Tafheem ul Quran

Surah 13 Ar-Ra'd, Ayat 19-26

اَفَمَنۡ يَّعۡلَمُ اَنَّمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ الۡحَـقُّ كَمَنۡ هُوَ اَعۡمٰىؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِۙ‏ ﴿13:19﴾ الَّذِيۡنَ يُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِ اللّٰهِ وَلَا يَنۡقُضُوۡنَ الۡمِيۡثَاقَۙ‏ ﴿13:20﴾ وَالَّذِيۡنَ يَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنۡ يُّوۡصَلَ وَيَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ وَ يَخَافُوۡنَ سُوۡۤءَ الۡحِسَابِؕ‏ ﴿13:21﴾ وَالَّذِيۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِمۡ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً وَّيَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰۤـئِكَ لَهُمۡ عُقۡبَى الدَّارِۙ‏ ﴿13:22﴾ جَنّٰتُ عَدۡنٍ يَّدۡخُلُوۡنَهَا وَمَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِهِمۡ وَاَزۡوَاجِهِمۡ وَذُرِّيّٰتِهِمۡ​ وَالۡمَلٰٓـئِكَةُ يَدۡخُلُوۡنَ عَلَيۡهِمۡ مِّنۡ كُلِّ بَابٍ​ۚ‏  ﴿13:23﴾ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمۡ بِمَا صَبَرۡتُمۡ​ فَنِعۡمَ عُقۡبَى الدَّارِؕ‏ ﴿13:24﴾ وَالَّذِيۡنَ يَنۡقُضُوۡنَ عَهۡدَ اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِيۡثَاقِهٖ وَيَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنۡ يُّوۡصَلَ وَيُفۡسِدُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ​ۙ اُولٰۤـئِكَ لَهُمُ اللَّعۡنَةُ وَلَهُمۡ سُوۡۤءُ الدَّارِ‏ ﴿13:25﴾ اَللّٰهُ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَيَقۡدِرُ​ؕ وَفَرِحُوۡا بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا فِى الۡاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ‏ ﴿13:26﴾

19 - بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے ربّ کی اِس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں؟35 نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔36 20 - اور ان کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اسے مضبوط باندھے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔37 21 - ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے38 انہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بُری طرح حساب نہ لیا جائے۔ 22 - اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے ربّ کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں،39 نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔40 آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے ، 23 - یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباوٴ اجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے 24 - اور اُن سے کہیں گے کہ ”تم پر سلامتی ہے،41 تم نے دُنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو“۔۔۔۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! 25 - رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو اُن رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔ 26 - اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا رزق دیتا ہے۔42 یہ لوگ دُنیوی زندگی میں مگن ہیں ، حالانکہ دُنیا کی زندگی آخرت کے مقابلےمیں ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ؏ ۳


Notes

35. یعنی نہ دنیا میں ان دونوں کا رویّہ یکساں ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں۔

36. یعنی خدا کی بھیجی ہوئی اِس تعلیم اور خدا کے رسول کی اس دعوت کو جولوگ قبول کیا کرتے ہیں وہ عقل کے اندھے نہیں بلکہ ہوش گوش رکھنے والے بیدار مغز لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اور پھر دنیا میں ان کی سیرت و کردار کا وہ رنگ اور آخرت میں اُن کا وہ انجام ہوتا ہے جو بعد کی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔

37. اس سے مراد وہ اَزَلی عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش میں تمام انسانوں سے لیا تھا کہ وہ صرف اسی کی بندگی کریں گے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف ، حاشیہ نمبر ۱۳۴ و ۱۳۵)۔ یہ عہد ہر انسان سے لیا گیا ہے، ہر ایک کی فطرت میں مضمر ہے، اور اُسی وقت پختہ ہو جاتا ہے جب آدمی اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے وجود میں آتا ہے اور ربوبیت سے پرورش پاتا ہے۔ خدا کےرزق سے پلنا ، اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے کام لینا اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں کو استعمال کرنا آپ سے آپ انسان کو خدا کے ساتھ ایک میثاقِ بندگی میں باندھ دیتا ہے جسے توڑنے کی جرأت کوئی ذی شعور اور نمک حلال آدمی نہیں کر سکتا ، اِلّا یہ کہ نادانستہ کبھی اَحیانًا اس سے کوئی لغزش ہو جائے۔

38. یعنی وہ تمام معاشرتی اور تمدنی روابط جن کی درستی پر انسان کی اجتماعی زندگی کی صَلاح و فلاح منحصر ہے۔

39. یعنی اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے ہیں، اپنے جذبات اور میلانات کو حدود کا پابند بناتے ہیں، خدا کی نافرمانی میں جن جن فائدوں اور لذتوں کا لالچ نظر آتا ہے انہیں دیکھ کر پھسل نہیں جاتے ، اور خدا کی فرمانبرداری میں جن جن نقصانات اور تکلیفوں کا اندیشہ ہوتا ہے انہیں برداشت کرلے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مومن کی پوری زندگی در حقیقت صبر کی زندگی ہے، کیونکہ وہ رضائے الہٰی کی اُمید پر اور آخر ت کے پائدار نتائج کی توقع پر اس دنیا میں ضبطِ نفس سے کام لیتا ہے اور گناہ کی جانب نفس کے ہر میلان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔

40. یعنی وہ بدی کے مقابلے میں بدی نہیں بلکہ نیکی کرتے ہیں۔ وہ شر کا مقابلہ شر سے نہیں بلکہ خیر ہی سے کرتے ہیں۔ کو ئی اُن پر خوا ہ کتنا ہی ظلم کرے، وہ جواب میں ظلم نہیں بلکہ انصاف ہی کرتے ہیں۔ کوئی ان کے خلاف کتنا ہی جھوٹ بولے ، وہ جواب میں سچ ہی بولتے ہیں۔ کوئی اُُن سے خواہ کتنی ہی خیانت کرے ، وہ جواب میں دیانت ہی سے کام لیتے ہیں۔ اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا ہے:

لا تکونو ا امعۃ تقولون اِن احسن الناس احسنا و اِن ظلمونا ظلمنا ۔ و لٰکن وطّنوا انفسکم ، ان احسن الناس ان تحسنو ا و ان اساؤا فلا تظلموا۔

”تم اپنے طرز ِ عمل کو لوگوں کے طرزِ عمل کا تابع بنا کر نہ رکھو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بناؤ۔ اگر لوگ نیکی کریں تو نیکی کرو۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔“

اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے ۔ اور ان میں سے چار باتیں آپؐ نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں، جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں ، اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کر دو۔ اور اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا کہ لا تخن من خانک ” جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر“۔ اور اسی معنی میں ہے حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ”جو شخص تیرے ساتھ معاملہ کرنے میں خدا سے نہیں ڈرتا اُس کو سزا دینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ تُو اس کے ساتھ خدا سے ڈرتے ہوئے معاملہ کر“۔

41. اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہےکہ ملائکہ ہر طرف سے آ آ کر ان کو سلام کریں گے، بلکہ یہ بھی ہے کہ ملائکہ ان کو اس بات کی خوشخبری دیں گے کہ اب تم ایسی جگہ آگئے ہو جہاں تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے۔ اب یہاں تم ہر آفت سے، ہر تکلیف سے ہر مشقت سے ، اور ہر خطرے سے اور اندیشے سے محفوظ ہو۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حِجر ، حاشیہ نمبر ۲۹)۔

42. اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عام جہلاء کی طرح کفارمکہ بھی عقیدہ و عمل کے حس و قبح کو دیکھنے کے بجائے امیری اور غریبی کے لحاظ سے انسانوں کی قدر قیمت کا حساب لگاتے تھے۔ اُن کا گمان یہ تھا کہ جسے دنیا میں خو ب سامانِ عیش مِل رہا ہے وہ خدا کا محبوب ہے ، خواہ ہو کیسا ہی گمراہ و بدکار ہو۔ اور جو تنگ حال ہے وہ خدا کا مغضوب ہے خوا ہ وہ کیسا ہی نیک ہو۔ اسی بنیاد پر وہ قریش کے سرداروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غریب ساتھیوں پر فضیلت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ لو، اللہ کس کے ساتھ ہے۔ ا س پر متنبہ فرمایا جا رہا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی کا معاملہ اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون سے تعلق رکھتا ہے جس میں بے شمار دوسری مصلحتوں کے لحاظ سے کسی کو زیادہ دیا جاتا ہے اور کسی کو کم ۔ یہ کوئی معیار نہیں ہے جس کے لحاظ سے انسانوں کے اخلاقی ومعنوی حسن و قبح کا فیصلہ کیا جائے۔ انسانوں کے درمیان فرقِ مراتب کی اصل بنیاد اور اُن کی سعادت و شقاوت کی اصل کسوٹی یہ ہے کہ کس نے فکر و عمل کی صحیح راہ اختیار کی اور کس نے غلط ، کس نے عمدہ اوصاف کا اکتساب کیا اور کس نے بُرے اوصاف کا۔ مگر نادان لوگ اس کے بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ کس کو دولت زیادہ ملی اور کس کو کم۔