Tafheem ul Quran

Surah 12 Yusuf, Ayat 69-79

وَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰى يُوۡسُفَ اٰوٰٓى اِلَيۡهِ اَخَاهُ​ قَالَ اِنِّىۡۤ اَنَا اَخُوۡكَ فَلَا تَبۡتَـئِسۡ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿12:69﴾ فَلَمَّا جَهَّزَهُمۡ بِجَهَازِهِمۡ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِىۡ رَحۡلِ اَخِيۡهِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَ يَّـتُهَا الۡعِيۡرُ اِنَّكُمۡ لَسَارِقُوۡنَ‏ ﴿12:70﴾ قَالُوۡا وَاَقۡبَلُوۡا عَلَيۡهِمۡ مَّاذَا تَفۡقِدُوۡنَ‏ ﴿12:71﴾ قَالُوۡا نَفۡقِدُ صُوَاعَ الۡمَلِكِ وَلِمَنۡ جَآءَ بِهٖ حِمۡلُ بَعِيۡرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيۡمٌ‏ ﴿12:72﴾ قَالُوۡا تَاللّٰهِ لَـقَدۡ عَلِمۡتُمۡ مَّا جِئۡنَا لِـنُفۡسِدَ فِى الۡاَرۡضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِيۡنَ‏ ﴿12:73﴾ قَالُوۡا فَمَا جَزَاۤؤُهٗۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ كٰذِبِيۡنَ‏ ﴿12:74﴾ قَالُوۡا جَزَاۤؤُهٗ مَنۡ وُّجِدَ فِىۡ رَحۡلِهٖ فَهُوَ جَزَاۤؤُهٗ​ؕ كَذٰلِكَ نَجۡزِى الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿12:75﴾ فَبَدَاَ بِاَوۡعِيَتِهِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِيۡهِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَهَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِيۡهِ​ؕ كَذٰلِكَ كِدۡنَا لِيُوۡسُفَ​ؕ مَا كَانَ لِيَاۡخُذَ اَخَاهُ فِىۡ دِيۡنِ الۡمَلِكِ اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ اللّٰهُ​ؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ​ؕ وَفَوۡقَ كُلِّ ذِىۡ عِلۡمٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿12:76﴾ قَالُوۡۤا اِنۡ يَّسۡرِقۡ فَقَدۡ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنۡ قَبۡلُ​ ۚ فَاَسَرَّهَا يُوۡسُفُ فِىۡ نَفۡسِهٖ وَلَمۡ يُبۡدِهَا لَهُمۡ​ ۚ قَالَ اَنۡـتُمۡ شَرٌّ مَّكَانًا ​ۚ وَاللّٰهُ اَعۡلَمُ بِمَا تَصِفُوۡنَ‏ ﴿12:77﴾ قَالُوۡا يٰۤاَيُّهَا الۡعَزِيۡزُ اِنَّ لَهٗۤ اَبًا شَيۡخًا كَبِيۡرًا فَخُذۡ اَحَدَنَا مَكَانَهٗۚ اِنَّا نَرٰٮكَ مِنَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿12:78﴾ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اَنۡ نَّاۡخُذَ اِلَّا مَنۡ وَّجَدۡنَا مَتَاعَنَا عِنۡدَهٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِذًا لَّظٰلِمُوۡنَ‏ ﴿12:79﴾

69 - یہ لوگ یُوسُف ؑ کے حضُور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ ”میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھویا گیا تھا)۔ اب تُو اُن باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔“55 70 - جب یُوسُف ؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔56 پھر ایک پُکارنے والے نے پُکار کر کہا ”اے قافلے والو، تم لوگ چور ہو۔“57 71 - انہوں نے پلٹ کر پُوچھا ”تمہاری کیا چیز کھوئی گئی؟“ 72 - سرکاری ملازموں نے کہا ”بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا“ ( اور ان کے جمعدار نے کہا)”جو شخص لا کر دے گا اُس کے لیے ایک بارِ شتر انعام ہے، اس کا ذمّہ میں لیتا ہوں۔“ 73 - ان بھائیوں نے کہا ”خدا کی قسم، تم لوگ خُوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔“ 74 - اُنہوں نے کہا ”اچھا، اگر تمہاری بات جُھوٹی نکلی تو چور کی کیا سزا ہے؟“ 75 - اُنہوں نے کہا ”اُس کی سزا؟ جس کے سامان میں سے یہ چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے، ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے۔“58 76 - تب یُوسُف ؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خُرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خُرجی سے گم شدہ چیز بر آمد کر لی ۔۔۔۔ اِس طرح ہم نے یُوسُف ؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی۔59 اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا اِلّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔60 ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں، اور ایک علم رکھنے والا ایساہے جو ہر صاحبِ علم سے بالاتر ہے۔ 77 - ان بھائیوں نے کہا ”یہ چوری کرے تو کچھ تعجّب کی بات نہیں، اس سے پہلے اس کا بھائی (یُوسُف ؑ )بھی چوری کر چکا ہے۔“61 یُوسُف ؑ ان کی یہ بات سُن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی، بس (زیرِ لب)اتنا کہہ کر رہ گیا کہ ”بڑے ہی بُرے ہو تم لوگ،(میرے منہ در منہ مجھ پر)جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے۔“ 78 - انہوں نے کہا ”اے سردار ذی اقتدار(عزیز) 62، اس کا باپ بہت بُوڑھا آدمی ہے، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں۔“ 79 - یُوسُف ؑ نے کہا ”پناہِ خدا، دُوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں، جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے63 اُس کو چھوڑ کر دُوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے۔“ ؏ ۹


Notes



55. اس فقرے میں وہ ساری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو اکیس بائیس برس کے بعد دونوں ماں جائے بھائیوں کے ملنے پر پیش آئی ہو گی ۔ حضرت یوسفؑ نے بتایا ہو گا کہ وہ کن حالات سے گزرتے ہوئے اس مرتبے پر پہنچے۔ بنیامین نے سنایا ہوگا کہ ان کے پیچھے سوتیلے بھائیوں نے اس کے ساتھ کیا کیا بد سلوکیاں کیں۔ پھر حضرت یوسفؑ نے بھائی کو تسلی دی ہو گی کہ اب تم میرے پاس ہی رہو گے، ان ظالموں کے پنجوں میں تم کو دوبارہ نہیں جانے دوں گا۔ بعید نہیں کہ اسی موقع پر دونوں بھائیوں میں یہ بھی طے ہو گیا ہوگا کہ بنیامین کو مصر میں روک رکھنے کے لیے کیا تدبیر کی جائے جس سے وہ پردہ بھی پڑا رہے جو حضرت یوسفؑ مصلحتًہ ابھی ڈالے رکھنا چاہتے تھے۔

56. پیالہ رکھنے کافعل غالبًا حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائی ک رضا مندی سے اور اس کے علم میں کیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے والی آیت اشارہ کر رہی ہے۔ حضرت یوسفؑ اپنے مدتوں کے بچھڑے ہوئے بھائی کو ان ظالم سوتیلے بھائیوں کے پنجے سے چھڑانا چاہتے ہوں گے۔ بھائی خود بھی ان ظالموں کے ساتھ واپس نہ جانا چاہتا ہو گا۔ مگر علانیہ آپ کا اسے روکنا اور اس کا رُک جانا بغیر اس کے ممکن نہ تھا کہ حضرت یوسفؑ اپنی شخصیت کو ظاہر کرتے۔ اور اس کا اظہار اس موقع پر مصلحت کے خلاف تھا۔ اس لیے دونوں بھائیوں میں مشورہ ہوا ہو گا کہ اسے روکنے کے یہ تدبیر کی جائے۔ اگرچہ تھوڑی دیر کے لیے اس میں بھائی کی سبکی تھی کہ اس پر چوری کا دھبہ لگتا تھا ، لیکن بعد میں یہ دھبہ اس طرح بآسانی دُھل سکتا تھا کہ دونوں بھائی اصل معاملہ کو دنیا پر ظاہر کر دیں۔

57. اس آیت میں ، اور بعد والی آیات میں بھی کہیں ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جا سکے کہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے ملازموں کو اس راز میں شریک کیا تھا اور انہیں خود یہ سکھایا تھا کہ قافلے والوں پر جھوٹا الزام لگاؤ۔ واقعے کی سادہ صورت جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیالہ خاموشی کے ساتھ رکھ دیا ہو گا ، بعد میں جب سرکاری ملازموں نے اسے نہ پایا ہو گا تو قیاس کیا ہو گا کہ ہو نہ ہو یہ کام انہی قافلے والوں میں سے کسی کا ہے جو یہاں ٹھیرے ہوئے تھے۔

58. خیال رہے کہ یہ بھائی خاندانِ ابراہیمی کے افراد تھے، لہٰذا انہوں نے چوری کے معاملہ میں جو قانون بیان کیا وہ شریعت ِ ابراہیمی کا قانون تھا، یعنی یہ کہ چور اس شخص کی غلامی میں دے دیا جائے جس کا مال اس نے چرایا ہو۔

59. یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ اس پورے سلسلۂ واقعات میں وہ کون سی تدبیر ہے جو حضرت یوسفؑ کی تائید میں براہِ راست خدا کی طرف سے کی گئی؟ ظاہر ہے کہ پیالہ رکھنے کی تدبیر تو حضرت یوسفؑ نے خود کی تھی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ سرکاری ملازموں کا چوری کے شبہ میں قافلے والوں کو روکنا بھی حسبِ معمول و ہ کام تھا جو ایسے مواقع پر سب سرکاری ملازم کیا کر تے تھے۔ پھر وہ خاص خدائی تدبیر کون سی ہے ؟ اوپر کی آیات میں تلاش کرنے سے اس کے سوا کسی دوسری چیز کو اس کا مقصد نہیں ٹھیرا یا جا سکتا کہ سرکاری ملازموں نے خلافِ معمول خود مشتبہ ملزموں سے چور کی سزا پوچھی، اور انہوں نے وہ سزا بتائی جو شریعتِ ابراہیمی کی رو سے چور کو دی جاتی تھی۔ اس کے دو فائدے ہوئے ایک یہ کہ حضرت یوسفؑ کو شریعتِ ابراہیمی پر عمل کا موقع مل گیا ۔ دوسرا یہ کہ بھائی کو حوالات میں بھیجنے کے بجائے اب وہ اسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔

60. یعنی یہ بات حضرت یوسف ؑ کی شان پیغمبری کے شایاں نہ تھی کہ وہ اپنے ایک ذاتی معاملہ میں شاہ مصر کے قانون پر عمل کرتے۔ اپنے بھائی کو روک رکھنے کے لیے انہوں نے خود جو تدبیر کی تھی اس میں خلل رہ گیا تھا کہ بھائی کو روکا تو ضرور جاسکتا تھا مگر شاہ مصر کے قانونِ تعزیرات سے کام لینا پڑتا، اور یہ اس پیغمبر کی شان کے مطابق نہ تھا جس نے اختیاراتِ حکومت غیر اسلامی قوانین کی جگہ اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں لیے تھے۔ اگر اللہ چاہتا تو اپنے نبی کو اس بدنما غلطی میں مبتلا ہوجانے دیتا، مگر اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ یہ دھبہ اس کے دامن پر رہ جائے، اس لیے اس نے براہ راست اپنی تدبیر سے یہ راہ نکال دی کہ اتفاقاً برادران یوسف ؑ سے چور کی سزا پوچھ لی گئی اور انہوں نے اس کے لیے شریعتِ ابراہیمی کا قانون بیان کردیا۔ یہ چیز اس لحاظ سے بالکل برمحل تھی کہ برادران یوسف ؑ مصری رعایا نہ تھے، ایک آزاد علاقے سے آئے ہوئے لوگ تھے، لہٰذا اگر وہ خود اپنے ہاں کے دستور کے مطابق اپنے آدمی کو اُس شخص کی غلامی میں دینے کے لیے تیار تھے جس کا مال اس نے چرایا تھا، تو پھر مصری قانونِ تعزیرات سے اس معاملہ میں مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہی وہ چیز ہے جس کو بعد کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور اپنی علمی برتری سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک بندے کے لیے اس سے بڑھ کر بلندیِ درجہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ اگر وہ کبھی بشری کمزوری کی بنا پر خود کسی لغزش میں مبتلا ہو رہا ہو تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کو بچانے کا انتظام فرمادے۔ ایسا بلند مرتبہ صرف انہی لوگوں کو ملا کرتا ہے جو اپنی سعی و عمل سے بڑی بڑی آزمائشوں میں اپنا ”محسن“ ہونا ثابت کرچکے ہوتے ہیں۔ اور اگر چہ حضرت یوسف ؑ صاحبِ علم تھے، خود بہت دانشمندی کے ساتھ کام کرتے تھے، مگر پھر بھی اس موقع پر ان کے علم میں ایک کسر رہ ہی گئی اور اُسے اس ہستی نے پورا کیا جو ہر صاحب علم سے بالاتر ہے۔

یہاں چند امور اور وضاحت طلب رہ جاتے ہیں جن پر ہم مختصر کلام کریں گے:

(١) عام طور پر اس آیت کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ”یوسف ؑ بادشاہ کے قانون کی رو سے اپنے بھائی کو نہ پکڑ سکتا تھا“۔ یعنی ماکان لیاخذ کو مترجمین و مفسرین عدم قدرت کے معنی میں لیتے ہیں نہ کہ عدم صحت اور عدم مناسبت کے معنی میں۔ لیکن اوّل تو یہ ترجمہ و تفسیر عربی محاورے اور قرآنی استعمالات دونوں کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ عربی میں عموماً ماکان لہ بمعنی ما ینبغی لہ، ماصح لہ، ما استقام لہُ، وغیرہ آتا ہے اور قرآن میں بھی یہ زیادہ تر اسی معنی میں آیا ہے۔ مثلاً مَا کَانَ اللہُ اَن یَّتَّخِذَ مِن وَّلَدٍ۔ مَاکَانَ لَنَآ اَن نُّشرِکَ بِا للہِ مِن شَی ءٍ۔ مَا کَانَ اللہُ لِیُطلِعَکُم عَلَی الغَیبِ۔ مَاکَانَ اللہُ لِیُضِیعَ اِیمَانَکُم۔ فَمَا کَانَ اللہُ لِیَظلِمَہُم۔ مَاکَانَ اللہُ لِیَذَرَالمُوٴمِنِینَ عَلیٰ مَآ اَنتُم عَلَیہِ۔ مَا کَانَ ،ِمُوٴمِنٍ اَن یَّقتُلَ مُوٴ مِنًا۔ دوسرے اگر اس کے وہ معنی لیے جائیں جو مترجمین و مفسرین بالعموم بیان کرتے ہیں تو بات بالکل مہمل ہوجاتی ہے۔ بادشاہ کے قانون میں چور کو نہ پکڑسکنے کی آخر وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ کیا دنیا میں کبھی کوئی سلطنت ایسی بھی رہی ہے جس کا قانون چور کو گرفتار کرنے کی اجازت نہ دیتا ہو؟

(۲) اللہ تعالیٰ نے شاہی قانون کے لیے ”دین الملک“ کا لفظ استعمال کرکے خود اُس مطلب کی طرف اشارہ فرمادیا ہے جو ماکان لیاخذ سے لیا جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کا پیغمبر زمین میں”دین اللہ“جاری کرنے کے لیے مبعوث ہُوا تھا نہ کہ ”دین الملک“ جاری کرنے کے لیے۔ اگر حالات کی مجبوری سے اُس کی حکومت میں اُس وقت تک پوری طرح دین الملک کی جگہ دین اللہ جاری نہ ہوسکا تھا تب بھی کم از کم پیغمبر کا اپنا کام تو یہ نہ تھا کہ اپنے ایک شخصی معاملہ میں دین الملک پر عمل کرے۔ لہٰذا حضرت یوسف ؑ کا دین الملک کے مطابق اپنے بھائی کو نہ پکڑنا اس بنا پر نہیں تھا کہ دین الملک میں ایسا کرنے کی گنجائش نہ تھی، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ پیغمبر ہونے کی حیثیت سے اپنی ذاتی حد تک دین اللہ پر عمل کرنا ان کا فرض تھا اور دین الملک کی پیروی ان کے لیے قطعاً نامناسب تھی۔

(۳) قانون مُلکی(Law of the land ) کے یے لفظ ”دین“ استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے معنی دین کی وسعت پوری طرح واضح کردی ہے۔ اِس سے اُن لوگوں کے تصورِ دین کی جڑ کٹ جاتی ہےجو انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو صرف عام مذہبی معنوں میں خدائے واحد کی پوجا کرانے اور محض چند مزہبی مراسم و عقائد کی پابندی کرالینے تک محدود سمجھتے ہیں، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ انسانی تمدّن ، سیاست، معیشت، عدالت، قانون اور ایسے ہی دوسرے دنیوی امور کا کوئی تعلق دین سے نہیں ہے، یا اگر ہے بھی تو ان اُمور کے بارے میں دین کی ہدایات محض اختیاری سفارشات ہیں جب پر اگر عمل ہوجائے تو اچھا ہے ورنہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے اصول و ضوابط قبول کرلینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ سراسر گمراہانہ تصورِدین، جس کا ایک مدت سے مسلمانوں میں چرچا ہے، جو بہت بڑی حد تک مسلمانوں کو اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی سعی سے غافل کرنے کا ذمہ دار ہے، جس کی بدولت مسلمان کفر و جاہلیت کے نظامِ زندگی پر نہ صرف راضی ہوئے بلکہ ایک نبی کی سنت سمجھ کر اس نظام کے پُرزے بننے اور اس کو خود چلانے کے لیے بھی آمادہ ہوگئے، اِس آیت کی رو سے قطعاً غلط ثابت ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ صاف بتارہا ہے کہ جس طرح نماز، روزہ اور حج دین ہے اسی طرح وہ قانون بھی دین ہے جس پر سوسائٹی کا نظام اور ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے۔ لہٰذا اِنَّ الدِّینَ عِندَاللہِ الاِسلَامُ اوروَمَن یَّبتَغِ غَیرَالاِسلَامِ دِینًا فَلَن یُّقبَلَ مِنہُ وغیرہ آیات میں جس دین کی اطاعت کا مطالبہ کیا گیا ہے اس سے مراد صرف نماز، روزہ ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کا اجتماعی نظام بھی ہے جس سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام کی پیروی خدا کے ہاں ہرگز مقبول نہیں ہوسکتی۔

(۴) سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک مصر کی حکومت میں”دین الملک“ ہی جاری تھا۔ اب اگر اس حکومت کے حاکم اعلیٰ حضرت یوسف ؑ ہی تھے، جیسا کہ تم خود پہلے ثابت کرچکے ہو، تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ ، خدا کے پیغمبر، خود اپنے ہاتھوں سے ملک میں ”دین الملک“ جاری کررہے تھے۔ اس کے بعد اگر اپنے ذاتی معاملہ میں حضرت یوسف ؑ نے ”دین الملک“ کے بجائے شریعت ابراہیمی پر عمل کیا بھی تو اس سے فرق کیا واقع ہُوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ مامور تو دین اللہ جاری کرنے ہی پر تھے اور یہی ان کا پیغمبرانہ مشن اور ان کی حکومت کا مقصد تھا، مگر ایک ملک کا نظام عملاً ایک دن کے اندر نہیں بدل جایا کرتا۔ آج اگر کوئی ملک بالکلیہ ہمارے اختیار میں ہو اور ہم اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں، تب بھی اس کے نظام تمدّن، نظامِ معاشی، نظام سیاست اور نظام عدالت و قانون کو بالفعل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی سابق قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے۔ کیا تاریخ اس بات پر شاہد نہیں ہے کہ خود نبی ؐ کو بھی عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے؟ اس دوران میں خاتم النبیین ؐ کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی، سودلیا اور دیا جاتا رہا، جاہلیت کا قانونِ میراث جاری رہا، پرانے قوانین نکاح و طلاق برقرار رہے، بیوعِ فاسدہ کی بہت سی صورتیں عمل میں آتی رہیں، اور اسلامی قوانین دیوانی و فوجداری بھی اول روز ہی بتمام و کمال نافذ نہیں ہوگئے۔ پس اگر حضرت یوسف ؑ کی حکومت میں ابتدائی آٹھ نو سال تک سابق مصری بادشاہت کے کچھ قوانین چلتے رہے ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اور اس سے یہ دلیل کیسے نکل آتی ہے کہ خدا کا پیغمبر مصر میں خدا کے دین کو نہیں بلکہ بادشاہ کے دین کو جاری کرنے پر مامور تھا۔ رہی یہ بات کہ جب ملک میں دین الملک جاری تھا ہی تو آخر حضرت یوسف ؑ کی اپنی ذات کے لیے اس پر عمل کرنا کیوں شایانِ شان نہ تھا، تو یہ سوال بھی نبی ؐ کے طریقہ پر غور کرنے سے بآسانی حل ہوجاتا ہے۔ نبی ؐ کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب تک قوانین اسلامی جاری نہ ہوئے تھے، لوگ پُرانے طریقے کے مطابق شراب پیتے رہے، مگر کیا حضور ؐ نے بھی پی؟ لوگ سود لیتے دیتے تھے، مگر کیا آپ ؐ نے بھی سودی لین دین کیا؟ لوگ متعہ کرتے رہے اور جمع بین الاختین کرتے رہے، مگر کیا حضور ؐ نے بھی ایسا کیا؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی اسلام کا عملی مجبوریوں کی بنا پر احکام اسلامی کے اجراء میں تدریج سے کام لینا اور چیز ہے اور اس کا خود اس تدریج کے دور میں جاہلیت کے طریقوں پر عمل کرنا اور چیز۔ تدریج کی رخصتیں دوسروں کے لیے ہیں۔ داعی کا اپنا یہ کام نہیں ہے کہ خود ان طریقوں میں سے کسی پر عمل کرے جن کے مٹانے پر وہ مامور ہُوا ہے۔

61. یہ انہوں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا ۔ پہلے کہہ چکے تھے کہ ہم لوگ چور نہیں ہیں۔ اب جو دیکھا کہ مال ہمارے بھائی کی خرجی سے برآمد ہوگیا ہے تو فوراً ایک جھوٹی بات بنا کر اپنے آپ کو اس بھائی سے الگ کر لیا اور اس کے ساتھ اس کے پہلے بھائی کو بھی لپیٹ لیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت یوسفؑ کے پیچھے بن یمین کے ساتھ ان بھائیوں کا کیا سلو ک رہا ہو گا اور کس بنا پر اس کی اور حضرت یوسفؑ کی یہ خواہش ہو گی کہ وہ ان کے ساتھ نہ جائے۔

62. یہاں لفظ”عزیز“ حضرت یوسفؑ کے لیے جو استعمال ہواہے صرف اس بنا پر مفسرین نے قیاس کر لیا کہ حضرت یوسفؑ اسی منصب پر مامور ہوئے تھے جس پر اس سے پہلے زلیخا کا شوہر مامور تھا۔ پھر اس پر مزید قیاسات کی عمار ت کھڑی کر لی گئی کہ سابق عزیز مر گیا تھا ، حضرت یوسفؑ اس کی جگہ مقرر کیے گئے ، زلیخا از سر نو معجزے کے ذریعہ سے جو ان کی گئی ، اور شاہ ِ مصر نے اس سے حضرت یوسفؑ کا نکا ح کر دیا۔ حد یہ ہے کہ شب عروسی میں حضرت یوسفؑ اور زلیخا کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ تک کسی ذریعہ سے ہمارے مفسرین کو پہنچ گئیں۔ حالانکہ یہ سب باتیں سراسر وہم ہیں ۔ لفظ ”عزیز“ کے متعلق ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ مصر میں کسی خاص منصب کا نام نہ تھا بلکہ محض”صاحب اقتدار“ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔ غالبًا مصر میں بڑے لوگوں کے لیے اُس طرح کا کوئی لفظ اصطلاحًا رائج تھا جیسے ہمارے ملک میں لفظ”سرکار“ بولا جاتا ہے۔ اسی کا ترجمہ قرآن میں ”عزیز“ کیا گیا ہے۔ رہا زلیخا سے حضرت یوسفؑ کا نکاح، تو اس افسانے کی بنیاد صرف یہ ہے کہ بائیبل اور تلمود میں فوطیفرع کی بیٹی آسناتھ سے اُن کے نکاح کی روایت بیان کی گئی ہے ۔ اور زلیخا کے شوہر کا نام فوطیفار تھا۔ یہ چیزیں اسرائیلی روایات سے نقل در نقل ہوتی ہوئی مفسرین تک پہنچیں ور جیسا کہ زبانی افواہوں کا قاعدہ ہے ، فوطیفرع بآسانی فوطیفار بن گیا، بیٹی کی جگہ بیوی کو مل گئی اور بیوی لامحالہ زلیخا ہی تھی ، لہٰذا اس سے حضرت یوسفؑ کا نکاح کرنے کے لیے فوطیفار کو مار دیا گیا ، اور اس طرح ”یوسف زلیخا“ کی تصنیف مکمل ہو گئی۔

63. احتیاط ملاحظہ ہو کہ ”چور“ نہیں کہتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ”جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے“ اسی کو اصطلاح شرع میں ”توریہ“ کہتے ہیں، یعنی”حقیقت پر پردہ ڈالنا“ یا ” امر واقعہ کو چھپانا“۔ جب کسی مظلو م کو ظالم سے بچانے یا کسی بڑے مظلمہ کو دفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ کچھ خلاف واقعہ بات کہی جائے یا کوئی خلاف حقیقت حیلہ کیا جائے ، تو ایسی صورت میں ایک پرہیز گار آدمی صریح جھوٹ بولنے سے احتراز کرتے ہوئے ایسی بات کہنے یا ایسی تدبیر کرنے کی کوشش کرے گا جس سے حقیقت کو چھپا کر بدی کو دفع کیا جا سکے۔ ایسا کرنا شرع و اخلاق میں جائز ہے ، بشرطیکہ محض کام نکالنے کے لیے ایسا نہ کیا جائے بلکہ کسی بڑی برائی کو دُور کرنا ہو۔ اب دیکھیے کہ اس سارے معاملہ میں حضرت یوسفؑ نے کس طرح جائز تو ریہ کی شرائط پوری کی ہیں ۔ بھائی کی رضا مندی سے اس کے سامان میں پیالہ رکھ دیا مگر ملازموں سے یہ نہیں کہا کہ اس پر چوری کا الزام لگاؤ۔ پھر جب سرکاری ملازم چوری کے الزام میں ان لوگوں کو پکڑ لائے تو خاموشی کے ساتھ اُٹھ کر تلاشی لے لی۔ پھر اب جو ان بھائیوں نے کہا کہ بن یمین کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے تو اس کے جواب میں بھی بس اُنہی کی بات اُن پر الٹ دی کہ تمہارا اپنا فتویٰ یہ تھا کہ جس کے سامان میں سے تمہارا مال نکلے وہی رکھ لیا جائے ، سو اب تمہارے سامنے بن یمین کے سامان میں سے ہمارا مال نکلا ہے اور اسی کو ہم رکھے لیتے ہیں، دوسرے کو اس کی جگہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اس قسم کے توریہ کی مثالیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں بھی ملتی ہیں ، اور کسی دلیل سے بھی اس کو اخلاقًا معیوب نہیں کہا جا سکتا۔