Tafheem ul Quran

Surah 113 Al-Falaq, Ayat 1-5

قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِۙ‏ ﴿113:1﴾ مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَۙ‏ ﴿113:2﴾ وَمِنۡ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ‏ ﴿113:3﴾ وَمِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِى الۡعُقَدِۙ‏ ﴿113:4﴾ وَمِنۡ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ‏ ﴿113:5﴾

1 - کہو، 1 میں پناہ مانگتا ہوں 2 صبح کے ربّ 3 کی ، 2 - ہر اُس چیز کے شر سے جو اُس نے پیدا کی ہے، 4 3 - اور رات کی تاریکی کے شر سے جب کہ وہ چھا جائے، 5 4 - اور گِرہوں میں پُھونکنے والوں (یا والیوں)کے شر سے، 6 5 - اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے۔ 7 ؏۱


Notes

1. چونکہ قُل (کہو) کا لفظ اُس پیغام کا ایک حصہ ہے جو تبلیغِ رسالت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے، اس لیے اگر چہ اِس ارشاد کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، مگر آپ کے بعد ہر مومن بھی اِس کا مخاطب ہے۔

2. پناہ مانگنے کے فعل میں لازماً تین اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ ایک بجائے خود پناہ مانگنا۔ دوسرے پناہ مانگنے والا۔ تیسرا وہ جس کی پناہ مانگی جائے۔ پناہ مانگنے سے مراد کسی چیز سے خوف محسوس کرکے اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے کسی دوسرے کی حفاظت میں جانا، یا اس کی آڑ لینا، یا اُس سے لپٹ جانا یا اُس کے سایہ میں چلاجانا ہے۔ پناہ مانگنے والا بہر حال وہی شخص ہوتا ہے جو محسوس کرتا ہے کہ جس چیز سے وہ ڈر رہا ہے اس کا مقابلہ وہ خود نہیں کر سکے گا بلکہ وہ اس کا حاجت مند ہے کہ اُس سے بچنے کے لیے دوسرے کی پناہ لے۔ پھر جس کی پناہ مانگی جاتی ہے وہ لازماً کوئی ایسا ہی شخص یا وجود ہوتا ہے جس کے متعلق پناہ لینے والا یہ سمجھتا ہے کہ اُس خوفناک چیز سے وہی اس کو بچا سکتا ہے ۔ اب پناہ کی ایک قسم تو وہ ہے جو قوانین ِ طبعی کے مطابق عالمِ اسباب کے اندر کسی محسوس مادّی چیز یا شخص یا طاقت سے حاصل کی جاتی ہے۔ مثلاً دشمن کے حملہ سے بچنے کے لیے کسی قلعہ میں پناہ لینا، یا گولیوں کی بوچھاڑ سے بچنے کے لیے خندق یا کسی دمدمے یا کسی دیوار کی آڑ لینا، یا کسی طاقت ور ظالم سے بچنے کے لیے کسی انسان یا قوم یا حکومت کے پاس پناہ لینا، دھوپ سے بچنے کے لیے کسی درخت یا عمارت کے سایہ میں پناہ لینا۔ بخلاف اس کے دوسری قسم وہ ہے جس میں ہر طرح کے خطرات اور ہر طرح کی مادّی، اخلاقی یارو حانی مضرتوں اور نقصان رساں چیزوں سے کسی فوق الفطر ی ہستی کی پناہ اِس عقیدے کی بنا پر مانگی جاتی ہے کہ وہ ہستی عالم اسباب پر حکمراں ہے اور بالا تر از حِس و ادراک طریقے سے وہ اس شخص کی ضرور حفاظت کر سکتی ہے جو اس کی پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ پناہ کی یہ دوسری قسم کی نہ صرف سورہ فلق اور سورہ ناس میں مراد ہے ۔ بلکہ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی اللہ تعالی ٰ کی پناہ مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد یہی خاص قسم کی پناہ ہے ۔ اور عقیدہ توحید کا لازمہ یہ ہے کہ اس نوعیت کا تعوذ یا استعاذہ(پناہ مانگنا) اللہ کے سوا کسی اور سے نہ کیا جائے۔ مشرکین اس نوعیت کا تحفظ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں ، مثلاً جنوں یا دیویوں اور دیوتاؤں سے مانگتے تھے اور آج بھی مانگتے ہیں۔ مادہ پرست لوگ اس کے لیے بھی مادی ذرائع ووسائل ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، کیونکہ فوق الفطری طاقت کے قائل نہیں ہیں ۔ مگر مومن ایسی تمام آفات و بلیآت کے مقابلہ میں ، جن کو دفع کرنے پر وہ خود اپنے آپ کو قادر نہیں سمجھتا ، صرف اللہ کی طرف رجوع کرتا اور اسی کی پناہ مانگتا ہے۔ مثال کے طور پر مشرکین کے متعلق قرآن میں بیان کیا گیا ہے : وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْ ذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ، ”اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے“(الجن۔۶)۔ اور اس کی تشریح کرتے ہوئے ہم سورہ جن حاشیہ ۷ میں حضرت عبدا للہ بن عباس کی یہ روایت نقل کر چکے ہیں کہ مشرکین عرب کو جب رات کسی سنسان وادی میں گزارنی پڑتی تو وہ پکار کر کہتے ”ہم اس وادی کے رب کی (یعنی اس جن کی جو اس وادی کا حکمران ہے یا اس وادی کا مالک ہے) پناہ مانگتے ہیں“۔ بخلاف اس کے فرعون کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی پیش کردہ عظیم نشانیوں کو دیکھ کر فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ،”وہ اپنی بل بوتے پر اکڑ گیا“(الذاریات،۳۹)۔ لیکن خدا پرستوں کا رویہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا بھی وہ خوف محسوس کیا کرتے ہیں، خواہ مادی ہو یا اخلاقی یا روحانی اس کے شر سے بچنے کے لیے وہ خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت مریم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ جب اچانک تنہائی میں خدا کا فرشتہ ایک مرد کی شکل میں ان کے سامنے آیا(جبکہ وہ نہ جانتی تھیں کہ یہ فرشتہ ہے)تو انہوں نے کہا اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیّاً، ”اگر تو خدا سے ڈرنے والا آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں“( مریم ۔۱۸)۔حضرت نوح نے جب اللہ تعالی ٰ سے ایک بےجا دعا کی اور جواب اللہ کی طرف سے ان پر ڈانٹ پڑی تو انہوں نے فوراً عرض کیا رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلُکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ،”میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے ایسی چیز کی درخواست کروں جس کا مجھے علم نہیں “(ہود۔۴۷)۔ حضرت موسیٰ نے جب بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب میں فرمایا اَعُوْذُ بِا للہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ،”میں خدا کی پناہ مانگا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں“(البقرہ ۔۶۷)۔

یہی شان اُن تمام تَعَوُّذات کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتب حدیث میں منقول ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حضورؐ کی حسب ذیل دعاؤں کو ملاحظہ کیجیے:

عن عائشہ ان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم کان یقول فی دعآ ئہ الّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ اَعْمَلْ (مسلم)

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ ”خدا یا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اُن کاموں کے شر سے جو میں نے کیے اور ان کاموں کے شر سے جو میں نے نہیں کیے“(یعنی اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کے برے نتیجے سے پناہ مانگتا ہوں، اور اگر کوئی کام جو کرنا چاہیے تھا میں نے نہیں کیا تواُس کے نقصان سے بھی پناہ مانگتا ہوں، یا اِس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ جو کام نہ کرنا چاہیے وہ میں کبھی کر گزروں)۔

عن ابن عمر ؓ کان من دعآءِ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اَلّٰھُمَّ اِنّیْٓ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَا لِ نِعْمَتِکَ، وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ، وَفَجْأَۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سَخَطِکَ۔ (مسلم)

ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ”خدا یا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ تیری جو نعمت مجھے حاصل ہے وہ چھن جائے ، اور تجھ سے جو عافیت مجھے نصیب ہے وہ نصیب نہ رہے، اور تیرا غضب یکایک ٹوٹ پڑے ، اور پناہ مانگتا ہوں تیری ہر طرح کی ناراضی سے “۔

عن زید بن ارقم کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الّٰھُمَّ اِ نِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عِلْمٍ لَّا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَّا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃ ٍلَّا یَسْتَجَابُ( مسلم)

زید بن ارقم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے”خدا یا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اُس علم سے جو نافع نہ ہوں اس دل سے جو تیرا خوف نہ کرے، اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے“۔

عن ابی ھریرۃ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُوْعِ فَاِنَّہٗ بِئْسَ الضَّجِیْعُ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخِیَا نُۃِ فَاِنَّہٗ بِئْسَتِ الْبِطَا نَۃُ (ابو داؤد)

حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے”خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کیونکہ وہ بد ترین چیز ہے جس کے ساتھ کوئی رات گزارے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ وہ بڑی بد باطنی ہے۔

عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبَرَ صِ وَ الْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَسِّیِٔ الْاَسْقَامِ (ابو داؤد)

حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے”خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں کوڑھ اور جنون اور جُذام اور تمام بری بیماریوں سے“۔

عن عائشہ ان النّبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یدعو بھٰؤ لاء الکلمات اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النَّار ِ وَمِنْ شَرِّ الْغِنٰی وَالْفَقِرْ (ترمذی و ابو داؤد)

حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ ان کلمات کے ساتھ دعا مانگا کرتےتھے: ”خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے فتنے سے اور مالداری اور مفلسی کے شر سے“۔

عن قُطبۃ بن مالک کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ مُّنْکَرَاتِ الْاَخْلَا قِ و َالْا عْمَالِ وَ الْا َھْوَاءِ (ترمذی)

قطبہ بن مالک کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔”خدایا، میں برے اخلاق اور برے اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔

شَکَل بن حُمید نے حضورؐ سے عرض کیا مجھے کوئی دعا بتا ئیے۔ فرمایا کہو:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ سَمْعِیْ ، وَمِنْ شَرِّ بَصَرِیْ ، وَمِنْ شِرِّ لِسَانِیْ، وِمِنْ شَرِّ قَلْبِیْ، وَمِنْ شَرِّ مَنِیِّیْ۔ (ترمذی و ابو داؤد)

خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنی سماعت کے شر سے، اور اپنی بصارت کے شر سے ، اور اپنی زبان کے شر سے ، اور اپنے دل کے شر سے ، اور اپنی شہوت کے شر سے۔

عن انس بن مالک کان رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجِزْ وَ الْکَسَلِ وَ الْجُبْنِ وَ الْھَدَمِ وَالْبُخْلِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَاوَالْمَمَا تِ (وفی روایۃ لمسلم) وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ (بخاری و مسلم)

انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے”خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سُستی اور بزدلی اور بُڑھاپے اور بخل سے، اور تیر ی پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب اور زندگی و موت کے فتنے سے ( اور مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے) اور قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ پر غالب ہوں“۔

عن خَوْلَۃ بنت حُکَیْم السُّلَمِیَّۃ سمعتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول مَنْ نَّزَلَ مَنْزِ لاً ثُمَّ قَالَ اَعُوْ ذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ یَضُرُّہٗ شَیْٔ حَتّٰی یَرْ تَحِلَ مِنْ ذٰلِکَ الْمَنْزِلِ (مسلم)

خَوْلَہ بنت حُکَیم سُلَمِیّہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی نئی منزل پر اترے اور یہ الفاظ کہے کہ ” میں اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ مانگتا ہوں مخلوقات کے شر سے ، تو اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ اس منزل سے کوچ کر جائے۔

یہ حضور ؐ کے چند تَعوُّذات بطور نمونہ ہم نے احادیث سے نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا کام ہر خطرے اور شر سے خدا کی پناہ مانگنا ہے نہ کہ کسی اور کی پناہ ، اور نہ اس کا یہ کام ہے کہ خدا سے بے نیاز ہو کر وہ اپنے آپ پر بھروسہ کرے۔

3. اصل میں لفظ رَبُّ الْفَلَق“ استعمال ہوا ہے۔فلق کے اصل معنی پھاڑ نے کے ہیں۔ مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سے مراد رات کی تاریکی کو پھاڑ کر سپیدہ صبح نکالنا لیا ہے کیونکہ عربی زبان میں فَلَقُ الصبح کا لفظ طلوعِ صبح کے معنی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے، اور قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے فَالِقُ الْا ِ صْباح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی ”وہ جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح نکالتا ہے“(الانعام۔۹۶)۔ فَلَق کے دوسرے معنی خَلْق بھی لیے گئے ہیں، کیونکہ دنیا میں جتنی چیزیں بھی پیدا ہوتی ہیں وہ کسی نہ کسی چیز کو پھاڑ کر نکلتی ہیں۔ تمام نباتات بیج اور زمین کو پھاڑ کر اپنی کونپل نکالتے ہیں ۔ تمام حیوانات یا تو رحم مادر سے بر آمد ہوتے ہیں، یا تو انڈا توڑ کر نکلتے ہیں، یا کسی اور مانع ظہور چیز کو چیر کو باہر آتے ہیں تمام چشمے پہاڑ یا زمین کو شق کر کے نکلتے ہیں۔ دن رات کا پردہ چاک کرکے نمودار ہوتا ہے۔ بارش کے قطرے بادلوں کو چیر کر زمین کا رخ کرتے ہیں۔ غرض موجودات میں سے ہر چیز کسی نہ کسی طرح کے انشقاق کے نتیجے میں عدم سے وجود میں آتی ہے ، حتٰی کہ زمین اور سارے آسمان بھی پہلے ایک ڈھیر تھے جس کو پھاڑ کر انہیں جدا جدا کیا گیا ، کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا (الانبیاء۔۳۰)۔ پس اس معنی کے لحاظ سے فلق کا لفظ تمام مخلوقات کے لیے عام ہے ۔ اب اگر پہلے معنی لیے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ میں طلوع صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو مطلب ہو گا میں تما م خلق کے رب کے پناہ لیتا ہوں۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا اسم ذات چھوڑ کر اس کا اسم صفت”رب“اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ پناہ مانگنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ”رب “، یعنی مالک و پروردگار اور آقا دمربی ہونے کی صفت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ پھر رَبُّ الْفَلَقْ سے مراد اگر طلوع صبح کا رب ہوتو اس کی پناہ لینے کے معنی یہ ہونگے کہ جو رب تاریکی کو چھانٹ کر صبح روشن نکالتا ہے میں اس کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ آفات کے ہجوم کو چھانٹ کر میرے لیے عافیت پیدا کردے ، اور اگر اس سے مراد رَبِّ خَلْق ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ میں ساری خلق کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تا کہ وہ اپنی مخلوق کے شرسے مجھے بچائے۔

4. بالفاظ دیگر تمام مخلوقات کے شر سے میں اُس کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس فقرے میں چند باتیں قابل غور ہیں: اول یہ کہ شر کو پیدا کرنے کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی گئی ، بلکہ مخلوقات کی پیدائش کی نسبت اللہ کی طرف اور شر کی نسبت مخلوقات کی طرف کی گئی ہے۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اُن شرُور سے پناہ مانگتا ہوں جو اللہ نے پیدا کیے ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ اُن چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو اُس نے پیدا کی ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو شر کے لیے پیدا نہیں کیا ہے۔ بلکہ اُس کا ہر کام خیر اور کسی مصلحت ہی کے لیے ہوتا ہے ، البتہ مخلوقات کے اندر جو اوصاف اُس نے اس لیے پیدا کیے ہیں کہ اُن کی تخلیق کی مصلحت پوری ہو، ان سے بعض اوقات اور بعض اقسام کی مخلوقات سے اکثر شر رونما ہوتا ہے۔

دوم یہ کہ اگر صرف اسی ایک فقرے پر اکتفا کیا جاتا اور بعد کے فقروں میں خاص خاص قسم کی مخلوقات کی شُرور سے الگ الگ خدا کی پناہ مانگنے کا نہ بھی ذکر کیا جاتا تو یہ فقرہ مدعا پورا کرنےکے لیے کافی تھا، کیونکہ اس میں ساری مخلوقات کے شر سے خدا کی پناہ مانگ لی گئی ہے ۔ اس عام اِستعاذ ے کے بعد چند مخصوص شرور سے پناہ مانگنے کا ذکر خود بخود یہ معنی دیتا ہے کہ ویسے تو میں خدا کی پیدا کی ہوئی ہر مخلوق کے شر سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں، لیکن خاص طور پر وہ چند شرور جن کا ذکر سورہ فلق کی باقی آیات اور سورہ ناس میں کیا گیا ہے ، ایسے ہیں جن سے خدا کی امان پانے کا میں بہت محتاج ہوں۔

سوم یہ کہ مخلوقات کے شر سے پناہ حاصل کرنے کے لیے موزوں ترین“ اور مؤثر ترین استعاذہ اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ اُن کے خالق کی پناہ مانگی جائے ، کیونکہ وہ بہر حال اپنی مخلوق پر غالب ہے، اور ان کے ایسے شرور کو بھی جانتا ہے جنہیں ہم جانتے ہیں اور ایسے شرور سے بھی واقف ہے جنہیں ہم نہیں جانتے۔ لہٰذا اُس کی پناہ گویا اُس حاکم اعلیٰ کی پناہ ہے جس کے مقابلےکی طاقت کسی مخلوق میں نہیں ہے، اور اس کی پناہ مانگ کر ہم ہر مخلوق کے ہر شر سےاپنا بچاؤ کر سکتے ہیں ، خواہ وہ ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو ۔ نیز اس میں دنیا ہی کے نہیں آخرت کے بھی ہر شے سے استعاذہ شامل ہے۔

چہارم یہ کہ شر کا لفظ نقصان ، ضرر، تکلیف اور اَلَم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اور اُن اسباب کے لیے بھی جو نقصان و ضرر اور تکلیف والم کے موجب ہوتے ہیں۔ مثلاً بیماری ، بھوک، کسی حادثے یا جنگ میں زخمی ہونا، آگ سے جل جانا ، سانپ بچھو وغیرہ سے ڈسا جانا، اولاد کی موت کے غم میں مبتلا ہونا، اور ایسے ہی دوسرے شرور پہلے معنی میں شر ہیں، کونکہ یہ بجائے خود تکلیف اور اذیت ہیں۔ بخلاف اس کے مثال کے طور پر کفر، شرک ، اور ہر قسم کے گناہ اور ظلم دوسرے معنی میں شر ہیں کیونکہ ان کا انجام نقصان اور ضرر ہے اگرچہ بظاہر ان سے فی الوقت کوئی تکلیف نہ پہنچتی ہو، بلکہ بعض گناہوں سے لذت ملتی یا نفع حاصل ہوتا ہو۔ پس شر سے پناہ مانگنا اِن دونوں مفہومات کا جامع ہے۔

پنجم یہ کہ شر سے پناہ مانگنے میں دو مفہوم اور بھی شامل ہیں۔ ایک یہ کہ جو شر واقع ہو چکا ہے، بندہ اپنے خدا سے دعا مانگ رہا ہے کہ وہ اسے دفع کر دے۔ دوسرے یہ کہ جو شر واقع نہیں ہوا ہے، بندہ یہ دعا مانگ رہا ہے کہ خدا مجھے اُس شر سے محفوظ رکھے۔

5. مخلوقات کے شر سے عموماً خدا کی پناہ مانگنے کے بعد اب بعض خاص مخلوقات کے شر سے خصوصیت کے ساتھ پناہ مانگنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ آی میں غَاسِق اِذَا وَقَبَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ غاسق کے لغوی معنی تاریک کے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہوا ہے۔ اَقِمِ الصَّلوٰ ۃَ لِدُ لُوْکِ الشَّمْسِ اِلیٰ غَسَقِ الَّیْلِ”نماز قائم کرو زوالِ آفتاب کے وقت سے رات کے اندھیرے تک“(بنی اسرائیل۔۷۸)۔ اور وَقَب کے معنی داخل ہونے یا چھا جانے کے ہیں۔ رات کی تاریکی کے شر سے خاص طور پر اس لیے پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے کہ اکثر جرائم اور مظالم رات ہی کے وقت ہوتے ہیں۔ موذی جانور بھی رات ہی کو نکلنےہیں۔ اور عرب میں طوائف الملو کی کا جو حال اِ ن آیات کے نزول کے وقت تھا اس میں تورات بڑی خوفناک چیز تھی، اس کے اندھیرے میں چھاپہ مار نکلتے تھے اور بستیوں پر غارت گری کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے تھے وہ بھی رات ہی کے وقت آپ کے قتل کر دینے کی تجویز سوچا کرتے تھے تا کہ قاتل کا پتہ نہ چل سکے۔ اس لیے اُن تمام شرورو آفات سے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا جو رات کے وقت نازل ہوتی ہیں۔ یہاں اندھیری رات کے شر سے طلوعِ فجر کے رب کی پناہ مانگنے میں جو لطیف مناسبت ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔

اس آیت کی تفسیر میں ایک اِشکال یہ پیش آتا ہے کہ متعدد صحیح احادیث میں حضرت عائشہ ؓ کی یہ روایت آئی ہے کہ رات کو چاند نکلا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر اُس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اللہ کی پناہ مانگو، ھٰذا الغاسق اذا وقب، یعنی یہ الغاسق اذا وقب ہے (احمد ، ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن المُنذر، حاکم، ابن مردویہ)۔ اِس کی تاویل میں بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اِذَا وَقَبَ کا مطلب یہاں اِذَا خَسَفَ ہے ، یعنی جبکہ وہ گہنا جائے یا چاند گرہن اس کو ڈھانک لے۔ لیکن کسی روایت میں بھی یہ نہیں آیا ہے کہ جس وقت حضورؐ نے چاند کی طرف اشارہ کر کے یہ بات فرمائی تھی اُس وقت وہ گرہن میں تھا۔ اور لغتِ عرب میں بھی اِذَاوَقَبَ کے معنی اِذَا خَسَفَ کسی طرح نہیں ہو سکتے ۔ ہمارے نزدیک اِ س حدیث کی صحیح تاویل یہ ہے کہ چاند نکلنے کا وقت چونکہ رات ہی کو ہوتا ہے ، دن کو اگر چاند آسمان پر ہوتا بھی ہے تو روشن نہیں ہوتا ، اس لیے حضورؐ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس کے (یعنی چاند کے) آنے کے وقت یعنی رات سے خدا کی پناہ مانگو، کیونکہ چاند کی روشنی مدافعت کرنے والے کے لیے اُتنی مدد گار نہیں ہوتی جتنی حملہ کرنے والے کے لیے ہوتی ہے ، اور جرم کا شکار ہونے والے کے لیے اُتنی مددگار نہیں ہوتی جتنی مجرم کے لیے ہوا کرتی ہے ۔ اسی بنا پر حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اِنَّ الشَّمْسَ اِذَا غَرَ بَتْ انتشرت الشیاطین، فالَفتو اصبیانکم و احبسو امواشیکم حتی تذھب فحمۃ العشاء”جب سورج غروب ہو جائے تو شیاطین ہر طرف پھیل جاتے ہیں، لہٰذا اپنے بچوں کو گھروں میں سمیٹ لو اور اپنے جانوروں کو باندھ رکھو جب تک رات کی تاریکی ختم نہ ہو جائے“۔

6. اصل الفاظ ہیں نَفَّا ثَاتِ فِی الْعُقَدِ۔ عُقَد جمع ہے عُقْدہ کی جس کے معنی گرہ کے ہیں، جیسی مثلاً تا گے یا رسی میں ڈالی جاتی ہے ۔ نَفْث کے معنی پھونکنے کے ہیں۔ نَفَّا ثَات جمع ہے نَفَّا ثَہ کی جس کو اگر علامہ کی طرح سمجھا جائے تو مراد بہت پھونکنے والے مرد ہوں گے ، اور اگر مؤنث کا صیغہ سمجھا جائے تو مراد بہت پھونکنے والی عورتیں بھی ہو سکتی ہیں، اور نفوس یا جماعتیں بھی، کیونکہ عربی میں نفس اور جماعت دونوں مؤنث ہیں۔ گرہ میں پھونکنے کا لفظ اکثر، بلکہ تمام تر مفسرین کے نزدیک جادو کے لیے استعارہ ہے، کیونکہ جادوگر عموماً کسی ڈور یا تاگے میں گرہ دیتے اور اس پر پھونکتے جاتے ہیں۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں طلوعِ فجر کے رب کی پناہ مانگتا ہوں جادوگر یا جادوگرنیوں کے شر سے۔ اِ س مفہوم کی تائید وہ روایات بھی کرتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب جادو ہوا تھا تو جبریل علیہ السلام نے آکر حضورؐ کو معوِّذتین پڑھنے کی ہدایت کی تھی، اور معوِّذتین میں یہی ایک فقرہ ہے جو براہِ راست جادو سے تعلق رکھتا ہے۔ ابو مسلم اصفہانی اور زمخْشَری نے نَفَّاثات فی العقد کا ایک اور مفہوم بھی بیان کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد عورتوں کی مکاری، اور مردوں کے عزائم اور آراء اور خیالات پر اُن کی اثر اندازی ہے اور اس کو جادو گری سے تشبیہ دی گئی ہے ، کیونکہ عورتوں کی محبت میں مبتلا ہو کر آدمی کا وہ حال ہو جاتا ہے گویا اُس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ یہ تفسیر اگرچہ پرلطف ہے ، لیکن اُس تفسیر کے خلاف ہے جو سلف سے مسّلم چلی آتی ہے ۔ اور اُن حالات سے بھی یہ مطابقت نہیں رکھتی جن میں معوِّ ذتین نازل ہوئی ہیں جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر چکے ہیں۔

جادو کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ اس میں چونکہ دوسرے شخص پر بُرا اثر ڈالنے کے لیے شیاطین یا ارواحِ خبیثہ یا ستاروں کی مدد مانگی جاتی ہے اس لیے قرآن میں اسے کفر کہا گیا ہے : وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْر،”سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ شیاطین نے کفر کیا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے“(البقرہ۔۱۰۲)۔ لیکن اگر اُس میں کوئی کلمہ کفر یا کوئی فعلِ شرک نہ بھی ہو تو وہ بالاتفاق حرا م ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سات ایسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کی آخرت کو برباد کردینے والے ہیں۔ بِخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ کی ر وایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا سات غارت گر چیزوں سے پر ہیز کرو۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا خدا کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، جادو، کسی ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جہاد میں دشمن کے مقابلہ سے پیٹھ پھیر کا بھاگ نکلنا، اور بھولی بھالی عَفیف مومن عورتوں پر زنا کی تُہمت لگانا۔

7. حسد کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اللہ نے جو نعمت یا فضیلت یا خوبی عطا کی ہو اس پر کوئی دوسرا شخص جلے اور یہ چاہے کہ وہ اُس سے سلب ہو کر حاسد کو مل جائے یا کم از کم یہ کہ اُس سے ضرور چِھن جائے۔ البتہ حسد کی تعریف میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی شخص یہ چاہے کہ جو فضل دوسرے کو ملا ہے وہ مجھے بھی مل جائے، یہاں حاسد کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ اُس حالت میں مانگی گئی ہے جب کہ وہ حسد کرے ، یعنی اپنے دل کی آگ بجھانے کے لیے قول یا عمل سے کوئی اقدام کرے۔ کیونکہ جب تک وہ کوئی اقدام نہیں کرتا اُس وقت تک اُس کا جلنا بجائے خود چاہے بُراسہی، مگر محسود کے لیے ایسا شر نہیں بنتا کہ اس سے پناہ مانگی جائے۔ پھر جب ایسا شر کسی حاسد سے ظاہر ہو تو اُس سے بچنے کے لیے اولین تدبیر یہ ہے کہ اللہ کی پناہ مانگی جائے۔ اس کے ساتھ حاسد کے شر سے امان پانے کے لیے چند چیزیں اور بھی مددگار ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان اللہ پر بھروسہ کرے اور یقین رکھے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسرے یہ کہ حاسد کی باتو ں پر صبر کرے ، بے صبر ہو کر ایسی باتیں یا کاروائیاں نہ کرنے لگے جن سے وہ خود بھی اخلاقی طور پر حاسد ہی کی سطح پر آجائے۔تیسرے یہ کہ حاسد خواہ خدا سے بے خوف اور خلق سے بے شرم ہو کر کیسی ہی بیہودہ حرکتیں کرتا رہے ، محسود بہر حال تقویٰ پر قائم رہے ۔ چوتھے یہ کہ اپنے دل کو اُس کی فکر سے بالکل فارغ کر لے اور اُس کو اِس طرح نظر انداز کر دے کہ گویا وہ ہے ہی نہیں۔ کیونکہ اُس کی فکر میں پڑنا حاسد سے مغلوب ہونے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ پانچویں یہ کہ حاسد کے ساتھ بدی سے پیش آنا تو درکنار، جب کبھی ایسا موقع آئے کہ محسود اس کے ساتھ بھلائی اور احسان کا برتاؤ کر سکتا ہو تو ضرور ایسا ہی کرے، قطع نظر اِس سے کہ حاسد کے دل کی جلن محسود کے اِس نیک رویّہ سے مٹتی ہے یا نہیں۔ چھٹے یہ کہ محسود توحید کے عقیدے کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس پر ثابت قدم رہے، کیونکہ جس دل میں توحید بسی ہو ئی ہو اس میں خدا کے خوف کے ساتھ کسی اور کا خوف جگہ ہی نہیں پاسکتا۔