Tafheem ul Quran

Surah 12 Yusuf, Ayat 7-20

لَقَدۡ كَانَ فِىۡ يُوۡسُفَ وَاِخۡوَتِهٖۤ اٰيٰتٌ لِّـلسَّآئِلِيۡنَ‏ ﴿12:7﴾ اِذۡ قَالُوۡا لَيُوۡسُفُ وَاَخُوۡهُ اَحَبُّ اِلٰٓى اَبِيۡنَا مِنَّا وَنَحۡنُ عُصۡبَةٌ  ؕ اِنَّ اَبَانَا لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنِ ​ۖ ​ۚ‏ ﴿12:8﴾ اۨقۡتُلُوۡا يُوۡسُفَ اَوِ اطۡرَحُوۡهُ اَرۡضًا يَّخۡلُ لَـكُمۡ وَجۡهُ اَبِيۡكُمۡ وَ تَكُوۡنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِهٖ قَوۡمًا صٰلِحِيۡنَ‏ ﴿12:9﴾ قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡهُمۡ لَا تَقۡتُلُوۡا يُوۡسُفَ وَاَلۡقُوۡهُ فِىۡ غَيٰبَتِ الۡجُـبِّ يَلۡتَقِطۡهُ بَعۡضُ السَّيَّارَةِ اِنۡ كُنۡتُمۡ فٰعِلِيۡنَ‏ ﴿12:10﴾ قَالُوۡا يٰۤاَبَانَا مَا لَـكَ لَا تَاۡمَنَّا عَلٰى يُوۡسُفَ وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوۡنَ‏ ﴿12:11﴾ اَرۡسِلۡهُ مَعَنَا غَدًا يَّرۡتَعۡ وَيَلۡعَبۡ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ‏  ﴿12:12﴾ قَالَ اِنِّىۡ لَيَحۡزُنُنِىۡ اَنۡ تَذۡهَبُوۡا بِهٖ وَاَخَافُ اَنۡ يَّاۡكُلَهُ الذِّئۡبُ وَاَنۡـتُمۡ عَنۡهُ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿12:13﴾ قَالُوۡا لَـئِنۡ اَكَلَهُ الذِّئۡبُ وَنَحۡنُ عُصۡبَةٌ اِنَّاۤ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ‏  ﴿12:14﴾ فَلَمَّا ذَهَبُوۡا بِهٖ وَاَجۡمَعُوۡۤا اَنۡ يَّجۡعَلُوۡهُ فِىۡ غَيٰبَتِ الۡجُبِّ​ۚ وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡهِ لَـتُنَـبِّئَـنَّهُمۡ بِاَمۡرِهِمۡ هٰذَا وَهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏  ﴿12:15﴾ وَجَآءُوۡۤ اَبَاهُمۡ عِشَآءً يَّبۡكُوۡنَؕ‏ ﴿12:16﴾ ​قَالُوۡا يٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَهَبۡنَا نَسۡتَبِقُ وَتَرَكۡنَا يُوۡسُفَ عِنۡدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئۡبُ​ۚ وَمَاۤ اَنۡتَ بِمُؤۡمِنٍ لَّنَا وَلَوۡ كُنَّا صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿12:17﴾ وَجَآءُوۡ عَلٰى قَمِيـۡصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ​ؕ قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَـكُمۡ اَنۡفُسُكُمۡ اَمۡرًا​ؕ فَصَبۡرٌ جَمِيۡلٌ​ؕ وَاللّٰهُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوۡنَ‏  ﴿12:18﴾ وَجَآءَتۡ سَيَّارَةٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَهُمۡ فَاَدۡلٰى دَلۡوَهٗ​ ؕ قَالَ يٰبُشۡرٰى هٰذَا غُلٰمٌ​ ؕ وَاَسَرُّوۡهُ بِضَاعَةً  ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿12:19﴾ وَشَرَوۡهُ بِثَمَنٍۢ بَخۡسٍ دَرَاهِمَ مَعۡدُوۡدَةٍ​ ۚ وَكَانُوۡا فِيۡهِ مِنَ الزّٰهِدِيۡنَ‏ ﴿12:20﴾

7 - حقیقت یہ ہے کہ یُوسُف ؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ 8 - یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا ”یہ یوسف ؑ اور اس کا بھائی،8 دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں، سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں۔9 9 - چلو یُوسف ؑ کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۔ یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا۔“10 10 - اس پر ان میں سے ایک بولا ”یُوسف ؑ کو قتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اُسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو، کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا۔“ 11 - اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا ”ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یُوسف کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں؟ 12 - کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیے، کچھ چَر چُگ لے گااور کھیل کُود سے بھی دِل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔“11 13 - باپ نے کہا ”تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جب کہ تم اس سے غافل ہو۔“ 14 - انہوں نے جواب دیا” اگر ہمارے ہوتے اسے بھیڑیے نے کھا لیا، جب کہ ہم ایک جتھا ہیں،تب تو ہم بڑے ہی نکمّے ہوں گے۔“ 15 - اِس طرح اسرار کر کے جب وہ اُسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنوئیں میں چھوڑ دیں، تو ہم نے یُوسف کو وحی کی کہ ”ایک وقت آئے گا جب تُو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں۔“12 16 - شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے 17 - اور کہا ”ابّا جان، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یُوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آکر اُسے کھا گیا۔ آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں۔“ 18 - اور وہ یُوسف کی قمیص پر جھُوٹ مُوٹ کا خون لگا کر لے آئے تھے۔ یہ سُن کر اُن کے باپ نے کہا ”بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا، صبر کروں گااور بخوبی کروں گا،13 جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے۔“14 19 - اُدھر ایک قافلہ آیا اور اُس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کے لیے بھیجا۔ سقّے نے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو (یُوسُف کو دیکھ کر )پکار اُٹھا ”مبارک ہو، یہاں تو ایک لڑکا ہے۔“ ان لوگوں نے اُس کو مالِ تجارت سمجھ کر چھُپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اُس سے با خبر تھا۔ 20 - آخرِ کار انہوں نے اس کو تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا15 اور وہ اس کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے اُمیدوار نہ تھے۔ ؏ ۲


Notes

8. اس سے مراد حضرت یوسف ؑ کے حقیقی بھائی بن یمین ہیں جو ان سے کئی سال چھوٹے تھے۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب ؑ ان دونوں بے ماں کے بچوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ان سے محبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کی ساری اولاد میں صرف ایک حضرت یوسف ؑ ہی ایسے تھے جن کے اندر اُن کو آثارِ رُشد و سعادت نظر آتے تھے۔ اوپر حضرت یوسف ؑ کا خواب سن کر انہوں نے جو کچھ فرمایا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس بیٹے کی غیر معمولی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے۔ دوسری طرف ان دس بڑے صاحبزادوں کی سیرت کا جو حال تھا اس کا اندازہ بھی آگے کے واقعات سے ہوجاتا ہے۔ پھر کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک نیک انسان ایسی اولاد سے خوش رہ سکے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بائیبل میں برادرانِ یوسف ؑ کے حسد کی ایک ایسی وجہ بیان کی گئی ہے جس سے اُلٹا الزام حضرت یوسف ؑ پر عائد ہوتا ہے۔ اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ بھائیوں کی چغلیاں باپ سے کھایا کرتے تھے اس وجہ سے بھائی ان سے ناراض تھے۔

9. اس فقرے کی رُوح سمجھنے کے لیے بدویانہ قبائلی زندگی کے حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ جہاں کوئی ریاست موجود نہیں ہوتی اور آزاد قبائل ایک دوسرے کے پہلو میں آباد ہوتے ہیں، وہاں ایک شخص کی قوت کا سارا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کے اپنے بیٹے، پوتے، بھائی، بھتیجے بہت سے ہوں جو وقت آنے پر اس کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے اس کا ساتھ دے سکیں۔ ایسے حالات میں عورتوں اور بچوں کی بہ نسبت فطری طور پر آدمی کو وہ جوان بیٹے زیادہ عزیز ہوتے ہیں جو دشمنوں کے مقابلہ میں کام آسکتے ہوں۔ اسی بنا پر ان بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد بڑھاپے میں سٹھیا گئے ہیں۔ ہم جوان بیٹوں کا جتھا، جو بُرے وقت پر اُن کے کام آسکتا ہے، ان کو اتنا عزیز نہیں ہے جتنے یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ان کے کسی کام نہیں آسکتے بلکہ الٹے خود ہی حفاظت کے محتاج ہیں۔

10. یہ فقرہ اُن لوگوں کے نفسیات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے جو اپنے آپ کو خواہشاتِ نفس کے حوالے کردینے کے ساتھ ایمان اور نیکی سے بھی کچھ رشتہ جوڑے رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی نفس ان سے کسی برے کام کا تقاضا کرتا ہے تو وہ ایمان کے تقاضوں کو ملتوی کرکے پہلے نفس کا تقاضا پورا کرنے پر تُل جاتے ہیں اور جب ضمیر اندر سے چٹکیاں لیتا ہے تو اسے یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذرا صبر کر، یہ ناگزیر گناہ، جس سے ہمارا کام اٹکا ہُوا ہے، کر گزرنے دے، پھر ان شاءاللہ ہم توبہ کرکے ویسے ہی نیک بن جائیں گے جیسا تو ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔

11. یہ بیان بھی بائیبل اور تَلمود کے بیان سے مختلف ہے۔ ان کی روایت یہ ہے کہ برادرانِ یوسف ؑ اپنے مویشی چَرانے کے لیے سِکّم کی طرف گئے ہوئے تھے اور ان کے پیچھے خود حضرت یعقوب ؑ نے ان کی تلاش میں حضرت یوسف ؑ کو بھیجا تھا۔ مگر یہ بات بعید از قیاس ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے یوسف ؑ کے ساتھ ان کے حسد کا حال جاننے کے باوجود انہیں آپ اپنے ہاتھوں موت کے منہ میں بھیجا ہو۔ اس لیے قرآن کا بیان ہی زیادہ مناسب حال معلوم ہوتا ہے۔

12. متن میں وَھُم لَایَشعُرُونَ کے الفاظ کچھ ایسے انداز سے آئے ہیں کہ ان سے تین معنی نکلتے ہیں اور تینوں ہی لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم یوسف ؑ کو یہ تسلی دے رہے تھے اور اس کے بھائیوں کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس پر وحی کی جاری ہے۔ دوسرے یہ کہ تو ایسے حالات میں ان کی یہ حرکت انہیں جتائے گا جہاں تیرے ہونے کا انہیں وہم و گمان تک نہ ہوگا۔ تیسرے یہ کہ آج یہ بے سمجھے بوجھے ایک حرکت کررہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آئندہ اس کے نتائج کیا ہونے والے ہیں۔

بائیبل اور تَلمود اس ذکر سے خالی ہیں کہ اس وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے یوسف ؑ کو کوئی تسلی بھی دی گئی تھی۔ اس کے بجائے تلمود میں جو روایت بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف ؑ کنویں میں ڈالے گئے تو وہ بہت بُلبلائے اور خوب چیخ چیخ کر انہوں نے بھائیوں سے فریاد کی۔ قرآن کا بیان پڑھیے تو محسوس ہوگا کہ ایک ایسے نوجوان کا بیان ہورہا ہے جو آگے جل کر تاریخ انسانی کی عظیم ترین شخصیتوں میں شمار ہونے والا ہے۔ تلمود کو پڑھیے تو کچھ ایسا نقشہ سامنے آئے گا کہ صحرا میں چند بدو ایک لڑکے کو کنویں میں پھینک رہے ہیں اور وہ وہی کچھ کررہا ہے جو ہر لڑکا ایسے موقع پر کرے گا۔

13. متن میں”صبر جمیل“ کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ”اچھا صبر“ ہوسکتا ہے۔ اس سے مراد ایسا صبر ہے جس میں شکایت نہ ہو، فریاد نہ ہو، جَزَع فزع نہ ہو، ٹھنڈے دل سے اس مصیبت کو برداشت کیا جائے جو ایک عالی ظرف انسان پر آپڑی ہو۔

14. بائیبل اور تلمود یہاں حضرت یعقوب ؑ کے تاثر کا نقشہ بھی کچھ ایسا کھینچتی ہیں جو کسی معمولی باپ کے تاثر سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ بائیبل کا بیان یہ ہےکہ ”تب یعقوب نے اپنا پیراہن چاک کیا اور ٹاٹ اپنی کمر سے لپیٹا اور بہت دنوں تک اپنے بیٹے کے لیے ماتم کرتا رہا“۔ اور تلمود کا بیان ہے کہ ”یعقوب بیٹے کا قمیص پہچانتے ہی اوندھے منہ زمین پر گر پڑا اور دیر تک بے حس و حرکت پڑا رہا، پھر اٹھ کر بڑے زور سے چیخا کہ ہاں یہ میرے بیٹے ہی کا قمیص ہے …………. اور وہ سالہا سال تک یوسف ؑ کا ماتم کرتا رہا“۔ اس نقشے میں حضرت یعقوب ؑ وہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں جو ہر باپ ایسے موقع پر کرے گا۔ لیکن قرآن جو نقشہ پیش کررہا ہے اس سے ہمارے سامنے ایک ایسے غیر معمولی انسان کی تصویر آتی ہے جو کمال درجہ بردبار و باوقار ہے، اتنی بڑی غم انگیز خبر سن کر بھی اپنے دماغ کا توازن نہیں کھوتا، اپنی فراست سے معاملہ کی ٹھیک ٹھیک نوعیت کو بھانپ جاتا ہے کہ یہ ایک بناوٹی بات ہے جو ان حاسد بیٹوں نے بناکر پیش کی ہے، اور پھرعالی ظرف انسانوں کی طرح صبر کرتا ہے اور خدا پر بھروسہ کرتا ہے۔

15. اس معاملہ کی سادہ صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ برادران یوسف ؑ حضرت یوسف ؑ کو کنویں میں پھینک کر چلے گئے تھے بعد میں قافلے والوں نے آکر ان کو وہاں سے نکالا اور مصر لے جاکر بیچ دیا۔ مگر بائیبل کا بیان ہے کہ برادران یوسف ؑ نے بعد میں اسما عیلیوں کے ایک قافلے کو دیکھا اور چاہا کہ یوسف ؑ کو کنویں سے نکال ان کے ہاتھ بیچ دیں۔ لیکن اس پہلے ہی مَدین کے سوداگر انہیں کنویں سے نکال چکے تھے۔ ان سوداگروں نے حضرت یوسف ؑ کو بیس روپے میں اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔پھر آگے چل کر بائیبل کے مصنفین یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر وہ اسماعیلیوں کے ہاتھ حضرت یوسف ؑ کو فروخت کراچکے ہیں۔ چنانچہ وہ اسماعیلیوں کے بجائے پھر مدین ہی کے سوداگروں سے مصر میں انہیں دوبارہ فروخت کراتے ہیں (ملاحظہ ہو کتاب پیدائش باب ۳۷۔آیت ۲۵ تا ۲۸ و آیت ۳٦)۔اس کے برعکس تلمود کا بیان ہے کہ مَدین کے سوداگروں نے یوسف ؑ کو کنویں سے نکال کر اپنا غلام بنالیا۔ پھر برادران یوسف ؑ نے حضرت یوسف ؑ کو ان کے قبضہ میں دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا۔ آخر کار انہوں نے ۲۰ درہم قیمت ادا کرکے برادران یوسف ؑ کو راضی کیا۔ پھر انہوں نے بیس ہی درہم میں یوسف ؑ کو اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ دیا اور اسماعیلیوں نے مصر لے جاکر انہیں فروخت کیا۔ یہیں سے مسلمانوں میں یہ روایت مشہور ہوئی ہے کہ برادرانِ یوسف ؑ نے حضرت یوسف ؑ کو فروخت کیا تھا۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ قرآن اس روایت کی تائید نہیں کرتا۔