Tafheem ul Quran

Surah 12 Yusuf, Ayat 105-111

وَكَاَيِّنۡ مِّنۡ اٰيَةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ يَمُرُّوۡنَ عَلَيۡهَا وَهُمۡ عَنۡهَا مُعۡرِضُوۡنَ‏ ﴿12:105﴾ وَمَا يُؤۡمِنُ اَكۡثَرُهُمۡ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمۡ مُّشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿12:106﴾ اَفَاَمِنُوۡۤا اَنۡ تَاۡتِيَهُمۡ غَاشِيَةٌ مِّنۡ عَذَابِ اللّٰهِ اَوۡ تَاۡتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغۡتَةً وَّ هُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿12:107﴾ قُلۡ هٰذِهٖ سَبِيۡلِىۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ ​ؔعَلٰى بَصِيۡرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِىۡ​ؕ وَسُبۡحٰنَ اللّٰهِ وَمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿12:108﴾ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِىۡۤ اِلَيۡهِمۡ مِّنۡ اَهۡلِ الۡقُرٰى​ؕ اَفَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَيَنۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡؕ وَلَدَارُ الۡاٰخِرَةِ خَيۡرٌ لِّـلَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا ​ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿12:109﴾ حَتّٰۤى اِذَا اسۡتَيۡـئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ قَدۡ كُذِبُوۡا جَآءَهُمۡ نَصۡرُنَا ۙ فَـنُجِّىَ مَنۡ نَّشَآءُ ​ؕ وَلَا يُرَدُّ بَاۡسُنَا عَنِ الۡقَوۡمِ الۡمُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿12:110﴾ لَـقَدۡ كَانَ فِىۡ قَصَصِهِمۡ عِبۡرَةٌ لِّاُولِى الۡاَلۡبَابِ​ؕ مَا كَانَ حَدِيۡثًا يُّفۡتَـرٰى وَلٰـكِنۡ تَصۡدِيۡقَ الَّذِىۡ بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَتَفۡصِيۡلَ كُلِّ شَىۡءٍ وَّهُدًى وَّرَحۡمَةً لِّـقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿12:111﴾

105 - زمین74 اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے ہیں اور ذرا توجّہ نہیں کرتے۔ 75 106 - ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔76 107 - کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آجائے گی؟77 108 - تم ان سے صاف کہہ دو کہ ”میرا رستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بُلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے78 اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔“ 109 - اے محمد ؐ ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے، اور اِنہی بستیوں کے رہنے والوں میں تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں۔ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام اِنہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقیناً آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اَور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر)تقوٰی کی روش اختیار کی۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟79 110 - (پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مُدّتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سُن کر نہ دیا)یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جُھوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آجاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جاسکتا۔ 111 - اگلے لوگوں کے ان قصّوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل80 اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔ ؏ ۱۲


Notes

74. اوپر کے گیارہ رکوعوں میں حضرت یوسفؑ کا قصہ ختم ہو گیا۔ اگر وحی الہٰی کا مقصد محض قصہ گوئی ہوتا تو اسی جگہ تقریر ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ مگر یہاں تو قصہ کسی مقصد کی خاطر کہا جاتا ہے اور اس مقصد کی تبلیغ کے لیے جو موقع بھی مل جائے اس سے فائدہ اٹھانے میں دریغ نہیں کیا جاتا ۔ ا ب چونکہ لوگوں نے خود نبی کو بلا یا تھا اور قصہ سننے کے لیے کان متوجہ تھے، اس لیے ان کے مطلب کی بات ختم کرتے ہی چند جملے اپنے مطلب کے بھی کہہ دیے گئے اور غایت درجہ اختصار کے ساتھ ان چند جملوں ہی میں نصیحت اور دعوت کا سارا مضمون سمیٹ دیا گیا۔

75. اس سے مقصد لوگوں کو ان کی غفلت پر متنبہ کر نا ہے۔ زمین اور آسمان کی ہر چیز بجائے خود محض ایک چیز ہی نہیں ہے بلکہ ایک نشانی بھی ہے جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔ جو لوگ ان چیزوں کو محض چیز ہونے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں و ہ انسان کا سا دیکھنا نہیں بلکہ جانوروں کا سا دیکھنا دیکھتے ہیں۔ درخت کو درخت ، اور پہاڑ کو پہاڑ اور پانی کو پانی تو جانور بھی دیکھتا ہے ، او ر اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے ہر جانور ان چیزوں کا مصرف بھی جانتا ہے۔ مگر جس مقصد کے لیے انسان کو حواس کے ساتھ سوچنے والا دماغ بھی دیا گیا ہے، وہ صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ آدمی ان چیزوں کو دیکھے اور ان کا مصرف اور استعمال معلوم کرے، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی حقیقت کی جستجو کرے اور ان نشانیوں کے ذریعہ سے اُس کا سراغ لگائے۔ اسی معاملہ میں اکثر انسان غفلت برت رہے ہیں اور یہی غفلت ہے جس نے ان کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے۔ اگر دلوں پر یہ قفل نہ چڑھالیا گیا ہوتا تو انبیاء کی بات سمجھنا اور ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانا لوگوں کے لیے اس قدر مشکل نہ ہو جاتا۔

76. یہ فطری نتیجہ ہے اُس غفلت کا جس کی طرف اوپر کے فقرے میں اشارہ کیا گیا ہے۔ جب لوگوں نے نشانِ راہ سے آنکھیں بند کیں تو سیدھے راستے سے ہٹ گئے اور اطراف کی جھاڑیوں میں پھنس کر رہ گئے۔ اس پر بھی کم انسان ایسے ہیں جو منزل کو بالکل ہی گم کر چکے ہوں اور جنھیں اِس بات سے قطعی انکار ہو کہ خدا ان کا خالق و رزاق ہے۔ بیشتر انسان جس گمراہی میں مبتلا ہیں وہ انکارِ خدا کی گمراہی نہیں بلکہ شرک کی گمراہی ہے۔ یعنی وہ یہ نہیں کہتے کہ خدا نہیں ہے، بلکہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ خدا کی ذات اور اس کی صفات ، اختیارات اور حقوق میں دوسرے بھی کسی نہ کسی طرح شریک ہیں۔ یہ غلط فہمی ہر گز نہ پیدا ہوتی اگر زمین و آسمان کی اُن نشانیوں کو نگاہِ عبرت سے دیکھا جاتا جو ہر جگہ اور ہر آن خدائی کی وحدت کا پتہ دے رہی ہے۔

77. اس سے مقصود لوگوں کو چونکا نا ہے کہ فرصتِ زندگی کو دراز سمجھ کر اور حال کے امن کو دائم خیال کر کے فکر مآل کو کسی آنے والے وقت پر نہ ٹالو۔ کسی انسان کے پاس بھی اس امر کے لیے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کی مہلتِ حیات فلاں وقت تک یقینًا باقی رہے گی۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب اچانک اس کی گرفتاری ہو جاتی ہے اور کہاں سے کس حال میں وہ پکڑ بلایا جاتا ہے ۔ تمہارا شب و روز کا تجربہ ہے کہ پردۂ مستقبل ایک لمحہ پہلے بھی خبر نہیں دیتا کہ اس کے اندر تمہارے لیے کیا چھپا ہوا ہے۔ لہٰذا کچھ فکر کرنی ہے تو ابھی کر لو۔ زندگی کی جس راہ پر چلے جا رہے ہو اس میں آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ٹھیر کر سوچ لو کہ یہ راستہ ٹھیک ہے ؟ اِس کے درست ہو نے کے لیے واقعی حجت موجود ہے؟ اِس کے راہِ راست ہونے کی کوئی دلیل آثارِ کائنات سے مل رہی ہے؟ اس پر چلنے کے جو نتائج تمہارے ابنائے نوع پہلے دیکھ چکے ہیں اور جو نتائج اب تمہارے تمدّن میں رونما ہو رہے ہیں وہ یہی تصدیق کر تے ہیں کہ تم ٹھیک جا رہے ہو؟

78. یعنی اُن باتوں سے پاک جو اس کی طرف منسوب کی جارہی ہیں۔ ان نقائص اور کمزوریوں سے پاک جو ہر مشرکانہ عقیدہ کی بنا پر لازمًا اس کی طرف منسوب ہوتی ہیں۔ ان عیوب اور خطاؤں اور برائیوں سے پاک جن کا اس کی طرف منسوب ہونا شرک کا قطعی نتیجہ ہے۔

79. یہاں ایک بہت بڑے مضمون کو دو تین جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ اس کو اگر کسی تفصیلی عبارت میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے : یہ لوگ تمہاری بات کی طرف اس لیے توجہ نہیں کرتے کہ جو شخص کل ان کے شہر میں پیدا ہوا اور انہی کے درمیان بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھا ہوا اس کے متعلق یہ کیسے مان لیں کہ یکایک ایک روز خدا نے اُسے اپنا سفیر مقرر کر دیا۔ لیکن یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے جس سے آج دنیا میں پہلی مرتبہ انہی کو سابقہ پیش آیا ہو۔ اس سے پہلے بھی خدا اپنے نبی بھیج چکا ہے اور وہ سب بھی انسان ہی تھے ۔ پھر یہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ اچانک ایک اجنبی شخص کسی شہر میں نمودار ہوگیا ہو اور اس نے کہا ہو کہ میں پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ بلکہ جو لوگ بھی انسانوں کی اصلاح کے لیے اُٹھائے گئے وہ سب ان کی اپنی ہی بستیوں کے رہنے والے تھے۔ مسیح ، موسیٰ ، ابراہیم، نوح علیہم السلام ، آخر کون تھے؟ اب تم خود ہی دیکھ لو کہ جن قوموں نے ان لوگوں کی دعوتِ اصلاح کو قبول نہ کیا اور اپنے بے بنیاد تخیلات اور بے لگام خواہشات کے پیچھے چلتی رہیں ان کا انجام کیا ہوا۔ تم خود اپنے تجارتی سفروں میں عاد، ثمود ، مدین اور قوم لوط وغیرہ کے تباہ شدہ علاقوں سے گزرتے رہے ہو۔ کیا وہاں کوئی سبق تمہیں نہیں ملا؟ یہ انجام جو انہوں نے دنیا میں دیکھا، یہی تو خبر دے رہا ہے کہ عاقبت میں وہ اس سے بد تر انجام دیکھیں گے۔ اور یہ کہ جن لوگوں نے دنیا میں اپنی اصلاح کر لی وہ صرف دنیا ہی میں اچھے نہ رہے، آخرت میں ان کا انجام اس سے بھی زیادہ بہتر ہو گا“۔

80. یعنی ہر اُس چیز کی تفصیل جو انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ضروری ہے ۔ بعض لوگ ”ہر چیز کی تفصیل“ سے مراد خواہ مخوا ہ دنیا بھر کی چیزوں کی تفصیل لے لیتے ہیں اور پھر ان کو یہ پریشانی پیش آتی ہے کہ قرآن میں جنگلات اور طب اور ریاضی اور دوسرے علوم و فنون کے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی۔