Tafheem ul Quran

Surah 12 Yusuf, Ayat 1-6

الٓرٰ​ تِلۡكَ اٰيٰتُ الۡكِتٰبِ الۡمُبِيۡن‏ ﴿12:1﴾ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ قُرۡءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿12:2﴾ نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَيۡكَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ ​ۖ وَاِنۡ كُنۡتَ مِنۡ قَبۡلِهٖ لَمِنَ الۡغٰفِلِيۡنَ‏ ﴿12:3﴾ اِذۡ قَالَ يُوۡسُفُ لِاَبِيۡهِ يٰۤاَبَتِ اِنِّىۡ رَاَيۡتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوۡكَبًا وَّالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ رَاَيۡتُهُمۡ لِىۡ سٰجِدِيۡنَ‏ ﴿12:4﴾ قَالَ يٰبُنَىَّ لَا تَقۡصُصۡ رُءۡيَاكَ عَلٰٓى اِخۡوَتِكَ فَيَكِيۡدُوۡا لَـكَ كَيۡدًا ؕ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿12:5﴾ وَكَذٰلِكَ يَجۡتَبِيۡكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنۡ تَاۡوِيۡلِ الۡاَحَادِيۡثِ وَيُتِمُّ نِعۡمَتَهٗ عَلَيۡكَ وَعَلٰٓى اٰلِ يَعۡقُوۡبَ كَمَاۤ اَتَمَّهَا عَلٰٓى اَبَوَيۡكَ مِنۡ قَبۡلُ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاِسۡحٰقَ​ ؕ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏  ﴿12:6﴾

1 - ا، ل، ر۔ یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدّعا صاف صاف بیان کرتی ہے۔ 2 - ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن1 بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم (اہلِ عرب)اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔2 3 - اے محمد ؐ ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کر تے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزوں سے)تم بالکل ہی بے خبر تھے۔3 4 - یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسف ؑ نے اپنے باپ سے کہا ”ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سُورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔“ 5 - جواب میں اس کے باپ نے کہا، ” بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سُنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے،4 حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کُھلا دشمن ہے، 6 - اور ایسا ہی ہو گا(جیسا تُو نے خواب میں دیکھا ہے کہ)تیرا ربّ تجھے ( اپنے کام کے لیے)منتخب کرے گا5 اور تجھے باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھائے گا6 اور تیرے اوپر اور آلِ یعقوب ؑ پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں ، ابراہیم ؑ اور اسحاق ؑ پر کر چکا ہے، یقیناً تیرا ربّ علیم اور حکیم ہے۔“7 ؏ ١


Notes

1. قرآن مصدر ہے قَرَأَ یَقرأ سے۔ اس کے اصل معنی میں”پڑھنا“۔ مصدر کو کسی چیز کے لیے جب نام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس شے کے اندر معنی مصدری بدرجہٴ کمال پایا جاتا ہے۔ مثلاً جب کسی شخص کو ہم بہادر کہنے کے بجائے ”بہادری“کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے اندر شجاعت ایسی کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ گویا وہ اور شجاعت ایک چیز ہیں۔ پس اس کتاب کا نام ”قرآن“(پڑھنا) رکھنے کا مطلب یہ ہُوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لیے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے۔

2. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کتاب مخصوص طور پر اہلِ عرب ہی کے لیے نازل کی گئی ہے۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدّعا یہ کہنا ہے کہ ”اے اہلِ عرب، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جارہی ہیں، تمہاری اپنی زبان میں ہیں، لہٰذا تم نہ تو یہ عذر پیش کرسکتے ہوکہ یہ باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور نہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو ہیں، جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں“۔

بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض پیش کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہلِ عرب کے لیے ہے، غیر اہلِ عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑدیا جاتا ہے۔ انسانوں کی عام ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہرحال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی، اور اس کے پیش کرنے والے کی کوشش یہی ہوگی کہ پہلے وہ اُس قوم کو اپنی تعلیم سے پوری طرح متاثر کرے جس کی زبان میں وہ اسے پیش کررہا ہے، پھر وہی قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچنے کا وسیلہ بنے۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا۔

3. سورہ کے دیباچے میں کرچکے ہیں کہ کفار مکہ میں سے بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا امتحان لینے کے لیے، بلکہ اپنے نزدیک آپ کا بھرم کھولنے کے لیے، غالباً یہودیوں کے اشارے پر، آپ کے سامنے اچانک یہ سوال پیش کیا تھا کہ بنی اسرائیل کے مصر پہنچنے کا کیا سبب ہُوا۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں تاریخ بنی اسرائیل کا یہ باب پیش کرنے سے پہلے تمہیداً یہ فقرہ ارشاد ہُوا ہے کہ اے محمد ؐ !تم ان واقعات سے بے خبر تھے، دراصل یہ ہم ہیں جو وحی کے ذریعہ سے تمہیں ان کی خبر دے رہے ہیں۔ بظاہر اس فقرے میں خطاب نبی ؐ سے ہے، لیکن اصل میں روئے سخن اُن مخالفین کی طرف ہے جن کو یقین نہ تھا کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے۔

4. اس سے مراد حضرت یوسف ؑ کے وہ دس بھائی ہیں جو دوسری ماوٴں سے تھے۔ حضرت یعقوب ؑ کو معلوم تھا کہ یہ سوتیلے بھائی یوسف ؑ سے حسد رکھتے ہیں اور اخلاق کے لحاظ سے بھی ایسے صالح نہیں ہیں کہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے کوئی ناروا کارروائی کرنے میں انہیں کوئی تاٴمل ہو، اس لیے انہوں نے اپنے صالح بیٹے کو متنبہ فرمادیا کہ ان سے ہوشیار رہنا۔ خواب کا صاف مطلب یہ تھا کہ سورج سے مراد حضرت یعقوب ؑ ، چاند سے مراد ان کی بیوی (حضرت یوسف ؑ کی سوتیلی والدہ)اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی ہیں۔

5. یعنی نبوّت عطا کرے گا۔

6. ”تَاوِیلُ الاَحَا دِیثِ“کا مطلب محض تعبیرِ خواب کا علم نہیں ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت تجھ کو عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملہ کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہ کو پالینے کے قابل ہوجائے گا۔

7. بائیبل اور تَلمود کا بیان قرآن کے اس بیان سے مختلف ہے۔ ان کا بیان یہ ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے خواب سُن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا، اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے سب بھائی تجھے سجدہ کریں گے۔ لیکن ذرا غور کرنے سے بآسانی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ حضرت یعقوب ؑ کی پیغمبرانہ سیرت سے قرآن کا بیان زیادہ مناسبت رکھتا ہے نہ کہ بائیبل اور تَلمود کا۔ حضرت یوسف ؑ نے خواب بیان کیا تھا، کوئی اپنی تمنّا اور خواہش نہیں بیان کی تھی خواب اگر سچّا تھا، اور ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے جو اس کی تعبیر نکالی وہ سچا خواب ہی سمجھ کر نکالی تھی، تو اس کے صاف معنی یہ تھے کہ یہ یوسف ؑ کی خواہش نہیں تھی بلکہ تقدیرِ الٰہی کا فیصلہ تھا کہ ایک وقت ان کو یہ عروج حاصل ہو۔ پھر کیا ایک پیغمبر تو درکنار ایک معقول آدمی کا بھی یہ کام ہوسکتا ہے کہ ایسی بات پر بُرا مانے اور خواب دیکھنے والے کو اُلٹی ڈانٹ پلائے؟ اور کیا کوئی شریف باپ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اپنے ہی بیٹے کے آئندہ عروج کی بشارت سن کر خوش ہونے کے بجائےاُلٹا جل بُھن جائے؟