1. یہاں بھی سورہ فلق کی طرح اعوذ باللہ کہنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کو اس کی تین صفات سے یاد کر کے اس کی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ ایک اُس کا ربُّ الناس، یعنی تمام انسانوں کا پرودگار و مربّی اور مالک اور آقا ہونا۔ دوسرے اُس کا ملکُ الناس ، یعنی تمام انسانوں کا بادشاہ اور حاکم و فرمانروا ہونا۔ تیسرے ، اُس کا اِلٰہُ الناس،یعنی انسانوں کا حقیقی معبود ہونا۔ (یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اِلٰہ کا لفظ قرآن مجید میں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک وہ شے یا شخص جس کو عبادت کا کوئِی استحقاق نہ پہنچتا ہو مگر عملاً اس کی عبادت کی جا رہی ہو۔ دوسرا وہ جسے عبادت کا استحقاق پہنچتا ہو اور جو حقیقت میں معبود ہو، خواہ لوگ اس کی عبادت کر رہے ہوں یا نہ کر رہے ہوں۔ اللہ کے لیے جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اسی دوسرے معنی میں ہوا ہے)۔ اِن تین صفات سے استعاذہ کا مطلب یہ ہوا کہ میں اُس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو انسانوں کا رب، بادشاہ، اور معبود ہونے کی حیثیت سے اُن پر کامل اقتدار رکھتا ہے، جوا پنے بندوں کی حفاظت پر پوری طرح قادر ہے، اور جو واقعی اُس شر سے انسانوں کو بچا سکتا ہے جس سے خود بچنے اور دوسرے انسانوں کو بچانے کے لیے میں اُس کی پناہ مانگ رہا ہوں۔ یہی نہیں بلکہ چونکہ وہی رب اور بادشاہ اور اِلٰہ ہے ، اس لیے اُس کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں جس سے میں پناہ مانگوں اور جو حقیقت میں پناہ دے بھی سکتا ہو۔
2. اصل میں وَسْوَاسِ الْخَنَّاس کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ وَسْوَاس کے معنی ہیں بار بار وسوسہ ڈالنے والا۔ اور وَسْوَسے کے معنی ہیں پے در پے ایسے طریقے یا طریقوں سے کسی کے دل میں کوئی بری بات ڈالنا کہ جس کے دل میں وہ ڈالی جا رہی ہو اُسے یہ محسوس نہ ہو سکے کہ وسوسہ انداز اُس کے دل میں ایک بری بات ڈال رہا ہے ۔ وَسوسے کے لفظ میں خود تکر ار کا مفہوم شامل ہے ، جیسے زلزلہ میں حرکت کی تکرار کا مفہوم شامل ہے ۔ چونکہ انسان صرف ایک دفعہ بہکانے سے نہیں بہکتا بلکہ اسے بہکانے کی پے درپے کوشش کرنی ہوتی ہے، اس لیے ایسی کوشش کو وَسْوَسہ اور کوشش کرنے والے کو وَسْوَاس کہا جاتا ہے۔ رہا لفظ خَنَّاس ، تو یہ خُنوس سے ہے جس کے معنی ظاہر ہونے کے بعد چھپنے یا آنے کےبعد پیچھے ہٹ جانے کے ہیں، اور خناس چونکہ مبالغہ کا صیغہ ہے اس لیے اس کے معنی یہ فعل بکثرت کرنے والے کے ہوئے۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ وسوسہ ڈالنے والے کو بار بار وسوسہ اندازی کے لیے آدمی کے پاس آنا پڑتا ہے ، اور ساتھ ساتھ جب اسے خَناس بھیِ کہا گیا تو دونوں الفاظ کے ملنے سے خود بخود یہ مفہوم پیدا ہوگا کہ وسوسہ ڈال ڈال کروہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور پھر پے در پے وسوسہ اندازی کے لیے پلٹ کر آتا ہے۔ بالفاظ دیگر ایک مرتبہ اس کی وسوسہ اندازی کی کوشش جب ناکام ہوتی ہے تو وہ چلا جاتا ہے، پھر وہی کوشش کرنے کے لیے دوبارہ، سہ بارہ اور بار بار آتا رہتا ہے۔
وسواس الخناس کا مطلب سمجھ لینے کے بعد اب اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے شر سے پناہ مانگنے کامطلب کیا ہے؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پناہ مانگنے والا خود اُس کے شرسے خدا کی پناہ مانگتا ہے، یعنی اِس شر سے کہ وہ کہیں اُس کے اپنے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈال دے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے خلاف جو شخص بھی لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا پھرے اُس کے شر سے داعیِ حق خدا کی پناہ مانگتا ہے۔ داعی الیٰ الحق کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ اُس کی ذات کے خلاف جن جن لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے جا رہے ہوں ان سب تک خود پہنچے اور ایک ایک شخص کی غلط فہمیوں کو صاف کرے۔ اُس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ اپنی دعوت الیٰ اللہ کا کام چھوڑ چھاڑ کر وسوسہ اندازوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کو صاف کرنے اور اُن کے الزامات کی جواب دہی کرنے میں لگ جائے۔ اُس کے مقام سے یہ بات بھی فروتر ہے کہ جس سطح پر اس کے مخالفین اُتر ے ہوئے ہیں اسی پر خو د بھی اتر آئے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دعوتِ حق دینے والے کو ہدایت فرمائی کہ ایسے اَشرار کے شر سے بس خدا کی پناہ مانگ لے اور پھر بے فکری کے ساتھ اپنی دعوت کے کام میں لگا رہے۔ اس کے بعد اُن سے نمٹنا تیرا کام نہیں بلکہ رب الناس، ملک الناس اور اِلٰہُ الناس کا کام ہے۔
اس مقام پر یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وسوسہ عملِ شر کا نقطہ آغاز ہے ۔ وہ جب ایک غافل یا خالی الذہن آدمی کے اندر اثر انداز ہو جاتا ہے تو پہلے اُس میں بُرائی کی خواہش پیدا ہوتی ہے ۔ پھر مزید وسوسہ اندازی اُس بُری خواہش بُری نیت کوبُرے ارادے میں تبدیل کر دیتی ہے ۔ پھر اس سے آگے جب وسوسے کی تاثیر بڑھتی ہے تو ارادہ عزم بن جاتا ہے اور آخری قدم پھر عملِ شر ہے۔ اس لیے وسوسہ انداز کے شر سے خدا کی پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ شر کاآغاز جس مقام سے ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اُسی مقام پر اس کا قلع قمع فرمادے۔
دوسرے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو وسوسہ اندازوں کے شر کی ترتیب یہ نظر آتی ہے کہ پہلے وہ کھلے کھلے کفر، شرک، دہریت، یا اللہ اور رسول سے بغاوت اور اللہ والوں کی عداوت پر اُکساتے ہیں۔ اس میں ناکامی ہو اور آدمی دینُ اللہ میں داخل ہی ہو جائے تو وہ اسے کسی نہ کسی بدعت کی راہ سجھا تے ہیں۔ یہ بھی نہ ہو سکے تو معصیت کی رغبت دلاتے ہیں ۔ اس میں بھی کامیابی نہ ہوسکے تو آدمی کے دل میں یہ خیال ڈالتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے گناہ کر لینے میں تو کوئی مضائقہ نہیں ، تاکہ یہی اگر کثرت سے صادر ہو جائیں تو گناہوں کا بار عظیم انسان پر لد جائے۔ اس سے بھی اگر آدمی بچ نکلے تو بدرجہ آخر وہ کوشش کرتے ہیں کہ آدمی دین حق کو بس اپنے آپ تک ہی محدود رکھے، اُسے غالب کرنے کی فکر نہ کرے، لیکن اگر کوئی شخص اِن تمام چالوں کو ناکام کر دے تو پھر شیاطین جن و انس کی پوری پارٹی ایسے آدمی پر پِل پڑتی ہے، اس کے خلاف لوگوں کو اکساتی اور بھڑ کاتی ہے ، اُس پر گالیوں اور الزامات کی بو چھاڑ کراتی ہے، اسے ہر طرف بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ پھر شیطان اُس مرد مومن کو آکر غصہ دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ بر داشت کر لینا تو بڑی بزدلی کی بات ہے، اُٹھ اور اِن حملہ آوروں سے بھڑ جا۔ یہ شیطان کا آخری حربہ ہے جس سے وہ دعوتِ حق کی راہ کھوٹی کرانے اور داعیِ حق کو راہ کے کانٹوں سے الجھا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے بھی اگر داعی حق بچ نکلے تو شیطان اُس کے آگے بے بس ہوجاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے وَاِمَّایَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذَ بِا للہِ، ”اور اگر شیطان کی طرف سے تمہیں کوئی اُکساہٹ محسوس ہوتو اللہ کی پناہ مانگو“(الاعراف۲۰۰۔حٰم السجدہ۔۳۶)۔ وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیْطٰنِ، ”کہو، میرے پروردگا ر میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں“(المومنون۔۹۷) اِنَّ الَّذِ یْنَ اتَّقَوْ ا اِذَا مَسَّھُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْ ا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ، ”جو لوگ پرہیز گارہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اُنہیں چھو بھی جائے تو وہ فوراً چونک جاتے ہیں۔ اور پھر انہیں (صحیح راستہ) صاف نظر آنے لگتا ہے“(الاعراف۔۲۰۱)۔ اور اسی بنا پر جو لوگ شیطان کے اس آخری حربے سے بچ نکلیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلّاَ ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ، ”یہ چیز بڑے نصیبے والے کےسوا کسی کوحاصل نہیں ہوتی“(حٰم السجدہ،۳۵)۔
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی نگاہ میں رہنی چاہیے ۔ وہ یہ کہ انسان کے دل میں وسوسہ اندازی صرف باہر سے شیا طین ِ جن و انس ہی نہیں کرتے بلکہ اندر سے خود انسان کا اپنا نفس بھی کرتا ہے ۔ اُس کے اپنے غلط نظریات اُس کی عقل کو گمراہ کرتے ہیں۔ اُس کی اپنی ناجائز اغراض و خواہشات اُس کی قوتِ تمیز اور قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ کو ، بد راہ کرتی ہیں۔ اور باہر کے شیاطین ہی نہیں، انسان کے اندر اس کے اپنے نفس کا شیطان بھی اس کو بہکا تا ہے ۔ یہی بات ہے جو قرآن میں ایک جگہ فرمائی گئی ہے کہ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ (ق۔۱۶)۔”اور ہم اُس کے اپنے نفس سے اُبھرنے والے وسوسوں کو جانتے ہیں“ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشہور خطبہ مسنونہ میں فرمایا ہے نعوذ با للہ من شر و رانفسنا ”ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اپنے نفس کی شرارتوں سے“۔
3. بعض اہل علم کے نزدیک اِن الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ وسوسہ ڈالنے والا دوقسم کے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، ایک جن، دوسرے انسان۔ اس بات کو اگر تسلیم کیا جائے تو لفظ ناس کا اطلاق جن اور انسان دونوں پر ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے، کیونکہ قرآن میں جب رِجَا لٌ ( مردوں ) کا لفظ جِنوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورہ جن آیت ۶ میں ہم دیکھتے ہین، اور جب نَفَر کا استعمال جِنوں کے گروہ پر ہو سکتا ہے، جیسا کہ سورہ احقاف آیت۲۹ میں ہوا ہے، تو مجازًا ناس کے لفظ میں بھی انسان اور جِن دونوں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ رائے اس لیے غلط ہے کہ ناس اور انس اور انسان کے الفاظ لغت ہی کے اعتبار سے لفظ جِن کی ضد ہیں۔ جِنّ کے اصل معنی پوشیدہ مخلوق ے ہیں اور جِن کوجِن اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی آنکھ سے مخفی ہے۔ اس کے بر عکس ناس او ر اِنس کے الفاظ انسان کے لییے بولے ہی اس بنا پر جاتے ہیں کہ وہ ظاہر اور مَرْئی اور محسوس ہے۔ سورہ قَصص ، آیت۲۹ میں ہے اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا۔ یہاں اَنَسَ کے معنی رَأَی ہیں، یعنی حضرت موسیٰ نے ”کوہ طور کے کنارے آگ دیکھی“۔سورہ نساء، آیت ۶ میں ہےفَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُم رُشْدًا،”اگر تم محسوس کرو کہ یتیم بچے اب ہوشمند ہوگئے ہیں“۔یہاں اٰنَسْتُم کے معنی اَحْسَنْتُمْ یَا رَاَیْتُمْ ہیں۔ پس ناس کا اطلاق لغتِ عرب کی رو سے جِنوں پر نہیں ہو سکتا، اور آیت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ ” اُس وسوسہ انداز کے شر سے جو انسانوں کے دلو ں میں وسوسے ڈالتا ہے، خواہ وہ جِنوں میں سے ہو یا خود انسانوں میں سے “۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وسوسہ اندازی کا کام شیاطینِ جِن بھی کرتے ہیں اور شیاطین اِنس بھی، اور دونوں کے شر سے پناہ مانگنے کی اس سورہ میں تلقین کی گئی ہے۔ اس معنی کی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے اور حدیث سے بھی۔قرآن میں فرمایا:
وَکَذٰالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّاشَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۔ (الانعام۔۱۱۲)
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان جِنوں اور شیطان انسانوں کو دشمن بنا دیا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے ہیں۔
اور حدیث میں امام احمد، نسائی اور ابن حِبّان حضرت ابو ذر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ فرمایا ابو ذر، تم نے نماز پڑھی؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ چنانچہ میں نے نماز پڑھی اور پھر آکر بیٹھ گیا۔ حضورؐ نے فرمایا یا اباذرّ، تَعَوَّذ با للہ من شِرّ شیاطین ِ الانس والجن،”اے ابو ذر، شیاطینِ اِنس اور شیاطین ِ جن کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو“۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟فرمایا ہاں۔