Tafheem ul Quran

Surah 12 Yusuf, Ayat 94-104

وَلَمَّا فَصَلَتِ الۡعِيۡرُ قَالَ اَبُوۡهُمۡ اِنِّىۡ لَاَجِدُ رِيۡحَ يُوۡسُفَ​ لَوۡلَاۤ اَنۡ تُفَـنِّدُوۡنِ‏ ﴿12:94﴾ قَالُوۡا تَاللّٰهِ اِنَّكَ لَفِىۡ ضَلٰلِكَ الۡقَدِيۡمِ‏ ﴿12:95﴾ فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِيۡرُ اَلۡقٰٮهُ عَلٰى وَجۡهِهٖ فَارۡتَدَّ بَصِيۡرًا ​ ؕۚ قَالَ اَلَمۡ اَقُل لَّـكُمۡ​ ۚ​ ۙ اِنِّىۡۤ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿12:96﴾ قَالُوۡا يٰۤاَبَانَا اسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَاۤ اِنَّا كُنَّا خٰـطِـئِيۡنَ‏  ﴿12:97﴾ قَالَ سَوۡفَ اَسۡتَغۡفِرُ لَـكُمۡ رَبِّىۡؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ‏  ﴿12:98﴾ فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰى يُوۡسُفَ اٰوٰٓى اِلَيۡهِ اَبَوَيۡهِ وَقَالَ ادۡخُلُوۡا مِصۡرَ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِيۡنَؕ‏ ﴿12:99﴾ وَرَفَعَ اَبَوَيۡهِ عَلَى الۡعَرۡشِ وَخَرُّوۡا لَهٗ سُجَّدًا​ۚ وَقَالَ يٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاۡوِيۡلُ رُءۡيَاىَ مِنۡ قَبۡلُقَدۡ جَعَلَهَا رَبِّىۡ حَقًّا​ؕ وَقَدۡ اَحۡسَنَ بِىۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِىۡ مِنَ السِّجۡنِ وَجَآءَ بِكُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّيۡطٰنُ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَ اِخۡوَتِىۡ​ؕ اِنَّ رَبِّىۡ لَطِيۡفٌ لِّمَا يَشَآءُ​ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡعَلِيۡمُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿12:100﴾ رَبِّ قَدۡ اٰتَيۡتَنِىۡ مِنَ الۡمُلۡكِ وَ عَلَّمۡتَنِىۡ مِنۡ تَاۡوِيۡلِ الۡاَحَادِيۡثِ​ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ اَنۡتَ وَلِىّٖ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ​ ۚ تَوَفَّنِىۡ مُسۡلِمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿12:101﴾ ذٰلِكَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَيۡبِ نُوۡحِيۡهِ اِلَيۡكَ​ۚ وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ اِذۡ اَجۡمَعُوۡۤا اَمۡرَهُمۡ وَهُمۡ يَمۡكُرُوۡنَ‏ ﴿12:102﴾ وَمَاۤ اَكۡثَرُ النَّاسِ وَلَوۡ حَرَصۡتَ بِمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿12:103﴾ وَمَا تَسۡـئَلُهُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ​ؕ اِنۡ هُوَ اِلَّا ذِكۡرٌ لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ‏  ﴿12:104﴾

94 - جب یہ قافلہ (مصر سے)روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں)کہا ”میں یُوسُف ؑ کی خوشبو محسُوس کر رہا ہوں،66 تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں۔“ 95 - گھر کے لوگ بولے” خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اسی پُرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں۔“67 96 - پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تو اس نے یُوسُف ؑ کا قمیص یعقوب ؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی۔ تب اس نے کہا ”میں تم سے کہتا نہ تھا؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔“ 97 - سب بول اُٹھے ”اب جان، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دُعا کریں، واقعی ہم خطا کار تھے۔“ 98 - اُس نے کہا ”میں اپنے ربّ سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کر دوں گا، وہ بڑا معاف فرمانے والا اور رحیم ہے۔“ 99 - پھر جب یہ لوگ یُوسُف ؑ کے پاس پہنچے68 تو اُس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا69 اور (اپنے سب کنبے والوں سے کہا) ”چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے۔“ 100 - (شہر میں داخل ہونے کے بعد)اس نے اپنے والدین کو اُٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جُھک گئے۔70 یُوسُف ؑ نے کہا ”ابا جان، یہ تعبیر ہے میرے اُس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے ربّ نے اسے حقیقت بنا دیا۔ اس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لاکر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا ربّ غیر محسُوس تدبیروں سے اپنی مشیّت پُوری کرتا ہے، بے شک وہ علیم اور حکیم ہے۔ 101 - اے میرے ربّ، تُو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تُو ہی دُنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔“71 102 - اے محمد ؐ ، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ورنہ تم اُس وقت موجود نہ تھے جب یُوسُف ؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی۔ 103 - مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں۔72 104 - حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اُجرت بھی نہیں مانگتے ہو۔ یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے۔73 ؏ ۱۱


Notes

66. اس سے انبیاء علیہم السلام کی غیر معمولی قوتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی قافلہ حضرت یوسفؑ کا قمیص لے کر مصر سے چلا ہے اور ادھر سیکڑوں میل کے فاصلے پر حضرت یعقوب اس کی مہک پالیتے ہیں ۔ مگر اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی یہ قوتیں کچھ ان کی ذاتی نہ تھیں بلکہ اللہ کی بخشش سے ان کو ملی تھیں اور اللہ جب اور جس قدر چاہتا تھا انہیں کام کرنے کا موقع دیتا تھا۔ حضرت یوسف ؑ برسوں مصر میں موجود رہے اور کبھی حضرت یعقوبؑ کو ان کی خوشبو نہ آئی۔ مگر اب یکایک قوتِ ادراک کی تیزی کا یہ عالم ہو گیا کہ ابھی ان کا قمیص مصر سے چلا ہے اور وہاں ان کی مہک آنی شروع ہو گئی۔

یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ایک طرف قرآن حضرت یعقوب ؑ کو اس پیغمبرانہ شان کے ساتھ پیش کر رہا ہے ۔ اور دوسری طرف بنی اسرائیل ان کو ایسے رنگ میں دکھاتے ہیں جیسا عرب کا ہر معمولی بدو ہو سکتا ہے ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ جب بیٹوں نے آکر خبر دی کہ”یوسفؑ اب تک جیتا ہے اور وہی سارے ملک مصر کا حاکم ہے تو یعقوبؑ کا دل دھک سے رہ گیا کیونکہ اس نے ان کا یقین نہ کیا ۔۔۔۔۔۔ اور جب ان کے باپ یعقوب نے وہ گاڑیاں دیکھ لیں جو یوسفؑ نے ان کو لانے کےلیے بھیجی تھیں تب اس کی جان میں جان آئی“۔ (پیدائش، ۴۵ : ۲۶ – ۲۷)

67. اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ پورے خاندان میں حضرت یوسفؑ کے سوا کوئی اپنے باپ کا قدرشناس نہ تھا اور حضرت یعقوبؑ خود بھی ان لوگوں کی ذہنی و اخلاقی پستی سے مایوس تھے ۔ گھر کے چراغ کی روشنی باہر پھیل رہی تھی ، مگر خود گھر والے اندھیرے میں تھے اور ان کی نگاہ میں وہ ایک ٹھیکرے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ فطرت کی اس ستم ظریفی سے تاریخ کی اکثر و بیشتر بڑی شخصیتوں کو سابقہ پیش آیا ہے۔

68. بائیبل کا بیان ہے کہ سب افراد خاندان جو اس موقع پر مصر گئے ٦۷ تھے۔ اس تعداد میں دوسرے گھرانوں کی اُن لڑکیوں کو شمار نہیں کیا گیا ہے جو حضرت یعقوب ؑ کے ہاں بیاہی ہوئی آئی تھیں۔ اس وقت حضرت یعقوب ؑ کی عمر ١۳۰ برس تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں ١۷ سال زندہ رہے۔

اس موقع پر ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر میں داخل ہوئے تو حضرت یوسف ؑ سمیت ان کی تعداد ٦۸ تھی۔ اور جب تقریباً ۵ سو سال بعد وہ مصر سے نکلے تو وہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ بائیبل کی روایت ہے کہ خروج کے بعد دوسرے سال بیابانِ سینا میں حضرت موسٰی ؑ نے ان کی جو مردم شماری کرائی تھی اس میں صرف قابل جنگ مردوں کی تعداد ٦۰۳۵۵۰ تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عورت، مرد، بچے، سب ملاکر وہ کم از کم ۲۰ لاکھ ہوں گے۔ کیا کسی حساب سے پانچ سو سال میں ٦۸ آدمیوں کی اتنی اولاد ہوسکتی ہے؟ مصر کی کل آبادی اگر اس زمانے میں ۲ کروڑ فرض کی جائے (جو یقیناً بہت مبالغہ آمیز اندازہ ہوگا)تو اس کے معنی یہ ہیں کہ صرف بنی اسرائیل وہاں ١۰ فی صدی تھے۔ کیا ایک خاندان محض تناسُل کے ذریعہ سے اتنا بڑھ سکتا ہے؟ اس سوال پر غور کرنے سے ایک اہم حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ۵ سو برس میں ایک خاندان تو اتنا نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد تھے۔ ان کے لیڈر حضرت یوسف ؑ ، جن کی بدولت مصر میں ان کے قدم جمے، خود پیغمبر تھے۔ ان کے بعد چار پانچ صدی تک ملک کا اقتدار انہی لوگوں کے ہاتھ میں رہا۔ اس دوران میں یقیناً انہوں نے مصر میں اسلام کی خوب تبلیغ کی ہوگی۔ اہل مصر میں جو جو لوگ اسلام لائے ہوں گے ان کا مذہب ہی نہیں بلکہ ان کا تمدن اور پورا طریقِ زندگی غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے ہم رنگ ہوگیا ہوگا۔ مصریوں نے ان سب کو اسی طرح اجنبی ٹھیرایا ہوگا جس طرح ہندوستان میں ہندووٴں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ٹھیرایا۔ ان کے اوپراسرائیلی کا لفظ اسی طرح چسپاں کردیا گیا ہوگا جس طرح غیر عرب مسلمانوں پر ”محمڈن“ کا لفظ آج چسپاں کیا جاتا ہے۔ اور وہ خود بھی دینی و تہذیبی روابط اور شادی بیاہ کے تعلقات کی وجہ سے غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے وابستہ ہوکر رہ گئے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مصر میں قوم پرستی کا طوفان اٹھا تو مظالم صرف بنی اسرائیل ہی پر نہیں ہوئے بلکہ مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ یکساں لپیٹ لیے گئے۔اور جب بنی اسرائیل نے ملک چھوڑا تو مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ ہی نکلے اور ان سب کا شمار اسرائیلیوں ہی میں ہونے لگا۔

ہمارے اس قیاس کی تائید بائیبل کے متعدد اشارات سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر”خروج“ میں جہاں بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کا حال بیان ہُوا ہے، بائیبل کا مصنف کہتا ہے کہ”ان کے ساتھ ایک ملی جلی گروہ بھی گئی“(١۲:۳۸)۔ اسی طرح”گنتی“میں وہ پھر کہتا ہے کہ”جو ملی جلی بھیڑ ان لوگوں میں تھی وہ طرح طرح کی حرص کرنے لگی“(١١:۴) پھر بتدریج ان غیر اسرائیلی مسلمانوں کے لیے ”اجنبی“اور ”پردیسی“کی اصطلاحیں استعمال ہونے لگیں۔ چنانچہ توراة میں حضرت موسٰی ؑ کو جو احکام دیے گئے ان میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے:

”تمہارے لیے اور اُس پردیسی کے لیے جو تم میں رہتا ہے نسل در نسل سدا ایک ہی آئین رہے گا۔ خداوند کے آگے پردیسی بھی ویسے ہی ہوں جیسے تم ہو۔ تمہارے لیے اور پردیسیوں کے لیے جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں ایک ہی شرع اور ایک ہی قانون ہو“(گنتی،١۵:١۵ - ١٦)

”جو شخص بے باک ہوکر گناہ کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی وہ خداوند کی اہانت کرتا ہے۔ وہ شخص اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے گا“ (گنتی، ١۵:۳۰)

”خواہ بھائی بھائی کا معاملہ ہو یا پردیسی کا، تم ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا“(استثناء، ١:١٦)

اب یہ تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کتاب الٰہی میں غیر اسرائیلیوں کے لیے وہ اصل لفظ کیا استعمال کیا گیا تھا جسے مترجموں نے ”پردیسی“بناکر رکھ دیا۔

69. تلمود میں لکھا ہے کہ جب حضرت یعقوب ؑ کی آمد کی خبردار السلطنت میں پہنچی تو حضرت یوسف ؑ سلطنت کے بڑے بڑے امراء و اہل مناصب اور فوج فرّا کو لے کران کےاستقبال کے لیے نکلے اور پورے تزک و احتشام کے ساتھ ان کو شہر میں لائے۔ وہ دن وہاں جشن کا دن تھا۔ عورت، مرد، بچے، سب اس جلوس کو دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوگئے تھے اور سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔

70. اس لفظ ”سجدہ“سے بکثرت لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ حتٰی کہ ایک گروہ نے تو اسی سےاستدلال کرکے بادشاہوں اور پیروں کے لیے سجدہٴ تحیتہ اور سجدہٴ تعظیمی کا جواز نکال لیا۔ دوسرے لوگوں کو اس قباحت سے بچنے کے لیے اس کی یہ توجیہ کرنی پڑی کہ اگلی شریعتوں میں صرف سجدہٴ عبادت غیر اللہ کے لیے حرام تھا، باقی رہا وہ سجدہ جو عبادت کے جذبہ سے خالی ہو تو وہ خدا کے سوا دوسروں کو بھی کیا جاسکتا تھا، البتہ شریعت محمدی ؐ میں ہر قسم کا سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام کردیا گیا۔ لیکن ساری غلط فہمیاں دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ لفظ ”سجدہ“کو موجودہ اسلامی اصطلاح کا ہم معنی سمجھ لیا گیا، یعنی ہاتھ، گھٹنے اور پیشانی زمین پر ٹکانا۔ حالانکہ سجدہ کے اصل معنی محض جھکنے کے ہیں اور یہاں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہُوا ہے۔ قدیم تہذیب میں یہ عام طریقہ تھا(اور آج بھی بعض ملکوں میں اس کا رواج ہے)کہ کسی کاشکریہ ادا کرنے کے لیے، یا کسی کا استقبال کرنے کے لیے، یا محض سلام کرنے کے لیے سینے پر ہاتھ رکھ کر کسی حد تک آگے کی طرف جھکتے تھے۔ اسی جھکاوٴ کے لیے عربی میں سجود اور انگریزی میں (Bow ) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بائیبل میں اس کی بکثرت مثالیں ہم کو ملتی ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ طریقہ آدابِ تہذیب میں شامل تھا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خیمہ کی طرف تین آدمیوں کو آتے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑے اور زمین تک جھکے۔ عربی بائیبل میں اس موقع پر جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: فلما نظر رکض لا ستقبالہم من باب الخیمة و سجد الی الارض(تکوین:١۸ - ۳)۔ پھر جس موقع پر یہ ذکر آتا ہے کہ بنی حِتّ نے حضرت سارہ کے دفن کے لیے قبر کی زمین مفت دی وہاں اُردو بائیبل کے الفاظ یہ ہیں”ابرھام نے اُٹھ کر اور بنی حِتّ کے آگے، جو اس ملک کے لوگ ہیں،آداب بجالاکر ان سے یوں گفتگو کی“۔ اور جب ان لوگوں نے قبر کی زمین ہی نہیں بلکہ ایک پورا کھیت اور ایک غار نذر میں پیش کردیا تب”ابرھام اس ملک کے لوگوں کے سامنے جھکا“۔مگر عربی ترجمہ میں ان دونوں مواقع پر آداب بجالانے اور جھکنے کے لیے”سجدہ کرنے“ ہی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں: فقام ابراھیم و سجد لشعب الارض لبنی حِت (تکوین:۲۳:۷)۔ فسجد ابراھیم امام شعب الارض(۲۳:١۲)۔ انگریزی بائیبل میں ان مواقع پر جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں

Bowed himself toward the ground.

Bowed himself to the people of the land and Abraham bowed down himself before the people of the land.

اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائیبل میں ملتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جواب اسلامی اصطلاح کے لفظ ”سجدہ“سے سمجھا جاتا ہے۔

جن لوگوں نے معاملہ کی اس حقیقت کو جانے بغیر اس کی تاویل میں سرسری طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ اگلی شریعتوں میں غیر اللہ کو تعظیمی سجدہ کرنا یا سجدہٴ تحیتہ بجالانا جائز تھا انہوں نے محض ایک بے اصل بات کہی ہے۔ اگر سجدے سے مراد وہ چیز ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سجدہ کہا جاتا ہے، تووہ خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت میں کبھی کسی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں تھا ہے۔ بائیبل میں ذکر آتا ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانے میں جب اخسویرس بادشاہ نے ہامان کو اپنا امیر الامرا بنایا اور حکم دیا کہ سب لوگ اس کو سجدہٴ تعظیمی بجالایا کریں تو مرد کی نے، جو بنی اسرائیل کے اولیاء میں سے تھے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا(آستر۳:١ - ۲)۔ تلمود میں اس واقعہ کی شرح کرتے ہوئے اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے:

”بادشاہ کے ملازموں نے کہا آخر تو کیوں ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے، ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہو۔ کیا ایک فانی انسان، جو کل خاک میں مل جانے والا ہے، اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس کی بڑائی مانی جائے؟ کیا میں اُس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہُوا، کل بچہ تھا، آج جوان ہے، کل بوڑھا ہوگا اور پرسوں مرجائے گا؟ نہیں، میں تو اس ازلی و ابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی و قیوم ہے ……….. وہ جو کائنات کا خالق اور حاکم ہے، میں تو بس اسی کی تعظیم بجا لاوٴں گا، اور کسی کی نہیں“۔

یہ تقریرنزول قرآن سے تقریباً ایک ہزار برس پہلے ایک اسرائیلی مومن کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اس میں کوئی شائبہ تک اِس تخیل کا نہیں پایا جاتا کہ غیر اللہ کو کسی معنی میں بھی ”سجدہ“ کرنا جائز ہے۔

71. یہ چند فقرے جو اس موقع پر حضرت یوسف ؑ کی زبان سے نکلے ہیں، ہمارے سامنے ایک سچے مومن کی سیرت کا عجیب دلکش نقشہ پیش کرتے ہیں۔ صحرائی گلہ بانوں کے خاندان کا ایک فرد، جس کو خود اس کے بھائیوں نے حسد کے مارے ہلاک کردینا چاہا تھا، زندگی کے نشیب و فراز دیکھتا ہُوا بالآخر دنیوی عروج کے انتہائی مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے قحط زدہ اہل خاندان اب اس کے دست نگر ہوکر اس کے حضور آئے ہیں اور وہ حاسد بھائی بھی، جو اس کو مار ڈالنا چاہتے تھے، اس کے تخت شاہی کے سامنے سرنگوں کھڑے ہیں۔ یہ موقع دنیا کے عام دستور کے مطابق فخر جتانے، ڈینگیں مارنے، گلے اور شکوے کرنے، اور طعن و ملامت کے تیر برسانے کا تھا۔ مگر ایک سچا خدا پرست انسان اس موقع پر کچھ دوسرے ہی اخلاق ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عروج پر فخر کرنے کے بجائے اس خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے جس نے اسے یہ مرتبہ عطا کیا۔ وہ خاندان والوں کو اُس ظلم و ستم پر کوئی ملامت نہیں کرتا جو اوائل عمر میں انہوں نے اس پر کیے تھے۔ اس کے برعکس وہ اس بات پر شکر ادا کرتا ہے کہ خدانے اتنے دنوں کی جدائی کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے ملایا۔ وہ حاسد بھائیوں کے خلاف شکایت کا ایک لفظ زبان سے نہیں نکالتا۔ حتٰی کہ یہ بھی نہیں کہتا کہ انہوں نے میرے ساتھ برائی کی تھی۔بلکہ ان کی صفائی خود ہی اس طرح پیش کرتا ہے کہ شیطان نے میرے اور ان کے درمیان برائی ڈال دی تھی۔ اور پھر اس برائی کے بھی برے پہلو چھوڑ کر اس کا یہ اچھا پہلو پیش کرتا ہے کہ خدا جس مرتبے پر مجھے پہنچانا چاہتا تھا اس کے لیے یہ لطیف تدبیر اُس نے فرمائی۔ یعنی بھائیوں سے شیطان نے جو کچھ کرایا اسی میں حکمت الٰہی کے مطابق میرے لیے خیر تھی۔ چند الفاظ میں یہ سب کچھ کہہ جانے کے بعد وہ بے اختیار اپنے خدا کے آگے جھک جاتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے مجھے بادشاہی دی اور وہ قابلیتیں بخشیں جن کی بدولت میں قید خانے میں سڑنے کے بجائے آج دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر فرماں روائی کررہا ہوں۔ اور آخر میں خدا سے کچھ مانگتا ہے تو یہ کہ دنیا میں جب تک زندہ رہوں تیری بندگی و غلامی پر ثابت قدم رہوں، اور جب اس دنیا سے رخصت ہوں تو مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملادیا جائے۔ کس قدر بلند اور کتنا پاکیزہ ہے یہ نمونہٴ سیرت !

حضرت یوسف ؑ کی اس قیمتی تقریر نے بھی بائیبل اور تلمود میں کوئی جگہ نہیں پائی ہے۔ حیرت ہے کہ یہ کتابیں قصوں کی غیر ضروری تفصیلات سے تو بھری پڑی ہیں، مگر جو چیزیں کوئی اخلاقی قدروقیمت رکھتی ہیں اور جن سے انبیاء کی اصلی تعلیم اور ان کے حقیقی مشن اور ان کی سیرتوں کے سبق آموز پہلووٴں پر روشنی پڑتی ہے، ان سے ان کتابوں کا دامن خالی ہے۔

یہاں یہ قصہ ختم ہورہا ہے اس لیے ناظرین کو پھر اس حقیقت پر متنبہ کردینا ضروری ہے کہ قصہٴ یوسف ؑ کے متعلق قرآن کی یہ روایت اپنی جگہ ایک مستقل روایت ہے، بائیبل یا تلمود کا چربہ نہیں ہے۔ تینوں کتابوں کا متقابل مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قصے کے متعدد اہم اجزاء میں قرآن کی روایت ان دونوں سے مختلف ہے۔ بعض چیزیں قرآن ان سے زائد بیان کرتا ہے، بعض ان سے کم، اور بعض میں ان کی تردید کرتا ہے۔ لہٰذا کسی کے لیے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے جو قصہ سنایا وہ بنی اسرائیل سے سن لیا ہوگا۔

72. یعنی ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا عجیب حال ہے۔ تمہاری نبوت کی آزمائش کے لیے بہت سوچ سمجھ کر اور مشورے کرکے جو مطالبہ انہوں نے کیا تھا اسے تم نے بھری محفل میں برجستہ پورا کردیا، اب شاید تم متوقع ہوگے کہ اس کے بعد تو انہیں یہ تسلیم کرلینے میں کوئی تامل نہ رہے گا کہ تم یہ قرآن خود تصنیف نہیں کرتے ہو بلکہ واقعی تم پر وحی آتی ہے۔ مگر یقین جانو کہ یہ اب بھی نہ مانیں گے اور اپنے انکار پر جمے رہنے کے لیے کوئی دوسرا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ کیونکہ ان کے نہ ماننے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری صداقت کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے یہ کھلے دل سے کوئی معقول دلیل چاہتے تھے اور وہ ابھی تک انہیں نہیں ملی۔ بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہاری بات یہ ماننا چاہتے نہیں ہیں، اس لیے ان کو تلاش دراصل ماننے کے لیے کسی دلیل کی نہیں بلکہ نہ ماننے کے لیے کسی بہانے کی ہے – مخاطب گروہ کو جس کے مجمع میں یہ تقریر کی جارہی تھی، ایک نہایت لطیف و بلیغ طریقہ سے اس کی ہٹ دھرمی پر متنبہ کرنا ہے۔ انہوں نے اپنی محفل میں آپ کو امتحان کے لیے بلایا تھا اور اچانک یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر تم نبی ہو تو بتاوٴ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا قصہ کیا ہے۔ اس کے جواب میں ان کو وہیں اور اسی وقت پورا قصہ سنادیا گیا، اور آخر میں یہ مختصر سا فقرہ کہہ کر آئینہ بھی ان کے سامنے رکھ دیا گیا کہ ہٹ دھرمو! اس میں اپنی صورت دیکھ لو، تم کس منہ سے امتحان لینے بیٹھے تھے؟ معقول انسان اگر امتحان لیتے ہیں تو اس لیے لیتے ہیں کہ اگر حق ثابت ہوجائے تو اسے مان لیں، مگر تم وہ لوگ ہو جو اپنا منہ مانگا ثبوت مل جانے پر بھی مان کر نہیں دیتے۔

73. اوپر کی تنبیہ کے بعد یہ دوسری لطیف تر تنبیہ ہے جس میں ملامت کا پہلو کم اور فہمائش کا پہلو زیادہ ہے۔ اس ارشاد کا خطاب بھی بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر اصل مخاطب کفار کا مجمع ہے، اور اس کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ کے بندو! غور کرو، تمہاری یہ ہٹ دھرمی کس قدر بے جا ہے۔ اگر پیغمبر نے اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے دعوت و تبلیغ کا یہ کام جاری کیا ہوتا، یا اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی چاہا ہوتا تو بے شک تمہارے لیے یہ کہنے کا موقع تھا کہ ہم اس مطلبی آدمی کی بات کیوں مانیں۔ مگر تم دیکھ رہے ہو کہ یہ شخص بے غرض ہے، تمہاری اور دنیا بھر کی بھلائی کے لیے نصیحت کر رہا ہے اور اس میں اُس کا اپنا کوئی مفاد پوشیدہ نہیں ہے ۔ پھر اس کا مقابلہ اس ہٹ دھرمی سے کرنے میں آخر کیا معقولیت ہے؟ جو انسان سب کے بھلے کے لیے ایک بات بے غرضی کے ساتھ پیش کر ے اس سے کسی کو خواہ مخواہ ضد کیوں ہو؟ کھلے دل سے اس کی بات سنو، دل کو لگتی ہو تو مانو، نہ لگتی ہو نہ مانو۔