ہو اور نیکی کے راستے پر صبر و ثبات اور پا مردی کے ساتھ چلنے والا ہو۔ لہٰذا جس تعصب سے ، جس بے رُخی سے ، جس تضحیک و استہزا سے اور جن جاہلانہ اعتراضات سے تمہارا مقابلہ کیا جا رہا ہے ان کی وجہ سے تمہارے پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آنے پائے ۔ جو صداقت تم پر بذریعۂ وحی منکشف کی گئی ہے ا سکے اظہار و اعلان میں اور اس کی طرف دعوت دینے میں تمہیں قطعًا کوئی باک نہ ہو۔ تمہارے دل میں اس خیال کا کبھی گزر تک نہ ہو کہ فلاں بات کیسے کہوں جبکہ لوگ سنتے ہی اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور فلاں حقیقت کا اظہار کیسے کروں جب کہ کوئی اس کے سننے تک کا روادار نہیں ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، تم جسے حق پاتے ہو اسے بے کم و کاست اور بے خوف بیان کیے جاؤ، آگے سب معاملات اللہ کے حوالہ ہیں۔

14. یہاں ایک ہی دلیل سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے کا ثبوت بھی دیا گیا ہے اور توحید کا ثبوت بھی۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ :

(۱) اگر تمہارے نزدیک یہ انسانی کلام ہے تو انسان کو ایسے کلام پر قادر ہونا چاہیے ، لہٰذا تمہارا یہ دعویٰ کے میں نے اسے خود تصنیف کیا ہے صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے کہ تم ایسی ایک کتاب تصنیف کر کے دکھاؤ۔ لیکن اگر بار بار چیلنج دینے پر بھی تم سب مل کر اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتے تو میرا دیہ دعویٰ صحیح ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے۔

(۲) پھر جب کہ اس کتاب میں تمہارے معبودوں کی بھی کھلم کھلا مخالفت کی گئی ہے اور صاف صاف کہا گیا ہے کہ ان کی عبادت چھوڑ دو کیونکہ الوہیت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ، تو ضرور ہے کہ تمہارے معبودوں کی بھی (اگر فی الواقع ان میں کوئی طاقت ہے) میرے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے اور اس کتاب کی نظیر پیش کرنے میں تمہاری مدد کرنی چاہیے۔ لیکن اگر وہ س فیصلے کی گھڑی میں بھی تمہاری مدد نہیں کرتے اور تمہارے اندر کوئی ایسی طاقت نہیں پھونکتے کہ تم اس کتاب کی نظیر تیار کر سکو، تو اس سے صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ تم نے خوا ہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے ، ورنہ درحقیقت ان کے اندر کوئی قدرت اور کوئی شائبۂ الوہیت نہیں ہے جس کی بنا پر وہ معبود ہونے کے مستحق ہوں۔

اس آیت سےضمنًا یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ سورۃ ترتیب کے اعتبار سے سورۂ یونس سے پہلے کی ہے۔ یہاں دس سورتیں بنا کر لانے کا چیلنج دیا گیا ہے اور جب وہ اس کا جواب نہ دے سکے تو پھر سورۂ یونس میں کہا گیا کہ اچھا ایک ہی سورۃ اس کے مانند تصنیف کر لاؤ۔ (یونس ۔آیت ۳۸ حاشیہ ۴۶)

15. اس سلسلہ ٔ کلام میں یہ بات اس مناسبت سے فرمائی گئی ہے کہ قرآن کی دعوت کو جس قسم کے لوگ اُس زمانہ میں رد کر رہے تھے اور آج بھی رد کر رہے ہیں وہ زیادہ تر وہی تھے اور ہیں جن کے دل و دماغ پر دنیا پرستی چھائی ہوئی ہے ۔ خدا کے پیغام کو رد کرنے کے لیے جو دلیل بازیاں وہ کرتے ہیں وہ سب تو بعد کی چیزیں ہیں۔ پہلی چیز جو اس انکار کا اصل سبب ہے وہ ان کے نفس کا یہ فیصلہ ہے کہ دنیا اور اس کے مادی فائدوں سے بالاتر کوئی شئے قابل قدر نہیں ہے ، اور یہ کہ ان فائدوں سے متمع ہونے کے لیے ان کو پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے۔

16. یعنی جس کے پیشِ نظر محض دنیا اور اس کا فائدہ ہو، وہ اپنی دنیا بنانے کی جیسی کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائَیگا۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیشِ نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دنیا طلب مساعی کی بار آوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دنیا میں آدمی کی سعی اُن کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں بھی مانع ہوں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شاندار مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے اُن تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بنا کرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے انکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سروسامان موت کی آخر ی ہچکی کے ساتھ ہی اِس دنیا میں چھوڑ دینا پڑے گا اور اس کی کوئی چیز بھی وہ اپنے ساتھ دوسرے عالم میں نہ لے جا سکے گا ۔ اگر اس نے آخرت میں محل تعمیر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کا یہ محل وہاں ا س کے ساتھ منتقل ہو۔ وہاں کوئی محل وہ پاسکتا ہے تو صرف اس صورت میں پاسکتا ہے جب کہ دنیا میں اس کی سعی اُن کاموں میں ہو جن سے قانونِ الہٰی کے مطابق آخرت کا محل بنا کرتا ہے۔

اب سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس دلیل کا تقاضا تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہاں اسے کوئی محل نہ ملے۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ محل کے بجائے وہاں اسے آگ ملے؟ اس کا جواب یہ ہے (اور یہ قرآن ہی کا جواب ہے جو مختلف مواقع پر اس نے دیا ہے) کہ جو شخص آخرت کو نظر انداز کر کے محض دنیا کے لیے کام کرتا ہے وہ لازمًا و فطرۃً ایسے طریقوں سے کام کرتا ہے جن سے آخرت میں محل کے بجائے آگ کا الاؤ تیار ہوتا ہے ۔ (ملاحظہ ہو سورۂ یونس ، حاشیہ نمبر ۱۲)۔

17. یعنی جس کو خود اپنے وجود میں اور زمین و آسمان کی ساخت میں اور کائنات کے نظم و نسق میں اِس امر کی کھلی شہادت مل رہی تھی کہ اِس دنیا کا خالق، مالک ، پروردگار اور حاکم و فرما نروا صرف ایک خدا ہے، اور پھر انہیں شہادتوں کو دیکھ کر جس کا دل یہ گواہی بھی پہلے ہی دے رہا تھا کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ضرور ہونی چاہیے جس میں انسان اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دے اور اپنے کیے کی جزا اور سزا پائے۔

17. یعنی جس کو خود اپنے وجود میں اور زمین و آسمان کی ساخت میں اور کائنات کے نظم و نسق میں اِس امر کی کھلی شہادت مل رہی تھی کہ اِس دنیا کا خالق، مالک ، پروردگار اور حاکم و فرما نروا صرف ایک خدا ہے، اور پھر انہیں شہادتوں کو دیکھ کر جس کا دل یہ گواہی بھی پہلے ہی دے رہا تھا کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ضرور ہونی چاہیے جس میں انسان اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دے اور اپنے کیے کی جزا اور سزا پائے۔

18. یعنی قرآن ، جس نے آکر اُس فطری و عقلی شہادت کی تائید کی اور اسے بتایا کہ فی الواقع حقیقت وہی ہے جس کا نشان آفاق و انفس کے آثار میں تُونے پایا ہے۔

19. سلسلۂ کلام کےلحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جولوگ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو پر اور اس کی خوش نمائیوں پر فریفتہ ہیں اُن کے لیے تو قرآن کی دعوت کو رد کر دینا آسان ہے۔ مگر وہ شخص جو اپنی ہستی اور کائنات کے نظام میں پہلے سے توحید و آخرت کی کھلی شہادت پا رہا تھا ، پھر قرآن نے آکر ٹھیک وہی بات کہی جس کی شہادت وہ پہلے سے اپنے اندر بھی پا رہا تھا اور باہر بھی ، اور پھر اس کی مزید تائید قرآن سے پہلے آئی ہوئی کتاب آسمانی میں بھی اسے مل گئی، آخر وہ کس طر ح اتنی زبردست شہادتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اِن منکرین کا ہم نوا ہو سکتا ہے ؟ اس ارشاد سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن سے پہلے ایمان بالغیب کی منزل سے گزر چکے تھے ۔ جس طرح سورۂ اَنعام میں حضرت ابراہیم کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ نبی ہونے سے پہلے آثارِ کائنات کے مشاہدے سے توحید کی معرفت حاصل کر چکے تھے، اسی طرح یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غور و فکر سے اس حقیقت کو پا لیا تھا اور اس کے بعد قرآن نے آکر نہ صرف تصدیق و توثیق کی، بلکہ آپ کو حقیقت کا براہ راست علم بھی عطا کردیا۔

20. یعنی یہ کہے کہ اللہ کے ساتھ خدائی اور استحقاق بندگی میں دوسرے بھی شریک ہیں ۔ یا یہ کہے کہ خدا کو اپنے بندوں کی ہدایت و ضلالت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس نے کوئی کتاب اور کوئی نبی ہماری ہدایت کے لیے نہیں بھیجا ہے بلکہ ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے کہ جو ڈھنگ چاہیں اپنی زندگی کے لیے اختیار کرلیں۔ یا یہ کہے کہ خدا نے ہمیں یونہی کھیل کے طور پر پیدا کیا اور یونہی ہم کو ختم کر دے گا، کوئی جواب دہی ہمیں اس کے سامنے نہیں کرنی ہے اور کوئی جزا و سزا نہیں ہونی ہے۔

21. یہ عالم آخرت کا بیان ہے کہ وہاں یہ اعلان ہو گا۔

22. یہ جملۂ معترضہ ہے کہ جن ظالموں پر وہاں خدا کی لعنت کا اعلان ہو گا وہ وہی لوگ ہوں گے جو آج دنیا میں یہ حرکات کر رہے ہیں۔

23. یعنی وہ اس سیدھی راہ کو جوان کے سامنے پیش کی جارہی ہے پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ یہ راہ کچھ ان کی خواہشات نفس اور ان کے جاہلانہ تعصّبات اور ان کے اوہام و تخیلات کے مطابق ٹیڑھی ہو جائے تو وہ اسے قبول کریں۔

24. یہ پھر عالمِ آخرت کا بیان ہے۔

25. ایک عذاب خود گمراہ ہو نے کا۔ دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے اور بعد کی نسلوں کے لیے گمراہی کی میراث چھوڑ جانے کا۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰)

26. یعنی وہ سب نظریات پادر ہوا ہو گئے جو انہوں نے خدا اور کائنات اور اپنی ہستی کے متعلق گھڑ رکھے تھے، اور وہ سب بھروسے بھی جھوٹے ثابت ہوئے جو انہوں نے اپنے معبودوں اور سفارشیوں اور سرپرستوں پر رکھے تھے ، اور وہ قیاسات بھی غلط نکلے جو انہوں نے زندگی بعد موت کے بارے میں قائم کیے تھے۔

27. یہاں عالم آخرت کا بیان ختم ہوا۔

28. یعنی کیا ان دونوں کا طرزِ عمل اور آخر کار دونوں کا انجام یکساں ہو سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو شخص نہ خود راستہ دیکھتا ہے اور نہ کسی ایسے شخص کی بات ہی سنتا ہے جو اسے راستہ بتا رہا ہو وہ ضرور کہیں ٹھوکر کھا ئے گا اور کہیں کسی سخت حادثہ سے دوچار ہو گا۔ بخلاف اس کے جو شخص خود بھی راستہ دیکھ رہا ہو اور کسی واقف راہ کی ہدایات سے بھی فائدہ اُٹھاتا ہو وہ ضرور اپنی منزل پر بسلامت پہنچ جائے گا۔ بس یہی فرق اُن لوگوں کے درمیان بھی ہے جن میں سے ایک اپنی آنکھوں سے بھی کائنات میں حقیقت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور خدا کے بھیجے ہوئے رہنماؤں کی بات بھی سنتا ہے، اور دوسرا نہ خود ہِیے کی آنکھیں کھلی رکھتا ہے کہ خدا کی نشانیاں اسے نظر آئیں اور نہ پیغمبروں کی بات ہی سُن کر دیتا ہے۔ کیونکر ممکن ہے کہ زندگی میں ان دونوں کا طرزِ عمل یکساں ہو؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ آخر کار ان کے انجام میں فرق نہ ہو؟