Tafheem ul Quran

Surah 12 Yusuf, Ayat 21-29

وَقَالَ الَّذِى اشۡتَرٰٮهُ مِنۡ مِّصۡرَ لِامۡرَاَتِهٖۤ اَكۡرِمِىۡ مَثۡوٰٮهُ عَسٰٓى اَنۡ يَّـنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَـتَّخِذَهٗ وَلَدًا​ ؕ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوۡسُفَ فِى الۡاَرۡضِوَلِنُعَلِّمَهٗ مِنۡ تَاۡوِيۡلِ الۡاَحَادِيۡثِ​ؕ وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓى اَمۡرِهٖ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿12:21﴾ وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَيۡنٰهُ حُكۡمًا وَّعِلۡمًا​ ؕ وَكَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿12:22﴾ وَرَاوَدَتۡهُ الَّتِىۡ هُوَ فِىۡ بَيۡتِهَا عَنۡ نَّـفۡسِهٖ وَغَلَّقَتِ الۡاَبۡوَابَ وَقَالَتۡ هَيۡتَ لَـكَ​ؕ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ​ اِنَّهٗ رَبِّىۡۤ اَحۡسَنَ مَثۡوَاىَ​ؕ اِنَّهٗ لَا يُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿12:23﴾ وَلَـقَدۡ هَمَّتۡ بِهٖ​ۚ وَهَمَّ بِهَا​ لَوۡلَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡهَانَ رَبِّهٖ​ؕ كَذٰلِكَ لِنَصۡرِفَ عَنۡهُ السُّۤوۡءَ وَالۡـفَحۡشَآءَ​ؕ اِنَّهٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُخۡلَصِيۡنَ‏ ﴿12:24﴾ وَاسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَقَدَّتۡ قَمِيۡصَهٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّاَلۡفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا الۡبَابِ​ؕ قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَهۡلِكَ سُوۡۤءًا اِلَّاۤ اَنۡ يُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿12:25﴾ قَالَ هِىَ رَاوَدَتۡنِىۡ عَنۡ نَّـفۡسِىۡ​ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنۡ اَهۡلِهَا​ۚ اِنۡ كَانَ قَمِيۡصُهٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتۡ وَهُوَ مِنَ الۡكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿12:26﴾ وَاِنۡ كَانَ قَمِيۡصُهٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَكَذَبَتۡ وَهُوَ مِنَ الصّٰدِقِيۡنَ‏  ﴿12:27﴾ فَلَمَّا رَاٰ قَمِيۡصَهٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ قَالَ اِنَّهٗ مِنۡ كَيۡدِكُنَّ​ؕ اِنَّ كَيۡدَكُنَّ عَظِيۡمٌ‏ ﴿12:28﴾ يُوۡسُفُ اَعۡرِضۡ عَنۡ هٰذَا وَاسۡتَغۡفِرِىۡ لِذَنۡۢبِكِ ۖ ​ۚ اِنَّكِ كُنۡتِ مِنَ الۡخٰطِٮـئِيۡنَ‏ ﴿12:29﴾

21 - مصر میں جس شخص نے اسے خریدا16 اُس نے اپنی بیوی17 سے کہا ”اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔ “18 اس طرح ہم نے یُوسف کے لیے اُس سرزمین میں قدم جمانے کی صُورت نکالی اور اُسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ 19اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ 22 - اور جب وہ اپنی پُوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اُسے قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا،20 اِس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔< 23 - جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی ”آجا۔“ یُوسف نے کہا ”خدا کی پناہ، میرے ربّ نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی(اور میں یہ کام کروں!)ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے۔“21 24 - وہ اُس کی طرف بڑھی اور یُوسف بھی اُس کی طرف بڑھتا اگر اپنے ربّ کی بُرہان نہ دیکھ لیتا۔22 ایسا ہُوا، تاکہ ہم اُس سے بدی اور بے حیائی کو دُور کر دیں،23 در حقیقت وہ ہمارے چُنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ 25 - آخرِ کار یُوسُف اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اُس نے پیچھے سے یُوسُف کا قمیص (کھینچ کر )پھاڑ دیا۔ دروازے پر دونوں نے اُس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی ”کیا سزا اُس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیّت خراب کرے؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے؟“ 26 - یُوسُف ؑ نے کہا”یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی۔“ اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی 24 کہ ”اگر یُوسُف ؑ کا قمیص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھُوٹا، 27 - اور اگر اِس کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھُوٹی ہے اور یہ سچا۔“25 28 - جب شوہر نے دیکھا کہ یُوسُف کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس نے کہا ”یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔ 29 - یُوسُف، اس معاملے سے درگزر کر، اور اے عورت، تُو اپنے قصُور کی معافی مانگ، تُو ہی اصل میں خطاکار تھی۔“25الف ؏ ۳


Notes

16. بائیبل میں اس شخص کا نام فوطیفار لکھا ہے۔ قرآن مجید آگے چل کر اسے ”عزیز“کے لقب سے یاد کرتا ہے، اور پھر ایک دوسرے موقع پر یہی لقب حضرت یوسف ؑ کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر میں کوئی بہت بڑا عہدہ دار یا صاحبِ منصب تھا، کیونکہ ”عزیز“ کے معنی ایسے بااقتدار شخص کے ہیں جس کی مزاحمت نہ کہ جاسکتی ہو۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ شاہی جلوداروں (باڈی گارڈ)کا افسر تھا، اور ابن جریر حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ وہ شاہی خزانے کا افسر تھا۔

17. تلمود میں اس عورت کا نام زَلِیخا (Zelicha ) لکھا ہے اور یہیں سے یہ نام مسلمانوں کی روایات میں مشہور ہُوا۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسف ؑ کا نکاح ہُوا، اس کی کوئی اصل نہیں ہے،نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بدچلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہوچکا ہو۔ قرآن مجید میں یہ قاعدہٴ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبِیثٰتُ لِلخَبِیثِینَ وَالخَبِیثُونَ للخَبِیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ۔بُری عورتیں بُرے مَردوں کے لیے ہیں اور بُرے مرد بُری عورتوں کے لیے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے۔

18. تلمود کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت یوسف ؑ کی عمر ١۸ سال تھی اور فوطیفار ان کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہے بلکہ کسی بڑے شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے جسے حالات کی گردش یہاں کھینچ لائی ہے۔ چنانچہ جب وہ انہیں خرید رہا تھا اسی وقت اس نے سوداگروں سے کہہ دیا تھا کہ یہ غلام نہیں معلوم ہوتا، مجھے شبہ ہوتا ہے کہ شائد تم اسے کہیں سے چُرا لائے ہو۔ اسی بنا پر فوطیفار نے ان سے غلاموں کا سا برتاوٴ نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے گھر اور اپنی کل اِملاک کا مختار بنادیا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ”اس نے اپنا سب کچھ یوسف ؑ کے ہاتھ میں چھوڑدیا اور سوا روٹی کے جسے وہ کھالیتا تھا اسے اپنی کسی چیز کا ہوش نہ تھا“۔ (پیدائش ۳۹ - ٦)

19. حضرت یوسف ؑ کی تربیت اس وقت تک صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی۔ کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدّن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتاً فوقتاً ہجرت کرتے رہتے تھے، اور بعض قبائل نے مختلف علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی بنالی تھیں۔ ان لوگوں کا حال مصر کے پہلو میں قریب قریب وہی تھا جو ہماری شمال مغربی سرحد پر آزاد علاقہ کے پٹھان قبائل کا ہے۔ یہاں حضرت یوسف ؑ کو جو تعلیم و تربیت ملی تھی اس میں بدویانہ زندگی کے محاسن اور خانواوہٴ ابراہیمی کی خداپرستی و دینداری کے عناصر تو ضرور شامل تھے، مگر اللہ تعالیٰ اُس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک، یعنی مصر میں اُن سے جو کام لینا چاہتا تھا، اور اس کے لیے جس واقفیت ، جس تجربے اور جس بصیرت کی ضرورت تھی، اس کے نشونما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا۔ اس لیے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا اور اس نے ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں اپنے گھر اور اپنی جاگیر کا مختار کل بنادیا۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوگاا کہ ان کی وہ تمام قابلیتیں پوری طرح نشونما پاسکیں جواب تک بروئے کار نہیں آئی تھیں اور انہیں ایک چھوٹی جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہوجائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لیے درکار تھا۔ اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔

20. قرآن کی زبان میں اِن الفاظ سے مراد بالعموم ”نبوت عطا کرنا“ہوتا ہے۔ ”حکم“کے معنی قوت فیصلہ کے بھی ہیں اور اقتدار کے بھی۔ پس اللہ کی طرف سے کسی بندے کو حکم عطا کیے جانے کا مطلب یہ ہُوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے انسانی زندگی کے معاملات میں فیصلہ کرنے کی اہلیت بھی عطا کی اور اختیارات بھی تفویض فرمائے۔ رہا ”علم“ تو اس سے مراد وہ خاص علم حقیقت ہے جو انبیاء کو وحی کے ذریعہ سے براہِ راست دیا جاتا ہے۔

21. عام طور پر مفسرین اور مترجمین نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں ”میرے رب“کا لفظ حضرت یوسف ؑ نے اُس شخص کے لیے استعمال کیا ہے جس کی ملازمت میں وہ اُس وقت تھے اور ان کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میرے آقا نے تو مجھے ایسی اچھی طرح رکھا ہے، پھر میں یہ نمک حرامی کیسے کرسکتا ہوں کہ اس کی بیوی سے زنا کروں۔ لیکن مجھے اس ترجمہ و تفسیر سے سخت اختلاف ہے۔ اگرچہ عربی زبان کے اعتبار سے یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے، کیونکہ عربی میں لفظ رب ”آقا“کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ بات ایک نبی کی شان سے بہت گری ہوئی ہے کہ وہ ایک گناہ سے باز رہنے میں اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی بندے کا لحاظ کرے۔ اور قرآن میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہے کہ کسی نبی نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہا۔ آگے چل کر آیات ۴١، ۴۲، ۵۰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیّدنا یوسف ؑ اپنے اور مصریوں کے مسلک کا یہ فرق بار بار واضح فرماتے ہیں کہ اُ ن کا رب تو اللہ ہے اور مصریوں نے بندوں کو اپنا رب بنارکھا ہے۔ پھر جب آیت کے الفاظ میں یہ مطلب لینے کی بھی گنجائش موجود ہے کہ حضرت یوسف ؑ نےرَبّی کہہ کر اللہ کی ذات مراد لی ہو، تو کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے معنی کو اختیار کریں جس میں صریحاً قباحت کا پہلو نکلتا ہے۔

22. برہان کے معنی ہیں دلیل اور حجت کے۔ رب کی برہان سے مراد خدا کی سُجھائی ہوئی دلیل ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف ؑ کے ضمیر نے اُن کے نفس کو اس بات کا قائل کیا کہ اِس عورت کی دعوتِ عیش قبول کرنا تجھے زیبا نہیں ہے۔ اور وہ دلیل تھی کیا؟ اسے پچھلے فقرے میں بیان کیا جاچکا ہے، یعنی یہ کہ ”میرے رب نے تو مجھے یہ منزلت بخشی اور میں ایسا بُرا کام کروں، ایسے ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہُوا کرتی“۔ یہی وہ برہانِ حق تھی جس نے سیّدنا یوسف ؑ کو اس نوخیز جوانی کے عالم میں ایسے نازک موقع پر معصیت سے باز رکھا۔ پھر یہ جو فرمایا کہ ”یوسف ؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا“ تو اس سے عصمت انبیاء کی حقیقت پر بھی پوری روشنی پڑجاتی ہے۔ نبی کی معصومیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے گناہ اور لغزش و خطا کی قوت و استعداد سلب کرلی گئی ہے حتٰی کہ گناہ کا صدور اس کے امکان ہی میں نہیں رہا ہے۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن بشریت کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود، اور جملہ انسانی جذبات، احساسات اور خواہشات رکھتے ہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خداترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا۔ وہ اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے جن کے مقابلہ میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی۔ اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً وحی جلی کے ذریعہ سے اس کی اصلاح فرمادیتا ہے، کیونکہ اس کی لغزش تنہا ایک شخص کی لغزش نہیں ہے، ایک پوری اُمت کی لغزش ہے۔ وہ راہِ راست سے بال برابر ہٹ جائے تو دنیا گمراہی میں میلوں دور نکل جائے۔

23. اس ارشاد کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا دلیلِ رب کو دیکھنا اور گناہ سے بچ جانا ہماری توفیق و ہدایت سے ہُوا کیونکہ ہم اپنے اس منتخب بندے سے بدی اور بے حیائی کو دور کرنا چاہتے تھے۔ دوسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے، اور یہ زیادہ گہرا مطلب ہے کہ یوسف ؑ کو یہ معاملہ جو پیش آیا تو یہ بھی دراصل ان کی تربیت کے سلسلہ میں ایک ضروری مرحلہ تھا۔ ان کوبدی اور بے حیائی سے پاک کرنے اور ان کی طہارتِ نفس کو درجہٴ کمال پر پہنچانے کے لیے مصلحتِ الہٰی میں یہ ناگزیر تھا کہ ان کے سامنے معصیت کا ایک ایسا نازک موقع پیش آئے اور اس آزمائش کے وقت وہ اپنے ارادے کی پوری طاقت پرہیز گاری و تقویٰ کے پلڑے میں ڈال کر اپنے نفس کے بُرے میلانات کو ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر شکست دے دیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس مخصوص طریقہٴ تربیت کے اختیار کرنے کی مصلحت اور اہمیت اُس اخلاقی ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے جو اُس وقت کی مصری سوسائٹی میں پایا جاتا تھا۔ آگے رکوع ۴ میں اس ماحول کی جو ایک ذراسی جھلک دکھائی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے ”مہذب مصر“ میں بالعموم اور اُس کے اونچے طبقے میں بالخصوص صنفی آزادی قریب قریب اسی پیمانے پر تھی جس پر ہم اپنے زمانے کے اہل مغرب اور مغرب زدہ طبقوں کو ”فائز“ پارہے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کے ایسے بگڑے ہوئے لوگوں میں رہ کر کام کرنا تھا، اور کام بھی ایک معمولی آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ فرمانروائے ملک کی حیثیت سے کرنا تھا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو خواتینِ کرام ایک حَسین غلام کے آگے بچھی جارہی تھیں، وہ ایک جوان اور خوبصورت فرمانروا کو پھانسنے اور بگاڑنے کے لیے کیا نہ کر گزرتیں۔ اسی کی پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ ایک طرف تو ابتدا ہی میں اِس آزمائش سے گزار کر حضرت یوسف ؑ کو پختہ کردیا، اور دوسری طرف خود خواتین مصر کو بھی ان سے مایوس کرکے ان کے سارے فتنوں کا دروازہ بند کردیا۔

24. اس معاملہ کی نوعیت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ صاحب خانہ کے ساتھ خود اس عورت کے بھائی بندوں میں سے بھی کوئی شخص آرہا ہوگا اور اس نے یہ قضیہ سُن کر کہا ہوگا کہ جب یہ دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور موقع کا گواہ کوئی نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت سے اس معاملہ کی یوں تحقیق کی جاسکتی ہے بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ شہادت پیش کرنے والا ایک شیر خوار بچہ تھا جو وہاں پنگھڑے میں لیٹا ہُوا تھا اور خدانے اسے گویائی عطا کرکے اس سے یہ شہادت دلوائی۔ لیکن یہ روایت نہ تو کسی صحیح سند سے شہادت ہے اور نہ اس معاملے میں خواہ مخواہ معجزے سے مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی محسوس ہوتی ہے۔ اُ س شاہد نے قرینے کی جس شہادت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ سراسر ایک معقول شہادت ہے اور اس کو دیکھنے سے بیک نظر معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص ایک معاملہ فہم اور جہاندیدہ آدمی تھا جو صورت معاملہ سامنے آتے ہی اس کی تہ کو پہنچ گیا۔ بعید نہیں کہ وہ کوئی جج یا مجسٹریٹ ہو۔ (مفسّرین کے ہاں شیر خوار بچے کی شہادت کا قصہ دراصل یہودی روایات سے آیا ہے۔ ملاحظہ ہو اقتباساتِ تَلمود ازپال اسحاق ہرشون، لندن، سن ١۸۸۰۔صفحہ ۲۵٦

25. مطلب یہ ہے کہ اگر یوسف ؑ کا قمیص سامنے سے پھٹا ہو تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ اِقدام یوسف ؑ کی جانب سے تھا اور عورت اپنے آپ کو بچانے کے لیے کش مکش کررہی تھی۔ لیکن اگر یوسف ؑ کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عورت اس کے پیچھے پڑی ہوئی تھی اور یوسف ؑ اس سے بچ کر نکل جانا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ قرینے کی ایک اور شہادت بھی اس شہادت میں چھپی ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ اُس شاہد نے توجہ صرف یوسف ؑ کے قمیص کی طرف دلائی۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ عورت کے جسم یا اس کے لباس پر تشدد کی کوئی علامت سرے سے پائی ہی نہ جاتی تھی، حالانکہ اگر یہ مقدمہ اقدامِ زنا بالجبر کا ہوتا تو عورت پر اس کے کھلے آثار پائے جاتے۔

25. مطلب یہ ہے کہ اگر یوسف ؑ کا قمیص سامنے سے پھٹا ہو تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ اِقدام یوسف ؑ کی جانب سے تھا اور عورت اپنے آپ کو بچانے کے لیے کش مکش کررہی تھی۔ لیکن اگر یوسف ؑ کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عورت اس کے پیچھے پڑی ہوئی تھی اور یوسف ؑ اس سے بچ کر نکل جانا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ قرینے کی ایک اور شہادت بھی اس شہادت میں چھپی ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ اُس شاہد نے توجہ صرف یوسف ؑ کے قمیص کی طرف دلائی۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ عورت کے جسم یا اس کے لباس پر تشدد کی کوئی علامت سرے سے پائی ہی نہ جاتی تھی، حالانکہ اگر یہ مقدمہ اقدامِ زنا بالجبر کا ہوتا تو عورت پر اس کے کھلے آثار پائے جاتے۔