Tafheem ul Quran

Surah 13 Ar-Ra'd, Ayat 27-31

وَيَقُوۡلُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡهِ اٰيَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡۤ اِلَيۡهِ مَنۡ اَنَابَ ​ۖ ​ۚ‏  ﴿13:27﴾ اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطۡمَـئِنُّ قُلُوۡبُهُمۡ بِذِكۡرِ اللّٰهِ​ ؕ اَلَا بِذِكۡرِ اللّٰهِ تَطۡمَـئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ؕ‏ ﴿13:28﴾ اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوۡبٰى لَهُمۡ وَحُسۡنُ مَاٰبٍ‏  ﴿13:29﴾ كَذٰلِكَ اَرۡسَلۡنٰكَ فِىۡۤ اُمَّةٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهَاۤ اُمَمٌ لِّـتَتۡلُوَا۟ عَلَيۡهِمُ الَّذِىۡۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ وَ هُمۡ يَكۡفُرُوۡنَ بِالرَّحۡمٰنِ​ؕ قُلۡ هُوَ رَبِّىۡ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ وَاِلَيۡهِ مَتَابِ‏  ﴿13:30﴾ وَلَوۡ اَنَّ قُرۡاٰنًا سُيِّرَتۡ بِهِ الۡجِبَالُ اَوۡ قُطِّعَتۡ بِهِ الۡاَرۡضُ اَوۡ كُلِّمَ بِهِ الۡمَوۡتٰى​ ؕ بَلْ لِّلّٰهِ الۡاَمۡرُ جَمِيۡعًا ​ؕ اَفَلَمۡ يَايۡـئَسِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيۡعًا ؕ وَلَا يَزَالُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا تُصِيۡبُهُمۡ بِمَا صَنَعُوۡا قَارِعَةٌ اَوۡ تَحُلُّ قَرِيۡبًا مِّنۡ دَارِهِمۡ حَتّٰى يَاۡتِىَ وَعۡدُ اللّٰهِ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخۡلِفُ الۡمِيۡعَادَ‏ ﴿13:31﴾

27 - یہ لوگ جنہوں نے ( رسالتِ محمدی ؐ کو ماننے سے)انکار کر دیا ہے کہتے ہیں ” اِس شخص پر اِس کے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟“43۔۔۔۔کہو، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رُجوع کرے۔44 28 - ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (اِس نبی ؐ کی دعوت کو)مان لیا ہے اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے ۔ 29 - پھر جن لوگوں نے دعوتِ حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔ 30 - اے محمد ؐ ، اِسی شان سے ہم نے تم کو رسُول بنا کر بھیجا ہے45، ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، تاکہ تم اِن لوگوں کو وہ پیغام سُناوٴ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے، اِس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔46 اِن سےکہو کہ وہی میرا ربّ ہے ، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میں ملجا و ماویٰ ہے۔ 31 - اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل بولنے لگتے؟47 (اِس طرح کی نشانیاں دِکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے)بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔48 پھر کیا اہلِ ایمان (ابھی تک کفّار کی طلب کے جواب میں کِسی نشانی کے ظہُور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر )مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا ؟49 جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کُفر کا رویّہ اختیار کر رکھا ہے اُن پر ان کے کر تُو توں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے، یا ان کےگھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پُورا ہو۔ یقیناً اللہ اپنے وعدوں کے خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ؏ ۴


Notes

43. اس سے پہلے آیت ۷ میں اِس سوال کا جو جواب دیا جا چکا ہے اسے پیشِ نظر رکھا جائے۔ اب دوبارہ اُن کے اسی اعتراض کو نقل کر کے ایک دوسرے طریقے سے اُس کا جواب دیا جا رہا ہے۔

44. یعنی جو اللہ کی طرف خود رجوع نہیں کرتا اور اس سے روگردانی اختیار کرتا ہے اُسے زبردستی راہِ راست دکھانے کا طریقہ اللہ کے ہاں رائج نہیں ہے۔ وہ ایسے شخص کو اُنہی راستوں میں بھٹکنے کو توفیق دے دیتا ہے جن میں وہ خود بھٹکنا چاہتا ہے۔ وہی سارے اسباب جو کسی ہدایت طلب انسان کے لیے سببِ ہدایت بنتے ہیں ، ایک ضلالت طلب انسان کے لیے سبب ضلالت بنا دیے جاتےہیں۔ شمعِ روشن بھی اُس کے سامنے آتی ہے تو راستہ دکھانے کے بجائے اس کی آنکھیں خیرہ ہی کرنے کا کام دیتی ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ کے کسی شخص کو گمراہ کرنے کا۔

45. یعنی کسی ایسی نشانی کے بغیر جس کا یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں۔

46. یعنی اُس کی بندگی سے منہ موڑے ہوئے ہیں ، اس کی صفات اور اختیارات اور حقوق میں دوسروں کو اُس کا شریک بنا رہے ہیں، اور اُس کی نعمتوں کے شکریے دوسروں کو ادا کر رہے ہیں۔

47. اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی ضروری ہے کہ اِس میں خطاب کفار سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے۔ مسلمان جب کفار کی طرف سے بار بار نشانی کا مطالبہ سنتے تھے تو ان کے دلوں میں بے چینی پیدا ہوتی تھی کہ کاش اِن لوگوں کو کوئی نشانی دکھادی جاتی جس سے یہ لوگ قائل ہو جاتے۔ پھر جب وہ محسوس کرتےتھے کہ اس طرح کی کسی نشانی کے نہ آنے کی وجہ سے کفار کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پھیلانے کا موقع مل رہا ہے تو ان کی یہ بے چینی اور بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ اِس پر مسلمانوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر قرآن کی کسی سورۃ کے ساتھ ایسی اور ایسی نشانیاں یکایک دکھا دی جاتیں تو کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آتے ؟ کیا تمہیں اِن سے یہ خوش گمانی ہے کہ یہ قبولِ حق کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں ،صرف ایک نشانی کے ظہور کی کسر ہے؟ جن لوگوں کو قرآن کی تعلیم میں ، کائنات کے آثارمیں، نبی کی پاکیزہ زندگی میں، صحابہ ٔ کرام کے انقلاب حیات میں نورِ حق نظر نہ آیا کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ پہاڑوں کے چلنے اور زمین کے پھٹنے اور مُردوں کے قبروں سے نکل آنے میں کوئی روشنی پا لیں گے؟

48. یعنی نشانیوں کے نہ دکھانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہےکہ اللہ تعالیٰ ان کے دکھانے پر قاد رنہیں ہے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان طریقوں سے کام لینا اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے ۔ اس لیے کہ اصل مقصود تو ہدایت ہے نہ کہ ایک نبی کی نبوت کو منوالینا، اور ہدایت اِس کے بغیر ممکن نہیں کہ لوگوں کی فکر وبصیرت کی اصلاح ہو۔

49. یعنی اگر سمجھ بوجھ کے بغیر محض ایک غیر شعوری ایمان مطلوب ہوتا تو اس کے لیے نشانیاں دکھانے کے تکلف کی کیا حاجت تھی۔ یہ کام تو اس طرح بھی ہو سکتا تھا کہ اللہ سارے انسانوں کو مومن ہی پیدا کر دیتا۔