Tafheem ul Quran

Surah 11 Hud, Ayat 96-109

وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍۙ‏ ﴿11:96﴾ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۟ ـئِهٖ فَاتَّبَعُوۡۤا اَمۡرَ فِرۡعَوۡنَ​ۚ وَمَاۤ اَمۡرُ فِرۡعَوۡنَ بِرَشِيۡدٍ‏ ﴿11:97﴾ يَقۡدُمُ قَوۡمَهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ فَاَوۡرَدَهُمُ النَّارَ​ؕ وَبِئۡسَ الۡوِرۡدُ الۡمَوۡرُوۡدُ‏ ﴿11:98﴾ وَاُتۡبِعُوۡا فِىۡ هٰذِهٖ لَـعۡنَةً وَّيَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ​ ؕ بِئۡسَ الرِّفۡدُ الۡمَرۡفُوۡدُ‏ ﴿11:99﴾ ذٰ لِكَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡـقُرٰى نَقُصُّهٗ عَلَيۡكَ​ مِنۡهَا قَآئِمٌ وَّحَصِيۡدٌ‏  ﴿11:100﴾ وَمَا ظَلَمۡنٰهُمۡ وَلٰـكِنۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ​ فَمَاۤ اَغۡنَتۡ عَنۡهُمۡ اٰلِهَتُهُمُ الَّتِىۡ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمۡرُ رَبِّكَؕ ​ وَمَا زَادُوۡهُمۡ غَيۡرَ تَتۡبِيۡبٍ‏ ﴿11:101﴾ وَكَذٰلِكَ اَخۡذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الۡقُرٰى وَهِىَ ظَالِمَةٌ​ ؕ اِنَّ اَخۡذَهٗۤ اَلِيۡمٌ شَدِيۡدٌ‏ ﴿11:102﴾ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لِّمَنۡ خَافَ عَذَابَ الۡاٰخِرَةِ​ ؕ ذٰ لِكَ يَوۡمٌ مَّجۡمُوۡعٌ  ۙ  لَّهُ النَّاسُ وَذٰ لِكَ يَوۡمٌ مَّشۡهُوۡدٌ‏ ﴿11:103﴾ وَمَا نُؤَخِّرُهٗۤ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعۡدُوۡدٍؕ‏ ﴿11:104﴾ يَوۡمَ يَاۡتِ لَا تَكَلَّمُ نَفۡسٌ اِلَّا بِاِذۡنِهٖ​ۚ فَمِنۡهُمۡ شَقِىٌّ وَّسَعِيۡدٌ‏ ﴿11:105﴾ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ شَقُوۡا فَفِى النَّارِ لَهُمۡ فِيۡهَا زَفِيۡرٌ وَّشَهِيۡقٌ ۙ‏  ﴿11:106﴾ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ​ ؕ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيۡدُ‏ ﴿11:107﴾ وَاَمَّا الَّذِيۡنَ سُعِدُوۡا فَفِى الۡجَـنَّةِ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ​ ؕ عَطَآءً غَيۡرَ مَجۡذُوۡذٍ‏  ﴿11:108﴾ فَلَا تَكُ فِىۡ مِرۡيَةٍ مِّمَّا يَعۡبُدُ هٰٓؤُلَاۤءِ ​ؕ مَا يَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا كَمَا يَعۡبُدُ اٰبَآؤُهُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ​ؕ وَاِنَّا لَمُوَفُّوۡهُمۡ نَصِيۡبَهُمۡ غَيۡرَ مَنۡقُوۡصٍ‏ ﴿11:109﴾

96 - اور موسیٰ ؑ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھُلی کھُلی سَنَدِ ماموریّت کے ساتھ بھیجا، 97 - فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کی طرف مگر انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا۔ 98 - قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور اپنی پیشوائی میں انہیں دوزخ کی طرف لے جائے گا۔104 کیسی بد تر جائے وُرُود ہے یہ جس پر کوئی پہنچے! 99 - اور ان لوگوں پر دُنیا میں بھی لعنت پڑی اور قیامت کے روز بھی پڑے گی۔ کیسا بُرا صِلہ ہے یہ جو کسی کو ملے! 100 - یہ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سُنا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ 101 - ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا، انہوں نے آپ ہی اپنے اُوپر ستم ڈھایا۔ اور جب اللہ کا حکم آگیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پُکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آسکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔ 102 - اور تیرا ربّ جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہُوا کرتی ہے، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔ 103 - حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو عذابِ آخرت کا خوف کرے۔105 وہ ایک دن ہوگا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اُس روز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔ 104 - ہم اس کے لانے میں کچھ بہت زیادہ تاخیر نہیں کر رہے ہیں، بس ایک گِنی چُنی مُدّت اس کے لیے مقرر ہے۔ 105 - جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی، اِلّا یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے ۔106 پھر کچھ لوگ اس روز بد بخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔ 106 - جو بد بخت ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے (جہاں گرمی اور پیاس کی شدت سے) وہ ہانپیں گے اور پھُنکارے ماریں گے 107 - اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں،107اِّلا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے۔ بے شک تیرا ربّ پُورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے۔ 108 108 - رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو وہ جنّت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں، اِلّا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے۔109ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔ 109 - پس اے نبی ؐ، تُو ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں نہ رہ جن کی یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں۔ یہ تو (بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے) اُسی طرح پُوجا پاٹ کیے جارہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے،110 اور ہم ان کا حصہ انہیں بھر پور دیں گے بغیر اس کے کہ اس میں کچھ کاٹ کسر ہو۔ ؏ ۹


Notes

104. اس آیت سے اور قرآن مجید کی بعض دوسری تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں کسی قوم یا جماعت کے رہنما ہوتے ہیں وہی قیامت کے روز بھی اس کے رہنما ہوں گے ۔ اگر وہ دنیا میں نیکی اور سچائی اور حق کی طرف رہنمائی کر تے ہیں تو جن لوگوں نے یہاں ان کی پیروی کی ہے وہ قیامت کے روز بھی انہیں کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے اور ان کی پیشوائی میں جنت کی طرف جائیں گے۔ اور اگر وہ دنیا میں کسی ضلالت ، کسی بد اخلاقی یا کسی ایسی راہ کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں جو دینِ حق کی راہ نہیں ہے ، تو جو لوگ یہاں ان کے پیچھے چل رہے ہیں وہ وہاں بھی ان کے پیچھے ہوں گے اور انہی کی سرکردگی میں جہنم کا رُخ کریں گے۔ اسی مضمون کی ترجمانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں پائی جاتی ہے کہ امرؤ القیس حامل لوا ء شعر ال ء الجا ھلیۃ الی النار، یعنی” قیامت کے روز جاہلیت کی شاعری کا جھنڈا امرؤ القیس کے ہاتھ میں ہو گا اور عرب جاہلیت کے تمام شعراء اسی کی پیشوائی میں دوزخ کی راہ لیں گے“۔ اب یہ منظر ہر شخص کا اپنا تخیل اس کی آنکھوں کے سامنے کھینچ سکتا ہے کہ یہ دونوں قسم کے جلوس کس شان سے اپنی مقصود کی طرف جائیں گے ظاہر ہے کہ جن لیڈروں نے دنیا میں لوگوں کو گمراہ کیا اور خلافِ حق راہوں پر چلایا ہے اُس کے پیرو جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ یہ ظالم ہم کو کس خوفناک انجام کی طرف کھینچ لائے ہیں، تو وہ اپنی ساری مصیبتوں کا ذمہ دار انہی کو سمجھیں گے اور اُن کا جلوس اس شان سے دوزخ کی راہ پر رواں ہو گا کہ آگے آگے وہ ہوں گے اور پیچھے پیچھے ان کے پیرووں کا ہجوم ان کو گالیاں دیتا ہوا اور ان پر لعنتوں کی بوچھاڑ کر تا ہوا جا رہا ہوگا۔ بخلاف اس کے جن لوگوں کی رہنمائی نے لوگوں کو جنت نعیم کا مستحق بنایا ہو گا ان کے پیرو اپنا یہ انجام خیر دیکھ کر اپنے لیڈروں کو دعائیں دیتے ہوئے اور ان پر مدح و تحسین کے پھول برساتے ہوئے چلیں گے۔

105. یعنی تاریخ کے اِن واقعات میں ایک ایسی نشانی ہے جس پر اگر انسان غور کرے تو اسے یقین آجائے گا کہ عذاب آخرت ضرور پیش آنے والا ہے اور اس کے متعلق پیغمبروں کی دی ہوئی خبر سچی ہے ۔ نیز اس کی نشانی سے وہ یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ عذاب آخرت کیسا سخت ہو گا اور یہ علم اس کے دل میں خوف پیدا کر کے اسے سیدھا کردے گا۔

اب رہی یہ بات کہ تاریخ میں وہ کیا چیز ہے جو آخرت اور اس کے عذاب کی علامت کہی جا سکتی ہے ، تو ہر وہ شخص اسے بآسانی سمجھ سکتا ہے جو تاریخ کو محض واقعات کا مجموعہ ہی نہ سمجھتا ہو بلکہ ان واقعات کی منطق پر بھی کچھ غور کرتا ہو اور ان سے نتائج بھی اخذ کرنے کا عادی ہو۔ ہزار ہا برس کی انسانی تاریخ میں قوموں اورجماعتوں کا اٹھنا اور گرنا جس تسلسل اور باضابطگی کے ساتھ رونما ہوتا رہا ہے ، اور پھر اس گرنے اور اُٹھنے میں جس طرح صریحًا کچھ اخلاقی اسباب کا ر فرما رہے ہیں ، اور گرنے والی قومیں جیسی جیسی عبرت انگیز صورتوں سے گری ہیں ، یہ سب کچھ اس حقیقت کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ انسان اس کائنات میں ایک ایسی حکومت کا محکوم ہے جو محض اندھے طبعیاتی قوانین پر فرنروائی نہیں کر رہی ہے ، بلکہ اپنا ایک معقول اخلاقی قانون رکھتی ہے جس کے مطابق وہ اخلاق کی ایک خاص حد سے اوپر رہنے والوں کو جزا دیتی ہے ، اس سے نیچے اترنے والوں کو کچھ مدت تک ڈھیل دیتی رہتی ہے، اور جب وہ اس سے بہت زیادہ نیچے چلے جاتے ہیں تو پھر انہیں گرا کر ایسا پھینکتی ہے کہ وہ ایک داستان عبرت بن کر رہ جاتے ہیں ۔ ان واقعات کا ہمیشہ ایک ترتیب کے ساتھ رونما ہوتے رہنا اس امر میں شبہ کرنے کی ذرہ برابر گنجائش نہیں چھوڑتا کہ جزا اور مُکافات اس سلطنتِ کائنات کا ایک مستقل قانون ہے۔

پھر جو عذاب مختلف قوموں پر آئے ہیں اُن پر مزید غور کرنے سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ازروئے انصاف قانونِ جزا و مُکافات کے جو اخلاقی تقاضے ہیں وہ ایک حد تک تو ان عذابوں سے ضرور پورے ہوئے ہیں مگر بہت بڑی حد تک ابھی تشنہ ہیں۔ کیونکہ دنیا میں جو عذاب آیا اس نے صرف اُس نسل کو پکڑا جو عذاب کے وقت موجود تھی۔ وہیں وہ نسلیں جو شرارتوں کے بیج بو کر اور ظلم و بدکاری کی فصلیں تیار کر کے کٹائی سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں اور جن کے کرتوتوں کا خمیازہ بعد کی نسلوں کو بھگتنا پڑا، وہ تو گویا قانون مکافات کے عمل سے صاف ہی بچ نکلی ہیں۔ اب اگر ہم تاریخ کے مطالعہ سے سلطنت کائنات کے مزاج کو ٹھیک ٹھیک سمجھ چکے ہیں تو ہمارا یہ مطالعہ ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ عقل اور انصاف کی رو سے قانون مکافات کے جو اخلاقی تقاضے ابھی تشنہ ہیں ،ا ن کو پورا کرنے کے لیے یہ عادل سلطنت یقینًا پھر ایک دوسرا عالم برپا کرے گی اور وہاں تمام ظالموں کو ان کے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ بدلہ دنیا کے اِن عذابوں سے بھی زیادہ سخت ہو گا ۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰ و سورہ یونس، حاشیہ نمبر ۱۰)۔

106. یعنی یہ بے وقوف لوگ اپنی جگہ اس بھروسے میں ہیں کہ فلاں حضرت ہماری سفارش کر کے ہمیں بچالیں گے ، فلاں بزرگ اَڑ کر بیٹھ جائیں گے اور اپنے ایک ایک متوسل کو بخشوا ئے بغیر نہ مانیں گے ، فلاں صاحب جو اللہ میاں کے چہیتے ہیں جنت کے راستے میں مچل بیٹھیں گے اور اپنے دامن گرفتوں کی بخشش کا پروانہ لے کر ہی ٹلیں گے ۔ حالانکہ اَڑنا اور مچلنا کیسا، اُس پُر جلال عدالت میں تو کسی بڑے سے بڑے انسان اور کسی معزز سے معزز فرشتے کو بھی مجال دم زدن تک نہ ہو گی اور اگر کوئی کچھ کہہ بھی سکے گا تو اُس وقت جبکہ احکم الحاکمین خود اسے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیدے۔ پس جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے غیر اللہ کے آستانوں پر نذریں اور نیازیں چڑھا رہے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اور اُن کی سفارش کے بھروسے پر اپنے نامۂ اعمال سیاہ کیے جا رہے ہیں ، ان کو وہاں سخت مایوسی سے دوچار ہونا پڑے گا۔

107. ان الفاظ سے یا تو عالمِ آخرت کے زمین و آسمان مراد ہیں ، یا پھر محض محاورے کے طور پر ان کو دوام اور ہمیشگی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔ بہر حال موجودہ زمین و آسمان تو مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ قرآن کے بیان کی رو سے یہ قیامت کے روز بدل ڈالے جائیں گے اور یہاں جن واقعات کا ذکر ہو رہا ہے وہ قیامت کے بعد پیش آنے والے ہیں۔

108. یعنی کوئی اور طاقت تو ایسی ہے ہی نہیں جو ان لوگوں کو اس دائمی عذ اب سے بچا سکے ۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ خود ہی کسی کے انجام کو بدلنا چاہے یا کسی کو ہمیشگی کا عذاب دینے کے بجائے ایک مدت تک عذاب دے کر معاف کر دینے کا فیصلہ فرما ئے تو اسے ایسا کرنے کا پورا اختیار ہے، کیونکہ اپنے قانون کا وہ خود ہی واضع ہے، کوئی بالاتر قانون ایسا نہیں ہے جو اس کے اختیارات کو محدود کر تا ہو۔

109. یعنی ان کا جنت میں ٹھیرنا بھی کسی ایسے بالاتر قانون پر مبنی نہیں ہے جس نے اللہ کو ایسا کرنے پر مجبور کر رکھا ہو۔ بلکہ یہ سراسر اللہ کی عنایت ہوگی کہ وہ ان کو وہاں رکھے گا۔ اگر وہ ان کی قسمت بھی بدلنا چاہے تو اسے بدلنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔

110. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعی ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں تھے، بلکہ دراصل یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے عامۃ الناس کو سنائی جا رہی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مرد معقول کو اس شک میں نہ رہنا چاہیے کہ یہ لوگ جو ان معبودوں کی پرستش کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے میں لگے ہوئے ہیں تو آخر کچھ تو انہوں نے دیکھا ہو گا جس کی وجہ سے یہ ان سے نفع کی امیدیں رکھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ پرستش اور نذریں اور نیازیں اور دعائیں کسی علم، کسی تجربے اور کسی حقیقی مشاہدے کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ یہ سب کچھ نری اندھی تقلید کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ آخر یہی آستانے پچھلی قوموں کے ہاں بھی موجود تھے۔ اور ایسی ہی ان کی کرامتیں ان میں بھی مشہور تھیں۔ مگر جب خدا کا عذاب آیا تو وہ تباہ ہو گئیں اور یہ آستانے یونہی دھرے کے دھرے رہ گئے۔