Tafheem ul Quran

Surah 12 Yusuf, Ayat 58-68

وَجَآءَ اِخۡوَةُ يُوۡسُفَ فَدَخَلُوۡا عَلَيۡهِ فَعَرَفَهُمۡ وَهُمۡ لَهٗ مُنۡكِرُوۡنَ‏  ﴿12:58﴾ وَ لَمَّا جَهَّزَهُمۡ بِجَهَازِهِمۡ قَالَ ائۡتُوۡنِىۡ بِاَخٍ لَّكُمۡ مِّنۡ اَبِيۡكُمۡ​ۚ اَلَا تَرَوۡنَ اَنِّىۡۤ اُوۡفِی الۡكَيۡلَ وَاَنَا خَيۡرُ الۡمُنۡزِلِيۡنَ‏  ﴿12:59﴾ فَاِنۡ لَّمۡ تَاۡتُوۡنِىۡ بِهٖ فَلَا كَيۡلَ لَـكُمۡ عِنۡدِىۡ وَلَا تَقۡرَبُوۡنِ‏  ﴿12:60﴾ قَالُوۡا سَنُرَاوِدُ عَنۡهُ اَبَاهُ وَاِنَّا لَفَاعِلُوۡنَ‏ ﴿12:61﴾ وَقَالَ لِفِتۡيٰنِهِ اجۡعَلُوۡا بِضَاعَتَهُمۡ فِىۡ رِحَالِهِمۡ لَعَلَّهُمۡ يَعۡرِفُوۡنَهَاۤ اِذَا انْقَلَبُوۡۤا اِلٰٓى اَهۡلِهِمۡ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏  ﴿12:62﴾ فَلَمَّا رَجَعُوۡۤا اِلٰٓى اَبِيۡهِمۡ قَالُوۡا يٰۤاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الۡكَيۡلُ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَاۤ اَخَانَا نَكۡتَلۡ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ‏ ﴿12:63﴾ قَالَ هَلۡ اٰمَنُكُمۡ عَلَيۡهِ اِلَّا كَمَاۤ اَمِنۡتُكُمۡ عَلٰٓى اَخِيۡهِ مِنۡ قَبۡلُ​ؕ فَاللّٰهُ خَيۡرٌ حٰفِظًا​ وَّهُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِيۡنَ‏ ﴿12:64﴾ وَلَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَهُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَهُمۡ رُدَّتۡ اِلَيۡهِمۡؕ قَالُوۡا يٰۤاَبَانَا مَا نَـبۡغِىۡؕ هٰذِهٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتۡ اِلَيۡنَا​ ۚ وَنَمِيۡرُ اَهۡلَنَا وَنَحۡفَظُ اَخَانَا وَنَزۡدَادُ كَيۡلَ بَعِيۡرٍ​ؕ ذٰ لِكَ كَيۡلٌ يَّسِيۡرٌ‏  ﴿12:65﴾ قَالَ لَنۡ اُرۡسِلَهٗ مَعَكُمۡ حَتّٰى تُؤۡتُوۡنِ مَوۡثِقًا مِّنَ اللّٰهِ لَـتَاۡتُنَّنِىۡ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ يُّحَاطَ بِكُمۡ​ۚ فَلَمَّاۤ اٰتَوۡهُ مَوۡثِقَهُمۡ قَالَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوۡلُ وَكِيۡلٌ‏ ﴿12:66﴾ وَقَالَ يٰبَنِىَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ​ؕ وَمَاۤ اُغۡنِىۡ عَنۡكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍؕ​ اِنِ الۡحُكۡمُ اِلَّا لِلّٰهِ​ؕ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ​ۚ وَعَلَيۡهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُتَوَكِّلُوۡنَ‏ ﴿12:67﴾ وَلَمَّا دَخَلُوۡا مِنۡ حَيۡثُ اَمَرَهُمۡ اَبُوۡهُمۡ ؕمَا كَانَ يُغۡنِىۡ عَنۡهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍ اِلَّا حَاجَةً فِىۡ نَفۡسِ يَعۡقُوۡبَ قَضٰٮهَا​ؕ وَاِنَّهٗ لَذُوۡ عِلۡمٍ لِّمَا عَلَّمۡنٰهُ وَلٰكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿12:68﴾

58 - یُوسُف ؑ کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے۔50 اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے نا آشنا تھے۔51 59 - پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروایا تو چلتے وقت ان سے کہا ”اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا۔ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں۔ 60 - اگر تم اسے نہ لاوٴ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلّہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا۔“52 61 - انہوں نے کہا ”ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہو جائیں، اور ہم ایسا ضرور کریں گے۔“ 62 - یُوسُف ؑ نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ ”ان لوگوں نے غلّے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چُپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو۔“ یہ یُوسُف ؑ نے اِس امید پر کیا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہُوا مال پہچان جائیں گے (یا اِس فیاضی پر احسان مند ہوں گے)اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں۔ 63 - جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا ”ابا جان، آئندہ ہم کو غلّہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تاکہ ہم غلّہ لے کر آئیں۔ اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں۔“ 64 - باپ نے جواب دیا ”کیا میں اُس کے معاملے میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملہ میں کر چکا ہوں؟ اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔“ 65 - پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ اُن کا مال بھی اُنہیں واپس کر دیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پُکار اُٹھے ”ابا جان! اور ہمیں کیا چاہیے، دیکھیے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیا گیا ہے۔ بس اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رَسَد لے آئیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بارِ شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے، اتنے غلّہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا۔“ 66 - ان کے باپ نے کہا ”میں اس کو ہر گز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو گے کہ اِسے میرے پاس ضرور واپس لے کر آوٴ گے اِلّا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاوٴ۔“ جب انہوں نےاس کو اپنے اپنے پیمان دے دیے تو اُس نے کہا ”دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے ۔“ 67 - پھر اُس نے کہا ”میرے بچو، مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا۔53 مگر میں اللہ کی مشیّت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اُسی پر کرے۔“ 68 - اور واقعہ بھی یہ ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے)داخل ہوئے تو اُس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیّت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی۔ ہاں بس یعقوب ؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دُور کرنے کے لیے اُس نے اپنی سی کوشش کر لی ۔ بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحبِ علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں۔54 ؏ ۸


Notes

50. یہاں پھر سات آٹھ برس کے واقعات درمیان میں چھوڑ کر سلسلہ بیان اس جگہ سے جوڑدیا گیا ہے۔ جہاں سے بنی اسرائیل کے مصر منتقل ہونے اور حضرت یعقوب ؑ کو اپنے گم شدہ صاحبزادے کا پتہ ملنے کی ابتداء ہوتی ہے۔ بیچ میں جو واقعات چھوڑ دیے گئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ خواب والی پیش خبری کے مطابق حضرت یوسف ؑ کی حکومت کے پہلے سات سال مصر میں انتہائی خوشحالی کے گزرے اور ان ایام میں انہوں نے آنے والے قحط کے لیے وہ تمام پیش بندیاں کر لیں جن کا مشورہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتاتے وقت وہ دے چکے تھے۔ اس کے بعد قحط کا دور شروع ہوا اور یہ قحط صرف مصر ہی میں نہ تھا بلکہ آس پاس کے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ شام، فلسطین، شرق اردن، شمالی عرب، سب جگہ خشک سالی کا دور دورہ تھا۔ ان حالات میں حضرت یوسف ؑ کے دانشمند انہ انتظام کی بدولت صرف مصر ہی وہ ملک تھا جہاں قحط کے باوجود غلہ کی افراط تھی۔ اس لیے ہمسایہ ممالک کے لوگ مجبور ہوئے کہ غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کی طرف رجوع کریں۔ یہی وہ موقع تھا جب فلسطین سے حضرت یوسف ؑ کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر پہنچے۔ غالباً حضرت یوسف ؑ نے غلہ کی اس طرح ضابطہ بندی کی ہوگی کہ بیرونی ممالک میں خاص اجازت ناموں کے بغیر اور خاص مقدار سے زیادہ غلہ نہ جا سکتا ہوگا۔ اس وجہ سے جب برادران یوسف ؑ نے غیر ملک سے آکر غلہ حاصل کرنا چاہا ہوگا تو انہیں اس کے لیے خاص اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی ہوگی اور اس طرح حضرت یوسف ؑ کے سامنے ان کی پیشی کی نوبت آئی ہوگی۔

51. برادرانِ یوسف ؑ کا آپ کو نہ پہچاننا کچھ بعید ازقیاس نہیں ہے۔ جس وقت انہوں نے آپ کو کنویں میں پھینکا تھا اس وقت آپ صرف سترہ سال کے لڑکے تھے۔ اور اب آپ کی عمر ۳۸ سال کے لگ بھگ تھی۔ اتنی طویل مدت آدمی کو بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ پھر یہ تو ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں پھینک گئے تھے وہ آج مصر کا مختارِ مطلق ہوگا۔

52. اختصار بیا ن کی وجہ سے شاید کسی کو یہ سمجھنے میں دقت ہو کہ حضرت یوسف ؑ جب اپنی شخصیت کو ان پر ظاہر نہ کرنا چاہتے تھے تو پھر ان کے سوتیلے بھائی کا ذکر کیسے آگیا اور اس کے لانے پر اس قدر اصرار کرنے کے کیا معنی تھے، کیونکہ اس طرح تو راز فاش ہوا جاتا تھا۔ لیکن تھوڑا سا غور کرنے سے بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے۔ وہاں غلے کی ضابطہ بندی تھی اور ہر شخص ایک مقرر مقدارِ غلہ ہی لے سکتا تھا۔ غلہ لینے کے لیے یہ دس بھائی تھے۔ مگر وہ اپنے والد اور اپنے گیارھویں بھائی کا حصہ بھی مانگتے ہوں گے۔ ا س پر حضرت یوسف ؑ نے کہا ہوگا کہ تمہارے والد کے خود نہ آنے کے لیے تو یہ عذر معقول ہوسکتا ہے کہ وہ بہت بوڑھے اور نابینا ہیں، مگر بھائی کے نہ آنے کا کیا معقول سبب ہوسکتا ہے؟ کہیں تم ایک فرضی نام سے زائد غلہ حاصل کرنے اور پھر ناجائز تجارت کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب میں اپنے گھر کے کچھ حالات بیان کیے ہوں گے اور بتایا ہوگا کہ وہ ہمارا سوتیلا بھائی ہے اور بعض وجوہ سے ہمارے والد اس کو ہمارے ساتھ بھیجنے میں تامل کرتے ہیں۔ تب حضرت یوسف ؑ نے فرمایا ہوگا کہ خیر، اس وقت تو ہم تمہاری زبان کا اعتبار کر کے تم کو پورا غلہ دیے دیتے ہیں، مگر آئندہ اگر تم اس کو ساتھ نہ لائے تو تمہارا اعتبار جاتا رہے گا اور تمہیں یہاں سے کوئی غلہ نہ مل سکے گا۔ اس حاکمانہ دھمکی کے ساتھ آپ نے ان کو اپنےاحسان اپنی مہمان نوازی سے بھی رام کرنے کی کوشش کی، کیونکہ دل اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھنے اور گھر کے حالات معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ یہ معاملہ کہ ایک سادہ سی صورت ہے جو ذرا غور کرنے سے خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس صورت میں بائیبل کی اُس مبالغہ آمیز داستان پر اعتماد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی جو کتاب پیدائش کے باب ۴۲۔۴۳ میں بڑی رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔

53. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف ؑ کے بعد ان کے بھائی کو بھیجتے وقت حضرت یعقوب ؑ کے دل پر کیا کچھ گزر رہی ہوگی۔ گو خدا پر بھروسہ تھا اور صبر و تسلیم میں ان کا مقام نہایت بلند تھا۔ مگر پھر بھی تھے تو انسان ہی۔ طرح طرح کے اندیشے دل میں آتے ہوں گے اور رہ رہ کر اس خیال سے کانپ اٹھتے ہوں گے کہ خدا جانے اب اس لڑکے کی صورت بھی دیکھ سکوں گا یا نہیں اسی لیے وہ چاہتے ہوں گے اپنی حد تک احتیاط میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی جائے۔

یہ احتیاطی مشورہ کے مصر کے دارلسلطنت میں یہ سب بھائی ایک دروازے سے نہ جائیں ، اُن سیاسی حالات کا تصور کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے جو اس وقت پائے جاتے تھے۔ یہ لوگ سلطنت مصر کی سرحد پر آزاد قبائلی علاقے کے رہنے والے تھے۔ اہل مصر اس علاقے کے لوگوں کو اسی شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس نگاہ سے ہندوستان کی برطانوی حکومت آزاد سرحدی علاقے والوں کو دیکھتی رہی ہے۔ حضرت یعقوب ؑ کو اندیشہ ہوا ہوگا کہ اس قحط کے زمانہ میں اگر یہ لوگ ایک جتھا بنے ہوئے وہاں داخل ہوں گے تو شاید انہیں مشتبہ سمجھا جائے اور یہ گمان کیا جائے کہ یہ یہاں لوٹ مار کی غرض سے آئے ہیں ۔ پچھلی آیت میں حضرت یعقوب ؑ کا یہ ارشاد کہ”اِلَّا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ“۔ اس مضمون کی طرف خود اشارہ کررہا ہے کہ یہ مشورہ سیاسی اسباب کی بنا پر تھا۔

54. اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبیر و توکل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوب  کےمذکورۂ بالا اقوال میں پاتے ہویہ دراصل علم حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالی کے فضل سے ان پر ہوا تھا۔ ایک طرف وہ عالم اسباب قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر اور تجربہ کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں۔بیٹوں کو ان کا پہلا جرم یاد دلا کرزجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرأت نہ کریں۔ان سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حفاظت کریں گے، اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئےجس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہےاسے بھی استعمال کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائےجو ان لوگوں کے گھر جانے کا موجب ہو۔مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیش نظر ہے ، اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی انسانی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتی اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے،اور بھروسہ اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کے فضل پر ہونا چاہیے۔یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اوراپنے کاموں میں وہی شخص قائم کرسکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو۔جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ کی بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے، اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقت نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کارفرما طاقت کونسی ہےاور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسہ کس قدر بے بنیاد ہے۔یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ان میں سے جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکل سے غافل ہوکر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے ، اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بے پروا ہوکر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے۔