36. بیچ میں کئی سال کے زمانہ قید کا حال چھوڑ کر اب سر رشتہ بیان اس مقام سے جوڑا جاتا ہے جہاں سے حضرت یوسف ؑ کا دنیوی عروج شروع ہوا۔
37. بائیبل اور تلمود کا بیا ن ہے کہ ان خوابوں سے بادشاہ بہت پریشان ہوگیا تھا اور اس نے اعلان عام کے ذریعہ سے اپنے ملک کے تمام دانشمندوں ، کا ہنوں، مذہبی پیشواؤں اور جادوگروں کو جمع کر کے ان سب کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا۔
38. قرآن نے یہاں اختصار سے کام لیا ہے۔ بائیبل اور تلمود سے اس کی تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے(اور قیاس بھی کہتا ہے کہ ضرور ایسا ہوا ہوگا) کہ سردار ساقی نے یوسف علیہ السلام کے حالات بادشاہ سے بیان کیے، اور جیل میں اس کے خواب اور اس کے ساتھی کے خواب کی جیسی صحیح تعبیر انہوں نے دی تھی اس کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ میں ان سےاس کی تاویل پوچھ کر آتا ہوں، مجھے قید خانہ میں ان سے ملنے کی اجازت عطا کی جائے۔
39. متن میں لفظ”صدیق“استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں سچائی اور راستبازی کے انتہائی مرتبے کہ لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قید خانے کے زمانہ قیام میں اس شخص نےیوسف علیہ السلام کی سیرت پاک سے کیسا گہرا اثر لیا تھا اور یہ اثر ایک مدت دراز گزر جانے کے بعد بھی کتنا راسخ تھا۔ صدیق کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، جلد اول سورہ نساء، حاشیہ نمبر ۹۹
40. یعنی آپ کی قدرو منزلت جان لیں اور ان کو احساس ہو کہ کس پایہ کے آدمی کو انہوں نے کہا ں بند کر رکھا ہے، اس طرح مجھے اپنے اس وعدے کے ایفاء کا موقع مل جائے جو میں نے آپ سے قید کے زمانہ میں کیا تھا۔
41. متن میں لفظ”یعصرون“استعمال ہوا ہے جس کے لفظی معنی ”نچوڑنے“ کے ہیں۔ اس سے مقصود یہاں سر سبزی و شادابی کی وہ کیفیت بیان کرنا ہے جو قحط کے بعد باران رحمت اور دریائے نیل کے چڑھاؤ سے رونما ہونے والی تھی۔ جب زمین سیراب ہوتی ہے تو تیل دینے والے بیج اور رس دینے والے پھل اور میوے خوب پیداہوتے ہیں ، اور مویشی بھی چارہ اچھا ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دینے لگتے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اس تعبیر میں صرف بادشاہ کے خواب کا مطلب بتانے ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ خوشحالی کے ابتدائی سات برسوں میں آنے والے قحط کے لیے کیا پیش بندی کی جائے اور غلہ کو محفوظ رکھنے کا کیا بندوبست کیا جائے۔ پھر مزید براں آپ نے قحط کے بعد اچھے دن آنے کی خوشخبری بھی دے دی جس کا ذکر بادشاہ کے خواب میں نہ تھا۔