1. اس حکم کے اوّلین مُخاطَب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کیونکہ آپ ہی سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ کا رب کون اور کیسا ہے، اور آپ ہی کو حکم دیا گیا ہے کہ اس سوال کے جواب میں آپ یہ کہیں ۔ لیکن حضورؐ کے بعد ہر مومن اِس کا مخاطَب ہے ۔ اُسے بھی وہی بات کہنی چاہیے جس کے کہنے کا حکم حضورؐ کو دیا گیا تھا۔
2. یعنی میرے جس رب سے تم تعارُف حاصل کرنا چاہتے ہو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ ہے۔ یہ اُن سوال کرنے والوں کی بات کا پہلا جواب ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی نیا ربّ لے کر نہیں آگیا ہوں جس کی عبادت ، دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر، میں تم سے کروانا چاہتا ہوں، بلکہ وہ ہستی ہے جس کو تم اللہ کے نام سے جانتے ہو۔ ” اللہ“ عربوں کے لیے کوئی اجنبی لفظ نہ تھا۔ قدیم ترین زمانے سے وہ خالقِ کائنات کے لیے یہی لفظ استعمال کر رہے تھے اور اپنے دوسرے معبودوں میں سے کسی پر بھی اِس کا اِطلاق نہیں کرتے تھے۔ دوسرے معبودوں کے لیے اُن کے ہاں اِلٰہ کا لفظ رائج تھا۔ پھر اللہ کے بارے میں اُن کے جو عقائد تھے اُن کا اظہار اُس موقع پر خوب کھُل کر ہو گیا تھا جب اَبْرھہ نے مکہ پر چڑھائی کی تھی۔ اُس وقت خانہ ٔ کعبہ میں ۳۶۰ اِلہٰوں کے بت موجود تھے، مگر مشرکین نے اُن سب کو چھوڑ کر صرف اللہ سے دعائیں مانگی تھیں کہ وہ اِس بلا سے اُن کو بچائے۔ گویا وہ اپنے دلوں میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی اِلہٰ اِس نازک وقت میں اُن کی مدد نہیں کر سکتا۔ کعبے کو بھی وہ اُن اِلہٰوں کی نسبت سے بیتُ الْآ لِہَہ نہیں، بلکہ اللہ کی نسبت سے بیتُ اللہ کہتے تھے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مشرکین عرب کا عقیدہ کیا تھا۔ مثال کے طور پر:
سُورۂ زُخْرُف میں ہے: ”اگر تم اِن سے پوچھو کہ اِنہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے “(آیت ۸۷)۔
سُورۂ عَنْکَبُوت میں ہے: ”اگر تم اِن سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مُسخّر کر رکھا ہے ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم اِن سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اُس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اٹھایا ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے“(آیات ۶۱ تا ۶۳)۔
سورۂ مومنون میں ہے: ”اِن سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اِس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی۔۔۔۔۔۔ اِن سے پوچھو ساتوں آسمان اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ اِن سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اُس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور جواب دیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے“ (آیات ۸۴ تا ۸۹)۔
سورۂ یونس میں ہے: ”اِن سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں (جو تمہیں حاصل ہیں ) کس کے اختیار میں ہیں؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون اِس نظمِ عالَم کی تدبیر کر رہا ہے؟ یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ“(آیت ۳۱)۔
اِسی سورۂ یونس میں ایک اور جگہ ہے: ”جب تم لوگ کشتیوں پر سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھِر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اُس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اِس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے۔ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کر نے لگتے ہیں“(آیات ۲۲ و ۲۳)۔
یہی بات سورۂ بنی اسرائیل میں یوں دُہرائی گئی ہے: ”جب سمندر میں تم پرمصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گُم ہو جاتے ہیں، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تُم اُس سے مُنہ موڑ جاتے ہو “ (آیت ۶۷)۔
اِن آیات کو نگا ہ میں رکھ کر دیکھیے کہ جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ تمہارا رب کون ہے اور کیسا ہے جس کی بندگی و عبادت کی طرف تم ہمیں بُلاتے ہو ، تو انہیں جواب دیا گیا ھُوَ اللہُ ، وہ اللہ ہے۔ اِس جواب سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ جسے تم خود اپنا اور ساری کائنات کا خالق، مالک، رازق اور مدبّر و منتظم مانتے ہو، اور سخت وقت آنے پر جسے دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر مدد کے لیے پکارتے ہو ، وہی میرا ربّ ہے اور اسی کی بندگی کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں۔ اِس جواب میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ِ کمالیہ آپ سے آپ آجاتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ بات سرے سے قابلِ تصوّر ہی نہیں ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا، اُس کا انتظام اور اُس کے معاملات کی تدبیر کرنے والا، اُس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کو رزق دینے والا، اور مصیبت کے وقت اپنے بندوں کی مدد کرنے والا ، زندہ نہ ہو، سنتا اور دیکھتا نہ ہو، قادرِ مطلق نہ ہو، علیم اور حکیم نہ ہو، رحیم اور کریم نہ ہو، اور سب پر غالب نہ ہو۔
3. نحوی قواعد کی رُو سے ھُوَ اللہُ اَحَدٌ کی متعدد ترکیبیں بیان کی ہیں، مگر ہمارے نزدیک اُن میں سے جو ترکیب اِس مقام کے ساتھ پوری مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ھُوَ مُبْتَدا ہے، اَللہُ اس کی خبر ہے، اور اَحَد ٌاس کی دوسری خبر۔ اِس ترکیب کے لحاظ سے اِس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ”وہ (جس کے بارے میں تم لوگ سوال کر رہے ہو) اللہ ہے، یَکتا ہے۔“ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ، اور زبان کے لحاظ سے غلط نہیں ہے کہ ”وہ اللہ ایک ہے۔“
یہاں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اِس جملہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے لفظِ اَحَد جس طرح استعمال کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں اِس لفظ کا غیر معمولی استعمال ہے۔ معمولاً یہ لفظ یا تو مُضاف یا مُضاف اِلَیہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جیسے یَوُمُ الْاَحَد، ہفتے کا پہلا دن، اور فَا بْعَثُوْٓ ا اَحَدَکُمْ،” اپنے کسی آدمی کو بھیجو۔“ یا نَفْیِ عام کے لیے استعمال ہوتا ہے ، جیسے مَا جَآءَ نِیْٓ اَحَدٌ ” میرے پاس کوئی نہیں آیا۔“ یا عمومیت کا پہلو لیے ہوئے سوالیہ فقرے میں بولا جاتا ہے، جیسے ھَلْ عندک اَحَدٌ؟ ” کیا تمہارے پاس کوئی ہے؟“ یا اِسی عمومیت کے پہلو سے شرطیہ جملہ میں بولا جاتا ہے، جیسے اِنْ جَاءک احدٌ ،” اگر تمہارے پاس کوئی آئے۔“ یا گِنتی میں بولا جاتا ہے ، جیسے اَحَدَ ، اِثنانِ، اَحَدَ عَشر، ایک ، دو ، گیارہ۔ اِن استعمالات کے سوا نزولِ قرآن سے پہلے کی عربی زبان میں اِس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ محض لفظ اَحَد و صف کے طور پر کسی شخص یا چیز کے لیے بو لا گیا ہو، اور نزول قرآن کے بعد یہ لفظ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال کیا گیا ہے، دوسرے کسی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ اس غیر معمولی طرزِ بیان سے خود بخود یہ ظاہر ہوتاہے کہ یَکتا و یَگانہ ہونا اللہ کی خاص صفت ہے، موجودات میں سے کوئی دوسرا اِس صفت سے مُتَصِف نہیں ہے۔ وہ ایک ہے، کوئی اُس کا ثانی نہیں۔
پھر جو سوالات مشرکین اور اہلِ کتاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے ربّ کے بارے میں کیے تھے اُن کو نگاہ میں رکھتے ہوئے دیکھیے کہ ھُوَ اللہُ کہنے کے بعد اَحَدٌ کہہ کر اُن کا جواب کس طرح دیا گیا ہے:
اَوّلًا، اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہی اکیلا ربّ ہے ، کسی دوسرے کا ربُوبیت میں کوئی حصّہ نہیں ہے، اور چونکہ اِلٰہ (معبود) وہی ہو سکتا ہے جو ربّ (مالک و پروردگار) ہو ، اِس لیے اُلوہیت میں بھی کوئی اُس کا شریک نہیں۔
ثانیاً ، اِس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہی تنہا کائنات کا خالق ہے، تخلیق کے اِس کام میں کوئی اور اُس کا شریک نہیں ہے۔ وہی اکیلا مالک الملک ہے، نظامِ عالَم کا مدبّر و منتظم ہے، اپنی مخلوقات کا رزق رساں ہے، اور آڑے وقت میں مدد کرنے والا فریاد رس ہے۔ خدائی کے اِن کاموں میں ، جن کو تم خود مانتے ہو کہ یہ اللہ کے کام ہیں ، کسی دوسرے کا قطعًا کوئی حصّہ نہیں ہے۔
ثالثًا ، چونکہ اُنہوں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟ اُس کا نسب کیا ہے؟ وہ کس جِنس سے ہے؟ کس سے اُس نے دنیا کی میراث پائی ہے؟ اور اُس کے بعد کون اُس کا وارث ہو گا؟ اس لیے اُن کے اِن سارے سوالات کا جواب بھی اللہ تعالیٰ کے لیے صرف ایک لفظِ اَحَد بول کر دے دیا گیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ (۱) وہی ایک خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اُس سے پہلے کوئی خدا تھا، نہ اس کے بعد کوئی خدا ہو گا۔ (۲) خداؤں کی کوئی جنس نہیں ہے جس کا وہ فرد ہو، بلکہ وہ اکیلا خدا ہے اور کوئی اُس کا ہم جنس نہیں۔(۳) اُس کی ذات محض واحد نہیں بلکہ اَحَد ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کثرت کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ وہ اجزاء سے مُرکَّب وجود نہیں ہے جو قابلِ تجزیہ و تقسیم ہو، جو کوئی شکل اور صورت ر کھتا ہو، جو کسی جگہ رہتا ہو یا کوئی چیز اس کے اندر جگہ پاتی ہو، جس کا کوئی رنگ ہو، جس کے کچھ اعضا ہوں ، جس کی کوئی سمت اور جہت ہو، اور جس کے اندر کسی قسم کا تغیُّر و تبدُّل ہوتا ہو۔ تمام اقسام کی کثرتوں سے بالکل پاک اور مُنَزَّہ وہ ایک ہی ذات ہے جو ہر لحاظ سے اَحَد ہے۔ (اِس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عربی زبان میں ”واحد“ کا لفظ بالکل اُسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح ہم اردو میں ” ایک“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ بڑی سے بڑی کثرتوں پر مشتمل کسی مجموعہ کو بھی اس کی مجموعی حیثیت کے لحاظ سے واحد یا ایک کہا جاتا ہے، جیسے ایک آدمی، ایک قوم، ایک ملک، ایک دُنیا، حتّٰی کہ ایک کائنات۔ اور کسی مجموعہ کے ہر جُز کو الگ الگ بھی ایک ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اَحَد کا لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ اِسی لیے قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اِلٰہ ِ واحد، ایک ہی معبود، یا اَللہُ الْوَ احِدُ الْقَھَّارُ، اکیلا اللہ جو سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا ہے، کہا گیا ہے، محض واحد کہیں نہیں کہا گیا، کیونکہ یہ لفظ اُن چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اپنی ذات میں طرح طرح کی کثرتیں رکھتی ہیں۔ بخلاف اِس کے اللہ کے لیے اور صرف اللہ ہی کے لیے اَحَد کا لفظ مطلقًا استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ و جود میں صرف وہی ایک ہستی ایسی ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کوئی کثرت نہیں ہے، جس کی وَحدانیت ہر لحاظ سے کامل ہے)۔
. اصل میں لفظ صَمَد استعمال کیا گیا ہے جس کا مادّہ ص، م ، د ہے۔ عربی زبان میں اِس مادّے سے جو الفاظ نکلے ہیں اُن پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے معانی کی وسعت کس قدر ہے:
1. اَلصَّمْدُ۔ قصد کرنا، بلند مقام جو بڑی ضخامت رکھتا ہو، سطح مُر تَفَع ، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو، وہ سردار جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو۔
2. اَلصَّمَدُ۔ ہر چیز کا بلند حصّہ ، وہ شخص جس سے بالاتر کوئی دوسرا شخص نہ ہو، وہ سردار جس کی اطاعت کی جاتی ہو اور اُس کے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کیا جاتا ہو، وہ سردار جس کی طرف حاجتمند لوگ رجوع کرتے ہوں، دائم، بلند مرتبہ، ٹھوس جس میں کوئی خول یا جھول نہ ہو اور جس سے نہ کوئی چیز نکلتی ہو نہ اس میں داخل ہو سکتی ہو، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو۔
3. اَلمُصْمَدُ۔ ٹھوس چیز جس کا کوئی جَوف نہ ہو۔
4. المُصَمَّدُ۔ مقصود جس کی طرف جانے کا قصد کیا جائے، سخت چیز جس میں کوئی کمزوری نہ ہو۔
5. بَیْتٌ مُّصَمَّدٌ ۔ وہ گھر جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو۔
6. بِنَآ ءٌ مُّصْمَدٌ ۔ بلند عمارت۔
7. صَمَدَہٗ وَصَمَدَ اِلَیْہِ صَمْدًا۔اُس شخص کی طرف جانے کا قصد کیا۔
8. اَصْمَدَ اِلَیْہِ الْاَمْرَ ۔اُس کے سپرد معاملہ کر دیا، اُس کے آگے معاملہ پیش کر دیا، اُس کے اوپر معاملہ میں اعتماد کیا۔
(صِحاح، قامُوس، لِسان العرب)۔
اِن لُغوی معنوں کی بنا پر آیت اَللہُ الصَّمَدُ میں لفظ اَصَّمَد کی جو تفسیر صحابہ و تابعین اور بعدکے اہلِ علم سے منقو ل ہیں اُنہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں:
1. حضرت علیؓ، عِکْرِمَہ اور کَعْب ِ اَحْبار: ”صَمَد وہ ہے جس سے بالاتر کوئی نہ ہو۔“
2. حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور ابو وائل شَقِیق بن سَلَمَہ: ”وہ سردار جس کی سیادت کامل ہو اور انتہا کو پہنچی ہوئی ہو۔“
3. ابن عباسؓ کا دوسرا قول: ”صَمَد وہ ہے جس کی طرف لوگ کسی بلا یا مصیبت کے نازل ہونے پر مدد کے لیے رجوع کریں۔“ اُن کا ایک اور قول : ”وہ سردار جو اپنی سیادت میں، اپنے شرف میں، اپنی عظمت میں ، اپنے حلم اور بردباری میں، اپنے علم میں اور اپنی حکمت میں کامل ہو۔“
4. حضرت ابو ہریرہؓ: ”وہ جو سب سے بے نیاز ہو اور سب اُس کے محتاج ہوں۔“
5. عِکْرِمَہ کے دوسرا اقوال: ”وہ جس میں سے نہ کوئی چیز کبھی نکلی ہو نہ نکلتی ہو۔“، ”جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو۔“ اِسی کے ہم معنی اقوال شَعبی اور محمد بن کَعْب القُرَظی سے بھی منقول ہیں۔
6. سُدِّی: ”مطلوب چیزیں حاصل کرنے کے لیے لوگ جس کا قصد کریں اور مصائب میں مدد کے لیے جس کی طرف رجوع کریں۔“
7. سعید بن جُبَیر: ”وہ جو اپنی تمام صفات اور اعمال میں کامل ہو۔“
8. ربیع بن اَنَس: ”وہ جس پر کوئی آفت نہ آتی ہو۔“
9. مُقاتل بن حَیّان: ”وہ جو بے عیب ہو۔“
10. ابن کَیْسان: ”وہ جس کی صفت سے کوئی دوسرا مُتّصِف نہ ہو۔“
11. حسن بصری اور قَتادہ: ”جو باقی رہنے والا اور لازوال ہو۔“ اِسی سے ملتے جلتے اقوال مجاہد اور مَعْمَر اور مُرَّۃ الہَمدانی سے بھی منقول ہیں۔“
12. مُرّۃ الہمدانی کا ایک اور قول یہ ہے کہ: ”وہ جو اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے فیصلہ کرے اور جو کام چاہے کرے، اس کے حکم اور فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا کوئی نہ ہو۔“
13. ابراہیم نَخَعی: ”وہ جس کی طرف لوگ اپنی حاجتوں کے لیے رجوع کریں۔“
14. ابو بکر الاَنْباری: ” اہلِ لغت کے درمیان اِس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صَمَد اُس سردار کو کہتے ہیں جس سے بالاتر کوئی اور سردار نہ ہو، اور جس کی طرف لوگ اپنی حاجات اور اپنے معاملات میں رجوع کریں۔“ اِسی کے قریب الزَّ جّاج کا قول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”صَمَد وہ ہے جس پر سرداری ختم ہو گئی ہو اور ہر ایک اپنی حاجات کے لیے جس کی طرف رجوع کرے۔“
اَب غور کیجیے کے پہلے فقرے میں اَللہُ اَحَدٌ کیوں کہا گیا، اور اِ س فقرے میں اَللہ ُ الصَّمَدُ کہنے کی کیا وجہ ہے۔ لفظ اَحَدٌ کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے ، کسی اور کے لیے سرے سے مستعمل ہی نہیں ہے، اس لیے اُسے اَحَدٌ ، یعنی نکرہ کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن صَمَد کا لفظ چونکہ مخلوقات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس لیے اَللہُ صَمَدٌ کہنے کے بجائے اَللہُ صَمَدُکہا گیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ اصلی اور حقیقی صَمَد اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مخلوق اگر کسی حیثیت سے صمد ہو بھی تو کسی دوسری حیثیت سے وہ صمد نہیں ہے ، کیونکہ وہ فانی ہے، لازوال نہیں ہے، قابلِ تجزیہ و تقسیم ہے، مرکّب ہے، کسی وقت اُس کے اجزا بِکھر سکتے ہیں، بعض مخلوقات اُس کی محتاج ہیں تو بعض کا وہ خود محتاج ہے، اُس کی سیادت اضافی ہے نہ کہ مطلق، کسی کے مقابلے میں وہ برتر ہے تو اس کے مقابلے میں کوئی اور برتر ہے، بعض مخلوقات کی بعض حاجات کو وہ پورا کرسکتا ہے مگر سب کی تمام حاجات کو پورا کرنا کسی مخلوق کے بس میں نہیں ہے۔ بخلاف اِس کے اللہ تعالیٰ کی صَمَدیّت ہر حیثیت سے کامل ہے۔ ساری دنیا اُس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ دنیا کی ہر چیز اپنے وجود و بقا اور اپنی حاجات و ضروریات کے لیے شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اُسی کی طرف رجوع کرتی ہے اور سب کی تمام حاجات پوری کرنے والا وہی ہے۔ وہ غیر فانی اور لازوال ہے۔ رزق دیتا ہے ، لیتا نہیں ہے۔ مُفرد ہے، مرکّب نہیں ہے کہ قابل تجزیہ و تقسیم ہو۔ ساری کائنات پر اس کی سیادت قائم ہے اور وہ سب سے برتر ہے۔ اس لیے وہ محض صَمَد نہیں ہے بلکہ الصَّمَد ہے، یعنی ایک ہی ایسی ہستی جو حقیقت میں صَمَدیّت سے بتمام و کمال مُتَّصِف ہے۔
5. ”مشرکین نے ہر زمانہ میں خدائی کا یہ تصور اختیار کیا ہے کہ انسانوں کی طرح خداؤں کی بھی کوئی جنس ہے جس کے بہت سے افراد ہیں ، اور اُن میں شادی بیا ہ اور توالُد و تَناسُل کا سلسلہ چلتا ہے۔ اِس جاہلانہ تصوُّر سے انہوں نے اللہ رب العالمین کو بھی پاک اور بالاتر نہیں سمجھا اور اُس کے لیے بھی اولاد تجویز کی۔ چنانچہ اہلِ عرب کا یہ عقیدہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ انبیاء علیہم السلام کی امتیں بھی اس جہالت سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ اُن کے ہاں بھی کسی بزرگ انسان کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینے کا عقیدہ پیدا ہو گیا۔ ان مختلف توہُّمات میں دو قسم کے تصورات ہمیشہ خَلْط مَلْط ہوتے رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جن کو وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رہے ہیں وہ اُس ذات ِ پاک کی نَسبی اولاد ہے۔ اور بعض نے یہ دعویٰ کیا کہ جس کو وہ اللہ کا بیٹا کہہ رہے ہیں اُسے اللہ نے اپنا مُتَبنّٰی بنایا ہے۔ اگرچہ اُن میں سے کسی کی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ معاذ اللہ کسی کو اللہ کا باپ قرار دیں ، لیکن ظاہر ہے کہ جب کسی ہستی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ توالُد و تَناسُل سے پاک نہیں ہے ، اور اُس کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ بھی انسان کی طرح اُس قسم کی کوئی ہستی ہے جس کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے ، اور جس کو لا ولد ہونے کی صورت میں کسی کو بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے، تو پھر انسانی ذہن اِس گمان سے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ اُسے بھی کسی کی اولاد سمجھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو سوالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے گئے تھے اُن میں ایک سوال یہ تھا کہ اللہ کا نسب کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کس سے اُن نے دنیا کی میراث پائی ہے اور کون اُس کے بعد وارث ہو گا؟
اِن جاہلانہ مفروضات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ منطقی طور اِن کو فرض کر لینے سے کچھ اور چیزوں کو بھی فرض کرنا لازِم آتا ہے:
اول یہ کہ خدا ایک نہ ہو، بلکہ خداؤں کی کوئی جنس ہو، اور اس کے افراد خدائی کے اوصاف، افعال اور اختیارات میں شریک ہوں۔ یہ بات خدا کی صرف نَسبی اولاد فرض کر لینے ہی سے لازم نہیں آتی، بلکہ کسی کو مُتَبنّٰی فرض کرنے سے بھی لازم آتی ہے ، کیونکہ کسی کا متَبنّٰی لا محالہ اُس کا ہم جنس ہی ہو ہو سکتا ہے ، اور جب معاذاللہ وہ خدا کا ہم جنس ہے تو اِس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خدائی کے اوصاف بھی رکھتا ہے۔
دوم یہ کہ اولاد کا کوئی تصور اِس کے بغیر نہیں کیا جا سکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادّہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر بچے کی شکل اختیار کرے۔ پس اللہ کے لیے اولاد فرض کر نے سے لازم آتا ہے کہ معاذ اللہ وہ ایک مادّی اور جسمانی وجود ہو، اُس کی ہم جنس کوئی اُس کی بیوی بھی ہو، اور اُس کے جسم سے کوئی مادّہ بھی خارج ہو۔
سوم یہ کہ تَوالُد و تناسُل کا سلسلہ جہاں بھی ہے اُس کی علّت یہ ہے کہ افراد فانی ہوتے ہیں اور اُن کی جنس کے باقی رہنے کے لیے ناگزیر ہوتا ہے کہ اُن سے اولاد پیدا ہو جس سے اُن کی نسل آگے چلے۔ پس اللہ کے لیے اولاد فرض کر نے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ بذاتِ خود معاذ اللہ فانی ہو اور باقی رہنے والی چیز خداؤں کی نسل ہو نہ کہ ذاتِ خدا۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ تمام فانی افراد کی طرح نعوذ باللہ خدا کی بھی ابتدا اور انتہا ہو۔ کیونکہ توالُدوتناسُل پر جن اجناس کی بقاء کا انحصار ہوتا ہے اُن کے افراد نہ اَزَلی ہوتے ہیں نہ اَبَدی۔
چہارم یہ کہ کسی کو متَبنّٰی بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک لاولد شخص اپنی زندگی میں کسی مددگار کا ، اور اپنی وفات کے بعد کسی وارث کا حاجت مند ہوتا ہے ۔لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لیے یہ فرض کرنا کہ اس نے کسی کو بیٹا بنایا ہے، اُس ذاتِ پاک کی طرف لازماًوہی سب کمزوریاں منسوب کرتا ہے جو فانی اشخاص میں پائی جاتی ہیں۔
اِن تمام مفروضات کی جڑ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو اَحَد اور اَلصَّمَد کہنے سے ہی کٹ جاتی ہے ، لیکن اُس کے بعد یہ ارشاد فرمانے سے کہ ”نہ اُس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد“، اِس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔ پھر چونکہ ذاتِ باری کے حق میں یہ تصور ات شرک کے اہم ترین اسباب میں سے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف سورۂ اخلاص ہی میں اُن کی صاف صاف اور قطعی و حتمی تردید کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ، بلکہ جگہ جگہ اس مضمون کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے تا کہ لوگ حقیقت کو پوری طرح سمجھ لیں۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں:
اِنَّمَا اللہُ اِلٰہٌ، سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ ،م لَہٗ مَا فِیْ السَّمٰوٰاتِ وَمَا فِیْ الاَرْضِ (النساء ۔ ۱۷۱)
”اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے ۔ وہ پاک ہے اِس سے کہ کوئی اُس کا بیٹا ہو ۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، سب اُس کی مِلک ہے۔“
اَلَآ اِنَّہُمْ مِنْ اِفْکِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ وَلَدَ اللہُ وَاِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ (الصٰفٰت، ۱۵۲-۱۵۱)
”خوب سُن رکھو، یہ لوگ دراصل اپنی من گھڑت سے یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے۔ فی الواقع یہ قطعی جھوٹے ہیں۔“
وَجَعَلُوْ ا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجِنَّۃّ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّھُمْ لَمُحْضَرُوْنَ۔ (الصّٰفٰت۔ ۱۵۸)
” اِنہوں نے اللہ اور فرشتوں کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے ، حالانکہ فرشتے خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ (مجرموں کی حیثیت سے) پیش کیے جانے والے ہیں۔“
وَجَعَلُوْا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءً، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌ مُّبِیْنٌ۔ ( الزُّخْرُف۔ ۱۵)
”لوگوں نے اُس کے بندوں میں سے بعض کو اُس کا جُز بنا ڈالا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے۔“
وَجَعَلُوْ ا لِلّٰہِ شُرَکَآ ءَ الّجِنِّ وَخَلَقَھُمْ وَخَرَ قُوْا لَہٗ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلیٰ عَمَّا یَصِفُوْنَ، بَدِیْعُ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ، اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَکُنْ لَہٗ صَا حِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شِیْءٍ۔ (الانعام۔ ۱۰۱-۱۰۰)
”اور لوگوں نے جنّوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیا ، حالانکہ وہ اُن کا خالق ہے۔ اور اُنہوں نے بے جانے بوجھے اُس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیں، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے اُن باتوں سے جو وہ کہتے ہیں۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اُس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کوئی اُس کی شریکِ زندگی ہی نہیں ہے۔ اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔“
وَقَا لُوا ا تَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عَبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ۔ (الانبیآء ۔ ۲۶)
”اور اِن لوگوں نے کہا کہ خدائے رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۔ پاک ہے وہ ۔ بلکہ (جن کو یہ اُس کی اولاد کہتے ہیں) وہ تو بندے ہیں جنہیں عزّت دی گئی ہے۔“
وَقَا لُوا ا تَّخَذَ اللہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ، ھُوَ الْغَنِیُّ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ اِنْ عِنْدَ کُمْ مِنْ سُلْطٰنٍ بِھٰذَا۔ اَتَقُوْلُوْنَ عَلیَ اللہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ ۔ (الانبیآء ۔ ۲۶)
”لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے، سبحان اللہ ! وہ تو بے نیاز ہے۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے سب اُس کی مِلک ہے ۔ تمہارے پاس اِس قول کی آخر دلیل کیا ہے؟ کیا تم اللہ کے بارے میں وہ باتیں کہتے ہو جنہیں تم نہیں جانتے؟“
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ ۔ (بنی اسرائیل۔ ۱۱۱)
”اور (اے نبی) کہو، تعریف ہے اُس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے، اور نہ و ہ عاجز ہے کہ کوئی اُس کا پُشتیبان ہو۔“
مَا ا تَّخَذَ اللہُ مِن وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ ۔ (المؤمنون۔۹۱)
”اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ، اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے۔“
اِن آیات میں ہر پہلو سے اُن لوگوں کے عقیدے کی تردید کی گئی ہے جو اللہ کے لیے نَسبی اولاد یا متبنّٰی بنائی ہوئی اولاد تجویز کرتے ہیں، اور اُس کے غلط ہونے کے دلائل بھی بیان کر دیے گئے ہیں ۔ یہ اور اِسی مضمون کی دوسری بہت سی آیات جو قرآن مجید میں ہیں، سورۂ اخلاص کی بہترین تفسیر کرتی ہیں۔
6. اصل میں لفظ ِ کُفُو استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں نظیر، مُشابِہ، مُماثِل، ہم رتبہ، مُساوِی۔ نکاح کے معاملہ میں کُفو کا لفظ ہماری زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی معاشرتی حیثیت سے برابر کا جوڑہوں۔ پس اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات میں کوئی نہیں ہے ، نہ کبھی تھا، نہ کبھی ہو سکتا ہے، جو اللہ کے مانند، یا اُس کا ہم مرتبہ ہو ، یا جو اپنی صفات ، افعال اور اختیارات میں اُس سے کسی درجہ میں بھی مشابہت رکھتا ہو۔