Tafheem ul Quran

Surah 110 An-Nasr, Ayat 1-3

اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰهِ وَالۡفَتۡحُۙ‏ ﴿110:1﴾ وَرَاَيۡتَ النَّاسَ يَدۡخُلُوۡنَ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ اَفۡوَاجًا ۙ‏ ﴿110:2﴾ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَاسۡتَغۡفِرۡهُ​ ؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا‏ ﴿110:3﴾

1 - جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے 1 2 - اور (اے نبیؐ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں 2 3 - تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، 3 اور اُس سے مغفرت کی دُعا مانگو، 4 بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ؏۱


Notes

1. فتح سے مراد کسی ایک معرکے میں فتح نہیں، بلکہ وہ فیصلہ کن فتح ہے جس کے بعد ملک میں کوئی طاقت اسلام سے ٹکّر لینے کے قابل باقی نہ رہے اور یہ امر واضح ہو جائے کہ اب عرب میں اِسی دین کو غالب ہو کر رہنا ہے۔ بعض مفسّرین نے اس سے مراد فتحِ مکّہ لی ہے۔ لیکن فتح مکّہ سن ۸ ھجری میں ہوئی ہے اور اِس سورہ کا نزول سن ۱۰ ھجری کے آخر میں ہوا ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہؓ بن عمر اور حضرت سَرّاء ؓ بنت نَبْہان کی اُن روایات سے معلوم ہوتا ہے جو ہم نے دیباچے میں نقل کی ہیں ۔ علاوہ بریں ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا یہ قول بھی اِس تفسیر کے خلاف پڑتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی سب سے آخری سورۃ ہے۔ کیونکہ اگر فتح سے مراد فتح مکّہ ہو تو پوری سورۂ توبہ اس کے بعد نازل ہوئی تھی، پھر یہ سورۃ آخری سورۃ کیسے ہو سکتی ہے۔ بلا شبہ فتح مکّہ اس لحاظ سے فیصلہ کن تھی کہ اس نے مشرکین عرب کی ہمّتیں پست کر دی تھیں ، مگر اُس کے بعد بھی اُن میں کافی دَم خَم باقی تھا۔ طائف اور حُنَین کے معرکے اس کے بعد ہی پیش آئے اور عرب پر اسلام کا غلبہ مکمّل ہونے میں تقریبًا دو سال صرف ہوئے۔

2. یعنی وہ زمانہ رُخصت ہو جائے جب ایک ایک دو دو کر کے لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے اور وہ وقت آجائے جب پورے پورے قبیلے ، اور بڑے بڑے علاقوں کے باشندے کسی جنگ اور کسی مزاحمت کے بغیر ازخود مسلمان ہونے لگیں۔ یہ کیفیت سن ۹ ہجری کے آغاز سے رونما ہونی شروع ہوئی جس کی وجہ سے اُس سال کو سالِ وُفود کہا جاتا ہے۔ عرب کے گوشے گوشے سے وفد پر وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور اسلام قبول کرکے آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ سن ۱۰ ہجری میں جب حضورؐ حَجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے اُس وقت پورا عرب اسلام کے زیرِ نگیں ہو چکا تھا اور ملک میں کوئی مشرک باقی نہ رہا تھا۔

3. حمد سے مراد اللہ تعالیٰ کی تعریف و ثنا کرنا بھی ہے اور اُس کا شکر ادا کرنا بھی۔ اور تسبیح سے مراد اللہ تعالیٰ کو ہر لحاظ سے پاک اور مُنَزَّہ قرار دینا ہے۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اپنے ربّ کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اُس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو ، اِس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اِس عظیم کامیابی کے متعلق تمہارے دل میں کبھی اِس خیال کا کوئی شائبہ تک نہ آئے کہ یہ تمہارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے ، بلکہ اِس کو سراسر اللہ کا فضل و کرم سمجھو، اِس پر اُس کا شکر ادا کرو ، اور قلب و زبان سے اِس امر کا اعتراف کرو کہ اس کامیابی کی ساری تعریف اللہ ہی کو پہنچتی ہے۔ اور تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس سے پاک اور مُنَزَّہ قرار دو کہ اُس کے کلمے کا بلند ہونا تمہاری کسی سعی و کوشش کا محتاج یا اُس پر منحصر تھا۔ اِس کے بر عکس تمہارا دل اس یقین سے لبریز رہے کہ تمہاری سعی و کوشش کی کامیابی اللہ کی تائید و نصرت پر منحصر تھی، وہ اپنے جس بندے سے چاہتا اپنا کام لے سکتا تھا اور یہ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے یہ خدمت تم سے لی اور تمہارے ہاتھوں اپنے دین کا بول بالا کرایا۔ اِس کے علاوہ تسبیح، یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے ۔ جب کوئی مُحِیّر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں نہ تھا کہ ایسا کرشمہ اُس سے صادر ہو سکتا۔

4. یعنی اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اُس نے تمہارے سپرد کی تھی اُس کو انجام دینے میں تم سے جو بھول چوک یا کوتاہی بھی ہوئی ہو اُس سے چشم پوشی اور درگزر فرمائے۔ یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے ۔ کسی انسان سے اللہ کے دین کی خواہ کیسی ہی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو ، اُس کی راہ میں خواہ کتنی ہی قربانیاں اُس نے انجام دی ہوں اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانے میں خواکتنی ہی جانفشانیاں اس نے کی ہوں، اُس کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ آنا چاہیے کہ میرے اوپر میرے ربّ کا جو حق تھا وہ میں نےپورا کا پورا ادا کر دیا ہے ، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کر سکا ، اور اسے اللہ سے یہی دعا مانگنی چاہیے کہ اُس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی بھی مجھ سے ہوئی ہو اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمالے۔ یہ ادب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا گیا جن سے بڑھ کر خدا کی راہ میں سعی و جہد کرنے والے کسی انسان کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ، تو دوسرے کسی کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو کوئی بڑا عمل سمجھے اور اِس غَرّے میں مبتلا ہو کہ اللہ کا جو حق اُس پر تھا وہ اُس نے ادا کر دیا ہے۔ اللہ کا حق اِس سے بہت بالا و برتر ہے کہ کوئی مخلوق اُسے ادا کر سکے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی کسی عبادت و ریاضت اور کسی خدمت ِ دین کو بڑی چیز نہ سمجھیں، بلکہ اپنی جان راہِ خدا میں کھپا دینے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہیں کہ ” حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“۔ اسی طرح جب کبھی انہیں کوئی فتح نصیب ہو ، اُسے اپنے کسی کمال کا نہیں بلکہ اللہ کے فضل ہی کا نتیجہ سمجھیں اور اس پر فخر و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے ربّ کے سامنے عاجزی کے ساتھ سر جھکا کر حمد و تسبیح اور توبہ و استغفار کریں۔