Tafheem ul Quran

Surah 12 Yusuf, Ayat 30-35

وَقَالَ نِسۡوَةٌ فِى الۡمَدِيۡنَةِ امۡرَاَتُ الۡعَزِيۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰٮهَا عَنۡ نَّـفۡسِهٖ​ۚ قَدۡ شَغَفَهَا حُبًّا​ ؕ اِنَّا لَـنَرٰٮهَا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏  ﴿12:30﴾ فَلَمَّا سَمِعَتۡ بِمَكۡرِهِنَّ اَرۡسَلَتۡ اِلَيۡهِنَّ وَاَعۡتَدَتۡ لَهُنَّ مُتَّكَـاً وَّاٰتَتۡ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنۡهُنَّ سِكِّيۡنًا وَّقَالَتِ اخۡرُجۡ عَلَيۡهِنَّ ​ۚ فَلَمَّا رَاَيۡنَهٗۤ اَكۡبَرۡنَهٗ وَقَطَّعۡنَ اَيۡدِيَهُنَّ وَقُلۡنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا هٰذَا بَشَرًا ؕ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِيۡمٌ‏ ﴿12:31﴾ قَالَتۡ فَذٰلِكُنَّ الَّذِىۡ لُمۡتُنَّنِىۡ فِيۡهِ​ؕ وَ لَـقَدۡ رَاوَدْتُّهٗ عَنۡ نَّـفۡسِهٖ فَاسۡتَعۡصَمَ​ؕ وَلَـئِنۡ لَّمۡ يَفۡعَلۡ مَاۤ اٰمُرُهٗ لَـيُسۡجَنَنَّ وَلَيَكُوۡنًا مِّنَ الصّٰغِرِيۡنَ‏ ﴿12:32﴾ قَالَ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَىَّ مِمَّا يَدۡعُوۡنَنِىۡۤ اِلَيۡهِ​ۚ وَاِلَّا تَصۡرِفۡ عَنِّىۡ كَيۡدَهُنَّ اَصۡبُ اِلَيۡهِنَّ وَاَكُنۡ مِّنَ الۡجٰهِلِيۡنَ‏ ﴿12:33﴾ فَاسۡتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنۡهُ كَيۡدَهُنَّ​ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿12:34﴾ ثُمَّ بَدَا لَهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا رَاَوُا الۡاٰيٰتِ لَيَسۡجُنُـنَّهٗ حَتّٰى حِيۡنٍ‏ ﴿12:35﴾

30 - شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ”عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبّت نے اسے بے قابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تووہ صریح غلطی کر رہی ہے۔“ 31 - اس نے جو اُن کی یہ مکّارانہ باتیں سُنیں تو اُن کو بُلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی26 اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھُری رکھ دی۔ (پھر عین اُس وقت جب کہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں)اس نے یُوسُف کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اُس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پُکار اُٹھیں” حاشالِلّٰہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔“ 32 - عزیز کی بیوی نے کہا” دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بےشک میں نے اِسے رجہانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نِکلا۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا۔“27 33 - یُوسُف ؑ نے کہا ”اے میرے ربّ! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں۔ اور اگر تُو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاوٴں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں 28گا“۔۔۔۔ 34 - اس کے ربّ نے اس کی دُعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں،29 بے شک وہی ہے جو سب کی سُنتااور سب کچھ جانتا ہے۔ 35 - پھر ان لوگوں کو یہ سُوجھی کہ ایک مُدّت کے لیے اسے قید کر دیں حالانکہ وہ (اس کی پاکدامنی اور خود اپنی عورتوں کے بُرے اطوار کی )صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے۔30 ؏ ۴


Notes

25 الف۔ بائیبل میں اس قصے کو جس بھونڈے طریقہ سے بیان کیا گیا ہے وہ ملاحضہ ہو، تب اس عورت نے اس کا پیرہن پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ ہم بستر ہو۔وہ اپنا پیرہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا۔جب اس نے دیکھا کہ وہ اپنا پیرہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگ گیا تو اس نے اپنے گھر کے آدمیوں کو بلا کران سے کہا کہ دیکھووہ ایک عبری کو ہم سے مذاق کرنے کے لیے ہمارے پاس لے آیا ہے۔ یہ مجھ سے ہم بستر ہونے کو اندر گھس آیا اور میں بلند آواز سے چلانے لگی۔جب اس نے دیکھا کہ میں زور زور سے چلا رہی ہوں تو اپنا پیرہن میرے پاس چھوڑکر بھاگا اور باہر نکل گیا۔ اور وہ اس کا پیرہن اس کے آقا کے گھر لوٹنے تک اپنے پاس رکھے رہی۔۔۔جب اس کے آقا نے اپنی بیوی کی وہ باتیں جو اس نے اس سے کہیں سن لیں کہ تیرے غلام نے مجھ سے ایسا ایسا کیا تو اس کا غضب بھڑکااور یوسف کے آقا نے اس کو لے کر قید خانے میں جہاں بادشاہ کے قیدی بند تھے ڈال دیا(پیدائش12:39-20)۔ خلاصہ اس عجیب و غریب روایت کایہ ہے کہ حضرت یوسف کے جسم پر لباس کچھ اس قسم کا تھا کہ ادھر زلیخا نے اس پر ہاتھ ڈالا اور ادھر وہ پورا لباس خود بخود اتر کر اس کے ہاتھ میں آگیا! پھر لطف یہ ہے کہ حضرت یوسف وہ لباس اس کے پاس چھوڑ کر یونہی برہنہ بھاگ نکلےاور ان کا لباس (یعنی ان کے قصور کا ناقابل انکار ثبوت) اس عورت کے پاس ہی رہ گیا۔اس کے بعد حضرت یوسف کے مجرم ہونے میں آخر کون شک کرسکتا تھا۔ یہ تو ہے بائبل کی روایت۔رہی تلمود تو اس کا بیان ہے کہ فوطیفار نے جب اپنی بیوی سے یہ شکایت سنی تو اس نے یوسف کو خوب پٹوایا، پھر ان کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کیا اور حکام عدالت نے حضرت یوسف کے قمیص کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا کہ قصور عورت کا ہے، کیونکہ قمیص پیچھے سے پھٹا ہے نہ کہ آگے سے۔ لیکن یہ بات ہر صاحب عقل آدمی تھوڑے سے غور و تامل سے بآسانی سمجھ سکتا ہے قرآن کی روایت تلمود کی روایت سے زیادہ قرین قیاس ہے۔ آخر کس طرح یہ باور کرلیا جائے کہ ایسا بڑا ایک ذی وجاہت آدمی اپنی بیوی پر اپنے غلام کی دست درازی کا معاملہ خود عدالت میں لے گیا ہوگا۔ یہ ایک نمایاں ترین مثال ہے قرآن اور اسرائیلی روایات کے فرق کی جس سے مغربی مستشریقین کے اس الزام کی لغویت صاف واضح ہوجاتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کرلئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ قرآن نے تو ان کی اصلاح کی ہے اور اصل واقعات دنیا کو بتائے ہیں۔

26. یعنی ایسی مجلس جس میں مہمانوں کے لیے تکیے لگے ہوئے تھے۔ مصر کے آثار قدیمہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان کی مجلسوں میں تکیوں کا استعمال بہت ہوتا تھا۔

بائیبل میں اس ضیافت کا کوئی ذکر نہیں ہے البتہ تلمود میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے ، مگر وہ قرآن سے بہت مختلف ہے۔ قرآن کے بیان میں جو زندگی ، جو روح، جو فطریّت اور جو اخلاقیت پائی جاتی ہے اس سے تلمود کا بیان بالکل خالی ہے۔

27. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس وقت مصر کے اونچے طبقوں کی اخلاقی حالت کیا تھی۔ ظاہر ہے کہ عزیز کی بیوی نے جن عورتوں کو بلایا ہو گا وہ امراء و رؤسا اور بڑے عہدہ داروں کے گھر کی بیگمات ہی ہوں گی۔ ان عالی مرتبہ خواتین کے سامنے وہ اپنے محبوب نوجوان کو پیش کرتی ہے اور اس کی خوبصورت جوانی دکھا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ایسے جوانِ رعنا پر میں مر نہ مٹتی تو آخر اور کیا کرتی۔ پھر یہ بڑے گھروں کی بہو بیٹیاں خود بھی اپنے عمل سے گویا اس امر کی تصدیق فرماتی ہیں کہ واقعی ان میں سے ہر ایک ایسے حالات میں وہی کچھ کرتی جو بیگم عزیز نے کیا۔ پھر شریف خواتین کی اس بھر ی مجلس میں معزز میزبان کو علانیہ اپنے اِس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر اس کا خوبصورت غلام اس کی خواہشِ نفس کا کھلونا بننے پر راضی نہ ہو ا تو وہ اسے جیل بھجوا دے گی۔ یہ سب کچھ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یورپ اور امریکہ اور ان کے مشرقی مقلدین آج عورتوں کی جس آزادی و بے باکی کو بیسویں صدی کا کرشمہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ، بہت پرانی چیز ہے۔ دقیانوس سے سیکڑوں برس پہلے مصر میں یہ اسی شان کے ساتھ پائی جاتی تھی جیسی آج اِس ”روشن زمانے“ میں پائی جا رہی ہے۔

28. یہ آیات ہمارے سامنے اُن حالات کا ایک عجیب نقشہ پیش کرتی ہیں جن میں اس وقت حضرت یوسف ؑ مبتلا تھے۔ انیس بیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان ہے جو بدویانہ زندگی سے بہترین تندرستی اور بھری جوانی لیے ہوئے آیا ہے۔ غریبی، جلاوطنی اور جبری غلامی کے مراحل سے گزرنے کے بعد قسمت اسے دنیا کی سب سے بڑی متمدن سلطنت کے پایہ تخت میں ایک بڑے رئیس کے ہاں لے آئی ہے۔ یہاں پہلے تو خود اس گھر کی بیگم یہ اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے جس سے اس کا شب و روز کا سابقہ ہے۔ پھر اس کے حسن کا چرچا سارے دارالسلطنت میں پھیلتا ہے اور شہر بھر کے امیر گھرانوں کی عورتیں اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں۔ اب ایک طرف وہ ہے اور دوسری طرف سیکڑوں خوبصورت جال ہیں جو ہر وقت ہر جگہ اسے پھانسنے کے لیے پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر طرح کی تدبیر یں اس کے جذبات کو بھڑکانے اور اس کے زہد کو توڑنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ جدھر جاتا ہے یہی دیکھتا ہے کہ گناہ اپنی ساری خوشنمائیوں اور دلفریبیوں کے ساتھ دروازے کھولے اس کا منتظر کھڑا ہے۔ کوئی تو فجور کے مواقع خود ڈھونڈھتا ہے، مگر یہاں خود مواقع اس کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اس کی تاک میں لگے ہوئے ہیں کہ جس وقت بھی اس کے دل میں برائی کی طرف ادنیٰ مَیلان پیدا ہو وہ فوراً اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کردیں۔ رات دن کے چوبیس گھنٹے وہ اس خطرے میں بسر کر رہا ہے کہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے اردے کی بندش میں کچھ ڈھیل آجائے تو وہ گناہ کے اُن بے شمار دروازوں میں سےکسی میں داخل ہو سکتا ہے جو اس کے انتظار میں کھلے ہوئے ہیں۔ اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی تر غیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجائے خود کچھ کم قابل تعریف نہیں ہے۔ مگر ضبطِ نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارت ِ فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے میں، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حَسین اور جوان عورتیں میری گردیدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے۔ اس کے بجائے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتا ہے کہ اے رب، میں ایک کمزور انسان ہوں، میرا اتنا بل بوتا کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا، ڈرتاہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں۔۔۔۔۔۔ درحقیقت یہ حضرتِ یوسف علیہ السلام کی اخلاقی تربیت کا اہم ترین اور نازک ترین مرحلہ تھا۔ دیانت، امانت، عفت، حق شناسی، راست روی، انضباط، اور توازن ذہنی کی غیر معمولی صفات جواب تک ان کے اندر چھپی ہوئی تھیں اور جن سے وہ خود بھی بے خبر تھے، وہ سب کی سب اس شدید آزمائش کے دور میں اُبھر آئیں، پورے زور کے ساتھ کام کرنے لگیں اور انہیں خود بھی معلوم ہوگیا کہ ان کے اندر کون کون سی قوتیں موجود ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتے ہیں۔

29. دفع کرنا اس معنی میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی سیرت صالحہ کو ایسی مضبوطی بخش دی گئی جس کے مقابلہ میں ان عورتوں کی ساری تدبیر یں ناکام ہو کر رہ گئیں۔ نیز اس معنی میں بھی ہے کہ مشیت الہٰی نے جیل کا دروازہ ان کے لیے کھلوادیا۔

30. اس طرح حضرت یوسف ؑ کا قید میں ڈالا جانا درحقیقت ان کی اخلاقی فتح اور مصر کے پورے طبقہ امراء وحکام کی اخلاقی شکست کا اِتمام و اعلان تھا۔ اب حضرت یوسف ؑ کوئی غیر معرف اور گمنام آدمی نہ رہے تھے۔ سارے ملک میں، اور کم از کم دارالسلطنت میں تو عام و خاص سب ان سے واقف ہو چکے تھے۔ جس شخص کی دلفریب شخصیت پر ایک دونہیں، اکثر و بیشتر بڑے گھرانوں کی خواتین فریفتہ ہوں ، اور جس کے فتنہ روزگار حُسن سے اپنے گھر بگڑتے دیکھ کر مصر کے حکام نے اپنی خیریت اسی میں دیکھی ہو کہ اسے قید کردیں، ظاہر ہے کہ ایسا شخص چھپا نہیں رہ سکتا تھا ۔ یقیناً گھر گھر اس کا چرچا پھیل گیا ہوگا۔ عام طور پر لوگ اس بات سے بھی واقف ہوگئے ہوں گے کہ یہ شخص کیسے بلند اور مضبوط اور پاکیزہ اخلاق کا انسان ہے، اور یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ اس شخص کو جیل اپنے کسی جرم پر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ مصر کے امراء اپنی عورتوں کو قابو میں رکھنے کے بجائے اس بے گناہ کو جیل بھیج دینا زیادہ آسان پاتے تھے۔

اس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ کسی شخص کو شرائط انصاف کے مطابق عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر، بس یونہی پکڑ کر جیل بھیج دینا، بے ایمان حکمرانوں کی پرانی سنت ہے۔ اس معاملہ میں بھی آج کے شیاطین چار ہزار برس پہلے کے اشرار سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ وہ” جمہوریت“کا نام نہیں لیتے تھے، اور یہ اپنے اِن کرتوتوں کے ساتھ یہ نام بھی لیتے ہیں۔ وہ قانون کے بغیر اپنی غیر قانونی حرکتیں کیا کرتے تھے، اور یہ ہر ناروازیادتی کے لیے پہلے ایک”قانون“ بنا لیتے ہیں۔ وہ صاف صاف اپنی اغراض کے لیے لوگوں پر دست درازی کرتے تھے اور یہ جس پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کے متعلق دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سے اِن کو نہیں بلکہ ملک اور قوم کو خطرہ تھا۔ غرض وہ صرف ظالم تھے۔ یہ اس کے ساتھ جھوٹے اور بے حیا بھی ہیں۔