Tafheem ul Quran

Surah 13 Ar-Ra'd, Ayat 32-37

وَلَـقَدِ اسۡتُهۡزِئَ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِكَ فَاَمۡلَيۡتُ لِلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثُمَّ اَخَذۡتُهُمۡ​ فَكَيۡفَ كَانَ عِقَابِ‏ ﴿13:32﴾ اَفَمَنۡ هُوَ قَآئِمٌ عَلٰى كُلِّ نَفۡسٍۢ بِمَا كَسَبَتۡ​ۚ وَجَعَلُوۡالِلّٰهِ شُرَكَآءَ ؕ قُلۡ سَمُّوۡهُمۡ​ؕ اَمۡ تُنَـبِّـئُـوْنَهٗ بِمَا لَا يَعۡلَمُ فِى الۡاَرۡضِ اَمۡ بِظَاهِرٍ مِّنَ الۡقَوۡلِؕ بَلۡ زُيِّنَ لِلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مَكۡرُهُمۡ وَصُدُّوۡا عَنِ السَّبِيۡلِ​ؕ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنۡ هَادٍ‏ ﴿13:33﴾ لَهُمۡ عَذَابٌ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا​ وَلَعَذَابُ الۡاٰخِرَةِ اَشَقُّ​ ۚ وَمَا لَهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ وَّاقٍ‏ ﴿13:34﴾ مَثَلُ الۡجَـنَّةِ الَّتِىۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ​ ؕ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ​ ؕ اُكُلُهَا دَآئِمٌ وَّظِلُّهَا​ ؕ تِلۡكَ عُقۡبَى الَّذِيۡنَ اتَّقَوْا​ ​ۖ  وَّعُقۡبَى الۡكٰفِرِيۡنَ النَّارُ‏ ﴿13:35﴾ وَالَّذِيۡنَ اٰتَيۡنٰهُمُ الۡكِتٰبَ يَفۡرَحُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ​ وَمِنَ الۡاَحۡزَابِ مَنۡ يُّـنۡكِرُ بَعۡضَهٗ​ؕ قُلۡ اِنَّمَاۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ اللّٰهَ وَلَاۤ اُشۡرِكَ بِهٖؕ اِلَيۡهِ اَدۡعُوۡا وَاِلَيۡهِ مَاٰبِ‏ ﴿13:36﴾ وَكَذٰلِكَ اَنۡزَلۡنٰهُ حُكۡمًا عَرَبِيًّا​ ؕ وَلَـئِنِ اتَّبَعۡتَ اَهۡوَآءَهُمۡ بَعۡدَمَا جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِۙ مَا لَـكَ مِنَ اللّٰهِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا وَاقٍ‏  ﴿13:37﴾

32 - تم سے پہلے بھی بہت سے رسُولوں کا مذاق اُڑایا جا چکا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرِ کار ان کو پکڑ لیا ، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔ 33 - پھر کیا وہ جو ایک ایک متنفّس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے50 (اُس کے مقابلے میں یہ جسارتیں کی جارہی ہیں51 کہ)لوگوں نے اُس کے کچھ شریک ٹھہرا رکھے ہیں؟ اے نبی ؐ ، اِن سے کہو، (اگر واقعی وہ خدا کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو)ذرا اُن کے نام لو کہ وہ کون ہیں؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ یا تم لوگ بس یونہی جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہو؟52 حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے اُن کی مکّاریاں53 خوشنما بنا دی گئی ہیں اور وہ راہِ راست سے روک دیے گئے ہیں،54 پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اُس کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ 34 - ایسے لوگوں کے لیے دُنیا کی زندگی ہی میں عذاب ہے ، اور آخرت کا عذاب اُس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو اُنہیں خدا سے بچانے والا ہو۔ 35 - خداترس انسانوں کے لیے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال ۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔ اور منکرینِ حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔ 36 - اے نبی ؐ ، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اِس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے ، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ ”مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراوٴں۔ لہٰذا میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجُوع ہے۔“55 37 - اِسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ عربی تم پر نازل کیا ہے۔ اب اگر تم نے اِس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے۔ ؏۵


Notes

50. یعنی جو ایک ایک شخص کے حال سے فردًا فردًا واقف ہے اور جس کی نگاہ سے نہ کسی نیک آدمی کی نیکی چھپی ہوئی ہے نہ کسی بد کی بدی۔

51. جسارتیں یہ کہ اس کے ہمسر اور مدِّ مقابل تجویز کیے جا رہے ہیں، اس کی ذات اور صفات اور حقوق میں اس کی مخلوق کو شریک کیا جا رہا ہے ، اور اس کی خدائی میں رہ کر لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ چاہیں کریں ہم سے کوئی باز پرس کر نے والا نہیں۔

52. یعنی اس کے شریک جو تم نے تجویز کر رکھے ہیں اُن کے معاملے میں تین ہی صورتیں ممکن ہیں:

ایک یہ کہ تمہارے پا س کوئی مستند اطلاع آئی ہو کہ اللہ نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنی صفات ، یا اختیارات ، یا حقوق میں شریک قرار دیا ہے۔ اگر یہ صورت ہے تو ذرا براہِ کرم ہمیں بھی بتاؤ کہ وہ کون کو ن اصحاب ہیں اور اُن کے شریک ِ خدا مقرر کیے جانے کی اطلاع آپ حضرات کو کس ذریعہ سے پہنچی ہے۔

دوسری ممکن صورت یہ ہے کہ اللہ کو خود خبر نہیں ہے کہ زمین میں کچھ حضرات اُس کے شریک بن گئے ہیں اور اب آپ اس کو یہ اطلاع دینے چلے ہیں ۔ اگر یہ بات ہے تو صفائی کے ساتھ اپنی اس پوزیشن کا اقرار کر و۔ پھر ہم بھی دیکھ لیں گے کہ دنیا میں کتنے ایسے احمق نکلتے ہیں جو تمہارے اس سراسر لغو مسلک کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔

لیکن اگر یہ دونوں باتیں نہیں ہیں تو پھرتیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ تم بغیر کسی سند اور بغیر کسی دلیل کے یونہی جس کو چاہتے ہو خدا کا رشتہ دار ٹھیرا لیتے ہو ، جس کو چاہتے ہو داتا اور فریاد رس کہہ دیتے ہو، اور جس کے متعلق چاہتے ہو دعویٰ کر دیتے ہو کہ فلاں علاقے کے سلطان فلاں صاحب ہیں اور فلاں کام حضرت کی تائید و امداد سے بر آتے ہیں۔

53. اس شرک کو مکّاری کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دراصل جن اجرامِ فلکی یا فرشتوں یا ارواح یا بزرگ انسانوں کو خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دیا گیا ہے ، اور جن کو خدا کے مخصوص حقوق میں شریک بنا لیا گیا ہے ، ان میں سے کسی نے بھی کبھی نہ اِن صفا ت و اختیارات کا دعویٰ کیا ، نہ اِن حقوق کا مطالبہ کیا، اور نہ لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ تم ہمارےآگے پرستش کے مراسم ادا کرو ہم تمہارے کام بنایا کریں گے۔ یہ تو چالاک انسانوں کا کام ہے کہ انہوں نے عوام پر اپنی خدائی کا سکّہ جمانے کے لیے اور ان کی کمائیوں میں حصہ بٹانے کے لیے کچھ بناوٹی خدا تصنیف کیے، لوگوں کو اُن کو معتقد بنایا اور اپنے آپ کو کسی نہ کسی طور پر اُن کا نمائندہ ٹھیرا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا شروع کر دیا۔

دوسری وجہ شریک کو مکر سے تعبیر کرنے کی یہ ہے کہ دراصل یہ ایک فریب ِ نفس ہے اور ایک چور دروازہ ہے جس کے ذریعے سے انسان دنیا پرستی کے لیے، اخلاقی بندشوں سے بچنے کے لیے اور غیر ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنے کے لیے راہِ فرار نکالتا ہے۔

تیسری وجہ جس کی بنا پر مشرکین کے طرزِ عمل کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے آگے آتی ہے۔

54. یہ انسانی فطرت ہے کہ جب انسان ایک چیز کے مقابلےمیں دوسری چیز کو اختیار کرتا ہے تو اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لیے اور لوگوں کو اپنی راست روی کا یقین دلانے کے لیے اپنی اختیار کردہ چیز کو ہر طریقے سے استدلال کر کے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی رد کردہ چیز کے خلاف ہر طرح کی باتیں چھانٹنی شروع کر دیتا ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا گیا ہے کہ جب انہوں نےدعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا تو قانونِ فطرت کے مطابق ان کے لیے اُن کی گمراہی ، اور اُس گمراہی پر قائم رہنے کے لیے اُن کی مکّاری خوشنما بنا دی گئی اور اسی فطری قانون کے مطابق راہِ راست پر آنے سے روک دیے گئے۔

55. یہ ایک خاص بات کا جواب ہے جو اُس وقت مخالفین کی طرف سے کہی جا رہی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ صاحب واقعی وہی تعلیم لے کر آئے ہیں جو پچھلے انبیاء لائے تھے جیسا کہ اِن کا دعویٰ ہے ، تو آخر کیا بات ہے کہ یہود و نصاریٰ ، جو پچھلے انبیاء کے پیرو ہیں ، آگے بڑھ کر اِن کا استقبال نہیں کرتے۔ اِس پر فرمایا جارہا ہے کہ اُن میں سے بعض لوگ اِ س پر خوش ہیں اور بعض ناراض، مگر اے نبی، خواہ کوئی خوش ہو یا ناراض، تم صاف کہہ دو کہ مجھے تو خدا کی طرف سے یہ تعلیم دی گئی ہے اور میں بہر حال اِسی کی پیروی کروں گا۔