Tafheem ul Quran

Surah 12 Yusuf, Ayat 50-57

وَقَالَ الۡمَلِكُ ائۡتُوۡنِىۡ بِهٖ​ۚ فَلَمَّا جَآءَهُ الرَّسُوۡلُ قَالَ ارۡجِعۡ اِلٰى رَبِّكَ فَسۡـئَلۡهُ مَا بَالُ النِّسۡوَةِ الّٰتِىۡ قَطَّعۡنَ اَيۡدِيَهُنَّ​ؕ اِنَّ رَبِّىۡ بِكَيۡدِهِنَّ عَلِيۡمٌ‏ ﴿12:50﴾ قَالَ مَا خَطۡبُكُنَّ اِذۡ رَاوَدْتُّنَّ يُوۡسُفَ عَنۡ نَّـفۡسِهٖ​ؕ قُلۡنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمۡنَا عَلَيۡهِ مِنۡ سُوۡۤءٍ​ ؕ قَالَتِ امۡرَاَتُ الۡعَزِيۡزِ الۡـٰٔنَ حَصۡحَصَ الۡحَقُّ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنۡ نَّـفۡسِهٖ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيۡنَ‏ ﴿12:51﴾ ذٰ لِكَ لِيَـعۡلَمَ اَنِّىۡ لَمۡ اَخُنۡهُ بِالۡغَيۡبِ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ كَيۡدَ الۡخَـآئِنِيۡنَ‏ ﴿12:52﴾ وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفۡسِىۡ​ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىۡ ؕاِنَّ رَبِّىۡ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿12:53﴾ وَقَالَ الۡمَلِكُ ائۡتُوۡنِىۡ بِهٖۤ اَسۡتَخۡلِصۡهُ لِنَفۡسِىۡ​ۚ​ فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الۡيَوۡمَ لَدَيۡنَا مَكِيۡنٌ اَمِيۡنٌ‏ ﴿12:54﴾ قَالَ اجۡعَلۡنِىۡ عَلٰى خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ​ۚ اِنِّىۡ حَفِيۡظٌ عَلِيۡمٌ‏  ﴿12:55﴾ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوۡسُفَ فِى الۡاَرۡضِ​ۚ يَتَبَوَّاُ مِنۡهَا حَيۡثُ يَشَآءُ​ ؕ نُصِيۡبُ بِرَحۡمَتِنَا مَنۡ نَّشَآءُ​ۚ وَلَا نُضِيۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏  ﴿12:56﴾ وَلَاَجۡرُ الۡاٰخِرَةِ خَيۡرٌ لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَكَانُوۡا يَتَّقُوۡنَ‏  ﴿12:57﴾

50 - بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاوٴ۔ مگر جب شاہی فرستادہ یوُسف ؑ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا42 ”اپنے ربّ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا یا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا ربّ تو ان کی مکّاری سے واقف ہی ہے۔“43 51 - اس پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت 44کیا ”تمہارا کیا تجربہ ہے اُس وقت کا جب تم نے یُوسُف ؑ کو رِجہانے کی کوشش کی تھی؟“ سب نے یک زبان ہو کر کہا ”حاشا لِلّٰہ، ہم نے تو اُس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا۔“ عزیز کی بیوی بول اُٹھی” اب حق کُھل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پُھسلانے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ بالکل سچا ہے۔“45 52 - (یُوسُف ؑ نے 46کہا)”اِس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیز)یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی۔ اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔ 53 - میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اُکساتا ہی ہے اِلّا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو، بے شک میرا ربّ بڑا غفور و رحیم ہے۔“ 54 - بادشاہ نے کہا ”اُنہیں میرے پاس لاوٴ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصُوص کر لوں۔“ جب یُوسُف ؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا ”اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔“47 55 - یُوسُف ؑ نے کہا ”ملک کے خزانے میرے سپُرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔“47الف 56 - اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یُوسُف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مُختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔48 ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا، 57 - اور آخرت کا اجر اُن لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔49 ؏۷


Notes

42. یہاں سے لے کر بادشاہ کی ملاقات تک جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے۔۔۔۔۔۔ جو اس قصے کا ایک بڑا ہی اہم باب ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا کوئی ذکر بائیبل اور تلمود میں نہیں ہے۔ بائیبل کا بیا ن ہے کہ بادشاہ کی طلبی پر حضرت یوسف ؑ فوراً چلنے کے لیے تیار ہوگئے، حجامت بنوائی، کپڑے بدلے اور دربار میں جا حاضر ہوئے۔ تلمود اس سے بھی زیادہ گھٹیا صورت میں اس واقعے کو پیش کرتی ہے۔ اس کا بیا ن یہ ہے کہ ”بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ یوسف ؑ کو میرے حضور پیش کرو، اور یہ بھی ہدایت کر دی کہ دیکھو ایسا کوئی کام نہ کرنا کہ لڑکا گھبرا جائے اور صحیح تعبیر نہ دے سکے۔ چنانچہ شاہی ملازموں نے یوسف ؑ کو قید خانے سے نکالا، حجامت بنوائی، کپڑے بدلوائے اور دربار میں لا کر پیش کر دیا۔ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا تھا ۔ وہاں زروجواہر کی چمک دمک اور دربار کی شان دیکھ کر یوسف ؑ ہکا بکا رہ گیا اور اس کی آنکھیں خیرہ ہونےلگیں۔ شاہی تخت کی سات سیڑھیاں تھیں۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز آدمی بادشاہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا تو وہ چھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتا اور بادشاہ سےہم کلام ہوتا تھا۔ اور جب ادنیٰ طبقہ کا کوئی آدمی شاہی مُخاطبہ کے لیے بلایا جاتا تو وہ نیچے کھڑا رہتا اور بادشاہ تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے بات کرتا۔ یوسف ؑ اس قاعدے کے مطابق نیچے کھڑا ہوا اور زمین بوس ہو کر اس نے بادشاہ کو سلامی دی۔ اور بادشاہ نے تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے گفتگو کی“۔ اس تصویر میں بنی اسرائیل نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کو جتنا گرا کر پیش کیا ہے اس کو نگاہ میں رکھیے اور پھر دیکھیے کہ قرآن ان کے قید سے نکلنے اور بادشاہ سے ملنے کا واقعہ کس شان اور کس آن بان کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر صاحب نظر کا اپنا کام ہے کہ ان دونوں تصویروں میں سے کونسی تصویر پیغمبر ی کے مرتبے سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ علاوہ بریں یہ بات بھی عقلِ عام کو کھٹکتی ہے کہ اگر بادشاہ کی ملاقات کے وقت تک حضرت یوسف ؑ کی حیثیت اتنی گری ہوئی تھی جتنی تلمود کے بیان سے معلوم ہوتی ہے، تو خواب کی تعبیر سنتے ہی یکایک ان کو تمام سلطنت کا مختار کل کیسے بنا دیا گیا۔ ایک مہذب و متمدن ملک میں اتنا بڑا مرتبہ تو آدمی کو اُسی وقت ملا کرتا ہے جب کہ وہ اپنی اخلاقی و ذہنی بر تری کا سکہ لوگوں پر بٹھا چکا ہو۔ پس عقل کی رو سے بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت قرآن کا بیان زیادہ مطابق حقیقت معلوم ہوتا ہے۔

43. یعنی جہاں تک میرے رب کا معاملہ ہے ، اس کو تو پہلے ہی میری بے گناہی کاحال معلوم ہے ۔ مگر تمہارے رب کو بھی میری رہائی سے پہلے اُس معاملہ کو پوری طرح تحقیق کر لینی چاہیے جس کی بنا پر مجھے جیل میں ڈالا گیا تھا۔ کیونکہ میں کسی شبہ اور کسی بدگمانی کا داغ لیے ہوئے خلق کے سامنے نہیں آنا چاہتا۔ مجھے رہا کرنا ہے تو پہلے بر سر عام یہ ثابت ہونا چاہیے کہ میں بے قصور تھا۔ اصل قصور وار تمہاری سلطنت کے کار فرما اور کار پرداز تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کی بداطواری کا خمیازہ میری پاک دامنی پر ڈالا۔

اس مطالبے کوحضرت یوسف ؑ جن الفاظ میں پیش کرتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاہِ مصر اُس پورے واقعہ سے پہلے ہی واقف تھا جو بیگم عزیز کی دعوت کے موقع پر پیش آیا تھا ۔ بلکہ وہ ایسا مشہور واقعہ تھا کہ اس کی طرف صرف ایک اشارہ ہی کافی تھا۔

پھر اس مطالبہ میں حضرت یوسف ؑ عزیز مصر کی بیوی کو چھوڑ کر صرف ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کے ذکر پر اکتفا فرماتے ہیں ۔ یہ ان کی انتہائی شرافت نفس کا ایک اور ثبوت ہے۔ اس عورت نے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی برائی کی ہو، مگر پھر بھی اس کا شوہر ان کا محسن تھا اس لیے انہوں نے نہ چاہا کہ اس کے ناموس پر خود کوئی حرف لائیں۔

44. ممکن ہے کہ شاہی محل میں ان تمام خواتین کو جمع کر کے یہ شہادت لی گئی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بادشاہ نے کسی معتمد خاص کو بھیج کر فرداًفرداً ان سے دریافت کرایا ہو۔

45. اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان شہادتوں نے کس طرح آٹھ نو سال پہلے کے واقعات کو تازہ کر دیا ہو گا ، کس طرح حضرت یوسف ؑ کی شخصیت زمانہ قید کی طویل گمنامی سے نکل کر یکا یک پھر سطح پر آگئی ہو گی، اور کس طرح مصر کے تمام اشراف معززین، متوسطین اور عوام تک میں آپ کا اخلاقی وقار قائم ہو گیا ہوگا۔ اوپر بائیبل اور تلمود کے حوالہ سے یہ بات گزر چکی ہے کہ بادشاہ نے اعلان عام کر کے تمام مملکت کے دانشمندوں اور علماء اور پیروں کو جمع کیا تھا اور وہ سب اس کے خواب کا مطلب بیان کرنے سے عاجز ہو چکے تھے۔ اس کے بعد حضرت یوسف نے اس کا مطلب یہ بتایا۔ اس واقعہ کی بنا پر پہلے ہی سے سارے ملک کی نگاہیں آپ کی ذات پر مرتکز ہو چکی ہونگی۔ پھر جب بادشاہ کی طلبی پر آپ نے باہر نکلنے سے انکار کیا ہوگا تو سارے لوگ اچنبھے میں پڑ گئے ہوں گے کہ یہ عجیب قسم کا بلند حوصلہ انسان ہے؛ جس کو آٹھ نو برس کی قید کے بعد بادشاہ وقت مہر بان ہو کر بلا رہا ہے اور پھر بھی وہ بیتا ب ہو کر دوڑنہیں پڑتا۔ پھر جب لوگوں کو معلوم ہوا ہوگا کہ یوسف ؑ نے اپنی رہائی قبول کرنے اور بادشاہ وقت کی ملاقات کو آنے کے لیے کیا شرط پیش کی ہے تو سب کی نگاہیں اس تحقیقات کے نتیجے پر لگ گئی ہوں گی۔ اور جب لوگوں نے اس کا نتیجہ سنا ہوگا تو ملک کا بچہ بچہ عش عش کرتا رہ گیا ہوگا کہ کس قدر پاکیزہ سیرت کا ہے یہ انسان جس کی طہارت نفس پر آج وہی لوگ گواہی دے رہے ہیں جنہوں نے مل جُل کر کل اُسے جیل میں ڈالا تھا۔ اس صورت حال پر اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے کہ اُس وقت حضرت یوسف ؑ نے بادشاہ سے ملاقات کے موقع پر خزائن ارض کی سپردگی کا مطالبہ کیسے بے دھڑک پیش کر دیا اور بادشاہ نے اسے کیوں بے تامل قبول کر لیا۔ اگر بات صرف اسی قدر ہوتی کہ جیل کے ایک قیدی نے بادشاہ کے ایک خواب کی تعبیر بتا دی تھی تو ظاہر ہے کہ اس پر وہ زیادہ سے زیادہ کسی انعام کا اور خلاصی پا جانے کا مستحق ہو سکتا تھا۔ اتنی سی بات اس کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ بادشاہ سے کہے”خزائنِ ارض میرے حوالہ کرو“ اور بادشاہ کہہ دے”لیجیے، سب کچھ حاضر ہے“۔

46. یہ بات غالباً یوسف ؑ نے اس وقت کہی ہوگی جب قید خانہ میں آپ کو تحقیقات کے نتیجے کی خبردی گئی ہوگی۔ بعض مفسرین، جن میں ابن تیمیہ اور ابن کثیر جیسے فضلا بھی شامل ہیں، اس فقرے کو حضرت یوسف ؑ کا نہیں بلکہ عزیز کی بیوی کے قول کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کی دلیل یہ ہے کہ یہ فقرہ امرأة العزیز کے قول سے متصل آیا ہے اور بیچ میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ ”اِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِینَ“ پر امرأة العزیز کی بات ختم ہوگئی اور بعد کا کلام حضرت یوسف ؑ کی زبان سے ادا ہُوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر دو آدمیوں کے قول ایک دوسرے سے متصل واقع ہوں اور اس امر کی صراحت نہ ہوکہ یہ قول فلاں کا ہے اور یہ فلاں کا، تو اس صورت میں لازماً کوئی قرینہ ایسا ہونا چاہیے جس سے دونوں کے کلام میں فرق کیا جاسکے، اور یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے یہی ماننا پڑے گا کہ الئن حصحص الحق سے لے کر ان ربی غفور رحیم تک پورا کلام امرأة العزیز کا ہی ہے۔ لیکن مجھے تعجب ہے کہ ابن تیمیہ جیسے دقیقہ رس آدمی تک کی نگاہ سے یہ بات کیسے چوک گئی کہ شان کلام بجائے خود ایک بہت بڑا قرینہ ہے جس کے ہوتے کسی اور قرینہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ پہلا فقرہ تو بلا شبہ امرأة العزیز کے منہ پر پھبتا ہے، مگر کیا دوسرا فقرہ بھی اس کی حیثیت کے مطابق نظر آتا ہے؟ یہاں تو شانِ کلام صاف کہہ رہی ہے کہ اس کے قائل حضرت یوسف ؑ ہیں نہ کہ عزیز مصر کی بیوی۔ اس کلام میں جو نیک نفسی، جو عالی ظرفی، جو فروتنی اور جو خدا ترسی بول رہی ہے وہ خود گواہ ہے کہ یہ فقرہ اس زبان سے نکلا ہُوا نہیں ہوسکتا جس سے ھَیتَ لَکَ نکلا تھا۔ جس سے مَا جَزَآءُ مَن اَرَادَ بِاَھلِکَ سُو ءًا نکلا تھا، اور جس سے بھری محفل کے سامنے یہ تک نکل سکتا تھا کہ لَئِن لَّم یَفعَل مَآ اٰمُرُہُ لَیُسجَنَنَّ۔ ایسا پاکیزہ فقرہ تو وہی زبان بول سکتی تھی جو اس سے پہلے مَعَا ذَاللہِ اِنَّہُ رَبِّیٓ اَحسَنَ مَثوَایَ ط کہہ چکی تھی، جو رَبِّ السِّجنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَد عُو نَنِی اِلَیہِ کہہ چکی تھی، جو اِلَّا تَصرِف عَنِّی کَیدَ ھُنَّ اَصبُ اِلَیھِنَّ کہہ چکی تھی۔ ایسے پاکیزہ کلام کو یوسف ِ صدیق کے بجائے امرأۃ العزیز کا کلام ماننا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کوئی قرینہ اس امر پر دلالت نہ کرے کہ اس مرحلے پر پہنچ کر اسے توبہ اور ایمان اور اصلاح نفس کی توفیق نصیب ہوگئی تھی، اور افسوس ہے کہ ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔

47 یہ بادشاہ کی طرف سے گویا ایک کھلا اشارہ تھا کہ آپ کو ہر ذمہ داری کا منصب سونپا جاسکتا ہے۔

47. الف اس سے پہلے جو توضیحات گزرچکی ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کوئی نوکری کی درخواست نہیں تھی جو کسی طالبِ جاہ نے وقت کے بادشاہ کا اشارہ پاتے ہی جھٹ سے پیش کردی ہو۔ درحقیقت یہ اُس انقلاب کا دروازہ کھولنے کے لیے آخری ضرب تھی جو حضرت یوسف ؑ کی اخلاقی طاقت سے پچھلے دس بارہ سال کے اندر نشونما پاکر ظہور کے لیے تیار ہوچکا تھا اور اب جس کا فتح باب صرف ایک ٹھونکے ہی کا محتاج تھا۔ حضرت یوسف ؑ آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے۔ اور یہ آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔ ان آزمائشوں میں انہوں نے ثابت کردیا تھا کہ وہ امانت، راستبازی، حِلم، ضبط نفس، عالی ظرفی، ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ ان کی شخصیت کے یہ اوصاف اس طرح کھل چکے تھے کہ کسی کو ان سے انکار کی مجال نہ رہی تھی۔ زبانیں ان کی شہادت دے چکی تھیں۔ دل ان سے مسخر ہوچکے تھے۔ خود بادشاہ ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا۔ اُن کا ”حفیظ“اور”علیم“ہونا اب محض ایک دعویٰ نہ تھا بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لاچکے تھے۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف ؑ خود حکومت کے اُن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وہ کسر تھی جو انہوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کردی۔ ان کی زبان سے اس مطالنے کے نکلتے ہی بادشاہ اور اس کی کونسل نے جس طرح اسے بسروچشم قبول کیا وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پھل اتنا پک چکا تھا کہ اب ٹوٹنے کے لیے ایک اشارے ہی کا منتظر تھا۔ (تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ پوری شاہی کونسل نے بالاتفاق اس کے حق میں رائے دی تھی)۔

یہ اختیارات جو حضرت یوسف ؑ نے مانگے اور ان کو سونپے گئے ان کی نوعیت کیا تھی؟ ناواقف لوگ یہاں ”خزائن ارض“کے الفاظ اور آگے چل کر غلہ کی تقسیم کا ذکر دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ شاید یہ افسر خزانہ، یا افسر مال، یا قحط کمشنر، یا وزیر مالیات، یا وزیر غذائیات کی قسم کا کوئی عہدہ ہوگا۔لیکن قرآن، بائیبل، اورتلمود کی متفقہ شہادت ہے کہ درحقیقت حضرت یوسف ؑ سلطنت مصر کے مختار کل (رومی اصطلاح میں ڈکٹیٹر) بنائے گئے تھے اور ملک کا سیاہ و سپید سب کچھ ان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا۔قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت یعقوب ؑ مصر پہنچے ہیں اس وقت حضرت یوسف ؑ تخت نشین تھے (ورفع ابویہ علی العرش)۔ حضرت یوسف ؑ کی اپنی زبان سے نکلا ہُوا یہ فقرہ قرآن میں منقول ہے کہ”اے میرے رب، تو نے مجھے بادشاہی عطا کی“(رَبَّ قداٰ تَیتنی مِنَ الملک)۔ پیالےکی چوری کے موقع پر سرکاری ملازم حضرت یوسف ؑ کے پیالے کو بادشاہ کا پیالہ کہتے ہیں(قالو انفقد صواع الملک)۔ اور اللہ تعالیٰ مصر پر ان کے اقتدار کی کیفیت یہ بیان فرماتا ہے کہ ساری سرزمین مصر اُن کی تھی (یتبو أ مِنھا حیث یشآء)۔ رہی بائیبل تو دہ شہادت دیتی ہے کہ فرعون نے یوسف ؑ سے کہا:

”سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا ……… اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پاوٴں نہ ہلانے پائے گا۔ اور فرعون نے یوسف ؑ کا نام ضَفِنَات فَعِیحَ (دنیا کا نجات دہندہ)رکھا“۔ (پیدائش ۴١:۳۹ - ۴۵)

اور تلمود کہتی ہے کہ یوسف ؑ کے بھائیوں نے مصر سے واپس جاکر اپنے والد سے حاکم مصر (یوسف ؑ )کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا:

” اپنے ملک کے باشندوں پر اس کا اقتدا سب سے بالا ہے۔ اس کے حکم پر وہ نکلتے اور اسی کے حکم پر وہ داخل ہوتے ہیں۔ اس کی زبان سارے ملک پر فرمانروائی کرتی ہے۔ کسی معاملہ میں فرعون کے اذن کی ضرورت نہیں ہوتی“۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے؟ انہوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظام تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر ”کشاف“میں دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”حضرت یوسف ؑ نے اجعلنی علیٰ خزائن الارض جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اُس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کرلیں جس کے لیے انبیاء بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے“۔

اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظام کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے سوال پر جاکر ٹھیرتا ہے، یعنی یہ کہ حضرت یوسف ؑ ایک راستباز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راستباز تھے تو کیا ایک راستباز انسان کا یہی کام ہے کہ قید خانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ”بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے“، اور بار بار اہل مصر پر بھی واضح کردے کہ تمہارے اِن بہت سے متفرق خود ساختہ خداوٴں میں سے ایک یہ شاہ؟ مصر بھی ہے، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ”فرمانروائی کا اقتدار خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے“، مگر جب عملی آزمائش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اُس نظامِ حکومت کا خادم، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ”فرمانروائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں“تھا؟

حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورانحطاط کے مسلمانوں نے کچھ اُسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گراکر اپنے مرتبے پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اورزیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا۔ انہیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علمبرداروں کی بلندی دیکھ کر انہیں شرم آئی، لہٰذا اس شرم کو مٹانے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انہیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کرسکتا ہے، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتاہو) فوج اور اسلحہ اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کرسکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کرلیتی ہے۔

47 یہ بادشاہ کی طرف سے گویا ایک کھلا اشارہ تھا کہ آپ کو ہر ذمہ داری کا منصب سونپا جاسکتا ہے۔

47. الف اس سے پہلے جو توضیحات گزرچکی ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کوئی نوکری کی درخواست نہیں تھی جو کسی طالبِ جاہ نے وقت کے بادشاہ کا اشارہ پاتے ہی جھٹ سے پیش کردی ہو۔ درحقیقت یہ اُس انقلاب کا دروازہ کھولنے کے لیے آخری ضرب تھی جو حضرت یوسف ؑ کی اخلاقی طاقت سے پچھلے دس بارہ سال کے اندر نشونما پاکر ظہور کے لیے تیار ہوچکا تھا اور اب جس کا فتح باب صرف ایک ٹھونکے ہی کا محتاج تھا۔ حضرت یوسف ؑ آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے۔ اور یہ آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔ ان آزمائشوں میں انہوں نے ثابت کردیا تھا کہ وہ امانت، راستبازی، حِلم، ضبط نفس، عالی ظرفی، ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ ان کی شخصیت کے یہ اوصاف اس طرح کھل چکے تھے کہ کسی کو ان سے انکار کی مجال نہ رہی تھی۔ زبانیں ان کی شہادت دے چکی تھیں۔ دل ان سے مسخر ہوچکے تھے۔ خود بادشاہ ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا۔ اُن کا ”حفیظ“اور”علیم“ہونا اب محض ایک دعویٰ نہ تھا بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لاچکے تھے۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف ؑ خود حکومت کے اُن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وہ کسر تھی جو انہوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کردی۔ ان کی زبان سے اس مطالنے کے نکلتے ہی بادشاہ اور اس کی کونسل نے جس طرح اسے بسروچشم قبول کیا وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پھل اتنا پک چکا تھا کہ اب ٹوٹنے کے لیے ایک اشارے ہی کا منتظر تھا۔ (تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ پوری شاہی کونسل نے بالاتفاق اس کے حق میں رائے دی تھی)۔

یہ اختیارات جو حضرت یوسف ؑ نے مانگے اور ان کو سونپے گئے ان کی نوعیت کیا تھی؟ ناواقف لوگ یہاں ”خزائن ارض“کے الفاظ اور آگے چل کر غلہ کی تقسیم کا ذکر دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ شاید یہ افسر خزانہ، یا افسر مال، یا قحط کمشنر، یا وزیر مالیات، یا وزیر غذائیات کی قسم کا کوئی عہدہ ہوگا۔لیکن قرآن، بائیبل، اورتلمود کی متفقہ شہادت ہے کہ درحقیقت حضرت یوسف ؑ سلطنت مصر کے مختار کل (رومی اصطلاح میں ڈکٹیٹر) بنائے گئے تھے اور ملک کا سیاہ و سپید سب کچھ ان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا۔قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت یعقوب ؑ مصر پہنچے ہیں اس وقت حضرت یوسف ؑ تخت نشین تھے (ورفع ابویہ علی العرش)۔ حضرت یوسف ؑ کی اپنی زبان سے نکلا ہُوا یہ فقرہ قرآن میں منقول ہے کہ”اے میرے رب، تو نے مجھے بادشاہی عطا کی“(رَبَّ قداٰ تَیتنی مِنَ الملک)۔ پیالےکی چوری کے موقع پر سرکاری ملازم حضرت یوسف ؑ کے پیالے کو بادشاہ کا پیالہ کہتے ہیں(قالو انفقد صواع الملک)۔ اور اللہ تعالیٰ مصر پر ان کے اقتدار کی کیفیت یہ بیان فرماتا ہے کہ ساری سرزمین مصر اُن کی تھی (یتبو أ مِنھا حیث یشآء)۔ رہی بائیبل تو دہ شہادت دیتی ہے کہ فرعون نے یوسف ؑ سے کہا:

”سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا ……… اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پاوٴں نہ ہلانے پائے گا۔ اور فرعون نے یوسف ؑ کا نام ضَفِنَات فَعِیحَ (دنیا کا نجات دہندہ)رکھا“۔ (پیدائش ۴١:۳۹ - ۴۵)

اور تلمود کہتی ہے کہ یوسف ؑ کے بھائیوں نے مصر سے واپس جاکر اپنے والد سے حاکم مصر (یوسف ؑ )کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا:

” اپنے ملک کے باشندوں پر اس کا اقتدا سب سے بالا ہے۔ اس کے حکم پر وہ نکلتے اور اسی کے حکم پر وہ داخل ہوتے ہیں۔ اس کی زبان سارے ملک پر فرمانروائی کرتی ہے۔ کسی معاملہ میں فرعون کے اذن کی ضرورت نہیں ہوتی“۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے؟ انہوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظام تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر ”کشاف“میں دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”حضرت یوسف ؑ نے اجعلنی علیٰ خزائن الارض جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اُس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کرلیں جس کے لیے انبیاء بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے“۔

اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظام کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے سوال پر جاکر ٹھیرتا ہے، یعنی یہ کہ حضرت یوسف ؑ ایک راستباز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راستباز تھے تو کیا ایک راستباز انسان کا یہی کام ہے کہ قید خانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ”بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے“، اور بار بار اہل مصر پر بھی واضح کردے کہ تمہارے اِن بہت سے متفرق خود ساختہ خداوٴں میں سے ایک یہ شاہ؟ مصر بھی ہے، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ”فرمانروائی کا اقتدار خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے“، مگر جب عملی آزمائش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اُس نظامِ حکومت کا خادم، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ”فرمانروائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں“تھا؟

حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورانحطاط کے مسلمانوں نے کچھ اُسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گراکر اپنے مرتبے پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اورزیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا۔ انہیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علمبرداروں کی بلندی دیکھ کر انہیں شرم آئی، لہٰذا اس شرم کو مٹانے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انہیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کرسکتا ہے، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتاہو) فوج اور اسلحہ اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کرسکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کرلیتی ہے۔

48. یعنی اب ساری سرزمین مصر اس کی تھی۔ اُس کی ہر جگہ کو وہ اپنی جگہ کہہ سکتا تھا ۔ وہاں کوئی گوشہ بھی ایسا نہ رہا تھا جو اس سے روکا جا سکتا ہو۔ یہ گویا اُس کا مل تسلط اور ہمہ گیر اقتدار کا بیا ن ہے جو حضرت یوسف ؑ کو اُس ملک پر حاصل تھا۔ قدیم مفسرین بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں۔ چنانچہ ابن زید کے حوالہ سے علامہ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ”ہم نے یوسف ؑ کو ان سب چیزوں کا مالک بنا دیا جو مصر میں تھیں، دنیا کے اس حصے میں وہ جہاں جو کچھ چاہتا کر سکتا تھا، وہ سرزمین اس کے حوالہ کر دی گئی تھی، حتیٰ کہ اگر وہ چاہتا کہ فرعون کو اپنا زیر دست کر لے اور خود اس سے بالا تر ہوجائے تو یہ بھی کر سکتا تھا“۔ دوسرا قول علامہ موصوف نے مجاہد کا نقل کیا ہے جو مشہور ائمہ تفسیر میں سےہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ بادشاہ مصر نے یوسف ؑ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

49. یہ تنبیہ ہے اس امر پر کہ کوئی شخص دنیوی حکومت و اقتدار کو نیکی و نکو کاری کا اصلی اجر اور حقیقی اجر مطلوب نہ سمجھ بیٹھے بلکہ خبر دار رہے کہ بہترین اجر ، اور وہ اجر جو مومن کو مطلوب ہونا چاہیے، وہ ہے جو اللہ تعالیٰ آخرت میں عطا فرمائے گا۔