50. یعنی جو ایک ایک شخص کے حال سے فردًا فردًا واقف ہے اور جس کی نگاہ سے نہ کسی نیک آدمی کی نیکی چھپی ہوئی ہے نہ کسی بد کی بدی۔
51. جسارتیں یہ کہ اس کے ہمسر اور مدِّ مقابل تجویز کیے جا رہے ہیں، اس کی ذات اور صفات اور حقوق میں اس کی مخلوق کو شریک کیا جا رہا ہے ، اور اس کی خدائی میں رہ کر لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ چاہیں کریں ہم سے کوئی باز پرس کر نے والا نہیں۔
52. یعنی اس کے شریک جو تم نے تجویز کر رکھے ہیں اُن کے معاملے میں تین ہی صورتیں ممکن ہیں:
ایک یہ کہ تمہارے پا س کوئی مستند اطلاع آئی ہو کہ اللہ نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنی صفات ، یا اختیارات ، یا حقوق میں شریک قرار دیا ہے۔ اگر یہ صورت ہے تو ذرا براہِ کرم ہمیں بھی بتاؤ کہ وہ کون کو ن اصحاب ہیں اور اُن کے شریک ِ خدا مقرر کیے جانے کی اطلاع آپ حضرات کو کس ذریعہ سے پہنچی ہے۔
دوسری ممکن صورت یہ ہے کہ اللہ کو خود خبر نہیں ہے کہ زمین میں کچھ حضرات اُس کے شریک بن گئے ہیں اور اب آپ اس کو یہ اطلاع دینے چلے ہیں ۔ اگر یہ بات ہے تو صفائی کے ساتھ اپنی اس پوزیشن کا اقرار کر و۔ پھر ہم بھی دیکھ لیں گے کہ دنیا میں کتنے ایسے احمق نکلتے ہیں جو تمہارے اس سراسر لغو مسلک کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔
لیکن اگر یہ دونوں باتیں نہیں ہیں تو پھرتیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ تم بغیر کسی سند اور بغیر کسی دلیل کے یونہی جس کو چاہتے ہو خدا کا رشتہ دار ٹھیرا لیتے ہو ، جس کو چاہتے ہو داتا اور فریاد رس کہہ دیتے ہو، اور جس کے متعلق چاہتے ہو دعویٰ کر دیتے ہو کہ فلاں علاقے کے سلطان فلاں صاحب ہیں اور فلاں کام حضرت کی تائید و امداد سے بر آتے ہیں۔
53. اس شرک کو مکّاری کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دراصل جن اجرامِ فلکی یا فرشتوں یا ارواح یا بزرگ انسانوں کو خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دیا گیا ہے ، اور جن کو خدا کے مخصوص حقوق میں شریک بنا لیا گیا ہے ، ان میں سے کسی نے بھی کبھی نہ اِن صفا ت و اختیارات کا دعویٰ کیا ، نہ اِن حقوق کا مطالبہ کیا، اور نہ لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ تم ہمارےآگے پرستش کے مراسم ادا کرو ہم تمہارے کام بنایا کریں گے۔ یہ تو چالاک انسانوں کا کام ہے کہ انہوں نے عوام پر اپنی خدائی کا سکّہ جمانے کے لیے اور ان کی کمائیوں میں حصہ بٹانے کے لیے کچھ بناوٹی خدا تصنیف کیے، لوگوں کو اُن کو معتقد بنایا اور اپنے آپ کو کسی نہ کسی طور پر اُن کا نمائندہ ٹھیرا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا شروع کر دیا۔
دوسری وجہ شریک کو مکر سے تعبیر کرنے کی یہ ہے کہ دراصل یہ ایک فریب ِ نفس ہے اور ایک چور دروازہ ہے جس کے ذریعے سے انسان دنیا پرستی کے لیے، اخلاقی بندشوں سے بچنے کے لیے اور غیر ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنے کے لیے راہِ فرار نکالتا ہے۔
تیسری وجہ جس کی بنا پر مشرکین کے طرزِ عمل کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے آگے آتی ہے۔
54. یہ انسانی فطرت ہے کہ جب انسان ایک چیز کے مقابلےمیں دوسری چیز کو اختیار کرتا ہے تو اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لیے اور لوگوں کو اپنی راست روی کا یقین دلانے کے لیے اپنی اختیار کردہ چیز کو ہر طریقے سے استدلال کر کے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی رد کردہ چیز کے خلاف ہر طرح کی باتیں چھانٹنی شروع کر دیتا ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا گیا ہے کہ جب انہوں نےدعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا تو قانونِ فطرت کے مطابق ان کے لیے اُن کی گمراہی ، اور اُس گمراہی پر قائم رہنے کے لیے اُن کی مکّاری خوشنما بنا دی گئی اور اسی فطری قانون کے مطابق راہِ راست پر آنے سے روک دیے گئے۔
55. یہ ایک خاص بات کا جواب ہے جو اُس وقت مخالفین کی طرف سے کہی جا رہی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ صاحب واقعی وہی تعلیم لے کر آئے ہیں جو پچھلے انبیاء لائے تھے جیسا کہ اِن کا دعویٰ ہے ، تو آخر کیا بات ہے کہ یہود و نصاریٰ ، جو پچھلے انبیاء کے پیرو ہیں ، آگے بڑھ کر اِن کا استقبال نہیں کرتے۔ اِس پر فرمایا جارہا ہے کہ اُن میں سے بعض لوگ اِ س پر خوش ہیں اور بعض ناراض، مگر اے نبی، خواہ کوئی خوش ہو یا ناراض، تم صاف کہہ دو کہ مجھے تو خدا کی طرف سے یہ تعلیم دی گئی ہے اور میں بہر حال اِسی کی پیروی کروں گا۔